پولی میتھ کسے کہتے ھیں؟ پاکستانی طبقہ جُہلا کے نام ایک تعلیمی تحریر


طبقہِ جُہلائے پاکستان کے نام !

پولی میتھ کسے کہتے ھیں؟
(اس لنک کو فارورڈ کرتے جائیں۔)

آئیے آپ کو ایک نہایت ضروری موضوع کی جانب لیجائیں،، ایک لمبے عرصے سے "محض پاکستانی درسی نصاب” کو پڑھ کر ڈگریاں رکھنے والے لوگ سوشل میڈیا اور صحافت کے ذریعے سے کم تعلیم یافتہ اور مذھبی غیر ترقی پسند پاکستانیوں کو گمراہ کرتے چلے آئے ھیں۔
اس کوششِ خبیثہ کے خلاف پاکستان کے نیک فلسفی مزاج اور سائینسی مزاج دانش مندوں نے ھمیشہ کوشش کی ھے کہ عوام کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر دنیا کی ترقی یافتہ روشنی دکھائی جائے۔
بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ اپنی کم تعلیمی معاشرت اور مذھبی رجائیت و شدت کی وجہ سے علمی روشنی پر بھی شدت پسندی کے دھبہ ڈالتا رھتا ھے، کبھی اس کارِ سیاہ کو حُب الوطنی اور کبھی مذھبی اعتقاد کے سہارے انجام دیا جاتا ھے
یہ شدت پسندی صرف مذھبی نہیں بلکہ فلسفیانہ و سائینسی لباس اوڑھے نظر آتی ھے اور تو اور ادبی محاذ پر بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو روز بروز ادب کو مذھبی اور سائینسی پراپیگنڈے سے آلودہ کرتے چلے آئے ھیں، جیسے (مولوی) احمد جاوید، (مولوی (اشفاق ، ممتاز مفتی، قدسیہ بانو نسیم حجازی ، عمیرہ احمد ) وغیرہ ادبی دودھ میں شدت پسندی یا گمراھی کی مینگنیاں ڈال کر پیش کرتے رھے ھیں۔ اسی طرح سائینسی معاملات میں سُوڈو سائینسدان پانی سے کار چلانے ، جنّوں سے توانائی پیا کرنے والے بیانات دے کر عوام کو گمراہ کرتے چلے جاتے ھیں۔
ان معاملات میں کوئی سچ بولے تو اُسے جاھل، باغی، قادیانی، دھریہ مُلک دشمن مشہور کر دیا جاتا ھے۔۔
موجودہ عہد میں ڈاکٹر سلام کے بعد ستار ایدھی اور ڈاکٹر پروفیسر پرویز ھُود بھائی، جیسے نام ھیں جو مختلف جہات میں معاشرے کو بہتری کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے رھے۔
چونکہ ھمارا معاشرہ بنیاد پسندی سے آلودہ رھا ھے اس لئے ایسے اصحاب پر ھمیشہ کُفر کے فتوے لگائے گئے۔۔اور پھر منطقی حوالے ایسا کم علم سوال پوچھا جاتا ھے کہ عقل نوحہ کرنے لگتی ھے کہ کیوں ان کو یہ شعور نصیب نہیں کہ کوئی سائینسدان بیک وقت، مذھب پر بات کرنے والا، سماجیات پر بات کرنے والا، اور ماھرفلسفی ھوسکتا ھے۔۔
یہ لوگ مجھے بتاتے ھیں کہ پروفیسر ھُود بھائی کا مذھب یا تاریخ یا سماجیات میں کوئی مقام نہیں بلکہ بعض تو کہتے ھیں۔ کہ فزکس میں بھی انکا کوئی مقام نہیں۔ جبکہ دنیا کی سب سے اھم رصد گاہ طبیعات ، سرن۔۔۔ میں انکے طبیعاتی کام اور نظریات کے ثبوت موجود ھیں۔
ان جُہلا کو چونکہ درسی نصاب سے پرے کچھ پڑھنے کی عادت نہیں اس لئے یہ اخباری خبروں کی بنیاد پر پردیس کے ملکوں کا سماجی اور سائینسی جائزہ لیتے ھیں۔ سب سے زیادہ یہ لوگ زرد صحافت سے متاثر ھوتے ھیں ایسے زرد صحافت کے رسالوں کو ٹیبلوئیڈ کہا جاتا ھے۔۔جہاں جھوٹے من گھڑت شر انگیزی واقعات پوسٹ کئے جاتے ھیں۔ جیسے سانحہ 911، خود امریکہ نے کروایا،،، جیسے زلزلہ امریکہ لے کر آیا۔۔۔ جیسے دنیا میں سب سے زیادہ ریپ کے واقعات ناورے، سویڈن، جرمنی امریکہ کینیڈآ میں ھوتے ھیں۔
ان جُہلا اور ان سے ذرا کم جُہلا جن میں ٹی وی اینکرز اور بعض اخباری صحافی بھی شامل ھیں انکے لئے یہ لکھنا ضروری ھو گیا تھا کہ انکو امثال کے ذریعے بتایا جائے کہ جب کسی شخص کے دلائل کا جواب موجود نہ ھو تو اُسے یہ مت کہا جائے کہ یہ آپکا فیلڈ نہیں، یا ستار ایدھی کی رفاھی خدمت الگ اور انکا جنت دوزخ پر کوئی یقین نہ ھونا قابل اعتقاد نہیں ھے۔ یا آئین سٹائین کے سب قانون تو ٹھیک پر اسکا خدا کے بارے یا ارتقا کے بارے بیان غیر ضروری ھے۔
اس مضمون میں مجھے سخت زبان ھی استعمال کرنا ھے کیونکہ جن لوگوں کی اپنی قدر انکے اپنے اصحاب میں بھی نہ ھو وُہ بڑی بڑی شخصیات پر غیر مدلّل اعتراضات نہ اُٹھائیں۔ انصار عباسی اور اوریا مقبول جیسے ان پڑھ اپنے مذھبی کنویں کو سمندر کہتے چلے جاتے ھیں، یہ شرپسند انسانیت کے سخت دشمن ھیں اور اقلیتوں کے سخت خلاف ھیں۔ ایسے میں پرویز ھُود بھائی، اور پروفیسر مہدی حسن اور ان جیسے دوسرے دانشوروں کا کام بہت ضروری ھو جاتا ھے کہ وپہ انسانیت کے خلاف کسی طرح کے چلن کو بےنقاب کریں
ایک عام اعتراض ھے کہ پروفیسر ھُود بھائی۔۔۔فزکس کے عام سے لیکچرر ھیں تو سماجیات اور مذھبیات پر کیوں بات کرتے ھیں؟
افسوس کی بات یہ ھےکہ یہی لوگ جب اپنے کسی مذھبی رسول یا صحابی یا امام یا خلیفہ کی بات کرتے ھیں تو اسکے اقوال میں سے مذھب، سماجیات، علم غیب، سائینس۔۔حکمت سمیت دنیا کے ھر علم کی کڑیاں ملاتے ھیں۔ اور مزے کی بات یہ ھےکہ اس وقت یہ فارمولا انہیں یاد نہیں رھتا کہ فلاں خلیفہ یا رسول یا صحابی سائینس دان نہیں تھا۔۔ ھاں پروفیسر ھُود بھائی کو فزکس سے آگے نہیں بولنا چاھئیے کیونکہ انہیں نظریہ پاکستان تو سمجھ میں نہیں آیا البتہ فزکس کی وہ گتھیاں سمجھ میں آگئیں جو یہ سارے اخباری ادیب اور مولوی سلجھا نہیں سکتے۔۔گویا نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ اور اسکے شواھد اور ثبوت،،،کتابوں اور تقاریر اور آڈیو اور ویڈیو بیانات کے سامنے ھونے کے باوجود پروفیسر ھود بھائی۔۔۔یہ سمجھنے سے قاصر ھیں کہ دوقومی نظریہ کامیاب نظریہ ھےکہ نہیں ھے؟۔ گویا دنیائے فزکس کے اصول اور تجربات اور نظریات تو سجھ سکتے ھیں مگر نظریہ پاکستان، اور دوقومی نظریہ نہین سمجھ سکتے۔۔۔؟
آئیے اب ان احمقوں کے ایسے اعتراضات کا جواب تاریخی ، سائینسی، حوالوں سے پیش کروں۔۔
یہ لوگ کسی نہ کسی حوالے سے ارسطو کے نام سے واقف ھیں کیونکہ انکا علم درسی نصابی اور آخباری ھے اس لئے انکو معلوم ھے کہ ارسطو ایک دانشور تھا اور فلسفی تھا، اور بس !
جبکہ قدیم عرب کے لوگ ارسطو کو ایک عظیم ترین حکیم کے طور پر جانتے تھے۔ حکیم سے انکی مُراد، فلسفہ ، طب، سائینس، شعور، سماجیات پر دسترس رکھنے والا انسان تھا۔
ارسطو نے طب، حکمت اور حیاتیات کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔
فلسفہ کے علاوہ جو چیز ارسطو کو سابق فلاسفہ سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کا عملی طبیعیات، ہیئت اور حیاتیات میں ملکہ تھا۔ وہ پہلا عالم تھا جس نے علمی اصطلاحات وضع کیں۔ منطق کو باقاعدہ علم کا درجہ دیا۔ اور سیاست و معاشرت کے لیے باضابطہ اصول ترتیب دیے۔ اس کی قائم کردہ اکیڈمی عرصہ دراز تک مرکز علم و فن رھی۔
ارسطو صرف فلسفی ہی نہ تھا، بلکہ وہ علم طب، علم حیوانات، ریاضی، علم ہيئت، سیاسیات، مابعدالطبیعیات اور علم اخلاقیات پر قدیم حکما کے مابیں مستند اور صاحب الرائے عالم مانا جاتا ہے۔ اس کی کتب و تحقیقی رسائل کی تعداد ہزار سے اوپر ہے، جن میں سے اہم یہ ہیں۔

المقولات
الاخلاق
مابعدالطبیعیہ
العبارۃ
الب رہان
الجدل
الخطابہ
الشعر
النفس
الحیوان
الحس و المحسوس
بوطیقا
۔۔۔۔
یہ پہلی مثال تھی جسے میں ان اعترآضات کرنے والوں کے سامنے لایا ھوں۔ اور جب بھی یہ جہلائے پاکستان آپ سے پوچھیں تو یہ پہلی مثال پیش کردیا کریں کہ ارسطو کی طرح کیسے پروفیسر ھُود بھائی سمیت، علی عباس جلالپوری،۔سعید ابراھیم، ڈآکٹر خآلد سہیل،مبارک علی ، پروفیسر مہدی حسن، سمیت بےشمار افراد ایک ھی نہیں مختلف محاذوں پر اپنا تربیتی جہاد جاری رکھے ھوئے ھیں اور عین حق پر ھیں۔
ایسے افراد جو مختلف فنون اور شعبہ جات مین مہارت رکھتے ھوں انہیں پولی میتھ کہا جاتا ھے۔۔ ھر فن مولا اسکا درست ترجمہ نہ ھوگا۔۔۔
یعنی ارسطو ایک پولی میتھ انسان تھا۔ جو بہت سے سائینسی ، سماجی ، طبی، اور شعوری وجدانی فنون میں ماھر تھا۔
اسی طرح ڈاونچی نامی شخص بیک وقت مصور، پینٹر،انجینیئر، ریاضی دان، موسیقار، بیالوجسٹ،حکیم،تعمیراتی ڈایزائینر، اور بےشمار علوم کا ماھر ترین شخص تھا۔ شاید دنیا میں اس سے بڑا پولی میتھ کوئی بھی نہیں پیدا ھو سکا۔
قریبی ماضی میں برٹرینڈ رسل کا نام ایک پولی میتھ کے طور پر سامنے آتا ھے۔
جو فلسفہ، منطق،سماجیات،تاریخ دان، سیاسی کارکن، مصنف، اور ریاضی دان تھا اسکے کئی ماڈل اور ریسرچ کمپیوٹر بنانے میں استعمال ھوئےھیں۔
اس سے کسی نے نہیں پوچھا کہ بھائی آپ فلسفی کدھر سے ھوگئے سماجیات پر بات کیوں کر رھے ھیں۔ خدا کے بارے بیان کیوں دے رھے ھیں۔،جبکہ آپ تو صرف سیاسی کارکن ھیں یا صرف ریاضی دان ھیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح شاعر ٹیگور، ایک شاعر ھی نہیں ناولسٹ، موسیقار اور پینٹر بھی تھا۔۔سماجی ایکٹیوسٹ بھی تھا انگریز کو سَر کا خطاب واپس کردیا کہ جلیانوالہ کا قتال کیوں کیا۔۔ھاں پاکستانی معترضوں کے پسندیدہ نصابی ھیرو نے اپنا خطاب پنجابی ھو کر بھی واپس نہ کیا۔ اقبال کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے پاکستانی عمومی علمی شعور پاتال کی جانب چل پڑا ھے۔
امریکی چارلس سینڈرس پیریس ایک ریاضی دان، کیمسٹ، منطقی، فلسفی، اور بہت کچھ تھا۔۔۔
اسی طرح کی کوئی 50 شخصیات میرے سامنے ھیں ،،لیکن طوالت کے خوف سے نہیں لکھ رھا،،
پس پاکستانی عقلی بونوں کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاھئیے کہ پروفیسر ھود بھائی،،،نہ صرف ایک سائینسدان ھیں بلکہ وہ نظریاتی طبیعات کے ماھر بھی ھیں، سماجیات پر انکی دانشمندانہ نظر ھے، وہ تاریخ کے ماھر ھیں۔وہ انسانی آزادی کے ایک بہت بڑے ریفارمسٹ ھیں، وہ ھیومنسٹ ھیں۔وہ عملی اصلاحی تعلیمی محاذ پر کام کر رھے ھیں۔ وہ کتابون کے مصنف ھیں۔ انکے شاگردوں میں کئی علوم کے ماھرین شامل ھیں۔ یہ پاکستانی معاشرے اور ملک کی شدید بدقسمتی ھےکہ اصلاحی کام کرنے والے سائینسدان کو بلیک لسٹ قرار دیا جائے۔۔ اور مذھبی جانور انکے پیچھے لگا دئیے جائیں، یا ایجنسیاں انہیں اسی طرح دھمکائیں جیسے ستار ایدھی کو رفاھی کام سے روکنے کے لئے دھمکایا جاتا تھا۔
پروفیسر ھُود بھائی نے مشعل نامی ویب سائٹ پر مفت علمی کتابیں مہیا کی ھیں۔ انہوں نے اس وقتِ جبر میں ملالہ، اور مشال خان کے حق کے لئے آواز اُٹھائی۔
وہ گمراھی کے دور میں ایک عظیم علمی جدوجہد کا روشن مینارہ ھیں۔ ھود بھائی کئی رفاھی ادارے چلا رھے ھیں۔
آپ غور کریں، عرفان ستار ایک بہت اعلی شاعر ھے نثر نگار ھے، اور فارمیسی میں ڈگری رکھتا ھے۔ ڈاکٹر ابرار،،پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ھیں لیکن ایک نہایت عمدہ شاعر ھیں۔ ڈاکٹر کبیر ایک سرجن ڈاکٹر ھیں اور ایک بہترین شاعر۔۔۔ خود میں الیکٹرونکس انجینیرنگ کے علاوہ فارمیسی اور جنرل ازم کی سند رکھتا ھوں، جبکہ اینٹمالوجسٹ بھی ھُوں۔۔۔۔اور شاعری بھی کرتا ھُوں اور تنقید بھی ،،،، ایک سے زیادہ شعبوں میں ماھر ھونا ایک قدرتی عطا ھے اور اس سے محروم لوگوں کا ھم سے حسد کرنا نہایت افسوسناک ھے۔
پس اے طبقہِ جہلائے پاکستان !تمھیں تمھارے اُس خدا کا واسطہ جو تمھیں ھدایت نہیں دیتا تمھاری مدد نہیں کرتا تمھیں جاھل ان پڑھ رکھے جاتا ھے۔۔تمھارے معاشرے میں جنسی قتال اور لُوٹ مار پر جو کچھ نہین کرتا اسی کے نام پر ھماری کوششوں پر ذرا غور کرو فتوے نہ لگاو ۔۔۔ علم حاصل کرو۔۔اور انسانیت کو اولیت دو۔۔مذھب اپنے گھر میں رکھو دوسروں پر مسلط نہ کرو۔۔۔ورنہ ھمیشہ تباہ حال ھی رھو گے
رفیع رضا