غیب کی باتیں تو خدا بہتر جانتا ہے، لیکن پرانے قصے کہانیوں میں یوں بیان کیا جاتا ہے کہ اگلے زمانے میں بنی ساساں کا ایک بادشاہ تھا۔ اس کی حکومت جزائر ہند اور چین تک تھی اور اس کی فوجوں اور باج گزاروں اور شان و شوکت کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اس کے دو بیٹے تھے، ایک بڑا ایک چھوٹا۔ یوں تو دونوں بڑے بہادر اور شہسوار تھے لیکن بڑا بیٹا شہسواری میں چھوٹے سے بڑھ چڑھ کر تھا۔ کئی ملک اس کی حکومت میں آئے اور وہ اپنی رعیت کے ساتھ بڑے عدل و انصاف کے ساتھ پیش آتا تھا اور اس کی رعایا اس سے بہت محبت کرتی تھی۔ اس بادشاہ کانام شہریار تھا۔ چھوٹے بھائی کا نام شاہ زمان تھا اور اس کا ملک سمر قند تھا۔
بیس سال تک دونوں بادشاہ اپنے اپنے ملکوں پر نہایت خوشی اور خرمی کے ساتھع عادلانہ حکومت کرتے رہے۔ اسی زمانے میں بڑے بھائی کو اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ جائے اور اس کے چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لے آئے۔ وزیر نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور روانہ ہو گیا اور صحیح و سلامت پہنچ گیا اور چھوٹے بھائی کے پاس باریاب ہو کر اسے بادشاہ کا سلام پہنچایا اور عرض کی کہ آپ کے بھائی کا آپ سے ملنے کو دل چاہتا ہے اور انہوں نے درخواست کی ہے کہ آپ ان سے ملنے کے لیے تشریف لے چلیں۔
بادشاہ نے اسے بسرو چشم قبول کیا اور سفر کی تیاری کرنے لگا اور خیمے اور اونٹ اور خچر اور خدمتگار سفر کے لیے تیار ہو گئے۔ اس نے اپنے وزیر کو اپنا قائم مقام بنایا اور اپنے بھائی سے ملنے کے لیے کھڑا ہوا۔ آدھی رات کے وقت اسے یاد آیا کہ وہ ایک چیز محل میں بھول آیا ہے اور پلٹ پڑا۔ جب وہ اپنے محل میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کے بچھونے میں اس کی بیوی ایک حبشی غلام کو لیے پڑی ہے۔ یہ دیکھتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ اپنے دل میں کہنے لگا کہ ابھی تو میں شہر سے نکلا بھی نہیں اور یہاں ایسا واقعہ پیش آیا، اگر میں اپنے بھائی کے ساتھ ایک مدت تک رہا تو خدا جانے یہ حرام زادی کیا کچھ نہ کر گزرے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی تلوار کھینچی اور دونوں کو اس بچھونے پر ہی قتل کر دیا اور فوراً وہاں سے چل دیا ور کوچ کا حکم دے دیا۔
الغرض وہ اپنے بھائی کے دارلسلطنت پہنچ گیا اور شہر میں داخل ہونے سے پہلے اس نے اپنے آنے کی خبر بھائی کو بھیجی۔ بھائی اس کے خیر مقدم کے لیے آیا اور اس سے ملا اور صاحب سلامت کی اور بہت خوش ہوا اور سارے شہر میں چراغاں کرایا۔ اب دونوں بیٹھ کر کوشی خوشی ایک دوسرے سے بات چیت کرنے لگے۔ اس وقت شاہ زمان بادشاہ کو اپنی بیوی کا واقعہ یاد آیا اور وہ دل ہی دل میں کڑھنے اور بے چین ہونے لگا اور اس کا چہرہ فق اور جسم مضمحل۔ جب بھائی نے اس کی یہ حالت دیکھی تو اس کو خیال ہوا کہ ہو نہ ہو میرے بھائی کو اپنے ملک کے چھوٹنے کا قلق ہے۔ اس لیےاس نے اس کے متعلق پھر اور باتیں نہ کیں۔
کچھ دنوں بعد اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ بھائی میں دیکھتا ہوں کہ تم روز بروز کمزور ہوتے چلے جاتے ہو اور تمہارے چہرے کا رنگ اڑتا جاتا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ بھائی، میرے دل کے اندر ایک زخم ہے مگر اپنی بیوی کا واقعہ اس نے بیان نہ کیا۔ بھائی نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ شکار کھیلنے چلو تاکہ تمہاری طبیعیت ذرا بہل جائے لیکن اس نے نہ مانا اور وہ اکیلا شکار کے لیے روانہ ہوگیا۔ بادشاہ کے محل میں چند کھڑکیاں تھیں جو اس کے بھائی کے باغ کی طرف نکلتی تھیں۔ ان میں سے ایک کھڑکی کھلی اور اس میں سے بیس لونڈیاں نکلیں اور بیس غلام اور ان کے بیچ میں اس کے بھائی کی بیوی تھی جو حسن و جمال میں یکتا تھی۔ جب وہ ایک حوض کے پاس پہنچے تو سب کے سب کپڑے اتار کر ننگے ہوگئے اور بادشاہ کی بیوی نے پکار کر کہا کہ اے مسعود تو کہاں ہے؟ یہ سن کر ایک حبشی غلام آیا اور وہ اس سے لپٹ گئی اور دونوں ہم صحبت ہونے لگے۔ دوسرے غلام بھی باقی لونڈیوں کے ساتھ اسی فعل میں مشغول ہو گئے۔ دن نکلنے تک یہی بوس و کنار اور ہم صحبتی ہوتی رہی۔ جب بادشاہ کے بھائی نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ اپنے دل میں کہنے لگا کہ واللہ میری مصیبت تو اس مصیبت کا پاسنگ بھی نہیں اور اس کا غم و غصہ ہوا ہو گیا اوراس نے اپنے دل میں کہا میں نے اس سے بڑھ کر اب تک کوئی بات نہیں دیکھی اور پھر اس نے کھانا پینا شروع کر دیا۔