ایک صدی بعد آئن اسٹائن کا کشش ثقل سے متعلق نظریہ درست ثابت ہوگیا!

خلا میں کششِ ثقل کی لہروں کی نشاندہی

بلیک ہولز کے اتصال سے خارج ہونے والی کششِ ثقل کی لہریں امریکہ میں دو الگ الگ ’لیگو‘ تجربہ گاہوں میں محسوس کی گئیں
خلا میں کششِ ثقل کی لہروں کی تلاش کے لیے جاری عالمی کوششوں سے منسلک سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے کششِ ثقل کو مکمل طور پر سمجھنے کے سلسلے میں ایک چونکا دینے والی دریافت کی ہے۔
ان کے مطابق انھوں نے زمین سے ایک ارب نوری سال سے زیادہ مسافت پر واقع دو بلیک ہولز کے تصادم کی وجہ سے ’سپیس ٹائم‘ میں بدلاؤ کا مشاہدہ کیا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کششِ ثقل کی ان لہروں کی پہلی مرتبہ نشاندہی سے علمِ فلکیات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔
لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری (لیگو) کی اس رپورٹ کو فزیکل ریویو لیٹرز نامی سائنسی رسالے میں اشاعت کے لیے قبول کر لیا گیا ہے۔
100 برس قبل مشہور سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے ’عمومی اضافیت‘ کے نظریے میں ان لہروں کی موجودگی کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی، تاہم کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی تلاش کے باوجود ایسی لہروں کی نشاندہی نہیں ہو سکی تھی۔
لیگو کے تحت دنیا بھر میں قائم تجربہ گاہوں میں ایسی لہروں کی تلاش کے لیے قائم لیزر انٹرفیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری میں ایک لیزر شعاع کو دو حصوں میں تقسیم کر کے انگریزی حرف ایل کی شکل کی چار کلومیٹر طویل ایک جیسی عمودی متوازی سرنگوں میں بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ منعکس ہو کر واپس آتی ہیں۔
اگر اس دوران کسی دور دراز کہکشاں میں پیدا ہونے والی کشش ثقل کی لہریں تجربہ گاہ میں سے گزریں تو یہ تجربہ گاہ کے حساس ترین آلات کو متاثر کرتی ہیں لیکن یہ فرق انتہائی کم یعنی ایک ایٹم کی چوڑائی سے بھی کہیں کم ہوتا ہے۔
کششِ ثقل کی لہریں وہ واحد ممکنہ کھڑکی ہو سکتی ہیں جس سے ہمیں کائنات کی ابتدا کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے۔ اگر ہم ان لہروں کو دیکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے دس کھربویں حصے کا حال جان سکتے ہیں۔‘
ٹک سٹیبنز، ناسا
دو بلیک ہولز کے اتصال سے خارج ہونے والی کششِ ثقل کی لہریں امریکہ میں دو الگ الگ ’لیگو‘ تجربہ گاہوں میں محسوس کی گئیں۔
لیگو منصوبے کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ ریتزی نے جمعرات کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم نے کششِ ثقل کی لہروں کی نشاندہی کر لی ہے۔‘
کشش ثقل کی لہریں ہم مرکز دائروں کی شکل میں زمان و مکان کی چادر کو سکوڑتی اور پھیلاتی رہتی ہیں۔ یہ لہریں مادے کی حرکت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں لیکن ان میں سے بیشتر اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ ان کی پیمائش نہیں کی جا سکتی۔
آج کے دور کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ان لہروں کی جھلک دیکھنے کے لیے ایسی لہروں کا ملنا ضروری تھا جو کائنات میں دھماکوں یا ستاروں اور بلیک ہولز کے تصادم جیسے واقعات کے نتیجے میں خارج ہوتی رہتی ہیں۔
ایسی لہریں چونکہ مادے میں سے سیدھی گزر جاتی ہیں اس لیے ان کے منبع کو چھپایا نہیں جا سکتا اور وہ بلیک ہولز جیسے اجسام کا بےمثال نظارہ فراہم کر سکتی ہیں جو روشنی خارج نہیں کرتیں۔
امریکی خلائی ادارے ناسا سے تعلق رکھنے والے ٹک سٹیبنز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کششِ ثقل کی لہریں وہ واحد ممکنہ کھڑکی ہو سکتی ہیں جس سے ہمیں کائنات کی ابتدا کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم ان لہروں کو دیکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے دس کھربویں حصے کا حال جان سکتے ہیں۔