دیباچہ
الٰہی، خلعت صفت پارچہ، خمسہ و عقل و روح سے سرفرازی دی ہے تو منصب ایمان داری بھی عطا کر کہ خطاب اشرف المخلوقات میری حالت کے مناسب ہو۔ خداوند اپنے حبیب کا امتی بنانے سے امتیاز بخشا ہے تو تقریب بھی نصیب کر کہ الطاف کریمانہ شفاعت اور عواطف خسروانہ رحمت کی مجھ کو قابلیت ہو۔
آدمی اگر اپنی حالت میں تامل صحیح کرے تو اس سے زیادہ عاجز و در ماندہ مبتلا کوئی مخلق نہیں۔
[POEM] گرت چشم خدا بینی بہ بخشذ
نہ بینی سچ کس عاجز تر از خویش[/POEM]
کلہم ساٹھ یا ستر توبہ اعتبار اوسط اس کی معیاد حیات اور اس کی مدت قیام و ثبات ہے۔ وہ بھی شروع سے آخر تک ہر لحظہ عرصہ، خطر، ہر لمحہ ہدف آفت۔ آدھی عمر تو سونے اور کاہل اور بے کار پڑے رہنے میں ضائع کر دیتا ہے۔ باقی بچے تیس یا پینتیس برس، اسی میں اس کی ظفولیت ہے اور اسی میں اس کی جوانی اور پیری، کم سے کم دس برس طفلی اور درماندگی، علالت و پیری کے بھی سمجھ لینے چاہیں۔ غرض ساری زندگی میں بیس یا پچیس برس کام کاج کے دن ہیں۔ مگر کتنے کام، کتنی ضرورتیں، کس قدر بکیھڑے، کتنے مخمصے، خدا کی پرستش، مذہب کی تلاش، کسب کمال، فکر معاش، بزرگوں کی خدمت، اولاد کی تربیت، بیماروں کی عیادت، احباب کی زیارت، تقریبات کی شرکت، شہروں کی سیر، ملکوں کی سیاحت، مردوں کا رونا، جدائی کا ماتم، مولد کی خوشی، ملاقات کی فرحت، فع مضرت، جلب منفعت، گزشتہ کا احتساب، آئندہ کا انتظام، مسرت بے ہودہ، ہوس نام و نمود، تاسف نقصان، حسرت زیان، تلافی مافات، پیش بینی ماھوات، دوستوں سے ارتباط، دشمنوں سے احتیاط، آبرو کا حفظ، ناموس کا پاس، مال کی نگہداشت، محاصل کا احراز۔
ِ