لاہور ادبی میلہ شروع، کئی ممالک سے ادیب شریک

لاہور میں چوتھا سالانہ ادبی میلہ جاری ہے جس میں امریکا، برطانیہ، افغانستان، بھارت اور مصر سمیت دنیا کے کئی ملکوں سے ادیب ، دانشور اور فنکار حصہ لے رہے ہیں۔ طے شدہ پروگرام کے برعکس یہ میلہ ایک دن کی تاخیر سے شروع ہوا ہے۔

یہاں پاکستانی ادیب محمد حنیف کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقی ادیبہ زوکسوا وانر، امریکی فلسطینی مصنفہ سوزن ابوالہوا اور بھارتی نژاد امریکی ناول نگار تانیہ جیمز بھی نظر آ رہی ہیں

دو روزہ ادبی میلے میں جن موضوعات پر بات کی جا رہی ہے ان میں عرب بہار، زبان اور شناخت، فوٹوگرافی کی طاقت، اردو فکشن میں نئے رجحانات، اردو نظم کی روایت، شاعری اور ترجمے کے نئے رجحانات اور ’’پرانے اخبارات و جرائد، ایک گم ہوتا ہوا اثاثہ‘‘ جیسے موضوعات بھی شامل ہیں۔ اس کانفرنس میں ایک سیشن حال ہی میں انتقال کر جانے والے پاکستان کے معروف ادیب انتظار حسین کے لیے بھی مختص کیا گیا ہے۔ اس ادبی میلے کے ہفتے کی صبح ہونے والی افتتاحی تقریب میں بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور کے بارے میں ایک ڈاکومنٹری بھی دکھائی گئی۔ اس موقع پر معروف صحافی حمید ہارون کے ساتھ شرمیلا ٹیگور کے خصوصی مکالمے کا بھی اہتمام کیا گیا۔

ایک سیشن کا منظر: انتہائی دائیں جانب، ممتاز صحافی اور کئی کتابوں کے مصنف احمد رشید جبکہ انتہائی بائیں جانب، سابق پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نظر آ رہی ہیں

پہلے جاری کیے گئے پروگرام کے مطابق لاہور لٹریری فیسٹیول کو 19 فروری کے روز گزشتہ برسوں کی طرح لاہور کے الحمرا آرٹس سنٹر میں شروع ہونا تھا اور یہ تین دنوں پر محیط تھا۔ لیکن لاہور میں غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے ساتھ ہی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے پراسرار طور پر دہشت گردی کے مبینہ خطرات کی وجہ سے اس میلے کے لیے سیکورٹی کے حوالے سے جاری کیا جانے والا این او سی واپس لے لیا گیا۔ بعد ازاں منتظمین کے اصرار اور طویل مشاورت کے بعد انتظامیہ اس بات پر سیکورٹی فراہم کرنے پر راضی ہو گئی کہ اس کانفرنس کو دو دنوں تک محدود اور اسے مال روڈ پر واقع آواری ہوٹل میں منعقد کیا جائے گا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کے زیادہ سنگین خطرات کے باوجود چند روز پہلے ایک ایسی ہی کانفرنس کامیابی کے ساتھ منعقد کرائی جا چکی ہے۔

اس ادبی میلے میں شریک انسانی حقوق کے رہنما اور معروف صحافی آئی اے رحمان نے بتایا کہ ایسے ادبی میلوں کے انعقاد سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے جذبات میں کمی لانے میں مدد ملی ہے۔ ان کے بقول پاکستان کی حکومت اسلحے اور سکیورٹی ایجینسیوں پر تو وسیع اخراجات کر رہی ہے لیکن بدقسمتی سے معاشرے میں ادب اور فن و ثقافت کے فروغ کے لیے مناسب وسائل خرچ نہیں کیے جا رہے ہیں۔

لاہور لٹریری فیسٹیول کا آغاز 2012ء میں ہوا تھا۔ اس سے پہلے تین ایسے میلے ہو چکے ہیںلاہور لٹریری فیسٹیول کا آغاز 2012ء میں ہوا تھا۔ اس سے پہلے تین ایسے میلے ہو چکے ہیں

معروف دانشور مسعود خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ پاکستان سے باہر رہائش اختیار کرنے سے پہلے لاہور میں رہا کرتے تھے اور یہ میلہ انہیں لاہور کے رنگوں اور یادوں کی یاد دہانی کا باعث بھی بنتا ہے۔ ان کے بقول ماضی کا لاہور ادب و ثقافت سے بھرپور بہت سی سرگرمیاں لیے ہوئے ہوتا تھا لیکن بعد میں آنے والے حالات میں یہ سلسلہ بہت کم ہوتا گیا۔ اور آج ایک مرتبہ پھر ایسی سرگرمیوں کو دیکھ کر انہیں بہت خوشی ہو رہی ہے۔

لاہورشہر کی تاریخی اور ثقافتی حیثیت بحال کرنے کے لیے کام کرنے والے ادارے لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کے سربراہ کامران لاشاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس طرح کے ادبی میلوں کے معاشرے پر اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں: ’’جس طرح انسان کو زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسان کو روحانی اور ادبی تسکین فراہم کرنے کے لیے آرٹ، ادب اور ثقافتی تقریبات بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج کو اعتدال پر رکھنے، اسے تازگی اور شگفتگی عطا کرنے کے لیے ایسی تقریبات بہت ضروری ہیں۔‘‘ کامران لاشاری کے بقول مغرب نے کھیل اور ادب کو معاشرے کی ترقی کے لیے جس مثبت طریقے سے استعمال کیا ہے اس میں بھی ہمارے لیے سیکھنے کے کئی پہلو ہیں۔

لاہور ادبی میلے میں حاضرین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی

اس کانفرنس میں بھارت سے معروف فلمی شخصیات مہیش بھٹ اور پوجا بھٹ سکیورٹی کلیئرنس نہ مل سکنے کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کے بورڈ آف گورنرز کے رکن نیئر علی دادا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سال سکیورٹی کلیئرنس نہ ملنے اور ہنگامی طور پر فیسٹیول کو ہوٹل میں شفٹ کرنے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ اگلے سال وہ ان باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے بہتر انتظامات یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کا آغاز 2012ء میں ہوا تھا۔ اس سے پہلے تین ایسے میلے ہو چکے ہیں۔