مذاھب کیسے ایجاد کئے گئے… یہ کتاب نہ پڑھی تو آپ جاھل رھیںگے
پولی میتھ کسے کہتے ھیں؟ پاکستانی طبقہ جُہلا کے نام ایک تعلیمی تحریر
طبقہِ جُہلائے پاکستان کے نام !
پولی میتھ کسے کہتے ھیں؟
(اس لنک کو فارورڈ کرتے جائیں۔)
آئیے آپ کو ایک نہایت ضروری موضوع کی جانب لیجائیں،، ایک لمبے عرصے سے "محض پاکستانی درسی نصاب” کو پڑھ کر ڈگریاں رکھنے والے لوگ سوشل میڈیا اور صحافت کے ذریعے سے کم تعلیم یافتہ اور مذھبی غیر ترقی پسند پاکستانیوں کو گمراہ کرتے چلے آئے ھیں۔
اس کوششِ خبیثہ کے خلاف پاکستان کے نیک فلسفی مزاج اور سائینسی مزاج دانش مندوں نے ھمیشہ کوشش کی ھے کہ عوام کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر دنیا کی ترقی یافتہ روشنی دکھائی جائے۔
بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ اپنی کم تعلیمی معاشرت اور مذھبی رجائیت و شدت کی وجہ سے علمی روشنی پر بھی شدت پسندی کے دھبہ ڈالتا رھتا ھے، کبھی اس کارِ سیاہ کو حُب الوطنی اور کبھی مذھبی اعتقاد کے سہارے انجام دیا جاتا ھے
یہ شدت پسندی صرف مذھبی نہیں بلکہ فلسفیانہ و سائینسی لباس اوڑھے نظر آتی ھے اور تو اور ادبی محاذ پر بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو روز بروز ادب کو مذھبی اور سائینسی پراپیگنڈے سے آلودہ کرتے چلے آئے ھیں، جیسے (مولوی) احمد جاوید، (مولوی (اشفاق ، ممتاز مفتی، قدسیہ بانو نسیم حجازی ، عمیرہ احمد ) وغیرہ ادبی دودھ میں شدت پسندی یا گمراھی کی مینگنیاں ڈال کر پیش کرتے رھے ھیں۔ اسی طرح سائینسی معاملات میں سُوڈو سائینسدان پانی سے کار چلانے ، جنّوں سے توانائی پیا کرنے والے بیانات دے کر عوام کو گمراہ کرتے چلے جاتے ھیں۔
ان معاملات میں کوئی سچ بولے تو اُسے جاھل، باغی، قادیانی، دھریہ مُلک دشمن مشہور کر دیا جاتا ھے۔۔
موجودہ عہد میں ڈاکٹر سلام کے بعد ستار ایدھی اور ڈاکٹر پروفیسر پرویز ھُود بھائی، جیسے نام ھیں جو مختلف جہات میں معاشرے کو بہتری کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے رھے۔
چونکہ ھمارا معاشرہ بنیاد پسندی سے آلودہ رھا ھے اس لئے ایسے اصحاب پر ھمیشہ کُفر کے فتوے لگائے گئے۔۔اور پھر منطقی حوالے ایسا کم علم سوال پوچھا جاتا ھے کہ عقل نوحہ کرنے لگتی ھے کہ کیوں ان کو یہ شعور نصیب نہیں کہ کوئی سائینسدان بیک وقت، مذھب پر بات کرنے والا، سماجیات پر بات کرنے والا، اور ماھرفلسفی ھوسکتا ھے۔۔
یہ لوگ مجھے بتاتے ھیں کہ پروفیسر ھُود بھائی کا مذھب یا تاریخ یا سماجیات میں کوئی مقام نہیں بلکہ بعض تو کہتے ھیں۔ کہ فزکس میں بھی انکا کوئی مقام نہیں۔ جبکہ دنیا کی سب سے اھم رصد گاہ طبیعات ، سرن۔۔۔ میں انکے طبیعاتی کام اور نظریات کے ثبوت موجود ھیں۔
ان جُہلا کو چونکہ درسی نصاب سے پرے کچھ پڑھنے کی عادت نہیں اس لئے یہ اخباری خبروں کی بنیاد پر پردیس کے ملکوں کا سماجی اور سائینسی جائزہ لیتے ھیں۔ سب سے زیادہ یہ لوگ زرد صحافت سے متاثر ھوتے ھیں ایسے زرد صحافت کے رسالوں کو ٹیبلوئیڈ کہا جاتا ھے۔۔جہاں جھوٹے من گھڑت شر انگیزی واقعات پوسٹ کئے جاتے ھیں۔ جیسے سانحہ 911، خود امریکہ نے کروایا،،، جیسے زلزلہ امریکہ لے کر آیا۔۔۔ جیسے دنیا میں سب سے زیادہ ریپ کے واقعات ناورے، سویڈن، جرمنی امریکہ کینیڈآ میں ھوتے ھیں۔
ان جُہلا اور ان سے ذرا کم جُہلا جن میں ٹی وی اینکرز اور بعض اخباری صحافی بھی شامل ھیں انکے لئے یہ لکھنا ضروری ھو گیا تھا کہ انکو امثال کے ذریعے بتایا جائے کہ جب کسی شخص کے دلائل کا جواب موجود نہ ھو تو اُسے یہ مت کہا جائے کہ یہ آپکا فیلڈ نہیں، یا ستار ایدھی کی رفاھی خدمت الگ اور انکا جنت دوزخ پر کوئی یقین نہ ھونا قابل اعتقاد نہیں ھے۔ یا آئین سٹائین کے سب قانون تو ٹھیک پر اسکا خدا کے بارے یا ارتقا کے بارے بیان غیر ضروری ھے۔
اس مضمون میں مجھے سخت زبان ھی استعمال کرنا ھے کیونکہ جن لوگوں کی اپنی قدر انکے اپنے اصحاب میں بھی نہ ھو وُہ بڑی بڑی شخصیات پر غیر مدلّل اعتراضات نہ اُٹھائیں۔ انصار عباسی اور اوریا مقبول جیسے ان پڑھ اپنے مذھبی کنویں کو سمندر کہتے چلے جاتے ھیں، یہ شرپسند انسانیت کے سخت دشمن ھیں اور اقلیتوں کے سخت خلاف ھیں۔ ایسے میں پرویز ھُود بھائی، اور پروفیسر مہدی حسن اور ان جیسے دوسرے دانشوروں کا کام بہت ضروری ھو جاتا ھے کہ وپہ انسانیت کے خلاف کسی طرح کے چلن کو بےنقاب کریں
ایک عام اعتراض ھے کہ پروفیسر ھُود بھائی۔۔۔فزکس کے عام سے لیکچرر ھیں تو سماجیات اور مذھبیات پر کیوں بات کرتے ھیں؟
افسوس کی بات یہ ھےکہ یہی لوگ جب اپنے کسی مذھبی رسول یا صحابی یا امام یا خلیفہ کی بات کرتے ھیں تو اسکے اقوال میں سے مذھب، سماجیات، علم غیب، سائینس۔۔حکمت سمیت دنیا کے ھر علم کی کڑیاں ملاتے ھیں۔ اور مزے کی بات یہ ھےکہ اس وقت یہ فارمولا انہیں یاد نہیں رھتا کہ فلاں خلیفہ یا رسول یا صحابی سائینس دان نہیں تھا۔۔ ھاں پروفیسر ھُود بھائی کو فزکس سے آگے نہیں بولنا چاھئیے کیونکہ انہیں نظریہ پاکستان تو سمجھ میں نہیں آیا البتہ فزکس کی وہ گتھیاں سمجھ میں آگئیں جو یہ سارے اخباری ادیب اور مولوی سلجھا نہیں سکتے۔۔گویا نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ اور اسکے شواھد اور ثبوت،،،کتابوں اور تقاریر اور آڈیو اور ویڈیو بیانات کے سامنے ھونے کے باوجود پروفیسر ھود بھائی۔۔۔یہ سمجھنے سے قاصر ھیں کہ دوقومی نظریہ کامیاب نظریہ ھےکہ نہیں ھے؟۔ گویا دنیائے فزکس کے اصول اور تجربات اور نظریات تو سجھ سکتے ھیں مگر نظریہ پاکستان، اور دوقومی نظریہ نہین سمجھ سکتے۔۔۔؟
آئیے اب ان احمقوں کے ایسے اعتراضات کا جواب تاریخی ، سائینسی، حوالوں سے پیش کروں۔۔
یہ لوگ کسی نہ کسی حوالے سے ارسطو کے نام سے واقف ھیں کیونکہ انکا علم درسی نصابی اور آخباری ھے اس لئے انکو معلوم ھے کہ ارسطو ایک دانشور تھا اور فلسفی تھا، اور بس !
جبکہ قدیم عرب کے لوگ ارسطو کو ایک عظیم ترین حکیم کے طور پر جانتے تھے۔ حکیم سے انکی مُراد، فلسفہ ، طب، سائینس، شعور، سماجیات پر دسترس رکھنے والا انسان تھا۔
ارسطو نے طب، حکمت اور حیاتیات کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔
فلسفہ کے علاوہ جو چیز ارسطو کو سابق فلاسفہ سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کا عملی طبیعیات، ہیئت اور حیاتیات میں ملکہ تھا۔ وہ پہلا عالم تھا جس نے علمی اصطلاحات وضع کیں۔ منطق کو باقاعدہ علم کا درجہ دیا۔ اور سیاست و معاشرت کے لیے باضابطہ اصول ترتیب دیے۔ اس کی قائم کردہ اکیڈمی عرصہ دراز تک مرکز علم و فن رھی۔
ارسطو صرف فلسفی ہی نہ تھا، بلکہ وہ علم طب، علم حیوانات، ریاضی، علم ہيئت، سیاسیات، مابعدالطبیعیات اور علم اخلاقیات پر قدیم حکما کے مابیں مستند اور صاحب الرائے عالم مانا جاتا ہے۔ اس کی کتب و تحقیقی رسائل کی تعداد ہزار سے اوپر ہے، جن میں سے اہم یہ ہیں۔
المقولات
الاخلاق
مابعدالطبیعیہ
العبارۃ
الب رہان
الجدل
الخطابہ
الشعر
النفس
الحیوان
الحس و المحسوس
بوطیقا
۔۔۔۔
یہ پہلی مثال تھی جسے میں ان اعترآضات کرنے والوں کے سامنے لایا ھوں۔ اور جب بھی یہ جہلائے پاکستان آپ سے پوچھیں تو یہ پہلی مثال پیش کردیا کریں کہ ارسطو کی طرح کیسے پروفیسر ھُود بھائی سمیت، علی عباس جلالپوری،۔سعید ابراھیم، ڈآکٹر خآلد سہیل،مبارک علی ، پروفیسر مہدی حسن، سمیت بےشمار افراد ایک ھی نہیں مختلف محاذوں پر اپنا تربیتی جہاد جاری رکھے ھوئے ھیں اور عین حق پر ھیں۔
ایسے افراد جو مختلف فنون اور شعبہ جات مین مہارت رکھتے ھوں انہیں پولی میتھ کہا جاتا ھے۔۔ ھر فن مولا اسکا درست ترجمہ نہ ھوگا۔۔۔
یعنی ارسطو ایک پولی میتھ انسان تھا۔ جو بہت سے سائینسی ، سماجی ، طبی، اور شعوری وجدانی فنون میں ماھر تھا۔
اسی طرح ڈاونچی نامی شخص بیک وقت مصور، پینٹر،انجینیئر، ریاضی دان، موسیقار، بیالوجسٹ،حکیم،تعمیراتی ڈایزائینر، اور بےشمار علوم کا ماھر ترین شخص تھا۔ شاید دنیا میں اس سے بڑا پولی میتھ کوئی بھی نہیں پیدا ھو سکا۔
قریبی ماضی میں برٹرینڈ رسل کا نام ایک پولی میتھ کے طور پر سامنے آتا ھے۔
جو فلسفہ، منطق،سماجیات،تاریخ دان، سیاسی کارکن، مصنف، اور ریاضی دان تھا اسکے کئی ماڈل اور ریسرچ کمپیوٹر بنانے میں استعمال ھوئےھیں۔
اس سے کسی نے نہیں پوچھا کہ بھائی آپ فلسفی کدھر سے ھوگئے سماجیات پر بات کیوں کر رھے ھیں۔ خدا کے بارے بیان کیوں دے رھے ھیں۔،جبکہ آپ تو صرف سیاسی کارکن ھیں یا صرف ریاضی دان ھیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح شاعر ٹیگور، ایک شاعر ھی نہیں ناولسٹ، موسیقار اور پینٹر بھی تھا۔۔سماجی ایکٹیوسٹ بھی تھا انگریز کو سَر کا خطاب واپس کردیا کہ جلیانوالہ کا قتال کیوں کیا۔۔ھاں پاکستانی معترضوں کے پسندیدہ نصابی ھیرو نے اپنا خطاب پنجابی ھو کر بھی واپس نہ کیا۔ اقبال کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے پاکستانی عمومی علمی شعور پاتال کی جانب چل پڑا ھے۔
امریکی چارلس سینڈرس پیریس ایک ریاضی دان، کیمسٹ، منطقی، فلسفی، اور بہت کچھ تھا۔۔۔
اسی طرح کی کوئی 50 شخصیات میرے سامنے ھیں ،،لیکن طوالت کے خوف سے نہیں لکھ رھا،،
پس پاکستانی عقلی بونوں کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاھئیے کہ پروفیسر ھود بھائی،،،نہ صرف ایک سائینسدان ھیں بلکہ وہ نظریاتی طبیعات کے ماھر بھی ھیں، سماجیات پر انکی دانشمندانہ نظر ھے، وہ تاریخ کے ماھر ھیں۔وہ انسانی آزادی کے ایک بہت بڑے ریفارمسٹ ھیں، وہ ھیومنسٹ ھیں۔وہ عملی اصلاحی تعلیمی محاذ پر کام کر رھے ھیں۔ وہ کتابون کے مصنف ھیں۔ انکے شاگردوں میں کئی علوم کے ماھرین شامل ھیں۔ یہ پاکستانی معاشرے اور ملک کی شدید بدقسمتی ھےکہ اصلاحی کام کرنے والے سائینسدان کو بلیک لسٹ قرار دیا جائے۔۔ اور مذھبی جانور انکے پیچھے لگا دئیے جائیں، یا ایجنسیاں انہیں اسی طرح دھمکائیں جیسے ستار ایدھی کو رفاھی کام سے روکنے کے لئے دھمکایا جاتا تھا۔
پروفیسر ھُود بھائی نے مشعل نامی ویب سائٹ پر مفت علمی کتابیں مہیا کی ھیں۔ انہوں نے اس وقتِ جبر میں ملالہ، اور مشال خان کے حق کے لئے آواز اُٹھائی۔
وہ گمراھی کے دور میں ایک عظیم علمی جدوجہد کا روشن مینارہ ھیں۔ ھود بھائی کئی رفاھی ادارے چلا رھے ھیں۔
آپ غور کریں، عرفان ستار ایک بہت اعلی شاعر ھے نثر نگار ھے، اور فارمیسی میں ڈگری رکھتا ھے۔ ڈاکٹر ابرار،،پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ھیں لیکن ایک نہایت عمدہ شاعر ھیں۔ ڈاکٹر کبیر ایک سرجن ڈاکٹر ھیں اور ایک بہترین شاعر۔۔۔ خود میں الیکٹرونکس انجینیرنگ کے علاوہ فارمیسی اور جنرل ازم کی سند رکھتا ھوں، جبکہ اینٹمالوجسٹ بھی ھُوں۔۔۔۔اور شاعری بھی کرتا ھُوں اور تنقید بھی ،،،، ایک سے زیادہ شعبوں میں ماھر ھونا ایک قدرتی عطا ھے اور اس سے محروم لوگوں کا ھم سے حسد کرنا نہایت افسوسناک ھے۔
پس اے طبقہِ جہلائے پاکستان !تمھیں تمھارے اُس خدا کا واسطہ جو تمھیں ھدایت نہیں دیتا تمھاری مدد نہیں کرتا تمھیں جاھل ان پڑھ رکھے جاتا ھے۔۔تمھارے معاشرے میں جنسی قتال اور لُوٹ مار پر جو کچھ نہین کرتا اسی کے نام پر ھماری کوششوں پر ذرا غور کرو فتوے نہ لگاو ۔۔۔ علم حاصل کرو۔۔اور انسانیت کو اولیت دو۔۔مذھب اپنے گھر میں رکھو دوسروں پر مسلط نہ کرو۔۔۔ورنہ ھمیشہ تباہ حال ھی رھو گے
رفیع رضا
علاول خان نے میرے کچھ اشعار گائے….وفور دیکھئے..
علاول خان کی جذباتی اور وفور میں گائی غزل کے اشعار
73 اسلامی فرقے تمام کافر……سارے کافر
کیا آپ جانتے ھیں، اسلام کے 73 فرقے…تمام ایک دوسرے کو کافر کہتے ھیں.
اس حساب سے ایک غیر مسلم کی نظر میں سارے 73 فرقے بشمول ، سُنی شیعہ، چکڑالوی، بریلوی دیوبندی، احمدی لاہوری، نانوتوی، اسماعیلی کافر ھی ھیں. یہ الگ بات کہ باقی کچھ فرقے مل کر کسی ایک فرقے کو کافر کہیں. اس کی کوئی حیثیت نہیں.کیونکہ سب ایک راگ الاپ رھے ھیں، اور کوئی بھی کسی بھی خدا کی طرف سے نہیں،مذاھب انسان کے بنائے ھوئے کنٹرول کے طریقے ھیں
دو اسلام………. غلام جیلانی برق کی اہم ترین کتاب
غلام جیلانی برق،،،،کی اس کتاب میں اٹھائے گئے سوالوں کے ترتیب وار جوابات کوئی نہیں دے سکا..کچھ نام نہاد اسلامی جہادی آئے اور ایمانی جوابات دینے کی احمقانہ کوششین کرکے برق صاحب کو دائرہ اسلام سے نکال باھر کیا…
کتاب رنگیلا رسول، اگرچہ یہ کوئی اچھے لہجے میں لکھی کتاب نہیں.حوالے درست ہیں زبان اچھی نہیں
”رنگیلا رسول“1920 میں پنجاب کے آریہ سماجی اور مسلمانوں کے درمیان برپا ہونے والے مناقشے کا نتیجہ ہے۔ یہ متنازعہ کتاب پیغمبر اسلام کی خانگی زندگی پر مشتمل ہے۔ اس کے مصنف ایک آریہ سماجی پنڈت چموپتی ایم اے یا کرشن پرشاد پرتاب ہیں جنہوں نے 1927 میں اسے پہلی بار شائع کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اس پمفلٹ کاردعمل تھا جسے ایک مسلمان نے شائع کیا تھا اور جس میں ہندوؤں کی مقدس دیوی سیتا کو فاحشہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا۔
مسلمانوں نے اس کتاب پر اپنا سخت ردعمل دکھایا، ان کی شکایت پر اس کتاب کے پبلشر راج پال کو گرفتار کرلیا گیا لیکن پانچ سال بعد اپریل 1929 کو اسے رہا کردیا گیا ، کیوں کہ اس وقت توہین مذہب کے خلاف کوئی قانون نہیں تھا۔ یہ مقدمہ جسٹس شاہ دین کی عدالت میں چلا جس میں راج پال نے کہا کہ اس کتاب میں ایک لفظ بھی ہمارا نہیں یہ سب مسلمانوں کی احادیث کی کتابوں سے حوالوں کے ساتھ لیا گیا ہے، کئی ناکام حملوں کے بعد ، بالآخر غازی علم دین نام کے ایک نوجوان نے 6 اپریل 1929ءکو راج پال کو خنجر سے قتل کردیا
اسی تناظر میں میری اس تحریر میں قسم خدا ئے اصلی کی ایک لفظ بھی میرا نہیں یہ وہ واقعات اور سانحات ہیں جو جیسے رپورٹ ہوئے لکھ دیئے لیکن اس آئینے میں اپنی اپنی شکل دیکھئے اور سوچیئے کیا ہم واقعی اشرف المخلوقات ہیں؟ بلکہ کیا ہم انسان کہلانے کے بھی قابل ہیں؟ جانوروں کی زندگیوں کا مطالعہ کیجئے شاید خود سے شرمندگی ہو کہ یہ سب تو جانور بھی نہیں کرتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نقل کا قومی پاکستانی رجحان…سلسلے وار… سچائیاں اور تلخ باتیں
دو دن قبل ایک دوست سے پاکستانی معاشرے میں ادب سمیت مختلف شعبہ جات میں نقل، جگالی، سرقہ، اکتساب، ماخوذ وغیرہ کے ماخذات و وجوھات پر کچھ گفتگو ھوئی، وہ اس بارے اس تانے بانے کے سِرے تلاش کر رھے تھے۔
مثلآ پاکستان میں رٹا سٹائل تعلیمی نظام، اور سفارشی پاس یا جعلی ڈگریوں کے ذریعے اور امتحان میں پرچوں کی خریدو فروخت اور نقل کے رجحان کا بعد میں معاشرے کے مختلف شعبوں میں کسی نہ کسی کمتری خامی برائی کی صورت میں ظاھر ھونا لازم ھے۔
برائی کا تصور یہ ھے کہ برائی کرنے والا جب پہلی بار یہ برائی یا غلط اقدام کرتا ھے تو اُسے قدرے شرم محسوس ھوتی ھے اس موقع پر مناسب تنبیہہ سے گزرے تو بہتری کا امکان ھوتا ھے۔۔
لیکن جب دوسری تیسری بار ایسا کام کرے تو پھر نہ اسکے اندر سے کوئی احتجاج ھوتا ھے نہ وہ بیرونی احتجاج کو بھی کوئی اھمیت دیتا ھے۔۔
یہ ڈھیٹ پن، خود سری، اور مطلب پرستی ایک ظالم خود غرض شخصیت کی صورت میں ظاھر ھوتی ھے۔
جیسے میں کہا کرتا ھُوں کہ قصاب کبھی شاعر نہیں ھوتا، نہ وہ کبھی مصور ھوتا ھے۔۔ کیونکہ قصاب جب جانور کو ذبح کرتا ھے تو اسکے اندر رحم دلی کا تصور مردہ ھوتا چلا جاتا ھے۔ شقاوتِ قلبی اسی کو کہتے ھیں۔ ایسا شخص نازل خیالات سے بہت دُور چلا جاتا ھے۔
جب ماسٹر کو کہہ کر کسی کے بیٹے بیٹی کو امتحان میں پاس کروایا جاتا ھے تو وہ طالب علم خود کو اندر سے گھٹیا اور شرمسار پاتا ھے، یہ عمل اسکی اپنی شخصیت کی خود یقینی کو پاش پاش کردیتا ھے۔ اور ایسے عمل کی دھرائی سے ایک سپاٹ خود غرض، بے عمل فریبی فرد معاشرے کا حصہ بن جاتا ھے۔۔
ایسے افراد کی تعداد بڑھنے سے مجموعی طور پر معاشرے میں بےحِسی اور دکھاوے کا رجحان تناسب میں بڑھتا ھے تو معاشرہ اجتماعی طور پر بد اخلاق، فریبی اور شدت پسند ھو جاتا ھے۔۔
دوران تعلیم نقل کے عمل سے ایسے طالب علموں کی حق تلفی ھوتی ھے جو اگلی کلاس میں جانے کے اھل تھے لیکن انکی جگہ ایک نقال نے لے لی۔۔ مثلآ آرمی میڈیکل کالج میں داخلے کے لئے سفارش ایک عام مثال ھے۔ میں نے سفارش نہیں کروائی تھی اس لئے مجھے بھی داخلہ نہ مِل سکا۔۔
پی سی ایس آئی آر میں جاب کے لئے مولوی بیٹھا تھا وہ بجائے سائینسی انٹرویو کے مجھ سے دعائے قنوت سننا چاھتا تھا۔شیزان بیکری گارڈن ٹاون لاھور کے مالک کو احمدیت پسند نہ تھی سیلیکٹ کر کے ریجیکٹ کردیا۔۔۔
اِسی رجحان کے تابع ماضی پرست معاشرہ اپنی رجعت پرستی کی وجہ سے پرانے حقیقی و غیر حقیقی و افسانوی ادوار سے جڑنے ھونے کا دکھاوہ کرتا ھے۔
اس نہج سے نقصان یہ ھوتا ھے کہ موجود نظر انداز ھوجاتا ھے آپ ماضی میں کیسے جی سکتے ھیں جب کہ حال سے واقف نہ ھوں۔۔ اچھے اخلاق پر قائم قومیں حال سے جڑے ھونے کی وجہ سے مستقبل پر نظر رکھتی ھیں،،لیکن رجعت پسند معاشرے اساطیری، افسانوی، مذھبی ماضی کو حال میں نافذ کرنے کی غلطی کرتے جاتے ھیں۔
وہ ھر نئی ایجاد کی پہلے تو شدید نفی کرتے ھیں۔ بعد میں زمانے کی تبدیلی کو مذھبی رنگ دے کر جزوی طور پر قبول کرتے ھیں۔ انشراح صدر تب بھی نہین ھوتا۔۔
ایسے معاشرے میں اندرونی طور پر افراد نئی سائینسی روش کو استعمال کرتے اور چاھتے ھین لیکن بیرونی طور پر اسکی نفی کرتے ھیں۔
مثلاً تصویر کی ممانعت مذھب میں شدید ھوتی تھی۔ اسلام بازی لے گیا کہ تصویر کی شدید ممانعت کی۔ لیکن اندر سے اس ایجاد کے فوائد نظر آئے تو اس سے فائدہ بھی ُاٹھایا لیکن دوسروں کو اسکے خلاف درس بھی دیا۔۔
مثلا بہت سے مولویان کہتے ھیں۔ کیمرے کی تصویر تو جائز ھے۔لیکن قلم ،،یا برش سے بنانا حرام ھے۔
یا مرزا غلام آحمد جو مہدی ھونے کے دعویدار تھے نے کہا انکی تصویر مذھبی اغراض و تبلیغ کے لئے جائز ھے۔ البتہ ویسے تصویر حرام ھے۔۔لیکن اب 24 گھنٹے کا احمدیہ ٹی وی ، رسالے اخبار ۔۔۔ اُس فتوے کا مزاق آُڑا رھے ھیں،
ایک فریبی مولوی فضل الرحمن نامی نے کچھ عرصہ قبل کہا کہ تصویر جو ھاتھ سے بنائی جائے وہ حرام ھے۔ اور کیمیرے پر انٹرویو دے رھا تھا۔۔
اسی طرح چھاپہ خانے کی ایجاد پر موت کی سزائیں عیسائیوں نے عرصہ تک دیں ھیں۔ لیکن اب عیسائیوں کی مذھبی کتابیں اسی چھاپہ خانے سے چھپتی ھیں۔ یہ تمام امثال ماضی کو حال پر تھوپنے کی ناجائز کوششوں کا نتیجہ ھیں۔
اردو میں ادبا و شعرا نے کثرت سے فارسی و عربی و سنسکرت و انگریزی کے ماخذات سے اپنی شاعری کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔
اس کے نتیجے میں ادب میں نقالی کا وھی تصور سامنے آ گیا جو ابتدائے تعلیم میں امتحانی مراکز میں پایا جاتا تھا۔ وھی قرینہ بالغانہ زندگی میں معاشرے نے اپنا لیا۔
اردو کو نوزائیدہ زبان کہہ کر اسی بہانے سے بیرونی زبانوں سے خوب سرقہ کیا گیا۔
بعض صورتوں میں ترجمہ کا حوالہ دیا گیا بعض میں ماخوذ ، اکستاب، وغیرہ جیسی اصطلاحات کے حوالے سے یہ نقل کا رجحان جاری رھا۔
بیرونی ماخذات تو الگ اندرونی طور پر ایک دوسرے کی تحریروں اور شاعری کی بھی نقالی یا جگالی کی گئی۔۔
چونکہ معاشرے میں نقل کے عمومی رجحان اور مذھبی و علاقائی ڈھٹائی کے باوصف بےشرمی یا ذرا نرم الفاظ میں بےحسی کا عنصر بڑھ گیا تھا تو ۔۔ سب اسی چوری کی روش کو مقابلے میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر استعمال کرنے لگے۔
کلاسیکی شعرا کی شاعری میں سے تراکیب ، اصطلاحات،تلمیحات کو ڈھٹائی سے استعمال کر کے اسے کلاسیک سے جڑے ھونے کی گمراہ کُن روش سے منسوب کیا گیا۔
کلاسیکی شُعرا نے ایک ھی زمین یا بحر میں ملتے جلتے قافیوں والی غزلیں کہنی شروع کر دیں۔۔۔ جو بنیادی طور پر چوری ھی تھی۔۔لیکن اس چوری کے عمومی رجحان کو، جس کی میں اوپر نفسیاتی وضاحت کر آیا ھوں، اسی کے تحت ایک سے قافیوں والی ایک سی زمینِ شعری کو ، مقابلہ آرائی کہہ دیا گیا اور کہا گیا بحر یا زمین کسی کی نہیں ھوتی جو اس میں اچھا کہہ لے زمین اُسی کی۔۔ یہ غیر تخلیقی رجحان ، سطحی شاعری کا سیلاب لے آیا،
شُعرا اپنی شاعری میں ایسی تراکیب استعمال کرنے لگے جس کے ماضی اور ساخت سے جڑے ثقافتی منظر نامے سے وہ واقف ھی نہ تھے۔
مثلآ بلبل ایک پرندے کا نام استعمال کیا گیا۔۔۔ جو پاکستان میں ھوتا ھی نہیں ھے۔ بلبل صرف ایران میں پایا جاتا ھے۔۔ پاکستان میں جسے بلبل سمجھنے کی غلطی کی گئی وہ پرندہ گُلدُم ھے۔
دلِ ناداں کی ترکیب کا انگریزی ترجمہ غیر دانشمند دل ھے۔۔ لیکن غیر دانش مند دل کہہ کر جو منظر نامہ ، اس دل سے منسوب ھے وہ کہاں سے لایا جائے گا۔۔ قاری کو تو اسکا ادراک نہ ھوگا۔ پس ترکیب کی چوری کو بھی اس طرح جائز سمجھا گیا۔
ظاھر ھے یورپ علمی سطح پر ھمارے خطے سے سینکڑوں برس آگے ھے اس لئے اردو میں یوروپ سے مختلف علوم پر کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔ لیکن ایک ایسی صورتِ حالبھی سامنے آئی جس میں ترجمہ کار نے بتدریج ، ترجمے کے اصل ماخذ کا نام اور حوالہ بھی غائب کردیا۔۔تاکہ جھوٹی تعریف کے لئے اپنی ذات کو سامنے لا سکے۔
اس پر عمران شاھد بھنڈر نے تحقیق کی اور معروف اردو لکھاری گوپی چند نارنگ کی بیشتر کتابوں کو براہ راست ترجمہ یا چوری قرار دیا۔
جیسے کہ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا، گھٹیا شاعر دوسروں کے خیات چوری کرتے ھیں۔۔ بہت بڑھیا شاعر پورے کا پورا شعر و عبارت اپنا لیتے ھیں۔ یہی کام فیض نے کیا ھے فیض نے جب چاھا اپنی نظم میں دوسرے شاعر کا مصرع لگا لیا۔۔۔جسے مصرع چُرا لیا کہنے میں پاکستانی ناقد ڈرتے ھیں کیونکہ عمومی روش کی مخالفت پاکستان میں ناپید ھے۔ علی عباس جلالپوری نے جب اقبال کو فلسفی کی بجائے متکلم ثابت کیا اور انکے علم الکلام کو حوالے سے ثابت کیا تو ان پر فوری مقدمہ دائر کر دیا گیا۔ رجعت پسند دقیانوسی معاشروں کے ادب میں ایسے واقعات لازمی ھوتے ھیں۔ بہت سے ادیب و شُعرا بلیک لسٹ کر دئیے گئے۔۔
اقبال نے کوئی 30 کے لگ بھگ، مغربی شعرا کی عمدہ نظموں کے ترجمے کئے اور لفظ ماخوذ انکے ساتھ لکھ کر حوالہ دے دیا۔ بہت سے اشعار کے ماخذات کا بھی حوالہ دیا۔ لیکن پاکستانی معاشرہ چونکہ نقل، اور مذھبی شدت پرشتی پر قائم ھے اس لئے رفتہ رفتہ شعبہ اقبالیات نے ایک خاص منصوبے کے تحت اقبال کو فلسفی و زیادہ بڑا شاعر ثابت کرنے کے لئے یہ حوالہ جات جو اقبال نے بعض جگہ دئیے تھے وہ بھی غائب کردئیے، جس کے نتیجے میں 40 سال تک کی عمر کے لوگ جو اس دوران پروان چڑھے وہ اقبال کی مشہور نظموں کو اقبال کی ذاتی تخلیق سمجھنے لگے جبکہ نہ صرف خیال بلکہ تراکیب و الفاظ بھی مغربی کافر شُعرا کے تھے۔ جیسے لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنا میری۔۔۔والی نظم اصل میں میٹیلڈا ایڈورڈ بیتھم کی مشہور حمد کا ترجمہ ھے جو گِرجوں میں اقبال سے بہت پہلے پڑھی جاتی تھی۔
اقبال ن جو منظوم ترجمے کئے ہیں ان کے علاوہ ان کی شاعری کا ایک قابلﹺ لحاظ حصہ ایسا بھی ہے جو مغربی شعرا کے کلام سے متاثر ہے۔
پروفیسر عبد القادر سروری اپنی کتاب "جدید اردو شاعری” میں لکھتے ہیں۔
"اقبال کی ابتدائی شاعری کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو مغربی شعراء جیسے ٹینی سن، ایمرسن اور گوئٹے وغیرہ کے کلام سے ماخوذ ہے، یہ درحقیقت اقبال کی موضوعی نظموں کا اولین نقش ہیں۔ اکثر شعراء جنہوں نے مغربی نظموں کے مقابلے میں نظمیں لکھنے کی کوشش کی ہے، پہلے مغربی شعراء کے کلام کو نمونہ بناتے رہے۔”
مخزن اپریل ۱۹۰۴ء میں سر عبدالقادر کا سہ سالہ ریویو شائع ہوا ۔ انہوں نےلکھا :
مخزن کا ایک مقصد اردو نظم میں مغربی خیالات، فلسفہ اور سائنس کا رگنگ بھرنا اور نتیجہ خیز مسلسل نظم کو رواج دینا تھا تاکہ نظم اردو کا رنگ نکھرے، اس کے اثر کا حلقہ وسیع ہو اور جو لوگ انگریزی نظم کی خوبیوں کے دلدادہ ہیں ان کی نسل کے لیے بھی کچھ سامان ملکی زبان میں مہیا ہو جائے۔ یہ مقصد بھی خاطرخواہ پورا ہوا اور اس کے پورا کرنے میں سب سے زیادہ کوشش شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے اور نیرنگ بی۔اے کی طرف سے ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال ۱۹۰۸ ء کے وسط میں یورپ سےواپس ہوئےتومخزن کے اڈیٹر شیخ عبدالقادر نے ان سے فرمائش کی کہ وہ انگریزی نظموں کے منظوم ترجموں کی طرف توجہ کریں۔ چنانچہ مخزن کے پہلے شمارہ ﴿اپریل ۱۹۰۱ء ﴾ میں اقبال کی نظم "کوہستان ہمالہ” کے عنوان سے شائع ہوئی جس پر اڈیٹر کی طرف سے یہ نوٹ ہے۔
شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور جو علوم مشرقی اور مغربی دونوں میں صاحب کمال ہیں، انگریزی خیالات کو شاعری کا لباس پہنا کر ملک الشعراانگلستان ورڈسورتھ کے رنگ میں ہمالہ کو یوں خطاب کرتے ہیں۔
اپنی ابتدائی شاعری میں اقبال نے مغربی شاعروں سے بھر پور استفادہ کیا۔ اس کے متعلق لکھتے ہیں۔
"میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل، اور ورڈسورتھ سے
بہت استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ غالب اور بیدل نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ مغربی شاعری کے اقدار کو سمولینے کے باوجود اپنے جذبہ اور اظہار میں مشرقیت کی روح کو کیسے زندہ رکھوں اور ورڈسورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچالیا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان سے پہلے کے ھندوستانی اردو لکھاریوں میں سے جو ترقی پسند تھے انہوں نے تو خلوص نیت سے دوسری زبانون کے ترجمے کئے تاکہ قاری کو بلوغت کی جانب لایا جائے۔۔ لیکن بعد میں پاکستان میں ادب کی فضا ایسی بنی کہ خاص طور پر اردو شاعری ایک بےرس، غیر حقیقی، مبالغے سے بھری، نقل شُدہ، جگالی زدہ، تعلی آلود شے بن کر رہ گئی۔
البتہ کہیں کہیں بعض شعرا نے اپنے الگ رستے چُنے۔ الگ رستے چننے والوں کی ھمیشہ مخالف ھوتی ھے جیسے غالب کو دوسرے شُعرا گمراہ کہتے تھے۔ اسی طرح ظفر اقبال کے لسانی تجربات پر انہیں غیر شاعر کہنے والوں کی زبانیں اب بھی یہی کہتی ھیں۔ جبکہ وُہ خود جھوٹے تصوف کی غیر حقیقی جگالی سے بھری شاعری فرماتے چلے جاتے ھیں۔
نقل، سرقہ ، اکتساب، کا نقصان کسی نہ کسی سطح معاشرے کو ادا کرنا پڑتا ھے۔ زیادہ گہرائی میں جا کر مطالعہ کریں تو مذھبی افلاس کے پیچھے بھی عربی بہروپ کا ھاتھ نظر آئے گا۔
شاعری میں چوری یا نقالی صرف اصطلاحات، یا شعری زمینوں کی ھی نہیں ھوتی ۔۔بعض اوقات لکھنے کی نہج بھی چرائی جاتی ھے۔ بعض الفاظ کے استمعال کی کرافٹ بھی چوری کی اجاتی ھے۔
میں نے ایک غزل کوئی 15 سال قبل کبھی لکھی تھی۔۔۔۔۔ جسکی ردیف یوں تھی۔۔
نہ وُہ مدینہ ، نہ مکّہ، نہ غارِ ثَور و حِرا
نفاق و مومن و کُفّار بھی کلیشے ھے
کچھ عرصہ قبل ایک شاعر افتخار جعفری نے اس سے متاثر ھو کر ایک نظم لکھی جس میں کلیشے ھے کی دھرائی کی گئی ھے۔۔ جو ظاھر ھے میری غزل کا چربہ ھے۔
یعنی چوری انداز کی بھی ھو سکتی ھے۔ اس سے پہلے اردو شاعر مین اور غزل میں، کلیشے کا الفظ کبھی استعمال نہیں ھوا تھا۔۔۔لیکن میری اس کوشش کو وہ صاحب لے اُڑے۔
جون ایلیا کی غزل، آسمان میں کیا، کی ھزاروں چوریاں گردش کر رھی ھیں۔ آخر آپ کو کس نے یہ استحقاق دیا ھے کہ ایک شاعر کی غزل کی زمین آپ سب برتنے لگیں؟
چاھئیے تو یہ کہ کسی کی برتی زمین سے عمومی طورپر اجتناب کیا جائے۔ بغیر جانے بعض زمینیں ایک جیسی ھوں تو اور بات ھے۔۔لیکن یہاں تو فیشن بن چکا ھے کہ کسی کی مشہور زمین پر مشاعرے میں طرح شاعری کروائی جاتی ھے۔
یہ رجحان کسی طرح بھی اچھا یا تربیتی نہیں ھے، اس رجحان کے تانے بانے اُسی نقل کی ابتدائی روش سے ملتے ھیں جو معاشرے کو بانجھ بنا دیتی ھے۔
یہ بات مت بھولیں کہ آج پاکستان دنیا میں نائیجیریا کے بعد سب سے زیادہ ان پڑھ بچے رکھتا ھے، یہ شرمناک صورتِ حال اُنکے مُونہہ پر تھپڑ ھیں جو پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہتے ھیں جو پانی سے کار چلانے کا فراڈ کرتے ھیں، جو ایٹم بم کو پاکستانی ایجاد سمجھتے ھیں، جو جِنوں کو قابو کر کے انکی توانائی سے پاکستان میں بجلی بنانے کی بات کرتے ھیں۔
پاکستانی اردو ادب میں خاص طور پر ایک اندازِ خود ستائی بعض ادیبوں نے رواج دیا جس نے عمومی قاری کو ماضی کے افسانوی قصوں میں الجھا کے رکھ دیا۔
نسیم حجازی نے ایک بڑی تعداد کو گمراہ کردیا۔
اشفاق احمد اور واصف علی واصف، اور اب سید سرفراز شاہ، ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب نے مذھبی حوالوں سے افسانوی جھوٹ کو سچائی کا جبہ پہنا کر پیش کیا، جس کی وجہ سے ایک منافق ادبی معاشرہ ترتیب پا چکا ھے۔
اقبال نے چاھے اچھی نیت نظر سے ترجمے کئے ھوں لیکن، اقبال نے اپنی شاعری کو دوسروں کی شاعری پر استوار کیا اور اسی طرح دوسروں کے کہنے پر اپنی شاعری میں رد و بدل کیا۔ شکوہ لکھا تو جوابِ شکوہ مجبوری میں لکھا۔۔
اپنی کتاب کے پہلے 28 شعر لوگوں کے کہنے پر حذف کئے۔۔یعنی اقبال نے اپنی سوچ پر قائم رھنے کی جرات نہ کی۔ اسی اقبال نے یوروپ سے تعلیم پائی اور یوروپ کو تباھی کی نوید دی۔۔۔
اسی اقبال نے انگریز کی مدح کی۔ ملکہ کا قصیدہ بھی لکھا نوحہ بھی لکھا۔۔
ھندوستان کی آزاد تقسیم کو اقبال نے خطبہ الہ آباد اور خطوط میں رد کیا اور کہا ھرگز میں انگریز کے بغیر کسی ریاست کی بات نہین کرتا۔۔۔یہ انداز اقبال کو کیوں اختیار کرنا پڑاَ اس پر بڑی سچائی سے تحقیق کی ضرورت ھے۔
اقبال جو انگریز گورنر کا قصیدہ لکھتے ھیں تو جلیانوالہ باغ کے قتال پر کیون نہیں لکھتۓ؟
اقبال چین و عرب ھمارا کیوں کہتے ھیں؟ اقبال کی سوچ کیوں اسلام کے افسانوی ماضی میں خوش رھتی ھے،؟ جبکہ وُہ اپنی معشوقہ عطیہ فیضی کو تو خط میں لکھتے ھیں، کہ وہ خود کو شراب مین اتنا ڈبو لیں گے کہ خود کو قتل کر لیں گے۔۔۔ یہ خیالات و جزبات اتنے منشتر کیوں ھیں، کبھی آپ بےلاگ ھوکر ایمانداری سے اس پر سوچیں،
منٹو کی سچائی کو عریانی بےحیائی مشہور کیا گیا، مرنے کے بعد کیا ھوگا ایک بیسٹ سیلر کتاب بن گئی۔ لیکن اتنی ھی تعداد میں کُوک شاستر بھی ساتھ میں خریدی گئی،
اسوقت پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی و قتل کی وارداتیں دنیا میں سب سے زیادہ ھو رھی ھیں، اجتماعی عصمت دری کے عمومی واقعات اسلامی ملکوں میں کثرت سے ھوتے ھیں، انڈیا میں بھی ایسے واقعات اتنے بڑھے ھیں کہ بچوں سے زیادتی پر موت کی سزا نافذ کر دی گئی ھے۔ یہ تمام معاشرتی واقاعت اپنے پیچھے ایک کثیر جہتی نفسیات رکھتے ھیں، جن میں نقالی ، چوری ، اکتساب، وغیرہ بھی شامل ھیں۔
ضرورت اس امر کی ھے کہ جھوٹی مدح سرائی اور ستائشِ باھمی کے غلیظ ماحول میں ایسی آوازیں اُٹھیں جو جگالی کو رد کردیں۔ نقالی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کریں۔ داڑھی والے کی عزت داڑھی کے سبب نہیں اسکے اعمال و افعال سے جوڑی جائے۔ بڈھے کھوسٹ ادیب جو رجعت پسندانہ درس دیتے ھیں اسے مکمل طور پر رد کردیا جائے۔۔حال اور مستقبل کے حوالے لکھا اور سوچا جائے۔
رفیع رضا
اقبال اور مرزا غلام احمد کے حق میں نظم
علامہ اقبال اور احمدیت کا دفاع
…..
سلسلہ احمدیہ میں سیالکوٹ شہر کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ مرزا غلام احمد خود کو مسیح موعود کہتے تھے۔۔۔اور اس دعویٰ سے پیشتر ایک لمبا زمانہ اس شہر میں قیام پذیر رہے،،ایک احمدی محقق لکھتے ھیں۔
-علّامہ اقبال سیالکوٹ کی مردم خیز زمین کے ایک ہونہار پھل تھے- – علّامہ اقبال کی جوانی کا عالم تھا، ان کی عمر اندازاً ۲۰-۲۱ سال ہوگی- اُنہی دنوں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اشاعتِ اسلام کے لئے پادریوں سے مصروف جنگ تھے تو میرے شہر کے علماء آپ کو صلیب پر لٹکانے کے غم میں مرے جا رہے تھے – آپؑ کے خلاف فتوے اور گالیاں ثواب سمجھ کر دئیے جا رہے تھے انہیں میں سے ایک لدھیانہ کےمولوی سعد اللہ سعدی صاحب بھی تھے۔ اُن کی گل فشانیاں جناب اقبال کی طبیعت پر گراں گزریں تو آپ نے20 اشعار پر مبنی ایک نظم لکھ دی جسے 1912 میںحضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ مرحوم نے اپنی کتاب آئینہ حق نما میں شائع کر کے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا ہے- وہ پوری نظم پیش ہے
واہ رے سعدیؔ دیکھ لی گندہ دہانی آپ کی
خوب ہو گئی مہتروں میں قدر دانی آپ کی
بیت ساری آپ کی بیت الخلا سے کم نہیں
ہے پسندِ خاکر وباں شعر خوانی آپ کی
تیلیاں جاروب کی لیتے وہ خامہ کے عوض
کھینچتے تصویر گر بہزاد و دماغی آپ کی
ان دنوں کو فصلِ گُل کہیئے یادل پھول کے
ہر طرف ہوتی ہے سعدی گلفشانی آپ کی
آپ کے اشعار ہوتی ہیں مگر ی کے بغیر
کوشِ عالَم تک یہ پہنچے ہیں زبانی آپ کے
گوہر بے راء کھڑے ہیں آپ کے مُنہ سے سبھی
جان سے تنگ آ گئی ہے مہترانی آپ کی
ہر طرف سے آ رہی ہے یوں دُر دُر کی صدا
بھا گئی اہلِ سخن کو دُر نشانی آپ کی
آپ سے بڑھ کر عروضی کوئی دنیا میں نہیں
واہ صاحب شعر خوانی شعر دانی آپ کی
خاک کو ہم چاٹ کر یہ بات کہہ دیتے ہیں آج
تلخ کامی ہو گی یہ شیریں دہانی آپ کی
جب ادھر سے بھی پڑیں گے آپ کو صابن کے مول
آپ پر کھُل جائے گی رنگیں بیانی آپ کی
کھائو گے فرمائشی سر پلپلا ہو جائے گا
پھر نکل جائے گی سر سے شعر خوانی آپ کی
دین اور ایمان کی دُم میں واہ نمدہ دے دیا
سارے عالم کی زباں پر ہے کہانی آپ کی
آفتابِ صدق کی گرمی سے گھبرائو نہیں
حضرتِ شیطاں کریں گے سائبانی آپ کی
اشتہار آخری اک آنت ہے شیطان کی
سر بسر جس سے عیاں ہے خوش بیانی آپ کی
وہ مثل ہے طویلے کی بلا بندر کے سر
ہو گیا ہم کویقین شامت ہے آنی آپ کی
خر گمہاروں کا مُوا دھو بن ستی ہوتی ہے مفت
ہے مگر قومِ انصارئے یارجانی آپ کی
رانڈ کی چرغے کی صورت کیوں چلے جاتے ہیں آپ
اہل عالم نے سبھی کو بکواس جانی آپ کی
نیلے پیلے یوں نہ ہو پھر کیا کرو گے اس گھڑی
جب نبر لیو سے گا قہرِ آحانی آپ کی
بات رہ جاتی ہے دنیا میں نہیں رہتا وقت
آپ کو نادم کرے گی بد زبانی آپ کی
قوم عیسائی کے بھائی بن گئے پگڑی بدل
واہ کیا اسلام پر ہے مہربانی آپ کی
الراقم شیخ محمد اقبال- ایف اے کلاس مسکاچ مشن سکول سیالکوٹ
( آئینہ حق نما صفحہ ۱۰۷ شائع شدہ ستمبر ۱۹۱۲ء
اقبال، قومی شاعر یا زبردستی کا ھیرو؟؟؟؟
سر اقبال، جنہیں پاکستان میں علامہ اقبال کہا جاتا ھے، انکی شاعری اور انکے نثری خیالات کے حوالے سے پاکستان میں کافی گفتگو ھوتی ھے،اور اس گفتگو کو جاری رکھنے کے لئے اقبال اکیڈمی کا قیام حکومت عمل میں لائی،
اقبال اکیڈمی نے حکومت کی منشا اور ارادے کے تحت اقبال کی زندگی ، حالاتِ زندگی ، شاعری اور نثری بیانات و تقاریر کی روشنی میں سر محمد اقبال (علامہ اقبال) کی کُل شخصیت کے خدوخال ایسے بنائے یا بنانے کے لئے معاون معلومات و واقعات و تحاریر کو پیش کیا جن کے ذریعے سر اقبال ایک نہایت متقی،مومن، بزرگ،دانشمند، فلسفی، شاعر، ادیب،انقلابی اور جینیوئن ھیرو ثابت ھوسکیں۔
جہاں جہاں ایسے واقعات، تحاریر، شاعری ، نثریات و شواھدات ایسے مِلیں جو اوپر بیان کردہ تخلصات و تعاریف کے مخالف کچھ مواد ملے اُسے یا تو چھپا دیا جائے یا تبدیل کیا جائے یا اُس کے خلاف بظاھر دانشمند لکھاریوں سے کچھ کہلوایا جائے تاکہ ایک قومی یا ریاستی ھیرو کے تصوراتی خاکے میں کوئی کجی یا کمی نہ معلوم ھو۔
اس ارادی سہوِ نظر نے ایسے مواد کو نظر انداز کرنے اور کروانے کا حق ایسا ادا کیا کہ بیچارے سر محمد اقبال کو علامہ اقبال رحمہ اللہ بنا کر پیش کرنے میں مکمل کامیابی ھوئی۔۔
نوجوان تو کیا 60 سال تک کے پیٹے کے لوگ بھی اس گمراھی میں صراطِ مستقیم ڈھونڈنے کی کوشش میں مگن رھے۔
مثلاً مندرجہ ذیل پیراگراف کا نتیجہ ایک مکمل دلیل ھے لیکن یہ اقبال اکیڈمی کے ڈسے معصوم لوگوں کے اُس خیال یا عقیدے کو توڑ پھوڑ دے گا جو انہیں زبردستی فوجی مزاج لوگوں کے رٹایا ھوا ھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
” صوبے کے قیام کا مقصد اقبال کے نزدیک یہ ہے کہ اس طرح اس دستوری ڈیڈ لاک سے نکلنے کا راستہ نکل آئے گا۔ چنانچہ کہتے ہیں: ”صوبوں کی مناسب تقسیم سے مخلوط اور جداگانہ انتخاب کا مسئلہ ہندوستان کے آئین کے بارے میں نزاع کو خود بخود ختم کر دے گا۔ اس نزاع کا باعث بڑی حد تک صوبوں کی موجودہ تقسیم ہے…. اگر صوبوں کی تقسیم اس طور پرہو جائے کہ ہر صوبے میں کم و بیش ایسے گروہ بستے ہوں جن میں لسانی، نسلی، تمدنی، اور مذہبی اتحاد پایا جاتا ہو تو مسلمانوں کو علاقہ وارانہ انتخاب پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا“۔
اس بات سے اقبالیات کے بڑے بڑے ماہرین کے اس دعوی کی تردید ہو جاتی ہے کہ اقبال زندگی کے کسی بھی مرحلے پر جداگانہ انتخاب سے دست برداری پر آمادہ نہیں ہوئے تھے۔ اقبال کی اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں کہ جداگانہ انتخاب مذہبی نہیں سیاسی مسئلہ تھا۔””””
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں کہیں کسی حق گو نے سچائی کا رستہ پکڑا اور مظلوم سر اقبال کو ایک مجبور انسان کی صورت میں پیش کیا اور انکے ذاتی و خانگی و شعری و فلسفیانہ خیالات کی اصل ماخذات کی جانب توجہ دلائی وھاں وُہ حق گولکھاری و تحقیق کار، کافر، غدار، حاسد ، کہلائے۔۔
جبکہ سر اقبال ایک نہایت اعلی درجے کے شاعر، ترجمہ کار شاعر، ترجمہ کار فلسفی ، جسمانی و شہوانی حسن سے مرعوب ، مالی غربت و وقتی فوائد کے متلاشی ھماری ھی طرح کے انسان تھے۔ جن کی شخصیت و شاعری میں ھندوستان کے غریب الوطن و غریب الذھن لوگوں نے خیالی عافیت و تلذّذ پایا۔
عوام الناس، جنکے لئے قرآن میں بھی ایک الگ گروپ یا کیٹیگری بنی گائی ھے۔۔ یعنی کہیں ایمان لانے والوں سے خطاب ھے تو کہیں، مومنوں سے تو کہیں کُل عوام الناس سے خطاب کی آیات بنائی گئیں ھیں۔ تاکہ عوام کے بارے میں یہ حقیقت سمجھ آتی رھے کہ عوام الناس ھمیشہ بھیڑ چال کی طرح چال چلتے ھیں یعنی بےتحقیق جس جانب مجمع چلے اس جانب چل پڑتے ھیں۔
بالکل اسی طرح پاکستانی ریاست میں پچھلے ستّر سالوں میں اقبال کے بارے اس عوام الناسی بھیڑ چال کے سفر میں سر شیخ محمد اقبال پر نہایت ظلم ھُوا کہ اِس موسیقی کی سمجھ اور حُسن و رقص کے بہترین شائق کو ، مذھبی مولوی ذھن شاعر متعارف کروایا گیا۔ جو قرآن ھاتھ میں پکڑے روتا رھتا تھا۔ اس مقصد کے لئے جعلی تصاویر بنائی گئیں جن میں سر شیخ محمد اقبال کے ھاتھ قرآن ھے اور وہ تدبّر فرمارھا ھے۔۔ایسی کوئی اصلی تصویر نہ ھے نہ ھونی چاھئیے کیونکہ حقیقت سے اسکا کوئی تعلق ھی نہیں ھے۔
سر اقبال ، بالکل ھماری طرح ایک دل پھینک حُسن پرست شاعر تھے اور عملی زندگی میں سُست الوجود ھونے کے ساتھ ساتھ حقّے کی عادتِ غیر سُنت کے ایسے عادی تھے کہ تمام عُمر حّقے کی عادتِ قبیحہ و غیر مُسنون (یعنی جو محمدﷺ نہ کبھی نہ اختیار کی) ترک نہ کی، جو مذھبی مومن اور اھلِ سنت ھونے کے الزام کیخلاف ثبوت ھے۔
تاھم اپنی ذاتی زندگی سے باھر انکے خانگی معاملات اور شعری و فلسفیانہ اکستاب پر ھم گفتگو کرتے رھیں گے۔ جن میں انکی کثرتِ ازدواج کی ناکامی، پہلی باشرع بیوی سے علیحدگی، پہلی اولاد بیٹے اور بیٹی سے علیحدگی ، اور انگریزی و پشتو ،
و سنسکرت شُعرا کے خیالات و نظم سے اکتباسات و ترجمہ کاری شامل ھے۔۔
سب سے پہلے اس خیال یا ارادے کی جانب دیکھتے ھیں جس کے ذریعے بیچارے اقبال کو معاملہِ پدری میں حق پر اور انکے ھی بڑے بیٹے کو بُرا ثابت کرنے کی مسلسل کو نظر آتی ھے۔۔ اور یاد کرھین اس سے پہلے آپ نے کبھی اس زاوئیے سے کسی کی کوئی تحریر نہ پڑھی ھوگی۔ دیکھئے۔۔۔
پروفیسر ڈآکٹر رفیع الدین ھاشمی لکھتے ھیں :
اقبل کی بیوی سردار بیگم اتنی نیک تھیں کہ جب اقبال کے بڑے (سوتیلے )فرزند نے اقبال سے کسی ضرورت پر رقم کا مطالبہ کیا تو اقبال نے اناکر دیا مگر سردار بیگم نے وہ اپنا کوئی زیور بیچ کر بیٹے کو پیسے دئیے۔۔
آفتاب اقبال جو کہ اقبال کے پہلے بیٹے تھے انہوں نے دوران تعلیم ضرورت پڑنے پر سر اکبر سے 190 پونڈ مانگے تاکہ تعلیم جاری رکھیں۔۔اور سر اکبر نے اقبال سے کہا کہ اپنے بیٹے کو خرچہ دیں۔۔تو اقبال نے انکار کی وجاھت بتائیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس پیرا گراف سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ھے۔۔کہ
ایک تو اقبال کی بیگم بہت نیک رحم دل تھیں۔ سوتیلے بیٹے کی مدد کی، جو اچھی بات معلوم ھوتی ھے۔
دوسری یہ بات کہ اقبال ، اپنے بیٹے کی مالی مدد نہ کرنے کے معاملے میں حق بجانب تھے۔ یعنی ملّت کا پاسباں ، مسلمان اُمّت کا بڑا فلسفی شاعر اپنے ھی بیٹے کی امداد سے مونہہ موڑتا ھے کیونکہ اپنی بیوی اور اس بیٹے کی ماں سے اقبال علیحدگی اختیار کر چکے ھیں۔ اور خود کو پابند نہیں سمجھتے کہ تعلیم کا خرچہ وہ اپنے بیٹے کو دیں۔(جبکہ اقبال خود تمام عُمر اپنے بڑے بھائی شیخ عطا سے مالی امداد لیتے تھے۔
یعنی۔۔ ڈاکٹر رفیع الدین ھاشمی سمیت سب اقبال نگار ھر معاملے پر اقبال کو راہ راست پر ثابت کرنے میں کوشاں رھے، جبکہ مجھے سر اقبال کی اس ترکِ اولاد کی روش پر کافی اعتراضات ھیں۔)
سوال یہ ھے کہ اقبال جب خود چار شادیاں کر چکے ، تو اپنے معاملاتِ خانگی کے لئے اپنے بڑے بھائی سے ھی کیوں تمام عمر رجوع کیا؟ اور اگر اس میں کوئی مضائقہ نہیں تو پھر اپنے ھی بڑے بیٹے کی امداد کرنے میں کیوں بخل سے کام لیتے رھے؟ کیوں اقبال کے دوسے بیٹے جاوید اقبال نے کبھی اپنے بڑے بھائی کو زندگی بھر نہ دیکھا؟ جبکہ جاوید اقبال لکھتے ھیں انہوں نے اپنے بڑے بھائی آفتاب اقبال لو پہلی بار اقبال کی موت کے وقت دیکھا جو اپنے باپ سر شیخ محمد اقبال کی لاش کے پاوں کی جانب بیٹھے تھے اور زار و قطار رو رھے تھے۔۔
خانگی ادوار کی جانب ھم بار بار اس لئے آئیں گے کہ بیچارے سر اقبال پر جو مومنانہ تہمتِ بزرگانہ لگائی گئی ھے اُس کو ھٹانے کی کوشش کی جائے اور سر اقبال کو علامہ نہین سَر اقبال ھی کہا اور لکھا جائے کیونکہ آنجناب نے سِر کے خطاب کو ھرگز ھرگز واپس کرنے سے اُس وقت بھی انکار کردیا تھا جب تحریکِ موالات چلی تھی۔۔۔ اس تحریک میں انگریزی سرکار کے تمام انعامات و ایوارڈز کو احتجاجاً واپس کرنے کی مہم چلائی گئی تھی۔۔
اُس سے پہلے جلیانوالہ باغ کے قتال پر احتجاج کرتے ھوئے بنگالی شاعر ، نثر نگار و فلسفی رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنا سَر کا خطاب واپس کردیا تھا لیکن اقبال پنجابی ھونے کے باوجود اس روش پر چلنے سے انکاری رھے بلکہ مزید انعامات و اعزازات کی کوشش میں انہوں نے بار بار انگریز سرکار کی مدح میں قصیدے لکھے جو اس مضمون کے ساتھ تصویر شکل میں شامل کرتا جاوں گا۔۔
چونکہ اقبال نے اپنا سَِر کا خطاب انگریز کو واپس کرنے کا کبھی اعلان نہ کیا اس لئے ھمیں بھی اقبال سے یہ خطاب نہین چھیننا چاھئیے انہیں سَر اقبال کہنا چاھئیے۔۔علامہ کوئی ڈگری نہیں نہ انعام ھے۔۔۔اسے چھوڑ دینا چاھئیے۔۔
اقبال چونکہ ایک نہایت مذھبی گھرانے سے وابستہ تھے تو انکے والد اور بڑے بیٹے نے احمدیت کی کٹڑ اسلامی خصوصیات کو پسند کرتے ھوئے اسی کی جانب رجوع کیا اور انکے والد گرامی شیخ نُور محمد نے احمدیت قبول کی اور پھر انکے بیٹے بیٹے بھی مشرف بہ احمدیت (قادیانیت) ھوئے۔۔ اسی طرح بعد میں انکی تمام اولاد بھی احمدی ھی رھی اور اب بھی احمدی ھے۔
اقبال چونکہ ذاتی طور پر ھرگز ویسے سخت مذھبی نہ تھے جیسے کہ اقبال اکیڈمی نامی نام نہاد ادارے نے بنا کر پاکستان میں انکو پیش کیا ھے۔۔اس لئے وہ جماعت احمدیہ کے بارے میں کبھی کبھار اچھے تعاریف بھرے کلمات کہتے رھتے تھے۔۔مثلاً اقبال نے
۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایک تقریر میں یوں اظہار خیال کیا’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں‘‘۔
اس سے معلوم ھوتا ھے کہ بلا شبہ مرزا غلام احمد صاحب نے 1901 میں ظلّی نبی اور مجدد اور مہدی ھونے کا جو دعوی کیا تھا وہ اقبال کو اپنے والد بڑے بھائی اور جماعت احمدیہ کے ذریعے اچھی طرح معلوم تھا۔
سر اقبال کو معلوم تھا کہ جماعت احمدیہ کس مذھب پر قائم ھے اور کیسے جماعت عمل پیرا ھے۔ کیسے انکے والد اور انکے بڑے بھائی جنکے وظیفوں اور مالی امداد سے اقبال نے زندگی گزاری ،احمدیہ جماعت کو ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ جانتے ھیں۔ اور اقبال کو تیس سال تک جماعت پر کوئی اعترآض نہ ھُوا۔۔
جب انکے بڑے بھائی ، والد کا انقتال ھوچکا تو اقبال کو اپنی سوچ وقتی ضروریات کے تحت بدلنے میں دیر نہ لگی اور اپنے والد کے عقیدے سے اور بڑے بھائی کے قیدے سے ھٹ گئے۔۔
خواجہ نذیر احمد دیتے ہیں ’’1931ء میں مرزابشیرالدین محمود سے اختلاف پیدا ہونے کے بعد جب ڈاکٹر اقبال نے احمدیوں کے خلاف کتاب لکھی تو میرے والد خواجہ کمال الدین نے اس سے پوچھا کہ ’’اویار تیری بیعت دا کی ہویا‘‘۔ اس پر علامہ کا جواب یہ تھا کہ ’’اوہ ویلا ہور سی ایہہ ویلا ہور اے‘‘
علامہ اقبال نے مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت کے تقریباً 33 سال بعد ایک طویل مضمون میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ یہ جولائی 1934ء کا ذکر ہے جب وزیر ہند لارڈ زئلینڈ نے سر ظفر اللہ خان (پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ) کی کارکردگی سے متاثر ہو کر انہیں سر فضل حسین کی جگہ وائسرے کی ایگزیکٹو کونسل کی مستقل رکنیت کی پیشکش کی۔
۔۔۔۔۔۔
چونکہ اقبال خود اس نشست کے امیدوار تھے لہذا معترضین کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ اس موقع پر قادیانیوں کی مخالفت مذہبی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی مفاد کی وجہ سے تھی۔ اور اس مضمون کا مطلب یہی نکلتا تھا کہ ظفر اللہ خان مسلمانوں کا نمائندہ نہیں ہے۔ (حوالہ کے لئے ’’مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقاء۔ ص 272-73)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال سے سے بہت پہلے نوجوانی میں قادیانی یا احمدی جماعت کے بانی مرزا غلام احمد کے حق میں نظم لکھ اور پڑھ چکے تھے۔۔۔
یاد رھے کہ۔۔ مرزا غلام احمد نے جب سیالکوٹ کا دورہ کیا تھا اُس دوران انکے مذھبی مخالفین نے بھی خوب ھرزہ سرائی کی جس کے جواب میں جماعت کے حق میں اور مرزا غلام احمد کے حق میں اور مخالف مُلاں مولوی سعد اللہ سعدی کے خلاف نام لیکر اقبال نے جو نظم لکھی وہ یہاں حوالے کے لئے پیش ھے۔۔ جو کہ اقبال اکیڈمی نے چھپا رکھی ھے۔ تاکہ کہیں اقبال کے والدین ، بھائی اور باقی خاندان کی احمدیت ظاھر نہ ھو جائے۔۔۔
لدھیانہ کےمولوی سعد اللہ سعدی صاحب نے کی زھر فشانیاں جناب سَراقبال کی طبیعت پر گراں گزریں تو آپ نے20 اشعار پر مبنی ایک نظم لکھ دی جسے 1912 میں شیخ یعقوب علی صاحبؓ مرحوم نے اپنی کتاب آئینہ حق نما میں شائع کر کے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا ہے- وہ پوری نظم پیش ہے
واہ رے سعدیؔ دیکھ لی گندہ دہانی آپ کی
خوب ہو گی مہتروں میں قدر دانی آپ کی
بیت ساری آپ کی بیت الخلا سے کم نہیں
ہے پسندِ خاکروباں شعر خوانی آپ کی
تیلیاں جاروب کی لیتے وہ خامہ کے عوض
کھینچتے تصویر گر بہزاد و دمانی آپ کی
ان دنوں کو فصلِ گُل کہیئے کہ فصلِ بھول چُوک
ہر طرف ہوتی ہے سعدی گلفشانی آپ کی
آپ کے اشعار ہوتی ہیں مگر ی کے بغیر
کوشِ عالَم تک یہ پہنچے ہیں زبانی آپ کے
گوہر بے راء جھڑے ہیں آپ کے مُنہ سے سبھی
جان سے تنگ آ گئی ہے مہترانی آپ کی
ہر طرف سے آ رہی ہے یوں دُر دُر کی صدا
بھا گئی اہلِ سخن کو دُر نشانی آپ کی
آپ سے بڑھ کر عروضی کوئی دنیا میں نہیں
واہ صاحب شعر خوانی شعر دانی آپ کی
خاک کو ہم چاٹ کر یہ بات کہہ دیتے ہیں آج
تلخ کامی ہو گی یہ شیریں دہانی آپ کی
جب ادھر سے بھی پڑیں گے آپ کو صابن کے مول
آپ پر کھُل جائے گی رنگیں بیانی آپ کی
کھائو گے فرمائشی سر پلپلا ہو جائے گا
پھر نکل جائے گی سر سے شعر خوانی آپ کی
دین اور ایمان کی دُم میں واہ نمدہ دے دیا
سارے عالم کی زباں پر ہے کہانی آپ کی
آفتابِ صدق کی گرمی سے گھبرائو نہیں
حضرتِ شیطاں کریں گے سائبانی آپ کی
اشتہارِ آخری اک آنت ہے شیطان کی
سر بسر جس سے عیاں ہے خوش بیانی آپ کی
وہ مثل یعنی طویلے کی بلا بندر کے سر
ہو گیا ہم کویقین شامت ہے آنی آپ کی
خر گمہاروں کا مُوا دھو بن ستی ہوتی ہے مفت
ہے مگر قومِ انصارے یارجانی آپ کی
رانڈ کے چرغے کی صورت کیوں چلے جاتے ہیں آپ
اہل عالم نے یہ سب بکواس جانی آپ کی
نیلے پیلے یوں نہ ہو پھر کیا کرو گے اس گھڑی
جب خبر لیوے گا قہرِ آسمانی آپ کی
بات رہ جاتی ہے دنیا میں نہیں رہتا ھے وقت
آپ کو نادم کرے گی بد زبانی آپ کی
قوم عیسائی کے بھائی بن گئے پگڑی بدل
واہ کیا اسلام پر ہے مہربانی آپ کی
الراقم شیخ محمد اقبال- ایف اے کلاس مسکاچ مشن سکول سیالکوٹ
( آئینہ حق نما صفحہ ۱۰۷ شائع شدہ ستمبر ۱۹۱۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مندرجہ بالا نطم سے صاف اور بالصاف ظاھر ھے کہ سر اقبال ، اپنے خاندانی عقیدے کے ماتحت ایف اے کی عُمر میں مرزا غلام احمد قادیانی کو سچ پر سمجھتے تھے ۔۔اس بارے ھرگز کوئی اور خیال مکمل رد متصور ھوگا۔۔ جتنی دلیں چاھیں دیجاویں یہ عیاں ھے کہ سر اقبال ایف اے کی عمر میں یونہی احمدیت اور بانی احمدیت کی تعریف نہ کرتے جبتک یہ خیال و عقیدہ انکے والدین میں رائج نہ ھوتا۔کیونکہ اس نظم میں مولوی سعد اللہ سعدی کی اُس اشتہاری مہم کے خلاف اشعار موجود ھیں جن میں مرزا غلام احمد کے خلاف مواد شائع ھوا تھا۔
یہ نظم ایک حتمی دلیل ھے کہ اقبال کے والدین ، نے مرزا صاحب کے ھاتھ پر بیعت کی تھی۔ اور اسی لئے انکے بڑے بیٹے علی الاعلان جماعت احمدیہ سے جُڑے رھے۔۔اور انکی اولاد بھی اسی طرح عمل پیرا رھی ۔۔ اب اقبال کب جماعت سے علیحدہ ھوئے؟ تیس سال کے بعد انہیں کیسے اپنا نظریہ بدلنا پڑا؟ یا ان میں یہ جرات کیسے پیدا ھوئی کہ اپنے باپ اور بڑے بھائی کے مذھبی عقیدے کے خلاد زبان درازی فرمائین؟ یہ بحث ھم بعد مین کریں گے۔۔ اصل مقصد یہ ثابت کرنا ھے کہ اقبال جماعت سے متاثر تھے۔۔۔جماعت احمدیہ قادیانیہ کے حق میں لکھا۔۔اور چونکہ وہ شدید مذھبی سوچ نہین رکھتے تھے اس لئے اتنے باعمل احمدی یا قادیانی یا مسلمان نہیں تھے کہ مذھبی معاملات میں جماعت کے شانہ بشانہ چلتے رھتے۔۔ بالکہ وہ غیر احمدی مذھبی مجمعوں سے بھی زیادہ رغبت نہیں رکھتے تھے۔۔۔
سعید ابراھیم بحوالہ زاھد چوھدری لکھتے ھیں کہ
میڈیا سے ایک بات کا تواتر سے (پراپیگنڈے کی حد تک) ذکر کیا جاتا ہے کہ علامہ تصور پاکستان کے خالق تھے۔ اس بات کا جواب ہمیں علامہ کے اس خط سے باآسانی مل جاتا ہے جو انہوں نے 4 مارچ 1934ء کو ای جے تھامپسن کے نام لکھا جس میں انہوں نے شدت سے چودھری رحمت علی کی ’’پاکستان سکیم‘‘ سے لاتعلقی بلکہ برات کا اظہار کیا۔ لکھتے ہیں
مائی ڈیر مسٹر تھامپسن
مجھے اپنی کتاب پر آپ کا ریویو ابھی ابھی موصول ہوا ہے۔ یہ بہت عمدہ ہے اور میں ان باتوں کے لئے آپ کا بہت ممنون ہوں جو آپ نے اس میں میرے متعلق بیان کی ہیں۔ لیکن آپ نے ایک غلطی کی ہے جس کی میں فوری نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ یہ ایک فاش غلطی ہے۔ آپ نے میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس سکیم کا حامی ہوں جسے ’’پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے
جبکہ پاکستان میری سکیم نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جو تجویز پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبہ کے بارے میں تھی جو شمالی مغربی ہندوستان کے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری سکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کاحصہ ہوگا۔ پاکستان سکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے جو ایک علیحدہ ڈومینین کی حیثیت سے انگلستان کے ساتھ براہ راست تعلق رکھے گی۔ اس سکیم نے کیمبرج میں جنم لیا ہے۔ اس سکیم کے مصنفین کا خیال ہے کہ ہم جو گول میز کانفرنس کے مندوبین ہیں‘ ہم نے مسلم قوم کو ہندوؤں یا نام نہاد انڈین نیشنلزم کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
خیراندیش محمد اقبال
(پاکستان کی سیاسی تاریخ جلد۵، مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقا، زاہد چوہدری، صفحہ 418,261 )
دلچسپ بات یہ ہے کہ علامہ پاکستان سکیم کی مخالفت 1934ء میں کر رہے ہیں اور وہ بھی انتہائی شدت سے جبکہ ان وہ مشہور و معروف خطبہ الہٰ باد جس سے تصور پاکستان اخذ کیا جاتا ہے وہ انہوں نے اُنیس سو تیس میں یعنی 4 سال پہلے دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اقبال کی اس سوچ پر بات کی جائے جو حمہ وقت موقع کی مناسبت سے یا انکے کُل علم کی بنیاد پر بدلتی رھتی تھی۔۔
اقبال اور محمد علی جناح کے بارے میں پاکستان میں یہ گمراہ کُن تاثر دیا جاتا ھے کہ دونوں ، ایک الگ ملک بنانے والے رھنما ھیں۔ ان دونوں کی فکری اور سیاسی جدو جہد سے پاکستان بنا جو ایک ھنسانے والی گمراہ کن بات ھے۔۔
پاکستان کے اقبالیات کے شعبے کے ڈسے شہری اس متذکرہ صورتِ حال کو برداشت کرنے سُننے سے شدید کرب و طیش میں مبتلا ھونگے کہ اقبال نے جناح کا اپنی نظموں میں مزاق اُڑایا۔۔۔ اور اسی طرح اقبال کا مزاق ظفر علیخانہ سمیت بیشتر شعرا و مفکرین نے اُڑایا۔۔۔ بدلتی صورتِ حال میں مسلمانوں کے نمائندگان نے ھندوستان میں ایک دوسرے کے خیالات اور سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے دشمنی کی اور تکفیر و منافق و غدار کے نعرے لگائے۔۔۔ جنکی زد مین جناح بھی آئے اقبال بھی ۔۔اور مرزا غلام احمد قادیانی بھی۔۔۔!
مثلاً مکاتیب اقبال میں سے ایک مختصر بیان پڑھئیے۔
: مَیں جنگ کا حامی نہیں نہ کوئی مسلمان ھو سکتا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دین کی اشاعت کے لئے بھی تلوار اٹھانا حرام ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(مکاتیب اقبال حصہ اول ۔۔۔صفحہ 203 اور 204
)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ ایماندارانہ طور پر بتائیں کہ آپ کوسَِر شیخ محمد اقبال کیسے سمجھ آئے ھیں؟؟؟ انکی نثر سے َ؟ انکے خطبات سے ؟ انکے خطوط سے؟ یا انکے اشعار سے ؟ یا پاکستانی اقبالیاتی اکیڈمی کی جعلی یکطرفہ تصویر سے جس میں وہ قرآن اُٹھائے بیٹھے ھیں ؟؟؟؟
سچ تو یہ ھےکہ جب کسی کو مسلسل جھوٹ کئی پشتوں تک پڑھا دیا جائے تو اُسے یہ سچ لگنے لگتا ھے۔۔۔ اگر اسے سچ ھی لگنے دیا جائے تو اس کے مضمرات و نقصانات کا اندازہ لگانا بہت آسان ھے ۔۔ایسا کرنے سے ایک ریاست جنم لیتی ھے جو اپنی ھی شناخت سے محروم ھوتی ھے اُسے یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ عرب ھے؟ کہ فارسی؟ کہ ھندی، کہ پنجابی کہ چینی کہ مسلمان کہ تُرکش۔۔۔۔! یعنی
چین و عرب ھمارا، ھندوستاں ھمارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی لئے حکمرانوں کے بیانات مین کبھی آسٹریلیہ کے نظام کو سراھا جاتا ھے کبھی چین کی حکمرانی کو۔۔کبھی افسانوی ماضی کی ریاستِ مدینہ کا ذکر کیا جاتا ھے۔۔اور کبھی عربی فارسی کو ھندی سے پرے ھٹا کر ایک ختنہ شُدہ زبان اردو کو پیش کیا جاتا ھے جس کے درست تلفظ سے 90 فیصد پڑھے لکھے پنجابی بھی عاری ھوتے ھیں۔۔ کیا آُپکو اپنے گرد معاشرے اور میڈیا میں اوپر کے تجزئیے کی زندہ امثال روز جا بجا نظر نہیں آتیں؟ کیا عام الفاظ خودکُشی کو خود کَشی۔۔۔یعنی کاف پر زبر کے ساتھ بولنے والوں کی کثرت معلوم نہیں؟
جب کسی ریاست میں ریاستی ادارے ، ماضی کے اپنے ھی خطے پر حملہ آور جنگجووں کو اپنے ھیرو بنادے اور اپنی اولادوں کے نام ، محمد بن قاسم ، طارق بن زیاد، نادر شاہ، محمود غزنوی رکھنا شروع کردے تو معاشرہ نفسیاتی ، شناختی، جنسی، گُھٹن کا شکار ھو جاتا ھے ۔۔جیسے کہ اب پاکستان میں آئے روز ایسے معاملات خبروں میں ھمارے سامنے آتے جا رھے ھیں
واپس اقبال اور جناح کی جانب چلتے ھیں، سَراقبال چونکہ انگریز کے زیر تسلط ھی کسی کنفیڈریش کے حامی تھے اس لئے وہ کسی ایسی سوچ کے ساتھ نہ تھے جس میں انگریز کا سایہ شامل نہ ھو۔ اس حوالے سے انکا جناح کے اختلاف تھا۔۔ اسی لئے اقبال نے محمد علی جناح کے خلاف نظمیہ نفرت کا اظہار بھی کیا۔ نہصرف جناح بلکہ دوسرے مسلمان رھنماوں کے خلاف بھی اقبال نے نظمیں لکھیں
ڈاکٹر صابر کلورُوی لکھتے ہیں کہ ” ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر ایک دوست کی فرمائش پر نظم لکھی، اور گورنر پنجاب مائیکل اڈوائر کی فرمائش پر بھی“ پنجاب کا خواب ”کے عنوان سے ایک نظم لکھی“ مگر انہیں کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں کیا اور اس جیسی کچھ نظمیں اور اشعار وہ تھے جو علامہ اقبال نے کسی خاص موضوع و شخصیت پر لکھے ضرور مگر معاملے کی حقیقت پتہ لگنے اور دوستوں کے مشوررے پر اپنی زندگی میں ہی ترک کردیے۔
ڈاکٹر محمد اقبال کی پہلی تصنیف اسرار خودی 1916 میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں صوفیاء کرام اور حافظ شیرازی پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ صوفیا کرام پر جو تنقید کی گئی تھی اس کا جواب خواجہ حسن نظامی نے اپنے رسالہ ”ماہنامہ نظام الشیخ“ میں صراحت کے ساتھ دیا۔ جس کا جواب علامہ اقبال نے ”اخبار وکیل امرتسر“ میں دیا۔ اس طرح خواجہ حسن نظامی اور علامہ اقبال میں جواب در جواب کا سلسلہ ایک عرصہ تک چلتا رہا۔
جبکہ حافظ شیرازی پر جو تنقید کی گئی تھی اس پر علامہ اقبال کو ہند اور بیرون ہند سے سینکڑوں خطوط مصول ہوئے۔ کیونکہ اسرار خودی میں اقبال نے ایک دو نہیں بلکہ پینتیس عدد اشعار میں حافظ شیرازی پر سخت طنز اور تنقید کی تھی جنہیں بعد میں دوست احباب کے مشورے پر ترک کردیا۔ اس کے چند اشعار یہ ہیں
ہوشیار از حافظ صہبا گسار
جامش از زہر اجل سرمایہ دار
رہن ساقی خرقہ پرہیزاو
مے علاجِ ہولِ رسرا خیزاو
محفل او در خورِ ابرار نیست
ساغرِ او قابل احرارِ نیست
بے نیاز از محفل حافظ گزر
الحذر از گو سفنداں الحذر
اسی طرح تین فروری 1938 کو مسلم اخبارات (زمیندار، احسان اور انقلاب) نے علامہ اقبال کے مولانا سید حسین احمد مدنی کے خلاف یہ اشعار شائع کیے
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حُسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر سرِ ممبر کہ مِلّت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمدِؐ عربی است
بہ مصطفیٰؐ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است
ان اشعار میں آزادی برصغیر کے عظیم راہمناء پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ اس کا جواب جناب احمد سہیل نے سید حسین احمد مدنی کے حق میں طویل فارسی نظم لکھ کر دیا اور اس سے اسلامیان ہند میں نہ صرف قلمی بحث چھڑ گئی بلکہ بات تکرار تک بھی آن پہنچی اور مسلمان دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایسے موقع پر مولانا عبدالرشید نسیم (علامہ طالوت) آگے بڑھے اور علامہ اقبال اور سید حسین احمد مدنی سے طویل خط و کتابت کے بعد ان کی غلط فہمیاں دور کیں۔
علامہ اقبال نے اختلافات و غلط فہمیاں دور ہونے کے بعد اپنا تردیدی بیان شائع کیا جو ”روزنامہ احسان“ میں 28 مارچ 1938 کو شائع ہوا۔ مگر بدقسمتی سے ارمغان حجاز علامہ اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوئی جس میں اس کلام کو باقی رکھا گیا اور اب تک یہ کلام کتاب میں موجود ہے اور وجہ اختلاف بنتا ہے
ایسے ہی کچھ طنزیہ اشعار علامہ اقبال نے محمد علی جناح صاحب کے بارے میں بھی کہے تھے اور یہ اس زمانے کی بات ہے جب جناح صاحب ”قائد اعظم“ کے رتبے پر فائز نہیں ہوئے تھے۔
۔ پھر اقبال جیسی شخصیت نے اگر کسی زمانے میں جناح صاحب جیسے قائد کے بارے میں کچھ لکھا تو یہ دو قد آور شخصیات کا نقطہ نظر کا اختلاف تھا۔ اور یہ اختلاف ایک سے زیادہ مواقع پر ہوا جیسے مسلم لیگ میں دھڑے بندی کے وقت علامہ اقبال نے جناح صاحب بجائے لیگ کے شفیع گروپ کی حمایت کی۔ اور سب سے بڑھ کر جناح و اقبال دونوں ہی بشر تھے اور پیغمبروں کے سوا کوئی بشر بھی معصوم عن الخطا نہیں۔
چناچہ 9 نومبر 1921 کو روزنامہ زمیندار میں جناح صاحب کے طرز سیاست پر علامہ اقبال کی طنزیہ نظم ”صدائے لیگ“ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ جو درجہ ذیل اشعار پر مشتمل تھی
صدائے لیگ
لندن کے چرخ نادرہ فن سے پہاڑ پر
اترے مسیح بن کرمحمد علی جناح
نکلے گی تن سے تو کہ کرے گی تباہ ہمیں
اے جان برلب آمدہ اب تیری کیا صلاح
دل سے خیال دشت و بیاباں نکال دے
مجنوں کے واسطے ہے یہی جادہ فلاح
آغا امام اور محمد علی ہے باب
اس دین میں ہے ترک سوادِ حرم مباح
بَشریٰ لکم کہ منتظر مارسیدہ ہست
یعنی حجابِ غیرتِ کبریٰ دریدہ ہست
(روزنامہ زمیندار 9 نومبر 1921 )
نظم کی تشریح:
ان اشعار کا معنی و تشریح تو کوئی اقبال شناس ہی بہتر انداز میں کرسکتا ہے مگر میرے ناقص علم کے مطابق اس کی تشریح کچھ یوں بنتی ہے
پہلے شعر میں اقبال نے جناح صاحب کو طنز کرتے ہوئے مسیح (ع) سے تشبیہ دی کے کہ جناح صاحب خود ساختہ مسیح کی مانند لندن سے (بغیر کسی بشارت کہ) اچانک ہم پر نازل ہوئے ہیں
دوسرے شعر میں اقبال کا مطلب یہ ہے کہ تم ہمیں یعنی ملت کو تباہ کرنے کے واسطے آئے ہو کہ اس وقت کم و پیش تمام مسلمان تحریک خلافت کے پلیٹ فارم پر متحد تھے اور جناح صاحب کا لیگ کو دوبارہ زندہ کرنا اقبال کی نظر میں فتنہ و تقسیم کا موجب تھا۔
تیسرے شعر میں علامہ اقبال نے جناح صاحب کو بھٹکے ہوئے مجنوں سے تشبیہ دی ہے کہ مجنوں لیلا کے عشق کے جنون میں مبتلا ہوکر دشت میں بھٹکتا رہتا تھا اور اس کی زندگی سعی لاحاصل تھی۔ اقبال نے جناح صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے دل سے خیال دشت و بیاباں نکال دے یعنی لیگ کو جو دوبارہ زندہ کرنے کا عزم کیا ہے اسے ختم کردیں۔
چوتھے شعر میں علامہ اقبال نے آغا خان اور جناح صاحب پر شدید طنز کرتے ہوئے ذومعنی بات کی ہے۔ اقبال جناح صاحب کو اپنے مرکز سے نہ ہٹنے کی تلقین کرتے ییں اور جناح صاحب کو محمد علی باب جبکہ آغا خان کو ان کے مسلک کے امام سے سے تشبیہ دی ہے۔ محمد علی باب ایران کا اسماعیلی فرقے کی ایک ذیلی شاخ کا مبلغ تھا اور اس نے دعویٰ مہدویت کیا تھا۔ جسے بعدازاں شاہ ایران ناصر الدین قاچار کے حکم سے تبریز شہر کے چوراہے میں گولی مار کر اس کی نعش شہر سے باہر پھینک دی گئی تھی۔ اس کے پیروکار بابی کہلاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈآکٹر ساجد علی لکھتے ھیں۔ کہ اقبال کی شاعری کو احراری و دائیں بازو کے کٹڑ مسلمان لے اُڑے اور انکی اصلی فکر یعنی نثر و خطبہ جات کو بھی انکی رجائی شاعری کے تناظر میں دیکھنے لگے جبکہ اصل طریق تو انکی نثر و خطبات و خطوط کے ذریعے انکی شاعری کی تاویل تھی۔۔۔
یعنی پاکستانی ریاست اور ریاستی اقبالی اکیڈمی نے سر اقبال کو علامہ اقبال عربی بنا دیا۔۔۔ جو وہ کبھی نہیں تھے۔۔۔
ڈاکٹر ساجد علی لکھتے ھیں۔
۔علامہ اقبال کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد ان کی تشریح و تفسیر کا کام ان لوگوں نے سنبھال لیا جو قیام پاکستان سے قبل کانگرس اور احرار سے وابستہ تھے۔ انہوں نے اقبال کے چند مخصوص اشعار کا انتخاب کرکے ان کی نثری تحریروں کو یک سر نظر انداز کر دیا یا ان کی من مانی تاویلیں شروع کر دیں۔ بہت چالاکی سے کام لیتے ہوئے اقبال کی نثر کو اس کے شعر کے تابع کردیا۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ شعر کو علمی اور منطقی دلیل کی جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ رشید احمد صدیقی صاحب نے ایک مرتبہ قوم کی بدمذاقی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ دلیل کی جگہ شعر پڑھ کر ایسا سمجھتے ہیں کہ بڑا علمی کارنامہ سرانجام دے دیا ہے۔اگر علم اور خبر کی بات ہو گی تو نثر میں کہی ہوئی بات کو شعر پر ترجیح حاصل ہو گی۔
لفظوں کی معنوی تراش خراش کا ایک عبرت ناک مظہر اقبال کے خطبہ الہ آباد میں استعمال ہونے والی ایک ترکیب ہے۔ اقبال نے جہاں شمال مغربی ہندوستان کو ایک مربوط صوبہ بنانے کے لیے بہت سے سیاسی دلائل دیے ہیں اور کہا ہے کہ ہندوؤں کو اس سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے وہاں اس صوبے کے قیام کے حق میں ایک اور دلیل بھی دی ہے۔ فرماتے ہیں:
”میں صرف ہندوستان اور اسلام کے فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ اس سے ہندوستان کے اندر توازن قوت کی بدولت امن و امان قائم ہو جائے گا۔ اور اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو کر جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں، اس جمود کو توڑ ڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے صحیح معانی کی تجدید ہو سکے گی بلکہ وہ زمانہ حال کی روح سے بھی قریب تر ہو جائیں گے۔( خطبہ الہ آباد۔ اردو ترجمہ از سید نذیر نیازی)
اس میں سید نذیر نیازی صاحب نے ”عربی شہنشاہیت“ کی ترکیب اقبال کے الفاظ ”عرب امپیریل ازم“ کے ترجمے کے طور پر استعمال کی ہے۔ ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب نے بھی یہی ترکیب استعمال کی ہے مگر جب اقبال ”برٹش امپیریل ازم“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو ندیم شفیق ملک صاحب اس کا ترجمہ برطانوی سامراج کرتے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کے یہ دو متفاوت معنی کس طرح مراد لیے جا سکتے ہیں۔ اقبال نے جب ”عرب امپیریل ازم“ کے الفاظ استعمال کیے تو یقینا وہ ان کے مضمرات سے بھی واقف ہوں گے۔ اقبال نثر لکھ رہے تھے اس لیے شعر کی طرح وزن کی کوئی مجبوری حائل نہ ہو سکتی تھی۔ایسا بھی نہیں ہے کہ اقبال نے بے دھیانی میں یہ الفاظ استعمال کر لیے ہوں۔ اس خطبے سے کوئی ایک دہائی پیشتر وہ نکلسن کے نام اپنے خط میں مسلم تاریخ کے متعلق اپنے نقطہءنظر کو واشگاف انداز میں بیان کر چکے تھے:
”مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مسلمان بھی دوسری قوموں کی طرح جنگ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے فتوحات بھی کی ہیں۔ مجھے اس امر کابھی اعتراف ہے کہ ان کے بعض قافلہ سالار ذاتی خواہشات کو دین و مذہب کے لباس میں جلوہ گر کرتے رہے ہیں لیکن مجھے پوری طرح یقین ہے کہ کشور کشائی اور ملک گیری ابتداً اسلام کے مقاصد میں داخل نہیں تھی۔
’اسلام کو جہاںستانی اور کشورکشائی میں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے میرے نزدیک وہ اس کے مقاصد کے حق میں بے حد مضر تھی۔ اس طرح وہ اقتصادی اور جمہوری اصول نشو و نما نہ پا سکے جن کا ذکر قرآن کریم اور احادیث نبوی میں جا بجا آیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں نے عظیم الشان سلطنت قائم کر لی لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے سیاسی نصب العین پر غیر اسلامی رنگ چڑھ گیا اور انہوں نے اس حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں کہ اسلامی اصولوں کی گیرائی کا دائرہ کس قدر وسیع ہے۔“ (اردو ترجمہ از چراغ حسن حسرت)
مندرجہ بالا اقتباس یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ اقبال نے وہ لفظ خوب سوچ سمجھ کر استعمال کیا تھا مگر ہماری حساسیت اس لفظ اور اس کے مضمرات کو قبول کرنے سے انکاری ہے اور ترجمے میں اس کا دف مار دیا جاتا ہے۔ خود حسرت صاحب نے جن الفاظ کا یہ ترجمہ ”ان کے سیاسی نصب العین پرغیر اسلامی رنگ چڑھ گیا“ کیا ہے اصل میں یہ ہیں: they largely repaganized their political ideals
گویا اقبال یہ کہہ رہے ہیں کہ ملوکیت دور جاہلیت کی طرف رجعت کا نام ہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں خلافت کے نام پر جس ملوکیت نے رواج پایا تھا اقبال اس کے سخت خلاف تھے۔ خطبہ الہ آباد کے تقریبا سات برس بعد پنڈت نہرو کے جواب میں اقبال نے اتا ترک کے تنسیخ خلافت کے فیصلے کی ان الفاظ میں تائید کی تھی:
”کیا تنسیخ خلافت یا مذہب و سلطنت کی علیحدگی منافی اسلام ہے؟ اسلام اپنی اصلی روح کے لحاظ سے شہنشاہیت نہیں ہے۔ اس خلافت کی تنسیخ میں جو بنو امیہ کے زمانہ سے عملًا ایک سلطنت بن گئی تھی اسلام کی روح اتا ترک کے ذریعے کارفرما ہو رہی ہے۔ “ (ترجمہ میر حسن الدین)
خطبہ الہ آباد میں ایک اور لفظ کی تبدیلی بہت دوررس اثرات کی حامل ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے صرف دو جگہ اسلامک کا لفظ استعمال کیا ہے [[ Islamic principle of solidarity,Islamic solidarity
لیکن انہوں نے کسی جگہ سٹیٹ یا ریاست کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ مگر سید نذیر نیازی صاحب نے ترجمے میں جہاں بھی مسلم کا لفظ استعمال ہوا ہے اسے اسلامی سے ترجمہ کیا ہے۔ خطبہ میں ایک ذیلی عنوان ہے: [Muslim India within India ] نیازی صاحب نے اور ندیم ملک صاحب نے بھی اس کا ترجمہ کیا ہے ”ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان“۔ جہاں جہاں اقبال نے مسلم سٹیٹ یا سٹیٹس کا لفظ استعمال کیا ہے اسے نیازی صاحب نے اسلامی ریاست یا ریاستوں سے ہی ادا کیا ہے۔ یہی وہ مغالطہ آفرینی ہے جس نے تحریک پاکستان میں راہ پائی اور مسلمانوں کے سیاسی اور دستوری مطالبات کو اسلامی مطالبات بنا دیا۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں مذہبی مخالفین بالخصوص جماعت اسلامی کا یہی موقف تھا کہ مسلم لیگ کے مطالبات قومی مطالبات ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں مگر پاکستان کے وجود میں آنے بعد یہی لوگ تھے جنہوں نے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اس لیے اسے اسلامی ریاست بنایا جائے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ مسلم ریاست سے اسلامی ریاست کی طرف سفر خبط معنی کا نتیجہ ہے یا اس میں کچھ نیتوں کے فتور کو بھی دخل ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں یہ بات ایک سرکاری عقیدے کا درجہ حاصل کر چکی ہے کہ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔ ایک بار نظریہ پاکستان کے علم بردار اخبار کے ایڈیٹوریل میں یہ جملہ پڑھنے کا اتفاق ہوا کہ ”پاکستان علامہ اقبال کے تصور اور قائد اعظم کی جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہوا“۔ ایک بزرگ کالم نویس نے تو یہ لکھ کر حد ہی کر دی کہ قائد اعظم نے علامہ اقبال کے حکم پر پاکستان بنانے کی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ تاریخ میں ایسا شاید کوئی اور واقعہ نہ ہوا ہو جب ایک جماعت کا ایک صوبائی صدر مرکزی صدر کو حکم دے رہا ہو۔ خامہ بگوش کے الفاظ میں یہ تاریخ نویسی نہیں بلکہ ٹلہ نویسی ہے۔
علامہ اقبال کا خطبہ مطبوعہ صورت میں موجود ہے اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ اسی سے رجوع کیا جائے اور یہ سمجھنےکی کوشش کی جائے کہ وہ اس میں کیا ارشاد فرما رہے ہیں۔ مولوی حضرات ایک بات کا بہت کا ذکرکیا کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو لا تقربوا الصلوٰة پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں اور اس کو مفید مطلب حکم سمجھ لیتے ہیں۔ مولوی صاحبان کی بات کو تو شاید ایک لطیفہ سمجھا جائے مگر اقبال کے ساتھ تو واقعی یہ سلوک کیا گیا ہے کہ یار لوگ ایک جملہ پڑھ کر ہی فرط جذبات میں دھمال ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔پورے خطبے میں انہیں صرف یہ جملہ پسند آیا ہے:
میری خواہش ہے کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ ، سندھ اور بلوچستان کوملا کر ایک ریاست بنادیا جائے۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مربوط ہندوستانی مسلم ریاست ، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے، یا اس کے باہر،ہندوستان کے شمال مغربی مسلمانوں کا آخر کار مقدر ہے۔ (اردو ترجمہ از ڈاکٹر ندیم شفیق ملک۔ علامہ اقبال کا خطبہء الہٰ آباد 1930ئ۔ ص 111)
اس جملے سے دو اہم نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس میں اقبال نے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے جسے بعد میں پاکستان کا نام دیا گیا۔ دوسرا نتیجہ یہ نکالا گیا کہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں بنگال کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ چنانچہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد مغربی حصے کے دانشوروں نے دھڑا دھڑ اخباری مضامین لکھے تھے جن کا لب لباب یہ تھا کہ چونکہ اقبال نے بنگال کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا اور قرارداد لاہور میں بھی ریاستوں کا ذکر تھا اس لیے مشرقی پاکستان کو الگ کرکے اس تاریخی غلطی کو درست کر دیا گیا ہے۔
کیا اقبال کے اس خطبے سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کو تقسیم کرکے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پیش تر یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مندرجات کا سرسری سا جائزہ لے لیا جائے اور اس پس منظر پر بھی غور کر لیا جائے جو اس خطبے کا محرک بنا۔(ڈاکٹر ساجد علی)
اقبال کی فکر، نثر، خطبات اور شاعری کی روشنی میں ایک نہایت ھی مظلوم بیچارہ اقبال سامنے آتا ھے جس پر اسکے ھی بظاھر چاھنے والوں نے شدید ظلم کر کے اسکو صرف مقامی علاقائی اور مذھبی شاعر بنا کر پیش کردیا۔۔۔ جس کی شاعری فارسی میں طبع ھوکر کچھ لوگؤں کو ایران میں ملی اور باقی اس سے منسوب جھوٹے عقیدوں، اور خیالات کی روشنی میں ایک اچھے شاعر کو آسمانِ مذھب و ملت پر چڑھا کر مصلوب کردیا گیا۔ وہ جو رنگ وحسن کا حیرتی تھا۔۔۔جسے رقص و موسیقی سے رغبت تھی جو نسوانی حسن کے خیالی وجدانی تلذّذ کی تلاش میں عطیہ فیضی ، اور ایما کی محبت میں گرفتار تھا۔۔۔ جس کے خواب اُن حوالون سے پورے نہ ھوئے جس نے اپنی پہلی مذھبی بیوی میں عطیہ فیضی جیسی کُھلی لبرل نسوانی شخصیت نہ ملی،،،،جسے اسی تلاش میں مزید تین شادیاں کرنی پڑیں۔۔۔ جس سے دھوکہ کیا گیا اور دکھائی کوئی اور شادی کسی اور سے کردی گئی۔۔۔اور پھر جسے طلاق دی گئی۔۔۔اور پھر اسی سے رجوع بھی کرنا پڑا۔۔۔جس کے لئے اقبال کو قادیان سے فتوی منگوانا پڑا۔۔۔۔۔ جس کا پانا بڑا بیٹا اور بیٹی اس سے خرچے کے طالب ھوئے اور جس نے اپنی بیٹی کو کالج جانے سے روکا اور گھر میں اتالیق لگوایا کہ باھر جانا پردے کی بےحرمتی ھے۔۔۔ ایسی مذھبی و خاندانی کشمکش کے گرفتار کو ملتِ اسلامیہ کا شاعری بنا کر پیش کرنا بیچارے سر اقبال سے سراسر زیادتی ھے۔۔
کیونکہ اقبال کے بارے قائد اعظم کے دستِ راست اے ایچ اصفہانی کا بیان ھے کہ
”اس بات سے بلاشبہ انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر اقبال کا فکر، شاعری اور خطبات بھی اسی سمت میں اشارہ کرتے تھے (یعنی مسلم ریاست کے قیام کی طرف) لیکن یہ کہنا کہ وہ مسلم ریاست کے تصور کے خالق تھے، تاریخ کو مسخ کرنا ہے۔“ (زندہ رود، جلد سوم، ص 389)
اسی حوالے سے ڈآکٹر ساجد علی نے بہت اچھا لکھا کہ۔۔۔
،،،
مایوسی کے عالم میں مسلمانان ہند کو جناح کی صورت میں ایک ایسا لیڈر نظر آیا جو جدید زمانے کے تقاضوں کو خوب سمجھتا تھا، جو انگریزوں اور ہندووں کی چالوں کو سمجھنے اور ان کا توڑ کر نے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ دیانت و امانت میں بے مثال کردار کا مالک تھا کیونکہ اس سے قبل جو بھی قیادت تھی اس پر تحریک کے بعد چندے کھانے کا الزام عائد کیا جاتا تھا۔ جو مذہبی طبقہ کانگرس کے جارحانہ رویے سے دل برداشتہ ہوا اس کے لیے جناح کی قیادت کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا۔ تاہم وہ اس باب میں نفسیاتی الجھن کا شکار رہے اس لیے انہیں اپنے فیصلے کے جواز میں کبھی خوابوں کا سہارا لینا پڑتا تھا اور کبھی دیگر عذر تراشنے پڑتے تھے۔
خورشید ندیم اپنے آج ( 30 اپریل، 2016) کے کالم میں لکھتے ہیں:
\”اگر اہل مذہب کے ایک بڑے طبقے نے قائد اعظم کو اپنی سیاسی قیادت کے لیے منتخب کیا تو کیوں؟ اس کا جواب جماعت علی شاہ صاحب نے دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مسلمان قوم کو ایک مقدمہ درپیش ہے اور اسے ایک وکیل کی ضرورت ہے۔ وکیل میں یہ صفات ہونی چاہییں کہ وہ دیانت دار ہو اور اہل ہو۔ قائداعظم میں یہ دونوں خصوصیات موجود ہیں۔ “
پیر جماعت علی شاہ صاحب کا یہ جواب بہت معنی خیزہے اور زیادہ تر مذہبی طبقے کا شاید یہی رویہ تھا کہ ان کے نزدیک جناح کی حیثیت بس مقدمے کے وکیل کی تھی۔ یہ بات ہر ایک پر عیاں ہے کہ وکیل کا مال مقدمہ پر کوئی حق نہیں ہوتا۔ مقدمہ آپ نے جیت لیا اور وکیل کا کردار ختم ہو گیا۔ اب یہ مدعیان مقدمہ کا استحقاق ہے کہ وہ مال مقدمہ کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اسی بات میں اس سوال کا جواب مضمر ہے کہ تصور پاکستان کا خالق علامہ اقبال کو کیوں قرار دیا جا رہاہے۔ اقبال اگرچہ تمام عمر دین ملا کے خلاف نغمہ سنج رہا تاہم اس کی شاعری کا کچھ حصہ ایسا ہے جسے مولوی لوگ اپنے من پسند معنی پہنا سکتے ہیں اور پہنا رہے ہیں۔ اب یہ اس کی شاعرانہ عظمت کا کمال ہے کہ اس پر کفر کے فتوے لگانے والوں کا بھی اس کے اشعار پڑھے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔
اس ساری گفتگو کا ماحصل یہی ہے کہ اقبال کو تصور پاکستان کا خالق قرار دینے کے دعوے کی کوئی بنیاد نہیں۔ اس سارے افسانے کا اصل مقصد قائد اعظم کے کردار کو کم کرنا ہے اور ایسا کرنے کا سبب اقبال سے محبت نہیں بلکہ جناح سے بغض ہے۔اگرچہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بعض خوش فہم لوگ، جو اقبال اور جناح دونوں سے عقیدت رکھتے ہیں، نادانستگی میں اس دام پر فریب کا شکار ہو گئے ہیں۔
اقبال کے بارے میں جب بھی پاکستانی درسی کتب سے پرے پوری سچائی کی بات تحریر میں لائی جاوے تو وُہ لوگ جو اقبال کا رُوحانی و فلسفی بُت بنائے بیٹھے ھوتے ھیں انہیں بہت تکلیف ھوتی ھے۔ جس کے جواب میں انہیں کہتا ھُوں کہ
پگھلا ھُوا سیسہ تیرے کانوں میں گیا ھے
تکلیف تو ھو گی کہ مَیں سچ بول رھا ھُوں
رفیع رضا
۔۔۔۔۔
اقبال کے بارے میں آدھا سچ لکھتے ھوئے بھی مزید بندر بانٹ کرنے والوں کی تحریر دیکھیں تو یہ شرمناک طریق واضح ھوتا ھے کہ اللہ ، مذھب ، دُعا ، عطا کے الفاظ کے استعمال سے برائی کو ملفوف کردیا جاتا ھے۔۔
مثلا۔۔ پہلی بیوی کے بارے اور پہلے دو بچوں کے بارے اقبال کا ذکر ھوتا ھے تو اقبال کے پہلی بیوی سے دو بچے پیدا ھوئے بڑا لڑکا اور پھر لڑکی، بعد میں اقبال کریم بیبی سے الگ ھوگئے۔۔۔۔(نوٹ کریں یہاں، اقبال کی پہلی بیوی سے دو بچے پیدا ھوئے اور بس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا ذکر ۔۔۔اقبال کی تیسری بیوی سے اللہ نے ایک بیٹا عطا فرمایا جو جاوید اقبال تھے۔ (نوٹ کیا؟۔۔۔ پہلی سے دو بچے پیدا ھوئے۔۔اللہ کا ذکر غٓائب۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اقبال کو دینی اخلاق والی بیوی پسند نہ تھی ۔ وُہ عطیہ فیضی جیسی کھلی آزاد عورت سے متاثر ھو چکے تھے۔۔۔)
سچ تو یہ ھے کہ ایسی تاریخی بددیانتی پاکستانی اقبالیات کے شعبے میں کام کرنیوالے افراد نے کثرت سے کی ھے۔ کہ اقبال کو بہرحال بزرگ، ثابت کیا جائے، جہاں اقبال کی خاندانی تاریک تاریخ راہ میں آتی ھے تو آئیں بائیں شائیں کر کے گزر جانا اختیار کیا گیا ھے۔ایسی بددیانتی کو دیکھتے ھوئے میری تحریر میں اقبال کے بارے سختی آ جاتی ھے لیکن اس کے قصور وار اقبال بہت کم ھیں ، اقبالیات کے نام نہاد شعبے والے اصل مجرم ھیں۔
آفتاب اقبال علامہ اقبال کے بڑے بیٹے تھے جو 1899ء میں پنڈدادن خان ضلع شاہ پور میں پیدا ہوئے۔ ان کی ماں علامہ کی پہلی بیوی کریم بی بی تھیں جن سے علامہ کی شادی1893ء میں ہوئی ۔ کریم بی بی علامہ کے انتقال کے آٹھ سال بعد1946ء میں گجرات میں فوت ہوئیں اور وہیں مدفون ہیں۔
کریم بی بی کے بطن سے علامہ کو ایک لڑکی معراج بیگم بھی ہوئی ہیں جو19سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ اگرچہ بچپن ہی سے آفتاب اور ان کی بہن معراج اپنی ماں کے ساتھ نانا کے گھر گجرات میں رہتے تھے لیکن آفتاب، اقبال کے والد نور محمد کے نور نظر تھے اور نور محمد ہی نے ان کا نام آفتاب رکھا تھا۔
آفتاب اقبال نے1916ء میں میٹرک کا امتحان درجہ اوّل میں پاس کیا۔ پھر سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے بی اے کا امتحان بھی فلسفہ میں آنرز کے ساتھ پاس کیا اور1921ء میں ایم اے کی ڈگری فلسفہ میں حاصل کی۔ آفتاب کے ماموں کیپٹن غلام محمد اور نانا ڈاکٹر عطا محمد نے انہیں اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان روانہ کیا جہاں آفتاب نے1922ء میں لندن یونیورسٹی سے فلسفہ میں بی اے درجہ اوّل میں کامیاب کیا۔1924ء میں اسی یونیورسٹی سے ایم اے کرکے دوسال کیلئے ہندوستان آئے اور پھر انگلستان جاکر تین سال تک وہاں سکول آف اورنٹئیل اسٹڈیزمیں ملازم ہوئے۔
اسی دوران لنکن انزمیں داخلہ لے کر بارایٹ لاء میں کامیابی حاصل کی لیکن مالی مشکلات کی بنا پر وکالت نہ کرسکے سراکبر حیدری نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد میں ملازمت دینے کی کوشش کی لیکن کوئی مناسب جگہ ان کیلئے یونیورسٹی میں نکل نہ سکی۔ آفتاب نے کچھ عرصے کیلئے اسلامیہ کالج لاہور میں بحیثیت صدر شعبہ انگریزی ملازمت کی لیکن1942ء میں بحیثیت بیرسٹر پریکٹس شروع کی اور پاکستان کے قیام کے بعد وہ مستقل طور پر کراچی منتقل ہوگئے اور بیرسٹری پریکٹس میں آخری عمر تک مصروف رہے اور یہیں پر رشیدہ بیگم سے شادی کی۔ آفتاب اقبال کا81سال کی عمر میں14 اگست 1979ء کو لندن میں انتقال ہوا ان کے جنازے کو کراچی لاکر قبرستان سخی حسن میں دفن کیا گیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی ہر گونہ مسائل سے دوچار تھی۔ علامہ اپنی پہلی شادی سے خوش نہیں تھے اور کریم بی بی کو طلاق دینا چاہتے تھے۔ لیکن کریم بی بی نے طلاق کے بدلے جدازندگی بسر کرنے کو ترجیح دی ۔ اس شادی کے بارے میں9 اپریل 1909کو عطیہ فیضی کو لکھتے ہیں ’’میری تنہا آرزویہ ہے کہ اس شہر سے کہیں باہر نکل جاؤں لیکن تم جانتی ہو کہ اپنے بھائی کا احسان مند ہوں جو میرے اس شہر سے باہر جانے کے مخالف ہیں ۔میری زندگی سخت مصیبت زدہ ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں کسی طرح سے کریم بی بی کے ساتھ زندگی بسرکروں جو ممکن نہیں، میں پہلے ہی سے اس شادی سے خوش نہ تھا میں حاضر ہوں کہ اخراجات کفالت برداشت کروں لیکن اس کے ساتھ زندگی بسر نہ کروں۔‘‘
اقبال کی محبوبہ ،عطیہ فیضی نے اس شادی کی شکست کی وجہ دونوں کی فکری صلاحیتوں میں شدید فرق اور طبیعتوں میں اختلاف بتایا ہے۔ اس شادی کے اختلافات اور دوری کی وجہ سے آفتاب اقبال، علامہ کی محبت اور شفقت سے محروم ہوئے اور چونکہ وہ اپنی ماں کے ہم خیال تھے اور اس شادی کی شکست کے پورے ذمہ دار علامہ کو سمجھتے تھے۔ اس لئے روز بروز ان کے اور علامہ کے درمیان تعلقات خراب ہوتے گئے۔ نذیر نیازی ’’دانائے راز‘‘ میں اس شادی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس شادی کی شکست کی وجہ کریم بی بی کے اخلاق اور ان کی خشک طبیعت تھی اس کے علاوہ خود آفتاب کی رفتار وگفتار انہیں علامہ سے دور کھینچتی جاتی تھی۔
جاوید اقبال نے خود اپنی کتاب ’’زندہ رود‘‘ میں لکھا کہ میں ان مطالب کو بیان کرتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا کہ علامہ نے جوروش اختیار کی تھی وہ عمدہ نہ تھی
آفتاب اقبال اپنے انگلستان کے قیام کے دوران شدید مشکلات سے دوچار تھے چنانچہ جب انہیں معلوم ہوا کہ ریاست حیدر آباد کا وفد سراکبر حیدری کی قیادت میں انگلستان آیا ہوا ہے تو انہوں نے سراکبر حیدری سے مل کر اپنی مالی مشکلات کا ذکر کیا اور بتایا کہ امتحانی فیس نہ ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی نے انہیں سند نہیں دی ہے۔ چنانچہ اکبرحیدری نے انہیں 190پونڈ قرض دلوایا لیکن حیدر آباد میں مہاراجہ کشن پرشاد نے اس قرض کو عطیہ میں تبدیل کردیا۔
1931ء میں آفتاب انگلستان سے لاہور آئے اور29مارچ کو سراکبر حیدری کے خط میں اپنی مالی مشکلات علامہ کی عدم التفات اور جائیداد سے محرومی کا شکوہ کچھ اس انداز میں کیا کہ سراکبر حیدری نے11اپریل 1931میں علامہ کو لکھا ’’اگرچہ مجھے آفتاب پر آپ کی خفگی کی وجہ معلوم نہیں لیکن میں یہ کہنے کی جرأت کرتا ہوں کہ آپ اس کی بحالی پر غور کریں۔‘‘
علامہ اقبال نے2مئی 1931ء کو اکبر حیدری کو لکھا۔
’’قصہ طولانی اور اس کا بیان اذیت ناک ہے۔ دراصل میں دہلی میں آپ سے ملاقات کرنے سے بھی اس لئے کترایا کہ میں نے سو چا وہ ہماری گفتگو کا موضوع بن سکتا ہے۔ اور اس سے کچھ دیر کیلئے میرا ذہنی سکون برباد ہوگا ۔میں پہلے ہی اپنی بساط سے زیادہ اس کی مدد کر چکا ہوں اس طرز عمل کے باوجود وہ میرے ساتھ اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ کرتا رہا ہے۔ کوئی باپ تحمل کے ساتھ وہ شرارت آمیز خطوط نہیں پڑھ سکتا جو اس نے مجھے لکھے ہیں۔ اب جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ صرف بلیک میلنگ کے منصوبے کا ایک حصہ ہے جو وہ کچھ عرصے سے کرتا آرہا ہے۔ بہرحال یہ میرے لئے ممکن نہیں کہ میں اس کی مدد کرسکوں۔ میں ایک بوڑھا آدمی ہوں جس کی صحت بھی ڈانواں ڈول رہتی ہے کسی طرف سے کوئی امید نہیں، دو چھوٹے بچے ہیں جن کی پرورش کرنا ہے۔
اگر میں کوئی مالدار آدمی ہوتا تو شاید اس کی کچھ اور مدد کردیتا اگرچہ وہ اس کا مستحق نہیں۔ میں سمجھتا ہوں میرے حالات کے بارے میں آپ کوکچھ علم نہیں۔ فطرت نے مجھ کو کچھ چیزیں دیں ہیں او رکچھ نہیں دیں میں پوری طرح قانع ہوں اور میرے لبوں پر کبھی حرف شکایت نہیں آیا۔ شاید آپ پہلے آدمی ہیں جسے میں نے یہ باتیں لکھی ہیں۔ میں جانتا ہوں آپ نے اس کی مدد کی ہے کچھ اس لئے کہ اس نے آپ کو خوب متاثر کیا ہے اور کچھ میرے تعلق سے ’’آپ کی فیاض فطرت اس کے سوا اور کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی مگر مجھے یقین ہے آپ کا اس پر اور مجھ پر بڑا کرم ہوتا اگر اس کو کوئی موزوں ملازمت جامعہ عثمانیہ میں دلاسکتے‘‘ ۔
اگرچہ کچھ اطلاعات کے مطابق اکبر حیدری اور علامہ کے درمیان اس مسئلہ پر گفتگو جاری رہی۔ چنانچہ اکبرحیدری 12 فروری 1937ء کے خط میں لکھتے ہیں۔ ’’اگر مجھے پہلے ہی سے ان ناخوشگوار حالات کا علم ہوتا جس کی آپ نے نشاندہی کی ہے تو بلاشبہ میں اس اپیل کو نظر انداز کردیتا‘‘۔
آفتاب اقبال علامہ کے انتقال کے چالیس(40) سال بعد تک زندہ رہے ۔۔
اقبال نے اپنی اولاد کو جس محرومی سے نوازا، وُہ اقبال کے قد کو بہت بونا دکھاتا ھے۔ اقبال چونکہ خود کوئی کام نہ کرتے تھے اور طبیعت کے سہل پن کی وجہ سے بڑے بھائی پر بوجھ بنے ھوئے تھے اس لئے اپنے بچوں کی مناسب امداد کے قابل ھی نہیں تھے۔
اقبال کا شاھین اپنے بچوں کا شکار کرتا رھا ، ایک ھوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے کا مصنوعی درس دینے والا عملی حالت میں ھمیشہ قرٓآن کی اس آیت کا مصداق ٹھہرا جو کہتی ھے کہ
لما تقولوںَ ما لاتفعلون،، تم ایسا پرچارکیوں کرتے ھو جس پر خود عمل نہیں کرتے؟
مومن اقبال، جن کی مبینہ طور پر قران پڑھتے آنکھیں بھیگ جاتی تھیں، نے پہلی شریف بیوی کی علیحدگی کے بعد بھی اُس سے کدورت رکھی، اور طرح طرح کے الزامات اپنے ھی بڑے بیٹے اقبال پر لگائے، جنہیں اقبال کے مداحین نہایت بےشرمی اور بےحیائی سے اقبال کی طرفداری کے طور پر پیش کرتے ھیں جیسے اقبال کا بیٹا آفتاب اقبال ، اقبال سے اپنی ماں اور اپنی بہن کے لئے مالی امداد مانگ کر کوئی جُرم کر رھا تھا،
اقبال کے دوسرے بیٹے جاوید اقبال نے ایک ویڈیو ریکارڈنگ میں خود کہا ھے کہ انہوں نے پہلی بار اقبال کی موت کے وقت اپنے بڑے بھائی آفاتاب اقبال کو دیکھا تھا ۔ جب جاوید اقبال خود کہہ رھے ھیں کہ پہلی بات انہون نے اپنے بڑے بھائی کو اقبال کی موت پر دیکھا تھا تو تقی عابدی سمیت باقی نام نہاد اقبال پرست جو چاھے جھوٹ بولیں وُہ ماننے کے قابل نہیں ھے۔ میرے پاس جاوید اقبال کی وہ ویڈیو موجود ھے جس میں بقائمی ھوش و حواس جاوید اقبال نے تسلیم کیا ھے کہ پہہلئ ملاقات اپنے بھائی سے اقبال کی موت پر ھوئی تھی۔
ایسے میں کسی بھی گزشتہ تنازعہ میں آفتاب اقبال اور جاوید اقبال کو اکٹھا کرنا یا حوالہ دینا نہایت بددیانتی جھوٹ اور ھرزہ سرائی ھے۔۔
اقبالیات کے نام نہاد پاکستانی حکومتی ادارے کو اقبال کے بارے میں سچ بتانا چاھئیے۔۔ ایک اچھا عمدہ شاعر ھونا اور بات ھے ایک بُرا فرسودہ خود غرض باپ ھونا ایک الگ حقیقت ھے۔
نادیہ بتول بخاری کا ویڈیو انٹرویو میرے پاس موجود ھے جس کے مطابق۔۔ وُہ لکھتی ھیں۔۔
میں تقریباً ڈیڑھ سال پہلے ٹی وی انٹرویو کے لیے ڈاکٹر علامہ اقبال کے صاحبزادے جسٹس جاوید اقبال کے گھر گئی، لیکن اس کے ایک روز قبل اپنے انٹرویو کی تیاری کے لیے ڈاکٹر خواجہ ذکریا سے ملنا مناسب سمجھا، خواجہ صاحب ڈاکٹر اقبال پر پی ایچ ڈی کر چکے ہیں،،، ملاقات میں خواجہ صاحب نے علامہ اقبال کے ایک اور صاحب زادے جسٹس آفتاب اقبال کا ذکر کیا جو ان کی پہلی بیوی سے تھے، آفتاب اقبال کا نام میرے لیے نیا تھا، اور مجھے یہ بھی پتا چلا آفتاب اقبال جسٹس جاوید اقبال کی مانند پڑھے لکھے اور زہین انسان تھے، مجھے تعجب اس بات ہوا کہ میں نے جاوید نامہ کو سنا اور پڑھا ہوا تھا لیکن آفتاب نامہ کا ذکر تک نہیں سنا تھا،،،، جب اس بھائی کا ذکر میں نے جسٹس جاوید اقبال سے کیا تو انہوں نے مجے مزید حیران کر دیا کہ،،،،،،،،،،،،،،،،،،
انہوں نے بھی آفتاب اقبال کو پہلی دفعہ اس وقت دیکھا تھا جب وہ چودہ برس کے تھے جس دن علامہ کا انتقال ہوا انتقال کی خبر سنتے ہی آفتاب اقبال ہمارے گھر آگئے،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
، وہ سارا دن اپنے والد کے پاؤں سے لپٹے بیٹھے روتے رہے تھے،،،،،، یہ حقائق بتاتے ہوئے جاوید اقبال خود بھی آبدیدہ ہوگئے، اس کے بعد میرا تجسس بڑھ گیا اور میں ایک بار دوبارہ خواجہ ذکریا سے ملنے گٰئی ،، خواجہ صاحب نے بتایا کہ علامہ اقبال کی پہلی شادی انکی کم عمری میں ہی کر دی گئی تھی، جن سے آفتاب اقبال پیدا ہوئے لیکن بدقسمتی سے یہ شادی چل نہ سکی اور علیحدگی ہوگئی تھی، جس کے بعد علامہ اپنے بیٹے آفتاب اقبال سے بھی دور ہو گئے،
میں سمجھتا ھُوں کہ کوئی تخلیقی ھنر اور شخصیت دونوں ساتھ ساتھ ھی دیکھے جانے چاھئیں، خاص طور پر جب تخلیقی ھنر درسی ھنر کی صورت پیش کیا جائے۔ سائینس کی بات اور ھے،
تخلیقی ھنر کے ساتھ شخصیت کو نہ دیکھنے سے بعض لوگ سمجھ بھی نہیں آتے، اس بات رد کر کے بھی دیکھا جائے تو دوسری بڑی دلیل یہ بنتی ھے کہ جب کوئی شخصیت ایک مشفق، مفکر و اجتہادی و فلسفی کے طور پر پیش کی جائے تو لازمی طور پر اس کا ذاتی عمل پرکھا جائے گا۔
ایک شخص جو پیشے کے لحاظ سے شکاری یا جلاد یا قصائی ھو، اُسے کبھی آپ حیاتیات کو بچانے والے بزرگ کے طور پر پیش نہیں کریں گے۔۔
دنیا میں کبھی کوئی جلاد ، روحانیت کا گُرو، عظیم شاعر، نہیں ھُوا؟ آخر کیوں؟۔ اسی لئے نا کہ تفکر، تجہل، معصومیت اور ظلم، جہادی اور صوفی ایک ھی شخصیت نہیں ھو سکتی۔
یہ دلائل پیش کرنے کا اھتمام اسی لئے کیا گیا ھے کہ سمجھایا جائے کہ
اندھا دھند تقلید کرنے سے پہلے مکمل حقائق جان لینا ضروری امر ھے۔
حقائق وُہ نہیں ھوتے جو ایک ایمان لے آنے وال تسلیم کر چکا ھوتا ھے،
نہایت حیرانی کی بات ھے کہ اقبال کے اقوال تو پیش کردئیے جائیں مگر انکے اعمال کو اس لئے رد کردیا جائے کہ وُہ ذاتی افعال تھے۔۔
یعنی اگر وُہ قران پڑھتے آبدیدہ ھوجاتے تھے تو یہ ذاتی فعل بیان کیا جائے اور اسے خوب مشتہر کیا جائے ۔ جب وہ کسی قاتل کا جنازہ پڑھنے میں اور اُس قاتل کی تعریفیں کرنے میں آگے آگے ھوں تو اس کی خوب مشہوری کی جائے۔ جب وُہ گورنر، ملکہ وکٹوریہ کی تعاریف کریں تو اس شاعری کو چھپایا جائے۔ جب وُہ پہلے احمدی ھوں پھر کہیں کہ ٹھیٹھ اسلام کا بہترین نمونہ عہد رسول کے بعد قادیان میں ظاھر ھُوا تو اسے اس لئے چھپایا جائے کہ وُہ بعد میں احمدیت کے خلاف ھوگئے، کیونکہ احرار نے انہیں خرید لیا، جس کا انکے بیٹے جاوید اقبال کو بھی شدید ملال تھا لیکن اقبال کے درسی کتب اور پاکستانی حکومت کے پراپیگنڈا سے متاثر لوگوں پر کوئی اثر نہ ھوا۔
اقبال نے ھرگز کسی علیحدہ آزاد مملکت پاکستان کا خواب نہیں دیکھا تھا، لیکن یہ جھوٹ مسلسل پاکستان میں اتنا پھیلایا گیا کہ اب اقبال کو مفکر پاکستان کہتے ھیں،
میں اس بات پر زور دیتا ھُوں کہ اقبال کو مکمل پیش کیا جائے، اقبال کی بیسیوں نظمیں مغرب کا ترجمہ یا چربہ ھیں یہ بتایا سمجھایا جائے، اقبال کی مشہور نظمیں اگر مغرب سے درآمد ھیں لازمی طور پر اصل شاعر کا نام ساتھ لکھا جائے۔
میرے مطالبات ھرگز غلط نہیں ھیں ، جاوید اقبال نے خود کہا ھے کئی بار کہا ھے کہ کون کہتا کہ اقبال نے علیحدہ مملکت کا خواب دیکھا تھٓا؟۔۔ اقبال کو تو وضاحتی خط لکھنے پڑے، بیان دینا پڑا تقریر کرنی پڑی کہ میں کسی الگ ملک کی بات نہیں کرتا، انگریز کے کنٹرول میں زیادہ اکثریتی علاقے کی جانب کثرت کو حصہ دینے کی بات کرتا ھُوں۔
ترکھاناں دا مُنڈا بازی لے آگیا اسیں ویکھدے ریھے جیسے کلمات ادا کرنے والا جس تشدد کو فروغ دینے کے حق میں تھا اُس سے پاکستان میں لاقانونیت اور مذھبی افلاس پیدا ھُوا ھے
اس لئے یہ ضروری ھے کہ بذریعہ تاریخ و دلائل ، اقبال کے منفی اعمال کا کُھلے عام بطلان کیا جائے۔
جس تفکر و تبحر کو اقبال اپنی زندگی میں اپنا نہیں سکے ، ھم اُسے کیوں اپنائیں؟
ایک پنجابی ، عربوں کا ترجمان کیسے بن گیا ؟
اپنے بیوی بچوں کو تج دینے والا ، ایک ھوں مسلم حرم کی پاسبانی کا درس کیوں دینے لگا؟ ۔۔۔ کیا یہ کوئی اچھا نمونہ ھے؟ کیوں حرم کی پاسبانی کو اکٹھے ھو؟ اسی لئے کہ اپنی اولاد کو تج دیں؟ پیروں فقیروں کی درگاھوں پر منتیں مانیں؟ ملکہ وکٹوریہ کا نوحہ لکھیں، انگریزی گورنر کی مدح کریں، قاتل کی تعریف کریں، عطیہ فیضی سے عشق کریں، شراب میں خود کو ڈبونے کی بات کریں، اپنی بچی کو سکول نہ بھیجیں کہ بےپردگی ھوگی،
کیا ھم سب اقبال کی ایسی ھی تقلید کریں؟
آخر ھم انکی شاعری یا چند خطبات کو کیوں اھمیت دیں؟۔ جبکہ شاعری اور نظریات شدید تضاد رکھتے ھوں؟
ایک جانب مرزا قادیانی کی تعریف، ایک جانب ملکہ وکٹوریہ کی تعریف، ایک جانب سپین پر مسلمانوں کے ناجائز قبضے کی تعریف، ترکی کی طرف سے آرمینیا کی نسل کشی پر خاموشی، کُردوں پر زیادہ پر خاموشی، سلطنت عثمانیہ کے گُن گائیں؟
اپنے بیٹے کے بارے کہیں کہ وُہ بلیک میل کرتا ھے۔ مفت کھانے کی مسلسل عادت، اور رھبری کا شوق، کشمیر کمیٹی کا سربراہ نہ بنائے جانے پر احمدیوں سے مخاصمت کرنا، غرض سوال تو ان گنت ھیں۔
اقبال کافی حدتک ایک اچھے شاعرمترجم تھےانھیں اسی حثیت سےجاناجائےتوسچی تاریخ مرتب ہوگی۔پاکستان میں شاعری پڑھنےوالے اس بات سےبلکل واقف نہیں ہیں وہ سمجھتےہیں یہ اشعاراورنظمیں خود اقبال کی ذاتی فکرکاپھل ہیں۔جبکہ ایساہرگزنہیں،بےشماراشعاراورنظمیں مختلف مشہوراوراہم شعراءکی اصل
کاوش ہیں
تاریخی سچائی کوعین پوری سچائی سے بیان کیا جائے۔اس سےاقبال سے منسوب بہت سےجھوٹےدعوےختم ہونگےاور ہم ایک اچھےشاعرکی شاعری کاماخذجان کراس کی شاعری کےھنر کی تعریف کرسکیں گے۔
لیکن عجیب قصہ ہےکہ وہ نسل جو اقبال کاسرکاری الاپ الاپتی رہتی ہے کچھ سننےکےبجائےدھمکی گالی اور فتوےپراترآتی ہے۔
لوگ خود توتحقیق کرتےنہیں اورہمیں الزام دیتےہیں کہ ہم کیوں حقائق سےپردہ اٹھارہےہیں۔
اقبال نےجہاں انگریز شعراءسے اکتساب کیاوہاں فارسی شعراءسےخیالات لاکر اپنی شاعری استوارکی۔مثلاً مشہورشاعرفخرالدین عراقی کا شعرہے
بہ زمیں چوسجدہ کردم،ززمیں ندا برآمد
کہ مراپلیدکردی،ازیں سجدۂ ریائی
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
اقبال
عراقی کا شعرِ بےمثال ہے اس میں نماز اور صنم کااضافہ کرکے اقبال نے اپنا شعر کہہ دیا۔
اسی طرح اقبال کی کئی شہرہ آفاق نظمیں بھی غیر ملکی ادب سے اخذ شدہ ہیں۔ان میں ماں کا خواب
بچے کی دعا ایک انگریزی کی شاعرہ امیٹلڈاایڈورڈ کی حمد کا ترجمہ ہے ایک مکڑی اور مکھی/ایک گائے اور بکری/پہاڑ اور گلہری/ماخوذ از ایمریسن/ہمدردی،ماخوذ ازویلم کوپر./پیام صبح لانگ فیلو/عشق اورموت از ٹینی سن)رخصت اے بزم جہاں ماخوذ از ایمریسن وغیرہ۔
اقبال سے ذاتی پرخاش نہیں
صرف اس جعلی دعوےسےپرخاش ہے جو مغربی و مشرقی مشاہیر و شعراء کے کلام پر مبنی اقبال کے کلام کو اقبال کا ہی کلام کہہ کر پیش کرتےہیں۔ یعنی جیسےمغربی شعراءکی تراجم والی اقبال کی شاعری خوشحال خان خٹک رومی،حافظ اور ھندی شعراءسے اکتساب و ترجمہ یا ماخوذ ہے،اس پر مجھ سمیت کسی کو راضی نہیں
ہوناچاہئیےکہ وہ اسےاقبال کی خالصتاً شاعری قراردے۔مثلاً جب اقبال کی اعلی سوچ کی تعریف کرتے ہوئے اس شعرکاحوالہ دیاجائےکہ اقبال کہتے ہیں
مجھےمحبت ان جوانوں سےہے ستاروں پہ جو ڈالتےہیں کمند
تویہ اقبال کا نہیں خوشحال خان خٹک کا کلام ہے۔اس گفتگوکامقصد کیا ہے؟ جواب
پاکستان کی حکومتوں نے اقبال سےمنسوب شاعری فکراورفلسفےکودرسی کتابوں میں داخل کررکھاہےاورایک مخصوص زاویے سےاقبال سےایک شدت پسندانہ مذھبی سوچ منسوب کی ہوئی ہے۔اس لئیے ضروری ہےکہ اقبال سےمنسوب گمراہ اورحکومتی پراپگینڈےکےبجائےاصل اقبال اوراسکی شاعری،فکرو فلسفے کوپیش کیاجائے۔
میٹلڈا ایڈورڈ بیتھم کی حمد گرجوں میں مدت سے پڑھی جاتی تھی۔۔ اس نظم کا ترجمہ تین افراد نے اردو میں کیا تھا، شاید شاعر کا تخلص آزاد تھا جو ایک ھندو شاعر تھا۔۔۔اقبال نے بھی اسکا ترجمہ کیا۔۔۔۔لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنا میری۔۔۔۔یہ زیادہ اچھا اور رواں ترجمہ تھا جو مقبولیت پا گیا۔۔
لیکن ہاکستان کے اقبالیات کے ماھرین نے جان بوجھ کر عوام سے درسی کتب میں یہ بات چھپائے رکھی کہ یہ نظم ایک منظوم آزاد ترجمہ ھے ، اور نظم کی اصل خالقہ ایک عیسائی خاتون ھیں۔ اب کیا یہ ضروری ھے کہ ترجمے کا ذکر ھر بار نظم کے ساتھ کیا جائے؟
اس سلسلے میں ایک تکلیف دہ حقیقی خبر سناتا ھُوں چار سال پہلے یوم اقبال پر ایک تقریب میں بیرونی لکھاری موجود تھے۔۔ ان مین سے انگلینڈ کے لکھاری بھی تھی۔۔
وھاں اقبال کی نظم لب پہ آتی ھے۔۔۔۔ کو پیش کر کے انگریزوں سے داد لی گئی کہ یہ اقبال کی معرکہۃ الآرا نظم ھے۔۔ لیکن یہ ایک بددیانتی تھی۔۔کیونکہ یہ نظم خود انہی انگریزوں کی شاعرہ میٹلڈا ایڈورڈ کے خیالات و کمالِ شاعری کا نمونہ تھی نہ کہ اقبال کی اوریجنل تخلیق۔
اب یہ غلطی اور گمراھی جان بوجھ کر کی گئی یا جان بوجھ کر چھپائے گئے پاکستانی اقبالیاتی محکمے کی دغٓابازی ھے؟
اب میرے قارئین کو اتنا شعور آ جانا چاھئیے کہ سچائی کو تسلیم ھی نہیں کریں اس کا پرچار بھی کریں۔۔
اقبال کا قد مصنوعی طور پر بلند کر کے طالبان ھی پیدا ھونگے۔۔۔ انسان پیدا نہین ھونگے۔۔
رفیع رضا
اقبال نے انگریزی نظموں کو اردو کا قالب دیتے ہوئے حسبﹺ ذیل نظمیں لکھیں۔
۱۔ ایک مکڑی اور مکھی ﴿۱۱:۹﴾ ماخوذ لکھا، لیکن آزاد ترجمہ ہے
۲۔ ایک پہاڑ اور گلہری ﴿ ۱۵۳:۳﴾ ماخوذ ایمرسن لکھا لیکن آزاد ترجمہ ہے۔
۳۔ ایک گائے اور ایک بکری ﴿ ۱۷:۹﴾ ماخوذ لکھا لیکن آزاد ترجمہ ہے
۴۔ بچے کی دعا ﴿۹:۸ ﴾ ماخوذ لکھا لیکن آزاد ترجمہ ہے
۵۔ ہمدردی ﴿ ۱۹:۹ ﴾ ماخوذ از ولیم کوپر لکھا ۔ ماخو ذ ہے
۶۔ ماں کا خواب ﴿۲۲۵: ۳ ﴾ ماخوذ نہیں لکھا۔ ماخوذ ہے ۵
۷۔ پرندے کی فریاد۔ ماخوذ نہیں لکھا لیکن ماخوذ ہے
۸۔ پیامﹺصبح ﴿۱:۹: ۱ ﴾ ماخوذ از لانگ فیلو لکھا۔ ماخوذ ہے
۹۔ عشق اور موت ﴿۲۰۵﴾ ماخوذ از ٹینی سن لکھا ہے۔ ماخوذ ہے
۱۰۔ رخصت ائے بزمﹺ جہاں ﴿۱:۵۴۱ ﴾ ماخوذ از ایمر سن لکھا لیکن کامیاب منظوم ترجمہ ہے
۱۱۔ مرثیہ داغ ۔ ماخوذ نہیں لکھا لیکن ماخوذ ہے
۱۲۔ گورستان شاہی۔ ماخوذ نہیں لکھا لیکن ماخوذ ہے
۱۳۔ ایک پرندہ اور جگنو ۔ ﴿۵۹: ۳ ﴾ ماخوذ نہیں لکھا۔ آزاد منظوم ترجمہ ہے
۱۴۔ والدہ مرحومہ کی یاد میں۔ ماخوذ نہیں لکھا لیکن ماخوذ ہے
۱۵۔ ابرکوہسار۔ ماخوذ نہیں لکھا لیکن ماخوذ ہے۔
۱۶۔ ایک آرزو۔ ماخوذ نہیں لکھا لیکن ماخوذ ہے۔
ژباړه وګورئ
پانچویں صدی میں انڈیا میں ایک فلسفی، شاعر ھو گزرا ھے، جس کو غلطی سے کچھ لوگ بُدھا سے جوڑ دیتے ھیں ۔۔اسکا نام۔۔۔۔بھارتری ھری،،،تھا
بھارتری ھری کے سنسکرت پر بہت احسان ھیں۔ اور اس خطے میں شاعری پر بھی اس نے بہت کرم کیا۔۔اور بہت اعلی شاعری کی۔
اقبال نے بھارتری ھری کی شاعری سے استفادہ کرتے ھوئے بہت اچھے شعر کہے ھیں۔۔۔لیکن بنیادی خیال وھیں سے آیا ھے۔۔ جس کا زیادہ تر ذکر خؤد اقبال نے کردیا تھا۔۔ تاھم ضیا الحق کے دور کے بعد سے جان بوجھ کے اقبال کے خود دئیے گئے حوالے بھی غائب کئے گئے تاکہ ایسے اشعار کو جو مغربی شعرا ۔۔۔ ایرانی شعرا اور سنسکرت شعرا اور پشتو شُعرا کی اصل تصنیف تھے انکو اقبال سے بددیانتی سے جوڑ دیا جائے۔۔ اور اس حوالے سے اسکا قد ناجائز طور پر بلند کیا جائے۔۔
مثلآ۔۔۔۔۔
بھارتری ھری کہتا ھے
Wanting to reform the wicked with nectar sweet advice, is like trying to control an elephant with the pith of a lotus stem, or cutting a diamond with delicate petals of the Shireesh flower, or sweetening the salty ocean with a drop of honey. 6. The creator has provided only one means for hiding one’s ignorance
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ھے ھیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
(بھرتری ھری) اقبال
،،،،
پس اقبال کافی حد ترک ایک اچھے شاعر مترجم تھے۔۔ اور انہین اسی حیثیت سے جانا جائے تو سچی تاریخ مرتب ھوگی۔۔
پاکستان میں اقبال کی شاعری پڑھنے والے ایسی باتوں سے بالکل واقف نہیں ھیں۔ وہ سمجھتے ایسا اشعار اور نظمیں خود اقبال کی ذاتی فکر کا پھل ھیں جبکہ یہ درست نہین۔۔۔ اصل مین ایسی نظمیں اور بےشمار اشعار مختلف مشہور اور اھم شعرا و فلسفیوں کی اصل کاوشیں ھیں جنکو اقبال نے خوبی سے شاعری میں یا نثر مین ترجمہ کیا ھے۔۔جس کا انکا کریڈٹ ملنا چاھئیے۔۔
ایک سروے جو میں نے 2010 میں پاکستان میں کیا تھا ایک ھزار افراد سے پوچھا کہ اقبال کی نظم ، لب پہ آتی ھے دعا بن کے تمنـا میری۔۔۔۔ کیا اقبال کی اپنی فکری کاوش ھے یا کسی اور کی شاعری کا ترجمہ۔۔یا اکتساب؟۔۔
جواب میں پورے ایک ھزار کا یہی جواب تھا اقبال کی اپنی فکر کا پھل یہ نظم ھے۔۔ جبکہ تاریخی سچائی یہی ھے کہ اقبال نے ترجمہ و اکتساب کیا تھا۔۔۔انکی اپنی فکر صرف شعر کی بنت اور اسے خوبصورت بنانے میں صرف ھوئی۔۔۔
پس میرا اصرار ھے کہ تاریخی سچائی کو عین پوری سچائی ھی سے بیان کیا جائے۔۔ اس سے اقبال سے منسوب بہت سے جھوٹے دعوے ختم ھونگے اور ھم ایک اچھے شاعر کی شاعری کا ماخذ جان کر اسکی شاعری کے ھنر کی تعریف کر سکیں گے۔۔
لیکن عجب قصہ ھے کہ وہ نسل جو اقبال کا سرکاری الاپ الاپتی رھی ھے وہ کچھ سننے کو تیار نہیں ھے۔۔۔اور دھمکی گالی۔۔فتوی بازی۔۔ ذاتی دشنام پر اتر آتی ھے۔۔
لیکن مین ایسی باتوں سے مرعوب ھونے والا نہیں ھوں۔۔یہ مشن جایر رھے گا۔۔کتاب جلد پیش کی جائے گی۔۔۔
خیر۔۔سنسکرت کے اُس عظیم شاعر بھارتری ھری کی کچھ اور شاعر دیکھیں کیسی نئی اور خوبصورت ھے۔۔۔ آج کی اردو شاعری کیسے اسکے سامنے ماند ھے۔۔آئیے دیکھیں۔۔
The clear bright flame of a man’s discernment dies: When a girl clouds it with her lamp-black eyes.
[Bhartrihari #77, tr. John Brough; poem 167] …
عقل مند کے ساتھ خطرے میں کود جانا
بے وقوف کے ساتھ سیر کو نکل جانے سے بہتر ھے…
(بھرتری ھری )
(عقل ھے محوِ تماشائے لب بام۔۔۔۔۔کا منبع معلوم ھوگیاَ؟)
دشوار گزار پہاڑوں پر درندوں کی صحبت بہتر لیکن بےوقوف کی صحبت
راجہ اندر کے محل میں بھی ناقابل برداشت ھے
بھرتری ھری
جو شخص عورت کو کمزورکہتا ھے
وہ بلاشبہ عورت کی فطرت سے ناواقف ھے.”
( بھرتری ھری )
اسی طرح ، اقبال ، خوشحال خان خٹک سے سخت متاثر تھے اور اس بات کا ثبوت ان کےکئی اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اقبال نے ان کو بہت دھیان سے پڑھا ہے اور خوشحال خان خٹک کی عظمت کی اگر بات کی جائے تو اقبال بہتر جاننے والوں میں سے ھیں، اقبال کے بہت سے اشعار دراصل خوشحال خآن خٹک کی شاعری کا ترجمہ ھیں، اقبال کہتے ھیں۔
خوش سرود آن شاعر افغان شناس
آنکه بیند باز ګوید بې هراس
آن حکیم ملت افغانیان
آن طبیب علت افغانیان
راز قومی دید و بیباکانه ګفت
حرف شوخی رندانه ګفت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ اقبال نے خوش حال خان کی وصیت کو اپنی زبان میں یوں پیش کیا ہے
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جوڈالتے ہیں کمند
اڑاکرنہ لائیں جہاں بادکو
مغل شاہ سواروں کی گرد سمند
اس طرح بہ زبان فارسی بھی علامہ اقبال نے خوش حال خان کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے
خوش سروداں شاعر افغان شناس
ہر چہ بیند بازگویدے ہراس
آں حکیم ملت افغانیاں
آں طبیب علت افغانیاں
راز قوے دیدوبے باکانہ گفت
حرف حق بازوخئی رندانہ گفت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل اقبالیات،،،، رفیع رضا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال کے خط کے ایک پیرا گراف کا فورینزک تجزیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عطیہ فیضی کے نام اقبال کے خط سے اقتباس
۔۔۔
"ایک انسان کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا حق حاصل ہے۔اگر معاشرہ یا فطرت میرے اس حق سے انکار کریں گے تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا۔میرے لئے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں یا مَے خواری (شراب نوشی) میں پناہ ڈھونڈوں جس سے خود کشی آسان ہو جاتی ہے۔ کتابوں کے یہ مردہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اعماق میں اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ میں ان کتابوں کو اور ان کیساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بنا سکتا ہوں”-
(اقبال)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال اس میں اپنا استحقاق بتاتے ھیں کہ اُنہیں لذت و خوشی (جسمانی تلذذ) کی خواھش ھے جو انہیں ویسی میسر نہیں جیسی وُہ فینسٹیسائز کرتے ھیں، یعنی اقبال کو پہلی بیوی سے جسمانی جنسی تلذذ ملنے کے باوجود وہ کچھ ایسا چاھتے ھیں جو صنف مقابل کے بارے میں انکے خیالات میں موجزن ھے۔
یہاں وُہ خانگی ادب آداب کی کمی کی شکایت نہیں کرتے بلکہ اصل میں میاں بیوی کے باھمی تعلق میں جسمانی کشش اور ذھنی کم آھنگی کی شکایت کرتے ھیں۔
وہ صاف صآف کہتے ھیں وہ سرخوشی کے انسانی حق کے تحت چاھتے ھیں کہ انکی جنسی (فطری) جبلت کو ویسی تسکین ملے جیسی وہ چاھتے ھیں۔
فطرتی اعتبار سے اور سماجی پابندیوں کی وجہ سے جنسی اختلاط کی آزادی اُس وقت ھندوستان میں ایسے میسر نہ تھی کہ اقبال اُس سے متمتع ھوتے ، خاص طور پر جب وہ جرمنی میں دوران تعلیم یہ فطری آزادی دیکھ آئے تھے انہیں ھندوستان میں ایک مدقوق گھر میں اپنی بیوی سے وہ رغبت نہ تھی جو انہیں جرمنی میں بآسانی وافر میسر تھی۔۔۔ اسی لئے اقبال نے معاشرہ یا فطرت کے خلاف بغاوت کے حق کو استعمال کرنے کی دھمکی دی۔۔
وہ اپنی ذاتی ناخوشی کی وجہ سے ملک ھندوستان کو بدبخت کہنے لگے۔۔۔ یعنی جب کسی خطے میں آپ کے مطلوبہ حقوق میسر نہ ھوں تو آپ اپس خطے کو بدبخت کہنے کا حق رکھتے ھیں۔ یہ اھم نکتہ ھے کیونکہ اقبال، کہہ چکے تھے کہ سارے جہاں سے اچھا ھندوستان ھمارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ بھی کہہ چکے تھے کہ جس کھیت سے دھقاں کو میسر نہ ھو روزی اُس کھیت کے ھر خوشہِ گندم کو جلا دو۔۔۔۔۔۔ پس وہ ملک کو بدبخت کہنے پر مائل ھوگئے کیونکہ یہاں انکی ذاتی انفرادی انسانی تلذذ کی راہ بند معلوم ھوتی تھی۔۔ وہ اپنی بیوی کو چھوڑدینا چاھتے تھے لیکن انکے والد یہ نہین چاھتے تھے۔۔ جبکہ انکے دو بچے بھی تھے ۔۔۔
انہوں نے لکھا کہ اگر وہ ملک نہ چھوڑ سکے تو خود کو شراب میں اتنا غرق کر دیں گے کہ اسکا زھر ان کی جان لے لے۔۔۔ اس سے معلوم ھوتا ھے وہ کبھی شراب کثرت سے نہیں پیتے تھے کہ جسکا نقصان جگر کو ھونا شروع ھو جائے۔۔ اگر پیتے تھے تو بہت اعتدال کے ساتھ، جس میں طبی طور کوئی مضائقہ نہیں ھے۔۔
چونکہ اقبال عملی ملازمت نہیں کرتے تھے اس لئے مطالعہ اور لکھنے میں وقت صرف ھوتا ، اب اس مایوسی کی صورتِ حال میں انہین اپنا مطالعہ کا کام بھی بے معنی لگنے لگا۔۔
وہ کہتے ھیں میں ان کتابوں کو اس ملک کی روایات سمیت جلا کر راکھ کر دوں گا میرے اندر اتنی تشنگی کی آگ بھری ھوئی ھے۔۔
یاد رھے کہ یہ خظ عطیہ فیضی کے نام ھے جو جرمنی میں دوران تعلیم اقبال کے بہت قریب رھیں۔ رومانی تعلقات کے بعد وطن واپسی اور پرانے فرسودہ خاندان میں واپس آ کر رھنا اسی طرح مشکل ھوتا ھے جیسے آج بھی پاکستان سے کسی کا بیرونِ ملک رہ کر پاکستان میں واپس جا کر رھنا بہت مشکل معلوم ھوتا ھے۔۔ بالکل یہی اپ سیٹ معاملہ اقبال کو پیش آیا تھا۔ اور اس کے پیچھے عطیہ فیضی سے انکو جو جسمانی اور ذھنی امیدیں وابستہ تھیں انکو پورا کرنے کے لئے اقبال شدید ترین بیتابی کا شکار ھوگئے ۔۔۔ ایسے خطوط آج بھی عاشق کی طرف سے محبوب کو لکھے جاتے ھیں۔ میں خود ایسی کیفیات سے بار بار گزرا ھوں، بہرحال اقبال ایک انسان تھے اور ان کی ایسے ذھنی و جسمانی تلذذ کی خواھش بالکل جائز تھی’
انہی دنوں میں عطیہ فیضی کے ایک اور عاشقِ صادق شبلی نعمانی بھی عطیہ فیضی کو خط میں کہتے ھیں کہ ۔۔۔ جیسے مغلیہ شہنشاھوں کے قصیدوں میں انکو سایہ خدا کہا جاتا ھے ویسی غزلیں تو میں تمھارے لئے کہتا رھتا ھُوں ،،،تاھم۔۔۔میرے جسم کا ھر رونگٹا اور ھر موئے بدن تمھارے لئے میری طرف سے ایک شعر ھے۔۔۔۔۔ یہاں شبلی بھی شدید جنسی تشنگی سے بھرے بیٹھے ھیں۔
۔۔۔۔
دانشور ظہور ندیم لکھتے ھیں ،،
اقبال کی ازدواجی زندگی ہمیشہ ناہموار اور نا آسودہ رہی ھے ۔ ایک سے زائد شادیوں کی ایک وجہ یہ بھی تھی ۔ عطیہ فیضی نے کہیں ذکر کیا ھے کہ اقبال کی ذہنی صلاحیت اور اعتماد جو لندن کے قیام میں تھا وہ ہندوستان واپس لوٹ جانے پر ویسا نہیں رہا تھا ۔
متوسط طبقے کا کوئی شخص اگر وسیع مطالعے کی بنیاد پر اپنی فکری سطح میں کوئی غیر معمولی تبدیلی لے آئے اور اسے حسبِ منشا سماجی ماحول نہ ملے تو وہ دوبارہ قنوطیت کی طرف لوٹ جاتا ھے ۔ اقبال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ یہی وجہ ھے کہ یورپ سے واپسی کے بعد وہ ذہنی طور پر منتشر اور مایوس نظر آتے ہیں ۔ آخرکار وہ اپنی فکری سطح کو محدود کر لیتے ہیں اور پھر انہوں نے ایسے اشعار تخلیق کئے جو انکی سوچ کے تضاد کی عکاسی کرتے ہیں ۔ محدود سے محدود تر ہوتے ہوئے آخرکار وہ ایک تنگ نظر مسلمان شاعر بن کر رہ جاتے ہیں ۔”
علامہ شیخ محمداقبال صاحب نے 1897 میں مرزا غلام احمد قادیانی کے ھاتھ پر برضا و رغبت خود ھی بیعت کرکے جماعت عالیہ احمدیہ مسلمہ میں شمولیت اختیار کی تھی اورپھر1935 تک احمدی رہے لیکن 1935 میں جب قائد اعظم محمد علی جناح نے گول میز کانفرنس کیلئے اپنے وفد کا سربراہ ایک دوسرے احمدی سر چوہدری محمد ظفر اللہ خان کو نامزد کیا تو اس بنا پر علامہ اقبال صاحب ناراض ہوگئے اوراپنی سیاسی وجوہات کی بنا پر جماعت سے کچھ دوری دکھائی اور کچھ مخالفانہ باتیں بھی کیں لیکن اس کے باوجود اپنے ایک بھتیجے مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب اور ان کے بیٹے کو جماعت کی بیعت کرنے کے لئے کہا تھا اور پھر انہیں اپنے دو بچوں کا سرپرست بھی مقرر کیا تھا ۔
1931 میں سر شیخ محمداقبال صاحب نےکشمیر کمیٹی کی صدارت کے لئے امام جماعت عالیہ احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام خود پیش کیا جو کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے تھے ۔ یہ تمام کاروائی آپ کتاب ‘‘ انوار بشیر ‘‘ پہلا ایڈیشن مطبوعہ 1993 از پاکستان ۔ دوسرا ایڈیشن مطبوعہ 2007 از برطانیہ ۔ تیسرا ایڈیشن مطبوعہ 2010 از جرمنی کے صفحات پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔
علامہ اقبال صاحب نے اپنی تحریرات میں اپنے بھائی مکرم شیخ عطا محمد صاحب کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ وہ احمدی تھے ۔ علامہ اقبال صاحب کے ایک بیٹے مکرم مظفر اقبال صاحب 1982 میں لندن میں فوت ہوئے ( یہ ان کی تیسری بیوی محترمہ مختار بیگم صاحبہ میں سے تھے ) جو کہ تادم حیات احمدی مسلمان رہے اور پھر یہی نہیں بلکہ خود علامہ اقبال صاحب کے والد محترم مکرم شیخ نور محمد صاحب بھی احمدی تھے ۔ یہ تمام باتیں تاریخ پاکستان کا حصہ ہیں لیکن افسوس کہ آج کا پاکستانی مورخ انہیں لکھتے ہوئے ڈرتا ہے ۔
بہرحال ” ایک روایت کے مطابق علامہ اقبال نے ….. مرزا غلام احمد قادیانی کے ھاتھ پرـ بیعت کی تھی – ” ( ” اقبال اور احمدیت ” تصنیف : بشیر احمد ڈار)
1953ء کے فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت ( منیر انکوائری رپورٹ) میں خواجہ نذیر احمد چیئرمین سول اینڈ ملٹری بورڈ آف ڈائریکٹرز نے یہ بیان ریکارڈ کروایا کہ :-
” اقبال نے 1893ء میں قادیان جا کر مولانا غلام محی الدین قصوری کے ھمراہ سلسلہ احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد صاحب کے ھاتھ پر بیعت کی تھی – "
عدالت میں بیان دینے کے بعد جب خواجہ نذیر احمد صاحب کی بعد میں قصوری صاحب کے ساتھ ملاقات ھوئی تو انہوں نے بیعت کے سن کی تصحیح فرما دی – اور بتایا کہ علامہ اقبال نے میرے ھمراہ قادیان جا کر 1893ء میں نہیں بلکہ ــــــــــ 1897ء میں بعیت کی تھی – اس پر خواجہ نذیر احمد صاحب نے اگلے روز درخواست دیکر عدالت کے ریکارڈ میں سن کی تصحیح کرادی – ( بحوالہ: ” پاکستان ٹائمز ” لاھور 14 نومبر 1953ء) ۔
سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ آپ ادھر ادھر کے حوالہ جات تلاش کرنے کی بجائے وہ کتب پڑھیں کہ جو خود علامہ اقبال کے عزیزواقارب نے تحریر کی ہیں مثلا
علامہ اقبال کے بڑے احمدی بھائی مکرم ومحترم شیخ عطا محمد صاحب کے بیٹے مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب نے ‘‘ مظلوم اقبال ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے ۔ یہ وہی شیخ اعجاز احمد صاحب ہیں کہ جن کو علامہ اقبال صاحب نے اپنے آخری ایام میں اپنے بچوں جناب جسٹس جاوید اقبال صاحب اور بیٹی منیرہ اقبال صاحبہ کا سرپرست مقررکیا تھا ۔
اسی طرح اس خاندان میں اور کون کون احمدی ہیں اس کا ذکر پاکستان کےجسٹس جناب جاوید اقبال صاحب نے اپنی خودنوشت حیات کتاب ‘‘ اپنا گریباں چاک ‘‘ میں کیا ہے ۔ اب لوگ خود تو کوئی تحقیق کرتے نہیں بلکہ ‘‘ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘ کے مصداق ہمیں الزام دیتے ہیں کہ ہم لوگ کیوں حقائق سے پردہ اٹھا رہے ہیں ۔
اقبال نے جہاں انگریز شُعرا سے اکتساب کیا وھاں فارسی شعرا سے خیالات لا کر اپنی شاعری اُستوار کی۔۔۔۔ مثلا 1289 میں فوت ھونے والے مشہور شاعر فخر الدین عراقی کا شعر ھے
بہ زمیں چو سجدہ کردم، ز زمیں ندا برآمد
کہ مرا پلید کردی، ازیں سجدۂ ریائی
(فخر الدین عراقی)
کہ میں نے سجدہ کیا تو زمیں سے آواز آئی تُو نے ریاکاری سے بھر پور سجدے سے زمین کو پلید کر دیا۔۔۔۔
بالکل یہی خیال اقبال نے چُرا کر، جس کو اقبال پرست اکتساب اور نئی زبان ، مصرع مین جان ڈال دی کہہ کر ملفوف کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔۔۔ یہ چوری ھی ھے۔۔ خیر۔۔۔اقبال نے شعر کہا۔۔ اور میں اس شعر کا کافی شائق رھا ھُوں جب تک مجھے عراقی کے اصل ماخذ کا پتہ نہین چلا تھا۔۔۔
میں جو سربسجدہ ھوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ھے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں۔۔
اقبال۔۔۔
۔۔۔۔۔
بات یہ ھے سچ کو سچ کی طرح سے لکھیں جھوٹے مت بنیں ۔۔۔ یہ مت کہین اقبال نے دوسرے مصرعے کی تبدیلی سے شعر میں جان ڈال دی۔۔۔ فخرالدین کا شعر بے مثال ھے۔۔اور اس میں کسی خاص مذھب کی جانب اشارہ نہیں۔۔۔ اقبال کا نماز کا لفظ اور صنم کا لفظ ۔۔اسلامی مقامی خیال تک محدود ھے۔۔۔ اس لئے کم درجے کا ھے جبکہ فخر عراقی کا شعر بڑا اور خاکسساری سے پُر ھے۔۔ اور اصلی سچے خیال کا عکاس معلوم ھوتا ھے۔۔
اقبال مغربی ادبیات سے پورے طورپر آگاہ تھے۔ انھوں نے ’’بانگِ درا‘‘ میں درجن بھر امریکی اور برطانوی شعرا:جیسے لانگ فیلو، ایمرسن، ولیم کوپر، ٹینی سن، براؤننگ، سیموئیل راجرز اور دوسروں کی نظموں سے اخذ و ترجمہ کیا ہے۔ ورڈز ورتھ کا انھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا اور ۱۹۱۰ء میں اپنی انگریزی بیاض میں لکھا تھا کہ ورڈز ورتھ نے انھیں الحاد سے بچایا۔ اسی طرح ملٹن کا بھی ذوق و شوق سے مطالعہ کیا۔ اپنے ایک مکتوب محررہ مارچ ۱۹۱۱ء میں یہ بات درج کی کہ ’’ملٹن کی تقلید میں کچھ لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔‘‘ شیکسپیئر کو انھوں نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ گوئٹے سے بھی اقبال کا گہرا تعلق ہے۔ کیا مغربی ادبیات کے اس حصے سے آگاہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقبال پر مغربی جدیدیت کے اثرات تھے؟ جواب ھاں اور ناں دونوں میں ہوگا۔ ۔ دراصل اقبال نے مغربی ادبیات سے اخذ و استفادے کا عمل اپنے ابتدائی دور میں شروع کیا اور ۱۹۱۰ء تک ان کا شعری مائنڈ سیٹ متشکل ہو چکا تھا۔ اپنے ابتدائی دور میں اقبال کا مغربی ادبیات سے تعلق تقلیدی ہے، انھوں نے کئی مغربی نظموں کو پورے کا پورا اور کہیں مغربی نظموں کے کچھ مصرعوں کو ترجمہ کیا ہے۔ جیسے’’کوپر‘‘ کے اس مصرعے:
And, while the wings of fancy still are free
کو نظم ’’مرزا غالب‘‘ کا یہ مصرع بنا دیا ہے :
ہے پرِ مرغِ تخیّل کی رسائی تا کجا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اقبال نے مشرقی ادبیات کی روایت کو کھو جا ہی نہیں تھا اسے مرتّب بھی کیا اسکا بھر پور فائدہ اُٹھایا۔ مغرب کے ساتھ ساتھ مشرق کی شاعری کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال نے فارسی، عربی، اُردو، سنسکرت، ادبیات کو ایک روایت ٹھہرایا اور اسے اپنی شاعری کی روحِ رواں بنایا۔ ان کے یہاں فارسی شعرا ملّا عرشی، ابو طالب کلیم، فیضی، صائب، مرزا بیدل، عرفی، خاقانی، انوری، سنائی، حافظ، سعدی ، فخر الدین اور سب سے بڑھ کر فکر رومی کے اثرا ت بالواسطہ اور بطور تضمین ملتے ہیں۔ عربی ادبیات سے انھوں نے ہر چند کسی مخصوص شاعر کے اثرات نہیں لیے مگر عربی شعریات کے اصول سادہ بیانی اور صحرائیت پسندی ضرور قبول کیے۔ مولانا غلام رسول مہر نے جب طلوعِ اسلام پر تنقید کی تو اقبال نے جواب دیا کہ ’’میں عربی شاعری کی روش پر بالکل صاف صاف اور سیدھی سیدھی باتیں کہہ رہا ہوں۔‘‘
اردو ادب کے طالب علموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال کی کئی شہرہ آفاق نظمیں بھی غیر ملکی ادب سے اخذ شدہ ہیں۔ ان میں \’ماں کا خواب\’، \’بچے کی دعا\’، \’ایک مکڑی اور مکھی\’، \’ایک گائے اور بکری\’، \’ایک پہاڑ اور گلہری\’ (ماخوذ ازایمرسن) \’ہم دردی(ماخوذ ازولیم کوپر)، \’آفتاب\’ (ترجمہ، گایتری) \’پیامِ صبح\’ (ماخوذ از لانگ فیلو)،\’عشق اور موت\’ (ماخوذ ازٹینی سن)ِ، \’رُخصت اے بزمِ جہاں\’ (ماخوذازایمرسن) وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اقبال کو دھریت سے کسی المشہور بہ الہامی کتاب۔۔قرآن وغیرہ نے نہین بچایا۔۔۔۔۔بلکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک انگریز شاعر نے بچایا۔۔۔۔
مخزن کے پہلے شمارہ ﴿اپریل ۱۹۰۱ء ﴾ میں اقبال کی نظم "کوہستان ہمالہ” کے عنوان سے شائع ہوئی جس پر اڈیٹر کی طرف سے یہ نوٹ ہے۔
شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور جو علوم مشرقی اور مغربی دونوں میں صاحب کمال ہیں، انگریزی خیالات کو شاعری کا لباس پہنا کر ملک الشعراانگلستان ورڈسورتھ کے رنگ میں ہمالہ کو یوں خطاب کرتے ہیں۔
اپنی ابتدائی شاعری میں اقبال نے مغربی شاعروں سے بھر پور استفادہ کیا۔ اس کے متعلق لکھتے ہیں۔
"میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل، اور ورڈ سورتھ سے
بہت استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ غالب اور بیدل نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ مغربی شاعری کے اقدار کو سمولینے کے باوجود اپنے جذبہ اور اظہار میں مشرقیت کی روح کو کیسے زندہ رکھوں اور ورڈسورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچالیا”
اقبال پر تعمیری تنقید و گفتگو کی اصل وجہ کیا ھے؟
جواب:
چونکہ پاکستان کی گزشتہ حکومتوں نے اقبال سے منسوب شاعری اور فکرو فلسفہ کو عوام کے درسی نصاب میں زبردستی شامل کر رکھا ھے،اور ایک مخصوص زاوئیے سے اقبال سے ایک خاص شدت پسندانہ مذھبی سوچ منسوب کی ھوئی ھے، جس کے انکاری خود اقبال کے قابل بیٹے جسٹس جاوید اقبال بھی ھیں، اور بے شمار مشاھیر و علماِ تاریخ نے اقبال کی شاعری اور علم و فکر کا جائزہ مختلف نتیجے پر منطبق کیا ھے تو اس لئے یہ ضروری ھے کہ اقبال سے منسوب گمراہ کُن ، اور حکومتی پراپیگنڈے کی بجائے ثبوت اور دلیل کے ساتھ اصل اقبال کو اسکی شاعری ، فکر اور فلسفے میں پیش کیا جائے۔۔
تاریخ کا پہلا حوالہ علی عباس جلالپوری جیسے عالم کا ھے جسنے اقبال کی فکر اور فلسفے کو ایک متکلم کی سوچ قرار دیا، یاد رھے متکلم ایسا سوچنے والا ھوتا ھے جو اپنے ایمان و عقیدے کی حقانیت کو اولیت دے کر سائینسی اور زمانی مشاھدوں کی تشریح اپنے اُن عقائد کے ذریعے پیش کرتا ھے جن پر اسکا ایمان ھوتا ھے۔
جہاں کہیں ایمان سے باھر کوئی مشاھدہ یا جلوہ ھو تو اُس کے بارے میں خلفشار کا شکار ھو جاتا ھے۔
اقبال کے ذھنی و فکری خلفشار کے مختلف ثبوت اور نمونہ جات، میں اپنے مختصر مضامین میں بیان کرتا رھتا ھُوں، ایسا کرنے کا مقصد ھرگز اقبال کی شخصیت، خاندان سے کوئی دشمنی نہیں بلکہ اقبال کی فکری و شاعرانہ اصلیت کا درست جائزہ سامنے لانے کی کوشش ھے،
بعض نابکار میرے ایسے استنباط و دلائل کے جواب میں ذاتی رکیک حملے کرتے ھیں، کچھ کہتے ھیں، اقبال کے پیچھے کیوں پڑ گئے؟ اقبال نے تمھارا کیا بگاڑا ھے؟ کچھ کہتے ھیں تم اقبال جیسا ایک شعر کہہ کر دکھاو تو مانیں !
ایسی لایعنی باتیں اور مبازرت بھرے کلمے خود ظاھر کرتے ھیں کہ اس معاشرے کو اقبال کی اصل فکری روش سے متعارف کروانا اور بھی ضروری ھو گیا ھے کیونکہ یہ وُہ پود ھے جو مسلسل جھوٹے رُوپ کے درشن کر کے اقبال کو ناحق ایک مذھبی بزرگ قرار دینے کی کوشش کر رھی ھے اور اسکی وجہ اسکی وہ درسی معلومات ھیں جو اقبالیات کے شعبے نے خاص حکومتی شہہ پر جھوٹے طور پر اقبال سے منسوب کی ھیں۔
بعض نام نہاد پروفیسران تو ایسے آپے سے باھر ھوئے کہ اقبال کے معزز بیٹے جاوید اقبال کے ساتھ گفتگو کے دوران انکو جھٹلانے کی کوشش کرتے رھے۔ جبکہ جسٹس جاوید اقبال انتہائی لبرل سوچ کے دانشور تھے۔ انکے بقول پاکستان، ھندووں نے بنایا ھے۔ اقبال نے کبھی پاکستان بطور ایک الگ آزاد ملک کے کوئی تصور نہیں دیا تھا،
افسوسناک بات یہ ھےکہ پاکستان کے ٹی وی ریڈیو اخبارات دن رات اقبال کو مفکرِ پاکستان کہتے ھیں اس طرح ایک چالیس پچاس سال کی عمر تک کی نسل کو گمراہ کر دیا گیا ھے۔
جیسے پاکستان کے عام لوگ یہ سمجھتے ھیں کہ بھارت نے پاکستان پر پہلے حملہ کیا تھا یا پاکستان نے کوئی جنگ جیتی ھے، یہ تمام باتیں سچائی کے خلاف ھیں۔ دنیا کے اھلِ علم جانتے ھیں کہ پاکستان نے خود ھندوستان پر حملہ کیا تھا۔اور شکست کھائی۔
لیکن سچ بتانے والے کو پاکستان کا غدار کہہ کر شور و غوغا کیا جاتا ھے۔۔
اقبال پر اس لئے بھی سچی تعمیری تنقید لازم ھے کہ اقبال کو ایک بزرگ و مصلح کے طور پر پیش کیا جاتا ھے پس اس حوالے سے کوئی بھی جھوٹ اُن سے منسوب کر دینے سے سننے والا اقبال کے نام سے گمراہ ھوتا ھے۔
مثلآً اقبال سے منسوب ھے کہ ایک قاتل علم دین کے ناجائز عمل کو اقبال نے خوب اچھا کہا اور کہا کہ ترکھاناں دا مُنڈا بازی لَے گیا۔۔اسیں ویکھدے رہ گئے۔۔۔
یعنی یہ بات کہنے والے یہ کہنا چاھتے ھیں کہ توھین رسول کرنے والے کو قتل کرنا اقبال کے نزدیک بہت احسن اقدام تھا۔ لیکن اصل اقبال ایسے قتال پر اسطرح اُکسانے والا معلوم نہیں ھوتا۔
اس مثال سے یہ بات واضح ھوتی ھے کہ ایسے بیانات و فکر و تشریح سے اقبال کو ایک شدت پسند، قاتل ذھن، ٹھیٹھ مسلمان ، موقع پرست انسان کے طور پر پیش کیا جاتا ھے جو ایک غلط بات ھے۔
میری تحقیق و تبصرہ، اقبال بطورِ انسان، بطورِ شاعر، بطورِ مفکر، بطورِ فلسفی یا متکلم ، بطورِ باپ، بطورِ شوھر، بطورِ نثر نگار ، ، اقبال کیسے تھے پر مشتمل ھے۔
مجھے اقبال سے پرخاش نہیں بلکہ اقبال سے منسوب پاکستان حکومتوں اور جعلی یک نظر مقالوں سے پرخاش ھے۔ اور میں ایسے تمام مقالے رد کرتا ھُوں جو اقبال کو ایک آفاقی فلسفی کے طور پر پیش کرتے ھیں۔ اور جو دوسرے مغربی و مشرقی مشاھیر و شُعرا کے کلام پر مبنی اقبال کے کلام کو اقبال کا ھی کلام کہہ کر پیش کرتے ھیں۔
یعنی جیسے مغربی شُعرا کی شاعری کے تراجم والی اقبال کی شاعری، یا مقامی شعرا خوش خان خٹک، رومی، حافظ، اور ھندی شُعرا سے اکتساب و ترجمہ۔ یہ سب باتیں خالص ادبی لوازمات ھیں۔
لیکن میں کسی طرح بھی اس بات پر راضی نہیں ھو سکتا اور نہ آپ کو ھونا چاھئیے کہ جو شاعری مغربی و مشرقی شُعرا سے اکتساب ھے یا ترجمہ ھے یا ماخوذ ھے اُسے خالصتاً اقبال کی اپنی شاعری کا درجہ دے کر مضامین میں انکے حوالے استعمال کئے جاویں۔
میں سمجھاتا ھوں، کہ جب کسی تقریر میں اقبال پر بات کرتے ھوئے اقبال کی اعلی سوچ کی تعریف کرتے ھوئے حوالہ دیا جائے کہ اقبال کہتے ھیں کہ
محبت مجھے اُن جوانوں سے ھے
ستاروں پہ جو ڈالتے ھین کمند
تو ۔۔ قارئینِ کرام !!! ساری تقریر ھی جھوٹ پر مبنی ھے، یہ اقبال کے الفاظ نہیں ھیں ۔۔یہ خالصتاً پشتو کے شاعر خوشحال خان خٹک کا کلام ھے جس کا ھو بہو ترجمہ اقبال نے کیا ھے۔
یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ھے کہ آئیں بائیں شائیں کر کے آپ کہہ دیں کہ تو کیا ھوا ،،دوسرے شعرا بھی اور زبانوں کے شعرا کی شاعری کا ترجمہ کرتے رھے ھیں۔۔لیکن جناب،،دوسرے ایسے شعرا پر مضامین و تقاریر کرتے ھوئے انکے تراجم کو ان کی اپنی تخلیق نہیں قرار دیا جاتا۔۔۔
ایک بار تو حد ھی ھو گئی۔ لاھور میں اقبال ڈے پر، کچھ انگریز مدعو تھے۔۔ کسی بُدھو نے جسے معلوم نہ تھا کہ بچے کی دُعا اقبال کی نظم ، اصل میں انہیں برٹش انگریزوں کی مشہور شاعرہ میٹلڈا ایڈورڈ کی حمد کا ترجمہ ھے۔ اس نظم کو اقبال کی اعلی تخلیقِ ذاتی کہہ کر پیش کیا۔
یہ اس لئے ھوا ھے کہ درسی کتاب میں واضح طور کبھی بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ یہ نظم کس شاعرہ کی ھے اور نہ کبھی اُس شاعرہ کی تعریف کی گئی ھے۔ جو ادبی ھی نہیں اخلاقی بددیانتی ھے۔!۔
اس حوالے سے بہت سی باتیں میں شامل کرتا رھوں گا کتاب کا انتظار کیجئے۔ اور آئیندہ مجھ سے مت پوچھئیے کہ میں اقبال کے پیچھے کیوں پڑا ھُوں؟ اقبال نے قدیانیت چھوڑ دی اس لئے اُس کے دشمن ھو گئے ھو؟ یا اقبال جیسا ایک شعر تو کہہ کر دکھاو۔۔۔ اور یا کہ تم آسمان پر تھوک رھے ھو۔۔۔
ایسی لایعنی باتیں، کم پڑھے لکھے معاشروں میں ھی کی جاسکتی ھیں، میری مکمل وضاحت کے بعد بھی آپ کو میری اقبال پر گفتگو پر اعتراض ھے تو مجھے بلاک کر کے آپ تشریف لیجائیں۔۔لیکن مجھے اشتعال مت دلائیں یہ آپ کے لئے بھی بہتر ھوگا اور باقی قارئین کے لئے بھی
اقبال کی شکوہ جواب شکوہ کا بنیادی تصور ملٹن کی مشہور زمانہ پیراڈائز لاسٹ اور پیراڈائز ری گین سے لیا گیا ہے ۔ اگر آپ اقبال کی شاعری پڑھ کر ملٹن کی شاعری کا پڑھیں تو آپ بلاجھجک یہ بتا سکتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کے بنیادی خیال کہاں سے ماخوذ ہیں۔ اس لئے ہمارے محب وطن پاکستانی بڑئے فخر سے یہ کہتے ہیں کہ ملٹن مغرب کا اقبال ہے جبکہ ملٹن کا ظہور اس دنیا میں اقبال سے پہلے ہوئے لہذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اقبال مشرق کا جان ملٹن ہے ۔
اسی لئے اقبال کے بارے مضامین میں کہا جاتا ھےکہ
کسے خبر تھی ۹ نومبر 1877 کو ہندوستان کی سرزمین سیالکوٹ میں پیدا ہونے والا بچہ اسی زمین کو ٹکڑوں میں بانٹ کر انسان کو انسان کا دشمن بنانے کا تصور دے کر مصور پاکستان بننے کے ساتھ ساتھ فوجیوں کے پیٹ کو عوامی پیسوں سے عمر بھر بھرنے کا مکمّل انتظام بھی کرتا جائے گا ۔ کون جانتا تھا کے یہ کرامتی بچہ اپنی کرامتوں سے ہزاروں سالوں سے ایک ساتھ رہنے والے انسانوں کے درمیان مذہب اور قومی تفرقات ڈال کر نفرت کا ایسا بیج بو دے گا کے کچھ سال بعد یہی لوگ ایک دوسرے کی گردنیں اتارنے کو کار ثواب سمجھنے لگیں گے ۔ کسے خبر تھی مشرق مغرب شمال جنوب جیسی اصطلاحات کے معنی سے نابلد قوم اس شاعر کو شاعرِ مشرق کا خطاب دے کر خود اپنے ساتھ سے مشرقی پاکستان کو ہرنیا سمجھ کے پاکستان سے جدا کردے گی ۔ کسے علم تھا برطانوی ناؤل نگار کے A journey to india کے دو ادوار کے تجزیے کو کاپی پیسٹ کر کرکے کئ سال بعد خطبہ آلہ باد میں اس طرح سے توڑ مڑور کے پیش کرے گا کے اسکا معنی الٹا کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں کو بغاوت پر قائل کرلے گا ۔ کسے خبر تھی کے انسانیت سوچ سوز سے بننی والی ریاست کی اعلٰی ظرف قوم , دو قومی نظریے کو پاکستان بننے کے بعد خلیجِ بنگال میں بنگال کے وجود کے ساتھ ہی غرق کر کے پلٹن گراؤنڈ میں اپنی ہار کو تسلیم کرکے انڈین فوجیوں کے سامنے سلنڈر بھی کرچکی ہوگی جس کی ساری دکھ بھری داستان ہمہ یاراں دوزخ میں صدیق سالک لکھ کر ہر سال ماتمِ صغریٰ کا سامان کر جائے گا ۔
کون جانتا تھا کے علامہ اقبال کا یہ خطبہ کئ دہائیاں چلنے والی کشمیر بھارت اور پاک بھارت جنگ کے کالے بادلوں کی صورت کروڑوں لوگوں کے سروں پر موت بن کے منڈلاتے رہیں گے ۔ کون جانتا تھا جرمن فلاسفر نطشے کے فلسفے کو مولانا رومی کے فلسفے کے اندر ڈال کر ملک شیک کی صورت میں فلسفہ خودی دینا والا شخص بیک انگریزوں اور مسلمانوں کا قصیدہ گو اور خوشامدی ہوگا ۔ کسے خبر تھی ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر سب سے زیادہ دکھ اقبال کو ہوگا اور وہ اسکی یاد میں ایک ایسا مرثیہ لکھے گا جس میں حمد کے اوصاف نظر آئیں گے کون جانتا تھا کے ایک طرف اسلامی حکومت کا دعوے دار ملکہ وکٹوریہ کی وفات کو ہندوستان سے خدا کا سایہ اٹھ جانے کو مترادف قرار دے کر داد بھی سمیٹے گا ۔ مرثیے کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔
آئی ادھر نشاط ادھر غم بھی آگیا
کل عید تھی تو آج محرم بھی آگیا
صورت وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا
دیتے ہیں نام ماہِ محرم کا ہم تجھے
کہتے ہیں آج عید ہوئی ہے ہوا کرے
اس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرے
توجس کی تخت گاہ تھی اے تخت گاہ دل
رخصت ہوئی جہاں سے وہ تاجدارآج
اے ہندتیرے سرسے اُٹھا سایہ خدا
اک غمگسارتیرے مکینوں کی تھی گئی
ہلتا تھا جس سے عرش یہ رونا اسی کا ہے
زینت تھی جس سے تجھ کو جنازہ اسی کا ہے
(باقیات اقبال صفحہ 92-74 طبع دوم ( یہ مرثیہ مطبع خادم التعلیم میں چھپ کر شائع کیا گیا تھا۔ ) )
اس میں ملکہ وکٹوریہ یعنی تاجِ برطانیہ کی ملکہ کی وفات پر اقبال فرمارہے ہیں کے تیرے مرنے سے اللہ کا سایہ ہندوستان سے اٹھ گیا ہے اب اس گستاخ پر آپ اقبال کو اقبال رحمتہ اللہ علیہ لکھا جائے یا اسکا شمار عبداللہ ابی بن ابن سرح کی طرح مرتدین کی فہرست میں ڈال کر بعد میں نکال لیا جائے اسکا بوجھ میں سر سے اتر کر قارئین و فتاوٰی گر ایجنسیوں کے ناتواں کندھوں پر آپڑتا ہے۔
اقبال کی کند ذہنی : جہاں اقبال نے اپنی ساری زندگی مطالعہ میں گزارنے کے باوجود بھی ضائع ہی کی وہیں اقبال کی شاعری یوں تو عام فہم لوگوں کے سر کے اوپر سے گزرجاتی ہے جبکہ جو لوگ اقبال کو سمجھتے ہیں انکے اندر سے ۔ آپ نے دنیا میں آج تک کوئی ایسا فلاسفر نہیں دیکھا ہوگا جو عقل کی اہمیت کو جھٹلا کے انسانوں کو دوبارہ Apes سے پیچھے والی پرجاتیوں پر منتقل کرنا چاہتا ہو۔ خیر اگر آپکا واسطہ ایسے عالم فاضل سے نہیں پڑا تو پیشِ خدمت ہے جناب حضرت مولانا سر شیخ پیر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ آئیں انکے چند اشعار سے انکی کند ذہنی پر سند حاصل کرتے ہیں ۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشا لب بام ابھی
عشق فرمودہ اے قاصد سے سبک گام عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی
ان اشعار میں ایک تاریخی واقعے کا ذکر ہے جس میں حضرت ابراہیمؑ آتشِ نمرود میں کود گئے اور آگ میں حرارت کی صفت ختم ہوگئ اس طرح اللہ نے اپنے پیغمبر کو اس امتحان میں کامیاب کیا۔
اول تو کیا عام انسانوں کا تقابلی جائزہ پیغمبروں کی کرامات سے کرنا کوئی عقلی چیز ہے ؟
دوسرا یہ چیز قابلِ غور ہے اقبال کے نزدیک عقل کس کو کہتے ہیں چونکہ پیغمبر کو اگر اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کیلئے کسی آگ میں کودنا پڑے تو کیا یہ فیصلہ حضرت ابراہیم کی عقل نے نہیں کیا تھا ؟ یعنی حضرت ابراہیمؑ ذہنی طور پر کیا اس آتش میں کودنے کو تیار نہیں تھے ؟
اقبال ایک اور جگہ فرماتے ہیں
من بندہءِ آزادم عشق است امامِ من
عشق است امامِ من عقل است غلام من
اس شعر میں موصوف عقل کو من کا غلام قرار دیتے ہیں ۔ اقبال کی کم علمی کا اندازہ ادھر سے ہوجاتا ہے کے اقبال من کو عقل سے جدا جدا وجود تصور کرتے ہیں ۔ پہلے اس سے کے اقبال کے شعر کا پوسٹ مارٹم کیا جائے آئیے عقل و ذہن کی اس بحث پر نظر ڈال لی جائے ۔
انسان کے اندر شعور کا وجود یعنی سوچنے سمجھنے جیسی صفات پر تو سب کا اتفاق ہے ۔ جبکہ ایک گروہ اس شعور کو ذہن کو عقل کی پیداوار نہیں کہتا ہے بلکہ اس کو ایک الگ وجود کے طور پر جانتا ہے ۔ لیکن جدید سائنس کی روشنی میں دیکھا جائے تو شعور عقل سے ماخوذ ہے یعنی مخصوص انداز میں جب نیوٹران فائر ہوتے ہیں تو شعور کو وجود ملتا ہے ۔ اسکا سادہ سا مطلب یہ ہے کے من کا وجود بھی دماغ کے تابع ہے ۔ اور جس من کی بات اقبال کرتے ہیں اگر اسکی شرح ضمیر اور سپر ایگو کے لحاظ سے کی جائے تو تب بھی سپر ایگو من کا جز ہے جبکہ من عقل سے ماخوذ ھے اس لیے ان دونوں میں تفاوت کرنا کم علمی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور اگر اقبال عقل کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو کہتے ہیں جیسا کے ہماری قوم اور اقبال کے قارئین سمجھتے ہیں تو اس مادی دنیا میں اگر نظر دوڑائی جائے تو اس جدید دنیا میں سب کچھ عقل کی بدولت ھے۔ آج سے کئ دہائیاں پہلے دماغی بیماریوں کو سایہ اور جنات سے تعبیر کیا جاتا تھا اور عضویاتی عارضوں سے ہزاروں لوگ مرتے تو دنیا اس کو روح اسکو روح کی پرواز قرار دے کر راہِ فرار لیتی آج میڈیکل سائنس نے عضویاتی عارضوں کا پتا لگا کر اسکا کامیاب علاج بھی کیا یہی وجہ ہے کے لوگ آج بیماری کی صورت میں ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں ۔
اقبال کا تصورِ خدا :
یوں تو اقبال خود کو مسلمانوں کا رہنما جانتے تھے لیکن انکی قلمی اور شعری حرکتوں سے یہ دنیا کے اول مرتدین اور ملحدین میں آتے ہیں ۔ جس نے سلمان رشدی سمیت پنڈت چمپوتی کا ریکارڈ آج سے تقریباً سو سال پہلے ہی توڑ چکے تھے ۔ اقبال کا شکوہ جتنا مشہور ہے اس سے کئ گنا زیادہ بدنامِ زمانہ ہے جس میں موصوف نے ایسی گستاخیاں کیں ہے کے اس پاداش میں جناب جیل کی مقدس ہوا بھی کھا آئے لیکن باز پھر نہ آئے عدالتوں میں اقبال کے خلاف تقریباً سو کے قریب کیسز تھے جس میں قتل سے لیکر گستاخی جیسے شامل ہیں ۔ خیر ہم اقبال کے تصورِ خدا پر نظر دوڑاتے ھیں
اقبال کی نظم شکوے سے ایک بند ملاحظہ ہو
بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے , ہے خوشی ان کو کعبے کے نگہبان گئے
منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے , اپنی بغلوں میں دبائے ہوۓ قرآن گئے
خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
تو جناب اقبال اللہ تعالیٰ کو کہہ رہے ہیں کے تجھے اپنی توحید کا پاس خود بھی ہے کے نہیں ؟ جبکہ سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے خدا جو کرتا ہے وہ صحیح اور ٹھیک ہوتا ہے وہی قادرِ مطلق ہے وہ جو چاہے کرے ۔ خیر ہم اگلے شعر کی طرف چلتے ہیں ۔ یہ شعر اقبال کی کتاب بال جبریل کی ایک غزل سے ہے شعر کچھ یوں ہے
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
قارئین کو اتنا بتانا ہی کافی ہے کے یزداں سے مراد خدا ھے۔ یعنی اقبال کہنا چاہ رہے ہیں میرے اندر کا شکوہ اور جنون اس قدر ھے کے محشر کے دن یا میں اپنا گریبان پھاڑ لوں گا یا خدا کا گریبان نعوذباللہ ۔ خیر قومی شاعر جو ہوا ایسی حرکتیں تو کرے گا ہی۔
بال جبرائیل کی دوسری غزل میں اقبال فرماتے ہیں ۔
اسے صبحِ ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر
مجھے معلوم کیا وہ راز داں تیرا ہے یا میرا
اس شعر میں اقبال قران مجید میں بیان کردہ ایک واقعے پر سوال اٹھاتے ہیں اور اس واقعے کی حقانیت کو شکوک و شبہات کی نذر کرتے ہیں آئیے پہلے اس واقعے کے متعلق جانتے ہیں
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۤٮِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِيْسَ ۗ اَبٰى وَاسْتَكْبَرَ ۖ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ
پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا
صبحِ ازل سے مراد وہ وقت ہے جب اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کے آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا ۔۔
اقبال مسلمانوں کے اس عقیدے پر فلسفیانہ بحث کرتے ہیں کے اگر عزازئیل یعنی ابلیس میں انکار کی جرأت آئی تو اس جرأت کو پیدا کرنا اور اس وقت فعال کرنے کا ذمہ کس کا ھے ؟ یعنی اگر ابلیس نے سجدہ نہیں کیا تو اسکا ذمہ دار بھی خدا ہے یہ بات اگرچہ بحث کے دائرے میں آتی ھے لیکن بطورِ مسلمان ہم اس عقیدے پر سوال اور شک نہیں کرسکتے۔ یہاں اقبال قرآنی آیت سے ثابت شدہ واقعے کو شکوک و شبہات میں ڈال کر مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے ۔
بال جبریل کی مشہورِ زمانہ نظم , اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کے چھٹے شعر میں مولانا اقبالؒ فرماتے ہیں
حق را بسجودے , صنماں را بطوافے
بہتر ہے , چراغِ دیر و حرم بجھا دو
نہیں سمجھ سکے ارے سمجھے ہوتے تو اقبال کو قؤم شاعر کی بجائے قومی غدار کہتے ۔ خیر میں سمجھاتا ہوں ۔شاعر کہنا چاہ رہے ہیں خدا کو سجدے یعنی حرم کی طرف سرجھکانا اور بتوں کو پوجنا دونوں ایک ہی طرح کے کام ہیں بہتر ہے یہ دونوں کام بند کردیے جائیں ۔ واہ بھائی واہ چھا گئے ہو ۔۔۔۔!!! بہترین ۔۔۔!!! بہت اعلیٰ یہی تم نے آسان الفاظ میں لکھا ہوتا تو لوگ تمہاری زبان ضرور بند کردیتے۔
جدید تعلیم سے عداوت : علامہ اقبال نے جدید علم سے دشمنی کی وہ بنیاد رکھی کے آج بھی کند ذہن لوگ اس کام کو گناہ اور اہلِ علم لوگوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔ اگر غور کیا جائے تو علامہ اقبال ایک کنفیوزڈ پرسنلٹی ہے جو کبھی افغانستان سے آئی سستی چرس پی کر سطحی شاعری کرنے لگ جاتے تھے تو کبھی اسی حصولِ علم کو غلط قرار دینے لگ جاتے تھے
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روش مغربی ہے مد نظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
اچھا جی اب انگریزی پڑھنا بھی ٹھیک نہیں ہے تو آپ جو برطانیہ میں وکالت کیلئے گئے تو وہ قانون کی کتابیں شیخ نور محمد نے اردو میں ترجمہ کیں تھیں ؟
۔ ڈاکٹر صابر کلورُوی لکھتے ہیں کہ احباب کی فرمائش بھی اقبال کو بعض اوقات شعر گوئی پر مجبور کردیتی تھی ”جیسے ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر ایک دوست کی فرمائش پر نظم لکھی، اور گورنر پنجاب مائیکل اڈوائر کی فرمائش پر بھی“ پنجاب کا خواب ”کے عنوان سے ایک نظم لکھی“ مگر انہیں کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں کیا اور اس جیسی کچھ نظمیں اور اشعار وہ تھے جو علامہ اقبال نے کسی خاص موضوع و شخصیت پر لکھے ضرور مگر معاملے کی حقیقت پتہ لگنے اور دوستوں کے مشوررے پر اپنی زندگی میں ہی ترک کردیے۔
ڈاکٹر محمد اقبال کی پہلی تصنیف اسرار خودی 1916 میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں صوفیاء کرام اور حافظ شیرازی پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ صوفیا کرام پر جو تنقید کی گئی تھی اس کا جواب خواجہ حسن نظامی نے اپنے رسالہ ”ماہنامہ نظام الشیخ“ میں صراحت کے ساتھ دیا۔ جس کا جواب علامہ اقبال نے ”اخبار وکیل امرتسر“ میں دیا۔ اس طرح خواجہ حسن نظامی اور علامہ اقبال میں جواب در جواب کا سلسلہ ایک عرصہ تک چلتا رہا۔
جبکہ حافظ شیرازی پر جو تنقید کی گئی تھی اس پر علامہ اقبال کو ہند اور بیرون ہند سے سینکڑوں خطوط مصول ہوئے۔ کیونکہ اسرار خودی میں اقبال نے ایک دو نہیں بلکہ پینتیس عدد اشعار میں حافظ شیرازی پر سخت طنز اور تنقید کی تھی جنہیں بعد میں دوست احباب کے مشورے پر ترک کردیا۔ اس کے چند اشعار یہ ہیں
ہوشیار از حافظ صہبا گسار
جامش از زہر اجل سرمایہ دار
رہن ساقی خرقہ پرہیزاو
مے علاجِ ہولِ رسرا خیزاو
محفل او در خورِ ابرار نیست
ساغرِ او قابل احرارِ نیست
بے نیاز از محفل حافظ گزر
الحذر از گو سفنداں الحذر
اسی طرح تین فروری 1938 کو مسلم اخبارات (زمیندار، احسان اور انقلاب) نے علامہ اقبال کے مولانا سید حسین احمد مدنی کے خلاف یہ اشعار شائع کیے
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حُسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است
سرود بر سرِ ممبر کہ مِلّت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمدِؐ عربی است
بہ مصطفیٰؐ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است
ان اشعار میں آزادی برصغیر کے عظیم راہمناء پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ اس کا جواب جناب احمد سہیل نے سید حسین احمد مدنی کے حق میں طویل فارسی نظم لکھ کر دیا اور اس سے اسلامیان ہند میں نہ صرف قلمی بحث چھڑ گئی بلکہ بات تکرار تک بھی آن پہنچی اور مسلمان دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایسے موقع پر مولانا عبدالرشید نسیم (علامہ طالوت) آگے بڑھے اور علامہ اقبال اور سید حسین احمد مدنی سے طویل خط و کتابت کے بعد ان کی غلط فہمیاں دور کیں۔
علامہ اقبال نے اختلافات و غلط فہمیاں دور ہونے کے بعد اپنا تردیدی بیان شائع کیا جو ”روزنامہ احسان“ میں 28 مارچ 1938 کو شائع ہوا۔ مگر بدقسمتی سے ارمغان حجاز علامہ اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوئی جس میں اس کلام کو باقی رکھا گیا اور اب تک یہ کلام کتاب میں موجود ہے اور وجہ اختلاف بنتا ہے
ایسے ہی کچھ طنزیہ اشعار علامہ اقبال نے محمد علی جناح صاحب کے بارے میں بھی کہے تھے اور یہ اس زمانے کی بات ہے جب جناح صاحب ”قائد اعظم“ کے رتبے پر فائز نہیں ہوئے تھے۔
۔ پھر اقبال جیسی شخصیت نے اگر کسی زمانے میں جناح صاحب جیسے قائد کے بارے میں کچھ لکھا تو یہ دو قد آور شخصیات کا نقطہ نظر کا اختلاف تھا۔ اور یہ اختلاف ایک سے زیادہ مواقع پر ہوا جیسے مسلم لیگ میں دھڑے بندی کے وقت علامہ اقبال نے جناح صاحب بجائے لیگ کے شفیع گروپ کی حمایت کی۔ اور سب سے بڑھ کر جناح و اقبال دونوں ہی بشر تھے اور پیغمبروں کے سوا کوئی بشر بھی معصوم عن الخطا نہیں۔
چناچہ 9 نومبر 1921 کو روزنامہ زمیندار میں جناح صاحب کے طرز سیاست پر علامہ اقبال کی طنزیہ نظم ”صدائے لیگ“ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ جو درجہ ذیل اشعار پر مشتمل تھی
صدائے لیگ
لندن کے چرخ نادرہ فن سے پہاڑ پر
اترے مسیح بن کرمحمد علی جناح
نکلے گی تن سے تو کہ کرے گی تباہ ہمیں
اے جان برلب آمدہ اب تیری کیا صلاح
دل سے خیال دشت و بیاباں نکال دے
مجنوں کے واسطے ہے یہی جادہ فلاح
آغا امام اور محمد علی ہے باب
اس دین میں ہے ترک سوادِ حرم مباح
بَشریٰ لکم کہ منتظر مارسیدہ ہست
یعنی حجابِ غیرتِ کبریٰ دریدہ ہست
(روزنامہ زمیندار 9 نومبر 1921 )
نظم کی تشریح:
ان اشعار کا معنی و تشریح تو کوئی اقبال شناس ہی بہتر انداز میں کرسکتا ہے مگر میرے ناقص علم کے مطابق اس کی تشریح کچھ یوں بنتی ہے
پہلے شعر میں اقبال نے جناح صاحب کو طنز کرتے ہوئے مسیح (ع) سے تشبیہ دی کے کہ جناح صاحب خود ساختہ مسیح کی مانند لندن سے (بغیر کسی بشارت کہ) اچانک ہم پر نازل ہوئے ہیں
دوسرے شعر میں اقبال کا مطلب یہ ہے کہ تم ہمیں یعنی ملت کو تباہ کرنے کے واسطے آئے ہو کہ اس وقت کم و پیش تمام مسلمان تحریک خلافت کے پلیٹ فارم پر متحد تھے اور جناح صاحب کا لیگ کو دوبارہ زندہ کرنا اقبال کی نظر میں فتنہ و تقسیم کا موجب تھا۔
تیسرے شعر میں علامہ اقبال نے جناح صاحب کو بھٹکے ہوئے مجنوں سے تشبیہ دی ہے کہ مجنوں لیلا کے عشق کے جنون میں مبتلا ہوکر دشت میں بھٹکتا رہتا تھا اور اس کی زندگی سعی لاحاصل تھی۔ اقبال نے جناح صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے دل سے خیال دشت و بیاباں نکال دے یعنی لیگ کو جو دوبارہ زندہ کرنے کا عزم کیا ہے اسے ختم کردیں۔
چوتھے شعر میں علامہ اقبال نے آغا خان اور جناح صاحب پر شدید طنز کرتے ہوئے ذومعنی بات کی ہے۔ اقبال جناح صاحب کو اپنے مرکز سے نہ ہٹنے کی تلقین کرتے ییں اور جناح صاحب کو محمد علی باب جبکہ آغا خان کو ان کے مسلک کے امام سے سے تشبیہ دی ہے۔ محمد علی باب ایران کا اسماعیلی فرقے کی ایک ذیلی شاخ کا مبلغ تھا اور اس نے دعویٰ مہدویت کیا تھا۔ جسے بعدازاں شاہ ایران ناصر الدین قاچار کے حکم سے تبریز شہر کے چوراہے میں گولی مار کر اس کی نعش شہر سے باہر پھینک دی گئی تھی۔ اس کے پیروکار بابی کہلاتے ہیں۔
اسی حوالے سے جناب سعید ابراھیم نامی دانشور لکھتے ھیں کہ
تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے یہ ان قوموں کو کبھی معاف نہیں کرتی جو اس سے تمسخر کی مرتکب ہوتی ہیں۔ جو قومیں تاریخ کو مسخ کرتی ہیں تاریخ انہیں مسخ کر دیتی ہے۔ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک کا سفر اس بات کا بین ثبوت ہے۔ حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ تاریخ چھپانے‘ جھٹلانے اور مسخ کرنے پر قادر ہیں مگر یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ تاریخ کو نہ چھپایا جا سکتا ہے نہ جھٹلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی مسخ کیا جا سکتا ہے۔ جن قوموں یا حکمرانوں نے ایسا کرنے کی جرات کی وہ آج تاریخ کے صفحات میں خود عبرت کے نشان کی صورت محفوظ ہیں۔ تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل دراصل ان قوموں کا شیوہ ہے جو تاریخ کے کسی موڑ پر اپنی کمزوریوں کی بنا پر احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ برصغیر کے مسلمان اسی وقت احساس کمتری کے مرض مبتلا ہو چکے تھے جب انگریز نے طاقت سازش اور خود یہاں کے مسلمان حکمرانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں تخت حکمرانی سے اتار پھینکا تھا۔ مغلیہ دربار سے وابستہ بیکار اور عیاش جاگیردار طبقہ منہ کے بل گرا تو سب سے پہلے اس ’’مظلوم‘‘ طبقے کا درد سرسید احمد خان کے دل میں اٹھا اور انہوں نے اس طبقے کی عزت رفتہ کی بحالی کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ اور جنگ آزادی )جسے سر سید احمد خان غدر کا نام دیتے ہیں یعنی غداری کا عمل( میں انگریز افسران کی جان بچانے کی خدمات کے عوض انہوں نے انگریز حکمرانوں سے اس طبقے کے لئے ایک طرف عزت اور عہدہ طلب کیا اور دوسری طرف انہیں انگریز کے دربار میں مغلیہ دربار والی شان و شوکت دوبارہ حاصل کرنے کے گر بتائے۔ سر سید نے 1878ء میں وائسرائے لٹن کی لجسلیٹو کونسل کارکن نامزد ہونے کے بعد کونسل میں ’’قانون جائیداد موقوفہ خاندانی اہل اسلام‘‘ کے نام سے ایک بل پیش کرنے کے لئے تیار کیا‘ جس کا مقصد مسلمان رئیسوں یعنی مغل دربار کی اشرافیہ کی باقیات کو تباہی و بربادی سے بچانا مقصود تھا۔ لیکن بوجوہ پیش نہ کر پائے۔
مندرجہ بالا حقائق کی نشاندہی کا مقصد سر سید مرحوم کی ذات کو نشانہ تنقید بنانا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ سر سید کی ذات میں ایسی باتیں بھی شامل ہیں جن کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے اور ویسے بھی پاکستان میں رائج نظریہ حکمرانی کو یہ حقائق ’’وارہ‘‘ نہیں کھاتے۔ سو ایک خاص مقصد کے تحت انہیں عوام سے چھپا کر تاریخ کو مسخ کیا جاتا ہے۔ شبلی نعمانی جیسے جید تاریخ دان جن کا شمار سر سید کے ارکان خمسہ میں ہوتا ہے اس نظریئے کے حامی تھے کہ مسلمانوں کو جوش دلانے کے لئے اگر تاریخ میں جھوٹ کی آمیزش کر دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
ہماری تاریخ میں ایک صاحب تھے مولوی محمد باقر نامی جو دہلی سے ’’اخبار الظفر‘‘ کے نام سے ایک پرچہ نکالتے تھے۔ انہوں نے 1857ء میں حقائق کے برخلاف فتح کی بشارتیں سنانے کے لئے جھوٹی خبریں اور قصے گھڑے حتیٰ کہ ایران سے مجاہدین کے لشکر کی آمد کی جھوٹی خبریں شائع کیں۔ اسی طرح کا ایک اور کردار ’’طلسم لکھنؤ‘‘ کے مدیر مولوی یعقوب انصاری کا ہے جن کے نزدیک جہاد میں مسلمانوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے جھوٹی اور من گھڑت خبریں شائع کرنا جائز تھا۔ اسی حوالے سے ایک اور دلچسپ کردار جو سامنے آتا ہے وہ جمیل الدین خان ہجر کا ہے۔ یہ صاحب دہلی سے شائع ہونے والے ’’صادق الاخبار‘‘ کے مدیر تھے۔ انہوں نے بھی تاریخ میں جھوٹ کی آمیزش کے نظریئے کو آگے بڑھاتے ہوئے بہادر شاہ ظفر کے حق میں غیرحقیقی دعوؤں پر مبنی خبریں شائع کیں۔ انگریزوں کی شکست اور بادشاہ کی فتح کی غلط خبریں شائع کیں اور یہاں تک لکھ دیا کہ پنجاب سے تمام گوروں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ مزید لکھا کہ روس کی چار لاکھ فوج مجاہدین کی مدد کے لئے پہنچ رہی ہے اور ایرانی بھی ہماری مدد کو آنے والے ہیں۔
اگر ذرا غور سے دیکھیں تو تاریخ کو چھپانے اور مسخ کرنے کا یہ عمل مغلیہ دربار کے زوال سے شروع ہو کر کارگل کے معرکے تک پھیلا ہوا ہے۔ ہم نے اپنے احساس کمتری کو احساس برتری کے لبادے میں چھپانے کے لئے نہ تو واقعات کو معاف کیا اور نہ ہی شخصیات کو۔ وہ چاہے سر سید ہوں‘ اقبال ہوں‘ قائداعظم ہوں یا لیاقت علی خان ہم نے سب کا ایک ایسا غیر حقیقی تصور بنانے کی کوشش کی جس کی تاریخ تائید کرنے سے صاف قاصر ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کے سیاسی لیڈر تھے مگر پیغمبر ہرگز نہیں تھے ۔مگر ہمارا المیہ دیکھئے کہ ہم نے اپنے اجتماعی احساس کمتری سے جان چھڑانے کے لئے ان لوگوں کو ہر طرح کی انسانی غلطی اور خامی سے مبرا بنانے کی ٹھان لی۔ یہ بات ایک جانب تو عام مسلمان کی نفسیاتی تسکین کا باعث تھی اور دوسری طرف ہمارے حکمران طبقے کو بھی کچھ ایسے بت درکار تھے جن کے نام پر وہ عوام کو بیوقوف بنا سکیں اور یوں پاکستان بننے کے بعد ان زعماء کا ایک غیرحقیقی تصور اجاگر کرنے اور عوام کے ذہنوں پر مرتسم کرنے کا عمل حکمرانوں کی زیرنگرانی زوروشور سے شروع ہو گیا جو آج تک بڑی ڈھٹائی سے جاری و ساری ہے۔ ہمارے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے ماضی اور حال کے حقیقی خدوخال کا پوری ایمانداری سے جائزہ لیکر خود کو جھوٹی جذباتیت سے آزاد کروائیں۔ اور اب ویسے بھی تاریخ خود کو زیادہ دیر تک چھپانے کی مہلت نہیں دیگی۔ تاریخ کے ہر نازک موڑ پر نئے جھوٹ گھڑنا اور انہیں پراپیگنڈے کی حد تک پھیلانا ہماری ایک قومی روایت رہی ہے آج پھر ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں اور یہی وہ موقع ہے جہاں ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم کب تک جھوٹی تاریخ کی کچی بنیادوں پر پاؤں جمانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ ہمارے سیاسی زعماء انسان تھے پیغمبر نہیں۔ سو ہمیں تاریخ میں جھانک کر دیکھنا ہے کہ ہمارے یہ زعماء کیا ویسے ہی تھے جیسا کہ ہمیں نصاب‘ اخبارات اور ٹی وی ریڈیو پر بتایا جاتا ہے یا ان کی ذات کے بارے میں کچھ حقائق ایسے بھی ہیں جو ہمارے حکمران محض اس لئے چھپاتے ہیں کہ عوام کو ہیرو پوجا کے مقدس جال میں الجھا کر جذباتیت کے گڑھے میں گرائے رکھیں تاکہ عوام کو حکمرانوں کے اصل چہرے اور مفادات کا پتہ نہ چل سکے۔
علامہ اقبال مسلم تاریخ کا ایک محترم نام ہیں مگر کیا اقبال حقیقی معنوں میں ویسے ہی تھے جیسے ہمیں میڈیا اور نصاب میں دکھائے، بتائے اور سنائے جاتے ہیں۔ آیئے آج تاریخ کے صفحات سے اصل اقبال کو دریافت کرنے کی ایک سعی کرتے ہیں۔ اس کے لئے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ خود اقبال اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ علامہ21 مارچ 1931ء کو لاہور میں منعقد آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اجلاس میں اپنے خطبے میں کہتے ہیں
’’میں آپ کو ایک ایسے شخص کے انتخاب پر مبارکباد نہیں دے سکتا جس کی حقیقت ایک منصوبے باندھنے والے تخئیل پسند انسان سے زیادہ نہیں۔ کسی ایسے مطمئع نظر کا انکشاف کرنا جو دنیاوی حد بندیوں سے آزاد ہو ایک کام ہے اور یہ بتانا کہ کس طرح وہ مطمئع نظر زندگی بخش حقائق میں تبدیل ہو سکتا ہے بالکل دوسرا کام ہے۔ وہ آدمی کہ جس میں یہ جرأت ہو کہ وہ اوّل الذکر کام سے موخر الذکر کام کی طرف اپنے آپ کو منتقل کرے۔ اسے بار بار ان حد بندیوں کا جائزہ لینا ہوگا اور بسا اوقات ان کے سامنے جھکنا پڑے گا جنہیں وہ اب تک نظر انداز کرنے کا عادی رہا ہے۔ ایسے آدمی کو بدقسمتی سے مسلسل ذہنی کشمکش میں زندگی بسر کرنی پڑتی ہے اور اس پر باآسانی تناقص بالذات کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے‘‘۔ اس اقتباس کو پڑھنے کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ کیا اقبال تناقص بالذات کا شکار تھے تو اس کا جواب ہمیں ان کی شاعری اور حقیقی زندگی سے ڈھونڈنا ہوگا۔
جہاں تک اقبال کی شاعری کا تعلق ہے وہ جگہ جگہ نظریاتی تناقصات کا شکار نظر آتی ہے۔ مذہبی نظریات کے اعتبار سے آپ کی شاعری کے تین ادوار ہیں یعنی پہلے دور میں واحد الوجود کا پرچار ملتا ہے دوسرے دور میں آپ واحد الشہودی نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور آخری دور میں پھر سے وحدت الوجودی بن جاتے ہیں۔ وہ اپنی تمام شاعری میں ایک سیلانی الطبع شخص کے طور پر نظر آتے ہیں۔ سیاسی نظریات کے حوالے سے بھی جگہ جگہ تضادات کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسولینی بھی قابل تعریف ہے اور مارکس اور لینن بھی۔ مارکس کے بارے میں تو یہاں تک کہہ گزرتے ہیں کہ
نیست پیغمبر و لیکن دربغل دار و کتاب
اسی طرح سے کبھی جمہوریت کی تعریف کرتے ہیں اور کبھی اسے برا بھلا کہتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں
سلطانئ جمہور کا آتاہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
اور دوسری جگہ فرماتے ہیں
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اقبال نے اپنی شاعری میں اتنے متضاد خیالات پیش کئے ہیں کہ ان کا ایک سکیچ بنانا ناممکن ہے۔ اقبال بیک وقت آمریت پسند بھی ہیں اور جمہوریت پسند بھی۔ وہ سوشلسٹ بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ لہذا اقبال پاکستان میں بننے والی ہر حکومت کے لئے گیدڑ سنگھی کا کام دیتے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔ کیونکہ ان کی شاعری سے ہر طرح کے طرز حکومت کے لئے سند دستیاب ہو جاتی ہے۔
اقبال کا المیہ یہ ہے کہ ناصرف ان کی شاعری تضادات کا شکار ہے بلکہ ان کی حقیقی زندگی اور شاعری میں بھی بے حد بعد پایا جاتا ہے۔ اور یہ شعر اس بات کی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
اقبال نے واقعی درست فرمایا وہ لفظوں کی گھن گھرج سے تو خوب واقف تھے مگر ان کی اپنی حقیقی زندگی اس گھن گھرج سے محروم تھی اپنی پوری شاعری میں خودی کا سبق دینے والے اقبال جب 17 اکتوبر 1925ء کو گورنر پنجاب کے معاون افسر جے پی تھامسن کو مہاراجہ ہری سنگھ کے دربار میں ملازمت کے لئے درخواستی خط لکھتے ہیں توہماری نصابی کتابوں اور میڈیا پر نظر آنے والا اقبال شرم سے منہ چھپانے لگتا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:
’’میں آپ کو یہ خط ایک ایسی ضرورت سے لکھ رہا ہوں جس کا فوری تعلق میری اپنی ذات سے ہے اور مجھے امید ہے کہ ایسے وقت میں میری مدد فرمائیں گے جب کہ مجھے اس کی سخت ضرورت ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں جو جگہ خالی ہوئی تھی اس کے متعلق حکومت کے فیصلے کی خبر تو آپ کو مل چکی ہوگی۔ میری یہ بدقسمتی ہے کہ لوگوں نے مجھے اس سلسلہ میں ملوث کیا۔ مسلم پریس نے یہاں جتنا احتجاج کیا ہے یا آئندہ کرے گا‘ اس سے مجھے بہت زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ چیف جج کا خیال ہے کہ چند اشخاص جن میں میرا نام بھی شامل ہے اس احتجاج کی پشت پناہی کر رہے ہیں حالانکہ میرے خیال میں ان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جس قسم کی سازشوں میں مجھے ملوث کیا جا رہا ہے میرا ان سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ بہرحال ان حالات میں میرے لئے یہاں پر ایک وکیل کی حیثیت سے کام کرنا بے حد مشکل ہو جائے گا‘ خاص کر جب کہ مجھے ماضی میں بھی کئی طریقوں سے نقصان پہنچ چکا ہے۔ اس کے علاوہ چند دیگر ناقابل اظہار اسباب کی بنا پر جن کا اس خط میں تذکرہ مناسب نہیں‘ میں اس ماحول سے قطعی بیزار ہو چکا ہوں اور دل چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر کہیں دور چلا جاؤں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے قلم کی ایک جنبش مجھے ان تمام مشکلات سے نجات دلا سکتی ہے۔ اس وجہ سے اور آپ کی فیاضی اور ہمدردی پر یقین رکھتے ہوئے میں آپ کی سرپرستی کا خواہاں ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ مجھے کشمیر کی سٹیٹ کونسل میں کوئی منصب دلوا سکیں۔ شاید آپ کو علم ہو کہ کشمیر میرا آبائی وطن ہے اور کشمیر کے لئے میرے دل میں ایک خاص لگن موجود ہے۔ یہ ممکن ہے کہ (کشمیرکا) نیا مہاراجہ (ہری سنگھ) اپنی حکومت میں کچھ تبدیلیاں لانے کی سوچ رہا ہو۔ اگر ایسا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس معاملہ میں سلسلہ جنبانی کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اگر آپ مجھے تھوڑا سا سہارا دے سکیں تو یہ میرے لئے روحانی اور دنیاوی طور پر ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوگی اور میں آپ کے اس لطف و کرم کا ہمیشہ ممنون رہوں گا۔۔۔ اگرچہ اس معاملہ میں مجھے آپ کی ذات پر مکمل اعتماد ہے لیکن میں یہ بات آپ تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پالن پور کے نواب صاحب جو ہری سنگھ کے قریبی دوستوں میں سے ہیں میرے بھی دوست ہیں‘‘۔(پاکستان کی سیاسی تاریخ جلد۵، مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقا، زاہد چوہدری، صفحہ 247,248)
اس خط کو پڑھنے کے بعد لگا یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی اقبال ہیں جنہوں نے جاوید نامہ میں اپنے بیٹے کو یہ نصیحت فرمائی تھی کہ
ترا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ پیچ غریبی میں نام پیدا کر
اور مزید حیرت وہ قصیدے پڑھ کر ہوتی ہے جو انہوں نے انجمن حمائت اسلام کے سترہویں اجلاس میں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب میکورتھ ینگ اور ڈائریکٹر ایجوکیشن ولیم بل جیسے انگریزوں کی شان میں ’’خیرمقدم‘‘ کے نام سے پڑھے۔ نمونے کے طور پر (اختصار کے لئے ) صرف ایک شعر حاضر ہے
دعا نکلتی ہے دل سے حضور شاد رہیں
رہیں جہان میں عظمت طراز تاج و سریر(1)
ایک شعر حضرت بل کی شان میں یوں فرمایا
بڑھے جہان میں قبال ان مشیروں کا
کہ ان کی ذات سراپا ہے عدل کی تصویر(2)
(1-2 باقیات اقبال، آئینہ ادب،لاہور، 1978)
پنجاب کے بدنام ترین انگریز گورنر سر مائیکل ایڈوائر کی شان میں لکھا جانے والا قصیدہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔ یہ وہی شخص تھا جس نے جنگ عظیم اول کے لئے زبردستی پنجاب سے جوان بھرتی کئے جس کے خلاف پنجاب کے کئی اضلاع میں کسانوں نے بلوے اور ہنگامے کئے۔ معلوم نہیں اقبال ’’پنجاب کا جواب‘‘ نامی یہ قصیدہ نما نظم لکھ کر کن مظلوموں یا کم از کم مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔
اے تاجدار خطہ جنت نشان ہند
روشن تجلیوں سے تری خاوران ہند
محکم ترے قلم سے نظام جہان ہند
تیغ جگر شکاف تری پاسبان ہند
ہنگامہ وغا میں میرا سر قبول ہو
اہل وفا کی نذر محقر قبول ہو
تلوار تیری دہر میں نقاد خیر و شر
بہروز‘ جنگ توز‘ جگر سوز‘ سیز در
رایت تری سپاہ کا سرمایہ ظفر
آزادہ‘ پرکشادہ‘ پری زادہ‘ یم سپر
سطوت سے تیری پختہ جہاں کا نظام ہے
ذرے کا آفتاب سے اونچا مقام ہے
وقت آ گیا کہ گرم ہو میدان کارزار
پنجاب ہے مخاطب پیغام شہریار
اہل وفا کے جوہر پنہاں ہوں آشکار
معمور ہو سپاہ سے پنہائے روزگار
تاجر کا زر ہو اور سپاہی کا زور ہو
غالب جہاں میں سطوت شاہی کا زور ہو
ہندوستاں کی تیغ ہے فتاح ہشت باب
خونخوار‘ لالہ بار‘ جگردار برق تاب
بے باک‘ تابناک‘ گہرپاک‘ بے حجاب
دلبند‘ ارجمند‘ سحرخند‘ سیم ناب
یہ تیغ دل نواز اگر بے نیام ہو
دشمن کا سر ہو اور نہ سودائے خام ہو
اخلاص بے غرض ہے‘ صداقت بھی بے غرض
خدمت بھی بے غرض ہے‘ اطاعت بھی بے غرض
عہد وفا و مہر و محبت بھی بے غرض
تخت شہنشہی سے عقیدت بھی بے غرض
لیکن خیال فطرت انساں ضرور ہے
ہندوستاں پہ لطف نمایاں ضرور ہے
جب تک چمن کے جلوہ گل پر اساس ہے
جب تک فروغ لالہ احمر لباس ہے
جب تک نسیم صبح عنا دل کو راس ہے
جب تک کلی کو قطرہ شبنم کی پیاس ہے
قائم رہے حکومت آئیں اسی طرح
دیتا رہے چکور سے شاہیں اسی طرح
(پاکستان کی سیاسی تاریخ جلد۵، مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقا، زاہد چوہدری، صفحہ 244,242)
اقبال نے یہ نظم نواب ذوالفقار علی خان کی وساطت سے گورنر کی فرمائش پر تحریر کی تھی اور یہ وہی نواب ذوالفقار ہیں جن سے تعلق خاطر کی بنا پر اقبال کو سر کا خطاب ملا تھا۔
تاریخ بہت ظالم ہوتی ہے اسے لاکھ چھپایا جائے لیکن ایک نہ ایک دن وہ خود کو بے نقاب کرنے کا راستہ ڈھونڈ لیتی ہے اب ہم ایک ایسی بات کا تذکرہ کرنے جا رہے ہیں جو شاید بہت سے لوگوں کو (جن کاا قبال کے متعلق علم اور تصور صرف میڈیا اور نصاب کی حد تک محدود ہے) چونکا کر رکھ دے بلکہ شاید دکھ میں مبتلا کر دے مگر کیا کیا جائے تاریخ بہت ظالم ہوتی ہے اور حقائق بہت کڑوے اور تلخ۔۔۔ محض جھوٹ سننے کی خواہش سے سچ بدل نہیں جائے گا۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت علامہ اقبال تقریباً 1930ء تک احمدیت سے خاصے متاثر رہے بلکہ یہاں تک کہ آپ نے مرزا غلام احمد کی بیعت بھی کی۔ اور ان کے بڑے بیٹے آفتاب نے کئی سال تک قادیان میں تعلیم حاصل کی۔
’’خواجہ نذیر احمد اور مرزا بشیر الدین محمود کے بیان کے مطابق اقبال کے والد شیخ نور محمد نے فرقہ قادیانی کے بانی مرزا غلام احمد کی بیعت کی تھی۔۔۔ خواجہ نذیر احمد کا مزید بیان یہ ہے کہ خود علامہ اقبال نے بھی 1897ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے پاس کرنے کے بعد مرزا غلام احمد کی بیعت کی تھی اور وہ 1930ء تک مرزا کو مذہبی مجدد سمجھتے رہے تھے‘‘ (مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقاء۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ جلد نمبر5۔ زاہد چودھری(
1901ء میں انہوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ایک تقریر میں یوں اظہار خیال کیا
’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں‘‘۔
لیکن 1930ء کے بعد علامہ کے خیالات میں تبدیلی واقع ہونا شروع ہو گئی تھی گویہ تبدیلی مذہبی سے زیادہ سیاسی تھی اور اس کے پس منظر میں ایک تو احرار کی طرف سے اٹھنے والا مخالفت کا طوفان تھا اور دوسری طرف سر ظفر اللہ خان (قادیانی) سے سیاسی مفاد کا ٹکراؤ۔۔ حالانکہ مرزا صاحب نے تو 1901ء میں ہی اپنے ظنی نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا تھا۔ تو اقبال کو اپنے خیالات بدلنے میں تیس برس کا عرصہ کیوں لگا؟ اس کا ایک جواب خواجہ نذیر احمد دیتے ہیں ’’1931ء میں مرزابشیرالدین محمود سے اختلاف پیدا ہونے کے بعد جب ڈاکٹر اقبال نے احمدیوں کے خلاف کتاب لکھی تو میرے والد خواجہ کمال الدین نے اس سے پوچھا کہ ’’اویار تیری بیعت دا کی ہویا‘‘۔ اس پر علامہ کا جواب یہ تھا کہ ’’اوہ ویلا ہور سی ایہہ ویلا ہور اے‘‘
علامہ اقبال نے مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت کے تقریباً 33 سال بعد ایک طویل مضمون میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ یہ جولائی 1934ء کا ذکر ہے جب وزیر ہند لارڈ زئلینڈ نے سر ظفر اللہ خان (پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ) کی کارکردگی سے متاثر ہو کر انہیں سر فضل حسین کی جگہ وائسرے کی ایگزیکٹو کونسل کی مستقل رکنیت کی پیشکش کی۔ چونکہ اقبال خود اس نشست کے امیدوار تھے لہذا معترضین کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ اس موقع پر قادیانیوں کی مخالفت مذہبی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی مفاد کی وجہ سے تھی۔ اور اس مضمون کا مطلب یہی نکلتا تھا کہ ظفر اللہ خان مسلمانوں کا نمائندہ نہیں ہے۔ (حوالہ کے لئے ’’مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقاء۔ ص 272-73)
میڈیا سے ایک بات کا تواتر سے (پراپیگنڈے کی حد تک) ذکر کیا جاتا ہے کہ علامہ تصور پاکستان کے خالق تھے۔ اس بات کا جواب ہمیں علامہ کے اس خط سے باآسانی مل جاتا ہے جو انہوں نے 4 مارچ 1934ء کو ای جے تھامپسن کے نام لکھا جس میں انہوں نے شدت سے چودھری رحمت علی کی ’’پاکستان سکیم‘‘ سے لاتعلقی بلکہ برات کا اظہار کیا۔ لکھتے ہیں
’’مائی ڈیر مسٹر تھامپسن۱
مجھے اپنی کتاب پر آپ کا ریویو ابھی ابھی موصول ہوا ہے۔ یہ بہت عمدہ ہے اور میں ان باتوں کے لئے آپ کا بہت ممنون ہوں جو آپ نے اس میں میرے متعلق بیان کی ہیں۔ لیکن آپ نے ایک غلطی کی ہے جس کی میں فوری نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ یہ ایک فاش غلطی ہے۔ آپ نے میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس سکیم کا حامی ہوں جسے ’’پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میری سکیم نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جو تجویز پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبہ کے بارے میں تھی جو شمالی مغربی ہندوستان کے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری سکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کاحصہ ہوگا۔ پاکستان سکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے جو ایک علیحدہ ڈومینین کی حیثیت سے انگلستان کے ساتھ براہ راست تعلق رکھے گی۔ اس سکیم نے کیمبرج میں جنم لیا ہے۔ اس سکیم کے مصنفین کا خیال ہے کہ ہم جو گول میز کانفرنس کے مندوبین ہیں‘ ہم نے مسلم قوم کو ہندوؤں یا نام نہاد انڈین نیشنلزم کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
خیراندیش محمد اقبال
(پاکستان کی سیاسی تاریخ جلد۵، مسلم پنجاب کا سیاسی ارتقا، زاہد چوہدری، صفحہ 418,261 )
دلچسپ بات یہ ہے کہ علامہ پاکستان سکیم کی مخالفت 1934ء میں کر رہے ہیں اور وہ بھی انتہائی شدت سے جبکہ ان وہ مشہور و معروف خطبہ الہٰ باد جس سے تصور پاکستان اخذ کیا جاتا ہے وہ انہوں نے 1930ء میں یعنی 4 سال پہلے دیا تھا۔
ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے
اس خط سے تو صاف ظاہر ہے کہ علامہ ایک متحدہ ہندوستان کے دائرے میں رہتے ہوئے مسلمانان ہند کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دلوانے کے خواہش مند تھے۔ اور اس خودمختاری کے عوض متحدہ ہندوستان کے دفاع کی ذمہ داری بھی مسلمانوں کے کاندھوں میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ انگریز اور ہندو کو بتاتے ہیں کہ اسی خودمختاری کے نتیجے میں انہیں پنجاب سرحد اور بلوچستان سے ہندوستان کی کل فوج کا 62 فیصد سے زیادہ حصہ مسلم فوج کی صورت میں دستیاب ہوگا جو تمام ہندوستان کو غیرممالک کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھ سکے گا۔ مزید یہ کہ وہ ہندوؤں اور انگریزوں کو یہ یقین دہانی بھی کرواتے ہیں کہ مسلمانوں کی ریاستوں میں شرح سودپر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ کیونکہ ’’مسلم دور حکومت میں ہندوستانی مسلم ریاستوں نے شرح سود پر کوئی پابندیاں نہیں لگائیں‘‘ اقبال کا تصور پاکستان مزید ان جملوں سے واضح ہوتا ہے کہ ’’میرے نزدیک سب سے بہتر صورت یہ ہوتی کہ صرف برطانوی ہندوستان کے علاقوں پر مشتمل وفاق قائم کر کے ابتدا کی جاتی…… مسلمانوں کو اس وقت تک فائدہ نہیں ہو سکتا کہ جب تک انہیں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے پانچ میں تمام اختیارات مالبقی کے ساتھ اکثریت کے حقوق حاصل نہ ہوں اور وفاقی مجلس قانون ساز میں انھیں 33 فیصد نشستیں نہ ملیں…… ہمارا مطالبہ یہ ہونا چاہئے کہ ان مسلم ریاستوں کے علاوہ جو فیڈریشن میں شریک ہوں‘ ہمیں آل انڈل فیڈرل اسمبلی میں 33 فیصد نشستیں حاصل ہوں۔
آپ خطبہ الہٰ باد پورے کا پورا پڑھ لیجئے مجال ہے جو آپ کو آزاد اور خودمختار پاکستان کے حوالے سے ایک جملہ بھی دستیاب ہو جائے۔ مگر ہمارا یہ گلہ علامہ سے نہیں ہے بلکہ ان لوگوں سے ہے جو تسلسل کے ساتھ علامہ کا ایک غیر حقیقی اور خلاف تاریخ امیج بنانے اور قوم کو منوانے پر مصر ہیں۔
علامہ کے بارے ایک اور بات کہی جاتی ہے کہ ان کے دل میں پوری مسلم امہ کا درد تھا۔ وہ پان اسلام ازم کے حامی تھے اسی لئے انہوں ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ جیسی شاعری سے انکار کر کے وطن کو بت قرار دے دیا تھا اور مسلمانوں کی اجتمائیت کے متعلق اس خواہش کا اظہار فرمایا
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کا شغر
لیکن جب ہم مسلمانوں کے اتحاد کی اس قدر شدید خواہش رکھنے والے شاعر کو سیاست کے محاذ پر یہ کہتے سنتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان مسلمان بیرونی مسلمان حملہ آوروں سے بھی حفاظت کریں گے پان اسلام ازم کا تصور اور خواہش بغلیں جھانکنے لگتی ہے۔ اپنے خطبہ الہٰ باد میں کہتے ہیں
’’مجھے یقین ہے کہ وفاقی حکومت کے قیام کی صورت میں مسلم وفاقی ریاستیں ہندوستان کے دفاع کی خاطر غیرجانبدار بری اور بحری فوجوں کو قائم کرنے پر بخوشی رضامند ہو جائیں گی…… مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان کے وفاق پر مبنی ایک غیرجانبدار ہندوستانی فوج کے قیام سے مسلمانوں کی حب الوطنی میں اضافہ ہوگا اور اس سے اس بدگمانی کا بھی ازالہ ہو جائے گا کہ بیرونی حملہ کی صورت میں مسلمان‘ حملہ آور مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں گے‘‘
اس تمام خطبے سے ایک بات عیاں ہے کہ علامہ کے ذہن میں ایک کلی طور پر آزاد اور خودمختار پاکستان کا کوئی تصور نہیں تھا بلکہ ان کی خواش محض اتنی تھی کہ مسلمانوں کو ہندوستانی وفاق میں رہتے ہوئے اپنے ذاتی معاملات طے کرنے کی آزادی دیدی جائے اور آل انڈیا وفاقی اسمبلی میں 33 فیصد نشستیں الاٹ کر دی جائیں۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے وہ وفاق کی ہوگی اور مسلم ریاستیں ہندوستان کا اس حد تک دفاع کرنے پر رضا و رغبت تیار ہونگی کہ اگر حملہ آور مسلمان ہونگے تو ان سے لڑنے اور انہیں شکست دینے سے گریز نہیں کریں گی۔ اب آپ ہی بتایئے کہ اس خطبے میں سے اقبال کا ’’موجودہ تصور پاکستان‘‘ کس طرح سے دریافت کیا جائے یا ان کا پان اسلام ازم ڈھونڈا جائے۔ کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے کہ ایسی باتوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ مگر کیا کریں ہم جھوٹ کے اسقدر عادی ہو چکے ہیں کہ سچ ہماری سماعت میں خراشیں ڈال دیتا ہے اور ہم شدت درد سے چیخنے اور چلانے لگتے ہیں۔ اور ویسے بھی ایسا سچ لکھنے سے کئی لوگوں کے مفادات خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔
آخر میں یہی عرض کروں گا کہ یہ اقبال کا قصور نہیں کہ وہ ایسے کیوں تھے بلکہ یہ ہمارے مفادپرست طبقوں کا قصور ہے کہ انہوں نے اقبال کو وہ کیوں بنا دیا جو وہ نہیں تھے۔ ہمارے لئے بہتر یہی ہوگا کہ ہم اپنے مفاد کے لئے انسانوں اور لیڈروں کو پیغمبر بنانا چھوڑ دیں ورنہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ہمارا انسانوں سے اعتماد اٹھ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ھے)
رفیع رضآ

پاکستان میں جلسہ میں فوج کے خلاف گالیاں
چونکہ عوام اب جلسوں میں فوجی جرنیلوں کے نام لیکر گالیاں دے رھی ھے تو قانون بنا کر انہین روکنے کی کوشش کی بجائے عزت سے آرمی کے ان سب افسران کو استعفے دینے چاھئیں جو سیاست میں ملوث ھیں۔
اب فوج لازمی بیرکوں میں واپس بھیجی جائے گی۔۔۔۔۔ مارشل کی کوشش سے بڑا خون خرابہ ھوگا۔۔۔
Not ۔۔۔all۔۔۔۔۔ is ۔۔۔۔۔۔۔lost
سب کچھ ختم نہیں ھو گیا
کورونا کے مسائل نے زندگی مکمل تباہ نہیں کی۔۔۔۔روشنی کی کرنیں موجود ھیں
خوبصورتی وھیں ھے جہاں ھونی چاھئیے۔۔مایوس مت ھوں۔۔۔۔مکہ مدینہ سے دور زندگی جاری و ساری ھے۔
پرائم منسٹر پورٹل پر شکایت کیوں کی کنٹونمنٹ راولپنڈی کے عملے کا شہری پر تشدد…..
ہم پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے سینئر ممبر حسیب بهٹی صاحب کے ساتھ کنٹونمنٹ بورڈ کے اہلکاروں کی جانب سے بد تمیزی کی شدید مزمت کرتے ہیں. متعلقہ حکام فوری نوٹس لیں اور معاملے کی تحقیقات کروائیں. ثاقب عباسی سیکرٹری جنرل پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ
بلیک ھول ایک ستارے کو نِگلتے ھوئے
عین وہ لمحہ
جب بلیک ھول ایک ستارے کو ھضم کر رھا ھے،،سائینس کی پہلی بہترین ویڈیو۔۔۔
نواز شریف سمیت بہت سے لوگوں پر بغاوت کی ایف آئی آر کٹوانے والے کے پیچھے کون ھے۔۔صاف ظاھر ھے۔۔۔اس شخص پر خود اقدام قتل کا مقدمہ موجود ھے۔

عرفان ستار کی شاعری
عرفان ستار سے میرا تعارف اُنکے پہلے مجموعہ کلام تکرار ساعت کے ذریعہ ھُوا۔ تکرارِ ساعت اگرچہ میرے ذوق کو حیرت میں ڈالنے والی کتاب نہ تھی مگر اس میں پٹی ھوئی مُبتدیانہ شاعری سے پرے سفر کرتے شاعر کا عکس نمایاں تھا۔ اسی مجموعے میں ایک غزل اِس شاعر کے شعری سفر میں نئے راستے کھولنے کی علامت کے طور پر مُجھے یاد رھی۔۔۔۔۔
یہاں تکرار ِ ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے؟
مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے؟
تمہیں فرصت ہو دنیا سے تو ہم سے آ کے ملنا
ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے؟
ہمارے درمیاں ساری ہی باتیں ہو چکی ہیں
سو اب اُن کی وضاحت کے سوا کیا رہ گیا ہے؟
عرفان ستار چونکہ کراچی میں رھے تو کراچی کے نمائیندہ شُعرا کی ھم عصری نے ضرور اُن کی شاعری کا مزاج متعین کرنے میں حصہ لیا ھے۔۔۔جون ایلیا کی صحبتوں کے باوجود انہوں نے تکرارِ ساعت اور اُس کے بعد کے شعری سفر میں جون ایلیا کا سایہ بہت کم اپنے اسلوب پر پڑنے دیا ھے۔۔۔اگر ایک فقرے میں انکی شاعری کا مزاج بیان کرنا ھو تو وُہ زبان کے شاعر ھیں اور الفاظ کی نشست و برخاست سے شعر کہتے ھیں۔پچھلے پانچ برسوں میں انکی شاعری اب اپنا ایک خاص رنگ اوڑھنے کی کوشش میں قدرے کامیاب ھوگئی ھے۔۔۔
تعلق کو نبھانے کے بہت دکھ سہہ چکے ہم
سو باقی عمر اپنے ساتھ رہنا چاہتے ہیں
اس شعر میں الفاظ کی نشست و برخاست، اور دوسرے مصرعے کی عام بول کی طرح کی روانی قابلِ ذکر ھے۔۔۔مضمون آفرینی انکے ھاں بلند بانگ نہیں ھے۔۔۔یعنی لکھنوی تہذیب جیسے رچاو کے ساتھ شعر کہتے ھیں۔
مجھے کیا خبر تھی تری جبیں کی وہ روشنی مرے دم سے تھی
میں عجیب سادہ مزاج تھا، ترے اعتبار میں بجھ گیا
جنھیں روشنی کا لحاظ تھا، جنھیں اپنے خواب پہ ناز تھا
میں انہی کی صف میں جلا کیا، میں اُسی قطار میں بجھ گیا
قطع نظر اس مشقتِ سخن کے جو لمبی بحر میں انکی مہارت کی پہچان ھے، مضمون کی نُدرت دھماکہ خیزی کی بجائے آھستہ سے خنجر کی طرح فکر میں داخل ھوتی ھے۔۔اور یہی وُہ اسلوب ھے جسے میں نے پہلے ایک ھی جُملے میں بیان کرتے ھوئے کہا تھا کہ وُہ زبان کے شاعر ھیں اور الفاظ کی نشست و برخاست سے شعر کہتے ھیں۔
زیر نظر اشعار انکی بصیرت و بصارت کا بیان ھے۔۔۔۔۔
یہ کیا کہ ھم رکاب رھے خاک ِ رھگزر
کس کام کا جنوں جو قدم دشت بھر نہ ہو
بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے
آوارگان ِ شہر کہاں جا کے مر گئے
سکون ِ خانہٗ ِ دل کے لیے کچھ گفتگو کر
عجب ہنگامہ برپا ہے تری لب بستگی سے
تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ؟
میں اب اُکتا چکا ہوں تیری اِس وارفتگی سے
اس آخری شعر کی نُدرت دل چھو لینے والی ھے۔۔
عرفان ستار کا خیال ھے کہ شاعری ، خواص کی چیز ھے عوام کی نہیں۔۔۔اِسی لئے عرفان ستار کی شاعری میں خواص کے لہجے کی کھنک نمایاں ھے۔۔۔۔ انکے اس خیال سے مَیں بوجوہ اتفاق نہیں کرتا اور ھم دونوں ببانگِ دُھل ایک دودرے سے اختلاف رائے کا اظہار کرتے ھیں
سوشل میڈیا جو کہ ادب کی ترویج کا تیز ترین اور وسیع ترین ذریعہ ھے اُس سے عرفان ستار کو بھی مُستفید ھونے کا موقع مِلا، وُہ کبھی رنجیدہ و مایوس ھوکر مُجھے کہتے ھیں کہ دیکھو شُعر میں ارادی تجربے کو لوگ غلطی کہنے کی عادت ڈال بیٹھے ھیں۔مگر عرفان ستار یہ بات اُن لوگوں سے خود نہیں کہتے۔۔یہ رویہ عرفان ستار کی صلح جُو طبیعت کے ساتھ ساتھ انکی شاعری کا اسلوب بھی بناتا ھے۔۔۔
اُداس بس عادتاً ہوں، کچھ بھی ہُوا نہیں ہے
یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے
ذرا یہ دل کی امید دیکھو، یقین دیکھو
میں ایسے معصوم سے یہ کہہ دوں خدا نہیں ہے؟
میں اپنی مٹی سے اپنے لوگوں سے کٹ گیا ہوں
یقیناً اس سے بڑا کوئی سانحہ نہیں ہے
تو کیا کبھی مل سکیں گے یا بات ہو سکے گی؟
نہیں نہیں جاوٗ تم کوئی مسئلہ نہیں ہے
میں بغض، نفرت، حسد، محبت کے ساتھ رکھوں؟
نہیں میاں میرے دل میں اتنی جگہ نہیں ہے
مَیں نے جب بغور عرفان ستار کی شاعری کا مطالعہ کیا تو دیکھا کہ ان اسلوبِ شاعری کی دو شاخیں ھیں۔۔
ایک میں اُردو قدما کے زبان و بیان و تراکیب کے سہارے اپنے خیالات کی عکاسی ھے۔۔۔۔تو دُوسرے اسلوب میں جدید حسیت معنوی سطح پر تو نمایاں ھے مگر خارجی طور پر اُنکی شاعری قدامت یا کلاسیک کا پیرھن ھی پہنے رکھتی ھے۔۔۔وُہ بیان کے تجربات پر تو متفق ھیں مگر الفاظ کی شکست وریخت سے دامن بچائے جاتے ھیں۔۔
فکری سطح پر وُہ جو انتشار پیدا کرتے ھیں وُہ نہایت دھیما ھے۔۔۔کسی کسی جگہ انکا لہجہ اپنی عام روش سے پرے ذرا زور دار ھُوا ھے مگر تخاطب کی حد تک۔۔۔۔۔۔جیسے
اب اس پہلے شعر میں شاعر کا لہجہ درشتگی سے پُر ھے۔۔
تیرے لہجے میں تیرا جِہلِ درُوں بولتا ھے
بات کرنا نہیں آتی ھے تو کیوں بولتا ھے
مگر دُوسرے شعر میں وُہ واپس اپنے ادب آداب میں لوٹ آتے ھوئے اعتراض تو جاری رکھتا ھے مگر آھنگ دھیما کر لیتا ھے۔۔
تیرا اندازِ تخاطب ، ترا لہجہ ، ترے لفظ
وُہ جسے خوفِ خدا ھوتا ھے یُوں بولتا ھے
عرفان ستار نے بعض اشعار منظر کشی سے عبارت کئے ھیں اس کا یہ شعر مُجھے بہت بھلا لگتا ھے۔۔۔۔
وُہ اک روزن قفس کا جس میں کرنیں ناچتی تھیں
مری نظریں اُسی پر تھیں، رِھا ھوتے ھوئے بھی
گویا ساری زندگی کا مرکز ایک روزنِ قفس تھا۔۔۔۔۔۔۔یہ خیال کی گہرائی کا کمال ھے۔۔۔جو ھر کسی کو نصیب نہیں ھوتا۔۔۔۔
عرفان ستار ایک قادر الکلام شاعر ھیں انہو ں نے مختصر ترین بغروں کے علاوہ طویل ترین بحروں مین بہت رواں اشعار کہے ھین جن میں حیرت انگیز طور پر بعض اوقات انکے عام بحروں والے اشعار سے زیادہ روانی ھے۔۔۔۔شاید اسکی وجہ اُنکی ارادی محنت ھو۔۔۔
سوشل میڈیا کی آسانیوں نے جہاں شُعرا کے آُس کے رابطوں میں آسانیاں پیدا کی ھیں وھاں بےشمار خرابیاں بھی در آئی ھیں۔۔
یہ فیصلہ کرنا مشکل ھوگیا ھے کہ کونسے شاعر کی کونسی روش ھے کونسا اسلوب ھے۔۔۔۔۔؟ مِلے جُلے الفاظ۔۔۔و مضامین ، ملی جُلی ترکیبات اور درآمدہ و مُستعار تراکیب و استعارے شُعرائے اردو نے بے دریغ لُوٹ کھسوٹ کے ذریعے بٹورنا شروع کئے ھیں۔ عرفان ستار نے کافی حد تک اس سے دامن بچایا ھے۔۔۔مگر ایک غزل نظر سے گزری جس میں عرفان ستار بھی اِسی بہتے دھارے میں بہہ گئے۔۔۔۔
اپنی خبر نہیں، نہ اُسکا پتہ ھے ، یہ عشق ھے
جوتھا، نہیں ھے، اور نہ تھا، ھے یہ عشق ھے
میں ضرور کہوں گا کہ اِس روش سے شاعر کو بچنے کی ضرورت ھے۔۔۔کُوزہ گر۔۔۔۔عشق۔۔۔۔۔دیا۔۔شمع۔۔۔۔۔پروانہ۔۔۔۔۔اس قدر پِٹ گئے ھوئے الفاظ و مضامین ھیں جن کو اچھے شُعرا کو ترک کردینا چاھئیے۔۔۔۔اور اگر کبھی باندھیں تو ان الفاظ کے کوئی نئے معانی مرتب کرتے اسلوب میں باندھیں۔۔۔۔
اب یہ شعر جون ایلیا کے انداز کی یاد دلاتا ھے۔۔۔
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ھو
یعنی پڑھتے ھو شاعری میری؟
چاند حسرت زدہ سا لگتا ھے
کیا وھاں تک ھے روشنی میری؟
اگرچہ یہ دُوسرا شعر نُدرت بھرا مضمون لئے ھے مگر اسلوب میں جون ایلیا کا سایہ آنے سے ذرا کدورت ھوئی۔۔۔۔
اب مَیں ھر بات بھول جاتا ھے
ایسی عادت نہ تھی ، کہ تھی میری؟۔۔
ایلیٹ بھی ایزرا پاونڈ کی طرح استعارہ کو شاعری کا اصل جوہر قرار دیتا ہیں اور اس کے مطابق شاعر کا کام شخصیت کا اظہار نہیں بلکہ فنکاری ہے شاعر کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے مشاہدے میں چاہے خارجی ہو یا داخلی بالکل واضح رہے اور اس کو استعاروں اور تمثیل کے ذریعے واضح کرے اور اس کاخیال ہے کہ اشعار میں استعارے اور تمثیل محض تزئین و آرائش کا کام نہیں کرتے بلکہ شاعر کے وجدان کا مظہر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے عرفان ستار کے کلام میں استعارے کی کمی محسوس ھوئی۔۔۔عرفان ستار زبان کے تموج سے شعریت پیدا کرتے ھیں مگر استعارے یا تمثیل دونوں سے مفارقت برتتے ھیں۔۔
میرا خدا ازل سے ھے سینوں میں جا گزیں
وُہ تو کبھی بھی عرشِ بریں کا نہیں رھا۔۔
اب اس شعر میں استعارے کے استعمال کا بہترین موقع تھامگر شاعر کی طبیعت زبان کی چاشنی میں مستغرق ھے۔۔۔۔۔
نہیں نہیں یہ بھلا کس نے کہہ دیا تُم سے
مَیں ٹھیک ٹھاک ھُوں، ھاں بس ذرا اُداسی ھے
اگر عرفان ستار اسی انداز میں بول چال والے ڈھنگ پر اشعار کہتے رھیں تو بڑے لُطف کی بات ھے۔۔۔مگر وُہ بسا اوقات معانی کی تلاش میں ثقالت کا خطرہ مُول لیتے ھیں جس سے مَیں ذاتی طور پر مین اسلئے اجتناب کرتا ھُوں کہ شاعری عوام وخواص دونوں کی چیز ھے۔۔۔۔مگر عرفان ستار کے خیال میں شاعری صرف خواص کی چیز ھے۔ میرا استدلال یہ ھے کہ اگر شاعری خواص کی ھی چیز ھے تو خسرو کی شاعری عوام میں کیوں مقبول ھوئی؟۔۔بلھے شاہ کو کیوں بلند مقام عوام میں مِلا۔۔۔۔؟
ھو سکتا ھے کبھی یہ خواص کی چیز ھو مگر اب نہیں ۔۔اب یہ عوام وخواص کی چیز ھے۔۔۔اس لئے دونوں طبقات کی دلچسپی شاعر کو ملحوظ رھے۔۔۔یُوں بھی شاعری خود بیانی کا ایک فن ھے۔۔۔اور بیان کرنے والے کو زیادہ سامعین میسر آئیں تو کیا قباحت ھے؟۔۔
شعر کی زمین یعنی بحر پر اگرچہ شاعر کی گرفت بے پناہ ھے مگر۔۔۔بعض جگہ جب وُہ سادگی کو قربان کرتے ھیں تو عجب لگتا ھے۔۔۔
ایک آواز پڑی تھی، کہ کوئی سائلِ ھجر؟
آن کی آن میں پہنچا تھا لپکتا ھُوا مَیں
اس شعر کے پہلے مصرع کو سوالیہ نشان کی ضرورت نہ تھی۔۔۔۔۔
ایک آواز نے پُوچھا ، ھے کوئی سائلِ ھجر
ایسا لکھنے میں کیا حرج تھا؟۔۔۔دراصل شاعر اپنی زباندانی کا لُطف خود لے رھا ھے۔۔۔۔ایک آواز پڑی کا لُطف۔۔۔۔۔۔اور اس تلذذ میں مصرع کی قربانی دے دی۔۔۔۔۔
اور اُسکی وجہ شاید عرفان ستار کا یہ ماٹو ھے کہ۔
فرماں روائے عقل کے حامی ھیں سب یہاں
شاہِ جُنوں کا تُو بھی وفادار ھو کے رَہ
عرفان ستار الفاظ کی مشاطگی ، میں ثقالت کو روک نہیں سمجھتے۔۔۔انکا یہ شعر نہایت خوبصورت شعر ھے۔۔۔مگر صرف خواص کے لئے۔۔۔
تابِ یک لحظہ کہاں ، حُسنِ جُنوں کے پیش
سانس لینے سے توجہ میں خلل پڑتا ھے
عرفان ستار کے ھاں موجود و غیر موجود اور موجود کی موجودگی کے اسباب اور غیر موجود کی غیر موجودگی کے اسباب پر بے شمار اشعار مِلتے ھیں جو انکی فلسفیاتی اُپچ کے آئینہ دار ھیں۔
یہ جستجو، یہ طلب، یہ جنون و دربدری
مآل ِ عمر عدم ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟
وُہ اساطیر اور مذھب سے کُھل کر اختلاف کی جرات نہیں رکھتے اس لئے خفیف پیرایہِ اظہار کی آڑ لیتے ھیں۔۔۔یہ ان کا اسلوب بھی ھوسکتا ھے۔۔۔۔اور مصلحت کا تقاضہ بھی ،،،۔۔۔
میں جانتا ہوں جو منظر گنوائے بیٹھا ہوں
تجھے کہاں یہ خبر تیری تاب و تب کیا ہے
ہاں خدا ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں
اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے
قصوں کو سچ ماننے والے، دیکھ لیا انجام؟
پاگل جھوٹ کی طاقت سے ٹکرانے بیٹھا تھا
نہ پُوچھئیے وُہ کس کرب سے گزرتے ھیں
جو آگہی کے سبب عیشِ بندگی سے گئے
ھمارے یہاں پچھلی کئی دھائیوں سے شُعرا کی شاعری پر گفتگو کرتے ھوئے یا تو زمین و آسمان کے قلابے مِلائے جاتے ھیں یا کاپی پیسٹ قسم کے تبصرہ جات لکھ دئیے جاتے ھیں۔ تعمیری تنقید کا اردو مین دُور دُور تک کوئی نشان نہیں۔۔ابھی حال ھی میں ظفر اقبال نے اپنے ایک کالم میں رفیق خیال کی کتاب میں عروضی غلطیاں کی نشاندھی کی اور اس کتاب کے مضمون نگاروں میں گوپی چند نارنگ، محمد علی صدیقی اور عباس تابش بھی شامل ھیں۔۔عرفان ستار کے ھاں عروض پر جو دسترس دیکھنے میں آتی ھے وُہ اھم بات ھے۔۔کیونکہ انُکی نصآبی تعلیم دُوسرے موضوعات کے حوالے سے ھے،، وُہ پُوری گرفت سے اشعار کہتے ھیں۔۔اسی لئے ایک بار حلقہ ارباِب ذوق کی نشست میں افضال نوید کے بے وزن اشعار پر بات کئے بغیر وُہ نہ رہ سکے۔۔عرفان ستار اچھے شعر کے اھم پارکھ ھیں۔۔۔اس حوالے سے انہیں سینکڑوں اشعار ازبر ھیں۔
جدید حسیت کے حوالے سے مَیں پہلے بیان کر چُکا ھُوں وُہ خارجی اعتبار سے تو نہیں مگر داخلی اعتبار سے شعر میں بیان کرنے کے قائل ھیں۔۔
انکے اشعار ۔۔۔۔مختصر اھلِ سخن کی نشستوں میں بہت لُطف دیتے ھیں۔۔۔جہاں صآحب فکر بیٹھے ھوں۔۔وھاں ایسے اشعار کا مزہ لیا جاتا ھے۔۔
نہیں ہے جو، وہی موجود و بے کراں ہے یہاں
عجب یقین پس ِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں
نہ ہو اداس، زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی
خوشی سے جھوم، ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں
یہاں سخن جو فسانہ طراز ہو، وہ کرے
جو بات سچ ہے وہ ناقابل ِ بیاں ہے یہاں
نہ رنج کر، کہ یہاں رفتنی ہیں سارے ملال
نہ کر ملال، کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں
یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاوٗں میں رائگاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
کبھی سائبان نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم
کبھی بے مکاں کبھی لامکاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
ترے وصل کی جو نوید ہے، وہ قریب ہے کہ بعید ہے
مجھے کچھ خبر تو ہو جان ِ جاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
کبھی مجھ کو فکر ِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا مرے نکتہ داں، مری آدھی عُمر گزر گئی
ھم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر
مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی
اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہءِ پارینہ ہُوا
رونق ِ محفل ِ شیریں سخناں تھے ہم بھی
وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب
ورنہ تردید ِ صف ِ کجکلہاں تھے ہم بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرفان ستار سے جدید حسیت پر مبنی اشعار کی طلب کی جانی ضروری ھو گئی ھے۔۔اگرچہ انکی زنبیلِ سخن میں ابھی بےشمار اشعار موجود ھی جو فکری سطح پر تحرک لاتے ھیں۔۔اور اچھی شاعری کی پہچان یہ ھے کہ فکری تحرک لائے ورنہ شاعری کسی کو سنانا بے معنی ھوجاتا ھے۔۔جو امثآل مَیں نے اوپر درج کی ھیں انکی روشنی میں عرفان ستار ایک صاحبِ اسلوب شاعر ھیں۔۔۔اور دن بدن انکے کلام میں فلسفیانہ تفکر کی گُونج بڑھتی جا رھی ھے۔۔۔جو وقت کی ضرورت ھے۔۔
ابھی اس عمومی تجزئیے پر اکتفا ھے کسی اور نشست میں انکے ھاں کی تراکیب و تماثیل اور موضوعات پر الگ سے گفتگو کروں گا۔۔۔تب تک طویل ترین بحر میں عرفان ستار کا کمال دیکھئے۔۔
رزق کی جستجو میں کسے تھی خبر، تو بھی ہو جائے گا رائیگاں یا اخی
تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی
جب نہ تھا یہ بیابان دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگذر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی
جب یہ خواہش کا انبوہ وحشت نہ تھا، شہر اتنا تہی دست فرصت نہ تھا
کتنے آباد رہتے تھے اہل ہنر، ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی
یہ گروہ اسیران کذب و ریا، بندگان درم، بندگان انا
ہم فقط اہل دل، یہ فقط اہل زر، عمر کیسے کٹے گی یہاں یا اخی
خود کلامی کا یہ سلسلہ ختم کر، گوش و آواز کا فاصلہ ختم کر
اک خموشی ہے پھیلی ہوئی سر بسر، کچھ سخن چاہیئے درمیاں یا اخی
رفیع رضا
کینیڈا 2015
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرفان ستّار ۱۸ فروری ۱۹۶۸ میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لیبیا کے شہر البیضا میں حاصل کی جہاں ان کے والد جو ڈاکٹر تھے، بغرض ِ ملازمت مقیم تھے۔ لیبیا سے واپسی پر کراچی کے بی وی ایس پارسی ہائی اسکول سے میٹرک، اور ڈی جے سائنس کالج سے ۱۹۸۶ میں انٹر اور ۱۹۸۹ میں بی ایس سی کیا۔ ۱۹۹۲ میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (I.B.A.) سے MBA کی تعلیم مکمل کی۔ چند برسوں بعد ۲۰۰۴ میں SZABIST, Karachi سے مینیجمنٹ سائنس میں MS کی ڈگری حاصل کی۔ مختلف اداروں میں اعلٰی عہدوں پر فائز رہے۔ ۲۰۱۰ میں کینیڈا منتقل ہوگئے اور اب ٹورانٹو میں مستقل سکونت ہے۔
شاعری کا آغاز کالج کے دنوں میں ہوا، اور ڈی جے سائنس کالج کے مجلّے ’’مخزن‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ۱۹۹۵ میں جون ایلیا سے ملاقات کے بعد تخلیقی معاملات میں سنجیدگی آئی اور ادبی جریدوں میں کلام شائع ہونا شروع ہوا۔ پہلا اور تاحال شعری مجموعہ ’’تکرار ِ ساعت‘‘ ۲۰۰۵ میں شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بےحد پذیرائی سے نوازا گیا۔
شاعری میں غزل ان کی محبوب ترین صنف ہے۔ شاعری کے علاوہ تنقیدی مضامین اور کتابوں پر تبصرے بھی لکھتے رہے اور اردو کے روزنامے جسارت کے ادبی صفحے کے لیے کیے گئے ان کے انٹرویوز بھی ادبی حلقوں میں بہت اہم سمجھے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا کینیڈا
مولوی قوی صآحب کی نئی ویڈیو مبارک ھو
پی ٹی آئی اور فوج کے ھمنوا جعلی اکاونٹ فیس بپک نے بند کر دئیے۔ ان اکاونٹس سے فوج کے خلاف سچ لکھنے والے اکاونٹس کی رپورٹس کی جاتی تھیں۔ احمدیوں کے خلاف پراپیگنڈا کیا جاتا تھا۔۔۔اس سے پتہ چلا پی ٹی آئی اور فوجی ھمدرد اکاونٹ جعلی اور معاوضے پر بنائے گئے گدھوں کے اکاونٹس تھے۔۔شرم کرو شرم،،،،دنیا میں سماجی رابطوں کی سب سے بڑی ویب سائٹ فیس بک نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اپنے پلیٹ فارم پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے 103 ویب پیجز، 78 گروپس، 453 انفرادی اکاؤنٹس اور 107 انسٹا گرام اکاؤنٹس پر مشتمل ایک ایسے ‘نیٹ ورک’ کو معطل کر دیا ہے جو مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث تھا۔فیس بک کے مطابق انہوں نے ان مشتبہ اکاؤنٹس کی چھان بین کی تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ اکاؤنٹس ’منظم اور غیر مصدقہ رویے‘ کے مرتکب ہوئے ہیں۔فیس بک نے اپنی اس رپورٹ کو ’کووآرڈینیٹڈ ان اتھینٹک بیہیوئر‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے یعنی ایک ایسی رپورٹ جو ان اکاؤنٹس کی نشاندھی کرتی ہے جو بڑے منظم طریقے سے چلائے جا رہے ہیں اور عوامی بحث و مباحثے کا رخ موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔فیس بک نے ان اکاؤنٹس اور صفحات سے متعلق معلومات امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیٹ آبزرویٹری گروپ (ایس آئی او) کو فراہم کیں تھیں۔اس گروپ کی جانب سے کی گئی تحقیق میں سب سے اہم قدر مشترک یہ سامنے آئی کہ معطل کیے جانے والے اکاؤنٹس فیس بک کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ‘منظم طریقے سے بڑے پیمانے پر ایسے اکاؤنٹس کو رپورٹ کر رہے تھے جو پاکستان، اسلام، پاکستانی حکومت اور پاکستانی فوج کے خلاف مواد شائع کرتے تھے۔’ایس آئی او کی جانب سے کی گئی تحقیق سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ معطل کیے جانے والے اکاؤنٹس احمدی برادری سے منسلک اکاؤنٹس کو بھی معطل کرنے کے لیے رپورٹ کرتے اور اس نیٹ ورک کے پیجز اور اکاؤنٹس پر شائع مواد پاکستانی فوج، پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی تعریف سے بھرے ہوئے تھے۔
پی ٹی آئی اور فوج کے ھمنوا جعلی اکاونٹ فیس بپک نے بند کر دئیے۔ ان اکاونٹس سے فوج کے خلاف سچ لکھنے والے اکاونٹس کی رپورٹس کی جاتی تھیں۔ احمدیوں کے خلاف پراپیگنڈا کیا جاتا تھا۔۔۔اس سے پتہ چلا پی ٹی آئی اور فوجی ھمدرد اکاونٹ جعلی اور معاوضے پر بنائے گئے گدھوں کے اکاونٹس تھے۔۔شرم کرو شرم،،،،دنیا میں سماجی رابطوں کی سب سے بڑی ویب سائٹ فیس بک نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اپنے پلیٹ فارم پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے 103 ویب پیجز، 78 گروپس، 453 انفرادی اکاؤنٹس اور 107 انسٹا گرام اکاؤنٹس پر مشتمل ایک ایسے ‘نیٹ ورک’ کو معطل کر دیا ہے جو مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث تھا۔فیس بک کے مطابق انہوں نے ان مشتبہ اکاؤنٹس کی چھان بین کی تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ اکاؤنٹس ’منظم اور غیر مصدقہ رویے‘ کے مرتکب ہوئے ہیں۔فیس بک نے اپنی اس رپورٹ کو ’کووآرڈینیٹڈ ان اتھینٹک بیہیوئر‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے یعنی ایک ایسی رپورٹ جو ان اکاؤنٹس کی نشاندھی کرتی ہے جو بڑے منظم طریقے سے چلائے جا رہے ہیں اور عوامی بحث و مباحثے کا رخ موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔فیس بک نے ان اکاؤنٹس اور صفحات سے متعلق معلومات امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیٹ آبزرویٹری گروپ (ایس آئی او) کو فراہم کیں تھیں۔اس گروپ کی جانب سے کی گئی تحقیق میں سب سے اہم قدر مشترک یہ سامنے آئی کہ معطل کیے جانے والے اکاؤنٹس فیس بک کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ‘منظم طریقے سے بڑے پیمانے پر ایسے اکاؤنٹس کو رپورٹ کر رہے تھے جو پاکستان، اسلام، پاکستانی حکومت اور پاکستانی فوج کے خلاف مواد شائع کرتے تھے۔’ایس آئی او کی جانب سے کی گئی تحقیق سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ معطل کیے جانے والے اکاؤنٹس احمدی برادری سے منسلک اکاؤنٹس کو بھی معطل کرنے کے لیے رپورٹ کرتے اور اس نیٹ ورک کے پیجز اور اکاؤنٹس پر شائع مواد پاکستانی فوج، پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی تعریف سے بھرے ہوئے تھے۔
،،،،،،غزل،،،،
دیکھئے آپ کی مرضی پہ نہیں رھنا ھے
یہ جگہ چھوڑ بھی جاؤں تو، یہِیں رھنا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ آ جاتے ھیں اور ساتھ میں بس جاتے ھیں
اب جو رھنا ھے تو بس اپنے تئیں رھنا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی اک سمت میں ھونا ھے جو پہلے نہیں ھو
دُور رھنا ھے کسی کے نہ قریں رھنا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساری بدصورتی انکار نے لے جانی ھے
اور اقرار کے لمحوں نے حسیں رھنا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جتنے دن مَیں نے تِری بات نہیں کرنی ھے
اُتنے دِن لاوہ کوئی ،زیرِ زمیں رھنا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُٹھ کے جاتے ھوئے درویشوں کو روکو لوگو
ورنہ اِس دیس میں دُکھ، تخت نَشِیں رھنا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا کیا ھے تِرا نقصان ھے اے حیرتِ کُل
نہ گُماں رھنا ھے باقی نہ یقِیں رھنا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دِل ھے میرا کوئی کعبہ تو نہیں ھے کہ جہاں
وھم رھنے کی طرح کوئی مَکِیں رھنا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واعظا دیکھ یہ جنّت کے فسانے نہ سُنا
نہیں رھنا ھے اگر تیرے نگِیں رھنا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کُنجِ یاراں میں اُسی شانہِؑ حیرت کے قریب
اب جو رھنا ھے تو بس ھم نے وھیں رھنا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرق ھے عشق و محبّت کے سفر میں سائیں
کہیں رُکنا ھے ھمیں، اور کہِیں رھنا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تابِ نظّارہ ترے پیروں سے مدّھم تو نہیں
بس یہ ضِد ھے کہ مجھے تابِ جبیں رھنا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری مجبوری ھے مَیں زیرِ زمیں جاؤں گا
اُس کی مجبوری اُسے عرش نشیں رھنا ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رفیع رضا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حُبّ الوطنی کا فریب۔۔۔ Patriotism
یومِ پاکستان کی بھیڑ چال پر ایک ھیومنسٹ تحریر،،،،،،،،،،،،،نام نہاد حُب الوطنی کے خلاف 10 اھم دلیل پر مبنی نُکات جنہیں، رد کیا ھی نہیں جا سکتا ھے کیونکہ وُہ مشاھدے اور حقائق پر مبنی ھیں۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،1:۔۔ حب الوطنی ،،،جنگ پر آمادہ کرسکتی ھے۔ یہ جنگ دفاعی، یا جارحیت مبنی ھوسکتی ھے۔۔ دونوں صورتوں میں انسانیت کے خلاف ھوگی انسان اور قدرتی ماحول اور جانداروں کا نُقصان ھوگا۔۔یہ صرف پاکستانی پروفیسر ڈاکٹر ھُود بھائی ھی نہیں بلکہ بےشمار اعلی سائینسی اور فلاحی کام کرنے والوں کی رائے ھے۔۔ مثلاً آئین سٹائین کہتا ھے۔۔Albert Einstein said he hated “all the loathsome nonsense that goes by the name of patriotism.” حبُ الوطنی کے نام پر حماقت کا پہاڑ کرنے کی کوشش سے مجھے نفرت ھے۔۔اسی طرح ٹالسٹآئی کہتا ھے۔۔۔Leo Tolstoy said, “One would expect the harmfulness and irrationality of patriotism to be evident to everybody.”یہ معلوم ھو ھی جاتا ھے۔ کہ حب الوطنی کے خسارے اور غیر منطقی احساسات کتنے نقصان دہ ھیں۔2: ۔۔ حب الوطنی کے نام پر مفید سیاسی کوششیں اور کاروائیاں روکی جا سکتی ھیں۔۔اور آپ دنیا بھرمیں دیکھتے ھیں آمر خاص طور پر ایسا کرتے ھیں جبکہ پولیٹیکل آمر بھی ایسا کرتے ھین جیسے روس کا پیوتن، ترکی کا اردوان، پاکستان کی فوج اسی بہانے سے سیاسی کوششوں کو دبا دیتی ھے۔۔3:۔۔حب الوطنی کی وجہ سے تفریق اور نفرت کے جزبات پیدا ھوتے ھیں۔ اقلیت کو دبایا جاتا ھے۔۔وُہ اور ھم کا فلسفہ رائج ھو جاتا ھے۔۔۔ ھم وفادار ھین وہ نہیں ھیں کا الاپ الاپا جاتا ھے۔۔۔جیسے انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف یہی کہنا۔۔اور پاکستان میں جیسے اقلیتوں یا احمدیوں کے خلاف روز کا فساد یہ کہنا کہ وہ وفادار نہین سرکاری مسلمان وفادار ھین۔۔جبکہ سب امرا اور جنرل اور ریٹائیرڈ جنرل ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جا بستے ھیں۔4:۔۔۔حب الوطنی کی وجہ سے اور اسکے نام پر نفرت اور مار دھاڑ کے مواقع کثرت سے میسر ھوتے ھیں۔۔مثلا کوریا میں ان لوگوں پر تشدد ھوتا ھے جنکو قومی ترانے کا کوئی لفظ بھول جائے۔۔۔ کسی خاص نسل کو غیر حمب الوطن قرار دینے میں ایک ثانیہ نہیں لگتا ۔۔۔کوئی جرم کر کے غیر ملکی یا جسے ابھی شہریت نہ ملی ھے اس پر یہ کہہ کر دباو ڈلا جاتا ھے کہ ھم اس ملک کے وفادار ھین ھمارا ھے تم جاو۔۔۔۔امریکہ میں کالوں اور لاطینیوں سے نفرت اسکا ثبوت ھے۔۔ سعودی عرب میں خآص عربی لوگ ھندوستانیوں پاکستانیوں بنگالیوں کو کُتا کہہ کر پکارتے ھیں۔۔5:۔۔حب الوطنی کے نام پر شہریوں کے قدرتی حقوق سلب کرنے میں نہایت آسانی ھوتی ھے۔۔ جیسے پاکستان میں قومی سلامتی کے نام پر لبرل یا سیکیولر لوگوں کو غائب کیا جاتا ھے تشدد کیا جاتا ھے یا قتل کردیا جاتا ھے۔۔انڈیا میں کشمیریوں سے زیادتی ھوئی ھے۔۔ پاکستان میں پاکستانی کشمیر میں، بلوچستان مین سندھ میں لوگوں کو فوج غائب کر دیتی ھے قتل کر دیتی ھے ھزاروں لوگ لاپتہ ھیں۔۔ صحافی سوال کرنے سے ڈرتے ھیں وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ فوج نے ایسا کیا وہ لفظ استعمال کرتے ھین خفیہ ادارے۔۔قومی ادارے سیکیورٹی فورسز۔۔ایک ادارے کے فرد۔۔۔وغیرہ۔۔یہ فاشسٹ ریاست بن جانے کا ثبوت ھوتا ھے۔۔6:۔۔۔حب الوطنی کے نام پر سنسر شپ کا نفاذ آسان ھوتا ھے۔۔یہ ستم دنیا بھر میں ڈھایا جاتا ھے۔۔خاص طور پر ایران ، پاکستان، ھندوستان کے کچھ علاقے ، چین۔۔کوریا،،،ترکی۔۔۔عرب ممالک میں ایسا عام ھوتا ھے۔۔۔7:۔۔۔حب الوطنی کے نام پر مختلف ھونے ،غیر نسل ھونے غیر متلعقہ گروپ ھونے کے الزامات لگائے جاتے ھین اور ظلم ڈھانے کی راہ ھموار کی جاتی ھے جیسے۔۔ھٹلر نے کہا۔۔یہودی ھمارے جیسے نہیں ھیں۔۔جیسے کانگو میں قتال ھوا۔۔۔۔جیسے ترکی نے آرمینیائیوں کی نسل کشی کی۔۔جیسے کُردوں کی نسل کسی کی جا رھی ھے۔۔۔Professor Paul Gomberg from Chicago State University even suggests that patriotism is like racism. One example of this was the use of patriotic propaganda in Nazi Germany to convince people that Jewish citizens were first different and untrustworthy and then inferior in more specific ways.In general, any ideology that places some people above others, as patriotism typically does, has results similar to racism. Groupthink encourages negative feelings toward persons who are not in the group. Consider all the negative things said about the French after their government refused to go along with the US invasion of Iraq in 2003. French fries were renamed “freedom fries” in Washington and in restaurants around the country. Jokes and negative comments about the French were common, and all this wasn’t because of any direct harm done to anyone on this side of the ocean. The government of France simply didn’t agree with a US policy, and that made patriots suspicious and encouraged their bigotry.8:۔۔ حب الوطنی کا نام لیکر ظلم کرنا آسان ھو جاتا ھے اور سادہ لوح جزباتی لوگ ساتھ ملائے جا سکتے ھیں۔ جیسے حالیہ دنوں میں پاکستان میں وہ لوگ بھی یومِ پاکستان پر جھونڈے سوشل میڈیا پر لگاتے رھے جنکو پاکستان سے ھزاروں شکایتیں ۔۔لیکن حب الوطنی کا جھوٹ وُہ سادہ لوحی اور بھیڑ چال میں پھیلاتے رھے۔۔۔روانڈا ، کانگو۔۔نائیجریا، ایتھوپیا کمبوڈیا میں بڑے پیمانے پر قتل اسی بہانے سے کئے جاتے رھے ھیں کس میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کی اموات ھوئیں۔۔۔When a patriot feels that a government or organization represents his patriotic intent, he follows orders, even when that means doing horrible things.ڈیڑھ لاکھ جاپانی امریکیوں کو اسی بہانے کنسنٹریشن کیمس میں رکھا گیا تھا۔۔9:- حب الوطنی کا قریب مالی طور پر بہت مہنگا پڑتا ھے۔۔،،،پاکستان جیسے غریب اور مقروض ملک میں یوم پاکستان، یوم آزادی وغیرہ کے نام پر کروڑوں روپے ضائع جاتے ھیں جو کہ صحت تعلیم، ، معزوروں پر خرچ ھو سکتے تھے۔۔لیکن اشرافیہ اور فوج چونکہ حب الوطنی ھی کیش کر کے جنگی جنون پیدا کرتی ھے اس لئے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے حب الوطنی کا نعرے لگائے جاتے ھیں۔۔ ترانے گائے جاتے ھین۔اور اس پر بےشمار پیسہ خرچ ھوتا ھے۔۔10:۔۔حب الوطنی کے ناسور کی وجہ سے دوسری ضروری باتیں افعال امُور سر انجام نہیں ھوپاتے۔۔ حب الوطنی روک بن جاتی ھے۔۔مثلاً بھارت سے جنگوں پر کھربوں روپیہ صرف کر کے صرف پاکستنای آرمی کے جنرلز کو دولت ملی۔۔۔تاھم پاکستان میں غربت کو مسلسل استحکام مِلا ھے۔۔ تعلیم میں کمی ھوئی ھے۔۔صحت کا میعار گِر گیا۔۔۔ پیداوار میں کمی ھوئی۔۔ذراعت کا بیڑہ غرق ھوا۔۔امریکی تھنکر کہتے ھیںRichard Paul is the Director of Research and Professional Development at the Center for Critical Thinking in Tomales, California. Paul says, “Patriotic history is dishonest history that makes us, unjustifiably, feel good about ourselves.” The “truth” that people see is clearly influenced by their love of country.یعنی حب الوطنی پر مبنی تاریخ بےایمانی پر مبنی ھوتی ھے۔۔ جیسے پاکستان ھندوستان کی جنگوں میں دونوں ممالک اپنے عوام کو جھوٹ بتاتے ھیں۔۔ پاکستنا ۔۔جو کہ تمام جنگیں ھار گیا کہتا ھے کہ ھم جیت گئے۔۔حتی کہ ملک آدھا کٹ گیا پھر بھی آرمی شرمندہ نہیں اور بےحس احمق عوام اسی آرمی کے گُن گاتے ھیں،10:۔۔کیا ھم اس حب الوطنی کے بغیر رہ سکتے ھین؟ بالکل رہ سکتے ھیں۔۔آپ اپنے معاشرے اور آئین کی صرف اس صورت میں قدر کریں یا اسے مانیںجب وہ سب کے لئے برابر حقوق دینے والا ھے۔۔ مثلاً پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو پورے حقوق نہین دیا۔۔ وہ عیسائی یہودیوں ھندووں احمدیوں کو صدر کے عہدے پر فائز ھونے سے روکتا ھے۔۔اس لئے حب الوطنی دراصل یہاں انسانیت کے منافی ھے اور غیر ضروری ھے۔۔اگر یہ حب الوطنی کا نعرہ نہ ھوتا تو۔۔۔ کوئی بھی اھل شخص ملک کا صدر بن سکتا تھا۔۔۔پرسوں پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک نہایت کریہہ الذات ممبر نے ایک مذھبی ملزم کو قتل کر دینے والے نابکار شخص کو رِہا کر دینے کا نعرہ لگایا ۔۔اور جوابمیں پوری اسمبلی نے تالیاں بجائیں۔۔سپیکر جو کہ آئین کا سب سے زیادہ پابند ھوتا ھے اس نے اس شخص کو اٹھا کر باھر نہین پھینکوایا۔۔۔اس سے ظاھر ھوتا ھے کہ حب الوطنی کے ٹھیکدار مذھبی ، نسل، قبیلہ علاقہ رنگ کی بنیاد پر جو ظل چاھے کر سکتے ھیں۔ اور سادہ لوح لوگ۔۔بے حس لوگ جن مین ادیب ار آخص طور پر خبیث صحافی شامل ھیں وپ حب الوطنی کو پروموٹ کر کے نفرت پھیلانے میں کامیاب رھتے ھیں۔رفیع رضاکینیڈآ 2020 اگست