لتماس مولف
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حمد بیحد و ثنائے لا تعداد اس ساقی ازل کو سزا وار ہے کہ جس نے خراب آباد گیتی کو بصدائے مستانہ کن فیکون آریش دی اور نعت معہ تحفہ درود اس مست پیمانہ الست کی ہر جرعہ نوش جام خرد کو درکار ہے کہ جس نے سرمستان خمخانہ کفروضلالت کی بیک ساغر ظہور خمار شکنی فرمائی صلی اللہ علیہ واٰلہ العظام واصحابہ الکرام۔
زاں بعد خوشہ چین خرمن ارباب علم و ہنر و رمز شناسان دقائق معانی پرور عالی پایگاہ خاک راہ سید محمد حسین جاہ بگوش ہوش سخندان ذی ہوش خطا پوش عرض رسا ہے کہ داستان امیرحمزہ فسانہ دلکش و مرغوب پسندیدہ ہر طالب و مطلوب ہے زہے گوہردریائے خو بیانی زہے آفتاب سپہر زور بیانی کہ زبان توصیف و بیاں تعریف نسبت اسکے قاصر ہے منجملہ اس کے ایک طلسم حیرت زا مسمّہ بہ طلسم ہوشربا نادر ہے لہذا اس شاہد دلربائے رعنائی ومحبوب خوش ادائے زیبائی کو چاہا کہ زبان اردو بین بطرز فصیح و تجاورت صحیح جلوہ گاہ تحریری لائے اور مشتاقان ادائے محبوب قصص کو اس کی کرشمہ سنجی پر لبھائے بفضلہ وہ کرمہ و منہ التوفیق و ہو الرفیق الاعلی۔
واضح ہو کہ داستان امیر حمزہ کے سات دفتر ہیں اور بغیر ملاحظہ دفاتر مذکور کے دشوار ہے امیر و عمرو اور زمرد شاہ اور بختیارک اور افراسیاب جادو وغیرہ کے نام سمجھ میں آئیں۔ باین خیال گزارش ہے کہ امیر حمزہ پسر سید خواجہ عبدالمطلب سردار خانہ کعبہ کے ہیں اور عمرو ان کا عیار ہے اور امیر حمزہ نے اپنے پوتے کو بادشاہ لشکر کیا ہے کہ نام اس کا سعد بن قباد ہے اور آپ سپہ سالاری لشکر کی کرتے ہیں اور جتنے بیٹے امیر حمزہ کے ہیں وہ سب مطیع اسی پوتے کے ہیں جو بادشاہ ہے اور بادشاہ روئے زمین بہت سے کہ جن کا ذکر اس قصے میں آئے گا وہ سب ہمراہ لشکر کے اپنی اپنی فوج لیے رہتے ہیں اور امیر حمزہ ایک بادشاہ جلیل القدر زمرد شاہ باختری سے کہ جس کو لقا بھی کہتے ہیں اور اس نے دعوٰی خدائی کا کیا ہے ، لڑ رہے ہیں اس لیے کہ وہ دعوٰی باطل سے باز آئے اور امیر کے ہاتھ سے جس ملک میں لقا بھاگ کر جاتا ہے وہاں کا بادشاہ اور رعایا سب اس کو اپنا خدا سمجھ کر اطاعت کرتے ہیں اور بنا بر اس کے حکم کے امیر سے لڑتے ہیں اور لقا کے ساتھ بیٹا نوشیروان کا فرامرز بن نوشیروان بھی ہے کہ اس سے امیر پہلے لڑ چکے ہیں اب اس نے لقا کا ساتھ کیا ہے اور وزیر فرامرز کا بختیارک بن بختک شیطان درگاہ لقا بنایا گیا ہے کس لیے کہ خدائی میں کوئی شیطان بھی چاہیے۔ غرض لقا نے پہلے جا کر طلسم ہزار شکل میں پناہ لی تھی ۔ جب وہ امیر نے فتح کر لیا تو لقا کوہستان کی طرف آیا ہے۔ طلسم ہزار شکل کا ذکر پہلے اسم طلسم کے ہے بوجہ اس کے کہ طلسم ہوشربا کا حقیر کو بیان کرنا منظور ہے اس لحاظ سے طلسم کو ترک کیا کہ باعث طوالت افسانہ نہ ہو۔