بچے کا مسجد میں قتل… مذھبی خبیث لوگ خاموش، توھین مذھب پر بک بک کرنے والے چُپ ھیں

پشاور میں یکہ توت تھانے کی حدود میں منگل کو ایک مسجد سے 12 سالہ بچے کی لاش برآمد ہونے کے بعد مسجد کے پیش امام سمیت پانچ افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔

ایف آئی آر کے مطابق منگل کو یکہ توت تھانے کو اطلاع موصول ہوئی کہ رشید گڑھی گاؤں کی مسجد عمرِ فاروق میں ایک طالب علم کو قتل کردیا گیا ہے اور واقعے کو خودکشی کا رنگ دے کر پولیس یا علاقہ مجسٹریٹ کو اطلاع دیے بغیر اس کو خفیہ طور پر دفنانے کی کوشش کی گئی۔

تھانہ یکہ توت کے ایس ایچ او علی سید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اطلاع کو مصدقہ جان کر پولیس کی نفری نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر لاش کے ساتھ موجود مسجد کے پیش امام بسم اللہ سمیت سینیئر طالب قاری قدرت اللہ، نوح اللہ، گل احمد اور عبدالمالک کو گرفتار کر لیا۔

انہوں نے بتایا کہ تفتیش کے دوران مقتول کے ماموں زاد عبدالمالک نے پولیس کو بتایا کہ لاش 12 سالہ مصلح الدین کی ہے، جن کا تعلق افغانستان سے تھا۔ یہ پانچ لڑکے پشاور کے مختلف مدارس میں دینی علوم حاصل کر رہے تھے۔ تاہم ان کی رہائش رشید گڑھی میں تھی۔

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی ایف آئی آر کی کاپی کے مطابق طالب علم عبدالمالک نے پولیس کو بتایا کہ رات مسجد عمرِ فاروق میں گزارنے کے بعد نماز فجر کے بعد سب اپنے اپنے مدارس جاتے تھے، تاہم 11 اگست کو انہیں جیسے ہی اطلاع ملی کہ مصلح الدین نے خود کشی کی ہے تو وہ فوراً اپنی رہائش گاہ پہنچ گئے۔

انہوں نے قاری بسم اللہ سے چابی حاصل کرکے مسجد کی دوسرے منزل کا دروازہ کھولا، جہاں برآمدے میں مصلح الدین کی لاش رسی کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی۔

مزید پڑھیے

پنجاب: کرونا وبا کے دوران بچوں پر جسمانی تشدد میں 20 فیصداضافہ

گمشدہ بچوں کی تلاش کے لیے زینب الرٹ ایپ کیسے استعمال کریں؟

مدیحہ قتل کیس: ’کوئی تو روکے ان درندوں کو‘
عبدالمالک نے مزید بتایا کہ یہ سوچ کر کہ الزام ان پر نہ آئے، وہ پولیس کو اطلاع دیے بغیر لاش کو خفیہ طور پر افغانستان منتقل کرنے کا بندوبست کر رہے تھے۔

ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا کہ عبدالمالک اور دیگر ساتھی اصل حقائق چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ دوسری منزل پر جانے کے لیے کوئی راستہ نہیں تھا۔ علاوہ ازیں مقتول کے لیے خود باہر سے دروازے کو تالا لگانا ممکن نہیں تھا جبکہ مقتول کی عمر کم ہونے کی وجہ سے وہ خود کو پھانسی پر نہیں لٹکا سکتا تھا۔

ایس ایچ او علی سید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مقتول کے حوالے سے ایک ایسے شخص نے بھی گواہی دی ہے جو مسجد عمر فاروق میں سہہ روزے پر تھا۔

ایس ایچ او نے بتایا: ’مذکورہ شخص نے سہہ روزہ کے دوران سینیئر طالب قدرت اللہ کو بچے پر تشدد یعنی مار پیٹ کرتے دیکھا تھا۔ چونکہ وہ فارسی سمجھ سکتے تھے تو انہوں نے پولیس کو بتایا کہ قدرت اللہ نے بچے کو فارسی میں دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس کو چھوڑے گا نہیں۔‘

ایس ایچ او نے بتایا کہ مقتول بچے کا پاکستان میں کوئی والی وارث نہیں اور ان کا ایک ہی رشتہ دار یعنی ماموں زاد بھائی عبدالمالک ان کے ساتھ یہاں موجود تھا۔ یہ سب پاکستان کے مدارس میں دینی علوم حاصل کرنے آئے تھے۔ ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ اصل مجرم تک پہنچنے کے لیے واقعے کی تمام پہلوؤں سے تفتیش جاری ہے۔