نقل۔۔۔۔سرقہ۔۔پلیجر ازم ۔۔۔اور شاعری

سوشل میڈیا خاص طور پر اور باقی میڈیا اور کتابوں میں چھپی شاعری کو چوری کرنے کے بہت سے طریقے اردو شاعری میں رائج کئے گئے۔اور پھر ان طریقوں کو ادبی اصطلاحی نام بھی عطا ہوئے۔جیسے کلاسیکی تتبع۔۔۔روایت سے جُڑنا۔وغیرہ
،،
تین عظیم آرٹسٹس 18ویں صدی میں ھو گزرے جنہوں نے ملتے جلتے الفاظ میں آرٹ کی چوری یا اکتساب یا اثر کو بیان کیا ھے۔
اِگور سٹراوِنسکی، پابلو پِکاسو، ٹی ایس ایلیٹ ان تینوں نے یہی کہا ھے کہ آرٹ یعنی پینٹنگ، فوٹو گرافی، شاعری ڈرامہ وغیرہ کو کمزور اور کمتر آرٹسٹس توڑ مروڑ کر اپنا لیتے ھیں۔
جبکہ عظیم و اعلی آرٹسٹس ھُو بہو اپنا لیتے ھیں۔ جیسے آپ نے دیکھا غالب نے بیدل کی اتنی تعریف کی اور پھر اسکا شعر اپنا لیا۔۔۔
بوئے گُل ، نالہِ دل، دُودِ چراغِ محفل
ہر کہ از بزم تو برخاست، پریشاں برخاست
اسی طرح فیض نے ساحر سمیت کئی شعرا کا کلام بغیر واوین کے استعامل کیا ھے۔۔
یہ تو بڑے شعرا کی بات تھی۔۔
اب ھمارے ارد گرد روز ایک دوسرے کے اشعار سے متاثر ھو کر شاعری کرنے کو یہ کہہ کے اخلاقی بتایا جاتا ھے کہ کلاسیکی شعرا بھی ایسا ھی کرتے تھے اور ایک ھی زمین میں سب کوششیں کرتے تھے۔۔۔یعنی کلاسیکی شعرا اگر لونڈوں کی تعریف میں غزلیں کہتے تھے تو اب بھی یہی کرنا چاھئیے
عجیب احمق گاؤدی مسلمان معاشرے سے پالا پڑا ھے جو برائی کو اچھائی کا سرٹیفیکیٹ ،،خود ھی دیتا ھے اور سارے چور اور نقال اس نقالی کو مزید اخلاقی سند جاری کرتے ھیں۔۔کہ واہ واہ جناب کیا نقل کی !
میں اس معاملے میں سطحی باتیں نہیں کرنا چاھتا اور اس نقل کی سائیکی کی تہہ میں پہنچنا چاھتا ھُوں۔۔اسے ایک سنجیدہ تحریر کے طور پر پڑھیں
،،،
واپس چلتے ھیں۔ اقبال نے مغربی شاعری کے ترجمے کئے۔۔۔ اور بہت جگہ حوالے دئیے اور کئی جگہ کچھ نہ بتایا، کسی جگہ نیا لفظ ایجاد کیا "ماخوذ "، یعنی نقل کے لئے اگر ھُو بہو نقل نہ کیا تو اُسے ماخوذ کہہ دیا۔جس سے مُراد یہ ھے کہ انکی اس شاعری کا ماخذ کوئی اور ھے۔جو لوگ اقبال کو عظیم شاعر یا فلسفی وغیرہ کہنے میں جلدی کرتے ہیں انکو سوچنا چاھئیے کہ کوئی بھی عطیم لکھاری عظیم فلسفی لازمی طور پر اوریجنل ھوتا ھے وُہ دوسروں کے ترجمے نہیں کرتا نہ دوسروں سے اکتساب کر کے ماخوذ کی ٹرم ایجاد کرتا ھے۔دنیا بھر میں عظیم ادیب دانشور شاعر پینٹر پائے جاتے ہین لیکن مجال ہے کہ کسی عطیم شاعر کے ھاں ایسا کوئی ماخوذ یا اکستساب یا ترجمہ کا عندیہ بھی مِلے۔۔اس لئے آپ پاکستانی مسلمان ذرا ھتھ ھولا رکھا کریں ھیرو ھوتے ھیں زبردستی نہیں بنائے جاتے۔ آپ غلطی پر ھیں۔
۔۔۔
انگریزی ادب میں سرقہ چوری نقل پلیجرازم کی کئی قسمیں بیان ھوئی ھیں۔۔ھم پہلی قسم کی بات کر رھے تھے۔۔۔کہ جس میں ھُو بہو لفظ بہ لفظ چوری کر لینا ،لیجانا اور بیان کردینا شامل ھے۔۔
۔۔
جیسے غالب کا شعر اوپر بیان ھوا ھے غالب نے کہا

بوئے گُل نالہِ دل ، دُودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
،،
ایک دو الفاظ کے علاوہ تمام مفہوم و منظر وھی ھے جو بیدل کے فارسی کلام میں ھے۔۔اس سرقے یا چوری یا نقل کو کلوننگ پلیجر ازم کہتے ھیں۔کلوننگ کا لفظ پاکستان میں تب مشہور ھوا جب سائینسدانوں نے بھیڑوں کی کلوننگ کی جس میں ایک بھیڑ کے ڈی این اے سے اُسی جیسی بھیڑ لیباریٹری میں بنائی گئی۔پس کسی ادب پارے کےبنیادی ڈھانچے یا منظر ڈی این اے کو نقل کرنا ادب میں چوری کہلاتا ھے۔
اس میں کسی نثر کا پورے کا پورا پیرا گراف شامل کرنا ،
ھُو بہو نقل میں شمار کیا جاتا ھے۔جیسے کراچی میں غالباً چار پروفیسران پر عدالتی مقدمے ھوئے اور انہیں چور گردانا گیا انہوں نے طلبا کے مقالہ جات کو اپنے مقالہ جات ظاھر کیا۔ پاکستان اور ھندوستان میں مقالہ جات کا سرقہ بہت عرصے سے جاری ھے ، بہت سے نام نہاد ایوارڈ یافتہ پاکستانی ھندوستانی پروفیسران کی کتابیں اور مقالہ جات ھرگز انکے اپنے نہین بلکہ انکے طالب علموں کی کوشیں ھوتی ھیں،،جیسے ساختیات،،اور پس ساختیات وغیرہ ڈبل چربے ھیں یعنی انگریزی کے چربے اور پھر لکھا کسی نے شائع کسی اور نے کروایا۔ بیسیوں خبروں میں سے ایک خبر آپ پڑھیں
معطل ہونے والے اساتذہ میں سب سے بڑا نام اسلامک سٹڈیز فیکلٹی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر جلال الدین احمد رومی کا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مشرق وسطٰی کے مختلف عربی مصنفوں کی تحریریں چرا کر تحقیقی مقالہ تیار کیا اور اس مقالے کی مدد سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے پروفیسر اور فیکلٹی کے ڈین کے عہدے پر ترقی حاصل کی۔

معطل ہونے والے دوسرے اساتذہ میں کیمیسٹری ڈپارٹمینٹ کے چیرمین پروفیسر ڈاکٹر سعید آرائیں اور ان کی اہلیہ پروفیسر ڈاکٹر نجمہ سلطانہ شامل ہیں جو پہلے فیکلٹی آف فارمیسی کی ڈین بھی رہ چکی ہیں۔ دونوں نے ترقی پانے کے لیے دوسرے سکالروں کے مضامین چراکر تحقیقی مضامین لکھے۔

اسلامک سٹڈیز فیکلٹی کے ڈین ڈاکٹر رومی پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اپنی مدت ملازمت بڑھانے کے لیے جعل سازی کے ذریعے اپنے شناختی کارڈ کے ریکارڈ میں چار سال عمر کم کرائی تھی۔

کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر رئیس علوی نے بتایا کہ ان اساتذہ کے خلاف کارروائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایت پر کی گئی ہے۔
اسی طرح ایک اور واقعے میں،،
وزارت مذہبی امور کی جانب سے جمع کردہ مقالوں کی تعداد 100سے زائد تھی،جن میں سے جیتنے والوں میں ڈاکٹر عامر طاسین اور آسیہ اکرام کا نام بھی تھا۔جنہیں صدرپاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے انعامات و ایوارڈ سے نوازہ تھا۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ مقالہ جات کی شائع ہو ے والی کتاب میں ڈاکٹر عامر طاسین اور آسیہ اکرام کا مقالہ لفظ بہ لفظ ایک ہی جیسا تھا۔
جس کے بعد ایگیزیکٹیو ڈائیریکٹر مجلس علمی فاؤنڈیشن اوررکن بورڈ آف گورنر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، معروف مذہبی اسکالر ومحقق ڈاکٹرعامرطاسین نے وزارت مذہبی امور کو ایک خط لکھا اور انکشاف کیا تھا کہ میرا مقالہ غائب کرکے اسلام آباد کی آسیہ اکرام کوبھی صدارتی ایوارڈ اور انعام سے نوازا گیا ہے۔ڈاکٹر عامر طاسین نے 31 مارچ کو مذکورہ خط وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور سیکرٹری مذہبی امور کے نام لکھ کر انکوائری کرنے کی درخواست کی تھی۔
۔۔
مزید اسلامی جمہوریہ میں تحقیق چوری کا معاملہ دیکھیں۔
لاہور: پنجاب یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کا مقالہ چوری کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ سنٹر فار انٹیگریٹیڈ ماؤنٹین ریسرچ کے سربراہ ڈاکٹر صفدر علی شیرازی کے مقالے میں 40 فیصد چربہ سازی کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے سی آئی ایم آر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر صفدر شیرازی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نےایک ہی مقالہ دو مختلف ریسرچ جرنلز میں مبینہ طور پر شائع کرایا ہے جبکہ اس تحقیقی مقالے میں 40 فیصد چربہ سازی کی گئی ہے۔

تعلیمی زاویہ کو دستیاب دستاويزات کے مطابق ڈاکٹر صفدر علی شیرازی نے انڈین پنجاب کی موسمیاتی تبدیلی پر لکھے گئے ریسرچ پیپر کو من و عن پاکستانی پنجاب کی موسمیاتی تبدیلی سے منسوب کیاجس میں صرف شہروں کے نام تبدیل کیے گئے اور باقی ماندہ تحقیق انڈین پنجاب سے متعلق بھارتی پروفیسر کی تحقیق ہے۔
۔۔۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے بعد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے 30 پروفیسرز پر بھی چوری شدہ مقالے جمع کرانے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ملک بھر سے چوری شدہ مقالوں کے حوالے سے سینکڑوں شکایات موصول ہوچکی ہیں۔ لیکن کسی کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ ذرائع کے بقول ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ارشد علی نے استعفیٰ بھی دباؤ پر دیا ہے۔ جبکہ سرقہ ثابت ہونے پر نہ صرف پی ایچ ڈی کی ڈگری واپس لے لی جاتی ہے بلکہ ملازمت سے بھی فارغ کردیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دوسروں کے مقالے چوری کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں کے معاملات سامنے پر عالمی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔
،،،،،،،،،،،
اوپر تو صرف چند خبریں شامل کی ھیں وگرنہ زمینی صورتِ حال اس سے کہیں بُری ھے۔۔
کینیڈا میں ایک متشاعر تسلیم الہی زلفی نے ادھر ادھر سے شاعری لیکر کئی مجموعے چھپوائے اور اُسے اسلام آباد پنڈی کے احمق شُعرا و ادیبوں رحمان حفیظ وغیرہ نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔اسی ٹور میں اس فراڈ شخص تسلیم الہی زلفی نے مختلف پاکستانی شاعرات کو اُلّو بنایا کچھ سے رقم اینٹھی کچھ سے اپنے حق میں تشہیری پروگرام کروائے ۔۔۔اور لالچ دیا کہ وہ کینیڈا میں انکے لئے عالمی مشاعرہ کروائے گا۔ متاثرین کی لمبی فہرست میں حبیب جالب کی بیتی بھی شامل ھیں، اسناتھ کنول نامی لاھور کی شاعرہ بھی اور بہت سے ایسے لوگ بھی جنہوں نے شرم کے مارے اپنی ذاتی کہانی نہیں کھولی۔ اسی طرح تسلیم الہی زلفی نے ایک من گھڑت کتاب ،،فیض بیروت میں۔۔۔کے نام سے چحاپی جو مکمل جھوٹ کا پلندہ ھے،،،تسلیم الہی کی کوئی ملاقات کبھی فیض سے ھوئی ھی نہیں، اشفاق حسین کینیڈآ نے مکمل حوالوں سے اس کتاب کو افسانہ ثابت کیا ھے اور میں نے ماڈرن تکنیک سے وہاں شائع شُدہ فوٹو کو جعلی ثابت کیا جس میں تسلیم الہی فراڈیہ ، فیض کے ساتھ کھڑا ہے۔
خیر میں نے اوپر پہلی قسم کی نقالی یا کلوننگ پلیجرازم کی بات کی ھے آئیے دوسری قسم پر گفتگو کرتے ھیں
،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چربہ ، چوری، نقالی کی دوسری قسم مکس ازم پلیجرازم کہلاتی ھے، اس میں "بنیادی منظر” ، "خیال” یا "ارادے” کو تھوڑی تبدیلی سے بیان کر کے چوری کی جاتی ھے۔ ،
جیسے،،،
اقبال کا شعر دیکھیں
میں جو سر بسجدہ ھوا کبھی تو زمیں سے یہ آنے لگی صدا
ترا دل تو ھے صنم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز میں
۔۔۔
اب دیکھیں اقبال کا شعر کہاں سے برآمد ھوا؟

بہ زمیں چو سجدہ کردم ز زمیں ندا بر آمد
کہ مرا خراب کردی ،تو ، بہ سجدۂ ریائی
(فخر الدین عراقی)
یعنی اقبال کے وھم و گمان میں بھی یہ خیال نہیں آ سکتا تھا کہ سجدہ کرنے پر ان سے یہ تخاطب ہوگا ۔ اقبال کو یہ خیال و منظر مکمل طور پر عراقی نے دیا۔ جس میں اقبال نے قدرے تبدیلی ، یعنی مکسزم پلیجرازم کا استعمال کیا ھے۔(اور ھاں کہیں نہیں کہا کہ یہ ماخوذ ھے، وہ لوگ جو جلدی سے کہتے ھین اقبال نے ترجمے کئے تو ساتھ لازمی بتایا کہ ماخوذ ھے )
خیر اقبال کی تو کوئی 36 نظمیں اور بےشمار اشعار دوسروں کے اشعار کا ترجمہ ہیں یا مکسزم سرقہ کا شکار ھیں۔ کثرت سے خوشحال خان خٹک کی شاعری اور دوسری پشتو انقلابی شاعری کے ترجموں سے اقبال نے بہت فائدہ لیا۔۔ساری کی ساری تراکیب و نظریات لے لئے۔۔ جو ان کے وھم و گمان میں بھی نہیں تھے۔۔۔جیسے ۔۔۔ستاروں پر کمند ڈالنے والے جوان۔۔۔
حوالوں کے لئے یہ اشعار یاد رکھئیے
،،،،
علامہ اقبال خوشحال خان خٹک کی شاعری سے کیسے مرعوب ھوئے۔ ترجمہ کیا۔۔نظریہ لیا۔۔۔خیال لیا۔۔۔۔۔مضمون لیا۔۔۔
چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
‏د خوشحال سلام په هغه شا زلمو دے
‏کمندونه چې د ستورو په اسمان ږدي
خــــــوشحال خٹک
۱. ‏محبت مجهے ان جوانوں سے هے
‏ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اقـــــبال
۲. ځه هغه شهباز شه چې یې ځای په سردرو وي
نۀ لکه د کلي کارغۀ ګرځه غم د نس کا
خوشحــــــال خٹک
٢. نہیں ہے تیرا نشیمن قیصری سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اقـــــــبال
۳. د کارغۀ لايق خو باز دی يا شاهين دی
پۀ دا څۀ چې د کلاغ په سر کلاه شي
خوشحال خٹک
۴. برہنہ سر نو عزم بلند پیدا کریہاں
فقط سر شاہین کے واسطے ہے کلاہ
اقبـــــــال
۵. و اغېارته لکه کانړی موم و يار ته
پۀ سختۍ او پۀ نرمۀ کې هغه زۀ يم
خوشحــــال
۵. ہو حلقہ یاران تو بریشم کی طرح نرم
روزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اقـــــبال
۶. د شهباز او د عنقا برابر نه دی
مچ او ماشی که الوځي پۀ وزرو
خوشحـــال خٹک
۶. پرواز ہے دونوں کا اسی فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
اقـــــبال
۷. د مردۍ او نا مردۍ تر مېنځ ميل نۀ دی
تفاوت يې يا پۀ زړۀ دی يا پۀ کام
خوشحــــال خٹک
۸. الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذان اور مجاہد کی اذان اور
اقبـــــال
۹. کۀ کوشش کا پۀ اخلاص زۀ یې ضامن يم
کۀ کامران پۀ خپل مراد نۀ شي سړی
خوشحال خٹک
۹. ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہو چیتے کی آنکھ جس کی
اقــــــبال
۱۰. يا عاشق شه يا شهيد شه چې یادیژی پۀ بدلو پۀ سندرو
پۀ ښاغلو جهان ارت دی په نامردو باندی تنګ
خوشحال خٹک
۱۰. شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
جرات ہے نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
اے مرد خدا ملک خدا تنگ نہیں ہے
اقــــــبال
۱۱. دا سړی چی فريشته ده هم شيطان دی
کۀ سړی د خپل عمل وته نګران شي
کۀ جنت لره څوک بيايي کۀ دوزخ له
بله نۀ وينم پۀ مينځ کې خپل اعمال دي
خوشحال خٹک
۱۱. عمل سے بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اقــــــبال
۱۲. لۀ بتانو اميدوار يې پۀ خپل خدای يې نا اميده
لږ وښايه تۀ ما ته، نوره څۀ دہ کافري؟
خوشحال خٹک
۱۲. بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نا امیدی
مجھے بتاؤ تو سہی، اور کافری کیا ہے
اقــــــبال
۱۳. ځان ژوندی پۀ زمکه ښخ کړه لکه تخم
کۀ لویي غواړې د خاورو پۀ مقام شه
رحمــــــان بابا رح
۱۳. مٹاو اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
کہ دانہ خاک میں ملکر گل گلزار ہوتا ہے!
،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اسکے علاوہ اقبال پر مضامین میں، مَیں بہت جگہ باقی سرقہ شدہ خیالات یا شاعری بیان کرچکا ھُوں یہ مضمون صرف اقبال پر نہیں ھے۔اس لئے آگے چلتے ھیں،،۔۔
اب تک دو قسموں کے سرقہ جات کی بات ھوئی اور امثال دیں۔اب آئیے تیسری قسم کی طرف، تیسری قسم کونسی ھوتی ھے
تیسری قسم کے سرقے میں سورس بیسڈ چوری ھوتی ھے۔ یعنی پرائمری سورس کا حوالہ تو دیا جاتا ھے لیکن جو مواد لیا جاتا ھے وہ سیکنڈری سورس سے لیا ھوتا ھے۔۔یا سیکنڈری سورس کا حوالہ ھوتا ھے مگر پرائمری سورس کوئی اور ھوتا ھے۔۔
جیسے قرآن کو اگر کتاب ھی سمجھا جائے، جو کہ ھے، تو اس کے اندر کہانیاں یا افسانے بائبل سے آئے لیکن بائیبل کی اپنی کہانیاں قدیم ھندوستان چین عراق اور مایان کلچر اور زرتشتی مذاھب سے مزکور ھیں۔
مثلاً قرآن میں آیت ھے کہ اے مسلمانو تم پر روزے ایسے فرض کئے گئے جیسے بنی اسرائیل پر فرض کئے گئے۔۔یعنی یہ سرقہ سورس بتا کر اختیار کیا گیا
،،،،،
اوپر بیان کئے گئے لفظ بہ لفظ سرقوں کی مثال ، ایک مقدمہ تھا جو نوشی گیلانی اور منور جمیل نامی شاعری کے مابین تئیس سال تک چلا۔
منور جمیل کا دعوی تھا کہ دونوں کتابیں جو نوشی کے نام سے چھپی ھیں وہ تمام منور جمیل کی اپنی شاعری ھے نوشی کی نہیں۔اور نوشی نے مزکر کی جگہ مونث استعمال کر کے اپنا لی ھے۔
اسی طرح ناقدین کے نزدیک ریحانہ قمر کی شاعری سو فیصد انکی اپنی شاعری معلوم ھی نہیں ھوتی۔ کیونکہ آجتک کسی نے نہیں بتایا کہ کسی بھی شعر پر کوئی تنقیدی رائے ریحانہ قمر نے دی ھو۔ وہ شاعری کے بنیادی محاسن پر گفتگو تک کرنے سے معزور ھیں وہ خود شاعرہ کیسے ھو سکتی ھیں ! ریحانہ قمر نے کبھی کُھل کر اپنی صفائی ثبوت کے ساتھ نہیں دی کہ چلیں مجھ سے مخلتف مصرعوں پر گرہیں لگوا کر دیکھ لیں۔
بعض اور لوگوں پر الزامات لگتے رہتے ہیں مگر بہت سے معاملوں میں پسند نا پسند کا دخل ہوتا ہے متذکرہ شاعر یا شاعرہ ھرگز متشاعر یا متشاعرہ نہیں ھوتے۔ جیسے ماھین ملک مکمل شاعرہ ہیں اور آپکے مصرع پر فی البدیہہ گرہ لگاسکتی ہیں۔ ناحق الزام لگانا بہت بد اخلاقی ہے۔ ثمن شاہ کے بارے بھی ثبوت لوگ لاتے رہے کہ وہ ادھر ادھر سے کلام ٹھیک کرواتی رہی ہیں۔ جودرست معلوم ھوتا ہے۔
۔۔
پلیجر ازم کی اگلی قسم ایکسیڈنٹل پلیجر ازم کہلاتا ھے ، یعنی اتفاقیہ سرقہ ۔یہ اتفاقیہ سرقہ دو طرح سے ھو سکتا ھے پہلا غیر محسوس طور پر سرقہ یعنی کسی ادب پارے سے بہت مانوس ھونا اس میں اتنا محو ھونا کہ اپنی تخلیق میں اسکے استعمال کو خود بھی محسوس نہ کرنا۔۔اور دوسرا وہ جس میں معلوم ھے تو ھو، لیکن سخت رشک کی بدولت اس خیال یا لفظ یا منظر کو اختیار کر لینا۔
بعض میں صرف مضمون کو لے لینا شامل ھوتا ھے۔
جیسے میں چونکہ ایکٹوازم کے تابع بار بار شعر مین خدا کے ناحق خوف یا ڈر کو بیان کرتا ھُوں جو مذھب نے ناحق انسان پر مسلط کیا ھے تو اس خیال کو کہ خدا اصل میں خوف ناک ھستی نہیں بلکہ مذھب نے خوفناک اُسے ظاھر کیا ھے جو جھوٹ ھے اس بات کو کئی نئے شعرا بیان کرتے ھیں۔۔یہ سرقے کی فکری قسم ھے۔
بعض اوقات بعض شعرا کسی کے بہت بُودے کچے بیانیہ شعر میں چُھپے اچھے تبدیل شُدہ خیال کو بہتر کر کے اپنا لیتے ھیں۔
میں بھی ایسا کرتا ھُوں کیونکہ مجھے ایسے شاعر پر سخت غصہ آتا ھے اور میں اسکا شعر بہتر کر کے پوسٹ کر دیتا ھُوں لیکن میرا ارادہ دیکھا اور لے اُڑا کا نہیں ھوتا ۔ بلکہ مایوس ھوتا ھُوں کہ اس شاعر نے کیوں اس شعر پر محنت نہیں کی ، شاید میرا شعر دیکھ کر اسے سمجھ آئے۔ لیکن بعض احمق اس عمل سے یہ نتیجہ نکالتے ھیں کہ جیسے میں نے انکے شعر پر ھاتھ صاف کر دیا ھے۔ مجھے ایک دو نے تو کہہ بھی دیا ،،جیسے عمران اعوان نامی کچا سا شاعر ھے مگر جب اس نے یہ کہا تو میں نے فرینڈ لسٹ سے اٹھا کر باھر دے مارا۔ جسکی گردن میں سریہ اس سرئیے کی دوری سمت کہاں تک گئی ھے ھمیں کیا معلوم ، ایسوں کو چھوڑ دینا بہتر ھے
کچھ شعرا بعض اچھے شعرا سے بہت متاثر ھوتے ھیں، ایسے فینز بھی چاھتے نہ چاھتے ھوئے اپنے پسندیدہ شعرا کی نقالی میں انہی کی زمین میں اسی قافئیے میں ویسے ھی مضامین باندھنے لگتے ھیں۔ جو سرقہ ھی ھے۔۔
میری ایک بہت پرانی غذل ھے جس کی ردیف ھی انوکھی ھے اور اس ردیف میں میرے سوا کسی نے کوئی غزل نہیں لکھی۔۔۔

  • یہ جان و مال یہ گھر بار بھی کلیشے ھے *
    یہ جان و مال یہ گھر بار بھی کلیشے ھے
    یہ میری "مَیں” یہ مرا یار بھی کلیشے ھے
    بس ایک یہ ترا انکار ھی کلیشے نہیں
    اسی طرح مرا اصرار بھی کلیشے ھے
    نہیں ھے ریگِ رواں کا کوئی وجود اگر
    تو بُلبُل و گُل و گُلزار بھی کلیشے ھے
    یقین کر یہ جو سایہ ھے یہ خیالی ھے
    وُہ اس لئے کہ یہ دیوار بھی کلیشے ھے
    نہ آئینہ کہیں موجود ھے نہ عکس اِس کا
    یہ میری آنکھ کا زنگار بھی کلیشے ھے
    یہ استعارے ، تراکیب اور تشبیہیں
    یہ ناقدان کا معیار بھی کلیشے ھے
    فراقِ یار بھی جعلی ، وصال یار بھی جُھوٹ
    وُہ اس لئے کہ یہ دلدار بھی کلیشے ھے
    فقیر و فُقر ندارد، سگانِ دھر بھی گُم
    گلیم و جُبّہ و دستار بھی کلیشے ھے
    دُکان ِ محض سے گاھک بھی کیا خریدے گا
    ریال و درھم و دینار بھی کلیشے ھے
    شکست و فتح بھی عنقا ھے لشکروں کی طرح
    کمان و نیزہ و تلوار بھی کلیشے ھے
    نہیں کہیں کوئی صحرا، ، کوئی بھی قیس نہیں
    قیاسِ لیلیءِ درکار بھی کلیشے ھے
    کوئی زلیخا نہیں اور کوئی نہیں یُوسف
    یہ سارا مصر کا بازار بھی کلیشے ھے
    طلسمِ ھوش رُبا کا کوئی جواز نہیں
    امیر حمزہ و عیّار بھی کلیشے ھے
    نہ شاہِ وقت ، نہ شہزادیاں نہ کوئی غلام
    اور اُن کے ساتھ یہ دربار بھی کلیشے ھے
    بہشت و دوزخ و برزخ کا ذکر کُفرِ عظیم
    گُناہ گار و خطا کار بھی کلیشے ھے
    نہ وُہ مدینہ ، نہ مکّہ، نہ غارِ ثَور و حِرا
    نفاق و مومن و کُفّار بھی کلیشے ھے
    وجود ِ کوہِ ندا کا اُدھر ثبوت نہیں
    اِدھر یہ کوچہءِ مسمار بھی کلیشے ھے
    بچا نہیں ھے کنارہ کوئی جُگالی سے
    اسی طرف نہیں، اُس پار بھی کلیشے ھے

اب یہ غزل خاص طور پر پاکستانی مذھبی لوگوں کو بہت تکلیف دہ معلوم ھوئی اور انٹرنیٹ پر جا بجا 15 سال پہلے اس حوالے سے مجھے بُرا بھلا کہا گیا۔
چند سال پہلے ایک شاعر افتخار حیدر جی نے کوئی نظم لکھی جس میں کلیشے کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ کسی نے کہا کہ بھائی رفیع رضا کی غزل موجود ھے۔۔آپ اپنی نظم پر نظر ثانی کریں۔ موصوف مجھ پر چڑھ دوڑے کہ میں نے انکی نظم کا چربہ غزل میں کیا ھے۔۔اور میری بات سننے سے پہلے ھی بھاگ گئے کہ دیکھو انٹرنیٹ پر ایک دھائی پہلے سے مخالفین یہ غزل لکھ چکے ھیں اور مجھے گالیاں دے چکے ھیں۔ چربہ میں نے نہیں کیا آپ نے غلطی سے کر لیا ھوگا۔۔ بعد میں دیکھا بیچارہ غریب ریٹائیرڈ مسکین صورت آدمی ھے تو میں نے دوستی کا ھاتھ بڑھایا تاھم اسکے دل کی مذھبی کدورت وھیں موجود ھے۔۔ شیعہ کبھی دھریہ نہیں ھو سکتے۔
سرقے کی سب سے پہلے قسم ، ھُو بہو سرقہ یا کسی کی تصنیف پر قبضہ خود ھی کرلینا یا عوام کی غلطی کی وجہ سے آپ کے نام وہ آرٹ لگ گیا تو مشہوری ایسے ھونے پر کہتے جانا کہ ھاں یہ کلام میرا ھے۔ اس قسم کا چربہ پاکستانی شاعر نزیر قیصر اور بھارتی شاعری قیصر الجعفری کے مابین ھوا ،،،جس میں نزیرقیصر کے نام میں لفظ قیصر اور جعفری صاحب کے قیصر ھونے کا فائدہ پاکستانی میڈیا نے جسے تحقیق کی عادت ھی نہیں، غزلیں نزیر قیصر کو دے دیں۔اور مشہور غزلیں دیں جو گائی گئی تھیں اور ریڈیو ٹی وی پر نزیر قیصر کا نام چل رھا ھے۔ جو بہت افسوسناک بات ھے۔
نزیر قیصر اب تک اپنی ایسی متنازعہ شاعری کا کوئی ثبوت نہیں دے سکے صرف زبانی دعوے کرتے ھیں۔ جبکہ وہ غزلیں نزیر قیصر کے مزاج کی بھی نہیں ھیں۔جیسے

تمھارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چُرا لُوں اگر بُرا نہ لگے
قیصر الجعفری۔۔یا۔۔نزیر قیصر۔۔۔

اسی طرح
دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے۔۔۔

ان دونوں غزلوں کے بارے شمس الرحمن فاروقی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ قیصر الجعفری کی ہیں۔
لیکن نزیر قیصر منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں

ھمارے پاکستان کا کلچر بڑا بوسیدہ ہے یہاں سچی بات پوچھنے اور کہنے والے کو بدتمیز کہا جاتا ھے،،،مجحے شاید سب سے بدتمیذ شاعر کہا جاتا ہے مگر میں سچ پوچھنے سے نہیں رُک سکتا کوئی کیوں نہیں پوچھتا نزیر قیصر سے ۔۔؟ وحید احمد، حفیظ اللہ بادل،،امداد آکاش یہ سب کیوں خاموش ہیں؟۔۔

میرے ایک مشہور شعر کا ایک مصرع نزیر قیصر کی ایک کمزور غزل کے مصرعے جیسا ھے۔لیکن میں کسی صورت اپنے مصرعے سے دستبردار نہیں ھو سکتا۔

میں سامنے سے اُٹھا اور لو لرزنے لگی
چراغ جیسے کوئی بات کرنا چاھتا تھا
رفیع رضا

اور اگلی قسم کا چربہ ایسا دلچسپ ھے کہ آپ نے اسے چربہ نہ سمجھا ھوگا۔۔مگر چربہ ھی ھے۔۔وہ ایسے کہ مثال کے طور پر ایک منظر ھے جس میں دیوار ھے۔
اب اس دیوار اور تصویر پر مبنی منظر کے اشعار ھونگے جن میں لازمی تصویر ،،اور اپنی تصویر کے ھونے کی بڑائی کسی صورت ظاھر ھوگی۔۔یہ پاکستان کے شعرا میں کوئی 15 برس پہلے سے مقابلہ جاری ھے۔۔
میرا نوجوانی کا ایک شعر دیکھیں

لہو تصویر سے نکل آیا
کیل دیوار میں لگایا تھا
رفیع رضآ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جو دیوار پہ تصویر بنانے لگ جائیں
تتلیاں آ کے ترے رنگ چرانے لگ جائیں
ندیم ناجد
ایک تصویر جو کمرے میں لگائی ہوئی ہے
گھر کی ٹوٹی ہوئی دیوار چھپائی ہوئی ہے
راشد امین
ایک دیوار سے اتری تصویر..
ساری دیواروں سے آہیں نکلیں
کونین حیدر
تم میری تصویر بنا کر لائے ھو
یعنی میں دیوار سے لگنے والا ھوں
قمر جلالوی
زخمِ دیوار بتاتا ہے منیر
ایک تصویر یہاں تھی پہلے
منیر سیفی
عین دیوار کے ظاھر ھونگے
میرے تصویر ھٹا دی گئی ہے
ندیم بھابھہ
یہ جو دیوار پہ تصویر ہے یہ کچھ بھی نہیں
وہ جو تصویر میں دیوار ہے کیا ٹینشن ہے
ادریس بابر
ﺗﺮﯼ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮨﭧ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻟﯿﮑﻦ
ﻧﻈﺮ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ
تہذیب حافی
ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﻣﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻣﺠﮭﮯ.
کاشف غائر
اس کی تصویر پھینک دی ہے مگر
کیل دیوار میں گڑی ہوئی ہے
عمار اقبال
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﭨﺎﻧﮏ ﺩﯼ ﺍﭘﻨﯽ
ﻭﺭﻧﮧ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮔﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ
ﺳﺮﻓﺮﺍﺯ آﺭﺵ
میرا تصویر سے معاملہ ہے
مجھے دیوار کی خبر کم ہے
محمد عامر۔
میں نے تصویر دیکھ لی تیری ۔۔
اور پھر ناچنے لگا کمرہ ۔۔
راشد امام
اس نے دیوار پہ تصویر لگائی تیری.
تو نے دیوار سے دیوانہ لگا رکھا ہے
عبدالقادر تابان
جو چپ چاپ رہتی تھی دیوار پر
وہ تصویر باتیں بنانے لگی
عادل منصوری
ایک کمی تھی تاج محل میں
میں نے تری تصویر لگا دی
کیف بھوپالی
کبھی دیوار سے تصویر اُتاری تھی کوئی
اب کہیں دیکھوں تو چبھتی ہے کوئی کیل مجھے
سعید شارق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب میرا شعر دیکھیں

میری دیوار پر لگا ، واپس
وُھی تصویر مہربانی کی
رفیع رضا
،،،،،،،،،،،،
اوپر کے شعر آپ نے دیکھ لئے۔۔ اپ دوبارہ ان پر غور کریں تو معلوم ھوگا کہ تمام شعرا نے دیوار کو ظآھر دیوار اور تصویر کو واقعی ظاھری تصویر استعمال کیا ھے
اور میرے شعر کو دیکھیں؟

میری دیوار پر لگا ، واپس
وُھی تصویر مہربانی کی
رفیع رضا
اپنی تعریف برحق کرنے کی کوشش کر رھا ھُوں کہ میں کسی کی شاعری کے خیال سے آسانی سے متاثر نہیں ھوتا ، میرے شعر میں نہ تو ظاھری دیوار کا ذکر ھے نہ ھی ظاھری تصویر کا۔بلکہ جو منظر بنایا ہے وہ استعاراتی تلازمہ ہے۔

باقی آپ کی پسند و ناپسند آپکا معاملہ ھے۔

اوپر کے اشعار میں زیادہ تر شعرا نے ایک دوسرے کی نقالی میں دیوار اور تصویر کا منظر بنایا ھے۔ ندیم بھابھہ نے بے جا تعلی کا شعر بنایا جسکا کوئی مفہوم معلوم نہیں ھوتا۔ کیا دیوار پر بھابھے کی تصویر اس لئے لگائی گئی ھے کہ پیچھے دیوار پر کوئی داغ تھا یا پلستر اُکھڑا تھاَ؟ تو اس کی مرمت کر لیتے۔
سرفراز آرش نے تو بہت ھی بڑی تعلی باندھی۔۔۔ دیوار گرنے والے تھی میری تصویر لگائی تو اب نہیں گِرے گی۔۔ اُف یہ بھی شاعری کہلاتی ھے؟
ویسے راز کی بات بتاؤں، صوفیا کے نزدیک تصویر۔۔۔یہ عالم موجود ھے اور اصل غیر موجود ھے۔۔
اب واپس اوپر جائیں اور پھر وہ اشعار پڑھیں تو جانیں گے۔۔ کون صوفی ھے ! کون صوفی کے بھیس میں سیاسی ھے!
خیر یہ تو اجتماعی پلیجر ازم ھے۔۔سب ایک دوسرے کا سرقہ فرما رھے ھیں۔
،،،،،،،،،،،
آج انگلینڈ میں بیٹھے خود کو ندیم بھابھہ کی طرح درویش ظاھر کرتے حضرت علی ارمان جی کی ایک تازہ غزل نظر سے گزری اور میں نے نہیں بلکہ بہت سے دوستوں نے یہی بات نوٹ کی جو بالکل درست اور برحق ھے کہ علی ارمان کی غزل ، اصل میں بہت اعلی شاعر ذو القرنین حسنی کی ایک نظم سے متاثر ھو کر کہی گئی ھے۔
یہ متاثر ھو کر کہنا ،، بالکل اقبال والی حرکت ھے ۔۔ جیسے ستاروں سے آگے کمند ڈالنا۔۔۔بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانا۔۔۔جیسے سجدہ کرنے پر زمین سے صدا آنا ،،جیسے اقبال کی نظم بہار ھو کہ خزاں ، لا الہ اللہ سے متاثر ھو کر بشیر الدین محمود صاحب کی نظم ۔۔ھے دستِ قبلہ نما لا الہ الا اللہ۔۔۔یا مرزا صآحب کی نظم سے اقبال نے ارادہ پکڑا؟
۔
یا پحر میری غزل۔۔۔گھر بار بھی کلیشے ھے،،، کی بنیاد پر نظم میں کلیشے ھر چیز کو کہنا۔۔وغیرہ متاثر ھو کر شعر کہنے کی امثال ہیں۔
دونوں کی شاعری یعنی حسنی کی نظم اور علی ارمان کی غزل تصویر میں لگا دی ھے۔یاد رھے علی ارمان ، بھابھہ اور امیر حسین جعفری کے بہت سگے ھیں۔اور یہ ایک دوسرے کے لئے مہم چلاتے ھیں۔ فتوے لیتے ھیں فتوے دیتے ھیں۔ جیسے دو لخت شعر کے بارے امیر حسین جعفری کا کہنا کہ انڈیا اور پاکستان سے کوئی بھی اُن سے پوچھ لے فلاں شعر دو لخت نہیں ھے

جبکہ خود جعفری جی کی اپنی بےوزن نظم کی میری کی گئی تقطیع کے بعد بھی اخلاقی جرات کا نہ ھونا کہ غلطی مان لیں۔ کہ یہ رن آن لائن کی فحاشی نہیں بلکہ عروض کا بلاد کار ھے۔
کون لوک او تُسیں ۔۔۔۔؟۔۔
میرے اس مضمون کے پوسٹ کرنے کے بعد افتخار جعفری جو پاکستان کے سرکاری آئینی مسلمان شیعہ شاعر ہیں، نے مجھے اسلامی گالی دی اور کہا غیرت ہے تو غزل کب لکھی تھی بتاوں،،، سو اس میں غیرت بےغیرتی کہاں سے آ گئی۔۔ ایسا رویہ پاکستانی معاشرے کے اخلاقی انحطاط کا عکاس ہے۔۔چاھیئے تو یہ کہ بتا دیں اگر یا نہیں تو انداز ے سے بتا دیں نطم کب لکھی۔۔۔۔ ؟ اور یوں بھی نظم سے متاثر ہو کر غزل نہیں کہی جاتی یہ اُلٹا طریق ہوتا ہے۔ یعنی غزل سے متاثر ہو کر نظم ضرور کہی جاتی ہے۔۔
پلیجر ازم کی اگلی قسم ، موزیک یا پیچورک نقالی کہلاتی ہے
اس میں کسی سورس کے الفاظ و خیالات کو توڑ کر اپنے الفاظ سے اُسی چیز کو بیان کیا جاتا ھے،،درحقیقت اقبال کے ماخوذ کا تعلق اسی قسم کے پیچ ورک یا موزیک سے ھے جس میں بنیادی خیال کو ذرا بدل کر بیان کر دیا جاتا ھے،،،جیسے اقبال نے میٹلڈا می مشہور حمد میں لفظی تبدیلی تو کی مگر بنیاد خدا سے دُعا کی ہی رکھی۔۔۔

I. “God make my life a little light”

By Matilda Barbara Betham-Edwards (1836–1919)

GOD make my life a little light
Within the world to glow;
A little flame that burneth bright,
Wherever I may go.

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

God make my life a little flower,
That giveth joy to all,
Content to bloom in native bower
Although its place be small.

ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

God make my life a little song
That comforteth the sad;
That helpeth others to be strong,
And makes the singer glad.

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب

God make my life a little staff,
Whereon the weak may rest,
That so what health and strength I have
May serve my neighbours best.

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

God make my life a little hymn
Of tenderness and praise;
Of faith—that never waxeth dim,
In all His wondrous ways.

مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو
۔۔۔۔
یہاں اقبال نے بنیادی خیال بچے کی خدا سے رھبری کی دعا کو قائم رکھا ھے،
۔۔۔مزید میں یہ پہلے لکھ چکا ھُوں حوالے کے لئے شامل کر رھا ھُوں
۔۔۔
مثلاً

بھارتری ہری کہتا ہے

Wanting to reform the wicked with nectar sweet advice, is like trying to control an elephant with the pith of a lotus stem, or cutting a diamond with delicate petals of the Shireesh flower, or sweetening the salty ocean with a drop of honey. The creator has provided only one means for hiding one’s ignorance

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

(بھرتری ہری( اقبال

پس اقبال کافی حد ترک ایک اچھے شاعر مترجم تھے اور انہین اسی حیثیت سے جانا جائے تو سچی تاریخ مرتب ہوگی۔پاکستان میں اقبال کی شاعری پڑھنے والے ایسی باتوں سے بالکل واقف نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ایسا اشعار اور نظمیں خود اقبال کی ذاتی فکر کا پھل ہیں جبکہ یہ درست نہیں اصل میں ایسی نظمیں اور بےشمار اشعار مختلف مشہور اور اہم شعرا و فلسفیوں کی اصل کاوشیں ہیں جنکو اقبال نے خوبی سے شاعری میں یا نثر میں ترجمہ کیا ہےجس کا انکا کریڈٹ ملنا چاہئیے۔

ایک سروے جو میں نے 2010 میں پاکستان میں کیا تھا ایک ہزار افراد سے پوچھا کہ اقبال کی نظم ، لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، کیا اقبال کی اپنی فکری کاوش ہے یا کسی اور کی شاعری کا ترجمہ یا اکتساب؟

جواب میں پورے ایک ہزار کا یہی جواب تھا اقبال کی اپنی فکر کا پھل یہ نظم ہے۔۔ جبکہ تاریخی سچائی یہی ہے کہ اقبال نے ترجمہ و اکتساب کیا تھا۔انکی اپنی فکر صرف شعر کی بنت اور اسے خوبصورت بنانے میں صرف ہوئی۔

پس میرا اصرار ہے کہ تاریخی سچائی کو عین پوری سچائی ہی سے بیان کیا جائے۔۔ اس سے اقبال سے منسوب بہت سے جھوٹے دعوے ختم ہوں گے اور ہم ایک اچھے شاعر کی شاعری کا ماخذ جان کر اسکی شاعری کے ہنر کی تعریف کر سکیں گے۔

لیکن عجب قصہ ہے کہ وہ نسل جو اقبال کا سرکاری الاپ الاپتی رہی ہے وہ کچھ سننے کو تیار نہیں ہےاور دھمکی گالی، فتوی بازی، ذاتی دشنام پر اتر آتی ہے۔

سنسکرت کے اُس عظیم شاعر بھارتری ہری کی کچھ اور شاعر دیکھیں کیسی نئی اور خوبصورت ہے۔ آج کی اردو شاعری کیسے اسکے سامنے ماند ہے۔آئیے دیکھیں۔

The clear bright flame of a man’s discernment dies:

When a girl clouds it with her lamp-black eyes.

[Bhartrihari #77, tr. John Brough; poem 167] …

عقل مند کے ساتھ خطرے میں کود جانا بے وقوف کے ساتھ سیر کو نکل جانے سے بہتر ہے۔

(بھرتری ہری)

عقل ہے محوِ تماشائے لب بام۔۔۔۔۔کا منبع معلوم ہوگیاَ؟

دشوار گزار پہاڑوں پر درندوں کی صحبت بہتر لیکن بےوقوف کی صحبت راجہ اندر کے محل میں بھی ناقابل برداشت ہے

(بھرتری ہری)

’’جو شخص عورت کو کمزورکہتا ہےوہ بلاشبہ عورت کی فطرت سے ناواقف ہے.”

(بھرتری ہری)

اسی طرح ، اقبال ، خوشحال خان خٹک سے سخت متاثر تھے اور اس بات کا ثبوت ان کےکئی اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اقبال نے ان کو بہت دھیان سے پڑھا ہے اور خوشحال خان خٹک کی عظمت کی اگر بات کی جائے تو اقبال بہتر جاننے والوں میں سے ہیں، اقبال کے بہت سے اشعار دراصل خوشحال خآن خٹک کی شاعری کا ترجمہ ہیں، اقبال کہتے ہیں۔

خوش سرود آن شاعر افغان شناس
آنکه بیند باز ګوید بې هراس

آن حکیم ملت افغانیان
آن طبیب علت افغانیان

راز قومی دید و بیباکانه ګفت
حرف شوخی رندانه ګفت

علامہ اقبال نے خوش حال خان کی وصیت کو اپنی زبان میں یوں پیش کیا ہے

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جوڈالتے ہیں کمند
اڑاکرنہ لائیں جہاں بادکو
مغل شاہ سواروں کی گرد سمند

اس طرح بہ زبان فارسی بھی علامہ اقبال نے خوش حال خان کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے

خوش سروداں شاعر افغان شناس
ہر چہ بیند بازگویدے ہراس
آں حکیم ملت افغانیاں
آں طبیب علت افغانیاں
راز قوے دیدوبے باکانہ گفت
حرف حق بازوخئی رندانہ گفت

اقبال کے خط کے ایک پیرا گراف کا فورینزک تجزیہ

عطیہ فیضی کے نام اقبال کے خط سے اقتباس

ایک انسان کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا حق حاصل ہے۔اگر معاشرہ یا فطرت میرے اس حق سے انکار کریں گے تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا۔میرے لئے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں یا مَے خواری (شراب نوشی) میں پناہ ڈھونڈوں جس سے خود کشی آسان ہو جاتی ہے۔ کتابوں کے یہ مردہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اعماق میں اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ میں ان کتابوں کو اور ان کیساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بنا سکتا ہوں۔‘‘

اقبال اس میں اپنا استحقاق بتاتے ہیں کہ اُنہیں لذت و خوشی (جسمانی تلذذ) کی خواہش ہے جو انہیں ویسی میسر نہیں جیسی وُہ فینسٹیسائز کرتے ہیں، یعنی اقبال کو پہلی بیوی سے جسمانی جنسی تلذذ ملنے کے باوجود وہ کچھ ایسا چاہتے ھیں جو صنف مقابل کے بارے میں انکے خیالات میں موجزن ہے۔

یہاں وُہ خانگی ادب آداب کی کمی کی شکایت نہیں کرتے بلکہ اصل میں میاں بیوی کے باہمی تعلق میں جسمانی کشش اور ذہنی کم آہنگی کی شکایت کرتے ہیں۔

وہ صاف صاف کہتے ہیں وہ سرخوشی کے انسانی حق کے تحت چاہتے ھیں کہ انکی جنسی (فطری) جبلت کو ویسی تسکین ملے جیسی وہ چاہتے ہیں۔

فطرتی اعتبار سے اور سماجی پابندیوں کی وجہ سے جنسی اختلاط کی آزادی اُس وقت ہندوستان میں ایسے میسر نہ تھی کہ اقبال اُس سے متمتع ہوتے ، خاص طور پر جب وہ جرمنی میں دوران تعلیم یہ فطری آزادی دیکھ آئے تھے انہیں ہندوستان میں ایک مدقوق گھر میں اپنی بیوی سے وہ رغبت نہ تھی جو انہیں جرمنی میں بآسانی وافر میسر تھی۔۔۔ اسی لئے اقبال نے معاشرہ یا فطرت کے خلاف بغاوت کے حق کو استعمال کرنے کی دھمکی دی۔۔

وہ اپنی ذاتی ناخوشی کی وجہ سے ملک ہندوستان کو بدبخت کہنے لگے۔۔۔ یعنی جب کسی خطے میں آپ کے مطلوبہ حقوق میسر نہ ہوں تو آپ اپس خطے کو بدبخت کہنے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ اہم نکتہ ہے کیونکہ اقبال، کہہ چکے تھے کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ بھی کہہ چکے تھے کہ جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اُس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو۔۔۔۔۔۔ پس وہ ملک کو بدبخت کہنے پر مائل ہوگئے کیونکہ یہاں انکی ذاتی انفرادی انسانی تلذذ کی راہ بند معلوم ہوتی تھی۔۔ وہ اپنی بیوی کو چھوڑدینا چاہتے تھے لیکن انکے والد یہ نہین چاہتے تھے۔۔ جبکہ انکے دو بچے بھی تھے ۔۔۔

انہوں نے لکھا کہ اگر وہ ملک نہ چھوڑ سکے تو خود کو شراب میں اتنا غرق کر دیں گے کہ اسکا زہر ان کی جان لے لے۔۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے وہ کبھی شراب کثرت سے نہیں پیتے تھے کہ جسکا نقصان جگر کو ہونا شروع ہو جائے۔۔ اگر پیتے تھے تو بہت اعتدال کے ساتھ، جس میں طبی طور کوئی مضائقہ نہیں ہے۔۔

چونکہ اقبال عملی ملازمت نہیں کرتے تھے اس لئے مطالعہ اور لکھنے میں وقت صرف ہوتا ، اب اس مایوسی کی صورتِ حال میں انہیں اپنا مطالعہ کا کام بھی بے معنی لگنے لگا۔۔

وہ کہتے ہیں میں ان کتابوں کو اس ملک کی روایات سمیت جلا کر راکھ کر دوں گا میرے اندر اتنی تشنگی کی آگ بھری ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ یہ خظ عطیہ فیضی کے نام ہے جو جرمنی میں دوران تعلیم اقبال کے بہت قریب رہیں۔ رومانی تعلقات کے بعد وطن واپسی اور پرانے فرسودہ خاندان میں واپس آ کر رہنا اسی طرح مشکل ہوتا ہے جیسے آج بھی پاکستان سے کسی کا بیرونِ ملک رہ کر پاکستان میں واپس جا کر رہنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔۔ بالکل یہی اپ سیٹ معاملہ اقبال کو پیش آیا تھا۔ اور اس کے پیچھے عطیہ فیضی سے انکو جو جسمانی اور ذہنی امیدیں وابستہ تھیں انکو پورا کرنے کے لئے اقبال شدید ترین بیتابی کا شکار ہوگئے ۔۔۔ ایسے خطوط آج بھی عاشق کی طرف سے محبوب کو لکھے جاتے ہیں۔ میں خود ایسی کیفیات سے بار بار گزرا ہوں، بہرحال اقبال ایک انسان تھے اور ان کی ایسے ذہنی و جسمانی تلذذ کی خواہش بالکل جائز تھی۔

انہی دنوں میں عطیہ فیضی کے ایک اور عاشقِ صادق شبلی نعمانی بھی عطیہ فیضی کو خط میں کہتے ہیں کہ ۔۔۔ جیسے مغلیہ شہنشاہوں کے قصیدوں میں انکو سایہ خدا کہا جاتا ہے ویسی غزلیں تو میں تمھارے لئے کہتا رہتا ہوں۔۔۔تاہم۔۔۔میرے جسم کا ہر رونگٹھااور ہر موئے بدن تمھارے لئے میری طرف سے ایک شعر ہے۔۔۔۔۔ یہاں شبلی بھی شدید جنسی تشنگی سے بھرے بیٹھے ہیں۔

دانشور ظہور ندیم لکھتے ہیں ۔

’’اقبال کی ازدواجی زندگی ہمیشہ ناہموار اور نا آسودہ رہی ہے ۔ ایک سے زائد شادیوں کی ایک وجہ یہ بھی تھی ۔ عطیہ فیضی نے کہیں ذکر کیا ہے کہ اقبال کی ذہنی صلاحیت اور اعتماد جو لندن کے قیام میں تھا وہ ہندوستان واپس لوٹ جانے پر ویسا نہیں رہا تھا ۔

متوسط طبقے کا کوئی شخص اگر وسیع مطالعے کی بنیاد پر اپنی فکری سطح میں کوئی غیر معمولی تبدیلی لے آئے اور اسے حسبِ منشا سماجی ماحول نہ ملے تو وہ دوبارہ قنوطیت کی طرف لوٹ جاتا ہے ۔ اقبال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ سے واپسی کے بعد وہ ذہنی طور پر منتشر اور مایوس نظر آتے ہیں ۔ آخرکار وہ اپنی فکری سطح کو محدود کر لیتے ہیں اور پھر انہوں نے ایسے اشعار تخلیق کئے جو انکی سوچ کے تضاد کی عکاسی کرتے ہیں ۔ محدود سے محدود تر ہوتے ہوئے آخرکار وہ ایک تنگ نظر مسلمان شاعر بن کر رہ جاتے ہیں ۔”

علامہ شیخ محمداقبال صاحب نے 1897 میں مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پر برضا و رغبت خود ہی بیعت کرکے جماعت عالیہ احمدیہ مسلمہ میں شمولیت اختیار کی تھی اورپھر1935 تک احمدی رہے لیکن 1935 میں جب قائد اعظم محمد علی جناح نے گول میز کانفرنس کیلئے اپنے وفد کا سربراہ ایک دوسرے احمدی سر چوہدری محمد ظفر اللہ خان کو نامزد کیا تو اس بنا پر علامہ اقبال صاحب ناراض ہوگئے اوراپنی سیاسی وجوہات کی بنا پر جماعت سے کچھ دوری دکھائی اور کچھ مخالفانہ باتیں بھی کیں لیکن اس کے باوجود اپنے ایک بھتیجے مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب اور ان کے بیٹے کو جماعت کی بیعت کرنے کے لئے کہا تھا اور پھر انہیں اپنے دو بچوں کا سرپرست بھی مقرر کیا تھا ۔

1931 میں سر شیخ محمداقبال صاحب نےکشمیر کمیٹی کی صدارت کے لئے امام جماعت عالیہ احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام خود پیش کیا جو کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے تھے ۔ یہ تمام کاروائی آپ کتاب ‘‘ انوار بشیر ‘‘ پہلا ایڈیشن مطبوعہ 1993 از پاکستان ۔ دوسرا ایڈیشن مطبوعہ 2007 از برطانیہ ۔ تیسرا ایڈیشن مطبوعہ 2010 از جرمنی کے صفحات پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔

علامہ اقبال صاحب نے اپنی تحریرات میں اپنے بھائی مکرم شیخ عطا محمد صاحب کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ وہ احمدی تھے ۔ علامہ اقبال صاحب کے ایک بیٹے مکرم مظفر اقبال صاحب 1982 میں لندن میں فوت ہوئے ( یہ ان کی تیسری بیوی محترمہ مختار بیگم صاحبہ میں سے تھے ) جو کہ تادم حیات احمدی مسلمان رہے اور پھر یہی نہیں بلکہ خود علامہ اقبال صاحب کے والد محترم مکرم شیخ نور محمد صاحب بھی احمدی تھے ۔ یہ تمام باتیں تاریخ پاکستان کا حصہ ہیں لیکن افسوس کہ آج کا پاکستانی مورخ انہیں لکھتے ہوئے ڈرتا ہے ۔

بہرحال ’’ ایک روایت کے مطابق علامہ اقبال نے ….. مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پربیعت کی تھی –‘‘

( ” اقبال اور احمدیت ” تصنیف : بشیر احمد ڈار)

1953ء کے فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت ( منیر انکوائری رپورٹ) میں خواجہ نذیر احمد چیئرمین سول اینڈ ملٹری بورڈ آف ڈائریکٹرز نے یہ بیان ریکارڈ کروایا کہ :-

’’اقبال نے 1893ء میں قادیان جا کر مولانا غلام محی الدین قصوری کے ہمراہ سلسلہ احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔‘‘

عدالت میں بیان دینے کے بعد جب خواجہ نذیر احمد صاحب کی بعد میں قصوری صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی تو انہوں نے بیعت کے سن کی تصحیح فرما دی – اور بتایا کہ علامہ اقبال نے میرے ہمراہ قادیان جا کر 1893ء میں نہیں بلکہ ــــــــــ 1897ء میں بعیت کی تھی – اس پر خواجہ نذیر احمد صاحب نے اگلے روز درخواست دیکر عدالت کے ریکارڈ میں سن کی تصحیح کرادی – ( بحوالہ: ” پاکستان ٹائمز ” لاہور 14 نومبر 1953ء) ۔

سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ آپ ادھر ادھر کے حوالہ جات تلاش کرنے کی بجائے وہ کتب پڑھیں کہ جو خود علامہ اقبال کے عزیزواقارب نے تحریر کی ہیں مثلا

علامہ اقبال کے بڑے احمدی بھائی مکرم ومحترم شیخ عطا محمد صاحب کے بیٹے مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب نے ‘‘ مظلوم اقبال ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے ۔ یہ وہی شیخ اعجاز احمد صاحب ہیں کہ جن کو علامہ اقبال صاحب نے اپنے آخری ایام میں اپنے بچوں جناب جسٹس جاوید اقبال صاحب اور بیٹی منیرہ اقبال صاحبہ کا سرپرست مقررکیا تھا ۔

اسی طرح اس خاندان میں اور کون کون احمدی ہیں اس کا ذکر پاکستان کےجسٹس جناب جاوید اقبال صاحب نے اپنی خودنوشت حیات کتاب ‘‘ اپنا گریباں چاک ‘‘ میں کیا ہے ۔ اب لوگ خود تو کوئی تحقیق کرتے نہیں بلکہ ‘‘ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘ کے مصداق ہمیں الزام دیتے ہیں کہ ہم لوگ کیوں حقائق سے پردہ اٹھا رہے ہیں ۔

اقبال نے جہاں انگریز شُعرا سے اکتساب کیا وہاں فارسی شعرا سے خیالات لا کر اپنی شاعری اُستوار کی۔۔۔۔ مثلا 1289 میں فوت ہونے والے مشہور شاعر فخر الدین عراقی کا شعر ہے

بہ زمیں چو سجدہ کردم، ز زمیں ندا برآمد
کہ مرا پلید کردی، ازیں سجدۂ ریائی

(فخر الدین عراقی)

کہ میں نے سجدہ کیا تو زمیں سے آواز آئی تُو نے ریاکاری سے بھر پور سجدے سے زمین کو پلید کر دیا۔

بالکل یہی خیال اقبال نے چُرا کر، جس کو اقبال پرست اکتساب اور نئی زبان ، مصرع مین جان ڈال دی کہہ کر ملفوف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ یہ چوری ہی ہے۔۔ خیر۔۔۔اقبال نے شعر کہا۔۔ اور میں اس شعر کا کافی شائق رہا ہوں جب تک مجھے عراقی کے اصل ماخذ کا پتہ نہین چلا تھا۔۔۔

میں جو سربسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

اقبال

بات یہ ہے سچ کو سچ کی طرح سے لکھیں جھوٹے مت بنیں ۔ یہ مت کہیں اقبال نے دوسرے مصرعے کی تبدیلی سے شعر میں جان ڈال دی۔ فخرالدین کا شعر بے مثال ہےاور اس میں کسی خاص مذہب کی جانب اشارہ نہیں۔ اقبال کا نماز کا لفظ اور صنم کا لفظ ، اسلامی مقامی خیال تک محدود ہے۔ اس لئے کم درجے کا ہے جبکہ فخر عراقی کا شعر بڑا اور خاکسساری سے پُر ہےاور اصلی سچے خیال کا عکاس معلوم ہوتا ہے۔۔

اقبال مغربی ادبیات سے پورے طورپر آگاہ تھے۔ انھوں نے ’’بانگِ درا‘‘ میں درجن بھر امریکی اور برطانوی شعرا:جیسے لانگ فیلو، ایمرسن، ولیم کوپر، ٹینی سن، براؤننگ، سیموئیل راجرز اور دوسروں کی نظموں سے اخذ و ترجمہ کیا ہے۔ ورڈز ورتھ کا انھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا اور ۱۹۱۰ء میں اپنی انگریزی بیاض میں لکھا تھا کہ ورڈز ورتھ نے انھیں الحاد سے بچایا۔ اسی طرح ملٹن کا بھی ذوق و شوق سے مطالعہ کیا۔ اپنے ایک مکتوب محررہ مارچ ۱۹۱۱ء میں یہ بات درج کی کہ ’’ملٹن کی تقلید میں کچھ لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔‘‘ شیکسپیئر کو انھوں نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ گوئٹے سے بھی اقبال کا گہرا تعلق ہے۔ کیا مغربی ادبیات کے اس حصے سے آگاہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقبال پر مغربی جدیدیت کے اثرات تھے؟ جواب ہاں اور ناں دونوں میں ہوگا۔ ۔ دراصل اقبال نے مغربی ادبیات سے اخذ و استفادے کا عمل اپنے ابتدائی دور میں شروع کیا اور ۱۹۱۰ء تک ان کا شعری مائنڈ سیٹ متشکل ہو چکا تھا۔ اپنے ابتدائی دور میں اقبال کا مغربی ادبیات سے تعلق تقلیدی ہے، انھوں نے کئی مغربی نظموں کو پورے کا پورا اور کہیں مغربی نظموں کے کچھ مصرعوں کو ترجمہ کیا ہے۔ جیسے’’کوپر‘‘ کے اس مصرعے:

And, while the wings of fancy still are free

کو نظم ’’مرزا غالب‘‘ کا یہ مصرع بنا دیا ہے :

ہے پرِ مرغِ تخیّل کی رسائی تا کجا

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اقبال نے مشرقی ادبیات کی روایت کو کھو جا ہی نہیں تھا اسے مرتّب بھی کیا اسکا بھر پور فائدہ اُٹھایا۔ مغرب کے ساتھ ساتھ مشرق کی شاعری کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال نے فارسی، عربی، اُردو، سنسکرت، ادبیات کو ایک روایت ٹھہرایا اور اسے اپنی شاعری کی روحِ رواں بنایا۔ ان کے یہاں فارسی شعرا ملّا عرشی، ابو طالب کلیم، فیضی، صائب، مرزا بیدل، عرفی، خاقانی، انوری، سنائی، حافظ، سعدی ، فخر الدین اور سب سے بڑھ کر فکر رومی کے اثرا ت بالواسطہ اور بطور تضمین ملتے ہیں۔ عربی ادبیات سے انھوں نے ہر چند کسی مخصوص شاعر کے اثرات نہیں لیے مگر عربی شعریات کے اصول سادہ بیانی اور صحرائیت پسندی ضرور قبول کیے۔ مولانا غلام رسول مہر نے جب طلوعِ اسلام پر تنقید کی تو اقبال نے جواب دیا کہ ’’میں عربی شاعری کی روش پر بالکل صاف صاف اور سیدھی سیدھی باتیں کہہ رہا ہوں۔‘‘

اردو ادب کے طالب علموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال کی کئی شہرہ آفاق نظمیں بھی غیر ملکی ادب سے اخذ شدہ ہیں۔ ان میں \’ماں کا خواب\’، \’بچے کی دعا\’، \’ایک مکڑی اور مکھی\’، \’ایک گائے اور بکری\’، \’ایک پہاڑ اور گلہری\’ (ماخوذ ازایمرسن) \’ہم دردی(ماخوذ ازولیم کوپر)، \’آفتاب\’ (ترجمہ، گایتری) \’پیامِ صبح\’ (ماخوذ از لانگ فیلو)،\’عشق اور موت\’ (ماخوذ ازٹینی سن)ِ، \’رُخصت اے بزمِ جہاں\’ (ماخوذازایمرسن) وغیرہ۔

اقبال کو دہریت سے کسی المشہور بہ الہامی کتاب۔۔قرآن وغیرہ نے نہین بچایا۔۔۔۔۔بلکہ۔۔۔۔۔ایک انگریز شاعر نے بچایا۔۔۔۔

مخزن کے پہلے شمارہ ﴿اپریل ۱۹۰۱ء ﴾ میں اقبال کی نظم “کوہستان ہمالہ” کے عنوان سے شائع ہوئی جس پر اڈیٹر کی طرف سے یہ نوٹ ہے۔

شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور جو علوم مشرقی اور مغربی دونوں میں صاحب کمال ہیں، انگریزی خیالات کو شاعری کا لباس پہنا کر ملک الشعراانگلستان ورڈسورتھ کے رنگ میں ہمالہ کو یوں خطاب کرتے ہیں۔

اپنی ابتدائی شاعری میں اقبال نے مغربی شاعروں سے بھر پور استفادہ کیا۔ اس کے متعلق لکھتے ہیں۔

“میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل، اور ورڈ سورتھ سےبہت استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ غالب اور بیدل نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ مغربی شاعری کے اقدار کو سمولینے کے باوجود اپنے جذبہ اور اظہار میں مشرقیت کی روح کو کیسے زندہ رکھوں اور ورڈسورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچالیا”

اقبال پر تعمیری تنقید و گفتگو کی اصل وجہ کیا ہے؟

چونکہ پاکستان کی گزشتہ حکومتوں نے اقبال سے منسوب شاعری اور فکرو فلسفہ کو عوام کے درسی نصاب میں زبردستی شامل کر رکھا ہے،اور ایک مخصوص زاوئیے سے اقبال سے ایک خاص شدت پسندانہ مذہبی سوچ منسوب کی ہوئی ہے، جس کے انکاری خود اقبال کے قابل بیٹے جسٹس جاوید اقبال بھی ہیں، اور بے شمار مشاہیر و علماِ تاریخ نے اقبال کی شاعری اور علم و فکر کا جائزہ مختلف نتیجے پر منطبق کیا ہے تو اس لئے یہ ضروری ہے کہ اقبال سے منسوب گمراہ کُن ، اور حکومتی پراپیگنڈے کی بجائے ثبوت اور دلیل کے ساتھ اصل اقبال کو اسکی شاعری ، فکر اور فلسفے میں پیش کیا جائے۔

تاریخ کا پہلا حوالہ علی عباس جلالپوری جیسے عالم کا ہے جس نے اقبال کی فکر اور فلسفے کو ایک متکلم کی سوچ قرار دیا، یاد رہے متکلم ایسا سوچنے والا ہوتا ہے جو اپنے ایمان و عقیدے کی حقانیت کو اولیت دے کر سائینسی اور زمانی مشاہدوں کی تشریح اپنے اُن عقائد کے ذریعے پیش کرتا ہے جن پر اسکا ایمان ہوتا ہے۔

جہاں کہیں ایمان سے باہر کوئی مشاہدہ یا جلوہ ہو تو اُس کے بارے میں خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے۔

اقبال کے ذہنی و فکری خلفشار کے مختلف ثبوت اور نمونہ جات، میں اپنے مختصر مضامین میں بیان کرتا رہتا ہوں، ایسا کرنے کا مقصد ہرگز اقبال کی شخصیت، خاندان سے کوئی دشمنی نہیں بلکہ اقبال کی فکری و شاعرانہ اصلیت کا درست جائزہ سامنے لانے کی کوشش ہے،

بعض نابکار میرے ایسے استنباط و دلائل کے جواب میں ذاتی رکیک حملے کرتے ہیں، کچھ کہتے ہیں، اقبال کے پیچھے کیوں پڑ گئے؟ اقبال نے تمھارا کیا بگاڑا ہے؟ کچھ کہتے ہیں تم اقبال جیسا ایک شعر کہہ کر دکھاو تو مانیں

ایسی لایعنی باتیں اور مبازرت بھرے کلمے خود ظاہر کرتے ہیں کہ اس معاشرے کو اقبال کی اصل فکری روش سے متعارف کروانا اور بھی ضروری ہو گیا ہے کیونکہ یہ وُہ پود ہے جو مسلسل جھوٹے رُوپ کے درشن کر کے اقبال کو ناحق ایک مذہبی بزرگ قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے اور اسکی وجہ اسکی وہ درسی معلومات ہیں جو اقبالیات کے شعبے نے خاص حکومتی شہہ پر جھوٹے طور پر اقبال سے منسوب کی ہیں۔

بعض نام نہاد پروفیسران تو ایسے آپے سے باہر ہوئے کہ اقبال کے معزز بیٹے جاوید اقبال کے ساتھ گفتگو کے دوران انکو جھٹلانے کی کوشش کرتے رہے۔ جبکہ جسٹس جاوید اقبال انتہائی لبرل سوچ کے دانشور تھے۔ انکے بقول پاکستان، ہندووں نے بنایا ہے۔ اقبال نے کبھی پاکستان بطور ایک الگ آزاد ملک کے کوئی تصور نہیں دیا تھا۔

افسوسناک بات یہ ہےکہ پاکستان کے ٹی وی ریڈیو اخبارات دن رات اقبال کو مفکرِ پاکستان کہتے ہیں اس طرح ایک چالیس پچاس سال کی عمر تک کی نسل کو گمراہ کر دیا گیا ہے۔

اقبال پر اس لئے بھی سچی تعمیری تنقید لازم ہے کہ اقبال کو ایک بزرگ و مصلح کے طور پر پیش کیا جاتا ہے پس اس حوالے سے کوئی بھی جھوٹ اُن سے منسوب کر دینے سے سننے والا اقبال کے نام سے گمراہ ہوتا ہے۔

مثلآً اقبال سے منسوب ہے کہ ایک قاتل علم دین کے ناجائز عمل کو اقبال نے خوب اچھا کہا اور کہا کہ

’’ترکھاناں دا مُنڈا بازی لَے گیا۔۔اسیں ویکھدے رہ گئے۔‘‘

یعنی یہ بات کہنے والے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ توہینِ رسول کرنے والے کو قتل کرنا اقبال کے نزدیک بہت احسن اقدام تھا۔ لیکن اصل اقبال ایسے قتال پر اسطرح اُکسانے والا معلوم نہیں ہوتا۔

اس مثال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے بیانات و فکر و تشریح سے اقبال کو ایک شدت پسند، قاتل ذہن، ٹھیٹھ مسلمان ، موقع پرست انسان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ایک غلط بات ہے۔

میری تحقیق و تبصرہ، اقبال بطورِ انسان، بطورِ شاعر، بطورِ مفکر، بطورِ فلسفی یا متکلم ، بطورِ باپ، بطورِ شوہر، بطورِ نثر نگار ، ، اقبال کیسے تھے پر مشتمل ہے۔

مجھے اقبال سے پرخاش نہیں بلکہ اقبال سے منسوب پاکستان حکومتوں اور جعلی یک نظر مقالوں سے پرخاش ہے۔ اور میں ایسے تمام مقالے رد کرتا ہوں جو اقبال کو ایک آفاقی فلسفی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور جو دوسرے مغربی و مشرقی مشاہیر و شُعرا کے کلام پر مبنی اقبال کے کلام کو اقبال کا ہی کلام کہہ کر پیش کرتے ہیں۔

یعنی جیسے مغربی شُعرا کی شاعری کے تراجم والی اقبال کی شاعری، یا مقامی شعرا خوش خان خٹک، رومی، حافظ، اور ہندی شُعرا سے اکتساب و ترجمہ۔ یہ سب باتیں خالص ادبی لوازمات ہیں۔

لیکن میں کسی طرح بھی اس بات پر راضی نہیں ہو سکتا اور نہ آپ کو ہونا چاہئیے کہ جو شاعری مغربی و مشرقی شُعرا سے اکتساب ہے یا ترجمہ ہے یا ماخوذ ہے اُسے خالصتاً اقبال کی اپنی شاعری کا درجہ دے کر مضامین میں انکے حوالے استعمال کئے جاویں۔

میں سمجھاتا ہوں، کہ جب کسی تقریر میں اقبال پر بات کرتے ہوئے اقبال کی اعلی سوچ کی تعریف کرتے ہوئے حوالہ دیا جائے کہ اقبال کہتے ہیں کہ

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہین کمند

تو ۔۔ قارئینِ کرام ! ساری تقریر ہی جھوٹ پر مبنی ہے، یہ اقبال کے الفاظ نہیں ہیں ،یہ خالصتاً پشتو کے شاعر خوشحال خان خٹک کا کلام ہے جس کا ہو بہو ترجمہ اقبال نے کیا ہے۔

یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے کہ آئیں بائیں شائیں کر کے آپ کہہ دیں کہ تو کیا ہوا ،دوسرے شعرا بھی اور زبانوں کے شعرا کی شاعری کا ترجمہ کرتے رہے ہیں۔۔لیکن جناب،دوسرے ایسے شعرا پر مضامین و تقاریر کرتے ہوئے انکے تراجم کو ان کی اپنی تخلیق نہیں قرار دیا جاتا۔

ایک بار تو حد ہی ہو گئی۔ لاہور میں اقبال ڈے پر، کچھ انگریز مدعو تھے۔ کسی بُدھو نے جسے معلوم نہ تھا کہ بچے کی دُعا اقبال کی نظم ، اصل میں انہیں برٹش انگریزوں کی مشہور شاعرہ میٹلڈا ایڈورڈ کی حمد کا ترجمہ ہے۔ اس نظم کو اقبال کی اعلی تخلیقِ ذاتی کہہ کر پیش کیا۔

یہ اس لئے ہوا ہے کہ درسی کتاب میں واضح طور کبھی بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ یہ نظم کس شاعرہ کی ہے اور نہ کبھی اُس شاعرہ کی تعریف کی گئی ہے۔ جو ادبی ہی نہیں اخلاقی بددیانتی ہے۔اگرچہ اقبال نے اپنی کتاب میں لکحا کہ یہ ماخوذ ہے۔۔مسءلہ پاکستانیوں کا ہے وہ کیوں لوگوں کو بتانا نہیں چاہتے کہ نطم اصل میں ایک اچھا ترجمہ ہے۔؟!

اقبال کی شکوہ جواب شکوہ کا بنیادی تصور ملٹن کی مشہور زمانہ پیراڈائز لاسٹ اور پیراڈائز ری گین سے لیا گیا ہے ۔ اگر آپ اقبال کی شاعری پڑھ کر ملٹن کی شاعری کا پڑھیں تو آپ بلاجھجک یہ بتا سکتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کے بنیادی خیال کہاں سے ماخوذ ہیں۔ اس لئے ہمارے محب وطن پاکستانی بڑے فخر سے یہ کہتے ہیں کہ ملٹن مغرب کا اقبال ہے جبکہ ملٹن کا ظہور اس دنیا میں اقبال سے پہلے ہوئے لہذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اقبال مشرق کا جان ملٹن ہے