اُڑن طشتریاں۔,,,خلائی مخلوق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،Aliens۔۔۔۔۔ UFO۔۔۔

خیالی خلائی مخلوق۔۔۔خیال اڑن طشتری

حسبِ وعدہ خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کے بارے رائے پیش ہے۔
انسانی شعور اور قدرتی میلان ایسا ہے کہ بچپن سے انسان جادوئی غیر مرئی چیزوں اور محیّر العقول باتوں کہانیوں اور چیزوں سے شدید متاثر ھوتے ہیں۔ نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ یہی امید رکھتے ہیں کہ ایسا کچھ ضرور ھو۔،
یعنی ھم اپنے اُس قدرتی میلان کی روشنی میں خیال گُمان اور فینٹیسی کی جانب رغبت رکھتے ہیں۔ اسی خاطر انسان نے سوچا کہ یہ قدرتی حیاتیاتی سلسلہ بنانے والی طاقتوں کو سوچا جائے انکا ھیولہ یا حلیہ بنایا جائے۔۔ زمانہ قدیم سے خیال گُمان وسوسہ اور خوابی ماحول کے تحت کسی نہ کسی چیز کو خود سے بھی برتر جادوئی پاک۔۔پوِتّر ماننے کا قدرتی رجحان انسان کے اندر ہے۔اس رجحان کو شدید تقویت دینے والی چیزوں میں خوف۔۔۔اور دوسرا لالچ شامل کیا جاتا ھے۔عربی مذاھب خاص طور پر ایسے ہی سوچ کے تحت رایج کئے گئے۔یونان کی عقل و شعور میں بڑھی قوم میں بھی دیوتاوں یا ھر خدائی صفت کا کوئی خدا یا دیوتا مقرر کیا گیا ھندو ازم میں بھی یہی نظر آتا ھے اسلام میں بھی ایک ہی خدا کو وہ سارے صفات دینے کی کوشش 99 ناموں مین ملتی ہے جو اصل میں انسان کی اپنی صفات ہیں۔ پس انسان اپنے خدا یا دیوتا یا خود سے زیادہ طاقت و شعور رکھنے والی سوچ کا اسیر ہے۔۔ بعض اوقات کئی مزھبی جب لاجواب ھو جاتے ہیں تو کہتے ہین اچھا اب مین اپنا مذھب چھوڑ کونسا مذھب اختیار کروں۔۔کیا عیسائی ھو جاوں۔۔۔ یا عیسائی کہیں گے کیا مسلمان ھو جاوں۔۔۔شیعہ کہے گا کیا احمدی ھو جاوں احمدی کہے گا کیا دیوبندی ھو جاوں ؟
میں حیران ھوتا ہوں کہ اے بندہِ اسیر۔۔۔ تجھےمذھب کی کیا ضرورت ہے؟ کیا عالمی اخلاق نہین بتاتے کہ جھوٹ بولنا فریب دینا بےایمانی کرنا قطار بندی نہ کرنا چوری ڈاکہ۔۔قتل ایذا پہنچانا بُرے اعمال ہیں؟ آخر مذھب کے بتانے سے ہی کیوں ماننا ہے۔ ۔۔۔؟ یوں بھی مذھبی ممالک میں پھانسیوں اور سزاوں کی تعداد غیر مذھبی ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔
مذھبی خداوں دیوی دیوتاوں کی طرح انسانی سوچ ھم جیسی یا ھم سے بہتر کسی مخلوق کے بارے میں بھی پُرامیدی رکھتی ہے۔مثلاً قران میں اور کہانیوں یا افسانوں کی طرح جنّوں کا ذکر بھی ہے۔بلکہ سُورۃ کا نام سُوڑۃ الجن ہے ۔۔یعنی ایسی مخلوق جو آگ سے پیدا کی گئی ہے۔ ویسے یہ نہایت بیہودہ خیال ہے کیونکہ آگ تو کائنات کی ھر چیز کو جلا دیتی ہے۔پس بہت ہی زیادہ درجہ حرارت سے بھی دھاتوں کے درمیان تعامل ھونے سے دھاتین ھی بنیں گی یا گیسیں بنیں گی۔۔کوئی اور جیتا جاگتا وجود کسی صورت بننا ممکن نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے انسان کی مذھبی اور رجعتی سوچ کا کہ یہ فرض کر کے کہ جو سُن لیا پڑھ لیا وہ عین سچ ہے پوری زندگی اسی ایمان پر ضائع کر کے لوگ مَر جاتے ہیں۔
جنوں ہی طرح جب انسانی سوچ کسی طبیعی قدرتی کیمیائی یا طبیعاتی مظہر کو سمجھ نہیں پاتی تو اُسے فوری طور پر کسی غیر مرئی طاقت کا کام قرار دیتی ہے۔اس سے اسکے اس پرانے ایمان کی تسکین ھو جاتی ہے کہ ھم سے بہتر طاقتیں موجود ھیں۔جو جیسا چاھیں کر سکتی ہیں ھم جو نہین کر سکتے وہ کر سکتی ہیں۔
اسی سوچ کے تحت دنیا بھر کی تاریخ میں لوگوں نے ھر طرح کی خلائی مخلوق کے دیکھنے کا ذکر کیا جو انسان کی سوچ پڑھ لیتی ہے یا آنکھوں میں دیکھ کر انسان کو ساکت کر دیتی ہے۔انسان بےحس ھو جاتا ھے دیکھ سُن سکتا ھے مگر کچھ عمل نہیں کر سکتا۔۔
پھر اس خلاقئی مخلوق کے آنے جانے کو سواری کے لئے مختلف نام دئیے گئے جیسے جبرائیل ۔۔۔کا اڑتے گھوڑے پر سفر کرنا۔۔۔جیسے کسی گول یا بیضوی چیز اڑن گاڑی جس مین سے شعائین نکلتی ہوں اسکا ذکر کرنا۔۔۔
امریکہ چونکہ جدید ٹیکنالوجی میں سب سے آگے رھا ھے اس لئے امریکہ کے اداروں پر الزام ہے کہ وہ
خلاقئی مخلوق سے رابطہ کر چکے ہیں۔۔یا خالقئی مخلوق کی گاڑی زمین سے ٹکرائی تو اسکے پرزے اور خلائی مخلوق کو زخیمی یا مردہ حالت میں امریکہ کے اداروں نے پکڑا اور کہین چھپایا ھوا ھے وغیرہ۔۔
اسی حوالے سے سیاسی یا کسی اور چال کے تحت وقتاً فوقتاً امریکی میڈیا اڑان طشتریوں کا ذکر شروع کر دیتا ھے۔تاکہ لوگوں کی توجہ کسی اور اھم صورتِ حال سے ھٹائی جاوے۔
اسی کے تحت پچھلے کچھ دنوں سے امریکی کانگریس کی ایک خصوصی کمیٹی کچھ ریٹائیرڈ خلائی ریسرچرز اور سائینسدانوں سے سوال جواب کر رھے ہیں،،
تاھم کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی نہ ھو کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے۔صرف دعوے جات ہیں۔۔ناسا مکمل انکار کر چکا ہے۔
مشہور سائیسندان نیل ڈیگراس ٹائیسن نے چند دن پہلے لکھا کہ
۔Sometimes I wonder whether alien space vessels are inherently fuzzy & out-of-focus (that would be terrifying). And whether they love the US Navy
(that would be charming).
If so, it would explain a lot.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی مجھے حیرانی ہے کہ خلائی مخلوق کے جہاز ھمیشہ دھندلے اور غیر واضح ہی کیوں ھوتے ہیں (ویسے یہ خوف والی بات ہے) اور انکو امریکہ کی نیوی سے ہی چھپنے چھپانے میں کیوں لطف آتا ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی نیل ٹائیسن عمومی خیال کو جُھٹلا رھا ھے کہ ایسی کوئی خلائی گاڑی یا مخلوق ہے۔اب یہ روشنیاں اور دھندلی چیزوں کی تیز ترین حرکت کیوں ھوتی ہے تو اس بارے فزکس شاید ابھی اس میگنیٹک اور الیکٹریکل میدان کو سمجھ نہیں سکی جسکی وجہ سے قریبی جہازوں کے بعض انسٹرومینٹ کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔عام لوگوں کو شاید معلوم نہ ھو کہ آسمانی بجلی کا گیند سا جب بےپناہ چارج کی وجہ سے بنتا ھے تو بعض اوقات جہاں بنتا ھے وھاں سے 25 کلومیٹر دور بھی جا کر گِرتا ہے۔یعنی جہاں بادل ہیں وھاں سے ادھر بھی جا کر گِر سکتا ھے جہاں بادل نہیں ہیں۔جو غیر سائینسی ذھن کے عام شخص کے لئے سمجھنا بہت مشکل ہے اور ایسا ھوتا دیکھ کر وہ فوری خدا کے غضب ۔۔۔۔خلائی مخلوق کی گاڑی وغیرہ کے خیال کی روشنی میں مشاھدے کو بدل بدل کے پیش کرے گا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ نہایت تیز رفتار کیمرے ان خلائی گاڑیوں کی تصویر تک نہین لے سکتے جو واضح ھو ۔۔۔اسکی وجہ میرے یہی ہے کہ بے پناہ چارج کے دباؤ اور برقی اور مقناطیسی میدان کی وجہ سے کیمرے کی جانب جانے والے روشنی اپنے معمول یا منطر کی تصویر دھندلا جاتی ہے۔
میں سائینس کا معمولی طالب علم ہوں لیکن میں نے نیل ڈیگراس ٹائیسن کو لکھا کہ جس زاوئیے سے میں سوچ رھا ہُوں اسکو پرکھنے کا کیا طریقہ ھو سکتا ھے؟ کیونکہ یہ رپورٹ کیا جاتا ھے کہ جیسے 1976 کے ایرانی اڑن طشتری والے کیس میں دوسرے جہاز کے نہایت ماھر پائلٹ نے بھی جب جوابی میزائل داغنے کی کوشش کی تو قریبی فاصلے پر اسکے انسٹرومینٹ فیل ھو گئے۔۔ اسنے خؤد کو بچانے کے لئے سرعتی گراوٹ کو اختیار کیا۔۔۔تو بعد مین اسکے انسٹرومینٹ کام کرنے لگے۔۔
اس سے صاف معلوم ھوتا ھے کہ ایسی خلائی چیز کے قریبی علاقے میں بجلی سے چلنے والی چیزیں متاثر ھوتی ہے۔اب اگر آپ سولر سسٹم اور اس سے زمین پر پہنچنے والے خلائی شمسی طوفانون کے بارے جانتے ہوں آپ کو معلوم ھوگا کہ شمسی سولر طوفانوں کی وجہ سے ھماری مواصلاتی نظام درھم برھم ھوجاتے ہیں۔۔کمپیوٹر ۔۔انٹرنیٹ،،بجلی کی ترسیل کا نظام سب متاثر ھو جاتے ہیں۔،، شمسی طوفان اگر شدید تر ھوں تو خلا میں مواصلاتی سیارے ان بےپناہ طاقتور مقناطیسی میدانوں کی وجہ سے تباہ ھوجاتےہیں۔ جاپان کو سیارہ بھی ایسے ہی شمسی طوفان نے تباہ کیا تھا۔
پس یہ خلائی روشنیاں جو لوگ دیکھتے ہین اور جنکی تصاویر تک ٹھیک سے نہین بن سکتیں اور جن میں سے روشنیان نکلتی ہیں۔۔شاید مقناطیسی اور برقی ارتکاز کے حصار ہوتے ہیں اور بعض اوقات ساکن ھوتے ہیں لیکن جب حرکت کرتے ہیں تو بعض اوقات روشنی کی رفتار سے طرح غائب ھو جاتے ہیں۔ انکا اتنی تیزی سے غائب ھونا یا ایک جگہ کے الٹ کسی جگہ جا موجود ھونا بتاتا ھے کہ وہ دھاتی سٹرکچر نہیں ہیں ۔۔۔یہ تو سائینسی استدلال تھا دیکھتے ہیں سائینس اس پر آگے کیسے روشنی ڈالتی ہے۔
اب ھم اس پر فلسفیانہ اور منطقی طور پر غور کرتے ہیں۔
اگر یہ نظام حیات کسی طاقت یا خدا یا خداوں نے بنایا ہے تو ظاھر ھے وہ ھم سے زیادہ طاقت ہیں۔۔ اگر وہ اپنے آپ کو کسی ڈائمینشن یا جہت میں چھپائے ھوئے ہیں تو ھم جتنا چاھیں ترقی کر جائیں انکو۔۔انکی مرضی کے بغیر نہیں ڈھونڈ سکتے۔
اگر اُن طاقتوں نے یا طاقت نے یا خدا نے کچھ بھی کہہ لیں(لیکن مذھبی خدا جھوٹ ہے) اگراس زمین کی مخلوق کے علاوہ بھی کوئی مخلوق بنائی ہے تو کیوں وہ ھم سے زیادہ طاقت ور ھوگی؟جبکہ کروڑوں اربوں سالوں کے ارتقا سے ھمارا وجود کم از کم زمین پر اشرف المخلوقات طے ھوا۔ اگر کروڑوں سالوں میں یہ سنگ میل انسان تک پہنچا ھے تو کیسے ممکن ہے کہ کہین اور اس سے بہتر ڈیزائین کی حامل مخلوق بن گئی ہو؟ کیونکہ جب خدائی طاقتیں کنٹرولڈ ارتقا کی جانب چل رھے ہین تو کسی اور سیارے پر اس سے بہتر ڈیزائن ممکن نہیں۔یعنی اگر جدید ترین کمپیوٹرز کو جوڑ کر سُپر کمپیوٹر صرف اسنان زمین پر بنانے میں بمشکل کامیاب ھوا ھو تو کسی کسی ستارے یا چاند اس سے بہتر کمپیوٹر انسان تیار کر لے گا؟
پس عقلی طور پر یہ ممکن نہیں۔
مذھب خدا کا خیال تو خیر نہایت ھی ادنی خدا کا خیال ہے جو جنت دوزخ بنا کر بیٹھے ھوئے احمق اور طیش سے بھرے بُڈھے کی صورت کا خیال ہے۔جسکو گناہ گار انسانون کو دوزخ میں پھینکنے اور نیکوکاروں کو کنواری عورتیں دینے کے سوا کوئی خوف یا لالچ معلوم نہیں۔ ایسے خدا نے جب انسان کو اشرف المخلوق قرار دیا ہے تو پھر خلائی مخلوق کی گاڑی اور اسکی کارستانیاں انسانوں کے لئے ھیچ ھونی چاھئیں۔اور انسان کو غالب آنا چاھئیے۔۔لیکن کیا کیا جائے کہ مذھب بیچارہ خود ھی متضاد سوچ کا کنفیوذ خدا رکھتا ھے جس نے جن بھی بنائے آگ سے۔۔۔۔جو سلیمان کا تخت ایک پل میں اسکے پاس لے آئے۔
تیسرا زاویہ یہ ہے کہ کیا یہ روشنیاں یا خلائی جہاز وغیرہ۔۔۔کہیں خدائی طاقت کے مظاہر نہ ھوں؟
آئیے غور پر کرتے ہیں کہ حیاتیاتی نظام میں نام نہاد خدا یا خدائی طاقتوں نے کیا کبھی حیاتیاتی نظام چلانے کو اعلی ترین طبیعاتی فلکی مقناطیسی میدانوں کو استعمال کیاہو؟ ھم دیکھتے ہیں کہ کیمیائی تعامل کثرت سے انسانوں جانوروں اور پودون میں استعمال ھوتے ہیں۔ مگر بہت مقامات پر حیاتیاتی طاقت۔۔۔ طبیعاتی یا فزکس کے اصولوں کی مکمل غلام ہے اور کسی بھی جگہ کسی بھی طور پر کائنات کے فلکیاتی اور طبیعاتی نظاموں پر کسی فنکشن کی وجہ سے کسی کاریگری سے تسلط نہین پا سکی۔
مثلاً انسانی فوطے اس لئے جسم سے باھر آتے ہیں کہ اندر کی زیادہ گرمی سپرمز کو مار نہ دے۔ یعنی ایسا نظام نہ بنا سکا کہ سپرم اندر ہی رھتے

فالتو عضو باھر لٹکانے کی کیا ضرورت تھی؟

One of my favorite examples of evolution and how we can see it in living things today:  The laryngeal nerve of the giraffe, linking larynx to brain, a few inches away — but because of evolutionary developments, instead dropping from the brain all the way down the neck to the heart, and then back up to the larynx.  In giraffes the nerve can be as much as 15 feet long, to make a connection a few inches away.  Richard Dawkins explains:
All mammals have the nerve, and as a result of our fishy ancestry, in all mammals, the nerve goes down the neck, through a heart blood vessel loop, and back up.  In fish, of course, the distance is shorter — fish have no necks
.


ڈاکٹر رچرڈ ڈاکنز سے سائینسدانوں کے ایک بڑے ھال میں ایک نمائش کی اور ایک زرافے کے دماغ سے حلق میں آنے والی اور پھر واپس آنے والی نرو ٹیوب کو دکھایا۔
laryngeal nerve
دماغ سے نکل کر جانداروں کے حلق میں آتی ہے انسانوں میں اور مثلاً مچھلیوں میں یہ نرو دماغ سے گلے میں آ کر واپس جاتی ہے لیکن راچرڈ ڈاکنز اسے کاپی پیسٹ ڈیزائن کی خرابی کہتا ہے کہ ذرافے میں یہ نرو ٹیوب دماغ سے نکل کر لمبی گردن سے ھوتی ھوئی دل کے قریب سے یوٹرن لیکر واپس دماغ میں چلی جاتی ہے۔جبکہ ھرگز اسکی کوئی طبی ضرورت نہیں تھی۔
اس سے پتہ چلتا ھے کہ خدائی طاقتوں یا طاقت نے کیمیائی تعاملات کو حیاتیاتی سلسلے میں رایج کرنے میں مکمل کامیابی نہیں پائی کچھ خامیاں موجود ھیں۔ جو ھر سال لاکھوں معزور انسانوں معزور درختوں ، معزور پرندوں اور معزور جانوروں کی ناقص پیدائیش کا باعث ہے
یونیسیف کے مطابق اس وقت دنیا میں 240 ملین معزور بچے ہیں
اب سوچیں کہ یہ تعداد پاکستان کی آبادی سےبھی زیادہ ہے۔اگر بالغ اور معزور بچے شمار کریں تو تعداد 1300 ملین سےبھی زیادہ ھوگی۔ یعنی کُل انسانی آبادی کا چھٹا حصہ معزور ہے؟ کیا خدائی ڈیزائینگ نقایص سے عاری ہے؟ نہیں ھرگز نہیں
۔۔پس ۔ خدا کی اس ڈیزائینگ کی خامی کے باقصف ھم کہہ سکتے ہیں کہ ھمارے خداوں یا خدا کی ھم سے بہتر کسی خلائی مخلوق کا تصور درست نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا
کینیڈا
www.silsla.com

Rafi Raza

پہلی اھم کتاب خدا کی تاریخ

کیرن آرمسٹرونگ ایک کیتھولک نن تھی۔ جس نے مذھب کو چھوڑ دیا تھا۔اور بدھ ازم کے قریب چلی گئی تھی۔

خدا بناتا ہُوں پھر اُسکا ڈر بناتا ہُوں

مَیں جتنا نیک ہُوں اُتنا ھی شَر بناتا ہُوں

رفیع رضا

ریحام خان کی کتاب کے اھم ابواب کا ترجمہ

پاکستانی سیاست میں بھونچال مچانےوالی ریحام خان کی کتاب بالآخر منظر عام پر آگئی جس میں انہوں نےاپنی زندگی

کے حوالے سے کئی انکشافات کیے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کی کتاب نے پاکستانی سیاست میں ہلچل مچادی تھی، سوشل میڈیا پر جاری کیے جانےوالے کتاب کے متن میں عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں پر الزام تراشی کی گئی تھی۔ اپنی کتاب میں ریحام خان نے عمران خان پر اقرباپروری اور جنسی ہراسگی کا الزام بھی عائد کیا تھا۔ریحام خان کی کتاب کا نام ان ہی کے نام پر یعنی ’’ریحام خان‘‘ہے۔ عمران خان کی سابق اہلیہ نے ٹوئٹ کرتے ہوئے اطلاع دی کہ ان کی کتاب برطانیہ اورکچھ ممالک میں کتابی شکل میں جب کہ دنیا بھر میں آن لائن دستیاب ہے۔ریحام خان نے ایک اور ٹوئٹ میں بتایا کہ ان کی کتاب آن لائن ویب سائٹ امیزون ڈاٹ کام پر بھی دستیاب ہے جہاں سے اسے دس ڈالر میں خریدا جاسکتا ہے جو پاکستانی روپوں میں بارہ سو روپے بنتے ہیں۔۔ ریحام خان نے لکھا ہے کہ کتاب کو پبلش کرنے میں میرے بیٹے ساحرنے میرا بہت ساتھ دیا۔

ریحام خان نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ ان کے والدین ساٹھ کی دہائی میں پاکستان سے لیبیا آئے اوروہیں ان کی پیدائش ہوئی، ہم دوبہنیں اور ایک بھائی ہیں جب کہ والد لیبیا میں ڈاکٹرتھے۔کتاب میں اپنے پہلے شوہر اعجاز رحمان کے حوالے سے چشم کشاانکشافات کیے ہیں۔ کتاب میں انہوں نے کہا کہ میرے بچے اردو، پشتو اور پنجابی روانی سے بولتے تھے، ریحام خان نے اپنی بیٹی ردھا کی پیدائش کا ذکر کیا، ردھا برطانیہ کے اسپتال پہنچنے کے پانچ منٹ بعد ہی دنیا میں آگئی، ردھا پیدائش کے بعد مسلسل پندرہ منٹ روتی رہی ، میرا بیٹا ساحر ردھا کا خیال رکھتا، گودمیں لے کراسے فیڈر پلاتا رہتا، ساحر رات کو اٹھ کر چلتا رہتا ریحام خان نے کتاب میں اپنے سابق شوہر کے ظلم کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اعجاز نیند سے جگانے پر اس کی پٹائی کرتے، بچوں کو مغربی کھانوں پر لگانے پر اعجاز اکثر طویل لیکچر دیتے، اعجاز بچے کے پیزا کھانے کی خواہش پر بھی بڑھک اٹھتے۔ ریحام خان نے مزید لکھا ہے میری دوسری بیٹی انایا کی پیدائش 8 مئی 2003 کو صبح آٹھ بجے ہوئی، اگست 2003 میں اعجاز نے مجھے پاکستان

میں چک شہزاد رہنے کے لئے بھیج دیا۔

کتاب کے متن کے مطابق ریحام خان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کے لئے میں نے اپنے گارڈ کو ہمہ وقت ساتھ رہنے کی ہدایت کی، پہلے پارٹی سیکرٹریٹ کے ایک ٹھنڈے اور بے ترتیب بیڈ روم میں نعیم الحق نے میرا انٹرویو کیا پھر نعیم الحق میری کار میں بیٹھ گئے اور ہم بنی گالہ آگئے، نعیم الحق آگے آگے چل رہے تھے، میرے گارڈ نے کان میں سرگوشی کی، یہ آدمی ٹھیک نہیں۔ مجھےایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں سر سے پاؤں تک بلیک لباس میں عمر رسیدہ آدمی پشت کر کے کھڑا تھا، کالے لباس والا آدمی کوئی اور نہیں لیجنڈ (عمران خان) خود تھا، انہوں نے مجھے پلک جھپکائے بغیر گھورنا شروع کیا، نعیم الحق نے بطور اینکر میرا تعارف کروایا، میں نے ٹخنوں تک لمبی قمیض اوپر بلیک جمپر اور بلیو ٹراؤزر پہن رکھا تھا، میں نے لباس کا انتخاب سنجیدہ نظر آنے کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا، تو آپ کہاں سے ہیں، میز کے دوسری طرف سے مسلسل گھورتے ہوئے سوال پوچھا گیا، برطانیہ سے، میں نے مختصر جواب دیا۔عمران خان سے شادی کے بعد کے واقعات کے حوالے سے کتاب میں لکھا گیا ہے کہ عید کے دن بنی گالہ میں عمران خان کے ساتھ بنائی گئی تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ میرے بیٹے نے عمران خان کے گلے میں بازوڈالناچاہالیکن عمران پیچھے ہٹ گیا۔

کتاب کے ایک باب میں ریحام خان نے عمران خان پر انتہائی سنگین ترین الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ گھر کیلئے نئے لکڑی کے دروازے بنوانے تھے اور عمران خان سے بات کی تو وہ کہنے لگے کہ اگر اچھی لکڑی کی ضرورت ہو تو ٹمبر سے حاصل کر لو، میں عمران خان کی بات سن کر حیرت زدہ رہ گئی کہ میرا شوہر اور لیڈر کہہ رہاہے کہ اس کی بیوی غیر قانونی طریقے سے لکڑی حاصل کرے ۔اپنی آپ بیتی میں ریحام خان لکھتی ہیں کہ ۔۔ میں نے اپنے آپ کو گھر کی سجاوٹ میں مکمل طور پر مشغول کر لیا تھا ، یہ چیزمجھے بہت پسندبھی تھی ، لیکن زندگی نے مجھے اس کام کیلئے کبھی زیادہ وقت نکالنے نہیں دیا ،جس طرح ہم گھر سجا رہے تھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی نیا شادی شدہ جوڑا گھر کو نئے سرے سے بنا رہاہے ،سجاوٹ کا کام آہستہ آہستہ جاری رہا ، بلیک اور گرے رنگ کی اسکیم انتہائی خوبصورت تھی ، آخر کار صوفوں کا کام مکمل ہو گیا اور اس پر تقریبا تین لاکھ روپے خرچ آیا جو کہ میں نے خود ادا کیا بجائے ان پیسوں میں سے لینے کے جن پیسوں کے بنڈلز بنی گالہ میں مسلسل آ رہے تھے، مجھے بتایا گیا کہ یہ لندن سے انیل مسرت کی طرف سے آ رہے ہیں ۔ریحام خان کا کہناتھا کہ میں نے اپنے ڈرائیور اور پی اے کو تنخواہ ہمیشہ اپنے ذاتی پیسوں میں سے دی صرف اس لیے نہیں کہ پی ٹی آئی انہیں پسند نہیں کرتی تھی بلکہ اس لیے کہ انہیں وہاں میں خود لے کر گئی تھی ۔ریحام خان کا کہناتھا کہ سب سے زیادہ خرچ گھر کے کیلئے نئے لکڑی کے دروازوں پر آنا تھا جو کہ ایک دروازہ تقریبا 25 ہزار روپے کا بن رہا تھا ، تاہم ہم دونوں کے پاس ہی اتنے پیسے نہیں تھے ،تو میں نے فیصلہ کیا کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی دروازہ بنوایا جائے اور گھر کے پیچھے والے دروازے جو کہ نظر نہیں آتے انہیں سٹیل کا بنوایا جائے جس سے خرچ بھی کم ہوگا اور وہ پائیدار بھی ہوں گے ،عمران خان کو بے صبری تھی کہ سارا کام جلدی ختم ہو جائے ، میں نے انہیں بتایا کہ لکڑی کے دروازے بہت مہنگے ہیں اور میں نے پہلے ہی اپنی جیب سے کافی مہنگے کارپٹس خرید لیے ہیں تو وہ مجھے زور دے کر کہنے لگے کہ میں تمام دروازے ایک ساتھ ہی بنوا لوں اور اگر مجھے اچھی قسم لکڑی ضرورت ہے تو ٹمبر سے حاصل کر لوں جس پر پابندی عائد کرتے ہوئے کارروائی شروع کر دی گئی تھی ۔میں حیرت زدہ رہ گئی کہ میرا شوہر اور لیڈر کہہ رہاہے کہ اس کی بیوی لکڑی غیر قانونی طریقے سے حاصل کرے ۔

اس کتاب میں عمران خان کے ایک موبائل کا بھی تذکرہ ہے جس پر ماضی میں تحریک انصاف کے رہنماؤں نے کافی تنقید کی ۔اس موبائل کے حوالے سے ریحام خان نے اپنی کتاب میں تذکرہ کرتے لکھا کہ ایک رات پہلے میری عمران خان سے بہت لڑائی ہوئی اور اگلی صبح میں باتھ روم میں کھڑی تھی وہ باہر آئے اور کہا کہ گزشتہ رات جو ہو ا اس پر مجھے معاف کردو ،عمران خان کی جانب سے اس معافی پر مجھے دھچکا لگا ،اس وقت مجھے لگا کہ عمران خان کو حقیقت میں پچھتا وا ہوا ہے ۔اس وقت میں نے عمران خان نے جب مجھے گلے لگا یا تو میں نے سختی سے کہا کہ یہ ہینکی پینکی بند ہو جانی چاہیے ،آپ کو اپنے عمل درست کرنا ہو گا ،اب میرافون دو اور اس میں سے سب ڈیلیٹ کردو ۔عمران خان نے کہا کہ تمہارے پاس نیا فون آگیا ہے ،اپنا نمبر کسی کو نہ دینا ،ہم وائبر پر بات کیا کریں گے ۔عمران خان نے پرانے موبائل کے بارے میں کہا کہ وہ بہت سست ہو گیا ہے میں نے کہا ایک دن کے استعمال کے لیے دے دو ،ہم اسے دوسرے ماڈل کے ساتھ کل تبدیل کر لیں گے ۔عمران خان نے کہا کہ میرے بیگ میں سے اپنا فون لے لو اور میں نے وہاں سے موبائل لے لیا ۔پھر میں نے لندن جانے سے پہلے عمران خان سے ملاقات کی ،اس موقع پر عمران خان نے کہا کہ تم اب کیوں جا رہی ہو میں نے جواب دیا کہ کیوں نہ ہم ہفتے کو ملیں ،ہماری شادی کی پہلی سالگرہ ہے اس پر مجھے سرپرائز دو ،اس پر عمران خان نے کہا کہ وہاں میرے لڑکے ہیں میں کیسے ملوں گا تو میں نے کہا کہ ہم اکٹھے رات کا کھانا کھائیں گے اور پھر تم اپنے لڑکوں کے پاس چلے جانا ۔پھر میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر یوسف کے ساتھ ائیر پورٹ کے لیے چلی گئی ،راستے میں یوسف نے مجھے فون دیا جس پر میل باکس پہلے سے کھلا ہوا تھا جسے دیکھ کر میں دنگ رہ گئی اور اس تکلیف کو بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ان میں سے ایک ای میل عمران خان اور لاہور میں ان کے حجام کے درمیان تھی ۔ایک اورای میل پیغامات میں عمران خان ایک خاتون سے کہہ رہے تھے کہ انہیں اس خاتون سے شادی کرنی چاہیے تھی ،ایک اور ای میل پیغام میں عمران خان ایسی خاتون سے بات کر رہے تھے جسے وہ ملے ہی نہیں ،عمران خان اس سے میرے ماضی کے بارے میں معلومات لے رہے تھے ۔ایک ای میل میں کئی ہفتوں سے پیغامات کا تبادلہ ہو رہا تھا جو عمران خان اور ان کی سابقہ گرل فرینڈ کرسٹین بیکر کے درمیا ن تھی ۔کرسٹین بیکر عمران خان کو بتا رہی تھی کہ میرے پہلے شوہر کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں تاکہ مجھ پر حملے کرائے جا سکیں ۔میں نے یہ تمام ای میلز اپنے اکاﺅنٹ پر بھیج دیں اور اپنے بیٹے کو بھی بھیج دیں ۔پھر میں نے عمران خان سے رابطہ کیا تو آگے سے انہوں نے پیغام بھیجا جب چیزیں بہتر ہونے لگتی ہیں تو کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے ،ہم منحوس ہیں ،اس پر میں نے کہا تمہیں اللہ سے معافی مانگنی چاہیے ،میں واپس بنی گالا آرہی ہوں اور تمہیں یہ سب دکھاؤں گی ۔پھر عمران خان نے پیغام بھیجا ایک دن میں تمہیں بتاؤں گا کہ پچھلے دس مہینوں سے میں کن حالات سے گزر رہا ہوں ،لوگوں کی جانب سے تمہارے ماضی کے بارے میں جو باتیں سننے کو مل رہی ہیں ،میں بہت کنفیوز ہو گیا ہوں ،اور بہت ٹوٹ چکا ہوں ۔میں تم سے پیار کرتا ہوں اور مجھے ہر اس چیز پر شک ہے جو تم نے مجھے بتا ئی ۔میں نے روحانی لوگوں سے رہنمائی ما نگی جس سے میں اور زیادہ کنفیوز ہو گیا ہوں ،میں پاگل ہو رہا ہوں ۔

زلفی بخاری امیر کبیر شخص ہیں اور عمران خان کے قریبی دوست ہیں۔ ریحام خان نے اپنی کتاب میں ان کے اچانک دولت مند ہونے کے متعلق ایسا خوفناک انکشاف کیا ہے کہ ہر سننے والا دنگ رہ جائے۔ اپنی کتاب میں ریحام خان لکھتی ہیں کہ ’’جب میں لندن گئی تو عون مجھ سے رابطے میں رہا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہاں مجھے زلفی بخاری کا ڈرائیور ایئرپورٹ پر لینے آئے گا۔ جب میں پہنچی تو زلفی کی بینٹلے گاڑی اس کا بھارتی ڈرائیور سدھیر لے کر پہنچا ہوا تھا۔ وہ مجھے لے کر مے فیئر میں زلفی بخاری کے آفس لے کر گیا۔ میں زلفی بخاری کو ایک بار بنی گالہ میں مل چکی تھی۔ عمران خان ایک طرف اس کی سیاسی ناپختگی پر طنز کرتا تھا اور دوسری طرف انتہائی کم عمری میں اتنا زیادہ پیسہ کمانے پر تعریف کرتا تھا۔ یہ بات میرے لیے بھی خاصی دلچسپی کا باعث تھی کہ آخر وہ راتوں رات اتنا امیر کیسے ہو گیا۔۔ریحام خان مزید لکھتی ہیں کہ ’’جب میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ زلفی بخاری کا باپ واجد بخاری ایک سیاستدان تھا۔ اس نے ضیاء الحق کے دور میں پاکستان سے لوگوں کو لیبیا اور چاڈ بھجوانے کا کام کرکے بہت زیادہ رقم کمائی تھی۔ان لوگوں میں زیادہ تر پشتون تھے جنہیں اس نے لیبیا اور چاڈ اسمگل کیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ واجد بخاری جب یہ دھندا کر رہا تھا تو صرف ایک پھیرے میں 400سے زیادہ پاکستانی سمندر میں ڈوب کر مر گئے تھے۔

ریحام خان نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیاہے کہ سابق کھلاڑی زاکر خان کا عمران خان کے ساتھ انتہائی گہرا تعلق تھا ، عمران خان ہمیشہ زاکر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے ،وہ کرکٹ کے دور سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے ، عمران خان کبھی بھی چھٹیوں پر جاتے تھے تو زاکر اس کے ’انتظامات‘ کرتا تھا ، مجھے یہ صاف نظر آ تا تھا کہ زاکر جس طرح خواتین میں اپنی خوبصورتی کیلئے مشہور تھا اسی طرح وہ عمران خان کے ساتھ بھی تھا۔ریحام خان کا کہناتھا کہ عمران خان کا اپنے دوست ’موبی‘ کے ساتھ بھی ایک ساتھ رہنے والا تعلق بھی عجیب و غریب تھا ،عمران خان کو خود کو اس کی بیوی کہنا چاہیے، جب انہوں نے تیسری شادی کی تو انہوں نے اپنی بیوی کے بجائے عمران خان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا نہ کہ اپنی بیوی کے ساتھ، مجھے محسوس ہوا کہ ان تعلقات کو سمجھنا بہت مشکل ہے اس لیے اسے میں نے چھوڑ دیا تاہم ایک مرتبہ میں عمران خان کے سائیڈ ٹیبل کے بائیں دراز کی صفائی کر رہی تھی کہ اس میں سے مجھے سگار کے ڈبے ملے اور ” کے وائے جیلی“ کی بڑی بڑی ٹیوبز ، جب میں نے عمران سے پوچھا کہ یہ کس لیے ہیں تو عمران نے مجھے بتایا کہ یہ ٹیوب اور لوہے کے کیسز ایک ساتھ استعمال ہوتے ہیں ، اس بات کے بعد عمران کی ترجیحات صاف واضح ہو گئیں ، میرے حیرت زدہ چہرے کو دیکھ کر عمران خان ہنسنے لگ پڑا ۔

ایک جگہ وہ لکھتی ہیں کہ ’’میری شادی کو چند دن ہی ہوئے تھے اور ابھی اسے خفیہ رکھا جا رہا تھا۔ ایسے میں ایک روز میں بنی گالا گئی اور عمران خان کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ برہنہ حالت میں ایک سفید شیٹ پر لیٹے اپنے پورے جسم پر کالی دال مَل رہے تھے۔ میں یہ دیکھ کر دم بخود رہ گئی۔وہ مجھے اپنے سامنے دیکھ کرکھسیانی ہنسی ہنسنے لگے ۔ پھر وہ کھڑے ہوگئے اور جسم سے دال جھاڑتے ہوئے اپنے ملازم انورزیب کو آواز دی تاکہ وہ شیٹ اور دال اٹھا کر لے جائے۔ریحام خان مزید لکھتی ہیں کہ’’جب میں نے اس عجیب و غریب کام کے متعلق عمران خان سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ احد (عمران خان کا برادرِ نسبتی)ایک شخص کو میرے پاس لے کر آیا تھا جس نے بتایا کہ مجھ پر کسی نے کالا جادو کیا ہے۔ اسی نے جادو کو ختم کرنے کے لیے جسم پر کالی دال مَلنے کو کہا تھا۔ میری اور عمران کی شادی کو چونکہ ابھی چند دن ہی ہوئے تھے لہٰذا میں اس مضحکہ خیز صورتحال پر زیادہ سختی سے اپناموقف نہیں دے سکی اور اس سے بحث نہیں کی۔

ایک جگہ ریحام خان نے لکھا ہے کہ عمران خان دراصل جمائما سے نہیں بلکہ اس کی بڑی بہن کو پسند کرتے تھے اور اس سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ ریحام خان لکھتی ہیں کہ ’’عمران خان نے ایک بار مجھے بتایا کہ میں دراصل جمائما کی بڑی بہن کو پسند کرتا تھاجو اس کی سوتیلی بہن تھی۔ میری ان کے باپ کے ساتھ بھی دوستی تھی۔ تاہم نوجوان جمائما خان مجھ سے اس قدر محبت کرتی تھی کہ ایک بار زیک (جمائما کا بھائی)کو سالٹ لیک ریجن میں چھٹی گزارنے کی دعوت دی تو وہ بھی اس کے ساتھ چلی آئی۔ زیک اپنی گرل فرینڈ کو بھی ساتھ لایا تھا۔ عمران خان نے ہنستے ہوئے کہا کہ وہاں جمائما خان کے خلوص نے مجھے پاگل بنا دیا۔ ہم پیدل علاقے کی سیر کو نکلے۔ راستے میں کسی غریب شخص کی جھونپڑی آئی تو جمائما نے مجھ سے کہا کہ اگر اسے میرا ساتھ مل جائے تو وہ اس طرح کی جھونپڑی میں بھی بہت خوش رہے گی۔ریحام لکھتی ہیں کہ ’’عمران خان نے مزید بتایا کہ جمائما کی ان محبت اور خلوص بھری باتوں پر میں نے سوچا کہ ایسی لڑکی جو نوجوان ہے اور اتنے خلوص کا مظاہرہ کر رہی ہے، اسے احساس بھی نہیں کہ وہ کس طرح کے عہد کر رہی ہے، اس کی محبت کا جواب نہ دینا ظلم ہو گا۔ جمائما کا اس سے پہلے صرف ایک بوائے فرینڈ تھا۔‘‘ریحام خان نے کہتی ہیں کہ ’’میں عمران خان کی باتیں سن رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ وہ مجھے ہر وقت اپنے معاشقوں کے بارے میں کیوں بتاتا رہتا ہے۔ ان کا مجھ سے کیا تعلق ہے۔ اس کی ایسی باتیں مجھے میرے سابق شوہر اعجاز کی یاد دلاتی تھیں۔ وہ بھی مجھے اپنے ماضی کے بارے میں ایسی ہی باتیں بتایا کرتا تھا۔

ریحام نے کتاب میں جہاں عمران خان کی جنسی زندگی کو موضوعِ بحث بنایا وہیں کپتان پر منشیات کے بکثرت استعمال کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ ریحام خان نے اپنی کتاب میں عمران خان کی نشے کی عادت کو ان کی مردانہ کمزوری کی وجہ بھی قرار دیا ہے۔ریحام خان نے لکھا ’ جب بھی مجھے گھر میں نشے کے شواہد ملتے تو میں ناراضی کا اظہار کرتی اور عمران خان کی صحت کے حوالے سے فکر مندی دکھاتی تو وہ آگے سے کہتے ’ بے بی ! تم منشیات کے بارے میں جانتی ہی کتنا ہو؟ تم نے کبھی نشہ نہیں کیا، کوک کی ایک بوتل بھی ایسے ہی ہے جیسے بندہ آدھا گلاس شراب پی لے‘۔ جب بھی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہر بار یہی فقرہ ناچتی آنکھوں کے ساتھ دہرایا جاتا، بلکہ عمران خان میرے رد عمل کا لطف اٹھاتا تھا‘۔یحام خان نے مزید لکھا کہ جب بھی عمران خان نشہ کرتے تو وہ بیٹھ جاتیں اور انہیں منشیات کے سائیڈ افیکٹس کے حوالے سے آرٹیکلز دکھاتیں اور اسے سمجھاتیں کہ ان کی مردانہ کمزوری کے پیچھے منشیات کا استعمال ہے ،’ میری اس بات پر خان خوفزدہ ہوجاتا اور پورا دن خوفزدہ رہتا، میں نے اس کی یہ عادت چھڑانے کی بھرپور کوشش کی لیکن اس نے اپنا ہاتھ اس کام سے نہیں روکا‘۔ریحام خان نے لکھا کہ اپنے سیاسی کیریئر میں بار بار کی ناکامیوں نے عمران خان کا حوصلہ توڑ دیا تھا، جوں جوں وقت گزرتا گیا میں نے دیکھا کہ منشیات کے استعمال میں شدت آتی جارہی ہے۔ اس موقع پر میں کچھ نہیں کرسکتی تھی ، اگر کرسکتی تھی تو وہ یہ کہ اسے منشیات کے خطرے سے آگاہ کروں، ہوسکتا ہے کہ شاید وہ کچھ ہوش مندی کا مظاہرہ کرے، لیکن اس کے باوجود نشے کی مقدار میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔

ریحام خان نے اپنی کتاب میں عمران خان کے ساتھ انتہائی خوبصورت خاتون کے دھوکے میں ایک مرد کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔ریحام خان نے اپنی کتاب میں لکھا ’ عمران خان کے میرے سامنے کیے گئے اعترافات سے ایک بات بڑی واضح ہوگئی تھی کہ یہ شخص کبھی بھی کسی بھی قسم کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، اس نے مجھے اسی قسم کی ایک کہانی پوری تفصیل کے ساتھ سنائی، عمران خان نے بتایا کہ ایک رات اسے ایک انتہائی خوبصورت خاتون نظر آئی، اس نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت عورت کبھی نہیں دیکھی تھی۔ جب وہ جسمانی تعلق قائم کرنے کیلئے تیار ہوئے تو عمران خان پر انکشاف ہوا کہ یہ خاتون نہیں ہے‘۔

ریحام خان نے لکھا کہ جب عمران خان پر یہ راز منکشف ہوا تو میں نے پوچھا کہ خان صاحب پھر آپ نے کیا کیا جس پر عمران خان نے انتہائی سادگی سے جواب دیا کہ تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور رکنا ممکن نہیں تھا۔ ریحام خان نے کہا کہ انہوں نے جب یہ کہانی اپنے مرد دوستوں کو سنائی تو ایک نے جواب دیا کہ ایسا انکشاف ہونے کے بعد وہ وہاں سے ایک میل دور بھاگ جاتا ، ایک اور دوست نے کہا کہ وہ اندھا نہیں ہے جبکہ اکثر لوگوں نے کہا کہ اگر آپ ہم جنس پرست نہیں ہیں تو پھر ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔

ریحام خان نے کتاب میں دعویٰ کیا کہ عمران خان کے قریبی دوست وکی جو کہ ایک معروف برانڈ ” موبائل زون “ کے مالک تھے ،کی بنی گالہ میں ہیروئن کے زیادہ استعمال کے باعث موت ہو گئی ہے ۔ اپنی کتاب میں واقع کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے بیٹے جب بنی گالہ سے چلے گئے تو عمران خان نے عون چوہدری کے ذریعے مجھے پیغامات بھجوائے کہ واپس آجائیں ،میں اس وقت اپنے نئے گھر بنی گالہ میں ” لیونڈر“ کے پودے لگانے کیلئے جدوجہد کر رہی تھی ،گھر واپس آنے سے ایک دن قبل مجھے عون چوہدری کا فون آیا جس نے مجھے اس انتہائی خوفناک واقعے سے آگاہ کیا کہ آپ کی غیر موجودگی میں عمران خان کا ایک انتہائی قریبی دوست ان سے ملنے کیلئے آیا ہوا تھا اور اس دوران اس کی موت ہو گئی ، میں اس بارے میں جاننے کی کوشش کی تو مجھے ایک تصویر مل گئی جس میں دس لوگ عمران خان کے اور ذاکر کے ساتھ رات کا کھانا کھا رہے ہیں تاہم میں نے اس بات پر اس وقت تک زیادہ غور نہیں کیا جب تک میں گھر نہ پہنچ گئی ، عمران خان مجھے دیکھ کر خوش دکھائی دے رہے تھے لیکن وہ اس وقت کافی پریشان بھی تھے ، انہوں نے مجھے اپنے دوست کی موت کے بارے میں بھی بتایا اور اس سے ان کو پہنچنے والے دکھ اور رنج کا بھی ذکر کیا ۔میں اس وقت تک یہ واقعہ بھول چکی تھی ۔ریحام خان کا کہناتھا کہ وکی جو کہ انتہائی معروف برانڈ ” موبائل زون “ کے مالک تھے ،پچاس سال کے قریب اس کی عمر تھی،اور وہ عمران خان سے کافی عرصہ سے ملاقات کرنا چاہ رہے تھے ، آخر کار جس وقت میں گھر میں موجود نہیں تھی تو ذاکر انہیں لاہور سے اسلام آباد لے کر آئے ، عمران خان کے مطابق وہ تقریبا رات دس بجے پہنچے ،کھانا کھایا اور وہ اسی رات کو واپس لاہور چلے گئے ،اگلے دن تقریبا شام سات بجے وکی کے سر میں شدید درد ہوا اور اس نے اپنی اہلیہ سے ایک چائے کا کپ بنانے کیلئے کہا اور جب وہ چائے لے کر آئی تو اس نے وکی کو مرا ہوا پایا ۔ ریحام خان کاکہناتھا کہ عمران خان نے مجھے بتایا کہ وکی میرے لیے تحفہ بھی لے کر آیا تھا، میں نے تحفے کی طرف دیکھتے ہوئے عمران سے پوچھا کہ کیا وہ شرابی تھا ؟ ۔ عمران خان نے میری طرف گھور کر دیکھا اور پوچھا کہ تمہیں کیسے پتا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ یہ کتنی بڑی برف کی بالٹی ہے ، میں نے اس طرح کی بڑی بالٹی پہلے نہیں دیکھی ۔ریحام خان کا کہناتھا کہ عمران خان میرا جواب سن کر اطمینان میں آ گیا ،وہ لیٹ گیا اور ہنسے لگا ، عمران نے مجھے بتایا کہ وکی ہیروئن استعمال کرتاتھا اور اسی کی وجہ سے مسائل ہوئے ۔مجھے بہت عجیب محسوس ہوا کہ وکی اتنی دور لاہور سے آیا اور رات بھی نہیں رکا اور اس وقت جبکہ میں گھر میں بھی موجود نہیں تھی تاہم میں عمران خان کو دیکھ کر بہت خوش تھی اور میں نے اس بارے میں مزید نہیں سوچا لیکن کچھ روز کے بعد سینئر صحافی عمر چیمہ نے ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے عمران خان کے دوست کی بنی گالہ میں ہیروئین کی اوور ڈوز کے باعث موت ہونے کی طرف اشارہ دیا تاہم انہو ں نے نام غلط لکھا تھا ۔صحافی کے خلاف پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر خوب ہنگامہ برپا کیا اور عمر چیمہ نے اس پر معافی مانگی اور ٹویٹس ڈیلیٹ کی جبکہ ان کے ایڈیٹر نے بھی معذرت کی ۔ریحام خان کا کہناتھا کہ عمران خان نے اپنے دوست کی آخری رسومات میں شرکت کیلئے بھی نہیں گئے ۔

عمران خان اور جمائما کی طلاق کے متعلق وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ’’عمران خان نے اپنے ’پیر‘ کے کہنے پر جمائما کو طلاق دی۔ عمران خان نے مجھے ایک بار بتایا کہ ’جمائما خان شادی کے آخری مہینوں میں بہت زیادہ خوداعتماد ہو گئی تھی۔ ہم کچھ عرصے سے الگ رہ رہے تھے، وہ لندن میں رہتی تھی اور میں بنی گالہ میں۔ وہ طلاق سے قبل شادی کو آخری موقع دینے کے لیے بنی گالہ آئی، تاہم میرے پیر صاحب پہلے ہی مجھے اس کو طلاق دینے کا کہہ چکے تھے۔کسی نے جمائما کو بتایا تھا کہ میرا بنی گالہ کے قریب ہی رہنے والی کسی عورت کے ساتھ تعلق چل رہا ہے۔ میرے خیال میں وہ اس پر حسد میں مبتلا تھی اور شاید اسی لیے پاکستان آئی تھی لیکن جلد ہی وہ واپس لندن چلی گئی اور اپنی سماجی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ریحام خان کے مطابق عمران خان نے انہیں مزید بتایا کہ ۔۔حالانکہ میرے پیر صاحب مجھے پہلے ہی جمائما کو طلاق دینے کا کہہ چکے تھے لیکن میں شاید ابھی پوری طرح اس کے لیے تیار نہیں تھا۔ تاہم اسی دوران جمائما اور ہف گرانٹ (برطانوی اداکار)کی تصویر ایک میگزین میں شائع ہوئی۔ اس تصویر کو دیکھ کر میرے پاس جمائما کو طلاق دینے کا سوا کوئی چارہ نہ رہا۔میں یہ تصویر میگزین میں شائع ہونے سے چند ہفتے پہلے ہی خواب میں دیکھ چکا تھا۔ جب تصویر شائع ہوئی تو میں نے اس کے متعلق اینابیل(جمائما کی والدہ)سے بات کی۔ جمائما کی فیملی طلاق کے حق میں نہ تھی۔ تاہم اس کے تین ہفتے بعد میں نے اسے طلاق دے دی۔ عمران خان کی جمائما خان سے شادی اور سہاگ رات کے متعلق انکشاف کرتے ہوئے ریحام خان لکھتی ہیں کہ ’’ایک روز عمران بہت خوشگوار موڈ میں تھا۔ وہ مجھ سے میرے متعلق بھی شکوے کر رہا تھا اور شاید میری ہمدردی لینے کے لیے اپنے ماضی سے بھی ایسے قصے سنا رہا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ’’تمہیں معلوم ہے ریحام! میں جمائما خان کے ساتھ اپنی شادی کی پہلی رات اتنا رویا تھا کہ روتے روتے سو گیا۔‘‘میرے وجہ پوچھنے پر عمران نے بتایا کہ ’’مجھ پر واضح ہو گیا تھا کہ جمائما سے شادی کرنا میری غلطی تھی۔ شادی کی رات جمائما نے شراب پی لی تھی اور نشے سے چور، نیم بے ہوش ہو کر بستر پر گر گئی۔ اسے کچھ ہوش ہی نہ تھا۔عمران خان نے مجھے مزید بتایا کہ ’’جب میں اور جمائما ہنی مون پر گئے تو ہنی مون کے دن میرے لیے سب سے زیادہ پریشان کن اور ذہنی اذیت کے دن تھے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا ، چیزیں بگڑتی جا رہی تھیں۔جمائما بہت کم عمر تھی اور میرے ماضی کے قصوں کی وجہ سے اس رشتے میں خود کو بہت غیرمحفوظ محسوس کر رہی تھی۔‘‘ اس پر میں نے عمران سے پوچھا کہ ’’تم نے اسے اپنے ماضی کے قصے کیوں سنائے؟‘‘تاہم عمران خان نے میری اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔

ریحام خان نے اپنے سابق شوہر کی زندگی کے متعدد جنسی واقعات اپنی کتاب میں تحریر کیے ہیں جن میں سے ایک پی ٹی آئی چکوال کی خاتون ماہا خان کے حوالے سے بھی ہے۔ریحام خان نے لکھا کہ انہوں نے ایک بار عمران خان کے پیغامات پڑھے جن میں عندلیب عباس اور عظمیٰ کاردار کی جانب سے کپتان کو جنسی تعلق قائم کرنے کی آفرز کی گئی تھیں۔ ”عمران خان کے پیغامات میں سب سے زیادہ دھچکا جس میسج سے پہنچا وہ ایک قدرے کم عمر خاتون کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ یہ میسج ’ ماہا خان پی ٹی آئی چکوال‘ کے نام سے محفوظ نمبر سے آیا تھا ، یہ خاتون عمران خان کو روزانہ کی بنیاد پر بتاتی تھی کہ وہ رات کو کتنے مردوں کے ساتھ سوئی ہے“۔ریحام خان نے پی ٹی آئی رہنما عظمیٰ کاردار کے حوالے سے لکھا کہ عظمیٰ کاردار نہ صرف اپنے “مخصوص” تصاویر باقاعدگی کے ساتھ عمران خان کو بھجواتی تھی بلکہ جب بھی وہ عمران خان سے روبرو ہوتی تو کوشش کرتی کہ وہ ان کے سامنے کھڑی رہے یا ان کے سامنے بیٹھ جائے۔ میری موجودگی میں بھی عظمیٰ کاردار اس بات کی پرواہ نہیں کرتی تھی اور عمران خان کے سامنے آنے کا راستہ بنالیتی تھی۔’عظمیٰ کاردار نے علیم خان کے گھر مجھے وارننگ دی کہ اب مجھے یہ سب برداشت کرنا ہوگا کیونکہ وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گی‘۔ریحام خان نے اپنی کتاب میں پی ٹی آئی کی خاتون رہنما عندلیب عباس پر بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کے عمران خان کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں۔انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ’ میری برطانیہ کیلئے روانگی سے دو راتیں قبل میں نے عمران خان کے موبائل فون میں پی ٹی آئی کی مختلف خواتین کے ٹیکسٹ میسجز پڑھے۔اس سے 2 منٹ قبل ہی عمران خان نے مجھے کہا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں وہ لاہور نہیں جانا چاہتا لیکن میں نے اسے تحریک دی کہ یہ صرف 2 دن کی ہی بات ہے اور تمہیں وقت گزرنے کا پتا بھی نہیں چلے گالیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ مجھ سے بھی زیادہ اچھے طریقے سے اسے لاہور آنے کیلئے پی ٹی آئی کی خواتین کی جانب سے تحریک دی جا رہی تھی‘۔ریحام خان نے لکھا ”میں نے عمران خان کے موبائل میں عندلیب عباس جو کہ اس وقت پی ٹی آئی پنجاب کی صدر تھیں کا میسج پڑھا ۔ عندلیب عباس نے لکھا ہوا تھا ’ آ بھی جاؤ ، میں تمہارے ساتھ بار بار غلط حرکت کروں گی‘۔میڈیا ٹیم کی عظمیٰ کار دار ایک قدم اور بھی آگے تھیں، انہوں نے میسج میں لکھا ’ اپنے جسم ۔۔۔۔ کو محروم کیوں رکھ رہے ہیں جبکہ آپ کی بیوی سے آپ کو کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوگا۔۔ریحام خان نے لکھا ’جب میں نے عمران خان سے ان پیغامات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ عندلیب عباس ایک شرابی عورت ہے، ہوسکتا ہے کہ اس نے بوتل چڑھا کر یہ میسجز کیے ہوں ۔ جس کے بعد عمران خان سونے کیلئے بیڈ پر لیٹ گیا اور مجھے بھی سونے کا کہنا لیکن میری تو نیند اڑ چکی تھی۔۔

وہ لکھتی ہیں کہ شادی سے پہلے ہی پی ٹی آئی کے لوگوں نے میرے متعلق عمران خان کے کان بھرنے شروع کر دیئے تھے اور مجھ پر سنگین الزامات عائد کر رہے تھے۔ شادی کے روز بھی عمران خان اور میں، مجھ پر لگائے جانے والے الزامات کے متعلق ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے گفتگو کرتے رہے۔ عمران خان نے مجھے بتایا کہ ”موبی (عمران خان کا قریبی دوست)کو ہماری شادی کا پتا چل گیا ہے اور اس نے بتایا ہے کہ تم لندن کے ایک بار میں برہنہ ڈانس کرتی تھیں۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایک آئی ایس آئی آفیسر کو کل اپنے ساتھ لے کر آئے گاجو تمہارے (ریحام خان کے)جنسیت سے بھرپور ماضی اور لوگوں کے ساتھ معاشقوں کی تفصیل بے نقاب کرے گا۔ ریحام خان مزید لکھتی ہیں کہ ”یہ الزامات سن کر میں نے عمران خان سے کہا کہ میں ان لوگوں کے گھٹیا الزامات سے تنگ آ چکی ہوں۔ میں اب مزید ٹیکسٹ میسج بھی نہیں کر سکتی، تم میسج بھیجنا بند کرو اور مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ کیونکہ مجھے یہ رویہ بالکل عجیب لگ رہا ہے۔ میں نے عمران خان سے سختی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں یہ بہتر ہو گا کہ تم میرا خیال دل سے نکال دو، لیکن عمران خان اس کے بعد بھی کئی گھنٹے تک مجھے پیغامات بھیجتا رہا اور معافیاں مانگتا رہا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ میں صرف لوگوں سے ملنے والی اطلاعات تم تک پہنچا رہا ہوں، تم پر الزام نہیں لگا رہا۔

ریحام خان نے اپنی کتاب میں کہاہے کہ عمران خان کے مطابق پرویز خٹک ایک خوبصورت آدمی ہیں ، پاکستان تحریک انصاف کے اندر ایک افواہ انتہائی عام ہے کہ سابق وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ پرویز خٹک چرس کے شیدائی ہیں جو کہ ان کی صحت کا راز بھی ہے ۔ریحام خان نے کہا کہ میں نے بطور عمران خان کی بیوی یہ دیکھا کہ پرویز خٹک زیادہ نہیں کھاتے لیکن وہ چائے میں چینی بہت زیادہ پیتے ہیں ۔ریحام خان کا اپنی کتاب میں کہناتھا کہ جب میں نے عمران خان سے پارٹی میں پرویز خٹک کو ” چرسی “ کہنے کے بارے میں گفتگو کی اور اس بارے میں پوچھا تو عمران خان نے صرف معمولی سا ہنستے ہوئے اس کی تائید کر دی ۔ریحام خان نے اپنی آپ بیتی میں عمران خان کے حوالے سے کئی حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں جبکہ انہوں نے ایک تصویر بھی کتا ب میں شائع کی ہے جس کے ساتھ یہ کیپشن لکھاہے کہ ” یہ کوکین کے پیکٹ مجھے عمران خان کے کوٹ سے ملے ۔۔

عمران خان کے بچوں سے متعلق بھی انہوں نے تہلکہ خیز انکشافات اپنی کتاب میں کئے۔۔ ریحام خان لکھتی ہیں کہ۔۔ایک بار ہم عمران خان کی ناجائز بیٹی ٹیریان کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ عمران نے بتایا کہ وہ اپنے دونوں بیٹوں سے زیادہ ٹیریان سے بات کرتا ہے۔ اس نے مجھے ٹیریان کے ٹیکسٹ میسج بھی دکھائے، جن سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ بہت حساس اور سمجھ دار لڑکی ہے اور عمران خان کو باقی فیملی کی نسبت سب سے بہتر مشورے دیتی ہے۔ ایک میسج میں اس نے عمران کو کہا تھا کہ ’آپ سلیمان کی بچگانہ ڈیمانڈز کو نظرانداز کیا کریں اور اس کے ہاتھوں جذباتی بلیک میل مت ہوا کریں۔ وہ وقت کے ساتھ سمجھ دار ہو جائے گا۔‘ عمران خان نے مجھے بتایا کہ سلیمان ٹیریان کو قبول نہیں کرتا تھا۔ اسے ٹیریان کو قبول کرنے میں 10سال لگے۔ عمران جب بھی لندن جاتا تو جمائما کے گھر میں ٹیریان سے ملاقات کرتا تھا۔ ہماری شادی کے چند ہفتے بعد ہی ہمارے درمیان ٹیریان کے متعلق گفتگو شروع ہو گئی تھی۔ ایک دن اسی پر بات ہو رہی تھی کہ اس دوران عمران خان نے شرارتی انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ ’ٹیریان اکیلی نہیں ہے، ایسے 5ہیں۔‘ میں نے حیرت سے پوچھا کہ ’کیا پانچ؟‘ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’بچے۔‘۔۔ ریحام خان لکھتی ہیں کہ ’’میں نے اس پر شدید حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’کیا؟ تمہارے پانچ ناجائز بچے ہیں! تمہیں یہ کیسے معلوم ہے کہ وہ تمہارے بچے ہیں؟‘‘ اس پر عمران نے بتایا کہ ’’ان کی ماؤں نے مجھے بتایا۔‘‘ میں نے پوچھا کہ ’’کیا یہ تمام سفید فام ہیں؟‘‘ عمران نے جواب دیا کہ ’’نہیں، کچھ بھارتی بھی ہیں۔ میرے بھارتی ناجائز بچوں میں سب سے بڑے کی عمر 34سال ہے۔‘‘ یہ باتیں سن کر میں سکتے کے عالم میں تھی۔ میں نے پوچھا کہ ’’کیسے عمران؟ اس لڑکے کی ماں نے دنیا کو کیوں نہ بتایا کہ وہ تمہارے بچے کی ماں بن گئی ہے؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’کیونکہ وہ میرے بچے کی ماں بن کر اتنی خوش تھی۔ اس کی شادی کو عرصہ ہو گیا تھا لیکن وہ حاملہ نہیں ہو پائی تھی۔ وہ بچہ پا کر بہت خوش تھی۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ اسے خفیہ رکھے گی اور مجھ سے بھی درخواست کی کہ میں بھی اسے خفیہ ہی رکھوں۔‘‘ اس پر میں نے کہا کہ ’’تمہارے باقی ناجائز بچوں کی مائیں کیونکہ سامنے نہیں آئیں؟‘‘ اس پر عمران نے بتایا کہ ’’وہ سب کی سب شادی شدہ تھیں اور وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی شادیاں ٹوٹ جائیں۔‘‘ میں نے پوچھا کہ ’’یہ بات تمہارے علاوہ کوئی اور جانتا ہے؟‘‘ تو اس نے بتایا کہ ’’جمائما جانتی ہے کہ میرے پانچ ناجائز بچے ہیں۔ اسے بھی میں نے بتا دیا تھا۔‘‘ عمران خان کی یہ باتیں سن کر مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں اس سے کیا کہوں۔ میں اس کی بیوی تھی لیکن وہ کیا تھا؟‘‘

اسد عمر کے متعلق ایک جگہ وہ لکھتی ہیں کہ ’’اسد عمر بظاہر بہت نرم مزاج آدمی ہے لیکن میں نے دیکھا کہ وہ خواتین کے معاملے میں بہت تیز نظر ہے اور بہت تیزی کے ساتھ کسی بھی خاتون کا مشاہدہ کرتا ہے۔ تاہم نعیم الحق کے برعکس وہ اس خاتون کے ساتھ تعلق بنانے میں کافی سمجھ داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کے پی ٹی آئی برطانیہ کی ایک کارکن لڑکی کے ساتھ تعلقات تھے، جس نے بعد ازاں ان کے ساتھ ہونے والی چیٹنگ کے اسکرین شاٹس سوشل میڈیا پر شیئر کر دیئے۔ اس لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی تھی کہ اسد عمر اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔ جب اس نے ایسا نہیں کیا تو اس نے اسکرین شاٹس شیئر کر دیئے۔ اس پر اسد عمر کو برین ہیمرج کا دورہ پڑا اور وہ ہسپتال پہنچ گئے۔ میں ان کی بیوی سے مل چکی تھی۔ وہ ان سے بہت محبت کرتی تھی۔ میں دیکھتی تھی کہ وہ کس طرح دھرنے میں کی جانے والی اسد عمر کی تقاریر اکٹھی کرتی رہتی اور اپنے شوہر کو فخر کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ یہ سب کچھ جاننے کے بعد اس بیچاری عورت پر مجھے بہت ترس آیا، کہ کس طرح اس کا شوہر اس کے ساتھ بے وفائی کر رہا تھا۔

کتاب میں ایک جگہ وہ لکھتی ہیں کہ ”عمران خان اکثر میرے سامنے بھرا ہوا سگریٹ سلگا لیتے تھے۔ ایک بار مجھے تجسس ہوا اور میں نے جاننے کی کوشش کی کہ اس کے اندر کیا ہوتا ہے۔ وہ اس میں کسی کالے سے مواد سے تھوڑا سا ٹکڑا توڑ کر ڈالتے اور پھر اسے بھر کر پینا شروع کر دیتے تھے۔ وہ مجھے ایسا تاثر دیتے تھے جیسے وہ چرس استعمال کرتے ہیں لیکن اس کی بُو چرس جیسی نہیں ہوتی تھی۔ کئی ماہ بعد جب میں ایک انسداد منشیات مہم کے سلسلے میں ڈاکومنٹری بنا رہی تھی تو مجھے پتا چلا کہ یہ دراصل ہیروئن تھی، جو عمران خان سگریٹ میں بھر کر پیتے تھے۔ کتاب میں ایک جگہ ریحام خان نے لکھا کہ شادی کی پہلی رات عمران خان نے لیمپ بند کرنے کے بعد اپنے تکیے کے نیچے کوئی چیز چھپائی اور اس کے بعد زیادہ بات چیت نہیں کی ،مجھے لگا کہ ان کی عمر زیادہ ہے اس لیے شائد انہوں نے نقلی بتیسی لگوائی ہوئی ہے ۔مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ منہ کی حفاظت کے لیے تھا ۔جب میں نے عمران خان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتا یا کہ میں اپنے دانتوں کو پیستا ہوں اس وجہ سے ماﺅتھ گارڈ رکھا ہوا ہے لیکن میں نے عمران خان کو سوتے ہوئے کبھی دانت پیستے ہوئے نہیں دیکھا جب وہ ماوتھ گارڈ کے بغیرسوتے تھے ۔سعودی عرب میں وہ ماوتھ گارڈ استعمال نہیں کرتے تھے اور زیاد ہ تر وقت سو کر گزارتے تھے اور اس دوران وہ بہت مایوس اور غصے میں نظر آرہے تھے ۔ مجھے بات میں پتہ چلا کہ کوکین کے عادی اپنے جبڑے کو ایسے بھینچتے ہیں ۔شادی کے پہلے کچھ ہفتے میں درازوں کی صفائی کرتی تھی اور معصومانہ طریقے سے سوچتی تھی کہ میرے سابقہ شوہر بہت زیادہ سکون آور ادوایات استعمال کرتے ہیں ۔عمران خان کے پاس تمام طرح کی سکون آور ادوایات ہوتی تھیں جن میں (xanax,lexotanil)جیسی ادوایات بھی تھیں ۔ایک دن عمران خان کے کزن بوبی نے میرے سامنے عمران خان کو ممنوعہ دوائی فراہم کی ۔اس طرح کی ادوایات کوکین استعمال کرنے کے بعد سکون اور نیند فراہم کرتی تھیں ۔ریحام خان نے انکشاف کی کہ عمران خان نشہ آور دوائی ایکسٹیسی بھی استعمال کرتے تھے ۔

کتاب میں ایک جگہ پر ریحام خان نے بتا یا کہ عمران خان کو بہت اونچی آواز میں گانے سننے کی عادت تھی اور وہ شام 7بجے سے رات 2بجے تک بنی گالا میں سب کا داخلہ بندکر کے گانے سنتے تھے ۔ یحام خان نے بتا یا کہ میں بچپن سے ہی گانے سنتی آرہی ہوں میں اس طرح کی والدہ نہیں ہوں کہ اپنے بچوں کو میوزک کی آواز کم کرنے کے لیے کہوں لیکن شام کے وقت عمران خان جتنی اونچی آواز میں گانے سنتے تھے اس پر غصہ آتا تھا ۔شروع میں مجھے لگا کہ عمران خان اونچی آواز میں اس لیے گانے سنتے ہیں کہ وہ ہماری ذاتی گفتگو کو تحفظ دیتے ہیں یا شادی کے پہلے پہلے دنوں میں رومانوی انداز اپنانے کے لیے گانے سنتے ہیں کیونکہ پاکستان میں نئے شادی شدہ جوڑوں کی جانب سے گانے سننے کا رواج ہے ۔عمران خان شام 7بجے سے رات 2بجے تک میوزک سنتے تھے ،اس دوران کسی قسم کی گفتگو ممکن نہیں ہوتی تھی ۔یہ بہت شرمناک بات تھی کہ رمضان میں تروایح کے دوران اور محرم کے پہلے دس دن بھی عمران خان میوزک سنتے تھے ۔اگر میں بیڈ روم میں نماز پڑھنے کے لیے میوزک بند کرتی تھی تو وہ مجھے کہتے تھے کہ جلدی نماز ادا کرو ۔میں کالے جادو کا توڑ کرنے کے لیے بیڈ روم میں نماز پڑھتی تھی لیکن میں مغرب اور عشاءکی نماز پڑھنے کے لیے اپنی بیٹی کے کمرے میں جاتی تھی ۔ عمران خان نے سختی سے تنبیہہ کر رکھی تھی کہ شام 7بجے کے بعد بنی گالا میں کوئی مہمان نہیں آئے گا ،مجھے اور میرے بچوں کو بھی باہر رہنے کی اجازت نہیں تھی ۔ اگر کبھی میں کچن میں کوئی کھانا بنانے جاتے توعمران خان بھی وہاں آجاتے اور دیکھتے کے میں کیا کر رہی ہوں ۔ان کی وجہ سے میں رات بھر جاگتی اور پھر صبح فجر کی نمازکے لیے اٹھتی اور پھر اپنی بیٹی کو سکول بھیجتی جس کی وجہ سے میں تھکی تھکی رہتی تھی ۔بعض اوقات میں رات کو سو جاتی تو عمران خان میوزک سنتے یا فلمیں دیکھتے تھے اور مجھے زبردستی اٹھا دیتے ۔میرے دوستوں نے مجھے اس حالت میں دیکھا تو پوچھا کہ تم تھکی تھکی کیوں رہتی ہوں جس پر انہیں بتا یا کہ عمران خان رات بھر سونے نہیں دیتے تو انہوں نے میرے سابقہ شوہر کی مردانگی پر مجھے چھیڑنا شروع کردیا ۔

ریحام خان نے اپنی کتاب میں عمران خان پر مردوں کی فحش فلمیں دیکھنے کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ”ایک دن میں کمرے میں داخل ہوئی تو عمران خان مردوں کی فحش فلمیں دیکھ رہے تھے اور ساتھ خودلذتی میں مصروف تھے۔ ان کے پاس مردوں کی فحش فلموں کی ڈی وی ڈیز کی ایک وسیع کولیکشن تھی اور وہ ان میں موجود مردوں میں سے بعض کی ’تعریف‘ بھی کرتے تھے۔ مردوں کی فحش فلمیں دیکھتے ہوئے عمران خان کو میں نے متعدد بار رنگے ہاتھوں پکڑا۔ یہ ایک ایسی بیوی کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتا تھا جو کچن میں اپنے شوہر کے لیے کھانے بنا رہی ہوتی تھی اور وہ بیڈروم میں بیٹھا مردوں کی فحش فلمیں دیکھتے ہوئے خودلذتی میں مصروف ہوتا تھا۔ ان کے ذہن پر جس طرح جنسیت حاوی تھی مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس سے کیسے ڈیل کروں اور ان کی ایسی احمقانہ باتوں کا کیا جواب دوں۔

جیونیو ز کے اینکر منیب فاروق کے ساتھ ایک انٹرویو میں ریحام خان نے کہا کہ میں نے یہ کتا ب اس لئے لکھی ہے کہ میر ی کہانی سے کوئی کم عمر لڑکی سبق حاصل کر سکتی ہے ۔ عمران خان سے شادی کے بعد میرے پروفائل میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ مجھے جو بھی پلیٹ فارم ملا ہے میں نے اچھی طرح استعمال کیا ہے ۔عمران خان سے شادی کے بعد مجھے اپنے کو معاف کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ جس طرح میر ی پرورش ہوئی اس سے غلطی کی گنجائش نہیں تھی ۔ عمران خان کے ساتھ شادی میری غلطی اور ایک حادثہ تھا لیکن جو اللہ کی مرضی ہوتی وہ بھی ہونا ہوتا ہے ۔ ۔میرے دل میں پہلے خاوند اور دوسرے خاوند کے بارے اور کسی اور کے بارے میں کوئی نفرت نہیں ہے ۔ریحام خان نے کہا کہ میں نے عمران خان کو سیاسی نقصان پہنچانے کیلئے یہ کتاب نہیں لکھی ،عمران خان کے دیگر خواتین سے تعلقات کے حوالے سے سوال پر ریحام خان نے کہا کہ میں نے یہ شادی اس لئے نہیں کی تھی کہ ہم کبھی جدا ہونگے ۔ بہت سی باتوں کا عمران خان نے اعتراف کر لیا ہے ۔ میرا اتنا تجربہ نہیں ہے اگر کوئی چکنی چپڑی باتیں کرے تو مجھے مدد کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔میں نے ایک نجی ٹی وی کے خلاف قدم اٹھانے پر کہا تھا کہ عمران خان غلط کہہ رہے ہیں اور اس کے بعد میں نے دھرنے کی مخالفت کی تھی ۔میں نے یہ باتیں ایک صحافی کے طور پر کی تھیں اور مجھے پتہ تھا کہ عمران خان استعمال ہورہے ہیں لیکن اس وقت مجھے پتہ نہیں تھا کہ میری ان کے ساتھ شادی ہوگی لیکن جب میری شادی ہوئی تو دھرنا فیل ہوچکا تھا اور نواز شریف مستعفی نہیں ہورہے تھے۔ہری پور میں جلسے میں شمولیت کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ میری کوئی سیاسی خواہشات نہیں تھیں اور اس کا میں اپنی کتاب میں اچھی طرح ذکر کر چکی ہوں۔ میں نے ہر بات لکھ دی ہے ۔ آپ میری بات نہ مانیں لیکن دس بیس سال بعد مانیں گے ۔ جنہوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وزیر اعظم کس کو بنانا ہے ان پر اس کتاب کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ اس لئے میری جانب سے عمران خان کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کی بات میں وزن نہیں ہے ۔میں بتا رہی ہوں کہ عمران نے جو مجھے بتایا وہ میں نےلکھا ہے ۔ میں عدالت میں جا کربھی بتا سکتی ہوں کہ یہ بات درست ہے ۔ میں نے اپنے بچوں کو یہ سکھایا ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا درست ہے اور میں اس بات پر یقین نہیں کرتی کہ آپ دروازہ بند کرکے غلط بات کریں۔ پاکستان میں بہت سے ایسے کام ہورہے ہیں جو غلط ہیں لیکن ہم ان پر بات نہیں کرتے ، غلط کام کرناغلط ہے ، غلط کام کے بارے میں بات کرنا غلط نہیں ہے ۔ میں نے بری بات نہیں کی بلکہ بری بات کی نشاندہی کی ہے اور اس کی اجازت ہے ۔دالیں ، چاول ، آٹا کے حوالے سے ریحام خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ مسلم لیگ ن کو بھی بہت سی محبتیں ہیں اور لوگوں کو بھی عمران خان کے ساتھ محبت ہے اس لئے یہ چیز یں طارق فضل چودھری کے فارم سے آتی تھیں ۔میرے بچوں نے بار بار مجھے کہا کہ اپنے خاوند کو سمجھائیں اور میں نے ان کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی ۔ گندی کتاب لکھنے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ میں نے سچ لکھا ہے اور میں اس کی ذمہ داری لے رہی ہوں۔کیا نوازشریف نے سیتا وائٹ سے کہا تھا کہ کیس کردیں؟ یہ بوگس باتیں ہیں۔ تحریک انصاف میں بھی لوگ یہ باتیں جانتے ہیں اور پچھلے 22سال سے جانتے ہیں۔ میں نے بہت پیار کے ساتھ ان کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن جو کسی کی ذاتی کمی ہوتی ہے اس سے بہت سے لوگ اس کو بچانا چاہتے ہیں اور میں اس میں ناکام ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان جو پاکستان کے لئے چاہتے ہیں وہ ہو نہیں سکتا۔ میں کہتی ہوں کہ جو شخص ایک چھوٹا سا مسئلہ حل نہیں کر سکتا وہ کیسے اتنی بڑی پوسٹ پر براجمان ہو سکتا ہے ۔ جب میں نے کتاب لکھی اس کی بہت سے باتو ں پر لوگوں کو کوئی حیرت نہیں ہوئی ۔ جوواقعات میں نے لکھے وہ میرے سامنے ہوئے ہیں اور یہ مجھے بہت عجیب لگے ، یہ جو ہمارے سامنے ہورہا تھا اس سے مجھ کو بہت صدمہ پہنچا ۔عمران خان کے نشہ کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ میں نے اس حوالے سے جو بتایا ہے بہت کم بتایا ہے اس لئے میں نے یہ باتیں بہت کھل کر نہیں لکھیں کیونکہ بچوں نے بھی یہ کتاب پڑھنی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ باتیں ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور ہم ان باتوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔میں نے جو واقعات لکھے ہیں وہ سین کے مطابق ہو بہو لکھے ہیں۔ میں نے ایک ایک لفظ کی بھی کہیں چوری نہیں کی اور میں اللہ کو حاضرو ناظر جان کر یہ بات کہتی ہوں کہ یہ کتاب شہباز شریف ، مریم نواز اور حنیف عباسی سمیت کسی نے نہیں پڑ ھی اور نہ میں نے کسی کے ساتھ اس کتاب کا مسودہ ڈسکس کیا ۔ مجھے کسی بات کو خوف نہیں ہے کیونکہ میں نے اللہ کو جواب دینا ہے ۔بلیک بیر ی کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ کیاآپ چاہتے ہیں کہ میر ے ساتھ قندیل بلوچ والا سلوک ہوجائے ؟ انہوں نے کہا کہ بلیک بیری چوری والا کوئی قصہ نہیں لیکن میں نے جو باتیں لکھی ہیں ان کے شواہد میر ے پاس موجود ہیں۔ ۔ میں نے یہ کتاب عمران خان کے مداحوں کیلئے نہیں لکھی کیونکہ جتنی گالیاں مجھے پچھلے تین سالوں میں پڑی ہیں وہ میں جانتی ہوں۔ میں پاکستان میں شخصیاتی سیاست کے خلاف ہوں ۔ ۔ریحام خان نے کہا کہ اگر عمران خان وزیر اعظم بن گئے تو میری کتاب زیادہ بکے گی لیکن میں چاہتی ہوں کہ پاکستان ہنستا بستا رہے اور پاکستان میں آگ نہ لگے اور بچے شہید نہ ہوں۔

طارق فتح کی کتاب کا ترجمہ

Chasing the Mirage

لیجئے ڈاون لوڈ لنک طارق فتح کی کتاب کا ترجمہ اپ لوڈ کیا ہے میرا مشن پاکستانیوں کو روشنی کی طرف لانا ھے ۔میں جناب پروفیسر ڈاکٹر ھُود بھائی کا مداح اور انکے نقش قدم پر آپ کو کتابیں فراھم کرتا ھوں تاکہ مزھب کو ذاتی رکھیں۔ معاشرے پر ظلم نہ کریں فریب مت کھائیں۔

@RAfi_Shaair

اسلامی-ریاست-کا-خواب-طارق-فتح-طارق-فتح-copy

افسانہ
بیورگ بزدار

افسانہ
بیورگ بزدار
ہم جب بچے تھے تب ہمارے محلے میں ایک بوڑھا شخص ہر ہفتے ہمارے محلے میں گھر کے سامنے اتوار کی شام کو اکر بیٹھتا تھا اور ہم اس کے پاس بیٹھ کر کہانیاں چپ چاپ سنتے۔ وہ اکثر غلامی و آزادی کے قصے کہانیاں سناتا تھا۔ ہماری ناسمجھی کہو یا کم عقلی کہ ہم کہانی کے درمیان میں اس سے سوال کرتے تھے اور اسے یہ چیز کبھی پسند نہیں تھی۔ ایک دن جب میں ماموں کے گھر سے لوٹ کر گھر کی جانب رواں دواں تھا تبھی میں نے اس بڑھے شخص کو اپنی گلی سے گزرتے دیکھا تو سوچا کچھ بات کر لو تب تک کے لیے کچھ سیکھنے کو مل جائے گا۔ وہ سگریٹ کا بہت شوقین مزاج آدمی تھا اور ابو اکثر اس سے ہمیں دور رہنے کو تلقین کرتا۔

ایک دن میں نے اس سے پوچھا چاچا صادق اپ سے ایک سوال پوچھو؟
تو چاچا صادق نے ہنس کر کہا ہاں بیٹھا لیکن ایک پوچھنا۔
میں نے بطرز عادت پوچھ لیا کہ چاچا غلامی کسے کہتے ہیں؟
چاچا کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا بیٹا جب کوئی انسان کسی انسان کو اپنی ملکیت میں رکھے اور اسے بندی بنائے اسے غلامی کہتے ہیں۔ وہ اجتماعی ہو یا انفرادی۔ دیکھو بیٹا غلامی اچھوت اور غلیظ بیماری ہے جہاں قبائلی جھگڑے، زات پات، رنگ نسل، خود کشی کا رجحان، عورتوں بچوں کے ساتھ ریپ، مذھب کے نام پر قتل عام اور عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنانا ہی غلامی ہے بیٹا۔ اگر بذات خود مجھ سے پوچھو تو میں یہی کہونگا کہ اس کا حل تشدد کے سوا کچھ نہیں۔
میرے لیے تشدد نیا لفظ تھا تو میں نے بلا جھجک مطلب پوچھا؟
چاچا صادق اب کی بار ہنسے نہیں اور جواب دیا بیٹا جب اپ کو لگتا ہو کہ آقا کو مارے بنا اپ آزاد نہیں ہوسکتے ہیں۔ مجھے بس سننے میں کچھ نیا ملا اور سوال کرنے کا موقع بھی۔ خیر چاچا اب کی بار صرف مجھے کہانی سنانا چاہتا تھا تو میں بھی ان کے قریب بیٹھ گیا اور سننے کے لیے تیار ہوگیا۔
چاچا صادق بولے بیٹا پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک ملک میں غلاموں کو بیچا جاتا تھا وہاں ایک البرٹ نامی بادشاہ تھا جو غلاموں کا کاروبار کرتا تھا وہ ان سے محنت مزدوری کرواتا اور ان کے بدلے بس ایک وقت کا کھانا اور کبھی مزدور اگر کام کرنے کو انکار کرتا تو سرعام پھانسی دیتا تاکہ باقی غلاموں میں خوف بنا رہے اور اس طرح لاکھوں غلام غلامی کے دوران مارے گئے مگر بادشاہ سلامت کا تسلسل وہی رہا بجائے اس کے خلاف کوئی نہ بولا۔ کبھی کبھار بادشاہ اپنی حوس پوری کرنے کے لیے ان غلام مرد کے ساتھ یا ان کی بیویوں یا بیٹیوں کے ساتھ اپنی خواہشات کو ترجیح دیتا۔ حیرانگی اس بات کی نہیں وہ مارے جارہے تھے بلکہ اس بات کی تھی وہاں کے جو شاعر اور لکھاری تھے وہ بھی بادشاہ کی تعریف میں نوحے لکھ کر انعامات وصول کررہے تھے۔ وزیر اور فوج تو جب چاہیے کسی بھی موڑ پر لاشوں کا انبار لگا دیتے۔ وہاں ہر چیز مہنگی تھی مگر غلاموں کی خون بہت سستی۔ اس البرٹ بادشاہ کے خلاف کوئی کسی کو اکساتا یا خود بغاوت کرنے کا سوچتا یا کوشش کرتا تو اس کے ساتھ وہ کرتے جو کسی کے ساتھ نہ ہوتا۔ اس کے جسم پر ڈرل مشین سے سوراخ کرکے بادشاہ کا نام لکھتے، ناخن نکالتے، سر کے بال ناچتے، منہ پر کپڑا ڈال کر اوپر پانی ڈالتے، ننگا تشدد کرتے، اس کے سامنے اس کی بیوی کا آٹھ سالہ بچی کا ریپ کرتے، اسے الٹا لٹکا کر خوب تشدد کرتے تاکہ وہ یا زندہ نہ رہے یا بغاوت کرنے کے قابل نہ رہے۔ تشدد بھی کیا عجیب چیز ہوتی ہے جنہیں مقصد پیارا ہوتا ہے ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی اور جن کی زندگی کا مقصد نہ ہو تو وہاں تشدد بہت سے کام پیچھے چھوڑ دیتی ھے۔

غلاموں کی ایک عادت تھی کہ وہ ہمیشہ بادشاہ کو دل میں گالیاں نکالتے تھے اور کبھی کبھار جب انہیں شراپ پینے کا موقع ملتا تو جی بھر کو اس بادشاہ کے خلاف بولتے یا تو وہ کل تک زندہ نہ ہوتے یا پھر وہ خود کی رسی بنا کر خودکشی کرتا۔ البرٹ کی جیل میں قیدی ہوتا ہے جس کا نام راجا ہوتا ہے جو اکثر جیل کی دیواروں پر رات کے پچھلے پہر جاکر سرخ رنگ سے بادشاہ کے خلاف شاعری لکھتا ہے اس سے جیل کا تمام ماحول تنگ رہتا ہے اور جو بھی اس کے خلاف اٹھتا ہے وہ مارا جاتا ہے۔ اب کی بار وہ شاعری کے علاوہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھ کر جاتا ہے غلاموں کی اپنی زبان (تاخ) میں لمبی چوڑی تحریر لکھتا ۔ اب تو ان کے لیے زبان سب سے بڑی مصیبت تھی کیوں اپنی زبان میں جرت ہے، غیرت ہے، متھالوجی، شاعری، ادب اور مزاحمت بھی۔
بادشاہ سلامت غلاموں کی تاخ زبان سے تنگ اتا ہے اور سب کو اکھٹا کرتا ہے ان میں تیس ہزار لوگوں پر گولیاں چلاتا ہے جن میں سے دس ہزار لوگ مارے جاتے ہیں۔ تسلسل یہی نہیں رکتا بلکہ راجا اپنا کام اب کسی اور طریقے سے کررہا ہوتا ہے رات کو اٹھتا ہے کسی بھی بادشاہ کے نوکر کو موت کی نیند سلا کر اپنے قید خانے میں لوٹ اتا ہے راجا ہمیشہ یہ کام رات کو کرتا ہے اور کوئی بھی سراخ نہیں چھوڑتا اپنے پیچھے۔ راجا کی جو سب سے خاص بات تھی وہ غلام نہیں تھا وہ بادشاہ کے دربار کا مالی تھا اور وہ بادشاہ کا قومی تھا نہ کہ تاخی کا۔

راجا شب دیر اٹھتا دو کو مارتا اور واپس اکر سو جاتا تھا۔ ایک دن راجا جب اٹھتا ہے دیکھتا ہے بادشاہ کے وزیر کو کسی نے مار دیا ہے راجا حیران تھا یہ اس نے بھی نہیں کیا تو کس نے کیا۔ مگر راجا کو اس بات کی خوشی تھی ان غلاموں میں ہمت پیدا ہورہی ہے ایک نہ ایک دن اس بادشاہ سے چھٹکارا تو لازمی پالین گے۔
اب راجا صرف دو لوگوں کے ساتھ بیٹھتا تھا اور ان کو غلامی سے آذادی کے درس دیتا تھا اور انہیں کرنے کو کچھ کام دیتا تھا۔ مثلا جو اچھی طرح لکھ سکتا تھا اسے لکھنے کا کام دیا جاتا تھا یا شاعری کرنے کا۔ کوئی بندوق کا اچھا نشانہ باز ہوتا راجا اب ہر کسی کو اس جیل میں تربیت کر رہا ہوتا ہے۔ راجا ہر کسی کو اس کے صلاحیت و نفسیات کو پرکھ کر اسے کام پر لگاتا تھا۔ اب راجا بس اس جیل سے کچھ قیدیوں سمیت بھاگنا چاہتا تھا اور ٹھیک دس دن بعد وہ سو لوگوں کے ساتھ بھاگ جاتا ہے اور کچھ دن بعد راجا مارا جاتا ہے اور کہتے ہے کہ وہاں راجا کے مارنے کے بعد بہت بڑی بغاوت چھڑگئی اور بادشاہ سمیت وزیر اور فوج کو سب کا قتل عام کرکے اس کرسی پر خود بیٹھ گئے تاکہ اب مزید کوئی غلام نہ رہے اور جبر کا سہارا نہ لے۔

البرٹ غلاموں کو مختلف سزائیں دیتا تھا ان میں سے اکثر ایسے قیدی تھے جو بغاوت کے جرم میں پکڑے جاتے تھے تو انہیں البرٹ کہتا تھا غلاموں میں تمھیں اس لیے نہیں مارتا کہ تم بغاوت کرتے ہو بلکہ اس لیے کیوں کہ تم میرے بنائے نظام کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہوں یہ چیز نازیبا ہیں اور اس لیے تم اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہوں۔
غلام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وہ جس چراہے پر مارا جائے تو ایک دو دن سوال کیا جاتا ہے اس کے بعد غلام کسی اور حادثے کا انتظار کرتے ہے تاکہ پہلے والا سانحہ بھول جائیں۔ راجا جو اکثر غلاموں سے کہا کرتا تھا دیکھو یہ وطن ہے تمھارا ، تمھارے باپ دادا کی زمین البرٹ کی کیا حیثیت تمھیں تمھاری زمین پر غلام رکھے۔ وہ کہتا تھا دشمن کی چالیں بہت ہوتی ہے تمھیں مارنے کے لیے مگر سب سے بڑی بات یہ اہمیت رکھتی ہے وہ تمھارا دشمن ہے اور اسے مارنا جائز ہے۔
راجا کچھ باتوں سے غصہ کرتا تھا کہ جب لوگ البرٹ کی جیل سے رہا ہوتے تو قیدی کے وارث ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے تو راجا کہتا تھا تم غلام ہو اس کے لیے خوشی بے معنی ہیں۔ تم جیل سے آزاد ہوئے ہو البرٹ جیسے ظالم سے نہیں۔ جیل میں جو سب سے زیادہ پابندی تھی کہ تاخی قوم کو یکجا ہونے نہیں دیا جاتا تھا تاکہ وہ اپنے معاملات یا بادشاہ کے خلاف سازش نہ کرے مگر لوگ کا مقصد انہیں اس چیز سے نہیں روکتا بلکہ تیز کرتا تھا تاکہ وہ اپنا کام اور زیادہ کرسکے۔ جب کبھی البرٹ جیل جاتا تو وہاں کے لوگوں سے کہتا کہ تم لوگ آزاد ہوں، پہلے تم جاہل تھے اور میں تمھیں شعور دینے ایا ہوں تم وحشیانہ زندگی بسر کررہے تھے اب تم خود کو انسان کہلاتے ہوں۔
راجا کہتا تھا کہ اس سے بڑا جاہل کوئی نہیں جو کسی اور قوم پر قابض بنے وہ بھی تہذیب کے نام پر۔۔۔۔۔۔۔ طاقتور جنزیر ہوتا ہے اور وہ کبھی تہذیب یافتہ نہیں ہوتا۔ تاخی قوم کی اپنی ایک تہذیب ہے اپنا رسم و رواج، زبان، متھالوجی، نفسیات قومی، اپنے کوڈ آف آنر اور کوڈ آف کنڈکٹ جو طور حسن سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔
تاخی قوم کے لیے جو سب دکھ کی بات تھی وہ سمجھتے تھے یہ ہماری قسمت، بدنصیبی اور کنڈلی میں ہے مگر راجا کہتا تھا یہ ناممکن ہے دنیا میں نصیب و قسمت صرف طاقتور کو ملے۔ یہ سب بکواس ہے تاکہ تم جیسے لوگ مزید غلام رہے اور کبھی سوال نہ کرے۔ راجا جب جیل سے بھاگا تھا تب اس نے سب سے پہلے تاخی قوم کو ان کی زبان میں تعلیم دینا شروع کیا اور وہاں کے لوگوں میں گھل مل گیا تاکہ ان کی نفسیات کو سمجھا جائے۔ راجا کے مطابق البرٹ نے تاخی قوم کو ستر سال غلام رکھا ہے جب سے غلام کیا ہے اس دن سے ابتک صرف ایک کروڑ لوگوں میں سے سو بچوں کو پڑھایا گیا اور ان میں سے کچھ یعنی نصفِ دلال بن گئے۔ ڈاکٹرز، ہسپتال، کالج اور یونیورسٹی کا کہی نام و نشان نہیں تھا کیوں البرٹ نے جب قبضہ کیا تو سب کو جلا دیا تھا تاکہ تاخی قوم کو بتاسکو تم کتنے بڑے جاہل تھے میں تمھیں ترقی دینے ایا ہوں۔ یہی نہیں آدب و شاعری کی کتابیں، شاعروں کو ازیت دے کر مارنا، لکھاریوں کے ہاتھ کاٹنا، ڈاکٹروں کی بینائی ختم کرنا اور پھر بھی نا مانے تو اسے گرم کوئلے پر جلا کر راکھ کر دینا۔ کیوں کہ شاعر و ادیب دانشور کا کردار سب سے زیادہ زہن سازی میں ہوتا ہے وہ اگر البرٹ کے ہاتھ ہوتا تو وہاں غلام کے سوا کچھ پیدا نہیں ہوتا اور ایسا ہوا مگر کم کیوں کہ زیادہ لوگوں نے موت کو گلے لگایا نہ کے غلامی کو قبول کیا ہاتھ جوڑ کر۔ یہی مزاحمت البرٹ کے لیے بہت تکلیف دہ چیز تھی اس لیے اس نے دانشوروں کو اکٹھا کیا ان کو تاریخ کے نام پر نابلد کردو اور ادب پر جاہل اور وحشی لکھ دو اور تاکہ یہ پوری زندگی کنفیوز ہوکر مرتے رہیں۔ قوموں کا تاریخ میں بہت بڑا کردار ہے وہ انہیں مزاحمت سے جوڑی رکھتی ہے کہ ان کے باپ دادا نے اپنی زمین پر کسی بھی دشمن کو زیادہ عرصہ ٹیکنے نہ دیا۔ یہی مزاحمت شاعری کی صورت میں انہیں دشمن کو نکالنے میں جذبہ سے قربان ہونے میں سرشار کرتی ہیں۔

کہتے ہے کچھ عرصوں بعد وہاں ایک بادشاہ بنا تھا جس نے البرٹ کی طرح کرنا چاہا مگر وہ دو دن میں مارا گیا انہیں اپنے لوگوں کے ہاتھوں۔
چاچا صادق جب کہانی ختم کرتے تو بس سگریٹ سلگا کر اپنی گھر کی جانب گامزن ہوجاتے اور وہ شاید ہماری آخری ملاقات تھی میں نے بھی اس دن بعد چاچا صادق کو نہیں دیکھا۔

اسلام اور اسلامی خلیفوں، صحابیوں کی بدکرداری

افسوسناک سچائی۔۔۔ جو اسلام کی نام نہاد سچائی۔۔ عدل۔۔۔ سلامتی کا مکمل پول کھول دیتی ہے۔

جو بتایا جاتا رھا سب فریب تھا۔۔۔اصلیت تاریخ سے پرکھیں

حضرت جسٹس جاوید اقبال جو علامہ اقبال کے بیٹے ہیں ۔۔جنکی تربیت خود علامہ اقبال نے کی وہ کیا میری طرح جھوٹے ہیں؟ کافر ہیں؟ یہودی ایجنٹ ہیں یا سچے ہیں۔۔۔جیسے رفیع رضا۔۔۔۔۔سچا ہے؟

جسٹس جاوید مسلمانوں کی بے عدلی فریب مکاری ظلم کا پردہ چاک کرتے ہوئے

مسخ شدہ لاشیں(افسانہ)

مسخ شدہ لاشیں(افسانہ)
بیورگ بزدار
بالاچ اور میری دوستی کالج میں ہوئی تھی مجھے اکثر کہا کرتا تھا چاکر تم ہرجگہ صلح کرتے ہو تم اپنا نام بیورگ کیوں نہیں رکھتے بنا کسی جواب دیے میں ہنس پڑتا تھا۔ بالاچ کی ماں بات کرتی تھی مجھے ایسے لگتا تھا جیسے وہ بالاچ کی نہیں میری ماں تھی۔ دوستی بڑھتے بڑھتے ہم دونوں نے ایک ہی یونیورسٹی سے psychology میں داخلہ لیا مگر من کہی اور تھا کیا کرتا بالاچ کی ماں نے قسم دیا تمھیں صرف موت الگ کرسکتی ہے ورنہ نہیں۔ وقت کے ساتھ بالاچ اور میری دوستی اور مضبوط ہوتئ گئ۔ کچھ دنوں بعد بالاچ گھر چلا گیا تھا چاغی اور وہاں سے شال ۔ایک دن بالاچ رابطہ کرتا ہے کہ امی سے بات کرو۔ میں جی امی کہہ کر بات کررہا ہوتا ہو کہ بالاچ کی ماں کہتی ہے بیٹا اپ آجاو شال کچھ دن رہ کر چلے جانا۔ میں تیسرے دن یونیورسٹی سے نکلتا ہو سیدھا ٹکٹ کراکے شال کو روانہ ہوجاتا ہوں وہاں جاکر بالاچ کو کال کرتا ہو اتنے میں بالاچ دومنٹ کے وقفے کے بعد پہنچ جاتا ہے کہ ہم ابھی مل رہے ہوتے ہیں کہ سیاہ گاڑی میں کچھ نقاب پوش ہمیں مار کر دھکے مار کر انکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر گاڑی میں بیٹھا کر روانہ ہوجاتے ہے اتنے میں بالاچ اواز دیتا ہے چاکر تو وہ اگے سے کہتا ہے دونوں ساتھ ہو۔ اب میں دل میں بےسرور تھا یہ لوگ اگر مجھے ماریں گے یا بالاچ کو ۔ آخر ہمارا قصور کیا ہے ؟ ۔ دو تین گھنٹوں کے مسافت کے بعد ہمیں الگ الگ کالی کوٹھیڑوں میں رکھا جاتا ہے جس کا نقشہ کچھ اسطرح تھا کہ ادمی پوری طرح لیٹ نہیں سکتا ، بہت زیادہ بدبو دار کمرہ، خالی گھڑہ، ساتھ بہت سی کالہ کوٹھیڑیاں اور یہ کوئی تہہ خانہ لگ رہا تھا مجھے ویت نام کا جیل یاد اگیا جو امریکہ نے ویتنامیوں کے لیے بنایا تھا جہاں چھ ہزار ویتنامیوں کا قتل عام کیا گیا تھا اور سوچا دشمن کی ہرجگہ مارنے کی پالیسی ایک ہی ہے وہ چاہیے جس شکل میں ہو اور اس کے ساتھ والے میں بالاچ کو رکھا گیا تھا۔ میں سوچنے لگا تھا کہ کیا زندگی ہے ماں باپ کئ برس کما کر بیٹوں کو اچھی زندگی گزارنے کے لیے کیا کیا کرتے ہے مگر بے سود دو گھنٹہ میں سب کچھ برباد تو کیوں میں خود آزاد کہوں۔؟ یہاں تسلسل رکتا نہیں بلکہ بڑھ جاتا ہے ان کا اپنا ایک Interogation روم ہوتا ہے جو خاص پوچھ گاچھ کے لیے ہوتا ہے، جو سیاسی لوگوں کا الگ کمرہ ہوتا ہے میں حیران تھا یہاں بھی طبقات کی جنگ ہے تو کیوں نہ سوشلسٹ لڑے۔ اب میں نے سوچا اگر بھگت سنگھ ہوتا تو شاید بھوک ہڑتال کرتا مگر یہ جیل کے نظام میں جمہوریت لاتا اور پھانسی پر چڑھتا مگر بے سود یہاں صرف ایک ریاست وجود رکھتی تھی جو طاقت کے نام پر استحصال جانتا تھا خیر یہ جیل نہیں لاپتہ افراد کی کوٹھیڑیاں تھی۔ جیل اور لاپتہ افراد کی کوٹھیڑوں میں زمین آسمان کا فرق تھا سب سے پہلے ظاہری شکل جیل کا ہوتا ہے نہ کے سیاہ زندانوں کا۔ یہاں ہرکسی کو ایک گھنٹے کے لیے Interogation Room میں لے جاکر اس سے سوال کیا جاتا تھا کبھی کبھی اگر وہ زیادہ تنگ کرے تو اس کو ٹارچر کیا جاتا تھا۔ مگر یہاں کی جو خاص بات تھی وہ یہ کہ ان کے اپنے Categories ہوتے تھے
فرسٹ: جہاں قیدی کو کچھ دن کے لیے رکھا جاتا تھا اور پوچھ گوچھ کے بعد سہی جواب دے دیتا تو اس کو کچھ دن رکھتے اور اسے چھوڑا جاتا تھا۔
دوئم: یہاں ایسے مجرموں کو لایا جاتا تھا جن کا چھوڑنا ناممکن تھا بس وہ کبھی کبھار انہیں ٹارچر سیلوں میں مارے جاتے تو ان کی لاش مسخ کرکے پھینک دیتے جو بہت کم پہچان میں ہوتی تھی۔
سوئم : جہاں عورتوں کا ٹارچر سیل تھا انہیں برہنہ کرکے مرد ٹارچر کرتے تھے کبھی ان سے سوالوں کے جواب کے بعد اگر وہ سہی جواب نہ دیتے تو انہیں کے سامنے ان کے بچے کو مارا جاتا یا اس کی عزت نفس کو مجروح کرتے تاکہ وہ کچھ بول سکے۔
چہارم : جہاں ایسے مجرم تھے جن کو کئی سالوں سے رکھا ہوتا ہے جو کبھی بھی کسی وقت کسی جھوٹے بہانے میں انہیں مارکر دہشتگردی کا دعوئ کرتے۔ مثلا کبھی پولیس والوں کو فیک انکاونٹر میں کوئی مارنا ہوتا تو اصل مجرم کی بجائے اسے مارکر دعوئ ڈکیتی یا مقابلے میں مارتے یا کبھی ریاست کو لگتا کہ اب زیادہ لوگ سوال کررہے تو ان میں سے چار کو چھوڑ کر دس اور لاپتہ کردیا جاتا تھا اور کبھی کبھار سی ٹی ڈی کا دعوئ کرکے ان کو مختلف تنظیموں سے جوڑ کر ماوں کے کلیجوں کو مسخ کیا جاتا تھا جن میں زیادہ تر نودربر تھے۔
اخری کیٹاگریز جن میں ایسے لوگوں کو رکھا جاتا تھا جن پر انہیں سد فیصد یقین تھا کہ ان کا کسی تنظیم سے واستہ ہے اور ان کی مخبری بعد از لاپتہ بھی کی جاتی تھی کالم سے، کسی سیاسی تنظیموں سے ، ان میں سے بہت کم کو چھوڑا جاتا تھا ان میں زیادہ تر طالبعلم ، بوڑھے، جوان، عورتیں اور بچے شامل تھے جن پر ہرطرح کا ٹارچر جائز تھا وہ اگر ٹارچر کے دوران مارے جاتے تو ان کا غصہ کم ہونے کے لیے ان کے جسم کے حصے مرنے کے بعد بیچتے تھے اور انہیں سے ان کو تسلی ملتی تھی۔
یہاں سے بات واضع ہوجاتی تھی کہ اخر اتنے سالوں سے لاپتہ افراد کی لاشوں کو پھینکنا، اور لاپتہ افراد کو رہا کرتے وقت عام عوام کو خبر کیوں نہیں ہوتی بوجہ کہ ان کی سارا کام رات کو کیا جاتا تھا ۔ یہاں ایسے لوگ بھی تھے جو دن کو دکانداری کرتے تھے اور رات کو انہیں شہر کے ٹارچرسیلوں میں لوگوں کو ٹارچر کرتے تھے۔ میرا اور بالاچ کو دوسرا دن تھا ان سیاہ زندانوں میں مگر اب تک نہ ہم نے پیشاپ کیا، نہ کچھ کھایا، نہ پیا اور نہ ہی دھوپ دیکھا۔ کچھ گھنٹوں بعد ایک بھوری وردی والا اکر میرا دروازہ کھولتا ہے اور گالی دے کر کہتا ہے "آجا تیرے پیو دا بلا وا ہگا”۔ وہی شخص جو میری انکھوں میں دوبارہ پٹی ڈال کر مجھے انٹیروگیشن روم میں لیے جاکر بیٹھا دیتا ہے اور خود ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے اتنے میں اور شخص کی اندر انی کی اواز اتی ہے تبھی میری انکھوں سے پٹی کھولی جاتی ہے کیا دیکھتا ہو سامنے ٹیبل پر کچھ کیل، ہتھوڑے، ڈرل اور کچھ اور اوزار بال اکھاڑنے اور ناخن نکالنے والے، کمرے میں کچھ لوہے ، رسیاں اور کرنٹ والٹیج موجود ہیں۔ جو شخص داخل ہوتا ہے اس کی وردی پر کچھ سٹار ہوتے ہے لمبا قد، بڑی مونچھیں، داڑھی شیف، اور منہ میں سگار تھا جو جیسے اندر اتا ہے تو ساتھ کھڑے شخص سے کہتا ہے اس کو میرے بارے میں کچھ بتایا تم نے۔ ساتھ کھڑا شخص کہتا ہے جو بھی بات جانتے ہو اسے بتادو ورنہ یہ وہ حال کریں گا جو اج تک اپ نے کسی کا نہیں دیکھا ۔ افیسر جس کے وردی پر ناصر راجپوت تھا۔ وہ اکر پہلا سوال کرتا ہے۔ نام بتاو
چاکر بلوچ
کہاں سے ہو ؟
آپ نے اٹھایا ہے تو اپ کو پتہ ہوگا پورا پتہ؟
اتنے میں آفیسر کہتا ہے جتنا پوچھا اتنا جواب دو زیادہ بکواس مت کرو مادرچود۔۔۔۔؟
پھر سوال کرتا ہے تم لوگ کیوں ایسے کام کرتے ہو جو ایسا وقت دیکھنا پڑ رہا ہیں۔
مجھے خود نہیں پتہ کس لیے مجھے اور میرے دوست کو لایا گیا۔ اتنے میں زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارتا ہے جتنا کہو اتنا بتاو زیادہ بک بک مت کرو۔ اب میں سمجھ گیا تھا کہ طاقت ور اپنی اصلی زبان پر اگیا ہے اب سچ اور جھوٹ کے بیچ صرف تشدد ہوگا بات نہیں۔ تم لوگ دہشتگرد ہو ،غدار ہو اس ملک کے خلاف بھونکتے ہو، جس کا کھاتے ہو اسی کو بھونکھتے ہو، اس ملک کے خلاف باہر سے مدد لے رہو ہیں۔ میں خاموش لب بس اس کی طرف دیکھتا رہا ۔ افیسر بولتا رہا گالیاں بکتا رہا، کبھی دل کرتا تو زور سے تپھڑ مارتا یا منہ پر پانی پھینکتا۔ حیرانگی اس بات سے تھی کہ قابض کو کیوں لگتا ہے وہ اتنا تہذیب یافتہ ہیں۔ افیسر مجھ سے پوچھتا ہے تمھیں کیا لگتا ہے مادرچود تم ہمارے خلاف جو بولتے ، لکھتے، کرتے ہو وہ ہمیں نہیں پتہ کیا ہم تمھاری ہرخبر رکھتے ہے۔ تمھیں جو فقیر، عورتیں ، پاگل لوگ، بچے جو بھیک مانگتے ہے، یا کئی دکاندار، ہوٹل والے جہاں اپ باتیں کرتے ہو ہر جگہ ہمارے لوگ موجود ہیں جن کی نظر اپ پر ہوتی ہیں۔ خیر میں بولا میرا قصور کیا ہے ؟ مجھے کیوں مار رہے ہو؟ اس بات سے افسر اگ بگولہ ہوگیا اپ بتاو اپ کا کس سیاسی و مسلح تنظیم سے تعلق ہیں ؟ ۔ تو میرا جواب نہیں میں تھا ۔ تو ساتھ کھڑے شخص سے کہتا ہے دو تین دن تک اسے سونے مت دینا، کھانے کو بھی، اور جب نیند سے تنگ ائے گا تو یہ لازم بڑ بڑائے گا، اگر پھر بھی یہ زیادہ تنگ کررہا ہو تو اس کی انکھوں میں لال مرچیں ڈال دینا مگر اسے سونے نہ دینا۔ مجھے دوبارہ گھسیٹتا لے جاکر میرے کمرے میں مجھے چھوڑا جاتا ہے تبھی وہی شخص مجھے کان میں اکر کہتا ہے سب کچھ سچ بتاو اپنی جان چھڑواو۔ جاو اچھی زندگی گزارو کیا رکھا ہے اس کام میں۔ میرا جواب وہی تھا کہ مجھے کچھ نہیں پتہ تو کیا بتاو تو اگے سے وہ منہ پر لات مار کر کہتا ہے "مرجا کتی دے بچے”۔
سیاہ زندانوں میں خوف بنا ہوا تھا جو ڈرتے تھے سب کچھ بتاتے تھے تب بھی انہیں کئی ماہ تک مارا جاتا تاکہ وہ ائندہ ایسا کام نہ کرسکے۔ روزانہ معمول کے مطابق دن میں دو مرتبہ ہر کھوٹھڑی میں جاکر بانس کی دو لکڑیاں لوگوں پر توڑی جاتی تاکہ چیخیں ساتھ والے سنیں اور سب کچھ سچ سچ بتادئے۔ خوف و ہراس کا ماحول تھا، کبھی ان قیدیوں سے کہا جاتا کہ اپ لوگوں جلد از جلد چھوڑا جائے گا مگر ان کو جاکر کسی اور چھاونی میں منتقل کیاجاتا تھا۔کس طرح کا خوف، کس طرح سچ، کس طرح کا بیان اور کیسی تنظیم جب ہو بھی کچھ نہیں تو کیا کہے ؟۔ میں نے زیادہ تر عورتوں کی چیخیں بھی سنی جو بار بار کہہ رہی تھی کہ مجھے چھوڑ دوں پلیز میرا ریپ مت کرو ، پلیز مجھے مارڈالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ وہاں کسی قیدی کے کمرے سے کوئی نوک تار چیز کبھی نہیں ملتی تاکہ وہ خودکشی کبھی نہ کرسکے۔ میں حیران تھا دنیا میں مارنے کے لیے صرف بندوق ہی اصل ہتھیار کیوں تھا تاکہ ازیت سے چھٹکارا مل سکے۔ ہر دس منٹ بعد دروازہ کھٹکٹاتے تھے تاکہ خوف زندہ رہے اور سو نہ سکے۔ پھر اس وقت میرے جانے کے بعد کہتا ہے جاو دوسرے کو لاو جو اس کے ساتھ لائے تھے۔ اب بالاچ کی باری تھی وہ جسامت سے بہت کمزور تھا اگر اسے زیادہ ٹارچر کیا تو وہ مر بھی سکتا ہیں۔ جب بالاچ کو بلانے جاتا ہے تو وہ اکر بالاچ بھوک و پیاس کی وجہ سے بے ہوش تھا اتنے میں کچھ لوگ نقاب پوش اکر پانی منہ پر ڈالتا ہے تبھی بالاچ کو اٹیروگیشن میں بلایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ مجھے دوبارہ بلایا جاتا ہیں۔ ہم دونوں کو ساتھ بیٹھایا جاتا ہے تو افیسر مجھے کہتا ہے کھانا نہ دینے کی وجہ سے بہوش ہوگیا تھا سچ بتاو ورنہ یہ مربھی سکتا ہیں۔ اتنے میں افیسر کہتا ہے نام بتاو ؟
بالاچ بلوچ
کون ؟
بالاچ بلوچ
پوچھا یہ غداروں کا نام کس نے رکھا ۔ بالاچ کہتا ہے میری ماں نے۔ اگے سے افیسر کہتا ہے تو تم سب غدار ہو ۔ اتنے میں بالاچ بس غصے سے افیسر کو دیکھتا ہے بس۔ کس مسلح تنظیم سے تعلق ہے دونوں کا ؟ ۔ بالاچ جو نیم بے ہوشی کی حالت میں بس سر ہلاتا ہے” نہیں "
تبھی افیسر زور سے بالاچ کی ناک پر مشت مارتا ہے بالاچ کے ناک سے خون بہنے لگتا ہے بالاچ پھر بےبہوش ہوجاتا ہے میں بنا کچھ کیے بس برداشت کرسکتا تھا۔ بس یہاں سے نکلو گا تو بہت کچھ کرونگا لیکن میں نے اب تک کچھ نہیں کیا۔ پھر بالاچ کو وہی چھوڑا جاتا بے مجھے کہتا ہے تم بتاو اسے تم کیسے جانتے ہو ۔ یونورسٹی میں دوستی ہوئی ہیں۔ اب تم بتاو کہ کس تنظیم کو سپورٹ کرتے ہو جلدی ورنہ تمھیں ازیت سے دوچار کیا جائے گا۔ سر میں کچھ نہیں جانتا ایسا جو اپ پوچھ رہے ہو۔ تبھی ساتھ کھڑے شخص سے کہتا ہے پلاس لاو اس کے ناخن نکالو۔ تبھی میری دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کے ناخن کو پلاس سے پکڑتا ہے کہتا ہے سچ بتاو۔ سر میں کچھ نہیں جانتا ؟ تبھی اتنی زور سے نکالتا ہے میری اتنی زور سے چیخ نکلتی ہے کہ جسم کانپنے لگتا ہے، سفید کپڑے خون سے تر ہو جاتے ہیں۔ پھر کہتا ہو بتاو اسطرح سب نکلیں گے اب میرے منہ سے الفاظ کی بجائے میرا سر نا میں ہل رہا تھا تبھی دوبارہ انگھوٹی کی ناخن کو نکالا جاتا ہے اور سبھی کو نکالا جاتا ہے دائیں ہاتھ کے۔ اب کپڑے خون سے تر تھے مگر جسم نیم سن تھا اب اگر گولی بھی لگتی تو شاید کچھ محسوس نہ ہوتا۔ناخن نکالنے کے بعد جسم میں سقت طاری ہوگئی تھی کہ درد کا احساس کیا ہے اج پتہ چلا۔ افیسر کہتا ہے اس کی دوسرا ہاتھ بھی لاو تو میں ہاتھ پہلے سے اگے رکھ دیتا ہو مجھے معلوم تھا جب انہوں نے ماننا کچھ نہیں ہے صرف تشدد کرنا ہے اور مجھے سہنا ہے اور ہمارا قصور تو تھا ہی نہیں ۔ اب کی بار دوبارہ بالاچ کو پکڑا جاتا ہے کہ تم بتاو دلے دلال کس تنظیم کو اسلحہ دیتے ہو ، کس کو خوراک پہنچاتے ہو، وہ رزاق تو تمھارے علاقے کا تھا اور شاید خاندان کا ہو۔ بالاچ بس دیکھ کر خاموش لب سن رہا تھا۔ ہمیں اتنا مارا گیا کہ بالاچ اور میرے کپڑوں میں خون کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ہماری انکھوں میں لال مرچیں ڈالیں گی، ہمیں کرنٹ دیا گیا بار بار جس سے بالاچ زہنی توازن کھو بیٹھا تھا۔ بالاچ کے بال سر سے بار بار اکھاڑے گئے شاید اس افسر کو بالاچ کے نام سے اتنی نفرت تھی بار بار تشدد بالاچ کو کرتا تھا۔ ہمارے سامنے ایک عورت جس کا ریپ کیا گیا توبہ مگر اس کے بچے کے سامنے شاید یہ ہمارے لیے سبق تھا کہ اپ کے ساتھ ہوسکتا ہے لیکن ہوا نہیں۔ ایسا بہت بار ہوا ہے صرف زندانوں میں عورتوں کے ساتھ ریپ نہیں بلکہ بچوں اور نوجوان لڑکوں کے ساتھ بھی کیا جاتا تھا۔ بالاچ زخموں کی تاب نہ لاسکا اتنا خون بہا کہ وہ بچ نہ سکا۔ اب مجھے دکھ اس بات کا تھا کہ مجھے کیوں زندہ چھوڑا گیا اور بالاچ کی ماں کو کیا جواب دونگا اور کیا اس سے انکھیں ملا پاونگا۔ بالاچ کی موت کے بعد تین دن تک بالاچ کی میت کو میرے کمرے میں رکھا گیا تاکہ میں موت سے عبرت حاصل کرو اور انہیں سب کچھ سچ بتاو لیکن اب مجھ میں بس ایک بات باقی تھی مارا جاونگا، اگر بات پتہ ہوتی تو کبھی نہیں بتاونگا۔ تین دن بعد بالاچ کی میت کو میرے کمرے سے اٹھایا گیا۔ کئی ماہ بعد مجھے ایک دن گاڑی میں ڈالتے ہے انکھوں میں سیاہ پٹی تھی اور ایک ویرانے میں رات کو اکر چھوڑ دیتے ہے مجھے کان میں کہا جاتا ہے کہ دس منٹ بعد پٹی اتارنا ورنہ گولی کھاو گئے لیکن گولی سے مجھے شاید میرے سوالوں کے جواب سے چھٹکارا ملتا کہ تیری دوست کی لاش ہے مگر تو زندہ ہیں۔ جسم میں اتنی سقت نہیں تھی کہ پٹی اتارو۔ درد کی وجہ سے ہڈیاں کڑ کڑا رہی تھی تبھی گھنٹے بعد ایک بوڑھا شخص اکر پٹی کھولتا ہے اور باقیوں کی طرف دوڑتا ہے شاید باقی زندہ ہو ۔ اب دور دور سے مائیں اپنے کلیجوں کی لاشیں اٹھانے ائی ہے ، بہنیں اپنی بھائی کے لیے، بیوی اپنی شوہر کے لیے برعکس اس کے میرے علاوہ 500 لاشیں پھینکی جاتی ہیں جن میں عورتیں ، بچے، بوڑھے اور زیادہ تر جوان تھے جو مسخ شدہ لاشیں تھی جو پہچان میں تب اتی جب ان کی جسامت کے حصے پورے ہوں۔ میں اس دکھ سے نکلتا دور اسے جنگل کی جانب روانا ہو کہ وہآں سے کبھی نہیں لوٹا۔
..ختم شد۔

بیورگ بزدار

اصل جناح پر پی ایچ ڈی ممنوع کیوں ہے

ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہانپوری

پاکستان میں مسٹر محمد علی جناح کو سرکاری طور پر قائد اعظم کہا جاتا ہے، آپ کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر سرکاری تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، آپ کی تصاویر دفاتر میں آویزاں نظر آتی اور نوٹ پر چھپتی ہیں۔

تحریک آزادی کے آغاز سے انجام تک جو بھی سیاسی و مذہبی شخصیات گزری ان پر تنقید ہوئی، الزامات لگے، تہمتیں لگائی گئیں، کچیڑ اُچھالے گئے لیکن محمد علی جناح کے خلاف کہی ان کہی کے جو ڈھیر لگا دیے گئے ہیں ان کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ روزنامہ نوائے وقت نہایت سنجیدگی اور استقامت سے جناح کے دفاع کو فرض سمجھ کر محاذ جنگ پر ڈٹا ہوا ہے لیکن ان پر ترجیح پاکستان کے مفاد اور تاریخ کو حاصل ہے، محمد علی جناح کی ذات پاکستان کے مفاد اور تاریخ کی اہمیت کے بعد آتی ہے۔

پاکستان میں تین کتابوں پر پاپندی لگائی گئی؛ دوارکا داس کی کتاب رتی جناح، ایم سی چھاگلا کی کتاب روزز ان دسمبر اور اسٹینلے وولپرٹ کی کتاب جناح آف پاکستان شامل ہے۔

محمد علی جناح کی اہم تاریخی تقریر جو اُنہوں نے سول میرج کے موضوع پر اور مسلمانوں پر بھی اس کے اطلاق کے باب میں لیجسلیٹو کونسل میں کی تھی اس تقریر پر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، ہندستان کے تینوں مکاتب فکر کے علماء کی رائے اس وقت سے آج تک ایک ہی رہی ہے۔ اُس وقت جناح کی تقریر پر شدید رد عمل ہوا تھا۔

اس میں قانون کی یہ دفعہ بھی تھی جس میں رشتہ ازدواج کے دونوں خواہش مندوں کو یہ اعلان و اعتراف کرنا پڑتا تھا کہ ان کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے اور کسی اور کا جو بھی عقیدہ ہو اس سے علمائے اسلام کوکوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی تھی لیکن مسلمانوں کے بارے میں یہ بات نہ تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ کوئی مسلمان بشمول شیعہ اثنا عشری بہ قائمی ہوش و حواس اسلام کی نفی اور اس سے بے تعلقی کا اظہار ہرگز نہیں کرسکتا تھا۔ کسی ڈیکلریشن پر خاموشی کے ساتھ دستخط کر دینے کے بعد بھی کوئی مسلمان مسلمان نہیں رہ سکتا تھا۔

محمد علی جناح اور رتن بائی نے عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے اپنے مذاہب سے انکار کیا تھا اور ڈیکلریشن پر دستخط کیے تھے۔

محمد علی جناح پر متعدد کتابیں لکھی گئیں اور لکھی جارہی ہیں لیکن ان کے مصنفین کے پیش نظر اپنا مفاد رہا ہے ان کے سامنے وقت کے تقاضوں، سوانح حیات کی قومی ضرورت و اہمیت، تاریخ و سوانح کے فن کی پاپندی کی اہمیت کا کوئی تصور نہ تھا۔ ماضی میں جو کتابیں لکھی گئیں مصنفیں اپنے شوق یا ضرورت سے ایک کتاب لکھ دیتے، محمد علی جناح پر لکھی کتاب کا سکہ چل رہا تھا گویا اسے ہی موضوع بنا لیا جاتا۔

در حقیقت محمد علی جناح کی شخصیت اور سیرت میں کوئی ایسی خوبی تھی ہی نہیں کہ ان پر کوئی سوانح نگار قلم اُٹھاتا۔

محمد علی جناح کی شخصیت کا پس منظر، ان کا خاندان، ان کے بزرگ، ان کا بچپن، ان کی تعلیم، اساتذہ، دوست، ان سے تعلقات، دلچسپی کے پہلو، ان کے کھیل، ان کے سماجی، تعلیمی، تہذیبی پہلو، ان کا مطالعہ، ان کی تفریحات، تجربات، مشاہدات، ان کی عادات، اطوار، ان کی ملن ساری، احباب نوازی، مذہبی، علمی، اخلاقی، مسلمانوں اور اسلام دُشمنی اور ان کے پس منظر کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو بچوں کو پڑھایا جائے اور ان میں موضوع علیہ شخصیت کی پیروی اور ان جیسا بننے کا شوق پیدا ہو۔

اس دُنیا میں ایک ہستی ایسی تھی جو ان سے متاثر ہوئی، ان کے عشق میں مبتلا ہوئی، اپنے ماں باپ کو چھوڑا، ان کی زوجیت کو قبول کیا لیکن جب شوہر کے حق ازدواج ادا کرنے کا وقت آیا تو اُس نے بیوی کو مایوس کر دیا۔ وہ ایک ہسپتال میں شوہر کو یاد کرتے ہوئے تڑپ تڑپ کر مر گئی۔

محمد علی جناح برطانیہ سے لوٹے تو ممبئی سے قسمت آزمائی کے شوق میں بیمار باپ کی اس خواہش کو کہ وہ کراچی سے پریکٹس کا آغاز کریں، وہ ان کے پاس رہیں اور خاندان سے دور نہ ہوں، ٹھکرا کر اور ایک بہن کو ساتھ لے کر ممبئی چلے گئے، پھر کبھی پلٹ کر نہ باپ کو دیکھا اور نہ خبر لی کہ وہ کب تک جیئے اور کب مر گئے اور نہ ان کے پیچھے خاندان کی خبر لی۔

کئی اہل قلم اور مصفین نے محمد علی جناح اور ان کی سیاست کو مسلمانوں کی دوستی اور دُشمنی کے پلڑوں میں رکھ کر تولا ہے۔ مصنفین نے اپنی اپنی کتابوں میں ادھوری سچائی لکھی مکمل سچ لکھنے سے گریز کرنے کے باعث محمد علی جناح کی شخصیت مسخ ہوتی چلی گئی۔ پاکستان کی جنگ اس اُصول پر لڑی گئی کہ ہندستان میں ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں۔ دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ یہ دونوں مل کر ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں گویا پاکستان کا مطلب کیا کا نعرہ لگایا گیا۔

لیکن محمد علی جناح نے جو پاکستان کے بانی مبانی اور ترجمان تھے اور اسی خصوصیت کی بناء پر وہ پاکستان کے گورنر جنرل اور دستور ساز اسمبلی کے صدر بھی بنے تھے اپنی پہلی پالیسی تقریر میں ان دونوں باتوں کی نفی کر دی۔ پاکستان کے نظریے میں اگر کوئی فلسفہ اور مقصدیت تھی تو وہ ختم ہوگئی۔ یہ کہہ کر یہ کہ یہاں مسلمان اور غیر مسلمان میں کوئی قومی اور مذہبی امتیاز نہیں ہوگا، اور ان کے مذہبی معاملات میں ریاست مداخلت نہیں کرے گی محمد علی جناح نے ایک تقریر سے ملک کو سیکولر اسٹیٹ بنا دیا تھا۔اسمبلی کے اجلاس میں کئی نامور علماء بیٹھے تھے انہیں پتا بھی نہ چلا کہ پاکستان کے نظریے کی کایا پلٹ ہوگئی تھی۔

محمد علی جناح اس معاملے میں اتنے حساس تھے کہ اُنہوں نے لیاقت علی خاں کے ہاتھ سے ایجنڈا لے کر دیکھا تو فہرست میں ” تلاوت قرآن مجید تھی، جسے اُنہوں نے قلم زد کر دیا تھا اس لیے کہ یہ مسلم لیگ کا جلسہ نہیں تھا ایک سیکولر اسٹیٹ کی پیدائش کے اعلان کی رسم ادا کی جارہی تھی۔

اس بیان سے ہمارا مقصد کسی کے خلاف غلط اور انتہائی غلط، نہایت شرمناک برتاؤ کا شکوہ نہیں، بلکہ اس شخص کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار ہے جو سونے میں تولا گیا تھا جس کی گاڑی کھینچی گئی تھی، جسے کندھوں پر اُٹھایا گیا تھا، جسے مقدس بزرگوں اور پیغمبروں کا درجہ دیا گیا تھا اور جس کی فضیلت کے افسانے اور نظمیں لکھی گئی تھیں۔

محمد علی جناح کے ساتھ اس کے جیتے جی جو بے وفائی کی اس کی اطاعت سے گریزاں ہوئے اس کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری کی نذر کیا، جب وہ مرکزی شہر کی ایک سڑک پر گندگی کے ڈھیر کے پاس زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا تو اسے بابائے قوم بنانے والے اس کے عقیدت مند، شیدائی، اس کے احسان مند اس کی موت کی خبر کے انتظار میں ایک غیر ملکی سفارت خانے کی مجلس میں شراب کے جام لنڈھا رہے تھے۔

مورخ، پاکستان کے تاریخ داں تاریخ کی کتابوں پر محمد علی جناح کی شخصیت کے ان پہلوؤں پر لکھنے سے کیوں کتراتے ہیں؟ محمد علی جناح پر جو لٹریچر اُردو میں میری نظر سے گزرا ہے۔ اس میں علمی و فنی لحاظ سے بہت غیر معیاری مواد ہے۔ ان کے سوانح میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔ محمد علی جناح ایک سپاٹ شخصیت کے مالک تھے، گجراتی ان کی مادری زبان تھی، انگریزی اُنہوں نے سیکھی تھی، اُنہیں انگریزی بولنے پر عبور تھا، اُردو میں گفتگو اور تقریر سے گریزاں رہتے تھے، لکھنے کا اُنہیں کبھی اتفاق نہ ہوا تھا۔

عربی، فارسی سے وہ بالکل نابلد تھے، مطالعہ کا انہیں شوق نہ تھا، قانون کے سوا دیگر علوم یعنی تاریخ، فلسفے، شاعری، تحقیق، تنقید، مذہب وغیرہ سے ان کے شوق اور مطالعہ کے ذوق کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔

اسلامی فقہ سے ان کے تعلق کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے، انگریزی میں چھٹی جماعت میں پڑھنے کا ذکر ملتا ہے، پاس ہونے کا نہیں، قانون میں نہ ان کے پاس اُونچے درجے کی ڈگری تھی اور نہ وہ خود صف اول کے ایڈوکیٹ تھے، ہندستان میں ان کے ہارے جانے والے مقدمات کی تعداد ان کے جیتے ہوئے مقدمات سے زیادہ ہے۔ان کا ایک مقدمہ بھی بطور نظیر قانونی بحث میں حوالے کے لیے موجود نہیں ہے۔

محمد علی جناح نے اپنی زندگی میں سیاسی جدوجہد کی مگر وہ جمہوری انداز فکر اور سیاسی طرز عمل نہ اپنا سکے، اُنہوں نے ایک خاص مسئلے میں اپنی رائے کے مطابق عمل نہ ہوتے دیککھ کر سندھ کی حکومت کو برطرف کر دیا تھا اور دوسری حکومت قائم کر کے اپنی منشاء کے مطابق فیصلہ کروا لیا تھا ایک منتخب حکومت کا توڑ دینا اور ایک نامزد وزیر اعلیٰ سے اپنی منشاء کا فیصلہ کرا لینا ان کے شایان شان نہیں تھا۔

اس سے پہلے محمد علی جناح نے صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) کے گورنر کو حکم دیا کہ وہ صوبے کی حکومت ڈس مس کر دے گورنر کو اختیار ہوتا ہے کہ گورنر جنرل کے حکم اور اشارے کے بغیر صوبائی حکومت کو توڑے لیکن اس کے لیے قانونی جواز کی ضرورت ہوتی ہے جو موجود نہیں تھا۔ سرحد کے گورنر نے حکومت توڑے جانے پر لکھا کہ گورنر جنرل پاکستان کے حکم سے سرحد کی حکومت کو توڑا جاتا ہے۔

صوبائی حکومتوں کو نہ تو گورنر جنرل نے اعتماد میں لیا تھا نہ وزیر اعظم نے اس کے ساتھ شفقت اور مہربانی کا برتاؤ کیا تھا۔ سندھ کی انٹیلی جنشیا حیرت زدہ تھی کہ گورنر جنرل پاکستان سندھ میں کھوڑو حکومت سے، پنجاب میں افتخار ممدوٹ حکومت سے، سرحد میں ڈاکٹر خان کی حکومت توڑ کر، بلوچستان کو آزاد صوبائی حکومت کے قیام کے بجائے گورنری نظام کے حوالے کر کے، ریاست بہاولپور کو ڈرا کر، قلات ریاست کو فوجی ایکشن کر کے بلوچستان کی لسبیلا، خاران، مکران اور سرحد میں دیر، چترال اور سوات کی ریاستوں پر قبضہ کر کے وہ پاکستان کی تعمیر کر رہے ہیں؟

یا پھر کھوڑو اور سندھ کے قوم پروروں سے پنجاب کے یونینسٹوں سے یا سرحد کے خدائی خدمتگاروں سے یا بلوچستان کے حریت پسندوں اور خان عبد الصمد خاں اچکزائی، نامور نیشنلسٹ سے انگریزی دُشمن کا، سہرودری سے کسی خطرے کی بناء پر، نواب قلات احمد یار خان سے تعلقات نبھانے میں کسی غلطی یا عقیدت و اظہار نیاز مندی میں کسی غفلت کی وجہ سے، ان تمام حضرات سے انتقام لیا جارہا ہے۔؟

تاریخ کی کتابوں میں یہ بھی کیوں نہیں بتایا جاتا کہ محمد علی جناح نے دہلی میں اپنی کوٹھی کی فروخت کے لیے جواہر لال نہرو سے رابط کیا اور اس کوٹھی کو مہنگے داموں فروخت کرانے کی درخواست کی جس پر نہرو نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد اپنی باقی زندگی ممبئی میں جاکر گزارنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔ محمد علی جناح کی شخصیت کا یہ پہلو اُس سے قطعی طور پر متضاد ہے جس جناح کے بارے میں پاکستان میں تبلیغ کی جاتی ہے۔

تین جون اُنیس سو سنتالیس کے تقسیم ہند پلان کے دستخط کے بعد محمد علی جناح نے کانگریس اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرنے کی مہلت مانگی تھی جسے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ اب وہ وقت گزر گیا ہے۔

اس خطے میں قوم پرستی کو فرقہ پرستی میں مسلم لیگ کی سیاست نے بدلا جس کی لپیٹ میں آج کا پاکستان ہے۔ مسلم لیگ کی سیاست سے اس خطے کی سب سے بڑی اقلیت کو زبردست نقصان پہنچا، انہیں ایک ناقابل تصور تباہی سے گزرنا پڑا اور پاکستان کے قیام میں آجانے کے بعد یہاں تاحال مستحکم نظام قائم نہیں ہوسکا۔ آج سندھ، بلوچستان، سرحد اور پنجاب جن مسائل سے دوچار ہیں ان کا بڑا حصہ محمد علی جناح کا پیدا کردہ ہے اگر یہ سب افواہیں اور جھوٹا پراپیگنڈا ہے تو اسے ثابت کیا جائے اور اس کے بعد ہمیں توجہ کرنی چاہیے اور محمد علی جناح کی خدمات سے ہرگز انکار نہیں کرنا چاہیے

۔