سنیئے کہ عالمی طبیعاتی سائینس دان خدا کے بارے کیا کہتے ہیں

سائینس دان کے مطابق، اگر مذھبی خدا عظیم تر اور طاقتور ترین ہے اور ساتھ میں نہایت رحم کرنے والا بھی ہے تو بےشمار زلزلوں، طوفانوں، سیلابوں بیماریوں کی وجہ سے اربوں لوگوں کی تکلیف دہ اموات اور بعد کے لوگوں کے غموں کا مداوہ کر سکتا۔

اسکا مطلب یہ ہے کہ مذھبی خدائی تصور خود ہی اپنے دلائل کو توڑنے والا ہے۔

اگر خدا اپنی ہی مخلوق کو معزور بنائے معزور پیدا کرے تو اسکی صناعی بھی سوال طلب ہے۔

پس مذھبی خدا عقلی اور سائینسی ، اور فلسفیانہ سطح پر بالکل پورا نہیں اترتا جیسا کہ مذھبی خدا کا تصور ہے جیسے کہ اسکی صفات کا تذکرہ ہے

برین واشڈ لوگ جھوٹ گھڑ گھڑ کے اگلی نسلوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

انبیا رسول اور اولیا تمام مذھب کنٹرول کے طریقے ہیں۔

اسلام چونکہ نیا مذھب تھا اس لئے یہ تلوار سے ہی پھیلایا گیا مگر نام سلامتی رکھا۔۔لوٹ مار کی گئی مگر نام رحت رکھا۔۔ بچوں عورتوں کو بیچا خریدا گیا مگر نام رحمت رکھا۔۔یہ فریب لفظی مباشرت کے طریق پر مولوی ، پنڈت گورو ربی لوگوں کو دیتے ہین مگر صاحب عقل جانتا ہے کہ تمام جھوٹ ہے

رفیع رضا۔۔

تسلیم الہی زلفی ایک فراڈ، فیض بیروت میں کتاب جعلی

تسلیم الہی زلفی نامی ایک شخص لوئی 25 سال سے ادبی لوگوں کو بیوقوف بناتا رھا ھے۔

کبھی جعلی ایوارڈ بانٹتا تھا کبھی اپنے لئے اسپیشل بینر دوسرے ملکوں کی ادبی تقریبات میں لگوانے کے لئے پیسے دیتا کہ اُسے عالمی ماھرِ فنون لطیفہ، عالمی براد کاسٹر، شاعر ادیب وغیرہ لکھا جائے۔۔وعدے کرتا تھا کہ جو اسکے لئے یہ کرے گا زلفی اپس کو آئیندہ عالمی مشاعرے میں کینیڈا بُلوائے گا۔۔۔بہت سی خواتین نے مجھ سے رابطہ کیا جن سے اس نے دھوکہ کیا ھے۔ان میں حبیب جالب کی بیٹی طاھرہ جالب بھی شامل ھیں۔

اس فراڈئیے کو بےنقاب کرنے میں سابق سفیر پاکستان کرامت غوری صآحب اشفاق حسین صاحب نے کام کیا ھے۔

انکی کتاب یہاں موجود ھے

زلفی کی جعلی کتاب کے ٹائیتل پر جعلی تصویر بھی ھے جو اُس نے فوٹو شاپ کروا کر لائی ھے۔۔اسکا تیاپناچہ بھی میں نے کر دیا ھے اصلی تصویر بھی ساتھ لگائی ھے۔

زلفی کا کوئی ھمدرد یا زلفی مجھ پر مقدمہ کرنا چاھتا ھے تو مین کینیڈآ میں موجود ھوں۔اُلٹا اس پر جعلسازی کا مقدمہ چلواؤں گا

،،،،،،،،،،،

،،،،

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

اقبال کی نظم، لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا۔۔ترجمہ ہے


اور تو اور اب۔۔۔۔۔اقبال کی اس ترجمہ شدہ ، چوری شُدہ نظم کو پھر انگریزی میں ڈھال کر ایسے پیش کیا جا رھا ھے جیسے۔۔۔اصل ابتدائی لکھنے والا اقبال تھا۔۔یار خدا کے لئے کُچھ تو شرم کرو۔۔۔۔۔

اگر ترجمہ ھے تو ھر بار کیوں نہین لکھتے کہ ترجمہ یا ماخوذ ۔اصل مصنف۔۔یا شاعر کا نام کیوں کھا جاتے ھو۔۔یہ سارے خیالات تو اُس انگریز شاعرہ کے ھین۔۔
اقبال کی مشہور نظم ۔۔۔۔۔لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنا میری۔۔۔۔۔

جس انگریزی نظم کا چربہ یا ترجمہ ھے۔۔۔وُہ یہ ھے۔۔۔

میٹیلڈا بیتھم ایڈورڈ ۔۔۔ایک مشہور شاعرہ کی یہ حمد تھی۔۔۔۔۔
 

  • Matilda Betham-Edwards was an English novelist, travel writer and francophile. She was also a prolific poet and wrote several children’s books. She also corresponded with well-known English male poets of the day. WikipediaBorn: March 4, 1836, England, United KingdomDied: January 4, 1919, Hastings, United Kingdom

Hymn for a Little Child

God make my life a little light,
Within the world to glow;
A little flame that burneth bright,
Wherever I may go.

God make my life a little flower,
That giveth joy to all,
Content to bloom in native bower,
Although its place be small.

God make my life a little song,
That comforteth the sad;
That helpeth others to be strong,
And makes the singer glad.

God make my life a little staff
Whereon the weak may rest,
That so what health and strength I have
May serve my neighbours best.

God make my life a little hymn
Of tenderness and praise;
Of faith – that never waxeth dim,
In all his wondrous ways.

ب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جاے

ہر جگہ میرے چمکنے سےاجالا ہو جاے

ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت

جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب

علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب

ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

میرے اللھ براٴیی سے بچانا مجھ کو

نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو

۔۔۔۔

پہلے اقبال نے اسکا ترجمہ کیا تھا جو مختلف تھا اور ترک کر دیا۔۔وہ یہ ھے۔۔

آپ میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں کہ اقبال نے جب میٹلڈا کی حمد کا ترجمہ کیا، جسے لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنّا میری۔۔۔کی صورت میں گایا گیا اور مشہور ھو گیا۔۔۔اُسی نظم کا دوسرا ترجمہ بھی اقبال نے کیا تھا۔۔جو مخزن میں شائع بھی ھوا تھا۔۔۔۔میٹلڈا کی نظم یہ تھی۔۔

She was also famous well known name for children poetry like Iqbal often did in his books of poetry.علامہ اقبال کی مشہور نظم ۔۔۔۔۔لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنا میری

مشہور شاعرہ میٹیلڈا بیتھم ایڈورڈ کی انگریزی نظم کا ترجمہ ہے

Hymn for a Little ChildGod make my life a little light

Within the world to glowA little flame that burneth bright

Wherever I may goGod make my life a little flower

That giveth joy to allContent to bloom in native bower

Although its place be smallGod make my life a little song

That comforteth the sadThat helpeth others to be strong

And makes the singer gladGod make my life a little staff

Whereon the weak may rest

That so what health and strength

I haveMay serve my neighbors bestGod

make my life a little hymnOf tenderness

and praiseOf faith – that never waxeth

dimIn all

his wondrous ways

۔۔بچّے کی دعا

میری خوشبو سے معطر ہو زمانہ سارا

بن کے بلبل ہو مرے حسن پہ دنیا شیدا

علم دنیا کے چمن میں ہو اگر گل کی طرح

میں چہکتا رہوں اس پھول پہ بلبل کی طرح

دکھ اٹھائے مرے ہاتھوں سے نہ جاندار کوئی

اے خدا عمر اسی طرح بسر ہو میری

دکھ بھی آ جائے تو ہو دل نہ پریشاں میرا

شکر ہر حال میں ہو میری زباں پر تیرا۱،

،

//////

حضور کے نام پر جان بھی کُڑبان۔۔۔۔۔جاہل قاتل کی آواز

سیالکوٹ میں سری لنکا کے ایک شخص کا قتل،،،،اور تشدد اور لاش کا جلانا۔۔اسلام کی عظمت کا اعلی ترین پاکستانی ثبوت

حرامی پاکستانی قاتل

سیالکوٹ میں ، سری لنکا کے ایک شخص کو قتل کرنے والے۔۔۔اُس شخص کو تو اردو زبان بھی نہیں آتی تھی۔۔

پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کا پرچہ لیک ھو گیا

پرچہ لیک ھو گیا ھے۔۔۔یہ لیں۔۔۔۔۔۔۔مین پوسٹ کر رھا ھُوں،،،،،،،،،،”پرچہ سٹریٹیجک سٹڈیز”

پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول
پی ایم اے لانگ کورس 117
پیپر III:سٹریٹیجک سٹڈیز
تھرڈ ٹرم:خزاں 2021
کل نمبر:100
وقت:دو گھنٹے چالیس منٹ

نوٹ:کوئی سے پانچ سوالات حل کریں۔تمام سوالات کے نمبر برابر ہیں

سوال نمبر ایک

(الف) "بلڈی سویلین” کون ہوتا ہے۔عاصمہ جہانگیر کی فیسبک/ٹویٹر کور فوٹو کے علاوہ اسکی کون کون سی اہم نشانیاں ہیں۔اسے ٹریک ڈاوُن،رام/ٹارچر اور قید/قتل/ریلیز کرنے کا سابق سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی ملتان بریگیڈئر طارق امین کا معروف سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر سپرد قلم کریں۔(10)

(ب) "شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے” ، "جنت تلواروں کے سائے ہے” اور "القاتلو فی سبیل اللہ” کے سلوگنز کو نان کمیشنڈ افسران اور سپاہیوں کو ہمہ وقت آمادہُ قتل رکھنے میں کس طرح ممدومعاون ہو سکتے ہیں۔ایک ایک عملی مثال سے واضح کریں۔(3+3+4)

سوال نمبر دو

(الف) پاک ایران بارڈر سے تیل،گاڑیاں،الیکٹرانکس،کمبل،ڈرائی فروٹ،کوکین،جنسی ادویات اور شراب کے سمگلنگ چینل کو سیکیور کرنے اور کمانڈر سدرن کمانڈ کو پچاس فیصد حصہ پہنچانے کے بعد بقیہ پیسوں کو ڈی ایچ اے/عسکری پراپرٹیز میں انویسٹ کر کے عسکری بینک کی وساطت سے وائٹ کر کے برٹش ورجن آئی لینڈز پہنچانے کا طریقہُ کار ایک آپریٹنگ کرنل کے نقطہُ نظر سے سپرد قلم کریں۔(10)

(ب) جنرل آفیسر کمانڈنگ مری اور جنرل آفیسر کمانڈنگ گلگت بلتستان کے آفیشل 330 پوما ہیلی کاپٹرز پر پکنک منانے جانے کے لئے کون کون سے مقامات موزوں ہیں۔کور کمانڈر سری نگر لیفٹننٹ جنرل سکھ یادیو سے مقبوضہ کشمیر میں پکنک منانے کی اجازت کو ملٹری انٹیلیجنس سے کس طرح مخفی رکھا جائے۔اس طرح کے ٹرپس میں سویلین سکریننگ کرتے وقت کن کن امور کو مدنظر رکھنا ضروری ہے نیز سپاہیوں کے سامنے مومن کمانڈر کے امیج کو کس طرح برقرار رکھا جائے۔تجاویز دیں۔(10)

سوال نمبر تین

(الف) یوکرین کے دارلحکومت کیف سے ایک ٹی 90 ٹینک پروکیور کرنے اور اسے آرڈیننس فیکٹری واہ میں الخالد ٹینک میں کنورٹ کرنے پر اگر سٹیٹ کے چار کروڑ ڈالر خرچ ہوتے ہیں تو یوکرین کے وزیر دفاع سرگئی رومانوف کو تمام پیمنٹ کرنے اور شپنگ کاسٹ کو منہا کر کے کتنے شادی ہالز ,پیزا شاپس اور سپر سٹورز بنائے جا سکتے ہیں۔ایک کیس سٹڈی کریں۔(10)

(ب) 1971 کی جنگ میں شکست کے بعد لیفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے سپاہیوں اور افسران کی پتلونیں اتارنے کی تقریب کو مس ہینڈل کیا اور لیفٹننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کو میڈیا کوریج سے روکنے میں ناکام رکھ کر ہمارے ادارے کی جگ ہنسائی کا باعث بنے۔اس طرح کی صورتحال کو کس طریقے سے مینج کرنا چائیے تا کہ مستقبل میں لازمی بھرتی کا کڑوا گھونٹ نہ پینا پڑے۔تجاویز دیں۔(5)

(ج) پاکستان آرمی کو سٹاک ایکسچینج میں لسٹ کر کے اس کے حصص کو کیا غیر ملکی شہریوں کو فروخت کرنا کیا ملکی سیکیورٹی پہ سمجھوتہ ہو گا؟ آدم جی گروپ اور نشاط گروپ کس طرح سے پاکستان آرمی کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں اوراسے کس طرح مینج کیا جائے۔بحث کریں۔(5)

سوال نمبر چار

(الف) افغان طالبان کو سپورٹ کرنے پر افغان عوام کے اندر پاکستان آرمی کے لئے پائی جانیوالی نفرت اور کراہت کو کن طریقوں سے نیوٹرلائز کیا جا سکتا ہے۔تجاویز دیں۔(5)

(ب) مسئلہُ کشمیر کو زندہ رکھنا اور اسکے حل کی جانب ہونیوالی ہر پیشرفت کو ناکام بنانا ہمارے مفاد میں کیوں ضروری ہے۔ملیر کینٹ میں سری نگر اور کپواڑہ کے سیٹس اور مظلوم کشمیریوں کے میلے کچیلے کاسٹیومز کو 2021 کے مطابق ری ڈو کرنے کا پراجیکٹ شعیب منصور یا سید نور میں سے کس کو سونپنا زیادہ مفید رہے گا۔بحث کریں۔(5)

(ج) کنگز پارٹی کی تیاری جنرل الیکشن سے کتنا عرصہ پہلے شروع ہوتی ہے۔امیج بلڈنگ سے لیکر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اتحادیوں کی مدد سے خفیف اکثریت دیکر حکومت کو انڈرپریشر رکھنے کا طریقہُ کار موجودہ میڈیا کوریج کے دور میں کس طرح فول پروف بنایا جا سکتا ہے۔(10)

سوال نمبر پانچ

(الف) باجوہ ڈاکٹرائن نے پس پردہ رہ کر معاملات کو چلانے کی جو کوشش کی اس میں کیوں ناکام ہوئی۔اگر آپ آرمی چیف یعنی سربراہ مملکت بنتے ہیں تو اس ڈاکٹرائن میں کون کون سی تبدیلیاں کرینگے تا کہ ملک معاشی طور پر تباہ نہ ہو اور ہمیں لائنز شئیر ملتا رہے۔(10)

(ب) نصابی کتب،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اور 5 فروری،
23 مارچ،5 اگست،14 اگست اور چھ ستمبر کی تقاریب میں بھارت کی نفرت اور مسئلہ کشمیر حل ہونے تک اس کے ساتھ تجارتی ،تعلیمی،ثقافتی اور سیاحتی مراسم کا سوال ہی نہ اٹھنے کا بھرپور ریاستی بیانیہ اور امن کی آشا جیسی کمپینز کو مستقبل میں سبوتاژ کرنا کتنا ضروری ہے۔بحث کریں۔(10)

سوال نمبر چھ

(الف) اگر صدر مملکت یا وزیراعظم کا ملٹری سیکرٹری چھٹی پر ہو تو انکی تقاریر کا مسودہ جی ایچ کیو میں کون سی کنسرڈ اتھارٹی اپروو کریگی۔اس رئیل ٹائم کمیونیکیشن کو را،موساد،ایچ آر سی پی،سی آئی اے اور ایم آئی فائیو کی ممکنہ ہیکنگ سے کس طرح سیکیور کیا جا سکتا ہے۔اصول واضح کریں۔(10)

(ب) سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل اسد درانی کو را چیف اے ایس دلت کیساتھ ملکر دا سپائی کرونیکلز لکھنے پر کورٹ مارشل سے بچانا کیوں ضروری تھا۔لیفٹننٹ جنرل آصف غفور نے بینگ ڈی جی آئی ایس پی آر جس طرح اس صورتحال کو مینج کیا کیا وہ بہترین ڈیمج کنٹرول تھا یا اس سے بھی بہتر طریقے سے صورتحال کو ہینڈل کیا جا سکتا تھا۔بحث کریں۔(10)

سوال نمبر سات

(الف) "میں ہر قسم کی سیاسی سرگرمی سے دور رہوں گا” پی ایم اے کاکول کے پاسنگ آوُٹ حلف میں اس جملے کی موجودگی مگر اس پر عملدرامد کرنے کی ضرورت کے نتیجے میں تھیوری اور پریکٹس کے تضاد کو ایک اوسط ذہانت کے افسر کے لاشعور میں کس طرح ریکنسائل کیا جا سکتا ہے۔واضح کریں۔(10)

(ب) ایک اپ بیٹ جنگی نغمے کو اے آر رحمان یا انو ملک سے دبئی میں کمپوز کروانے پر کتنا ٹائم صرف ہوتا ہے۔اس نغمے کو پاکستانی موسیقار سے منسوب کر کے آئی ایس پی آر کے ذریعے ریلیز کر کے جذباتی عوام کو قابو میں رکھنا کیا دفاعی وسائل کا ضیاع ہے یا ضرورت۔بحث کریں۔(10)،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،(رفیع رضا)

عورت کی آدھی گواھی۔۔۔اسلامی زاویہ

عورت کی آدھی گواھی کیوں کیسے، غلطی کا ازالہ

خدیجہ پوری گواھی تھی جس نبوّت کی

اُسی نے آدھی گواھی کا حق دیا اُس کو

رفیع رضا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اخبارات میں کافی دنوں سے قانون شہادت زیربحث ہے او ر یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ حالانکہ اہل علم نے مسئلہ کی وضاحت کربھی دی ہے کہ:1۔ حدود و قصاص کے سلسلہ میں عورت کو گواہی کے لیے زحمت نہیں دی جائے گی۔2۔ رضاعت وعدت وغیرہ کے مسائل میں عورت کی گواہی قابل قبول ہوگی اور مرد مکلّف نہ ہوگا۔3۔ مالی معاملات میں دو مردوں کی گواہی مطلب ہوگی، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اورد و عورتیں گواہی دیں گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَ‌جُلَيْنِ فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ…﴿٢٨٢﴾…سورۃ البقرۃ……. اور قرآن مجید میں جہاں ”فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ” کا ذکر ہے ، وہاں اس کی حکمت بھی بیان فرما دی گئی ہے۔
﴿أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ ۚ…﴿٢٨٢﴾…سورۃ البقرۃکہ”ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے۔”
مسئلہ تو بالکل واضح ہے، مگر حقوق نسواں کے نام نہاد علمبرداروں نے اسے چسیتاں بنا کے رکھ دیا ہے۔بالخوص سورة البقرة کی مندرجہ بالا آیت ان کی ستم رانیوں کا نشانہ بنی ہے کہ ﴿أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ ۚ…﴿٢٨٢﴾…سورۃ البقرۃ” کے تحت چونکہ ”گو اہی تو ایک ہی عورت (شاہدہ) دے گی، دوسری مذکرہ ہوگی جو شہادت کے کسی حصہ کو بھولنے پر اطلاع دے گی!” ……. فلهذا:”اسلام میں ایک عورت کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے!”
….. او رپھر اس بنیاد پر تفسیر بالرائے کا جو اودھم مچا اور تفسیر قرآن کےنام پر جو ، نت نئے شگوفے چھوڑے گئے ہیں، انہوں نے ان طوفانوں کی ہلاکت خیزیوں کوبھی مات کردیاہے، جوبے حجابیوں کی لہروں پر سوار ہوکر لاہو راو رکراچی کی سڑکوں پر مچلے تھے۔
سوال یہ ہے کہ : ﴿أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ ۚ…﴿٢٨٢﴾…سورۃ البقرۃ” کے تحت کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایک عورت کے بھول جانے کا خدشتہ لاحق نہ ہو تو ”فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ” ”(دو مردوں کی بجائے) ایک مرد او ردو عورتوں ” کے قرآنی اصول سے صرف نطر کرلیا جائے گا؟ ……حکمت و مصلحت خواہ کچھ بھی ہو، شہادت کا انداز خواہ کوئی ہو، اس مذکورہ نصاب میں کچھ کمی بیشی ممکن ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے کہ ایک عورت کی یادداشت قوی ہونے کی صورت میں دو کی بجائے ایک ہی عورت کی گواہی قابل قبول ہوسکتی ہے ، جیسا کہ اس سلسلہ میں کئی آراء سامنے آئی ہیں۔ تو پھر براہ کرم ہمیں یہ کہنے کی بھی اجازت دیجئے کہ اگر دو عورتوں کی یادداشت کمزور ہے تو پھر تیسری کو، اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو تیسری کے بعد چوتھی کو بھی ایک مرد کی بجائے گواہی کےلیے لاکھڑا کیا جاسکتا ہے! ظاہر ہے جہاں تک مرد کاتعلق ہے، اس کی یادداشت کا مسئلہ تو زیر بحث ہی نہیں او رجب یہ مسئلہ عورت ہی سے متعلق ہے تو پھر کمئ تعداد کے علاوہ زیادتئ تعداد کا مسئلہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ فافهم و تدبر!
او رجہاں تک ”شاہدہ” اور ”مذکرہ” کا معاملہ ہے کہ ”گواہی صرف ایک ہی عورت دے گی، دوسری صرف بھول جانے پر یاد دلائے گی” یا ” بغور سنے گی!” تو یہ قرآن مجید کی کس آیت کا ترجمہ او رکس حدیث رسول اللہ ؐ کی تشریح ہے؟
قرآن مجیدنے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں یعنی ”أن تضل إحداهما فتذكر إحداهما الأخرى” ان سے یہ نتیجہ کشید کرنا کہ ”گو اہی صرف ایک ہی عورت دے گی” کہاں تک درست ہے؟
اس طرح تو کئی اشکال سامنے آئیں گے۔مثلاً1۔ کیا عدالت پہلے سے یہ طے کرلے گی کہ دو عورتوں میں سے ایک ”شاہدہ” ہے اور دوسری ”مذکرہپ؟”2۔ یہ تعیین کس بنیاد پر ہوگی؟ جبکہ دونوں عورتوں میں سے ہر ایک ”شاہدہ” بننے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور ”مذکرہ” بننے کی بھی۔ قرآن مجید کے الفاظ کا ترجمہ تو یہی ہے کہ ”ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے” ”شاہدہ” اور ”مذکرہ” کی تقسیم کے تحت بھولنے والی کون ہوگی اور یاد کون دلائے گی؟3 دونوں عورتوں میں سے کوئی ایک ، خواہ وہ ”’شاہدہ” ہو یا ”مذکرہ” جس معاملہ پر شہادت مطلوب ہے، اس کے لیے موقع کی گواہ ہونا دونوں کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ ”شاہدہ” شاہدہ نہیں ہوسکتی اور ”مذکرہ” کی تذکیر بے معنی ہے، لہٰذا شہادت و تذکیر دونوں ہی شہادت کے زمرہ میں آئیں گے۔ اس بناء پر یہ کہنا کہ ”شہادت تو ایک ہی عورت دے گی…..!” کہاں تک درست ہوگا؟4۔اگر ایک عورت شہادت دیتی ہے اور دوسری خاموشی سے ”بغور سنتی رہتی ہے” کہ وہ بھولی نہیں لہٰذا یاددلانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ اب کیا یہ خاموش رہنے والی پھر بھی ”مذکورہ” ہی کہلائے گی؟5۔ ایک معاملہ اگر دونوں عورتیں ایک دوسری کو یاد دلاتی ہیں، تو دونوں ”مذکرہ” ہوتیں، پھر ”شاہدہ” کون ہوگی؟6۔ ”رجلین” کی بجائے ”فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ” کا نصاب تو بہرحال پورا کرنا ہے۔ شق نمبر 4 کے تحت اگر ”مذکرہ”، مذکرہ ہی نہیں اور شق نمبر 5 کے تحت دونوں ہی ”مذکرہ” ہیں، ”شاہدہ” کوئی بھی نہیں تو ”وامرأتان” کی اس تفسیر (ایک ”شاہدہ” اور دوسری ”مذکرہ” کے تحت یہ نصاب کیونکر پورا ہوگا؟7۔ اور سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ ”شاہدہ” کے ساتھ ”مذکرہ” اور ”مذکرہ” کے ساتھ ”شاہدہ” کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب اگر عنایت فرمادیا جائے تو مسئلہ خود بخود ہی حل ہوجائے گا کہ:”دو مردوں کی شہادت ، ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت کےبرابر ہے!”اور :”ایک مرد کی شہادت ، دو عو رتوں کی شہادت کے برابر ہے!”
اور یہی قرآن مجید کا مقصود بھی ہے ، ورنہ جہاں تک ”أن تضل إحداهما فتذكر إحداهما الأخرى” کا تعلق ہے تو یہ:دو عورتوں کی شہادت …… ایک مرد کی شہادت
کی وجہ مذکور ہوئی ہے۔ جس میں عورت کی فطرت کوملحوظ رکھا گیا ہے او رجس میں اس کا اپنا کوئی قصور بھی نہیں نہ کہ اس سے ”شاہدہ” اور ”مذکرہ” کی تعیین و تعریف مراد ہے۔ پس یہ کہنا کہ ”گواہی تو ایک ہی عورت دے گی، دوسری صرف بھو ل جانے پر یاد دلائے گی۔” از روئے قرآن سراسر باطل و بیکار ہے اور عقل و نقل سے بھی بعید! 2
علاوہ ازیں ہم اپنے مؤقف کی تائید میں قرآن مجید ہی سے ایک او ردلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ:قرآن مجید میں”فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ” کے بعد ”مِمَّن تَرْ‌ضَوْنَ مِنَ ٱلشُّهَدَآءِ” کے الفاظ مذکور ہیں۔ لہٰذا ”رجلین” یا ”رجل و امرأتان” (اور بقول ”مفسرین کرام” رجل ، شاہدہ او رمذکرہ) ان سب پر شہداء ہی کا اطلاق ہوگا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ”گواہی تو ایک ہی عورت دے گی، دوسری صرف بھول جانے پر یاد دلائے گی” نص قرآنی کے یکسر خلاف ہے۔ فهو المطلوب!
جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، مذکورہ بالا آیت قرآنی کی تفسیر میں کئی آراء سامنے آئی ہیں، جن سے اپنے من مانے مطلب کشید کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن افسوس کہ ان تمام ”مفسرین” میں سے کسی نے بھی ”فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَ‌جُلَيْنِ” کے حرف ”ان” (اگر) کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا کہ ”اگر و مرد نہ ملیں” تو پھر ”ایک مرد اور دو عورتیں” (فرجل و امرأتان) کی ضرورت پیش آئے گی، ورنہ مردوں کے ہوتے ہوئے عورتوں کو مالی معاملات میں بھی شہادت کے لیے زحمت دینے کی ضرورت ہی نہیں!
اگر بات اب بھی سمجھ میں نہ آتی ہو تو ہم دوبارہ عرض کیے دیتے ہیں کہ ”ان” حرف شرط ہے لہٰذا ”ایک مرد اور دو عورتوں” کی شہادت کا معاملہ مشروط ہے اس شرط کے ساتھ کہ ”جب دو مرد نہ ملیں” اور اگر یہ انتظام ہوجاتا ہے تو دوسرا انتظام (جس میں عورتوں کی ضرورت بغرض سہولت ، متبادل ہے)کرنا ضروری ہی نہیں ہے ، کجا یہ کہ اس سے 1=1 کا نتیجہ حاصل کرنےکے لیے کھینچ تان کی جائے۔ جیسا کہ اسی آیت میں اس سے قبل ”وَٱسْتَشْهِدُواشَهِيدَيْنِ مِن رِّ‌جَالِكُمْ” (کہ اپنے مردوں میں سے دو گواہ کرلیاکرو) کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔ ہاں اگر ”دو مرد نہ ملیں” تو پھر بغرض سہولت ”ایک مرد اور دو عورتیں (مل کر گواہی دیں گی!”) او رایک مرد کی بجائے دو عورتیں اس وجہ سے ”تاکہ ایک بھول جائے اور دوسری یا ددلا دے۔”
فرمایا اللہ رب العزت نے:﴿ذَ‌ٰلِكَ نُفَصِّلُ ٱلْءَايَـٰتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿٢٨﴾…سورۃ الروم
قرآن مجید کے الفاظ ”أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ” واضح طور پر یہ بتلاتے ہیں کہ بھولنے اور یاد دلانے کا یہ معاملہ عورت کےساتھ مخصوص ہے، مرد کے سلسلہ میں یہ بات نہیں۔ لہٰذا خود قرآن مجید کی نظر میں عورت کا کسی بات کو بھول جانا ظاہر و باہر ہے اور اسی بناء پر شہادت کے لیے اس کے ساتھ دوسری عورت کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ جس سے ایک تو ”دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر” ہونےکی واضح طور پر نشاندہی ہوتی ہے اور دوسرے اس سے عورت کی عقل کے نقصان کا حقیقت پر استدلال ہوتا ہے۔
اب ذرا ایک نظر حدیث رسول اللہ ﷺ پربھی ڈال لیجئے:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”یامعشر النسآء تصدقن فإني أریتکن أکثر أھل النار فقلن فبم یارسول اللہ قال تکثرن اللعن و تکفرن العشیر ما رأیت من ناقصات عقل و دین أذھب للب الرجل الحازم من أحد کم قلن وما نقصان دیننا و عقلنا یارسول اللہ؟ قال ألیس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل؟ قلن بلیٰ قال فذالك من نقصان عقلها قال ألیس إذا حاضت لم تصل ولم تصم؟ قلن بلیٰ قال فذالك من نقصان دینها!” 3کہ ”اے عورتوں کی جماعت صدقہ کرو، اس لیے کہ تمہاری کثیر تعداد مجھے جہنم میں دکھلائی گئی ہے” عورتوں نے کہا، ”یہ کس وجہ سے، اےاللہ کے رسولؐ؟” فرمایا، ”تم لعنت زیادہ بھیجا کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو، میں نے نہیں دیکھا کہ باوجود عقل و دین کے نقصان کے مردوں کی مت مارنے والی تم سے بڑھ کر کوئی ہو!” عورتوں نے کہا، ”اے اللہ کے رسولؐ، ہمارے دین اور عقل کا کیا نقصان ہے؟” آپؐ نے فرمایا ”کیا ایک عورت کی شہادت ایک مرد کی نصف شہادت کے برابر نہیں؟” عورتوں نے کہا، ”کیوں نہیں!” آپؐ نے فرمایا، ”یہ ان کی عقل کے نقصان سے ہے!” پھر آپؐ نے فرمایا، ”کیا ایسا نہیں کہ ایام مخصوص میں عورت نہ تو نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے؟” عورتوں نے کہا، ”درست ہے!” آپؐ نے فرمایا، ”یہ اس کے دین کے نقصان سے ہے!”
……. ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ حدیث رسول اللہ ﷺ نے کس قدر واضح الفاظ میں قرآن مجید کی تائید فرمائی ہے اور ان دونوں کا آپس میں کس قدر گہرا تعلق ہے؟ ہمیں تعجب ہے کہ اس قضیہ کو نپٹانے کے لیے ”مفسرین کرام” میں سے کسی نے بھی رسول عربی ﷺ کے اس دو ٹوک فیصلہ کا حوالہ کیوں نہیں دیا؟ خدا کے بندو، الفاظ کے گورکھ دھندا یا مرد و عورت کی ہمدردی و عداوت کے نام پربات کو گھمانے پھرانے سے مسائل حل نہ ہوں گے۔ ہاں یہ تسلیم کیجئے کہ قرآن مجید کا مفہوم سمجھنے کےلیے ہمیں اس ہستی کی شدید ضرورت ہے ، جس پر یہ قرآن ناسل ہوا اور جس کی بعثت کا مقصد اسی قرآن مجید میں یوں بیان ہوا کہ:
﴿وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ…﴿١٦٤﴾…سورۃ آل عمران” اور (یہ رسول) انہیں (مسلمانوں کو) کتاب و حکمت سکھاتا ہے!”
اور :﴿وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ…﴿٤٤﴾…سورۃ النحل”ہم نے آپؐ کی طرف ذکر ناسل فرمایا ہے تاکہ آپؐ اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں۔”
نیز فرمایا :﴿وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى ٱخْتَلَفُوافِيهِ ۙ وَهُدًى وَرَ‌حْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿٦٤﴾…سورۃ النحل” 4کہ ” ہم نے آپ کی طرف کتاب اس لیے اتاری ہے کہ آپؐ اسے لوگون کے سامنے بیان کریں، جس میں انہوں نے اختلاف کیا ہے، نیز ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لیے!”
لیکن اس کے باوجود اگر اس مسئلہ کے تصفیے کے لیے اس معلّم انسانیت (ﷺ) کی طرف رجوع نہیں کیا گیا تو اس پریہی کہا جاسکتا ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے!
ورنہ سلف کا طریق تفسیر تو یہی تھاکہ وہ قرآن مجید کا مفہوم خود قرآن مجید او رحدیث رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں متعین کرتے تھے۔ آئیے ذرا تفسیر ابن کثیر کے اس گلستان کی سیر کریں جہاں ”قال اللہ” اور ”قال الرسول” کے رنگا رنگ پھول جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ امام ابن کثیر سورة البقرہ کی مذکورہ آیت 282 کے تحت لکھتے ہیں:﴿فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَ‌جُلَيْنِ فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ﴾وھٰذا إنما یکون في الأموال وما یقصد به المال و إنما أقیمت المرأتان مقام الرجل لنقصان عقل المرأة کما قال مسلم في صحیحه۔ عن أبي هریرة عن النبي صلی اللہ علیه وآله وسلم أنه قال: ”یامعشر النسآء تصدقن وأکثرن الاستغفار فإني رأیتکن أکثر أھل النار، فقالت امرأة منھن جزلة ومالنا یارسول اللہ أکثر أھل النار؟ قال تکثرن اللعن و تکفرن العشیر مارأیت من ناقصات عقل و دین أغلب لذي لب منکن ” قالت یارسول اللہ ”ما نقصان العقل والدین؟” قال ”أما نقصان عقلها فشهادة امرأتین تعدل شهادة رجل فهذا نقصان العقل…… الخ! ” 5کہ ” اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں……. اور یہ صرف مالی معاملات میں ہے، اور دو عورتیں ایک مرد کے قائم مقام عورت کی عقل کے نقصان کی بناء پر بنائی گئی ہیں جس طرح کہ مسلم شریف کی روایت میں نبیﷺ نے فرمایا: ”اے عورتوں کی جماعت صدقہ کرو اور استغفار کثر تسے کرو، کیونکہ میں نے تمہاری اکثریت اہل النار میں سے دیکھا ہے؟ اس پر ایک عورت نے کہا، ”ہمارے اکثر اہل النار میں سے ہونے کی کیا وجہ ہے؟” فرمایا، ”تم لعنت زیادہ بھیجتی ہو او رخاوند کی ناشکری کرتی ہو، میں نے نہیں دیکھا کہ ناقصات عقل و دین ہونے کے باوجود ذی عقل پر تم سے بڑھ کر کوئی غالب ہو!” اس عورت نے پوچھا، ”اللہ کے رسولﷺ، ہمارے دین و عقل کا نقصان کیاہے؟” فرمایا، ”عقل کا نقصان تو یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے!” الخ
اور امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری ”کتاب الشہادات” میں یوں باب باندھا ہے:”باب شهادة النسآء وقوله تعالیٰ فإن لم یکونا رجلین فرجل وامرأتان” اور اس کے بعد معاً بعد یہ حدیث نقل فرمائی ہے:”عن أبي سعید الخدري رضی اللہ عنه عن النبي صلی اللہ علیه وآله وسلم قال ألیس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل … قلنا بلیٰ….قال فذالك من نقصان عقلها!”کہ ”نبی ﷺ نے فرمایا: ”کیا ایک عورت کی شہادت مرد کی نصف شہادت کے مثل نہیں؟” ہم نے عرض کی، کیوں نہیں!” آپؐ نے فرمایا، ” یہ عورت کی عقل کے نقصان سے ہے!”…………….ولعل فيه کفایة لمن له داریة”
بات اگرچہ طویل ہوجائے گی تاہم یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ہفت روزہ ”الاعتصام” 18 مارچ 1983ء کی اشاعت کے ایک مضمون میں، صاحب مضمون نے تحریر فرمایا ہے:
”امام ابن کثیر نے لکھا ہے: ”إن شهادتها معها تجعلها کشهادة رجل فقد أ بعد!””یعنی جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک عورت کی شہادت دوسری سے مل کر مرد کی شہادت کے برابر ہوتی ہے ، ان کا یہ قول عقل و نقل سےبعید ہے۔ صحیح صورت وہی ہے جو پہلے بیان ہوچکی ہے کہ دونوں میں سے شہادت تو ایک عورت دے گی، دوسری ”مذکرہ” یاددلانے والی ہوگی!” 6
ہمیں افسوس ہے کہ یہاں صاحب مضمون سے (جو ہماری نظروں میں انتہائی محترم ہیں) سہو ہوگیا ہے یا انہوں نے غور نہیں فرمایا۔ ابن کثیر کے اصل الفاظ یہ ہیں:”إن شهادتها معها تجعلها کشهادة رجل فقد أ بعد!”
جبکہ صاحب مضمون نے ”کشهادة ذکر” کی بجائے۔ ”کشهادة رجل” کےالفاظ نقل فرمائے ہیں او ریہیں سے معاملہ کچھ سے کچھ ہوگیا ہے۔ گویا یہی وہ نقطہ ہے جس نے محرم سے مجرم کردیا ہے اور جس کی بناء پر انہوں نے استدلال فرمایا ہے کہ:”صحیح صورت وہی ہے جو پہلے بیان ہوچکی ہے کہ دونوں میں سے گواہی تو ایک عورت دے گی، دوسری صرف مذکرہ یا دلانے والی ہوگی!”
چنانچہ ان کا پورا مضمون اسی نقطہ کے گرد گھوم کر رہ گیا ہے۔
اصل صورت حال یہ ہے کہ امام صاحب نے یہاں ایک عجیب و غریب تفسیر کی تردید فرمائی ہے کہ بعض لوگوں نے یہ لکھا ہے کہ:”جب ایک عورت بھول جائے گی تو دوسری اس کے ساتھ شامل ہوکر اسےمذکر (متضاد مونث) بنا دے گی۔” اور یہ اس صورت میں جب ”فتذکر” کو بغیر تشدید کے ”تذکر” پڑھا جائے گا۔ چنانچہ امام صاحب لکھتے ہیں:”إذا نسیت الشهادة (فتذکر إحداھما الأخریٰ) أي یحصل لها ذکر بما وقع به من الإشهاد و بهذا قرأ آخرون فتذکر بالتشدید من التذکار ومن قال إن شهادتها معها تجعلها کشهادة ذکر فقد أبعد والصحیح الأوّل”کہ ” جب ایک عورت بھول جائے گی تو ان دونوں میں سے ایک دوسری کو واقعہ یا د دلائے گی اور اسی قراء ت کے ساتھ دورے قاریوں نے قراء ت کی ہے یعنی ”فتذکر” تشدید کے ساتھ تذکار (یاددلانے) سے ہے۔ او رجس نے (اسے ”تذکر” پڑھاہے اور کہا کہ ا س کی شہادت اس کے ساتھ مل کر اسے مذکر کی شہادت کے مانند بنا دے گی، تو یہ بعید ہے، صحیح صورت پہلی ہی ہے (کہ اسے تشدید کے ساتھ ”تذکر” یاد دلانے کے معنی میں پڑھا جائے نہ کہ ”تذکر” مذکر بنانے کے معنی میں)”
او ریہی مفہوم دوسری تفسیروں سے بھی ثابت ہے (ملاحظہ ہو، فتح القدیر، الکشاف، الخازن)بلکہ بعض نے تو یہ تصریح بھی کی ہے کہ ”فتذکر” ”تضل” کے مقابلے میں ہے۔ یعنی بھول جانے کےبالمقابل یاد دلانا، لہٰذا ”تذکر” پڑھنا غلط ہے ! ورنہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو امام صاحب خود ایک بات لکھ کر کہ ”دو عورتیں” عورت کی عقل کے نقصان کی بناء پر ایک مرد کے قائم مقام بنائی گئی ہیں” پھر اس کی تائید میں حدیث رسولؐ (دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر ہے) بھی پیش کرکے اس کی تردید خود ہی کیسے کرسکتے تھے، جیساکہ صاحب مضمون نے تحریر فرمایا ہے کہ:”جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک عورت کی شہادت دوسری سے مل کر مرد کی شہادت کے برابر ہوتی ہے، ان کا یہ قول عقل و نقل سے بعید ہے۔صحیح صورت وہی ہے کہ دونوں میں شہادت تو ایک عورت دے گی، دوسری مذکرہ یاد دلانے والی ہوگی۔”
یہ تو حدیث رسول اللہ ﷺ کے صریحاً خلاف ہے، اور ”جو لوگ یہ کہتے ہیں” کی زد براہ راست رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی پر پڑتی ہے۔ العیاذ باللہ!
او رجبکہ صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق بھی رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی گواہی کو ایک مرد کی نصف گواہی کے مثل قرار دیاہے۔ تو صحیح یہی ہے کہ یہ دو نصف شہادتیں (وامرأتان) مل کر ہی ایک شہادت (رجل)کے قائم مقام بنیں گی!
امید ہے کہ صاحب مضمون اس جسارت پر ہمیں معاف فرمائیں گے ۔ تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ مضمون روزنامہ ”جنگ” میں چھپا او رنہ صرف علماء اہل حدیث میں سے کسی نے اس کا نوٹس نہ لیا، بلکہ اس کے بعد ہفت روزہ ”اہل حدیث” او رپھر اس کے بعد ہفت روزہ ”الاعتصام” میں بھی من و عن چھاپ دیا گیا۔بغیر یہ تحقیق کیے کہ اس کے بعض مندرجات حدیث رسول اللہ ؐ سے مطابقت نہیں رکھتے او رنہ ہی یہ زحمت فرمائی گئی کہ امام ابن کثیر سے منسوب مندرجہ بالا عبارت کو تفسیر ابن کثیر میں ایک نظر دیکھ لیا جاتا۔ بہرحال ایک ایسی جماعت کے لیے ، جو اہلحدیث کہلانے میں فخر محسوس کرتی اور تقلید کی بجائے اتباع رسول اللہ ﷺ کا دم بھرتی ہے، ایسی تقلید کی مثال قائم کرنا، نرم سے نرم الفاظ میں بھی عبرتناک نہیں تو او رکیا ہے؟

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہاکارواں کے دل سے احساس زباں جاتا رہااو ریہاں تفاوت مرد و زن یا حقوق و مساوات کی بحث کہاں سے ٹپک پڑی؟ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:”الجنة تحت أقدام الأمهات” کہ ”جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے!”
اسی طرح مشہور حدیث ہے کہ ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضری دے کر سوال کیا ، ”اللہ کے رسولؐ، میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟” فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ،”تیری ماں” سائل نے عرض کی، ”اللہ کے رسولؐ ، پھر کون؟” فرمایا، ”تیری ماں!”، تیسری مرتبہ سائل نے پوچھا، ”اللہ کے رسولؐ، پھر کون مستحق ہے؟” فرمایا، ”تیری ماں” اور چوتھی مرتبہ سائل نے جب یہی سوال دہرایا تو فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ” تیرا باپ!” 7
عورت کی حیثیت صرف بیوی کی نہیں، وہ ماں بھی ہے، بہن بھی او ربیٹی بھی! اور ان تین حیثیتوں میں اسلام نے اسے جو کچھ عطا فرمایا ہے ، کیا کوئی دشمن عقل و خرد اس میں کیڑے نکال سکتا ہے؟ اور بیوی کی حیثیت میں بھی اسلام نے عورت پر کون سے ستم ڈھائے ہیں؟ رہی بات مرد کی، تو قرآن مجید میں محض شرط عدل کے ساتھ مرد کو چار بیویوں تک کی اجازت ہے۔ کیا یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ یہاں پاکستان میں ان گھرانوں کی اوسط تعداد کیا ہے جن میں ایک سے زیادہ بیویاں آباد ہیں؟ او رجہاں کہیں چند ایک ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں ، وہاں بھی ہمارے موجودہ عائلی قوانین کی رجو سے یہ پہلی بیوی کی اجازت سے ہوا ہے۔ کیا قرآن مجید میں اجازت کی یہ شرط موجو دہے؟ اگر اسے طلم کا نام دیا جائے تو ظالم کون ہے؟ اور اس ظلم پر احتجاج کے لیے مردوں نے آج تک کتنے جلوس نکالے؟ کتنے بیان داغے؟ کس حد تک شور مچایا؟ ”جنت ماں کے قدموں میں ہے” کسی باپ نے آج تک اس پر احتجاج کیا؟ یا رسول اللہ ﷺ نے حقوق کے سلسلہ میں تین دفعہ ماں کا نام لیا او رصرف ایک (چوتھی) مرتبہ باپ کا نام لیا، اس پر کوئی مرد معترض ہوا؟ اور اس کے باوجود بھی عورتوں ہی کو جلوس نکالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پھرکیا وہ خواتین بھی مرد ہی تھیں، جنہوں نے بھرے مجمعوں میں ان جلوس نکانے والیوں کی مذمت کی؟ یا وہ مرد بھی ، خواتین ہیں جن کے مضامین عورت کی ہمدردی میں اخبارات میں شائع ہورہے ہیں؟ او راس کے لیے کتاب و سنت کی واضح تعلیمات کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا ہے!
ہم پوچھتے ہیں ، وہ فرضی ظلم کہاں ہے جس پر یہ شور مچایا جارہا ہے؟ ہم واضح لفظوں میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قانون شہادت کی ان تمام بحثوں میں خود قانون شہادت زیر بحث ہی نہیں ہے، بلکہ ان بحثوں کامقصود و مطلوب وہ بے راہروی ، عیاشی، جہالت او راسلام کی عائد کردہ ان پابندیوں سے بغاوت ہے، جو ان عیاشیوں اور فحاشیوں پر قدغن لگاتی ہیں۔ ورنہ آج ہمارے معاشرہ میں عملی طور پر عورت کی شہادت کی نوبت مالی معاملات میں بھی کہں تک پیش آتی ہے؟ اور اگر ایک عورت کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر (1=1) کا اصول تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس سے عورت کی دفاتر میں بے حجابانہ ملازت کا جواز مہیا ہوجائے گا یا بےپردہ بازاروں میں پھرنے او ربن سنور کر غیر مردوں سے اختلاط کی پابندی اس پر سے اُٹھ جائے گی؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ جلوس ان عورتوں نے نکالے ہیں جو پردے کو خیر باد کہہ کر بے حجابی کو گلے لگا چکی ہیں؟ کیا یہ وہی عورتیں نہیں جنہوں نے علماء کرام کی داڑھی کو ”جنگل” کا نام دیا، زنا کے مجرم کو ”مظلوم” گردانا اور شادی کو ایک ”گھناؤنے بندھن” سے تعبیر کیا؟ 8
خدا شاہد ہے کہ ، ہم ایک مرد ہونےکےناطے بھی عورت کوبے حد محترم خیال کرتے ہیں۔ مائیں، بہنیں او ربیٹیاں سبھی ہماری نظروں میں انتہائی قابل قدر ہیں، اور ازدواجی زندگی میں بھی عورت کو اس کے اسلامی حقوق کا تحفظ دینے کے قائل ہیں، کیونکہ ہماری نظر میں بُرائی بھلائی کا معیار کسی کا مرد و عورت ہونا نہیں، بلکہ اس کامعیار دین اسلام کے وہ فطری قوانین ہیں جن کے شارع خود اللہ رب العزّت ہیں او رجن کی تعلیم رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دی ہے ۔کوئی مرد ان قوانین سے بغاوت کامرتکب ہوگا تو ہم اسے اچھا نہیں کہیں گے، او راگر کوئی عورت ان قوانین کو اپنے لیے راہنما بنائے گی تو ہم اس کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیں گے۔ لیکن جب عورت ہی بے عورت ہوجائے تو اسے یہ سوچ لینا چاہیے کہ ”لیڈیز فسٹ ” کا وہ اصول آج کہاں گیا؟ جس کے تحت ایک مرد چلتی بس میں اپنی سیٹ سے دستبردار ہوکراسے اپنی بہن، بیٹی یا ماں کے لیے خالی کردیا کرتا تھا۔ لیکن آج وہ اپنی سیٹ پربیٹھا آرام سے سوجاتا ہے۔ اس بات سے بالکل بے پروا، کہ اس کے قریب ہی ایک بہن کی گود میں بچہ ہے اس کے ایک ہاتھ میں گٹھڑی ہے اور دوسرے ہاتھ سے بچے کو سہارا دیئے، او راپنے لیے سہارا لینے کے باوجود چلتی بس میں اپنا توازن برقرار رکھ لینا بھی اس کے لیے دشوار ثابت ہورہا ہے۔ ہاں اگر اپنی اس بہن کی مصیبت (9) کا خیال اس کے دل میں آتا بھی ہے تو ”مساوات” کا دوسرا خیال اس کو دوبارہ بےفکر ہوکر سوجانے پر مجبور کردیتا ہے۔اے بنت حوّا، کیا تو اسی ”مساوات” کی تلاش میں ہے؟ او رکیا بات یہیں تک محدود رہے گی؟ خدا سے ڈر، اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی نہ کر، یقیناً دنیا او رآخرت میں تیرا بھلا ہوگا۔ وما علینا إلا البلاغ۔
حوالہ جات1. صحیح مسلم عن ابی ہریرةؓ2. مزید اطمینان کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر فتح القدیر ، جلد اوّل ص302، تفسیر خازن جلد اوّل ص258، احکام القرآن ج1 ص255،2563. بخاری ، مسلم عن ابی سعید الخدریؓ4. ایضاً 645. تفسیر ابن کثیر، ج1 ص3376. ص57. بخاری ، مسلم۔ بحوالہ مشکوٰة باب البر ولصلة8. ملاحظہ ہو روزنامہ ”جسارت” 10 مارچ 1983ء9. او ریہ مصیبت ایسی مصیبت ہے کہ ایئر کنڈیشنڈ کاروں میں بیٹھ کر سفر کرنے والی بیگمات اس کا تصور تک نہیں کرسکتیں او ریہ جلوس بھی انہی بیگمات نے نکالے ہیں۔ خدارا ”حقوق نسواں” کے نام پر کوئی طوفان کھڑا کرنے سے پہلے یہ تو انداسہ کرلیا کرو، کہ اس کے اثرات ان کی غریب بہنوں پر کیا مرتب ہوں گے؟

پاکستانی آرمی میجر دانش کی ضربِ عَقَب

مبارک ھو اھل ِ الباکستان کو بچون سے زیادتی۔۔۔ قبر سے عورتوں کی لاشیں نکال کر جنسی تلذّذ والی اسلامی ختم نبوتی قوم کو پاکستانی فوجی میجر دناش کی ضربِ عَقَب مبارک ھو۔۔۔۔۔۔

پاکستانی فوج سرحدوں کی نام نہاد حفاظت کیساتھ ختم نبوت بھری ہم جنس پرستی تو کرتی ہی رہتی ھے پہلے ویڈیوز نہین تھین اب ہم ویڈیوز لگاتے رہین گے۔

پاکستانی مولوی، سیاستدان، فوجی ، جج، وکلا،،سارے ختم نبوت کی برکت سے ہم جنس پرست ہیں۔آمین

پاکستان کی تاریخ اور فوج کا کردار۔۔۔ جاھل عوام

اچـانک رونما ہونیوالے انکشافات…

جسٹس صفدر شاہ
نے بھٹو کو قتل کیس میں بےگناہ لکھا تو فوجی آمر کو اچانک انکشاف ہوا کہ جسٹس شاہ کی میٹرک کی سند جعلی ہے ضیاءالحق کی ایماءپر ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا گیا۔

جسٹس صمدانی
نے بھٹو کی ضمانت لی تو فوجی امر کو اچانک انکشاف ہوا کہ جسٹس صمدانی جج بننے کے اہل نہیں لہذا ان کو نکال دیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
نے فیض آباد دھرنے میں ایجنسیوں کے کردار پر فیصلہ دیا تو اچانک انکشاف ہوا کہ انکی بیرون ملک پراپرٹی ہے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں اچانک ریفرنس دائر کر دیا گیا۔

جسٹس شوکت صدیقی
نے ایجنسیوں کے فیض اباد کیس اور اسلام آباد ریڈ زون ایریا پر ریمارکس دئے اور عدلیہ پر اثرانداز ہونے کی بات کی تو جوڈیشنل کونسل نے اک دن میں ٹرائل کرکے نااہل قرار دیکر نوکری ختم کردی گئی۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری
نے مشرف کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکار کیا تو اچانک انکشاف ہوا کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری مس کنڈک کے مرتکب ہوئے ہیں اور نعیم بخاری فوجی ٹٹو کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل میں اچانک ریفرنس دائر کر دیا گیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ
نے ایکسٹینشن پر فیصلہ دیا تو ارباب اختیار کو اچانک انکشاف ہوا کہ وہ کسی کے ایماء پر ایسا کر رہے ہیں۔ انکے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کئے جانے کی دھمکیاں دی گئیں جو کام دکھا گئیں۔اور وہ ڈھیر ہو گیا۔

جسٹس وقار سیٹھ
نے آئین شکن مشرف کو سزا سنائی تو طاقتور حلقوں کو اچانک انکشاف ہوا کہ ان کا ذہنی توازن درست نہیں لہذا ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کی تیاریاں اچانک شروع کر دی گئیں اور پھر مشرف کے خلاف فیصلہ دینے والی عدالت ہی اچانک اڑا دی گئی۔

نیب کورٹ کے جج ارشد ملک
نے جب اپنے ضمیر کی آواز جاگنے پہ اپنے فیصلوں کی اصلیت بتائی کہ آئی ایس آئی کے کورٹ ونگ کی طرف سے فیصلے بھیجے جاتے تھے میرے صرف سائن ہوتے تھے تو ان کی قابل اعتراض وڈیو اچانک مل گئی-

نیب چیئرمین جسٹس جاوید اقبال
نے جب کہا کہ اب بس کریں مزید جھوٹے کیس ہم نہیں چلا سکتے نہ بے گناہ لوگوں کو پکڑ کر بند کر سکتے ہیں۔تو ان کی چمیوں والی وڈیو اچانک مل گئی۔اور وہ پھر زیر ہو گیا۔

جسٹس سعید الزمان صدیقی

نے جب بزدل ڈکٹیٹر سے حلف لینے سے انکار کیا تو اسے گرفتار کر لیا۔اور چیف جسٹس کو گھر میں محسور کر دیا۔

جسٹس ناصر اسلم زاہد

نے جب ڈکٹیٹر کے مرضی کے فیصلے دینے سے انکار کیا تو اسے قتل کی دھمکی دی تمہارے بچے اٹھا لیئے جائیں گے جو فلاں فلاں سکول میں پڑھتے ہیں۔پھر نوکری بھی گئی اور پینشن میں

سوال یہ ہے کہ
"ملک میں بائیس کروڑ بھیڑ بکریاں رہتی ہیں جن کو چند مسخرے اچانک جدھر چاہے ہانک دیتے ہیں۔”

آخر یہ سارے انکشافات اچانک ہمارے جرنیلوں اور انکے ٹولے کو اسوقت ہی کیوں ہوتے ہیں جب انکو اپنی چوری اور گردن گرفت میں آتی محسوس ہوتی ہے۔

اعلی ذوق، فحاشی، گندی تصویر یا قدرتی حسن

اعلیٰ ذوق، ادنیٰ ذوق


"یہ کیا واہیاتی اور فحش پن ہے؟ میرا سوال یہ ہے کہ آخر اس گندی تصویر کی وجہ ہی کیا ہے؟ کیا آپ کو شرم نہیں آتی کہ ایسے اخلاق باختہ اور عریاں مناظر دیکھتے ہیں؟ آخر آپ کس وضع کے انسان ہیں؟” یہ اور اس جیسے بہت سے چبھتے ہوئے سوال متوقع ہیں۔

لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا سچ میں یہ تجسیم اخلاق باختہ اور فحش ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ مجسمہ "عصمت” یا "حیاء” سے موسوم ہے۔ اس کا ایک اور نام "چھپا ہوا سچ” بھی ہے۔ اسے سین سیورو کے اطالوی شہزادے، ریمونڈو ڈی سینگرو نے اپنی مرحوم ماں سسیلیا، جنہیں وہ بےنظیر ماں کہا کرتے تھے، کی یادگار کے طور پر بنوایا تھا۔

اس مجسمے کو اٹلی کے شہر نیپلز کے چیپل آف سین سیورو میں نصب کیا گیا ہے۔ شہزادے کی ماں کا انتقال اس وقت ہو گیا تھا جب وہ ایک نوجوان خاتون تھیں اور شہزادہ ابھی بہت چھوٹا تھا۔ دلچسپ سوال یہ ہے کہ اس طرح کا مجسمہ قبرستان کی ایک ایسی عبادت گاہ میں کیوں لگایا جائے گا جہاں مسیحی اپنے مردے دفناتے ہیں اور ان کی بخشش کے لیے عبادت کرتے ہیں؟ پھر ایک شہزادہ کیوں یہ چاہے گا کہ اس کی مرحوم ماں کا جوان جسم نمائش کے لیے لگایا جائے تاکہ فوت شدگان کی آخری رسومات کو آئے لوگ اس مجسمے کی زیارت کر سکیں؟

سنگ مرمر کا بنا ہوا یہ مجسمہ چلنے کی حالت میں ہے، جس کا وزن دوسرے پاؤں سے پہلے سے زیادہ ہے۔ اس طرز قیام سے اس کو انسانی وصف اور حرکت کا تاثر ملتا ہے گویا وہ حرکت میں ہے۔ اس کی نفیس چادر، جو بذات خود سنگ مرمر کی بنی ہے، جس طرح سے اس کے جسم پر پڑی ہے وہ بھی اس کے حرکت میں ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی توجہ ناظرین سے پرے ہے، اور شفاف پردے نے اس کی آنکھیں ڈھکی ہوئی ہیں۔

اس کا انداز مدعو کرنے والا ہے۔ تاہم، اس کا چہرہ ایک الگ کہانی کہہ رہا ہے۔ اس کے پستانوں کو زیادہ ابھارنے کے لیے پردے کا استعمال ہنرمندی کا اعلیٰ ثبوت ہے۔ اس کے پیٹ کے وسطی حصہ میں پڑنے والے کومل گڑھے اس کے پٹھوں کے تناؤ اور جسم کے آہنگ کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے زیر ناف حصے کو گہنا دیا گیا ہے تاکہ یہ بالواسطہ جنسی تحرک کا مؤجب نا ہو۔ اس کا ملائم جسم تقریبا سیال ہے جیسے اس میں ہڈیاں نا ہوں اور وہ ایک ہموار اور کامل انسان ہو۔ ان مثالی خصوصیات سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا کی نہیں بلکہ ایک الوہی عورت ہے۔

یہاں، فنکار، انٹونیو کوراڈینی، جو کہ مقدس رومی شہنشاہ چارلس پنجم کے شاہی مجسمہ ساز تھے، عورت کے جسم پر فطری خوبصورتی سے رکھے ہوئے پردے کی تشکیل میں ایک کمال حاصل کرتے ہیں۔ اس مجسمے کا واحد مقصد سیسیلیا کی یاد منانا نہیں ہے بلکہ پردہ دار عورت کو حکمت کا محور سمجھا جاسکتا ہےنیز پردہ کی شبیہ سچ کی بہت عمدہ وضاحت کرتی ہے۔

اگرچہ اس عورت کا پردہ اس کی چھاتیوں، پیٹ اور چہرے سے قریب تقریباً شفاف ہے،تاہم اسرار اور انکشاف دونوں کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ پردہ غیر منقول ہے، جو کامل وضاحت کو ناقابل حصول بنا دیتا ہے۔ ناقابلِ رسائی ہونا سب کچھ دیکھنے کی آرزو پیدا کرتا ہے، پردہ پکڑنے کی خواہش، اسے ہٹا کے نیچے دیکھنےکی جستجو، کہ نیچے کیا ہے۔

اس کا جسم آنکھوں میں کھینچتا ہے، اور اس کی پرکشش ہئیت کا بہت تھوڑا سا حصہ چھپا بھی رہتا ہے کیونکہ پردہ ابھی بھی اس کو ڈھانپ دیتا ہے، جس سے رومانویت اور رواداری کے درمیان توازن پیدا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب دیکھنے والا عورت کے بارے میں عمیق مشاہدہ کرتا ہے تو بھی، وہ ایک طرف دیکھتی رہتی ہے، جیسا کہ حتمی فیصلہ کر چکی ہو کہ ناظرین کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ اصل میں کون ہے۔

اس مجسمے کے حوالے سے سچائی کا تصور انتہائی دلچسپ ہے۔ سچ کی نزاکت کا ایک عنصر خود پردے کی بھی پیچیدہ تفصیل میں دکھایا گیا ہے۔ پردہ کی لطافت، سچائی کی نزاکت کو بتاتی ہے کہ سچ کتنا شفاف ہوتا ہے اور اتنی ہی آسانی سے پراگندہ ہوسکتا ہے۔ اس فن پارے نے سچائی کی نوعیت کے بارے میں اہم سوالات اٹھائے ہیں، کیا آفاقی سچ کبھی واقعی واضح بھی ہوتا ہے یا پھر یہ ہمیشہ مہین سے پردے میں ملفوف رہتا ہے۔ بادی النظر میں یہ عورت سچائی کا ایک نمونہ ہے، سچائی جو ایک پرکشش ساتھی ہے، جو نظر سے قریب بھی ہے لیکن کبھی بھی پوری طرح سے بے نقاب نہیں ہوتی۔

اسی حوالے سے ایک مزید پہلو آفاقی سچائیوں کی کشش کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سچ ہمیشہ پرکشش ہوتا ہےمگر اس تک رسائی بلاواسطہ نہیں ہوتی۔ سچائی کبھی بھی اپنا آپ آسانی سے آشکار نہیں کرتی بلکہ اس کے لیے جدوجہد بنیادی شرط ہے۔ اس خوبصورت عورت کا دیکھنے والے سے براہ راست نظریں نا ملانا ایک انتہائی گہرے پیغام کا حامل ہے کہ کامل حقیقت قریب قریب ناقابل دریافت ہے۔ اس کے کھڑے کھڑے سر پستان حق کی کشش کو واضح کرتے ہیں کہ حق سب سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے مگر اسی رعایت سے اس تک رسائی بھی آسان نہیں ہوتی۔

اس مجسمے کے ممالیاتی غدود ایک اور پہلو بھی اجاگر کرتے ہیں جو کہ جسم کا فحاشی سے تعلق ہے۔ جیسا کہ مذکور ہے کہ یہ مجسمہ ایک ماں کی یادگار کے طور پر ایک عبادت گاہ میں لگایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ مسیحیوں میں بتوں کی پوجا نہیں ہوتی چنانچہ یہ مجسمہ مسیحی قبرستان کی ایک عبادت گاہ میں حصول برکت کے لیے رکھا گیا ہے۔ اس مجسمے کی مدد سے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جنسی اعضاء فحاشی کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ جسم تو جمالیاتی پہلووں کو اجاگر کرتا ہے نیز جنسی اعضاء کا تعلق افزائش اور خوشحالی سے ہے۔

اچنبھے کی بات ہے کہ ماں جیسی پاکیزہ ترین ہستی کے جنسی اعضا کو چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی؟ کیا ایک لمحے کے لیے بھی تصور کیا جا سکتا کہ ایسے سنجیدہ موقع پر جہاں فن کار کی ساری کاوش ستائش و فہمائش کی بجائے آرائش و زیبائش میں سمٹ آئی ہو، وہاں اسے جنسی لذت کا خیال کیسے آ سکتا ہے؟ اور خصوصاً جب کہ وہ اپنے جذبوں کا اظہار نہ کر رہا ہو بلکہ ولی عہد نے ایک اہم فرض اس کے سپرد کیا ہو۔ ایسے مقام پر صرف ایسے لوگوں کا ذہن جنس آلود ہو سکتا ہے جو جمالیاتی احساس سے عاری اور چھچھورے پن کا شکار ہوں۔

برہنہ جسم دیکھنے اور دکھانے کے لیے بڑی فنکارانہ قوت، سنجیدگی اور گہرے اخلاقی و روحانی احساس کی ضرورت ہے۔ جسم اور بالخصوص جنسی اعضاء کو پاک سمجھنا غالباً سب سے مشکل مسئلہ ہے جو انسانی ضمیر کے سامنے آ سکتا ہے۔ جسم کو روح کے برابر پاکیزہ اور لطیف محسوس کرنا ایک ایسا مقام ہے جو فرد اور قوم دونوں کو تہذیب کی انتہائی بلندی پر ہی پہنچ کر حاصل ہوتا ہے۔

مجسمہ ساز نے یہاں بجائے غیر ضروری تقدس پیدا کرنے کے ایک بےساختگی دی ہے۔ وہی بےساختگی اور شگفتگی جو طمانیت کا اعادہ کرتی ہے۔ حالانکہ مجسمہ حرکت نہیں کرتا مگر سکون کا تحرک ضرور پیدا کرتا ہے اور یہ سکون اور ہم آہنگی ہی انسانی ترقی کا استعارہ ہے۔

یہاں پریشان کن بات لذت کا تصور اور گندگی ہے۔ جنس اور جنسی اعضاء ہمیشہ لذت سے جڑے رہے ہیں اور رہبانیت پسند معاشروں میں دنیاوی لذت کی اکثر چیزیں بالعموم ناپسندیدہ ہی گردانی جاتیں ہیں چنانچہ جنس بھی امر ممنوعہ سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ سچائی اور حکمت کا جس طرح کامل اظہار اس فن پارے نے کیا ہے وہ شاید ایک ہزار وعظ بھی نا کر پائیں تب بھی اکثریت کے نزدیک یہ مجسمہ فحاشی و گندگی کا غماز ہو سکتا ہے۔

ایک فرد کی حیثیت سے ، وہ عورت اپنے واہموں کا شکار ہوسکتی ہے، اس کی نظر اس کی انتہائی شائستگی کی وجہ سے پرے ہے، جو دور خلا میں سچائی کی تلاش کر رہی ہے، لیکن اس تلاش حق کے باوجود وہ اپنا پردہ نہیں جھٹکتی مبادا وہ خود پہ ایک نظر ہی ڈال سکے۔ اس نے نہ صرف ایک تجریدی معنی میں سچائی کی نوعیت پر سوال اٹھایا بلکہ ہمیں مناہی اور خوف سے نجات دیتے ہوئے یہ جاننے کے لئے اکسایا ہے کہ ہم واقعی میں کون ہیں؟

خیر، آپ غیر ضروری طوالت کو معاف رکھتے ہوئے پہلے پیرے پر غور کریں۔ اگر اس مجسمے کو دیکھتے ہی آپ کے ذہن میں بھی یہی تشکیک پیدا ہوئی تو مبارک ہو، آپ نے اعلیٰ ذوق کی طرف سفر کا آغاز کر دیا ہے۔

This image has an empty alt attribute; its file name is iiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiiii-578x600.jpg

قرآن، کے قدیم نسخے، قران کب لکھا گیا؟

قرآن کو بارے میں غیر مذھبی، اور خالص سائینسی تحقیقات کے مطابق ابتدائی قرانی ٹکڑوں میں پرانے انبیا کے بارے آیات تو موجود ھیں لیکن محمد صآحب کے بارے نہیں، مدینہ یا مکہ کا کوئی تذکرہ نہیں کہ معلوم ھو کہ یہ تحاریر کب کی ہیں،،،۔ بعد میں ان سے متعلق مواد بھی ھے۔
تحقیق کے مطابق نسخہ کا میٹیریل کتنا پرانا ھے کا اندازہ لگانے والوں نے اُسے اسلام سے بھی کچھ پہلے کا بھی مانا ھے۔کچھ نے محمد کی ولادت سے پہلے اور کچھ نے قریب و بعد ولادت کاربن ڈیٹنگ کی تواریخ نکالی ہیں۔
اس بارے سچی تحقیق کسی مذھبی یا خاص مسلمان سے کی جانے کی امید رکھنے والے بیوقوف ھونگے کیونکہ وھاں ایمان کی بنیاد پر تحقیق کی جائیگی جو کہ سائینسی رویہ یا طریقہ نہیں ھے ،،اسکے لئے بےلاگ بے ایمان سائینسی لوگ ھی مدد دے سکتے ھیں۔

۔

ھمیشہ سائینس میں بھی مستشرقیں و ملحدین وغیرہ سے مدد لینا پڑتی ھے۔کیونکہ ان سے ھمیں بغیر ایمان کے سچی تحقیق کی امید ھوتی ھے۔۔
برمنگھم کی لائیبریری میں موجود تین چوتھائی سے کم حصہ والے اس قرانی نسخوں اور موجودہ یا بعد کے قرآنی نسخوں کی طوالت اور آیات و مضامین میں مماثلت موجود ھے۔
ابوبکر کے بارے کافی خیال کیا جاتا ھے کہ اصل مصنف وہ بھی ھو سکتے ھیں۔ کیونکہ وہ ہی محمد کے قریب ترین ساتھی رھے ھیں۔
پھر سب سے اھم بات یہ ھے کہ عثمان نے سارے دوسرے نُسخے کیوں جلائے؟ اگر فرق نہیں تھا؟ یہ بات ایسی ھے کہ اس کو کسی صورت بھی رد کرنے والے مسلمان سے مزید بحث کرنا احمقانہ ھوگا۔۔یہاں اُسکا اور تحقیق کا میدان الگ ھوجاتا ھے۔
معلوم ھوتا ھے عثمان کے دور میں ایسے نسخوں مین بہت زیادہ فرق تھا جسکی وجہ سے اُن نسخون کو جلا دیا گیا۔۔تاھم اس سے پہلے یا بعد میں کچھ اور نسخے جن کے مضامین الگ تھے وہ کچھ لوگوں نے کہیں چھپا دئیے کسی مٹی کے یا آھنی مرتبان میں محفوظ کر دئیے ۔۔جو مختلف قریبی ممالک کی کھدائیوں میں بار بار دریافت ھوئے ھیں۔
یمن سے خاص طور پر کئی نمونے ملے۔۔۔یمن سے کیوں مِلے؟ اس سے پتہ چلتا ھے کہ یمن کے اُن ادوار کے بادشاھوں کا بھی اس میں حصہ ھوگا۔۔۔جنہوں نے پہلے مسلمانوں کو پناہ دی ۔۔یا مِلکر یہ قرآنی منصوبے بنائے۔۔
سائینسی سکالرز کے مطابق ایسے قرآنی نسخوں میں جو کہ کسی جانور کی کھال پر لکھے ملتے ھیں۔ بسا اوقات ایک تحریر کے نیچے سے اور مختلف مضمون و معانی کی تحریر جا بجا ملتی ھے جس سے پتہ چلتا ھے۔ کہ مضامین میں ترامیم تھیں،،اسی لئے عثمان کے دور میں سب کو مِلا جُلا کر جو قرانی ترتیب بنائی گئی اسے نافذ کرنے کی زبردستی کوشش کے نتیجے میں باقی انفرادی قرآنی نمونے جلا دئیے گئے۔۔اور ممانعت کی گئی کہ باقی طرح کے قرآنی نمونے نہ استعمال ھوں،
برمنگھم یونیورسٹی لندن انگلینڈ میں عرب ممالک سے قدیم پارچات کی کھدائیوں کے دوران ملنے والے اس جزوی قرآن، کے بارے تحقیق کی گئی تو مختلف کارب ڈیٹنگ نتائج معلوم ھوئے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلریٹر یونٹ کے ذریعہ کئے گئے یہ ٹیسٹ ، بتاتے ہیں کہ یہ ٹکڑے ، جو بھیڑوں یا بکریوں کی کھال پر لکھے گئے تھے ، قرآن کریم کی قدیم زندہ عبارتوں میں شامل تھے۔ یہ ٹیسٹ بہت سی تاریخوں کی تاریخ فراہم کرتے ہیں ، جس میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ
سنہ 568 سے 654
تک اسکی عمر ھو سکتی ھے

یونیورسٹی کے عیسائیت اور اسلام کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے کہا ، "وہ اسلام کے اصل بانی چند سالوں میں ہمیں اچھی طرح سے واپس لے جاسکتے ہیں۔

پروفیسر تھامس کے مطابق ، فولیوز کی ڈیٹنگ کا بھی بہت اچھی طرح سے مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ قرآن پاک لکھنے والا شخص شاید زندہ رہتا تھا اور حضرت محمد (ص) کی تبلیغ سنتا تھا۔

واقعتا. جس شخص نے یہ لکھا تھا وہ محمد کو اچھی طرح سے جان سکتا تھا۔ شاید وہ اسے دیکھتا ، شاید اس نے اسے تبلیغ کرتے ہوئے سنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اسے ذاتی طور پر جانتا ہو – اور یہ واقعی اس کے ساتھ قابو پانا کافی سوچ ہے۔
،،
محقق کی اس تحقیق سے کاتیبین وحی یا مصنفین قرآن کی جانب وجہ جاتی ھے۔میرا ذاتی خیال اور تحقیق کے بتاتی ھے۔ کہ ابوبکر یعنی ابن قحافہ کا حسہ بہت زیادہ ھوگا۔جبکہ عمر نے بعد میں کچھ مضامین کو شامل کروایا جن میں شراب کی ممانعت وغیرہ شامل ھے۔
برمنگھم کے ان مخطوطات میں دو اوراق ہیں۔تحقیقی نگار نے صرف 33 ممضامین یا جملوں کا بعد کے قرآنی نسخون سے موازنہ کیا تو معلوم ھوا کہ قران کے آدھے سے کچھ زیادہ جملے یا آیات نامکمل ، ٹوٹے پھوٹے، یا مضمون کی کافی تبدیلی والے یا مختلف ھیں۔
برمنگھم کے ان نسخوں پر دو سکالرز سے لیکچرز کی درخواست کی گئی۔۔یہ 2015 کا واقعہ ھے۔
اسے برمنگھم فریگمینٹس شو کا نام دیا گیا۔۔
روسی سکالر ایفین ریزوان۔۔۔۔۔نے
بتایا کہ
“The very early dating of all these fragments-before the reign of Uthman-casts doubt on *both the Islamic tradition” *refer to the next section
“The fact that the folios were kept for centuries in an iron box, underground can partly explain the early radiocarbon dating”
“Parchment was an expensive material (the skin of an entire animal was used to produce the big folio). Monastic and state scriptoria, located on the territory of Greater Syria, Antiochia, al Hira and Alexandria areas, could store this valuable material (including the donations of the pious laity).
یعنی یہ شام سے مِلے کسی جانور کی مکمل کھال پر لکھے گئے ہیں،اور کسی آھمی مرتبا میں بہت لمبا عرصہ تک چھپائے گئے۔

۔
These stocks became part of the loot captured by the Arabs in the first years of the conquest. Captured leaves were used for writing the Quran.”
اب مسئلہ یہ ھےکہ جانور کی کھال جس پر لکھا گیا وہ تو بہت پرانی ھے کیوں کہ مسلمانوں نے جب شام کو تاراج کیا اور لُوٹا تو یہ پارچات یعنی اَن لکھے پارچات انکے ھاتھ لگے۔۔۔اب ان پارچات پر کب لکھا گیا یہ معلوم نہیں۔۔ ظاھر محمد کے زمانے میں لمبی تحاریر لکھنے کے لئے عربوں کے پاس مہارت موجود نہیں تھی۔

Conclusion; is that we cannot know when the writing took place as the carbon dating only gives a time line to the animal skin, not the writing, and the parchments were written on at a much later date.

Emilio Platti; “pointing out differences to the Sana codex-unquestionably the oldest manuscript (705), which therefore means that this Birmingham fragment is subsequent to the oldest manuscript (Sana).”
جبکہ دوسرے محقق ایمیلیو پلاٹی کے مطابق صنا یا صنعا لکھائی کا طریق قدیم ترین اسلوب 705 عیسوی کا ھے۔۔
جبکہ ایک اور محقق ڈاکٹر جے سمتھ کے مطابق کاربن ڈیٹنگ سے یہ نسخے اسلام سے بھی پہلے کے معلوم ھوئے ھیں۔
اور یہ درآمدہ پرانی کہانیوں کو بدل کر لکھا گیا ھے۔اور بہت سی آیات بائبل اور انجیل وغیرہ سے کچھ تبدیلی کیساتھ یہان لکھ دی گئی ھیں۔ لیکن کسی میں بھی مدینہ، مکہ۔۔اور محمد کا ذکر حیرت انگیز طور پر نہیں موجود ھے۔

Dr. Jay Smith; the verses found on the Birmingham text pre-date Islam, examples and are plagiarised stories;
Sura 18:17-31; = the 7 sleepers of Ephesus (Metaphrastes & Surag 521 A.D.)
Sura 19: 91-98 = Proto Evangelium of James (145 A.D.)
Sura 20: 1-40 = the story of Moses (1400 B.C.)
None of the verses cover Mohammed, Medina, or Mecca, and there is nothing to do with the Caliphs7
۔۔۔۔
برٹش لائبریری کے ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ واضح لکھائی میں حجازی لکھائی میں لکھے گئے یہ نسخے یقینی طور پر پہلے تین خلفا کے زمانے کے ہیں یعنی 632 اور 656 کے عرصے کے۔ ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان اس وقت اتنے امیر نہیں تھے کہ وہ دہائیوں تک کھالوں کو محفوظ کر کے رکھتے اور قرآن کی ایک مکمل نسخے کے لیے کھالوں کی بڑی تعداد درکار تھی، یہ نسخہ 3000 سے زیادہ مشرق وسطیٰ کے دستاویزات کے مسٹر منگانا مجموعے کا حصہ ہے جو 1920 کی دہائی میں جدید کےعراق کے شہر موصل سے پادری الفونسے منگانا لائے تھے،

برمنگھم یونیورسٹی میں ملنے والے قرآن کریم کے صفحات 1370 سال پرانے ہیں اور یہ ایک زمانے میں مصر میں فسطاط میں واقع دُنیا کی قدیم ترین مسجد عمر بن عاص میں رکھے ہوئے تھے۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماہرین کو تقریباً یہ یقین ہو گیا ہے کہ یہ صفحات پیرس میں فرانس کی نیشنل لائبریری ’ببلیوتھک نیشنل دی فرانس‘ میں رکھے قرآن شریف کے صفحات سے ملتے ہیں۔

۔

لائبریری اس بارے میں قرآن کے تاریخ دان اور کالج دی فرانس میں معلم فرانسوا دریچو کا حوالہ دیتی ہے جنھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برمنگھم میں ملنے والے صفحات اور پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات قرآن شریف کے ملتے جلتے نسخے کے ہیں۔

برمنگھم یونیورسٹی کی دستاویزت میں قرآن کے صفحات تلاش کرنے والے محقق البا فدیلی کا بھی یہی کہنا ہے کہ پیرس اور برمنگھم یونیورسٹی میں موجود صفحات ایک ہی نسخے کے ہیں۔

پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات کے بارے میں علم ہے کہ یہ فسطاط میں مسجد عمر بن عاص کے قرآن شریف کے نسخے کے ہیں۔

پیرس کی لائبریری کے صفحات انیسویں صدی کے اوائل میں نپولین کی فوج کے مصر پر قبضے کے دوران وہاں تعینات وائس کونسل ایسلین دی چرول یورپ لائے تھے۔

پروفیسردریچو کا کہنا ہے کہ ایسلین دی چرول کی بیوہ نے یہ نسخہ اور کچھ اور قدیم دستاویزات برٹش لائبریری کو سنہ 1820 میں فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پیرس کی نیشنل لائبریری کو مل گئے اور جب سے اب تک یہ وہیں محفوظ ہیں۔

اسی دوران کچھ حصے نکال لیے گئے جو بعد میں فروخت کر دیے گئے۔ قیاس یہی ہے کہ متعدد بار فروخت ہونے کے بعد یہ صفحات ایک عراقی پادری ’ایلفاس منگانا‘ کے ہاتھ آئے۔ وہ مشرق وسطی میں نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ جایا کرتے تھے جن کا خرچہ برطانیہ کا کیڈبری خاندان اٹھاتا تھا۔

پروفیسر دریچو کا کہنا ہے کہ اس بات کے کوئی سرکاری شواہد موجود نہیں رہے لیکن اس طرح مسٹر منگانا کو فسطاط کے خزینے کی چند دستاویزات ملی ہوں گی۔ منگانا کو انہی گراں قدر علمی خدمات کے عوض ’لیجن آف آنر‘ کا اعزاز دیا گیا۔
۔۔
اب ان دلائل اور تواریخ کے بعد ھم اصل منشا کی جانب چلتے ہیں، جس میں قرآن کے بارے میں دعوی جات کی فہرست بنائیں اور ھر ایک کا شافی جواب بھی تلاش کریں، لیکن ھمارا رویہ ایمانی نہیں ھوگا درسی و تدریسی و تحقیقی ھوگا۔کیونکہ پہلے بھی لکھ چکا ھُوں کہ ایمان کے ذریعے کسی بھی معاملے میں تحقیق جھوٹ کی ملاوٹ لازمی رکھتی ھے۔
۔۔۔
آئیے اب سوالوں کی فہرست بناتے ہیں۔
قران کب بنایا گیا،
قران کب لکھا گیا
قرآن نبی پر اترنے کے دعوے کو ھم چھوڑ دیتے ھیں اور اسے سچ مان لیتے ھیں، تاکہ جھگڑا کھڑا نہ ھو کیونکہ ھمارے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں ھے کہ ھم معلوم کرسکیں کہ واقعی وحی کوئی چیز ھوتی ھے اور محمد پر وحی نازل ھوتی رھی، یا انہوں نے دوسروں کی مدد سے قرآنی آیات تشکیل دیں۔
ھم تحقیق کرتے ھیں کہ
قران کب بنایا گیا۔۔
قرآن کب لکھا گیا
قران کی ترتیب کیا ایسی ھی اتری یا تبدیل ھوئی
قران کی ترتیب کیوں بدلی؟ کس نے بدلی؟ کب بدلی؟
کیا قرانی نسخے جو بھی دریافت ھوئے ھیں ان میں بہت جگہ جو فرق موجود ھے وہ کیا بتاتا ھے؟
ابتدائی قران میں کیا کچھ نہ تھا اور کیا کچھ بعد میں شامل کئے جانے کا امکان ھے؟
پیٹریشیا کرون میری طرح یہ سوال اٹھاتی ھیں کہ۔۔
Patricia Crone, a widely acknowledged expert on early and medieval Islam:wrote !

We can be reasonably sure that the Quran is a collection of utterances that [Muhammad] made in the belief that they had been revealed to him by God … [He] is not responsible for the arrangement in which we have them. They were collected after his death—how long after is controversial!
یعنی ھم شواھد کی مدد سے یہ نتیجہ تو نکال سکتے ھیں کہ قرآنی لکھت محمد کے مطابق اُن پر اترنے والی آیات ہیں، لیکن محمد، اُس ترتیب کے ذمے دار نہیں ہیں جس میں یہ اب موجود ھے !۔۔
یعنی قران کی آیات اور پاروں اور سورتوں کی ترتیب محمد کی بنائی ترتیب کسی صورت نہیں ھوسکتی،،۔۔یہ کب بنائی گئی ؟ کیوں بنائی گئی؟یہ ھے اگلے سوالات !۔۔۔
اوپر کے سوالوں میں سے دوسرے سوال کا جواب کہ قرانی کی یہ ترتیب ممکنہ طور پر کب بنائی گئی کا جواب محققین نے ڈھونڈ لیا ھے اور برمنگھم کے نسخے اور فرانس میں موجود نسخے کے تقابل سےمعلوم ھوتا ھے کہ محمد کی موت کے بعد قران کو ترتیب دیا گیا کیونکہ اس سے پہلے یہ سہولت موجود نہ تھی کہ ھزاروں جانوروں کی کھالوں پر اسے لکھ کر محفوظ کیا جا سکتا ، یہ ھنر پہلے عربوں کے پاس نہیں تھا ، جب عربوں نے پہلے رسول کے اخری وقت اور بعد موت کے دوسرے ممالک پر قابضانہ حملے کئے تو مال و متاع کے ساتھ وھاں سے مختلف ھنر بھی انکے ھاتھ لگے، کھالیں محفوظ کرنے کا ھنر اور محفوظ شُدہ کھالیں مِلیں جن پر لکھا جا سکتا تھا۔کچھ لوگوں نے اپنے طور یہ کام کیا۔لیکن ھر ایک متن مختلف تھا۔ جیسے برمنگھم کے نسخے میں مدینہ مکہ محمد وغیرہ کے بارے کوئی معلومات نہیں ہیں۔
تحقیق کاروں کے نزدیک سب سے پرانا مکمل کے قریب نسخہ عثمانی قران کے طور پر مشہور ھے۔عثمان کا دور محمد کے مرنے کے 20 سال بعد کا دور ھے۔۔
اسی قرآنی نسخے کو تاشقند نسخہ یا ثمرقند نسخہ بھی کہتے ہیں، یہ مسخہ اصلی نسخے کے ایک بٹا تین حصے کے برابر محفوظ ھے۔
دوسرا قرآنی نسخہ صنا نامی نسخہ ہے۔جسکی کاربن ڈیٹنگ 578 سے 669 تک ہے۔۔
۔Results from radiocarbon dating from a Sana Quran parchment
indicate that the parchment has a 68% probability of belonging to the period between AD 614 to AD 656. It has a 95% probability of belonging to the period between AD 578 and AD 669 (Behnam Sadeghi; Uwe Bergmann, “The Codex of a Companion of the Prophet and the Qur’ān of the Prophet,” Arabica, Volume 57, Number 4, 2010, p.348.)

The Sana palimpsest is not only significant because it is one of the oldest Qurans in existence. It’s also significant because the top layer (the text written over what was erased) is the text of the standard Uthmanic version of the Quran. Beneath this standard Uthmanic version (the part that was erased) is a non-Uthmanic version of the Quran.
یہاں اب نہایت ضروری بات یہ ھے اوپری سطح کو مِٹا کر دیکھا گیا کہ نیچے کی سطح پر غیر عثمانی ورژن کا قرآن تھا جسے مِٹا کر اوپر کی سطح پر عثمانی طرز کا قرآن لکھا گیا ھے۔اب یہ سائینسی دریافت ثبوت کے ساتھ موجود ھے۔کوئی مخالفانہ بیان نہیں ھے۔
۔۔۔
اسلامی نکتہ نظر والے محقق اس بارے مندرجہ ذیل رائے رکھتے ھیں۔
Muhammad Mustafa Al-Azami, Professor Emeritus at King Saud University, argues that the following list of manuscripts “have been conclusively dated to the first century A.H.”

  1. A copy attributed to Caliph Uthman bin Affan. Amanat Khizana, Topkapi Saray, Istanbul, no.1.
  2. Another copy ascribed to Uthman bin Affan. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.208. This copy has some 300 folios and it is missing a portion from both ends.
  3. Another ascribed to ‘Uthman bin ‘Aflan. Amanat Khizana, TopkapiS aray, no. 10. It is only 83 folios and contains notes written inthe Turkish language naming the scribe.
  4. Attributed to Caliph ‘Uthman at the Museum of Islamic Art, Istanbul. It lacks folios from the beginning, middle and end. Dr. al-Munaggid dates it to the second half of the first century.
  5. Attributed to Caliph ‘Uthman in Tashkent, 353 folios.
  6. A large copy with 1000 pages, written between 25-31 A.H. at Rawaq al-Maghariba, al-Azhar, Cairo.
  7. Attributed to Caliph ‘Uthman, The Egyptian Library, Cairo.
  8. Ascribed to Caliph ‘Ali bin AbI Talib on palimpsest. Muzesi Kutuphanesi, Topkapi Saray, no. 36E.H.29. It has 147 folios.
  9. Ascribed to Caliph ‘Ali. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.33. It has only 48 folios.
  10. Ascribed to Caliph ‘Ali. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no. 25E.H.2. Contains 414 Folios.
  11. Ascribed to Caliph ‘Ali. Raza Library, Rampur, India, no. 1. Contains 343 Folios.
  12. Ascribed to Caliph ‘Ali, San’a’, Yemen.

Quran kept at the al-hussein mosque in Cairo, Egypt. Some believe it goes back to Uthman.
Quran kept at the al-hussein mosque in Cairo, Egypt. Some believe it goes back to Uthman.

  1. Ascribed to Caliph ‘Ali, al-Mashhad al-Husaini, Cairo.
  2. Ascribed to Caliph ‘Ali, 127 folios. Najaf, Iraq.
  3. Ascribed to Caliph ‘Ali. Also in Najaf, Iraq.
  4. Attributed to Husain b. ‘Ali (d. 50 A.H.), 41 folios, Mashhad,Iran.
  5. Attributed to Hasan b. ‘Ali, 124 folios, Mashhad, Iran, no. 12.
  6. Attributed to Hasan b. ‘Ali, 124 folios. Najaf, Iraq.
  7. A copy, 332 folios, most likely from the early first half of the first century. The Egyptian Library, Cairo, no. 139 Masahif.
  8. Ascribed to Khudaij b. Mu’awiya (d. 63 A.H.) written in 49 A.H. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no. 44. It has 226 folios.

[#21 is missing in al-Azami’s list.]

  1. A Mushaf in Kufic script penned in 74 A.H. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.2. It has 406 folios.
  2. A copy scribed by al-Hasan al-Basri in 77 A.H. The Egyptian Library, Cairo, no. 50 Masahif.
  3. A copy in the Museum of Islamic Art, Istanbul, no. 358. According to Dr. al-Munaggid it belongs to the late first century.
  4. A copy with 112 folios. The British Museum, London.
  5. A copy with 27 folios. The Egyptian Library, Cairo, no. 247.
  6. Some 5000 folios from different manuscripts at the Bibliotheque Nationale de France, many from the first century. One of them, Arabe 328(a), has lately been published as a facsimile edition.

Al-Azami overstates that these have been “conclusively dated to the first century A.H.” For example, the manuscripts from Topkapi can be dated to the second century A.H. (Islamic Awareness). Several of the manuscripts attributed/ascribed to Uthman probably did not belong to him.

Nevertheless, considering that Muhammad died around 632 AD, these are still old Quran manuscripts.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر ان اسلامی محقق کا دعوی ھے کہ ان مختلف ٹکڑوں میں موجود قرآنی صفحات محمد کی موت کے فوری بعد یا اسی صدی کے قرآنی ٹکڑے ہیں۔
۔۔
اس وقت جو قدیم نسخے کہیں بھی موجود ھیں انکے نام اور تعارف نیچے درج کرتا ھُوں
۔۔۔ پہلا قرآنی نسخہ اسوقت برمنگھم میں موجود ھے۔جو جیسے کہ پہلے بھی بتایا ھے۔ کاربن ڈیٹنگ میں 568 سے 645۔۔۔اور بعض کے مطابق 669 ویں صدی کے قریب ھے۔ اسکی لکھائی حجازی، یا صنا طرز کی ھے۔۔۔

  1. Birmingham Quran Manuscript
    Year Written: c.568 AD – 645 AD
    Language: Arabic
    Script Type: Hijazi
    Current Location: University of Birmingham, Birmingham, England

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا نسخہ جرمنی مین موجود ھے۔ یہ بھی حجازی یا صنا لکھائی میں لکھا گیا ھے۔۔

  1. Tübingen Fragment
    Year Written: c. 649 AD – 675 AD
    Language: Arabic
    Script Type: Hijazi Current Location: University of Tübingen, Tübingen, Germany
    The manuscript has been in the university’s possession since the 19th century when first Prussian Consul to Damascus, Johann Gottfried Wetzstein, acquired several ancient Arabic manuscripts. The research into the fragment’s age was conducted as part of a project funded by the German Research Society (DGF) and the corresponding French institution: Agence National de la recherché (ANR).
    یاد رھے کہ کاربن ڈیٹنگ کی سچائی 95 فیصد تک ھوتی ھے۔

تیسرا قرآنی نسخہ یمن سے مِلا اور صنا کہلاتا ھے۔

  1. Sana’a Manuscript
    Year Written: c.671 AD
    Language: Arabic
    Script Type: Hijazi
    Current Location: Great Mosque of Sana’a, Yemen
    ۔۔۔۔۔
    چوتھا قرانی نسخہ
    پیریسینو پیٹروپولیٹینس کہلاتا ھے۔
    ساتوین یا آٹھویں صفی عیسوی میں لکھاگیا۔۔ اور لکھائی حجازی ہے۔۔ساٹھ اوراوراق پر مشتمل ہے۔اور لندن ویٹیکن کے خلیلی نواردات میں موجود ھے۔۔
  2. Codex Parisino-Petropolitanus
    Year Written: c. late 7th to early 8th century
    Language: Arabic
    Script Type: Hijazi
    Current Location: 70 folios at Bibliothèque nationale de France, Paris; 26 folios at the National Library of Russia in Saint-Petersburg, Russia; 1 folio in the Vatican Library; and 1 folio in Khalili Collection in London

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچواں قرآنی نسخہ کُوفی لکھائی میں ہے اور اس کے بارے غلط مشہور رہا کہ سب سے پرانا قرآنی نسخہ ہے۔۔اس کی کاربن ڈیٹنگ سے یہ 8 ویں صدی کے بعد کا نسخہ ھے۔اور ترکی کے عجائب گھر میں موجود ھے۔

  1. Topkapi Manuscript
    Year Written: c. early to mid 8th century
    Language: Arabic
    Script Type: Kufic
    Current Location: Topkapi Palace Museum, Istanbul, Turkey
    ۔۔۔۔
    چھٹا قرآنی نسخہ ازبکستان میں موجود ھے اور ترکی کے نسخے کی طرح ایمان لانے والے اسے سب سے قدیم سمجھتے تھے مگر یہ بھی 9 ویں صدی کے قریب کا لکھا گیا نسخہ ھے۔
  2. Samarkand Kufic Quran (Uthman Quran)
    Year Written: c.765 AD – 855 AD
    Language: Arabic
    Script Type: Kufic
    Current Location: Hast Imam Library, Tashkent, Uzbekistan
    ۔۔۔
  3. Blue Quran نیلا قران نمبر سات،،،،
    Year Written: c. late 9th century to early 10th century نویں اور دسویں صدی میں لکھا گیا۔
    Language: Arabic
    Script Type: Kufic اسکا رسم الخط کُوفی ھے۔
    Current Location: Most of it is located in the National Institute of Art and Archaeology Bardo National Museum in Tunis, Tunisia; 67 folios in the Musée de la Civilisation et des Arts Islamiques in Raqqada, Tunisia; 1 folio at the Los Angeles County Museum of Art in California, USA; and the other folios are scattered worldwide at various museums
    یہ نسخہ تیونس میں محفوظ ھے۔
    ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
    سُنی فرقے والے یہ مانتے ہیں کہ قران ابوبکر کے زمانے میں لکھا گیا جو کہ 632 سے 634 کا زمانہ ھے۔۔
    تاھم محققین متفق ھیں کہ عثمان کے دور میں جو قرآن عثمان کی نگرانی میں ترتیب دیا گیا وُہ ھی بچا رھا اور باقی مختلف و متعدد نسخے جلانے کا حکم دے دیا گیا تھا۔

جبکہ ایک معروف ترین محقق جون وانزبرگ کے مطابق قرآن کی ترتیب محمد کی موت کے 200 بعد کہیں جا کر قائم کی گئی۔
صناع ، مخطوطے کے بےشمار ٹکڑوں پر لکھے گئے ٹیکسٹ میں 5000 مختلف تبدیلیاں پائی گئیں ھیں۔
جس سے معلوم ھوتا ھے کہ عثمان کے زمانے تک کوئی جاری سکرپٹ موجود نہیں تھا مختلف اسلوب ملے جلے تھے۔۔
گرڈ پیوئن نامی ایک ماھر نوادرات و قدیمی مخطوطات کو یمن کی حکومت نے ایک بہت لمبا پروجیکٹ دیا تھا جس میں یمنی قرآن کے پندرہ ھزار صفحات کو ایک ایک لفظ پڑھ کر پرکھ کر بہتر کرنا شامل تھا۔اسکے کام اور تحقیق سے ابن وراق نامی سکالر نے قرآن پر کافی مواد لکھ رکھا ھے۔ جسمیں میں نے اسلام کیوں ترک کیا بھی شامل ھے۔
ماھر ِ مخطوطات گرڈ پیوئن کے بقول اسنے جو نتائج اب تک نکالے ھیں وہ یہ ھیں
،،،
میرا نظریہ یہ ھےکہ قرآن اصل میں بہت سارے اقوال و بیانات و کہانیوں کا ایسا مجموعہ ھے جسے محمد کے دور میں بھی ٹھیک اور مکمل سمجھا نہیں گیا تھا۔
لکھے ھوئے کلمات اسلام سے بھی کئی سو سالوں پرانے معلوم ھوئے ھیں۔
خود اسلام چلن کے اندر بہت زیادہ متضاد خیالی و متضاد اعمالی پائی جاتی ھے۔
قرآن خود کو کہتا ھے کہ و شفاف، واضح، اور مبین و کُھلا کُھلا ھے، لیکن ھر پانچواں چھٹا کلمہ بے تُکا معلوم ھوتا ھے۔
اندازے کے مطابق قران کا پانچواں حصہ بے معنی و بے تعلقی کا شکار ھے۔اور اسی وجہ سے ھمیشہ سے قرآنی آیات کی تشریح میں شدید اختلافات ھیں جو مبین اور کُھلا کُھلا ھونے کے خلاف دلیل ھے۔اگر اسکو عربی مین بھی ایسی دقت سے سمجھنے کا سوال اٹھتا ھے تو پھر اسے ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔
جو اسکے خود اٹھائے گئے نکتے کہ قران شفاف ھے۔ واضح ھے خواہ مچھر جتنی چھوٹی بات بھی ھو کھول کھول کر بیان کرتا ھے۔ تو خود عربی علما بھی تذبذب کا شکار ھوتے ھیں، جس سے قرآن کی سچائی پر کافی اعتراضات اٹھتے ھیں، جبکہ ایمان لے انے والوں کو آیات کی جو بھی تشریح سمجھائی جاوے وہ اس پر مطمئن رھیں گے،

۔جیسے قرانی حروف مقطعات کا مسئلہ ھے آجتک کوئی بھی ان کی کوئی واضح توجیہہ اور مطالب نہیں بتا سکتا۔
اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ھے کہ ان کوڈ ورڈز کو اُس پرانے زمانے میں شاید سمجھا جاتا ھو لیکن اسلامی تاریخ میں ان حروف کو اُس وقت بھی نہ سمجھا گیا کے موضوع پر احادیث موجود ھیں،،
اغلب خیال یہ ھے کہ چونکہ محمد نے اپنی تحریک کو وسیع کرنے کے لئے دوسروں کو ساتھ مِلانا تھا تو اسی غرض سے انہوں نے یہودیوں، انصاریوں، ، مُشرکوں، عیسائیوں وغیرہ کو خوش کرنے کے لئے ایسے مشترک الفاظ قرآن میں شامل کروائے جن سے اُن گروھوں کی پزیرائی اور نمائیندگی بھی ھو جائے۔
بعض آیات کے منسوخ ھونے کا ذکر بھی تاریخ میں ملتا ھے جس سے پتہ چلتا ھے۔اُن آیات کے بنانے کا مقصد پورا نہ ھونے کی وجہ سے اُنہیں نکال دیا گیا۔
قران کے حروفِ مقطعات، کافروں ، یہودیوں اور مختلف گروھوں کو ساتھ ملانے کے لئے بنائے گئے۔۔کہ دیکھو آپکی ریپریزینٹیشن بھی ھے۔ جیسے الف لام میم۔۔۔ میں پہلے خدا کی ان بیٹیوں کے ناموں کو بعینہُ استعمال کرنے کی بجائے
اعزی ،،الف
لات،،،لام
منات۔۔۔میم۔۔۔۔
بنائے گئے۔۔۔ آیات کی منسوخی ، والے واقعات اسی جانب روشنی ڈالتے ھیں۔جب مخصوص گروہ ان آیات پر راضی نہ ھوئے۔ اسلام کے ابتدائی دنوں میں یہ کوششین رھیں کہ جیسے ممکن ھو سب کو شامل کیا جائے۔۔۔کیونکہ قرآن بنانے والے مصنفین وغیرہ کی ٹیم دوسرے قریبی اور دور کے ممالک کے حالات ، ٹریڈ ٹُورز کے سبب جانتے تھے۔۔اور اس خطے میں بھی قبائل کو جور کر کوئی اتحادی ریاست بنانا چاھتے تھے۔اس لئے پہلے بظاھر مشرکین جو کبھی مشرکین نہیں تھے کو ساتھ ملنے کے لئے کوششین کی گئین۔ اور انکی دلچسپی کے نام شامل کئے گئے۔۔پھر۔۔۔ یہودیوں کو شامل کرنے کے لئے موسی کی تعظیم کی گئی۔۔پھر عیسی کی تعظیم کی گئی کہ عیسائی شامل ھوں۔اگر اسلام پہلے انبیا کو جھوٹا کہتا تو عیسائی یہودی لوگوں میں سے وہ جو ھمہ وقت روحانی تبدیلی کی خواھش رکھتے ھین کم تعداد مین اسلام میں شامل ھوتے۔۔یہ بات غور کر کے سمجھی جا سکتی ھے۔
۔۔۔
سب سے بڑی دلیل جس کا کوئی جواب کسی اھل ایمان کی طرف سے شافی طور پر نہیں دیا جا سکتا وہ یہ ھے۔۔کہ قران اپنے بارے کہتا ھے کہ ۔۔ ھم چھوٹی سے چھوٹی بات کھول کھول کر بیان کرتے ھیں۔تاکہ مخاطب یہ نشانیاں سمجھ سکیں۔۔ لیکن آپ انکے معانی نہ سمجھتے ھیں نہ مسجھا سکتے ھیں۔ اور پڑھے جاتے ھیں جیسے کوئی منتر تنتر ھوں
2000 سال کے بعد بھی یہ حروف مقطعات کا نہ سمجھا جانا اور پھر ایک دو نام نہاد لبرل جدید و قدیم بزرگان کی جادوگری سے کوئی نہ کوئی معنی ان سے برآمد کرنے کی کسی بھی کوشش پر اھل ِ ایمان کا خوش ھونا تو بالکل منطقی ھے۔ کہ اھلِ ایمان ھر اُس بات کو سراھنے میں خوشی محسوس کرتے ھیں جو اس زمانے میں انکے مذھب کی اچھائی ثابت ھو۔۔۔ خواہ وہ۔۔۔چین سے علم پانے کی جھوٹی حدیث ھو۔۔۔ یا صفائی نصف ایمان کا عملی مظآھرہ فی المعاشرت الاسلامیہ ھو۔۔۔۔۔۔۔۔بالکل ایسے جیسے علی مشکل کُشا کو اپنے قتل سے بچاؤ کا علم تھا نہ ملکہ۔۔۔لیکن وہ دوسروں کے لئے مشکل کُشا ہیں۔
جب قرآن کہتا ھے وہ دنیا میں بھی فلاح پائیں گے اور آخرت میں بھی تو۔۔۔ تین خلیفہ تو قتل ھوئے اور بہت ذلیل طریقے سے مارے گئے۔۔ عائشہ کی اولاد تک نہ ھوئی۔۔بیوگی میں زندگی گزری۔۔۔پتہ نہیں کونسی فلاح تھی۔۔۔ جنگ جمل میں علی و عائشہ آمنے سامنے تھے۔۔۔
al-Baqarah ʾAlif Lām Mīm الم
Āl Imrān ʾAlif Lām Mīm الم
al-Aʿrāf ʾAlif Lām Mīm Ṣād المص
Yūnus ʾAlif Lām Rā الر
Hūd ʾAlif Lām Rā الر
Yūsuf ʾAlif Lām Rā الر
Ar-Raʿd ʾAlif Lām Mīm Rā المر
Ibrāhīm ʾAlif Lām Rā الر
al-Ḥijr ʾAlif Lām Rā الر
Maryam Kāf Hā Yā ʿAin Ṣād كهيعص
Ṭā Hā Ṭā Hā طه
ash-Shuʿārāʾ Ṭā Sīn Mīm طسم
an-Naml Ṭā Sīn طس
al-Qaṣaṣ Ṭā Sīn Mīm طسم
al-ʿAnkabūt ʾAlif Lām Mīm الم
ar-Rūm ʾAlif Lām Mīm الم
Luqmān ʾAlif Lām Mīm الم
as-Sajdah ʾAlif Lām Mīm الم
Yā Sīn Yā Sīn يس
Ṣād Ṣād ص
Ghāfir Ḥā Mīm حم
Fuṣṣilat Ḥā Mīm حم
ash-Shūrā Ḥā Mīm; ʿAin Sīn Qāf حم عسق
Az-Zukhruf Ḥā Mīm حم
Al Dukhān Ḥā Mīm حم
al-Jāthiya Ḥā Mīm حم
al-Aḥqāf Ḥā Mīm حم
Qāf Qāf ق
Al-Qalam Nūn ن
۔۔
اب دیکھیں جن مسلمان علما نے کچھ ڈھونڈ لانے کی ٹھانی تو کیا ڈھونڈا
«الم» جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں۔ ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں۔ اس لیے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے۔ قرطبی رحمہ اللہ نے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہی نقل کیا ہے۔ عامر، شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابوحاتم بن حبان رحمہ اللہ کو بھی اسی سے اتفاق ہے۔
بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمحشری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں «الم السجدة» اور «هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنْسَان» پڑھتے تھے ۔ [صحیح بخاری:891] ‏‏‏‏
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الم» اور «حم» اور «المص» اور «ص» یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ «الم» قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ قتادہ اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو عبدالرحمٰن بن زید اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لیے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام «المص» ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ «المص» پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ الاعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ شعبی، سالم بن عبداللہ، اسماعیل بن عبدالرحمٰن، سدی کبیر رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ «الم» اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے۔ اور روایت میں ہے کہ «حم»، «طس» اور «الم» یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں۔ سیدنا علی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں سے یہ مروی ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی «أَنَا اللَّهُ أَعْلَمُ» ہیں یعنی ”میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا“۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہ مروی ہے۔
سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف «الف» اور «لام» اور «میم» انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں۔ «الف» سے اللہ کا نام، «الله» شروع ہوتا ہے اور «لام» سے اس کا نام «لطیف» شروع ہوتا ہے اور «میم» سے اس کا نام «مجید» شروع ہوتا ہے اور «الف» سے مراد «آلَاء» یعنی نعمتیں ہیں اور «لام» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «لُطْف» ہے اور «میم» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «مَجْد» یعنی بزرگی ہے۔ «الف» سے مراد ایک سال ہے «لام» سے تیس سال اور «میم» سے چالیس سال۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:28/1] ‏‏‏‏
امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ بھی، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے۔
بات نکلے گے تو پھر دور تلک جائے گی۔۔۔۔ لبرل یا دھریہ یا پہلے جو مسلمان ھوتے تھے۔۔۔ایسے لوگ جناب غامدی صاحب کے بیانات سےخوش ھوتے ھیں۔
کہ دیکھو جی اسلام کا کتنا چھا چہرہ سامنے لاتے ھیں۔
لیکن سوال تو یہ ھے کہ پچھلے 30 سال سے وہ یہی کرتے ھوئے کتنے شدت پسند مسلمانوں، اور طالبان۔۔اور ختم نبوت کے فسادیوں،،،وغیرہ کو اپنے جیسا بےضرر مسلمان بنا سکے ھیں؟؟
سوال تو کرنا ھی ھوگا کہ انکی اس مسلسل کوشش اور انکے مسلسل کتابی لیکچرز ور ویڈیوز سے انکی فاونڈیشن تو چل گئی لیکن زمینی حقائق کیا ھیں؟ کونسی بستی ھے جس میں مسلمان پہےل سے بہتر ھوئے اور رحمت کا نمونہ بن گئے؟
جب غامدی جی سے پوچھا جائے کہ حور کا لالچ کیوں؟ تو ھنس دیتے ھیں۔۔ بات گول کر دیتے ھیں۔۔ ڈھکے انڈوں والی آنکھوں والی عورتوں کو حور کہا جاتا ھے جی۔۔وہ اصلی نہیں ھونگی۔بس خیال ہی ھے۔۔یا آپکی بیویاں ھی ھونگی۔۔حالنکہ صاف لکھا ھے۔۔۔ لم یطمس ھُن۔۔۔وہ کنواری عورتیں ھونگی جنکی آنکھیں بڑی بڑی غلافی ھونگی۔۔۔عرب میں ھمیشہ سے بڑی آنکھوں والی عورتوں کو پسند کیا جاتا ھے۔۔میک اپ بھی ایسا کیا جاتا ھے کہ آنکھیں بڑی بڑی لگیں،،،تو ایک ربڑ کو آپ کتنا کھینچ سکتے ھیں؟
جب پڑھے لوگ کہین کہ دیکھو جی علی نے کہا تھا کہ ایک ذرہ پھٹ جائے تو کائنات پھٹ جائے ۔۔یہ اٹامک فشن کا علم علی کو تھا۔۔۔۔ تو کیا واقعی علی کو یہ علم تھا؟ کیا واقعی علی کو سائینسی مساوات سے معلوم تھا یا ابو طالب نے میتھ سکھایا تھا یا اللہ نے کوئی فشکس کا فرشتہ انکے لئے ایسے روز علم لاتا تھا جیسے طاھر القادری 40 سال سے کسی بزرگ کی کلاس میں جاتے ھیں۔ اور پھر کافرون کی گود میں کینیڈا میں امن پاتے ھیں۔امان پاتے ھیں۔۔۔اور غامدی جی ملائیشیا میں جان بچاتے ھیں۔
اور اس جملے سے انسانیت کو کیا فائدہ ؟ کہ
من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ
۔۔۔
2000 سال سے یہی بتایا جاتا ھے کہ ان حروف کے معانی اللہ کو ھی معلوم ھیں۔۔زیادہ چالاک لوگ کہتے ھیں کہ اللہ انکے معانی کسی آنے والے زمانے میں کھولے گا۔۔
جاری فتوی میں سے ایک کے مطابق
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1129-1050/SN=1/1440
”الٓم“ ”عسق“ ”حم“ ”یس“ وغیرہ حروفِ مقطعات کہلاتے ہیں، ان کے متعلق جمہور صحابہ و تابعین اور علمائے امت کے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ حروف رموز اور اسرار ہیں، جس کا علم سوائے خدا تعالی کے کسی کو نہیں ، اور ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم بطور ایک راز دیا گیا ہو جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں (معارف القرآن) اس لئے آپ ان الفاظ کے معانی اور تفصیلات کے درپے نہ ہوں۔ حروف مقطعات کے سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے معارف القرآن (۱/۱۰۶، ۱۰۷) کا مطالعہ کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی اللہ نے قران اتارا نبی پر۔۔۔اور نبی نے اللہ سے مطلب نہ پوچھا کہ بھائی جان۔۔۔اسکا مطلب بھی تو میں نے لوگوں کو سمجھانا ھے وہ بھی بتائیے۔۔۔ پر اللہ نے کہا۔۔۔تُو کہ۔۔۔ میں اللہ خوب جاننے والا ھوں۔۔ایک تو بات بات پر اللہ یہی کہتا ھے کہ میں اللہ خوب جاننے والا ھوں درست جواب کیوں نہیں دیتا کہ پھڈا ھی نہ ھو۔۔جھگڑا ھی نہ پڑے۔؟ مہدی کے بارے کچھ نہیں کہا۔۔صاف کہتا ھے مہدی انا ھے یا نہیں آنا ھے۔۔۔۔چکر بازی کیوں؟
نماز کی حکم کوئی 89 بار دیا۔۔۔ لیکن پڑھنے کا طریق نہیں بتایا ؟کیوں؟ کوئی بھی مسلمان جواب گھڑے گا کہ نماز تو رسول جی پڑھتے تھے اس لئے یہ سب کو معلوم تھا۔۔۔اس لئے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔۔نہ ھے۔۔۔واہ کیسا جواب ھے۔۔۔73 فرقے۔۔۔ ھر ایک کہتا ھے حدیث و روایت میں نماز ایسے پڑھنی ھے۔۔ شیعوں کی نماز سنیوں دیو بندیوں احمدیوں کے لئے پتھروں ٹھیکریوں سے ٹکر مارنے والی احمقانہ نماز ھے۔۔غرض ھر ایک کا اپنا انداز و تشریح ھے اللہ کو مسلمانوں کے بیچ جھگڑا کرانے کا شوق کیوں ھے؟؟
اب دیکھئیے۔۔۔ کہ تفسیر کرنے والے آپس میں ھر بات پر راضی نہیں۔۔۔کچھ پر راضی ھیں۔۔اور دور دور کی کوڑی لاتے ھیں۔۔جیسے۔۔۔کسی ایمان لانے والے کی تشفی کےلئے کتنی بظاھر خوش امید تصویر تشریح پیش کی گئی ھے۔۔دیکھیں۔۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ، ایک ساتھ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آتے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں۔ ان کے معنی ہر جگہ جدا جدا تو ضرور ہوتے ہیں، لیکن ہر جگہ ایک ہی معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لیے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو نہ تو مقدر ماننے سے، نہ ضمیر دینے سے، نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لیے یہ فیصلہ قابل غور ہے۔
اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لیے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جو مسلمان کے قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے [سنن ابن ماجہ:2620، قال الشيخ الألباني:ضعيف جدا] ‏‏‏‏ مطلب یہ ہے کہ «اقْتُلْ» پورا نہ کہے بلکہ صرف «إِقْ» کہے مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً «ق»، «ص»، «حم»، «طسم الر» وغیرہ یہ سب حروف «هِجَا» ہیں۔
بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا «ا ب ت ث» لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتداء کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:208/1] ‏‏‏‏
سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں «ا ل م ص ر ك ہ ي ع ط س ح ق ن» ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے۔ «نَصٌّ حَكِيمٌ قَاطِعٌ لَهُ سِرٌّ» تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لیے یہ پورے آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ان دلائل اور ابحاث کے بعد بنیادی سوال کی جانب لوٹتے ھین کہ موجودہ دور کے بظاھر بڑے لبرل مسلمان سکالرز اس مذھبی وکٹ پر کس جانب شاٹس کھیلتے ھیں۔۔جیسے غامدی صاحب اور پروفیسر رفیق اختر صاحبان نے اسلامی کتب کا مطالعہ کر کے ان میں سے ممکنہ دلائل کو ترجمہ کر کے جدید ذرائع انٹرنیٹ وغیرہ پر پیش کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ھے اس سے لوگوں میں یہ غلط تاثر پھیلتا ھےکہ جیسے یہ اصحاب خود کسی تحقیق کے نتیجے میں کوئی سائینسی منطقی دلائل لے آئے ھوں جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ھے۔۔ ان دونوں اصحاب نے ھمیشہ پرانی اسلامی کتب سے حوالہ جات دئیے ھیں اور کوئی نئی بات نہیں کہ ھے۔ غامدی جی تو خود امین اصلاحی کے شاگرد ھیں اور انہیں کے اقوال و اعتقاد و تفاسیر سے متاثر ھیں۔
قران کے حروفِ مقطعات، کافروں ، یہودیوں اور مختلف گروھوں کو کرنے کے لئے بنائے گئے۔۔کہ دیکھو آپکی ریپریزینٹیشن یا نمائیندگی بھی ھے۔ جیسے الف لام میم۔۔۔ میں اسلامی خدا ، اپنے سے منسوب ان بیٹیوں کے ناموں کو بعینہُ استعمال کرنے کی بجائے حروف مقطعات استعمال کر کے اُس گروہِ مشرکاں کو ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ھے۔
بالکل ایسے ھی کوئی بھی مذھبی ھمیشہ
ہمیشہ اپنے عقیدے کو سچا ثابت کرنے کے دلائل ڈھونڈتا ھے۔مطلق سچائی کی جانب نہیں چلتا۔ یہ لازمی فرق ایک متکلم اور فلسفی کے بیچ ھوتا ھے جو ملحوظ رھے
اب یہ بحث ختم ھو جانی چاھئیے کہ قران کیا کسی خدا نے اتارا یا بنایا یا ترتیب دیا گیا۔کیونکہ ماننے والے نے کسی طرح بھی یہ نہیں ماننا کہ قرآن کی ترتیب بدلتی رھی، الفاظ بدلتے رھے،،، متن بدلتا رھا، موضوعات بھی بدلے،،کیونکہ اس سے خدائی ؤھی اور قرآنی حفاظت کے وعدے پر سوال اتھے گا اور ایمان باطل ھو جائے گا۔۔یہ مجبوری ھے۔
،،،
رفیع رضا