قوانین اسلامی اور صنف نازک … !

قوانین اسلامی اور صنف نازک … !

اس مادی دنیا میں رہنے والے انسان جب ایک (society) کا حصہ بنتے ہیں اور جب وہ ایک بڑی (community) تشکیل دینے جاتے ہیں تو انکے درمیان اعتدال قائم رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے ورنہ انسان کی فطرت اسے مجادلے اور مناقشے پر ابھارتی ہے .

اس عدل کو قائم رکھنے کیلئے جو ادارہ تشکیل دیا جاتا ہے اسے عدالت کہا جاتا ہے یہ عدالت چند قوانین لاگو کرتی ہے کہ جن کی بنیاد پر معاشروں کے اندر ایک میزان قائم ہو سکے .

ریاستی قوانین کی بنیاد یہ تو انسانی عقل ہوتی ہے یا وحی الہی اور ہر دو کا مقصود دراصل معاشروں کے اندر امن کو قائم رکھنا ہوتا ہے .

مرد و عورت کسی بھی معاشرے کے دو فریق ہیں ، دو ایسے فریق کہ جنہیں اپنی بقاء کیلیے ایک دوسرے کا ساتھ درکار ہے اگر یہ ساتھ موجود نہ ہو تو نسل انسانی معدوم ہو جائے .

مرد و عورت کے باہمی تعلقات کے درمیان عدل قائم رکھا اہم ترین اور مشکل ترین امور میں سے اگر تاریخ انسانی کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے حوالے سے مذاہب عالم اور انسانی عقل مختلف قوانین بناتی رہی ہے .

جہاں تک معاملہ ہے عقل انسانی کا چونکہ ہمیشہ معاشرے (male dominant) رہے ہیں اسلئے قوانین کی تشکیل کیلئے عقل بھی بھی مردانہ استعمال ہوئی ہے اور مرد کا عورت کے حوالے سے متعصب ہونا امر محال نہیں ہے .

دوسری جانب جہاں تک مذھب کا معاملہ ہے اس کی نگاہ میں مرد و عورت یکساں حیثیت کے حامل ہیں اور جہاں کہیں بھی ان کے درمیان کوئی تفاوت دکھائی دیتا ہے وہ (administrative) .

گو کہ مذاہب بھی شکست و ریخت کا شکار ہوتے رہے ہیں اور عقل انسانی کی زد پر رہے ہیں اسلئے ہمیں مذاہب میں بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے کہیں نہ کہیں عدم توازن دکھائی دیتا ہے .

انسانی عقل کے بنائے ہوئے قدیم تریم رومی قانون (Roman law) کا مطالعہ کیا جائے تو کچھ اس انداز کی تصویر سامنے آتی ہے .​