الکھ نگری از ممتاز مُفتی

رہ رہ کر مجھے یہ خیال آتا کہ میں ہندوستان چھوڑ کر پاکستان کیوں چلا آیا؟ حالانکہ بمبئی میں مجھے چار ایک کانٹریکٹ مل چکے تھے- زندگی میں پہلی بار ہزاروں روپے کمانے کی صورت پیدا ہوگئی تھی- اس کے باوجود میں بمبئی میں مطمئن نہیں تھا- سہما سہما- اُکھڑا اُکھڑا-
لاہور پہنچ کر میں یوں مطمئن ہوگیا تھا جیسے پنچھی گھونسلے میں آ بیٹھا ہو- حالانکہ لاہور میرا کوئی گھر نہ تھا، ذریعہ معاش نہ تھا، کیا میں اس لیے مطمئن ہوگیا تھا کہ پاکستان میں آ گیا تھا- نہیں یہ کیسے ہوسکتا تھا- مجھے پاکستان سے کوئی لگاؤ نہ تھا، میں نے کبھی پاکستان کو اپنایا نہ تھا-جب قیام پاکستان کی تحریک چل رہی تھی تو میں حیران ہوا کرتا تھا کہ مُسلمان پاکستان بنانے کے لیے کیوں بے تاب ہو رہے ہیں- حالانکہ مجھے اچھی طرح شعور تھا کہ ہندوؤں کے دل مُسلمانوں کے خلاف تعصب سے بھرے ہوئے ہیں- وہ یہ نہیں چاہتے کہ مُسلمان کسی میدان میں آگے بڑھیں، اُن کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہندو اپنا دھرم سمجھتے ہیں- یہ سب کچھہ جاننے کے باوجود مجھے قیامِ پاکستان سے قطعی ہمدردی نہ تھی- شاید اس لیے کہ میں نے خود کو کبھی مُسلمان نہ سمجھا تھا- میں برائے نام مُسلمان تھا- مردم شماری کا مُسلمان-
میرے دل میں ہندوؤں کی بڑی عزّت تھی- بحیثیت قوم وہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے- اُن میں عجز تھا،مٹھاس تھی، رکھہ رکھاؤ تھا، استقامت تھی- وہ مُسلمانوں کی ترح جذباتی نہ تھے- جوش میں نہیں آتے تھے- اپنی موم بتی دونوں سروں پر جلانے کے شوقین نہ تھے- میرے ذہن میں سیاست کا خانہ سِرے سے خالی ہے- سیاسی خبروں سے مجھے قطعی طور پر دلچسپی نہ تھی- سرسری طور پر سُرخیاں پڑھہ لیتا اور متن کو نظر انداز کر دیتا- مُسلمانوں کے اخبارات جذبات میں رنگے ہوتے تھے اس لیے میں روزنامہ ٹریبون پڑھا کرتا تھا-
قائدِ اعظم مجھے پسند نہ تھے- اُن میں عجز نہ تھا- خالی وقار ہی وقار اور پھراس قدر خود اعتمادی اور اصول پرستی، اصول انسان کے لیے بنتے ہیں- انسان اصولوں کے لیے نہیں بنا- سب سے بڑھہ کر مجھے یہ اعتراض تھا کہ قائد طبعاً سیکولر تھے- مُسلمانوں کی نمایندگی کرتے تھے، لیکن اسلام سے با خبر نہ تھے- شخصیت پر اسلام کا رنگ نہ تھا-

مغربی مفکّر

درحقیقت میں خود سیکولر خیالات کا مالک تھا-مذہب کو اچھا نہیں جانتا تھا- اپنے مذہب پر شرمسار تھا- میرے دل میں شک وشبہات یوں بِھن بِھن کرتے جیسے بِھڑوں کا چھتہ لگا ہو-یہ چھتہ میں نے بڑی محنت سے پالا تھا- مغربی علماء نے میری رہبری کی تھی-
کالج میں ایک نالائق لڑکا تھا- مشکل سے بی-اے پاس کیا تھا- پھر محبّت کا ایک بہت بڑا بلبلا پھٹا تو غم غلط کرنے کے لیے اتفاقاً میرے ہاتھہ کتاب لگ گئی اور میں مطالعے میں ڈوب گیا- یہ ایک راہِ فرار تھی- علم حاصل کرنا مقصود نہ تھا-
اُس زمانے میں اردو کی کتابیں عام نہ تھیں-
سکولوں میں اردو صرف آٹھویں جماعت تک پڑھائی جاتی تھی-
نویں جماعت میں اردو زبان لازمی نہ تھی-
کالجوں میں اردو زبان سرے سے رائج ہی نہ تھی-
مشرقی زبانوں کی درسگاہیں الگ تھیں-
ایم اے، ایم او ایل کرنے کے بعد صرف انگریزی میں بی-اے پاس کرنا پڑتا تھا- پھر کہیں بی-اے کی ڈگری حاصل ہوتی تھی-

ایسے طلباء کو جو مشرقی علوم کے بعد بی-اے کی ڈگری حاصل کرتے تھے-
ازراہِ تمسخر- دایا بھٹنڈا کہا جاتا تھا-
میں مشرقی زبانوں اور ادب سے قطعی طور پر کورا تھا-
اس لیے میرا مطالعہ صرف انگریزی تک محدود تھا-
اس کے علاوہ چونکہ اس کی حیثیت فرار کی تھی- اس کی کوئی منزل نہ تھی- سمت نہ تھی- اس مطالعہ سے مجھے صرف ذہنی آوارگی حاصل ہوئی- میرے خیالات سیکولر ہوگئے اور میں مذہب سے دور ہوتا گیا-