نام نہاد غازی علم دین قاتل کی اصل کہانی

پاکستان میں پچھلے 70 ستر سے پاکستانیوں کو جو جعلی تاریخ پڑھائی گئی جس میں ھندوستان پر حملہ آور ظالم قاتل لُٹیروں بادشاھوں کو ھیروز بنا کر پیش کیا گیا۔اسی تاریخ کے ذیلی حصے میں ھر وہ بات توڑ مڑوڑ کر پیش کی گئی جس میں اسلام میں گھیراو جلاو فساد تلوار کا دخل ھو۔۔عمومی طور پر ھندو دشمنی ، یہودی ۔۔دشمنی ، مسیحیت دشمنی پر اُستوار پاکستانی تاریخ پڑھائی گئی ھے۔اسی کے تحت پاکستان کی طور سے شروع کی گئی جنگوں میں ھندوستان سے شکست کو جھٹلا کر فتح کا جھوٹ بولا گیا ھے۔۔یا کہا گیا ھے کہ جنگین ھندوستان نے شروع کیں۔

علم دین نامی اس احمق ظالم شخص کو کسی مُلاں نے خوب بھڑکایا تو اُس نے کتاب چھاپنے والے کو قتل کردیا۔

مشہور کیا جاتا ھے کہ اسی قاتل نے عدالت مین واشگاف کہا کہ میں نے قتل کیا ھے اور پھانسی کی سزا خوش ھوکرقبول کی اور اسکا جانزہ اقبال نے پڑھایا اور کہاں ترکھانا دا منڈا بازی لے گیا۔۔یا لوھاراں دا مُنڈا بازی لے گیا۔۔۔۔یا قائد اعظم نے مقدمہ لڑا وغیرہ۔۔

 ہمیں تو پڑھایا اور بتایا گیا تھا کہ غازی علم الدین نے راجپال کو قتل کرنے کے بعد بڑی بہادری کے ساتھ عدالت میں اپنا جرم قبول کیا تھا ۔ پر یہ تو معاملہ ہی الٹ نکلا۔ علم الدین تو عدالت میں راجپال کے قتل سے ہی مکر گیا تھا۔۔ ملاحظہ کیجئے۔علم الدین کا 1929 میں عدالت میں دیا گیا حلف نامہ جس میں وہ اپنے جرم سے صاف مکر جاتا ہے۔
یہ تو اوقات ہے ان نام نہاد عاشقانِ رسول کی۔۔۔ دوسروں کو تو بڑے مزے سے قتل کردیتے ہیں، پر جب اپنی موت سامنے نظر آتی ہے تو سارا عشقِ رسول ہوا ہوجاتا ہے۔۔​

اردو ترجمہ​

ممتاز قادری بھی موت کو سامنے دیکھ کر صدارتی رحم کی بھیک مانگتا رہا۔ اب یہ خالد نامی قاتل ہے، ذرا اس کو بھی سزا ہولینے دیں، یہ بھی رحم رحم کی بھیک مانگتا نظر آئے گا۔۔

آئیے سنی سنائی اور اخباری باتوں کے جھوٹ سے پرے عدالتی تاریخی کاغذات سے پتہ چلاتے ھیں کہ

پاکستانی اداروں نے جان بوجھ کر قوم کو مسلسل کتنا جھوٹا برین واشنگ کے لئے استعمال کیا۔

۔۔

جناح نے علم دین قاتل کی سزائے موت کے خلاف اپیل ھائی کورٹ میں دائر کی اور وھاں ،سزا کم کرنے کےلیئے یہ دلیل دی کہ مذھبی توہین پر مسلمان جتنا مشتعل ہوتا ہے اتنا کسی اور وجہ سے نہیں ہوتا اپیل سننے والے دو ججز نے اس دلیل پر تعجب کیا کہ جناح کو یہ بھی پتہ نہیں کہ ملزم زیریں عدالت میں اقدام قتل سے انکار کر چکا ہے اس لئے اشتعال چہ معنی دارد؟۔اس سے جناح کی بیرسٹری کے معیار پر بھی سوال اُٹھتا ھے۔ تاھم جناح نے چالاکی بھی کی ھوگی ھوسکتا ھے، شدت پسند مسلمانوں کے اطمینان کے لئے مقدمے کی اپیل تو کردی مگر بونگی دلیل دی ! اس لئے ظاھر ھے خارج ھونی تھی خارج ھوئی اور منحوس و بزدل قاتل کو موت کی سزا ھوئی،۔،انگریز نے انصاف کا معیار قائم رکھا۔۔

نام نہاد غآزی علم دین شہید نے قتل کو ماننے سے انکار دیا جب پتہ چلا کہ اگلی کوئی زندگی نہیں، اللہ مذھب رسول سب جھوٹ ھیں کال کھوٹھڑی میں کوئی فرشتہ کوئی رسول کوئی جبریل کوئی بُراق کوئی کھوتا تک نہیں آیا تو ۔۔۔اسکی برین واشنگ انجام کو پہنچی۔۔۔اور اس نے قتل کرنے سے ھی انکار کر دیا۔۔بالکل یہی حال ممتاز قادری نامی گورنر کے قاتل کا ھوا۔۔۔ اسے بھی کال کوٹھڑی میں برین واشنگ سے نجات ملی تو چیخیں مارتا اور اپنی بیوی کو بلاتا تھا۔۔۔۔۔ تب اسے پتہ چلا کوئی اگلی زندگی نہیں یہی زندگی تھی جو گنوا دی۔۔۔ایسے کئی خبیث قاتل لعنتی پاکستان میں موجود ھیں۔ جو جلد انجام کو پہنچیں گے مگر پہلے جان لیں گے کہ کوئی اگلی زندگی نہیں سب مذھبی فراڈ ھے۔۔

۔علم دین کے بارے میں یہ متھ بہت پاپولر ہے کہ اس نے مقدمے کی سماعت کے دوران اقبال جرم کیا تھا اور اپنےاس اقدام پر فخر کا اظہارکیا تھا حالانکہ یہ سراسر غلط اور مقدمے کی فائل میں اس کا کوئی اقبالی بیان موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے عدالت کےروبرو صحت جرم سے انکار کیا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ اس نے قتل نہیں کیا اور اسے غلط طور پر پولیس نے بدنیتی سے اس مقدمے میں ملوث کیا تھا۔ قتل کی فائل لاہور ہائی کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے اور اس کی کاپی بھی حاصل کی جاسکتی ہے

جب غازی علم دین نے راج پال کو قتل کیا تھا علامہ اقبال نے بڑے افسردہ لہجے میں فرمایا تھا کہ “ ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا” گمان یھی ہے انکے پاس اس وقت لندن کا ویزہ ناں ہو یا جیب میں لندن جانے کے پیسے ناں ہوں۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انکو پتہ ہی ناں ہو کہ راج پال کا گھر کدھر ہے اور اسکو ڈھونڈا کیسے جائے۔ ویسے بھی وہ اس وقت ہر روز رات کو خواب میں پاکستان بنتا دیکھ رہے تھے اس لئیے مصروفیت کافی تھی۔ بقول حنیف قریشی کہ “ اعواناں دا منڈا بازی لے گیا اے” انکو بھی پتہ نہیں ہوگا کہ سلمان تاثیر کدھر رہتے ہیں اور گورنر ہاوس کہاں واقع ہے۔ میری سمجھ میں اج تک ایک بات نہیں ائ کہ اتنی بڑی سعادت عام بندے کے ہی قسمت میں کیسے ا جاتی ہے۔ جو صرف تقریرں سن کر ایموشنل ہو جاتے ہیں۔ ان برگزیدہ ہستیوں و مقرروں کے اپنے ہاتھوں یا اپنی اولاد کے ہاتھوں سے کبھی کوئ ایسا عظیم کام سر انجام کیوں نہیں ہوا؟ یہ ۔۔۔۔برگزریدہ ہستیاں خود بھی محفوظ اور انکی اولادیں بھی محفوظ ، اور اقبال کی بہادری تو یہ تھی کہ جاوید اقبال کا خون نکل آیا تو یہ علامہ جی بیہوش ھوگئے۔۔۔پوری عمر وظیفے پر گزری۔۔۔ایک ناکارہ شخص جس نے پہلے بیوی سے علیحدگی کی۔۔چار شادیاں کیں۔ پہلے بچے اور بچی کے پورے حقوق ادا نہ کئے۔۔ اور ملت کا ماموں بننے لگا۔۔۔۔۔