خدا ، مذھبی خدا، قدرتی خدا، بے رحم خدا، کالا پتھر، حجر اسود . عقلی گفتگو

سچائی کیا ھے؟ کیا جھوٹ ھے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ایک دوست نے پوچھا۔۔۔




۔ خدائے مذھبی کیا ھے ، خدائے قدرتی کیا ھے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
المختصر بیان کرتا ھُوں
جب ھم کائنات کو دیکھتے ھیں۔ اور پھر دنیا کو اور اپنی زمین پر نباتات و حیوانات کو دیکھتے ھیں،،،، تو سوچتے ھیں کہ آخر انکی ابتدا کہاں سے ھوئی۔
ھم ایسا اس لئے سوچتے ھیں یا ھماری یہ سوچنے کی نہج اس لئے ایسی ھے کیونکہ ھر جاندار کی کوئی ابتدا ھمیں نظر آتی ھے۔۔ہر عمومی پروسس کو ہم بنتے شروع ہوتے دیکھتے ہیں یہ ھمارا روز کا مشاھدہ ھے۔
عام انسان نہیں جانتے کہ پلاسٹک کیسے بنتا ھے، وہ اس پر سوال نہیں اٹھاتے کہ پلاسٹک اور نائیلون کیسے وجود میں آگیا؟ تیل سے بھلا پلاسٹک کیسے بن سکتا ہے وہ نہیں کہتے یہ پاگل پن اور جھوٹ ہے۔۔بس مان لیتے ہیں
وہ سوچتے ھیں فیکٹری میں بنتا ھے اور وہ بس اسی علم پر مطمئن ھیں،لیکن سائینس کسی بھی چیز، کا مشاھدہ مخلتف سطح کے علوم سے کرتی ھے ، عام انسان لاؤڈ سپیکر کی آواز روز سنتا ھےمگر جانتا نہیں یہ کام کیسے کرتا ھے؟ آواز کیا ھے؟ کیسے وائیبریشن والی صوتی لہریں۔۔مائیک کے پردے سے ٹکراتی ھیں۔۔ پھر اس پردے سے آگے جو لرزش پیدا ھوتی ھے اس کے اثر کو کیسے مقناطیسی میدان برقی رو میں منتقل کرتا ھے پھر کیسے وہ برقی پیغام میں منتقل ہوتی ہے آگے منتقل ھو کر پھر کسی سپیکر سے آواز کیسے خارج ھوتی ھے عام انسان کو اسی طرح دنیا کی کروڑوں چیزوں اور اربوں کھربوں کیمائی تعاملات کا علم نہیں ھوتا۔۔
لیکن اُسے ایک علم ھوتا ھے کہ ایک مذھبی خدا ھے جو سب دیکھ رھا ھے اچھے بُرے کو جزا سزا دیتا ھے پتّے ھِلتے نوٹ کرتا ھے بادل لاتا ھے زلزلے لاتا ھے سیلاب لاتا ھے۔ فرشتے رکھتا ھے شیطان سے اسکی لڑائی ھے۔۔۔یہ عام انسان کوصرف پتہ ھی نہیں ھوتا بلکہ وہ اسے ایسا سچ سمجھتا ھے کہ اس کے انکار پر آپ کو قتل کر دیتا ھے۔اپنے بیوی بچوں ماؤں بھائیوں کو قتل کر دیتا ھے کہ اس خدا کا انکار کیوں کیا۔۔۔تاھم آپ کو معلوم ھے کہ یہ عام انسان دنیا کی کروڑوں چیزوں کا علم نہیں رکھتا۔۔ اسے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانا ھوتا ھے سائیکل خراب ھو تو میکینک کے پاس جاتا ھے۔ روٹی کے لئے کسان کا محتاج ھے۔تعلیم کے لئے سکول و استاد کا محتاج ھوتا ھے۔لیکن ایک بات پر اسکے یقین ایمان اور علم ایسے پکّے ھوتے ھیں کہ وہ آپکو کافر مُلحد زندیق بندر خنزیز کہہ دیتا ھے۔ زندگی اجیرن کر دیتا ھے۔
تو صاحبو۔۔۔۔ایسا عام انسان اس لئے ایسا کرتا ھے کیونکہ اسکے دماغ کی برین واشنگ یا بچپن سے تربیت اس مسلّط کردہ ایمان یا غیبی عِلم کے سائے میں ھوتی ھے۔وہ اِس کنویں سے باھر سوچنے سے معزور ھوتا ھے۔!
اُسے کنویں سے باھر جو دکھائیں گے وہ اسے چُلّو بھر پانی کہے گا۔ وہ اپنے موجود کو ھی احسن ترین سمجھے گا۔ وہ دوسروں کو کافر باطل دوزخی کہے گا اور اس پر دل سے یقین رکھے گا اسکا کوئی قصور نہیں ۔۔یقین کریں اسکا اس میں کوئی قصور نہیں وہ چونکہ اس فاسد تربیت سے گزرا ھے جس میں اَن دیکھے پر ایمان فرض ھے اُسے صرف وہ دلائل پسند ھونگے جنکی روشنی میں وہ اپنے ھی عقیدے ایمان مذھب یا علم کو سچا ثآبت کر سکے۔ ھر وہ بات جو اسکے پسندیدہ عقیدےکے خلاف ھوگی وہ کافرانہ ، دھریانہ، بُری، باطل ، گمراہ کُن ھوگی۔
دوسری طرف سائینس ایسا علم ھے جس میں ایمان و عقیدے کے پرچار کی روشنی میں کسی بھی چیز، منظر، مادے، آواز، لہر، موج، پروسس وغیرہ کو نہ صرف پرکھا جاتا ہے بلکہ مشاھدے تجربے اور جزیاتی پیچیدگیوں کی تہوں کو کھنگالنے کے بعد کوئی نتیجہ بھی نکالا جاتا ھے۔ اگر نامعلوم ہو تو کوئی نظریہ قائم کیا جاتا ہے لیکن کوئی زبردستی نہیں کی جاتی کہ اس پر ایمان لانا یقین کرنا لازم ہے۔۔۔پوچھا جاتا ھے کہ آپ کوئی شواھد لائیں کوئی تجربہ کر دکھائیں۔
سائینس نے قدیم ترین فوسلز میں ابتدائے حیات کے شواھد تلاشے اور یہ نتیجہ نکالا کہ شاید ابتدا میں یک خلیاتی حیات۔ کیمیائی تعامل سے پیدا ھوئی ھوگی۔۔پھر اینٹروپی کے نظرئیے کے تحت کثیر خلوی جاندار بنے۔۔اور یوں ارتقائی طور پر موجودہ جانداروں تک وقت پہنچ گیا۔
تاھم اس نظرئیے کے مطابق ابتدائی حیات یا جاندار خلئیے میں ضربی تحریک کیسے پیدا ھوئی؟ یعنی خلیہ خود ھی کیسے مزید خلیوں کو جنم دینے کا کام کرنے لگا؟ یہ سوال، شافی جواب نہیں پا سکا۔ کیونکہ جدید ترین ریسرچ میں بھی کسی ضرباتی خود کار حیاتیاتی خلیہ یا خلیوں کو کسی جینیٹک ھدایت نامے کی تابعداری کرنی لازم ہوتی ہے۔تو جینیٹک کوڈ کیسے آ داخل ھُوا؟
ادھر مذھبی سائنسی یا مذھبی غیر سائینسی نظرئیے کے مطابق ایک خدا ھے جو ھمیشہ سے ھے ھمیشہ رھے گا اور اُس نے زمین بنائی۔۔آسمان بنایا۔۔اور ھوا ۔. پانی اور عناصر بنائے۔۔۔اور حیات بنائی۔۔۔اور وہ اسکو کنٹرول کرتا ھے۔۔ وہ طیش میں زلزلہ لاتا ھے تاکہ لوگ اچّھے ھو جائیں بیماریاں لاتا ھے تاکہ سزا دے۔۔۔سیلاب لاتا ھے تاکہ سزا دے ۔۔۔ بجلی چمکاتا ھے کہ ڈرائے اور آنکھوں سے بینائی لے جائے۔۔۔ یخطف ابصارھُم۔۔۔
اور یہ خدا یعنی یہ مذھبی خدا بہت سی صفات رکھتا ھے جیسے قرآن میں صفاتی نام۔۔جیسے بائیبل میں صفاتی نام ھیں۔
یعنی، رحیم، مہربان، سمیع، غنی، بصیر، نزیر، ودود، باری، مصور، کریم، غفور، مکّار، وغیرہ (اللہ خیر الماکرین)
اپنی صفات کی روشنی میں خدائے مذھبی نے زمین پر حیاتیاتی نظام بنایا۔۔۔ جو ھم دیکھتے ھیں۔ کہ جاندار آکسیجن کے محتاج بنائے۔۔ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ھیں جو درختوں پودوں کو ملتی ھے وہ جذب کر کے واپس آکسیجن بناتے ھیں۔
اسی خدا نے جاندار بنائے۔۔۔ جانور بنائے۔۔۔ جن میں بھیڑیا، کُتے، بھگیاڑ، مگرمچھ، شیر ، چیتے۔۔ نیولے، عقاب، بنائے۔۔۔۔جو گوشت خور ھیں۔ پس اس خدا نے دوسرے جانور بنائے جو گھاس کھاتے ھیں اور انکو یہ گوشت خور کھاتے ھیں۔
اب چونکہ وہ مذھبی خدا رحیم۔بہت رحم کرنے والا ترس کھانے والا۔ مہربان مشفق اور ماں کی درد درد رکھنے والا ھے اس لئے اس نے ایسا نظام بنایا جس میں گوشت خور دوسرے جانوروں کو نوچ نوچ کر کھاتے ھیں۔نوچے جانے والی گائے بھینس بکری ھرن ھاتھی۔۔زرافے، بندر ، وغیرہ ۔۔ درد کی شدت سے چیختے ھیں۔ ایک جانور ماں کے سامنے اسکے بچے کو شیر ، بھیڑئیے نوچ نوچ کھاتے ھیں۔ اب چونکہ خدا بڑا رحیم ھے اور ترس کھانے والا ھے ۔۔۔مخلوق روئے تو اسکو ترس آتا ھے تو اس نے ایسا نظام کیسے بنایا جس میں گوشت خور دوسرے جانداروں کو ضرورت میں اور بلا ضرورت بھی قتل کریں بھنبھوڑیں نوچیں انکی بوٹیاں کاٹ کاٹ کھائیں؟ کیا خدا ترس کھانے والا نہیں؟ آپ تو کہتے ھیں مذھبی خدا ترس کھانے والا مہربان رحیم ھے پھر۔۔۔یہ تکلیف دینے والا نظام کیوں؟ اگر آم ، سیب کیلا کھانے سے پھلوں کو تکلیف نہیں ھوتی تو سب کو سبزی خور ھی بنا دیتا ۔۔ لیکن مچھلی کو مچھلی کھا رھی ھے۔۔ھزاروں قسم کے جانور ایک دوسرے کو قتل کر کے کھاتے ھیں۔ایسا نظام بنانے والا کیسے رحم کرنے والا ھو سکتا ھے۔۔کیسے ماں کی طرح اولاد کے لئے رو سکتا ھے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ ھمارا کنویں جیسا دماغ جو مذھبی تعلیم سے محدود کر دیا ھو گیا اُس نے خیالی مذھبی خدا کی صفات خود بنائی ہوں؟ ترس کھانے کا تصور شاید خود انسانی دماغ کی صفت نہ ھو؟ ایسا کیوں ہے ۔آپ نے کبھی نہ سوچا؟ آپ کہیں گے کہ خدا نے یہ نظام ھی ایسا بنایا ھے۔ تو پھر میں یہی سوال کروں گا ایسا تکلیف دہ نظام کیوں بنایا ھے؟ یا پھر جانداروں کو ایسی حِسّیات ھی نہ دیتا کہ وہ اس ظلم یا کریہہ نظام کو بُرا اور بےرحمانہ سمجھیں۔ یہ صلاحیّت ھی نہ دیتا؟
اگر صلاحیّت بھی دی ھے اور بے رحمانہ نظام بھی بنایا ھے تو یقینی بات ھے کہ وہ رحم پر مبنی نظام بنانے کی صلاحیّت سے عاری تھا۔ورنہ وہ اپنی صفاتِ مہربانی و رحم کی وجہ سے بے رحمانہ نظام نہ بناتا۔۔
یا پھر۔۔ خدا میں یا بنانے والے میں رحم کی صفت موجود ھی نہیں اور ھم اپنے کنویں میں سوچ کر جو صفت اس سے منسوب کر بیٹھے ھیں وہ اسکی نہیں ھماری انسانی صفت ھے !
اس گفتگو سے یہ ثابت ھو گیا ھے کہ خدا کی ایسی صفات جو نرمی مہربانی رحم ترس محبت پر مشتمل ھیں وہ انسان نے بنائی ھیں۔ خدا کی صفات نہیں ھیں۔یا پھر یہ وہ والا خدائے مذھبی نہیں ھے کوئی اور خدائے قدرتی ھے جو ایسی کسی بھی صفت سے عاری ھے
سائینس ھمیں سمجھاتی ھے کہ دیکھو۔۔۔ بجلی کوئی نہیں چمکاتا بلکہ فضا میں موجود گیسیں اور ھوا کا دباؤ اور پانی کے بخارات اور مقناطیسی میدان یہ سب کچھ پیدا کرتے ھیں جسے ھم آسمانی بجلی کہتے ھیں جو مندروں مسجدوں گورو گھروں ، کعبہ ، وغیرہ پر ضرور گِرے گی اگر وھاں خدا کے حملے سے بچاؤ کے حفاظتی ارتھ سسٹم والا آلہ نہ لگائیں!
یعنی خدا کے اپنے گھروں کو بھی اُسی کے غضب یعنی بجلی سے بچانے کے لئے انسان کو آلہ ایجاد کرنا پڑ گیا۔ اس دلیل کے جواب میں مذھبی علما کی آئیں بائیں شائیں دیکھنے والی ھوگی ، وہ کہیں گے انسان کو خدا نے عقل اسی لئے دی ھے۔ مگر بجلی خدا کے حکم سے کسی پر سزا کے لئے گرنے والے پرانے عقیدے کو خود ھی جُھٹلا دیں گے کہ فلاں الہامی کتاب میں جو لکھا ھے وہ اور حوالے سے ھے اور حدیثیں تو خدائی نہیں ھیں بعد کے لوگوں نے بنائی ھیں۔
بائیبل میں بتایا گیا کہ کافروں پر خدا نے بجلی گِرائی۔۔۔ موجودہ احمدی فرقہ کے بانی نے لکھا کہ زلزلہ خدا کی ناراضگی کا اظہار ھے۔ اور ایک واقعہ لکھا کہ ایک عمارت میں مرزا صاحب موجود تھے اور اسی میں دور دراز اندرون میں ایک ھندو جوگی بھی تھا۔۔۔ بجلی عمارت پر گِری مرزا صاحب محفوظ رھے لیکن وہ ھندو پنڈت جل کر راکھ ھو گیا حالانکہ وہ بجلی سے زیادہ دوری پر تھا۔۔۔۔اسی طرح مرزا صاحب گزشتہ مذھبی بزرگوں صوفیوں رسولوں کی طرح کے واقعات میں مخالفین کی موت کی پیشگوئیاں کرتے تھے۔ لیکن اپنے ھی نو عمر بچے مبارک احمد کی وفات کو بھی اپنی ھی سچائی کا نشان بنا ڈالا کہ مجھے پہلے سے خدا نے بتادیا تھا کہ وہ مر جائیگا۔ یہ عجب منطق ھے کُل انسانیت کو یہ منطق سمجھ نہیں ا سکتی مگر یہ منطق مذھبی کو سمجھ آئیگی اور وہ ایمان لائے گا کہ بالکل درست ھوا اللہ کی مرضی ھی ایسی تھی۔ اتفاق دیکھیں بالکل یہی حال محمد رسولِ عربی کا ھُوا کہ انکا بیٹا نو عمری میں تڑپ تڑپ کر مَر گیا۔۔۔ بعد میں نوجوان ماں بھی مَر گئی۔۔۔ دوسروں کی شفاعت کرنیوالے اور دوسروں کو لعاب دھن لگا کر شفا دینے والے کُل آسمان کی سیر کرنے والے خدا سے ملاقات کرنیوالے کو آنسو بہانے پڑے اور بچے کو نہ بچا سکے نہ کوئی دعا کام آئی نہ خدا کی مدد ، اُلٹا بیوی بھی مَر گئی۔لیکن اس واقعی سے ماننے والے مذھبی کے ایمان میں کمی نہیں ھوئی اور مضبوط ھُوا کہ اللہ کی مرضی تھی اللہ نے واپس لے لیا۔۔اور یہ نمونہ خلقت کو خدا نے دکھانا تھا کہ دیکھو نبی کا بیٹا بھی اللہ مار سکتا ھے اسکی رضا پر راضی ھونے کا نمونہ دکھایا گیا ھے۔ بالکل ایسے ھی مسیح بن مریم کا صلیب پر چڑھنا ، لوگوں کو گناھوں کا کفارہ ھو گیا۔۔۔ یا یہ کہ دیکھیں جی اللہ نے پہلے ھی سے بتادیا تجھے صلیب ھوگی اور تیرا فلاں حواری مخبری کرے گا۔۔مذھبی ایسی بنائی گئی سب کہانیوں کو سچ ھی سمجھتا ھے یہ کہانیاں بار بار سنا کر اسکا ایمان مضبوط کیا جاتا ھے۔
چھاپہ خانے کی ایجاد کو کُفر کہا گیا۔گانے بجانے کو کُفر کہا گیا۔فلمیں، اور بُت گری کو کُفر و شرک کہا گیا۔خدا کے کام میں مداخلت کو ناقابل معافی جرم کہا گیا جس میں دوائیں بھی شامل ھیں۔جیسے افغانستان و پاکستان میں پولیو کا ختامہ نہیں ھو سکا کیونکہ مقامی جاھلیت اور مذھبی جاھلیت کا اتفاق ھے کہ ویکسیئن اور دوائیں خدا کے کام میں مداخلت ھیں اور کافروں کی ایجادیں ھیں۔ انکار کرنے والے انکار کرتے رھے۔۔۔ مذھبیوں نے پھر جدید ایجادات کو تھوڑا بہت ماننا شروع کیا۔۔لیکن اس میں کوئی نہ کوئی مذھبی شدت برقرار رکھی۔۔ مثلاً دوا کھانے سے پہلے اس پر فلاں سورۃ پڑھ کر پھونکو۔۔ دوا حلال ھو حرام جزیات نہ ھوں۔۔ پھر آھستہ آھستہ اجتہاد کر کے معانی بدل کر ایسی آیات چن لیں جنکے مطالب مشتبہ ھیں۔۔کہا گیا کہ اسلام میں تصویر بنانا منع ھے۔۔ پھر اسلامی بزرگوں نے کہا ھماری تصویر تبلیغ کی اشعات کے لئے تو ٹھیک ھے ورنہ کُفر و بُت گری ھے۔
پھر آیات کے مطالب کہیں سے کہیں لے گئے۔۔ کیونکہ زمانے کا ارتقائی کُلی شعور پرانے افلاس زدہ خیالات کو رد کر رھا تھا تو معانی کی بجائے تشریحات کا سہارا لیا گیا۔ کہا گیا فلاں فلاں آیات اصل میں صرف فلاں اَمر سے متعلق ھیں انکا اطلاق یکساں ھر وقت ھر عمل پر نہیں۔
کہا گیا النجم و شجر یسجدان۔ کہ خدا کو ستارے سجدہ کرتے ھیں۔ کا مفہوم یہ نہیں اصل میں اس سے مُراد درختوں جیسی سایہ دار ھستیوں کا خدا کو سمجدہ کرنا ھے۔۔یا پھر درختوں کے سجدے سے مراد خدا کی پیداواری تخلیقی صلاحیت کی ودیعت کا شُکر ھے۔ غرض اُلجھا اُلجھا کر مذھبی ذھن کو بند کر دیا گیا۔
عام مذھبی انسانی ذھن چونکہ مذھب کے مقیّد کنویں میں ھی سوچتا ھے اس لئے اسکی تسکین مذھبی علما یہ کہہ کر کرتے ھیں کہ خدا کی مرضی اسی میں ھے۔۔ بچہ پیدا ھوتے ھی بیماری سے مَر گیا تو خدا کی مرضی ھے معزور پیدا ھوا تو خُدا کی مرضی ھے۔ قرآن کہتا ھے کہ تمھارے چچا کے لڑکے لڑکیاں تم پر حلال تو سائینس کہتی ھے تھیسیلمیا کی بیماری اس سے بڑھ رھی ھے مت کرو کزنوں میں شادی ورنہ معزور معاشرہ بن رھا ھے۔
مذھبی کہتا ھے پولیو کے قطرات خدا کے عمل میں رکاوٹ ھیں۔ کورونا وائرس مغرب نے پھیلایا ھے وہ مسلمانوں کی نسل بندی کرنا چاھتے ھیں۔
پھر ایک طرف کوئی نبی رسول ولی اللہ خلیفہ پوپ پنڈت ربی گورو ، مخالفوں کی موت کو اور مخالفوں کے بچوں کی موت کو اپنا خدائی مجعجزہ ھائے دعا بتاتا ھے لیکن اپنا بچہ مَر جائے تو اُسے مخالفین کی سچائی نہیں مانتا بلکہ خود پر ابتلا کہہ کر بات گُھما دیتا ھے۔ کہ مجھے خدا نے میرے بچے کی موت کے بارے خود پہلے ھی بتا دیا تھا۔۔ یعنی مخالف کا بچہ مَر جائے تو خدا سے انکا تعلق ۔۔۔اپنا بچہ مَر جائے تو بھی خدا سے تعلق پکّا ھے
مذھبی کتب میں غیر مذھب کو مخالفوں کو خدا بُرا بھلا کہتا ھے ۔۔۔ مگر غور سے دیکھیں تو جو جو الفاظ خدا مخالفوں کے لئے استعمال کرتا ھے وہ سارے انسانی خصائلِ بد ھیں۔
یعنی صاف پتہ چلتا ھے ان الہامی کتابوں میں خدائی طیش و غضب اصل میں انسانی غصہ مایوسی ناراضگی وغیرہ ھے
جیسے دیہات میں پنجابی میں کچھ ھو نہ سکے تو کہتے ھیں۔۔تیرا ککھ نہ رھوے۔۔۔ تُوں ڈُب مَریں،، تینوں شالہ موت آوے۔۔۔ اوئے لعنتی،،، اوئے مُورکھ۔۔۔
تجھے خدا بے اولاد رکھے۔۔۔ تُو اندھا گونگا بہرا ھے۔ تُو بندر جیسا ھے تُو خنزیر جیسا ھے۔۔اوئے مکٗار لُومڑ اوئے گیدڑ !۔
یعنی خدا اپنی ھی ایک مخلوق، انسان ،کو اپنی ھی دوسری مخلوقات جیسا بتا کر بُرا بھلا کہتا ھے۔۔
خدا خود ھی کہتا ھے۔۔ان نہ ماننے والے لوگوں کے دِلوں میں پہلے سے ھی بیماری ھے اور اللہ انکی بیماری اور بڑھاتا ھے۔۔فی قلوبھم مرض فزاد ھم اللہ مرض،،،،،،،یاد رھے کہ یہ خدا وہ خدا ھے جو ماں سے زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرتا ھے۔ اور رب ھے اور رحیم ھے اور کریم ھے اور غفور ھے ۔۔اور ودود ھے۔۔اور رحمان ھے۔۔
اچھا اب اس مذھبی خدا کو ماننے والوں کے مختلف علمی ذھنی طبقے ھیں۔ جو بہت فاتر العقل ھیں وہ تو ایک آدھ آیت کے بعد جواب سے معزور ھو جاتے ھیں
دوسرے وہ جو تھوڑا بہت جانتے ھیں کچھ ادھر سے لیا کچھ ادھر سے لیا اور پھر ایک ملغوبہ قسم کا ایمان اپناتے ھیں جس میں بات کو گُھما پِھرا اپنا عقیدہ سچا ثابت کرنا مقصود ھوتا ھے۔لیکن تفسیر و پیچیدہ مسائل کے لئے وہ مفسّر نما مذھبیوں کے محتاج ھوتے ھیں۔ جیسے ذاکر نائک، یا جاوید غامدی ایسے مذھبیوں کی تشفّی اپنی امثال سے کر دیتے ھیں۔
مثلاً جب غامدی جی سے پوچھا گیا کہ یہ قرآن میں بار بار لالچ اور دھونس و ڈراوا ، کیوں خدا کی طرف سے آتا ھے؟ یہ حوروں کا ذکر ڈھکے انڈوں جیسی بڑی موٹی آنکھیں۔ حُوریں جو کنواری ترین ھونگی۔۔۔ تو عورتیں کیا پائیں گی؟ تو ھنس کر یا تو ٹال دیتے ھیں یا کہہ دیتے ھیں وہ اصل میں بیویاں ھی ھونگی یا محسوسات ایسی ھونگی ۔۔وغیرہ
ایک درس کے دوران جاوید غامدی نے شہری کی جانب سے بھیجا گیا سوال پڑھا، شہری نے پوچھا ”جنت میں حوریں ہوں گی جنہیں اہل جنت سے پہلے کسی جن و انس نے چھوا نہیں ہوگا ،کیا اہل جنت ان حوروں کے نتیجے میں اولاد سے بہرہ ور ہوں گے؟“۔
شہری کے سوال پر جاوید غامدی نے کہا ایک تو یہ سمجھ لیجئے کہ حور کوئی مخلوق نہیں ہے بلکہ حور ایک صفت کا نام ہے جس کا مطلب آہو چشم ہے ، آپ کی بیویاں ہی حوریں ہوں گی، اب آپ غور کریں تو قران میں آھُو چشم کا کوئی لفظ نہیں۔۔ ڈھکے انڈوں جیسی آنکھیں کہا ھے۔۔۔ جسکو اردو میں غلافی آنکھیں کہتے ھیں۔ تاھم آھو چشم، یعنی غزال یا ھرن کی انکھ جیسی خوبصورت آنکھ ، غامدی صاحب نے اللہ کی مرضٰ سے قرآنی تفسیر میں بطور آیت ڈال لی اور کوئی اُن سے پوچھتا نہیں کیونکہ سب پہلے سے مانے بیٹھے ھیں۔
آپ خود ایمانداری سے سوچیں قرآن میں صآف صاف لکھا ھے لیکن یہ مُلاں اپنے معانی بناتے ھیں۔ائیے ذرا اسکو پھیلاتے ھیں
حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِۚ(۷۲)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِۚ(۷۳)ترجمہ: کنزالایمان
حوریں ہیں خیموں میں پردہ نشین تو اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے
تفسیر: ‎صراط الجنان
{حُوْرٌ: حوریں ۔} ارشاد فرمایا کہ ان جنتوں میں خیموں میں پردہ نشین حوریں ہیں جو کہ اپنی شرافت اور کرامت کی وجہ سے ان خیموں سے باہر نہیں نکلتیں ۔ (خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۲، ۴ / ۲۱۵)
جنتی حور اور ا س کے خیموں کا حال:
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر جنتی عورتوں میں سے زمین کی طرف کسی ایک کی جھلک پڑجائے تو آسمان وزمین کے درمیان کی تمام فضا روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۴، الحدیث: ۶۵۶۸)
اورحضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’مؤمن کے لئے جنت میں ایک کھوکْھلے موتی کا خیمہ ہو گا، اس کی لمبائی 60میل ہو گی، مؤمن کے ا ہل ِخانہ بھی اس میں رہیں گے ،مؤمن ان کے پاس (حقِ زوجیّت ادا کرنے کے لئے) چکر لگائے گا اور ان میں سے بعض بعض کو نہیں دیکھ سکیں گے۔( مسلم،کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا،باب فی صفۃ خیام الجنّۃ وما للمؤمنین فیہا من الاہلین،ص۱۵۲۲،الحدیث: ۲۳(۲۸۳۸))
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے وہ نعمتیں پیدافرمائیں جو تمہارے لئے پردہ نشین اور (دوسروں سے) چھپی ہوئی ہیں توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۳، ۹ / ۳۱۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر کے بیانات کو دیکھیں اور جاوید غامدی سمیت بہت سے ایسے مذھبی علما کی تاویلات کو سنیں تو آپ اگر برین واشڈ نہیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ سب الہامی کتابیں انسانی کاوشیں ھیں۔۔۔ان میں کچھ اس پرانے عہد میں قدرے روشن خیال باتیں سمجھی جا سکتی ھیں۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ھے کہ جو کتاب خود کھول کھول کر مچھر جتنی حقیقت بھی لاریب طریق پر بیان کرتی ھے وہ حوروں کا لالچ دیتے ھوئے یہ کیوں نہیں بتاتی کہ تمھاری موجودہ بیویاں آخرت میں کنواری بن جائیں گی اور خوبصورت بن جائیں گی وغیرہ۔؟ خدا کو مسئلہ کیا ھے کہ اسکی بات غامدی جی کو ھی سمجھ آتی ھے پورے عرب کو سمجھ نہیں آئی؟
اور پھر مخاطب بھی وہ زمانہ جہاں لونڈیاں خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ حسین عورتوں کے دام بہت بالا تھے۔۔جہاں لونڈی کو خریدنے والے کے لئے عین حلال تھا کہ وہ اسکے اعضا دبا کر دیکھے پسند کرے۔۔ وھاں اپنی پرانی بیویوں پر عربی انسان کیسے قناعت کرتے؟ صآف ظاھر ھے آخرت میں مظلوم کو ظالم کے مقابلے پر جنّت کی نعمتیں ملیں گی۔۔۔اور رسول کے ساتھیوں کو اعلی مدارج ملیں گے کی ترغیب گروہ کو بڑھانے کی انسانی کاوش کا نتیجہ ھے۔
کسی مذھبی خدا سے اسکا کوئی تعلق نہیں ، نہ ایسا کوئی خدا ھے۔ جس کو ستارے سجدہ کرتے ھیں۔۔۔یا اشجار سجدہ کرتے ھیں۔
النجم و الشجرُ یسجدان۔۔۔
،،،،،
تاھم جب آپ سائینس اور علقیت کی طرف آئیں تو آپ دیکھتے ھیں کہ
کوئی نہ کوئی طاقت ھے یا طاقتیں ھیں جنہوں نے فزکس کے اصولوں کے تابع رہ کر حیاتیات بنائی۔۔ایسی طاقتیں ایک ھوں یا چار یا پانچ سو اس سے ھمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔
سائینس مسلسل دریافت کا علم ھے۔کئی اور ڈائیمینشن ھو سکتی ھیں۔۔جن تک ھماری رسائی نہیں ھے۔۔۔۔ یا محدود کر دی گئی ھے۔ اگر رسائی ھوئی تو ان طاقتوں سے ملاپ ھو سکتا ھے۔۔ تاھم مذھبی خدا بقول مذھب رحم کرتا ھے مہربان ھے غنی ھے سلیم ھے سمیع ھے۔۔تاھم غور کریں تو حیاتیاتی نظام میں کوئی رحم نہیں سوائے مادر پدر کے شفقت پدری و مادری کے رحم نہیں ھے ۔کیونکہ حیات کے سلسلے کو چلانا ھے وہ بھی ٹوٹا پھوٹا رحم ھے کئی جگہ ماں باپ بچے کو خود ھی مار دیتے ھے۔ ماں بچّے کو کھا بھی لیتی ھے کئی جانور اپنے بچوں کو کھا جاتے ھیں۔۔ قدرت میں ھماری انسانی رحم کی صفت کا کہیں پتہ نہیں۔۔ جاندار دوسرے جانداروں کا حق مار کے خود زندہ رھتے ھیں بھیڑئیے اور بیسیوں جانور دوسروں کو زندہ نوچ نوچ کھاتے ھیں۔
کیا آپ دیکھنا پسند کرتے ھیں کہ ھرن یا گائے کو سات آٹھ بھگیاڑ زندہ نوچ نوچ کر کھائیں؟ آپ اس منظر کو دیکھ کر دکھ محسوس کرتے ھیں یا بہت لذّت ملتی ھے؟
اگر ھم کسی جاندار کی تکلیف نہیں دیکھ سکتے تو خدا تو رحیم کریم مہربان ھو کر کیسے ایسا نظام بنا سکتا ھے۔۔کوئی قصائی کبھی شاعر نہیں بن سکتا کیونکہ شاعر کے لئے نازکیِ خیالات، ترحّم، جذبہ، فکر، گہرائی ، ندرت اور اُپچ لازم ھوتی ھے۔
۔۔۔ پس ھمارا مشاھدہ بتاتا ھے کہ قدرتی خدا کبھی رحیم کریم مہربان غفور سمیع علیم نہیں ھو سکتا۔ ورنہ وہ ایسا ظالمانہ تکلیف دہ نظام نہ بناتا۔۔
آپ نے تصاویر دیکھی ھونگی کہ ایک معروف پاکستانی کرکٹر اپنی معصوم پانچ چھ سال کی بچی کو جانور کی گردن کاٹتے یا کٹی گردن دکھاتا ھے وہ روتی ھے اور نہین دیکھنا چاھتی، کیونکہ بچے ابتدا میں ایساے ظالم طبع نہیں ھوتے۔ بعد مین انکی تربیت انہیں اچھا یا بُرا بناتی ھے۔ تاھم یہ معاملہ صرف انسان کے ساتھ ھے ، وہ مذھبی کرکٹر جگہ جگہ نمازیں پڑھتا دکھایا جاتا ھے، کیا مذھب کی تلقین جانوروں کا قتال ھے؟ معصوم بچی کو کیا تربیت دے رھا تھا؟
کیا آپکو علم ھے کہ جانوروں کے انسداد بے رحمی کے قوانین کافر اقوام نے بنائے ھیں؟ حتی کہ درختوں تک کی حفاظت کے عالمی قوانین کافروں نے بنائے ھیں۔مذھب نے یہ بتایا کہ مجرم کو سزا کے طور پر اسکے ھاتھ کی کون کون سے انگلی شریعت میں کاٹنی ضروری ھے۔
مذھبی خدا نے کیوں ایسی شریعت بنائی؟خدا میں انسانی غصہ کیوں ھے؟ خدا غصہ کرنے کی بجائے دلوں کی بیماری ٹھیک کیوں نہیں کرتا؟ خدا معزور کیوں پیدا کرتا ھۓ؟ خدا نے بیماریاں کیوں پیدا کیں؟ خدا ھر چیز پر قادر ھے تو پاخانہ اور غلاظت والے نظام کی بجائے کچھ اور کیوں نہ بنایا؟
آپ سوچیں اور پھر آپ سمجھیں گے کہ مذھبی خدا انسان کا بنایا گیا تصوّر ھے۔ اور قدرتی خدا وہ ھے جو حیاتیاتی نظام بنانے والی قوت ھے
وہ قوت کدھر ھے یہ سائینس ابھی تک معلوم نہیں کر سکی۔۔ جیسے سائینس اور کُل انسانی شعور کو پہلے بہت سی باتیں معلوم نہ تھیں۔۔ کہ جیسے زمین کی کششِ ثقل ھے۔ یا زمین سورج کے گرد گھومتی ھے۔ یا آسمان اوپر نہیں ھر طرف ھے۔۔ یہ بتایں سائینس نے لاکھوں سال بعد دریافت کی ھیں اس لئے جلدی کی کوئی ضرورت نہیں ذرا صبر کریں۔ سوچیں قدرتی خدا کسی اور ڈائمینشن میں ھوگا۔۔۔نہ بھی ھو تو ھمیں کوئی فرق تو پڑتا نہیں ھم بیماریوں اور قدرتی آفات سے خود ھی لڑتے ھیںَ ھر بظاھر معجزے اور جادو کا سائینسی تجزیہ موجود ھوتا ھے کوئی جادو نہیں ھوتا ۔کسی روح کا ھونا سائینس سے ثابت نہیں۔۔ جِلد کو لیبارٹری میں اُگایا جا سکتا ھے۔۔اب اعضا بھی بنائے جائیں گے۔ دِلوں میں بیماری ھے کے مقابل سائینس نے ربڑ کا دل بنایا اور دنیا میں کئی مریض اُسی دل کی پمپنگ سے جی رھے ھیں۔
مُلّاں کہیں گے قرآن میں جو انکے دِلوں میں بیماری سے مراد ھے وہ دماغ ھے۔۔تو پھر۔۔ رسول کا اوپن ھارٹ آپریشن یاد آئیگا جس میں جبریل نے دل کو صاف کیا تھا۔۔ ظاھر ھے کوئی بیماری ھی ھوگی،،، لیکن یاد رکھیں دل نکالا تھا دماغ نہیں۔۔۔ پس ۔۔ آپ جو دلیل دیں وہ آپکو واپس ادھر بھی لاگو کرنی ھوگی۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا نے کہا تھا دِلوں میں بیماری ھے مگر اصل میں دماغوں میں بیماری مُراد ھے۔
اور یُوں بھی پہلے ادوار میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ انسانی حیات کا دارو مدار یا جزبات کا منبع اور مرکز دل ھے۔۔اسی لئے ھم اب بھی کہتے ھیں۔ میرے دل میں یہ خیال آیا۔۔جبکہ دل میں نہیں دماغ میں خیال پیدا ھوتا ھے۔
میرا کُھلا استدلال یہ ھےکہ جب جبریل نے سینہ کھولا تو وھاں دماغ کھولنا چاھئیے تھا۔ ایمانی بیماری دل میں نہیں ھوتی دماغ میں ھو سکتی ھے
میں نے یہاں تک کا سفر 50 سال میں کیا ھے۔ اچانک نہیں پہنچ گیا۔
جن دھریوں اور ملحدین کو قدرتی خدا کی ترکیب پسند نہیں آئی وہ کوئی بھی نام رکھ لیں، لیکن یہ ثابت ھے کہ ارتقائی طور پر کوئی حیات خود نہیں بن سکتی
ان دھریوں اور خاص پاکستانی دھریوں میں کسی کا علم بھی طبیعات کے عالمی ماھر سائینسدان برائن کاکس کے برابر نہیں ھے اُس کی ویڈیوز ھی دیکھ لیں شاید سمجھ سکیں کہ حیاتیات کو پیدا کرنے والا خدا یا خدائی طاقتیں، کائناتی یا مادیاتی منبع سے مخلتف ھیں
ورنہ مَیں تو حیاتیاتی خُدا کے ھونے نہ ھونے دونوں سے ھرگز پریشان نہیں ھوں لیکن جو بھی خدا ھے اسکو میرا یہ پیغام ھے کہ۔
،،،،،،،
اگر خُدا نے چلایا ھے یہ نظامِ حیات
قسم خُدا کی بہت ھی بُرا چلایا ھے
۔۔۔رفیع رضا۔۔کینیڈا 2021۔۔
ساتھ میں حجرِ اسود کی اسلامی تاریخ بھی لف کر دیتا ھُوں تاکہ سند رھے کہ نام نہاد بہشتی پتھر کی عصمت دری کیسے خود مسلمانوں نے کی ھے۔۔۔
چونکہ حج آنے والا ھے اس لئے اللہ و سعودی عرب نے ، خانہ کعبہ میں نصب کالے پتھر کی ھائی ریزولیوشن فوٹوز میڈیا کو دی ھیں۔ اور اللہ مارکیٹنگ کو تم سے بہتر جانتا ھے
یہ پتھر امکانی طور پر شہاب ثاقب کا ٹکڑا ھے جو دنیا بھر میں گرتے رھتے ھیں،
حجر اسود کے حوادث تاریخ کے آئینے میں
حجر اسود عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود سیاہ اور کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ حجر اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ یہ ٹکڑے اندازاً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے۔ جو مسلمان حج یاعمرہ کرنےجاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجراسود کو بوسہ دیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جاسکتا ہے۔ جس کو استلام کہتے ہیں۔
تاریخ وحوادث
تاریخ میں کم ازکم چھ واقعات ملتے ہیں جب حجر اسود کو چوری کیا گیا یہ اس کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ہوسکتا اس کے حوادث کی تعداد اس بھی زیادہ ہو۔اسلامی روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ تو حضرت جبرائیل نے یہ پتھر جنت سے لا کر دیا جسے حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا۔
1۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے قبیلہ بنی جرہم کے متعلق ملتا ہے کہ ان لوگوں نے حجر اسود کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔تاریخ میں ہے کہ جب بنو بکر بن عبد مناہ نے قبلہ ” جرہم ” کو مکّہ سے نکلنے پر مجبور کیا تو انہوں نے مکّہ سے بے دخل ہوتے ہوئےکعبہ میں رکھے دو سونے کے بنے ہرنوں کے ساتھہ ” حجر اسود ” کو کعبہ کی دیوار سے نکال کر زم زم کے کنویں میں دفن کر دیا اور مجبورا” یمن کی جانب کوچ کر گئے– الله تعالی کی حکمت دیکھیے کہ یہ پتھر زیادہ عرصے زم زم کے کنویں میں نہیں رہا – جس وقت بنو جرہم کے لوگ حجر اسود کو زم زم کے کنویں میں چھپا رہے تھے ایک عورت نے انھیں ایسا کرتے دیکھ لیا تھا – اس عورت کی نشان دہی پر حجر اسود کو زم زم کےکنویں سے بازیاب کرا لیا گیا ۔
2 – ابو طاہر نامی شخص کی قیادت میں ” قرا ما تین "نے 317 ہجری میں مکّہ مکرمہ کا محاصرہ کرلیا اور مسجد الحرام جیسے مقدس مقام پر تقریبا” سات سو انسانوں کو قتل کیا اور زم زم کے کنویں کو اور مسجد الحرام کے احاطے کو انسانی لاشوں اور خون سے بھر دیا – اسکے بعد اسنے مکّہ کے لوگوں کی قیمتی اشیا کو اور کعبہ مشرفہ میں رکھے جواہرات کو غصب کر لیا – اسنے کعبہ کے غلاف کو چیر پھاڑ کر کے اپنے پیروکاروں میں تقسیم کر دیا – کعبہ مشرفہ کے دروازے اور اسکے سنہری پر نالے کو اکھاڑ ڈالا – اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور 7 ذوالحجہ317 ہجری کو ابو طاہر نے حجر اسود کو کعبہ مشرفہ کی دیوار سے الگ کردیا اور اس کی جگہ کو خالی چھوڑ دیا اور اسکو موجودہ دور میں جو علاقہ ” بحرین ” کہلاتا ہے وہاں منتقل کر دیا – یہ حجر اسود کا ایک نہات تکلیف دہ دور تھا – تقریبا 22 سال حجر اسود کعبہ شریف کی دیوار سے جدا رہا – اس دور میں کعبہ مشرفہ کا طواف کرنے والے صرف اس کی خالی جگہ کو چومتے یا اس کا استلام کر تے تھے – پھر الله سبحان و تعالی کی مشیت دیکھیے کہ 22 سال بعد 10 ذوالحجہ 339 ہجری کو” سنبر بن حسن ” جس کا تعلق بھی قراماتین قبیلے سے ہی تھا ، اس نے حجر اسود کو آزاد کرا یا اور واپس حجر اسود کے اصل مقام پر پیوست کروا دیا – اس وقت ایک مسلہ یہ ضرور درپیش آیا کہ کیا واقعی یہ اصل حجر اسود ہی ہے یا نہیں تو اس وقت مسلمانوں کے ایک دانشور نے کہا وہ اس کو ٹیسٹ کر کے بتا دیگا کہ یہی اصل حجر اسود ہے یا نہیں کیوں کہ اس نے اس کے بارے میں احادیث کا مطا لعہ کر رکھا ہے .- اس نے حجر اسود پر آگ لگائی تو حجر اسود کو آگ نہیں لگی اور نہ ہی وہ گرم ہوا – پھر اسنے اسکو پانی میں ڈبویا تو یہ پتھر ہونے کے باوجود اپنی خصلت کے بر خلاف پانی میں ڈوبا نہیں بلکہ سطح آب پر ہی تیرتا رہا – اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہ اصل جنت کا پتھر ہی ہے کیوں کہ جنت کا پتھر کا آگ سے اور غرق یابی سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے –
3 – سن 363 ہجری میں ایک رومی شخص نے اپنے کلہاڑے سے حجر اسود پر کاری ضرب لگائی جس سے اس پر چٹخنے کا ایک واضح نشان پڑ گیا – اس نے دوسری شدید ضرب لگانے کے لیے جیسے ہی اپنے کلہاڑے کو اٹھایا . الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور قریب ہی موجود ایک یمنی شخص نے جو اسکی یہ گھناونی کاروائی دیکھ رہا تھا ، چشم زدن میں اس نے اسے قتل کر ڈالا اور اسکی حجر اسود پر دوسری ضرب لگانے کی خواہش دل ہی میں رہ گئی –
4 – سن 413 ہجری میں فاطمید نے اپنے 6 پیروکاروں کو مکّہ بھیجا جس میں سے ایک ” الحاکم العبیدی ” تھا جو ایک مضبوط جسم کا مالک سنہرے بالوں والا طویل قد و قامت والا انسان تھا – وہ اپنے ساتھہ ایک تلوار اور ایک لوہے کی سلاخ لایا تھا – اپنے ساتھیوں کے اکسانے پر اسنے دیوانگی کے عالم میں تابڑ توڑ تین ضربیں ”حجر اسود ” پر لگا ڈالیں جس سے اسکی کرچیاں اڑ گئیں – وہ ہزیانی کیفیت میں اول فول بکتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ( معاذ الله ) جب تک وہ اسے پورا نہ اکھاڑ پھینکے گا جب تک سکوں سے نہ بیٹھے گا – بس اس موقع پر ایک مرتبہ پھر الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور گھڑ سواروں کے ایک دستے نے ان سب افراد کو گھیر لیا اور ان سب کو پکڑ کر قتل کردیا گیا اور بعد میں ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا گیا۔
5 – اسی طرح کا ایک واقعہ سن 990 ہجری میں بھی ہوا جب ایک غیر عرب باشندہ اپنے ہتھیا ر کے ساتھ مطاف میں آیا اور اسنے حجر اسود کو ایک ضرب لگا دی – اس وقت کا ایک شہزادہ ” شہزادہ نصیر ” مطاف میں موجود تھا جس نے اسے فوری طور سے موت کے گھاٹ اتار دیا –
6 – سن 1351 ہجری کے محرم کے مہینے میں میں ایک افغانی باشندہ مطاف میں آیا اور اسنے حجرہ اسود کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر نکال دیا اور کعبہ کے غلاف کا ایک ٹکڑا چوری کر ڈالا -ا س نے کعبہ کی سیڑھیوں کو بھی نقصان پہنچایا – کعبہ مشرفہ کے گرد کھڑے محافظوں نے اسے پکڑ لیا – اور پھر اسے مناسب کارروائی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی – اسکے بعد 28 ربیع الاول سن 1351 ہجری کو شاہ عبد العزیز نے اس پتھر کو دوبارہ کعبہ مشرفہ کی دیوار میں نصب کیا جو اس فاطر العقل افغانی نے نکال باہر کیا تھا – حجر اسود اس وقت ایک مکمل پتھر کی صورت میں نہیں ہے جیسا کہ یہ جنت سے اتارا گیا تھا بلکہ حوا د ث زمانہ نے اس متبرک پتھر کو جس کو بوسہ دینے کے لیے اہل ایمان کے دل ہر وقت بےچین رہتے ہیں آٹھ ٹکڑوں میں تبدیل کردیا ہے ۔
606ء میں جب رسول اللہ ﷺ کی عمر35 سال تھی ، سیلاب نے کعبے کی عمارت کو سخت نقصان پہنچایا اور قریش نے اس کی دوبارہ تعمیر کی لیکن جب حجر اسود رکھنے کا مسئلہ آیا تو قبائل میں جھگڑا ہوگیا۔ ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ یہ سعادت اسے ہی نصیب ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور تمام سرداران قبائل سے کہا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور جب چادر اس مقام پر پہنچی جہاں اس کو رکھا جانا تھا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو دیوار کعبہ میں نصب کر دیا۔ سب پہلے عبداللہ بن زبیر نے حجر اسود پر چاندی چڑھوائی ۔ 1268ء میں سلطان عبدالحمید نے حجراسود کو سونے میں مڑھوایا ۔ 1281ء میں سلطان عبدالعزیز نے اسے چاندی سے مڑھوایا۔
696ء میں جب حضرت عبداللہ بن زبیر خانہ کعبہ میں پناہ گزین ہوئے تو حجاج بن یوسف کی فوج نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھر برسائے اور پھر آگ لگا دی۔ جس سے حجر اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ عباسی خلیفہ الراضی باللہ کے عہد میں ایک قرامطی سردار ابوطاہر حجر اسود اٹھا کر لے گیا اور کافی عرصے بعد اس واپس کیا۔
فضائل حجر اسود با زبان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا :
بلاشبہ حجر اسود اورمقام ابراھیم جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت ہيں اللہ تعالٰی نے ان کے نوراورروشنی کوختم کردیا ہے اگراللہ تعالٰی اس روشنی کوختم نہ کرتا تو مشرق ومغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 804 ) ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حجراسود جنت سے نازل ہوا ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 2935 )
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حجراسود جنت سے آیا تودودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اوراسے بنو آدم کے گناہوں نے سیاہ کردیاہے ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 )
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کے بارے میں فرمایا :
اللہ کی قسم اللہ تعالٰی اسے قیامت کولاۓ گا تواس کی دوآنکھیں ہونگی جن سے یہ دیکھے اورزبان ہوگی ۔جس سے بولے اور ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حقیقی استلام کیا ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 961 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2944 )
جابربن عبداللہ رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لاۓ توحجر اسود کا استلام کیا اورپھراس کے دائيں جانب چل پڑے اورتین چکروں میں رمل کیا اورباقی چار میں آرام سے چلے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔
حجر اسود کا استلام یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جاۓ ۔ اگر بھیڑ زیادہ ہوتو ہاتھ کے اشارہ بھی کفایت کرے گا۔
حضرت عمر رضي اللہ تعالٰی عنہ حجراسود کے پاس تشریف لاۓ اوراسے بوسہ دے کرکہنے لگے : مجھے یہ علم ہے کہ توایک پتھر ہے نہ تونفع دے سکتا اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے ، اگرمیں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوۓ نہ دیکھا ہوتا تومیں بھی تجھے نہ چومتا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1250 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1720 ) ۔
نافع رحمہ اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما نے حجراسود کا استلام کیا اورپھر اپنے ہاتھ کوچوما ، اورفرمانے لگے میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کرتے ہوۓ دیکھا ہے میں نے اسے نہیں چھوڑا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1268 ) ۔
ابوطفیل رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے اورحجر اسود کا چھڑی کے ساتھ استلام کرکے چھڑی کوچومتے تھے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1275 ) ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پرطواف کیا توجب بھی حجر اسود کے پاس آتے تواشارہ کرتے اوراللہ اکبر کہتے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4987 ) ۔
ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 959 ) امام ترمذی نے اسے حسن اورامام حاکم نے ( 1 / 664 ) صحیح قرار دیا اور امام ذھبی نے اس کی موافقت کی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کعبے میں پہلا جھگڑا تب ہوا جب حضرت علی علیہ السلام نے امیر حج مقرر کیا مگر معاویہ نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنا امیر حج بھیج دیا.. دونوں امیروں کی امارت پر عین حج کے موقع پر جھگڑا ہوا تاہم بات زبانی کلامی لڑائی جھگڑے تک محدود رہی قتل و غارت کی نوبت نہیں آئی۔ لیکن اس کے بعد کعبہ میں قتل و غارت کا ایک سلسلہ ملتا ہے جو ابھی تک جاری ہے.
یزید بن معاویہ نے حصین بن نمیر کی قیادت میں ایک لشکر کعبے کی طرف بھیجا جس نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھراؤ کیا، غلاف کعبہ کو آگ لگا دی، دس سال بعد حجاج بن یوسف نے دوبارہ کعبے پر حملہ کیا صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جنھوں نے کعبہ کے اندر پناہ لے رکھی تھی انھیں اور ان کے تمام ساتھیوں کو شہید کیا اور ان کی لاش مکہ مکرمہ کے چوک میں لٹکا دی.
کعبے پر تیسرا بڑا حملہ اسماعیل بن یوسف علوی نے کیا، گیارہ ہزار حاجی قتل ہوئے، کعبے کا غلاف، سونا، چاندی اور لاکھوں دینار لوٹ کر چلا گیا. اس کے بعد جزارین اور مناطین کی آپس کی لڑائی کعبے میں لڑی گئی اس میں بھی کئی حجاج کرام شہید ہوئے اکثریت حج کیے بغیر ہی واپس لوٹ گئی مناسک حج بھی جنگ کی نظر ہو گئے.
بحرین میں قرامطہ نے طاقت حاصل کی تو ابو طاہر قرامطی کی قیادت میں کعبہ پر حملہ کیا، یہ اب تک کا سب سے خونخوار حملہ ثابت ہوا. تیس ہزار مکہ مکرمہ کے رہائشی اور دو ہزار حاجی مارے گئے. کعبے کا فرش خون سے سرخ ہو گیا. قرامطہ نے مکے میں خوب لوٹ مار کی اور حجر اسود اکھاڑ کر اپنے ساتھ بحرین لے گئے. بائیس سال حجر اسود قرامطہ کے قبضے میں رہا اور مسلمان بائیس سال حجر اسود کے بغیر حج کرتے رہے. بعض روایات میں ہے کہ قرامطہ نے حجر اسود کو توڑ کر تین ٹکڑے کر دئیے اور انہیں دریا میں پھینک دیا تھا. موجودہ حجر اسود اصلی حجر اسود نہیں ہے. بعض روایات یہ ہیں کہ معتصم نے بائیس ہزار اشرفیوں کے عوض حجر اسود واپس لیا تھا..
بنو امیہ، بنو عباس کی آپسی لڑائی بھی کعبہ میں لڑی جاتی تھی، ہر فریق چاہتا تھا کہ خطبہ میں اس کے خلیفوں کا نام لیا جائے انہی کی مرضی کا خطبہ پڑھا جائے. اس لئے ہر سال امیر حج بنانے پر لڑائی جھگڑا یقینی تھا.
بنو عباس کی خلافت کمزور ہوئی تو ترکوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر لی، ترک بادشاہوں نے حجاز کے علاقوں پر قبضہ کر کے اپنے امیر حج سے اپنے نام کا خطبہ شروع کر دیا. بادشاہوں کی آپس کی لڑائی بھی چلتی رہی، مصر کے بادشاہ بھی کعبہ پر قبضے کی جنگ میں شامل ہو گئے.
سترہویں صدی میں عبدالعزیز نے ترکوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، ترک امراء آپس میں بھی لڑتے رہتے تھے، عرب قبائل کی بھی آپس کی لڑائیاں ہر وقت جاری رہتی تھیں. عبدالعزیز نے ریاض تک کا علاقہ فتح کیا اس کے بعد اس کے بیٹے سعود بن عبد العزیز کو حکومت ملی. سعود بن عبدالعزیز نے ترکوں سے جنگیں لڑیں، آخری فیصلہ کن جنگ مکہ مکرمہ میں لڑی گئی. آل سعود کی مدد انگریز کر رہے تھے، اسلحہ گولہ بارود انگریزوں کا اور خون دونوں طرف مسلمانوں کا.
قرامطہ نے حجر اسود کے تین ٹکڑے کیے تھے، اگلے آٹھ سو سال میں آٹھ ٹکڑے ہو گئے. سلطنت عثمانیہ کے عبد العزیز نے آٹھ ٹکڑوں کو جوڑ کر چاندی کا خول چڑھا دیا تھا یہی خول آج تک چل رہا ہے.
1979 نومبر میں محمد بن عبداللہ قحطانی نے فجر کی نماز کے وقت کعبے پر حملہ کیا، وہ امام مہدی ہونے کا دعویدار تھا اس کے ساتھ لگ بھگ چار سو جنگجو موجود تھے. سعودی عرب نے مختلف ممالک کی آرمی سے مدد مانگی، چودہ دن خانہ کعبہ کا محاصرہ جاری رہا. ایک سو ستر افراد کعبہ میں مارے گئے اور دو سو گرفتار ہوئے.
ہر مسلمان حکمران نے اپنے اقتدار کی جنگ کو دین اسلام کی بقاء کی جنگ قرار دیا، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو تاراج کیا.۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ اسلام میں اب تک 39 بار حج ادا نہیں ہوا اگر 2020ء میں بھی حج موقوف ھوتا ھے تو یہ 40ویں بار ھوگا
سعودی ریاست کے وجود میں آنے سے اب تک حج کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ یا خلل واقع نہیں ہوا سعودی ریاست کے وجود سے چند سال پہلے 1917ء میں دنیا میں اسپینش فلو کی وبا پھیلی تھی جس کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے تھے تب بھی حج کی ادائیگی ہوئی تھی
اب ترتیب وار دیکھتے ھیں حج کب اور کس سن میں موقوف ہوا
865 ء میں عباسی خلافت کے مخالف اسماعیل بن یوسف السفاک نے مکہ مکرمہ پر حج کے دنوں میں حملہ کردیا بہت سے حاجی شہید ہوگئے اور پہلی دفعہ حج موقوف ہوا
پھر اس کے بعد 930 عیسوی میں بحرین پر قابض قرامطی (اسماعیلی) فرقے کے سردار ابوطاہر الجنبی نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا یہ بھی حج کے شروعات کے دن تھے اس حملے میں 30 ہزار حاجی شہید ہوئے حملہ آوروں نے مسجدالحرام میں بھی لوٹ مار کی اور حجر اسود بھی اپنے ساتھ بحرین لے گئے اس کے بعد کئی سال تک حج ادا نہ ہوسکے پھر حجر اسود بحرین سے لاکر دوبارہ نصب کیا گیا اور حج کی ادائیگی شروع ہوئی
983ء سے 990ء تک مسلسل آٹھ سال حج کی ادائیگی نہ ہوسکی اس کی وجہ ایران عراق پر قائم عباسی خلافت اور شام میں قائم فاطمی خلافت کی آپس میں جنگیں تھیں 991ء سے دوبارہ حج کی ادائیگی شروع ہوئی
1831 میں برصغیر پاک وہند میں طاعون کی وباء پھیلی تو اس خطے سے جو لوگ حج کے لیے مکہ معظمہ پہنچے ان کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں موجود حاجیوں میں بھی یہ وباء پھیل گئی تاریخ کے حوالے سے پتہ چلتا ہے کہ حج کے شروع کے دنوں میں ہی مکہ میں موجود تین چوتھائی حاجی جاں بحق ہوگئے ان سنگین حالات کی وجہ سے مناسک حج منسوخ کر دیے گئے گئے
چھ سال بعد دوبارہ وباء نے سعودی عرب اس وقت کا نام حجاز مقدس پر دوبارہ حملہ کیا
1837ء سے 1858ء کے درمیان مختلف اوقات میں مختلف متعدی امراض پھیلتے رہے اور سات بار حج ادا نہ ہوسکا 1837ء میں مکہ میں طاعون کی وبا پھیلی تو اٹھارہ سو چالیس تک حج ادا نہ ہوسکا
1846ء میں مکہ والوں کو ہیضہ کی وباء نے آن گھیرا اور پندرہ ہزار افراد جاں بحق ہوگئے 1949ء تک حج کی ادائیگی رکی رہی 1858ء میں بھی ہیضہ کی وجہ سے حج مکمل نہ ہوسکا پھر 1865ء اور 1883ء میں بھی حج ادا نہ ہوا۔
۔۔۔۔)۔جاری ھے.(