نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
کہ جیسے خوش نما لگتا ہے دیکھو چاند بِن گہنے
خبر گیری میں ضیافت کے لگ رہی ہے اور تاکید ہر ایک کھانے کی کر رہی ہے کہ خبردار بامزہ ہو اور آب و نک بو باس درست رہے، اس محنت سے وہ گلاب سا بدن سارا پسینے پسینے ہو رہا ہے۔
میں پاس جا کر تصدق ہوا اور اس شعور و لیاقت کو راہ کر دعائیں دینے لگا۔ یہ خوشامد سُن کر تیوری چڑھا کر بولی، آدمی سے ایسے کام ہوتے ہیں کہ فرشتے کی مجال نہیں، میں نے ایسا کیا کِیا ہے جو تو اتنا حیران ہو رہا ہے؟ بس بہت باتیں بنانیں مجھے خوش نہیں آتیں۔ بھلا کہ تو یہ آدمیت ہے کہ مہمان کو اکیلا بٹھلا کر اِدھر اُدھر پڑے پھرے؟ وہ اپنے جی میں کیا کہتا ہو گا؟ جلد جا مجلس میں بیٹھ کر مہمان کی خاطر داری کر اور اُس کی معشوقہ کو بھی بُلوا کر اُس کے پاس بٹھلا۔ فقیر وونھیں اُس جوان کے پاس گیا اور گرم جوشی کرنے لگا۔ اتنے میں دو غلام صاحب جمال صراحی اور جام جڑاؤ ہاتھ میں لیے روبرو آئے، شراب پلانے لگے۔ اِس میں میں نے اُس جوان سے کہا، میں سب طرح مخلص اور خادم ہوں بہتر یہ ہے کہ وہ صاحبِ جمال کہ جس کی طرف دِل صاحب کا مائل ہے تشریف لاوے تو بڑی بات ہے۔ اگر فرماؤ تو آدمی بُلانے کی خاطر جاوے۔یہ سُنتے ہی خوش ہو کر بولا بہت اچھا، اِس وقت تم نے میرے دل کی بات کہی۔ میں نے ایک خوجے کو بھیجا، جب آدھی رات گئی وہ چڑیل خاصے چوڈول پر سوار ہو کر بلائے ناگہانی سی آ پہنچی۔
فقیر نے لاچار خاطر سے مہمان کی استقبال کر کر نہایت تپاک سے برابر اُس جوان کے لا بٹھایا۔ جوان اُس کے دیکھتے ہی ایسا خوش ہوا جیسے دُنیا کی نعمت ملی۔ وُہ بُھتنی بھی اُس جوان پری زاد کے گلے لپٹ گئی۔ سچ مچ یہ تماشا ہوا جیسے چودھویں رات کے چاند کو گہن لگتا ہے۔ جتنے مجلس میں آدمی تھے، اپنی اپنی اُنگلیاں دانتوں میں دابنے لگے کہ کیا کوئی بَلا اِس جوان پر مسلط ہوئی؟ سب کی نگاہ اُسی طرف تھی، تماشا مجلس کا بھولکر اُس کا تماشا دیکھنے لگے۔ ایک شخص کنارے سے بولا، یارو ! عِشق اور عقل میں ضد ہے، جو کچھ عقل میں نہ آوے یہ کافر عشق کر دِکھاوے، لیلٰی کو مجنوں کی آنکھوں سے دیکھو، سبھوں نے کہا آمنا، یہی بات ہے۔
یہ فقیر بہ موجب حکم کے مہمان داری میں حاضر تھا، ہر چند جوان ہم پیالہ ہم نوالہ ہونے کو مجوز ہوتا تھا، پر میں ہرگز اُس پری کے خوف کے مارے اپنا دل کھانے پینے یا سیر تماشے کی طرف رجوع نہ کرتا تھا۔ اور عُذر مہمان داری کاکر کے اُس کے شامل نہ ہوتا۔ اسی کیفیت سے تین شبانہ روز گُزرے۔ چوتھی رات وہ جوان نہایت جوشش سے مجھے بُلا کر کہنے لگا، اب ہم بھی رُخصت ہوں گے، تمہاری خاطر اپنا سب کاروبار چھوڑ چھاڑ تین دن سے تمہاری خدمت میں حاضر ہیں۔ تم بھی تو ہمارے پاس ایک دم بیٹھ کر ہمارا دل خوش کرو۔ میں نے اپنے جی میں خیال کیا اگر اس وقت کہا اس کا نہیں مانتا تو آزردہ ہو گا، پس نئے دوست اور مہان کی خاطر رکھنی ضرور ہے، تب یہ کہا، صاحب کا حکم بجا لانا منظور کہ الامر فوق الادب۔ سُنتے ہی اس کو، جوان نے پیالہ تواضع کیا اور میں نے پی لیا۔ پھر تو ایسا پیہم دَور چلا کہ تھوڑی دیر میں سب آدمی مجلس کے کیفی ہو کر بے خبر ہو گئے، اور میں بھی بے ہوش ہر گیا۔
جب صبح ہوئی اور آفتاب دو نیزے بلند ہوا، تب میری آنکھ کھلی تو دیکھا میں نے نہ وہ تیاری ہے نہ وہ مجلس نہ وہ پری، فقط خالی حویلی پڑی ہے مگر ایک کونے میں کمل لپٹا ہوا ادھر ہے۔ جو اُس کو کھول کر دیکھا تو وہ جوان اور اس کی رنڈی دونوں سر کٹے پڑے ہیں۔ یہ حالت دیکھتے ہی حواس جاتے رہے، عقل کچھ کام نہیں کرتی کہ یہ کیا تھا اور کیا ہوا؟ حیرانی سے ہر طرف تک رہا تھا، اتنے میں ایک خواجہ سرا (جسے ضیافت کے کا کاج میں دیکھا تھا) نظر پڑا۔ فقیر کو اُس کے دیکھنے سے کچھ تسلی ہوئی، احوال اس واردات کا پوچھا۔ اُس نے جواب دیا تجھے اس بات کی تحقیق کرنے سے کیا حاصل جو تُو پوچھتا ہے؟ میں نے بھی اپنے دل میں غور کی کہ سچ تو کہتا ہے، پھر ایک ذرا تامل کر کے میں بولا خیر نہ کہو، بھلا یہ تو بتاؤ وہ معشوقہ کس مکان میں ہے؟ تب اُس نے کہا البتہ جو میں جاتا ہوں، سو کہ دوں گا، لیکن تجھ سا آدمی عقل مند بے مرضی حضور کے دو دن کی دوستی پر بے محابا بے تکلف ہو کر صحبت مے نوشی کی باہم گرم کرے، یہ کیا معنی رکھتا ہے؟
فقیر اپنی حرکت اور اُس کی نصیحت سے بہت نادم ہوا۔ سوائے اِس بات کے زبان سے کچھ نہ نکلا، فی الحقیقت اب تو تقصیر ہوئی معاف کیجیئے، بارے محلی نے مہربان ہو کر اُس پری کے مکان کا نشان بتایا اور مجھے رُخصت کیا، اپ اُن دونوں زخمیوں کے گاڑنے داپنے کی فکر میں رہا۔ میں تُہمت سے اُس فساد کے الگ ہوا اور اشتیاق میں اُس پری کے ملنے کے لیے گھبرایا ہوا، گرتا پڑتا ڈھونڈھتا شام کے وقت اُس کوچے میں اسی پتے پر جا پہنچا اور نزدیک دروازے کے ایک گوشے میں ساری رات تلپھتے کٹی، کسو کی آمدورفت کی آہٹ نہ ملی۔ اور کوئی احوال پُرساں میرا نہ ہوا۔ اُسی بے کَسی کی حالت میں صبح ہو گئی، جب سورج نِکلا اُس مکان کے بالا خانے کی ایک کھڑکی سے وہ ماہ رو میری طرف دیکھنے لگی۔ اُس وقت عالم خوشی کا جو مجھ پر گُذرا، دِل ہی جانتا ہے، شکر خدا کا کیا۔
اتنے میں ایک خوجے نے میرے پاس آ کر کہا، اس مسجد میں تو جا کر بیٹھ، شاید تیرا مطلب اس جگہ بر آوے اور اپنے دل کی مراد پاوے۔ فقیر فرمانے سے اُس کے وہاں سے اُٹھ کر اُسی مسجد میں جا رہا، لیکن آنکھیں دروازے کی طرف لگ رہی تھی کہ دیکھیے پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ تما دِن جیسے روزہ دار شام ہونے کا انتظار کھینچتا ہے، میں نے بھی دو روز ویسی ہی بے قراری میں کاٹا۔ بارے جس تس طرح سے شام ہوئی اور دِن پہاڑ سا چھاتی پر سے ٹلا۔ ایک بارگی وہی خواجہ سرا (جن نے اُس پری کے مکان کا پتا بتا دیا تھا) مسجد میں آیا۔ بعد فراغت نماز مغرب کے میرے پاس آ کر اُس شفیق نے (کہ سب راز و نیاز کا محرم تھا) نہایت تسلی دے کر ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے ساتھ لے چلا رفتہ رفتہ ایک باغیچے میں مجھے بٹھا کر کہا یہاں رہو جب تک تمہاری آرزو بر آوے، اور آپ رخصت ہو کر شاید میری حقیقت حضور میں کہنے گیا۔ میں اُس باغ کے پھولوں کی بہار اور چاندنی کا عالم اور حوض نہروں میں فوارے ساون بھادوں کے اُچھلنے کا تماشا دیکھ رہا تھا، لیکن جب پھولوں کو دیکھتا تب اُس گلبدن کا خیال آتا، جب چاند پر نظر پڑتی تب اُس مہ رو کا مکھڑا یاد کرتا، یہ سب بہار اُس کے بغیر میری آنکھوں میں خار تھی۔
بارے خدا اُس کے دل کو مہربان کیا، ایک دم کے بعد وہ پری ۔۔۔۔۔