خوش آمدید!

اردو ایک برقی بیاض ہے جس کے زیادہ تر مندرجات اردو زبان و ادب کی کلاسیکی روایت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں اہلِ زبان ہونے کا دعویٰ ہے نہ زبان دان ہونے کا زعم۔ مگر ایک چیز جسے محبت و مودت کہتے ہیں, اردو کے لیے ہمارے ہاں بدرجۂِ اتم موجود ہے۔ اردو گاہ اکیسویں صدی کے تناظر میں اسی جذبے کا ایک نیازمندانہ اظہار ہے۔

ادب

غزل ۔۔آپ سب کی نظر

شرطِ پیرایہءِ اظہار لگا دیتے ہیں بَند کَس لیتے ہیں تلوار لگا دیتے ہیں یہ تعفّن بھرے فرقوں کی کتابیں ہیں چلو…

رفیع رضا

ایک منفرد اور بلند پرواز پرندہ تبسم وڑا ئچ صآحب۔

بعض لوگ ادب کی تخلیق کے حوالے سے ادب برائے ادب کا پرچم اٹھائے پھرتے ہیں لیکن اگر ادب زندہ انسانوں کے حوالہ سے اور زندگی کے کینوس پر رنگ پکھیرنے کے پس منظر کے ساتھ صورتگری کا حامل ہے تو پھر ادب برائے زندگی اپنے اندر ایک بھرپور معنویت اور مقصدیت کا پیغامبر ہےِ ۔ آج مجھے جس تخلیق کار کے فن اور ادبی محاسن پر اپنی معروضات پیش کرنا ہیں وہ بھی ادب برائے زندگی کے روح پرور نظریہ پر یقین رکھتا ہے ۔

حال ھی میں اس منفرد لب و لہجہ کے مالک شاعر کا شعری مجموعہ ” ستارہ لکیر چھوڑ گیا ” کے نام سے منصّہء شہود پر آیا ہے ۔ اور شناوران سخنوری سے داد و تحسین سمیٹ رھا ہے ۔ گو کہ میں ابھی مذکورہ کتاب کا جم کے مطالعہ نہیں کر پایا لیکن جتنا بھی مطالعہ کیا ہے اس کے زریعہ مجھ پر ایک ایسا درِ حیرت وا ھوا ہے کہ جس نے مجھے ایک ایسے رفیع رضا سے متعارف کروایا ہے جس سے پہلے میں نا آشنا تھا ۔ مجھے اس کتاب کے حوالہ سے رفیع رضا پیک وقت ایک شاعر،ایک انقلابی، ایک محب وطن، انسان اور انسانیت سے ٹوٹ کر پیار کرنے والا، زندگی کے تمام رنگوں ، جذبوں اور جہتوں کا صورتگر ، معاشرتی ناہمواریوں کا شدید نقاد ، طبقاتی استحصال سے نفرت کی حد تک اختلاف رکھنے والا ، تاریخ کی تلخ ترین سچائیوں کا مرثیہ گو ، مذھب کے نام پر پروان چڑھنے والی بدترین منافقتوں کا نوحہ گر ہے ۔ جہاں پر اپنی شاعری کے آئینے میں رفیع رضا اقوام عالم کے حوالے سے بین الاقوامی و عالمی طاقتوں کے استعماری ھتھکنڈوں اور استحصال پرور رویّوں اور منفی پالیسیوں پر سراپا احتجاج نظ آتا ہے وہیں پر وہ امت مسلمہ کی باہمی کمزوریوں ، ریشہ دوانیوں اور استعماری قوتوں کی کاسہ لیسی سے بھی اپنے شدید غم و غصی کا توانا انداز میں اظہار کرتا ہے ۔

رفیع رضا بیک وقت انسانی اجتماعی المیوں کا خطیب بھی ہے اور آنے روشن صبحوں کا نقیب بھی ہے، دکھوں،صدموں اور محرومیوں کا بیانگر بھی ہے اور امیدوں، آروؤں اور تمنّاؤں کا پیغامبر بھی ۔ آئیے رفیع رضا سے ملتے ہیں ۔ رفیع رضا کی مزکورہ کتاب میں پرندہ اسکے نمائندہ لفظ کے طور پہ واضح نظر آتا ہے ۔ پرندہ جو کہ ایک معصوم اور بے ضرر مخلوق ہے ، امن و آشتی، صلح جوئی اور بلند نگاھی ، وسیع الظرفی اور کشادہ روئی کی علامت ہے ، بلند ہمتی، جہد مسلسل اور نا مساعد حالات کا دلیری اور مستقل مزاجی سے مقابلہ کرنے کا استعارہ ہے اور یہ لفظ آپ رفیع رضا کی شاعری میں بار بار دیکہیں گے لیکن ھر بار ایک نئے مفہوم اور الگ آھنگ کیساتھ یہ آپکو رفیع کی سوچ دریچوں کی مختلف جہتوں اور زاویوں سے متعارف کراتا ہے ۔ اور شاعر کی سوچ میں پھیلی ھوئی ہمہ گیر وسعتوں اور بیکراں عالم امکانات کا عکّاس ہے ۔

مثالیں اسلئے نہیں دونگا کہ تحریر طوالت کا شکار ھو جائیگی رفیع محبتوں،چاھتوں اور امن عالم کا علمبردار ہے وہ اس عالمگیر اور آفاقی سچائی کا درس دیتے ھوئے بھی اپنی روایتی عقلیت پسندی اور منطق و استدلال کے جاندار روئیّے کا دامن ھاتھ سے نہیں چھوٹنے نہیں دیتا ۔ طاقت کی یہاں کوئی ضرورت ھی نہیں ہے نفرت کا درندہ ہے محبّت سے گرے گا ساتھ ھی وہ اپنے لوگوں میں پروان چڑھنے والی ایسی برائیوں ، معاشرتی خرابیوں اور اخلاقی کمزوریوں کے مہلک اور تباہ کن اثرات اور نتائج سے اپنے اھل معاشرہ کو خبردار بھی کرتے ہیں دشمن بھی اسی طاق میں مدّت سے ہے لیکن یہ گھر مرے اپنوں کی وساطت سے گرے گا اسی کے ساتھ وہ تاریخی حقائق کے تلخ پہلوؤں سے بھی چشم پوشی کرنے پہ آمادہ نہیں اور بڑے واضح لہجہ میں اسکا اظہار بھی کرتا ہے اس شہر کی بنیاد میں پہلے بھی لہو تھا یہ شہر اسی اپنی نحوست سے گرے گا رفیع رضا ایک صاحب شعور اور صائب الرّائے معاشرتی اکائی ھونے کے حوالے سے معاشرہ میں پائے جانے والی مذھبی روایات کو من و عن بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے صرف اندھی عقیدت کے بل بوتے پر تسلیم کرنے کو تیار نیں بلکہ وہ تو بلند بانگ اعلان کرتے ہیں کہ عجیب لوگ ہیں خود سوچنے سے عاری ہیں روایتوں کو عقیدہ بنا لیا ھوا ہے رفیع رضا عالمی امن کے نام نہاد علمبرداروں اور انسانیت کی بھلائی کے جھوٹے دعویداروں کی دوغلی اور منافقانہ بلکہ انسانیت کش جبر و جور پر مبنی ظالمانہ چالوں اور عالمی امن کو سبوتاژ کرنے والی دھشت گرد پالیسیوں کا انتہائی جرآت اور بیباکی سے پردہ چاک کرتے ہیں کہتا ہے بستیوں کو بسانا ہے اسکا کام ساری زمیں اجاڑ کے کہتا ہے خوش رھو آئین لکھتا رھتا ہے امن و امان کا قرطاس امن پھاڑ کے کہتا ہے خوش رھو کہتا ہے اب فضا پہ فقط اسکا راج ہے اور پنکھ سب کے جھاڑ کے کہتا ہے خوش رھو کہتا ہے اس کے قد کے برابر کوئی نہیں آئینے توڑ تاڑ کے کہتا ہے خوش رھو حریّت فکر کا ھر مجاھد دشت کربلا میں حق و باطل کے مابین برپا ھونے والی عظیم ترین معرکہ آرائی میں لشکر الہی کے سپہ سالار حسین ابن علی سے اکتساب فیض اور انکی روایت عشق سے طاقت حاصل کئے بغیر نعرہ ء انالحق لگا ھی نہیں سکتا اور یہی حقیقت رفیع رضا کے ھاں بھی اظہر من الشمس ہے کہ وہ کربلا کی روشنی سے اپنی راہ کا تعیّن کرتے ہیں منظر سب کاٹنے آتے ہیں مرے نام و نشاں کو میں ایک دیئے کا انہیں سر کاٹ کے دے دوں لیکن وہ اس روشن ترین استعارے کا استعمال کس جاندار اور خوبصورت انداز سے فنکارانہ چابکدستی اور مہارت سے کرتے ہیں کہ عقل داد دینے پر مجبور ھو جاتی ہے ڈھونڈ ھی لیتی ہے نیزے کی طرح کوئی بات مجھ سے چھپتا ھی نہیں میرا سر ایسا ہے یہ کتنا بڑا ظلم اور تاریخی بد دیانتی ہے کہ آجتک مسلمانوں کی تاریخ کو اسلامی تاریخ بنا کر پیش کیا جاتا رھا ہے حالانکہ اسلام کی تاریخ شعب ابی طالب ، غار حرا و ثور ، بدر و حنین،خیبر و خندق و احد و کربلا سے روشن ہے جبکہ مسلمانوں کی تاریخ جابر و مستبد حکمرانوں ،حجاج بن یوسف جیسے درندوں اور قاضی ابو یوسف جیسے درباری مولویوں اور مفتیوں سے آلودہ ہے ،رفیع شیخ و شا ہ کے اسی ناباک گٹھ جوڑ پر بلیغ تبصرہ کرتے ہیں ضرور یہ کوئی ناپاک سا تعلق ہے جو شیخ و شاہ نے رشتہ بنا لیا ھوا ہے
درج زیل اشعار میں رفیع رضا کی اظہار بیان کے حوالے سے جدّت پسندی ، تنوّع اور انفرادیت بھر پور انداز سے قاری کو اپنی سحر بیانی میں گرفتار کرتی نظر آتی ہے اور یہی لب و لہجہ اسے اپنے ہمعصر شعرا ء سے ممتاز و منفرد ٹھراتی ہے لوگ روئے بچھڑنے والوں پر اور ہم خود کو ڈھونڈ کر روئے واقعی اپنی زات کی تلاش ، اپنی حقیقت کی پہچان اور اپنی سچائی کا عرفان ھی سب سے مشکل مرحلہ ہے اور جب کوئی اس دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرکے اپنی زات سے متعارف ھونے پر احساس زیاں کے سوا کچھ نہ پائے تو پھر آنسو ھی حاصل زندگی قرار پاتے ہیں لیکن پھر یہی آنسو اسکی کامیابیوںکا پیش خیمہ ٹہرتے ہیں مجھے اکیلا حد وقت سے گزرنا ہے میں اپنے ساتھ کوئی ہمسفر نہیں لایا