پولیس گردی

بے یار و مددگار، ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے، پانچ بچوں کے باپ 48 برس کے ولیم جینیٹ کو منہ کے بل جیل کے فرش پہ گرایا جاتا ہے اور چند پولیس اہلکار ان کی کمر پہ گھٹنوں سے دباؤ ڈالنے لگتے ہیں۔ ولیم چیخ کر اپنا دم گھٹنے کی شکایت دیتے ہیں مگر پاس کھڑی ایک پولیس افسر انہیں جواب دیتی ہیں کہ انہیں سانس لینے کے قابل رہنا بھی نہیں چاہیے۔
پولیس اہلکار چار منٹ تک ان کے پھیپھڑوں پہ دباؤ ڈالے رکھتے ہیں جس سے ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ان کی موت کے مقدمے کی دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے آخری لمحات میں انہیں ہراسانی سمیت گالیاں دیتے ہوئے زدوکوب بھی کیا گیا۔
امریکی ریاست ٹینیسی کے علاقے لیوس برگ کی مارشل کاؤنٹی جیل میں سفید فام ولیم کو بعینہٖ اسی انجام کا سامنا کرنا پڑا جو اب سے چند ماہ قبل سیاہ فام جارج فلائیڈ کو پولیس کے ہاتھوں کرنا پڑا تھا۔

جمعہ کی شام 3 بجے بھارتی صوبے اتر پردیش میں ایک 17 سالہ سبزی فروش نوجوان، فیصل اسلام، کو مبینہ طور پر لاک ڈاؤن کا اجازت شدہ وقت ختم ہونے کے باوجود فٹ پاتھ پر سبزی بیچنے کے الزام میں پولیس تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ مزاحمت پر دو پولیس اہلکار اس نوجوان کو تھانے لے جاتے ہیں جہاں اسے بہیمانہ سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے۔
کوئی بھی درست طور پر نہیں جانتا کہ تھانے کے اندر کیا ہوا مگر 4 بجے ایک فون کال پر اس نوجوان کے والد تھانے پہنچتے ہیں جہاں وہ اپنے نوعمر بیٹے کو آخری سانسیں لیتا ہوا پاتے ہیں۔ نوجوان کو ہنگامی طور پر ہسپتال لے جایا جاتا ہے مگر ڈاکٹر نوجوان کو مردہ قرار دیتے ہیں۔

ابھی سانحہ ساہیوال، صلاح الدین کی پولیس تشدد سے موت، اسامہ ستی قتل، اور ایک شدت پسند تنظیم کے زیرِ حراست کارکنان کی پٹائی کی ویڈیوز کی بازگشت باقی تھی کہ حال ہی میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی خلاف ورزی پر کس طرح گوجرانولہ پولیس کے جوان ایک نوجوان کو بھرے بازار میں تھپڑوں کا نشانہ بناتے ہیں۔
2014 میں ژیل یونیورسٹی کینیڈا کے لاء سکول کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی پولیس تشدد کا بدترین مجرمانہ ریکارڈ رکھتی ہے۔ اس تحقیق میں بالخصوص پنجاب پولیس کے تشدد کے طریقہ کار، آلات، ذرائع، اور جواز پر جو روشنی ڈالی گئی ہے اس کے مطابق غیر انسانی تشدد کی تفصیلات اندوہناک ہیں۔
جسمانی تشدد کے علاوہ، نفسیاتی حربے، توہین آمیز رویے، جذباتی شکستگی اور جمالیاتی بدذوقی بھی تشدد کے عمومی ذرائع ہیں۔

حالانکہ ریاست کو طاقت (معاشی، مرئی، اور استحصالی وغیرہ) کے استعمال پر اجارہ داری حاصل ہے مگر پھر بھی کسی ریاستی ادارے کی جانب سے طاقت کے بےدریغ استعمال کا کوئی جواز نہیں ہے اور اسی بلاجواز استعمال پر قابو پانے کے لیے تشدد کے خلاف قوانین متعارف کروائے گئے ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں ریاستی تشدد سے بچاؤ کے خلاف کوئی خصوصی قانون تو موجود نہیں ہے تاہم پاکستان میں پولیس تشدد کے خلاف ضمنی قوانین موجود ہیں۔ جیسا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل (2)14 میں تشدد سے بچاؤ کی دستوری ضمانت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اقوام متحدہ کے زیرِ انتظام تشدد سے بچاؤ کے بین الاقوامی معاہدے کا بھی رکن ہے۔ مزید برآں پولیس آرڈر سیکشن (b)156 اور CrPC کا سیکشن 176 بھی تشدد کی ممانعت کرتا ہے اور پولیس کے ایسا کرنے کی صورت میں سزائیں تجویز کرتا ہے۔

تاہم پولیس فورس سے پولیس سروس تک کا بدلاؤ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک عوام اپنے حقوق سے باشعور نہیں ہو جاتے۔ یہی حقیقی جمہوریت کی روح بھی ہے۔