زمین پر پانی کہاں سے آیا، قدیم ترین سوال کا جدید ترین جواب

زمین پر پانی کیسے ، بنا ، یا کیسے یہاں پہنچا یہ فلکیات میں ایک مُعمّہ رھا ہے


اس بارے بہت سے نظریات ھیں

پہلا دو بنیادی نظرئیے ھیں ، یعنی ھائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے کسی کیمیائی تعامل کی وجہ سے پانی یہاں زمین پر ھی بنا۔۔یا پھر کہیں سے شہاب ثاقب کی بارش جو برف پر مشتمل ھوتی ھے اُس کے ذریعے زمین پر پانی آیا
۔۔۔
سائینسدانوں نے اس پر تحقیق کی مگر کوئی نہ کوئی کڑی غیر موجود رھتی تھی۔
کیونکہ اگر پانی ھائیڈروجن اور آکسیجن سے بنا تو پھر بنتا ھی چلا جائے رُک کیوں گیا؟
یا اتنے تسلسل سے کیسے پانی شہابِ ثاقب لا سکتے ھیں۔؟

زمین پر موجود گڑھے بتاتے ہیں کہ زمین بننے کے بعد زمین پر بہت لمبے عرصے تک شہابیوں کی بارش ہوتی رہی تھی۔ لہذا یہ نظریہ بھی پایا جاتا ہے کہ زمین پر موجود پانی ان شہابیوں کے ساتھ خلا سے آیا تھا۔ لیکن مقدار کا تعین مشکل معلوم ھوا۔

جولائی دو ھزار میں ایک فلکیاتی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ کائنات کے ایک دور دراز علاقے میں زمین سے بارہ ارب نوری سال دور ایک قوازار کے قریب پانی کے بادل ملے ہیں اور ان بادلوں میں زمینی سمندروں کے مقابلے 140 کھرب گُنا زیادہ پانی موجود ہے۔ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ھے؟ (کہ کائنات میں دوسری جگہوں پر بھی پانی موجود ہو) اس کا بہت سادہ سا جواب یہ ہے کہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر بنتا ہے، ہائیڈروجن اور آکسیجن ہماری کائنات (Universe) کا ایک اہم حصہ ہیں۔ جہاں بھی یہ گیسیں موجود ہوں گی تو وہاں پانی کا ہونا ممکن ہو سکتا ہے۔ ان گیسوں کو جہاں کہیں بھی مطلوبہ (مخصوص) ماحول میسر آئے گا تو ان سے پانی بننا نا ممکن تو بالکل نہیں ہوگا۔

یہ خیال یا نظریہ سننے میں آسان اور اچھا لگتا ہے کہ ہماری کائنات میں بہت سی جگہوں پر پانی کے اس قدر بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن یہ بہت ہی مایوس کُن حقیقت ہے کہ کائناتی پانی کے یہ وسیع و عریض ذخیرے ہمارے کسی کام کے نہیں ہیں۔ (کیوں؟) کیوں کہ پانی کے یہ ذخیرے ہماری پہنچ سے باہر ہیں۔

اسی کی دھائی اور نوے کی دھائی میں زمین کے قریب سے بار بار گزرنے والے شہاب ثاقب ھیلے کا مشاھدہ کیا گیااور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ کب دوبارہ ھماری زمین کے قریب سے گزرے تو کوئی راکٹ بھیج کر اس کے ساتھ موجود برف یا پانی کی ماھئیے کو سمجھا جائے جس سے ھمارے اس نظرئیے کو تقویت مِلے کہ زمین پر پانی شہاب ثاقب کے گرنے سے ھی وجود میں آیا۔

تیسرا نظریہ پہلے دو نظریات کا بہم نظریہ ھے کہ ایک تو کیمیائی تعاملات سے پانی بنا اور کچھ شہاب ثاقب پانی لاتے رھے۔

زمین پر موجود پانی کی مقدار
زمین پر تین سو چھبیس ملین ٹریلین گیلن پانی موجود ہے۔ زمین کے اکیاون کروڑ مربع کلومیٹر کے رقبے میں سےاکہتر فیصد رقبے کو پانی نے ڈھکا ہوا ھے۔ جس میں سے تقریباً ستانوے فیصد پانی سمندری ہے، جو کہ کھارا اور نمکین ہونے کے سبب ہمارے استعمال کے قابل نہیں ہے۔ باقی کا تین فیصد تازہ پانی یا میٹھا پانی ہے۔

ھیلے کومِٹ یا شہاب ثاقب کی طرف کامیابی سے ایک راکٹ بھیجا گیا جس نے پانی کا کیمیائی تجزیہ کر کے ڈیٹا بھیجا تو بہت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یہ پانی تو تھا مگر اس میں ھائیڈروجن کے دو مزید ایٹم بھی شامل تھے۔ یعنی یہ وہ زمینی پانی نہیں تھا۔
اس تجزئیے کے بعد سائینسدانوں نے مزید جہتوں کی طرف سوچ کا سفر شروع کیا۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ھے کہ زمین پر موجود تین فیصد تازہ پانی میں سے دو فیصد تازہ پانی زمین کے قُطبین اور دیگر برفانی علاقوں انٹارکٹکا، آرکٹک، گرین لینڈ کے گلیشیئرز و دیگر برف کے ذخیروں اور برفانی خطوں) پر جمی ہوئی برف کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ یعنی تازہ پانی کا یہ دو فیصد مُنجمد حصہ بھی ہم استعمال نہیں کر سکتے۔ زمین پر موجود تین سو چھبیس ملین ٹریلین گیلن پانی میں سے پانی کا فقط ایک فیصد حصہ ہی ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ جو کہ چشموں، ندیوں، جھیلوں میں اور زیرِ زمین پایا جاتا ہے۔ اسی تازہ پانی سے آبپاشی کی جاتی ہے (ایک مَن گندم کی تیاری پر کم و بیش پینتیس ٹن پانی استعمال ہوتا ہے) جانور بھی اسی تازہ پانی کو استعمال کرتے ہیں۔ اوہ! کیا آج آپ کا دل گوشت کھانے کو کر رہا ہے؟ (یہ لیں پلیٹ میں گوشت حاضر ہے) لیکن! کھانے سے پہلے یہ بھی ضرور سوچیں کہ اگر اس پلیٹ میں گوشت کے دس ٹکڑے (بوٹیاں) موجود ہیں تو جانور کے اندر گوشت کے اِن دس ٹکڑوں کو تیار ہونے کے لیے کئی ہزار ٹن پانی درکار تھا جو کہ استعمال ہوا ہے۔
سن دو ھزار دس کے اعداد و شمار کے مطابق تمام انسان روزانہ کی بنیاد پر چار ہزار ارب لیٹرز تازہ پانی استعمال کر جاتے ہیں۔ جس میں سے ایک ہزار اکتالیس ارب لیٹر وہ تازہ پانی ہے جو کہ دریاؤں، چمشوں اور دیگر شکلوں میں زمین کی سطح پر موجود ہے۔ چار ہزار ارب لیٹرز میں سے تین ہزار ارب لیٹرز تازہ پانی ہم زمین کے اندر سے نکالتے ہیں۔
کسی بھی صحت مند انسان کے جسم کا ساٹھ فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہمارے پھیپھڑوں کا تراسی فیصد حصہ پانی کا بنا ہے۔ ہمارا دل اور دماغ تہتر فیصد پانی پر مبنی ہیں۔ ہمارے پَٹھے اور گُردے اپنے وجود میں اُناسی فیصد پانی رکھتے ہیں اور ہماری جلد چونسٹھ فیصد پانی سے بنتی ہے۔ ہماری زمین پر اربوں درخت اپنے اندر تیس سے پچاس فیصد پانی رکھتے ہیں۔
ان خواص کی بنا پر ھماری زندگی پانی کے بغیر ممکن نہ تھی نہ ھے۔، نہ رھے گی اسی لئے سائینسدانوں نے مزید سوچا تو اُنہیں معلوم ھوا کہ زمین کی ابتدا میں جب ھمارے سورج کے ٹُکڑے ھوئے تو اُبلتے ھوئے اس مادے سے ایک طرح کے نہیں بلکہ دو طرح کے سیارے وجود میں آئے۔یعنی برفانی یا پانی پر مشتمل اور دوسرے ابلتے ھوئے مسلسل گرم سیارے بنے۔
یہاں آپکو واپس زمینی حقائق کا سائینسی تجزیہ بتانا ضروری ھے۔سائینسدانوں کی کئی ٹیمیں اس پر کام کرتی رھی ھیں، جن میں، فلکیات کے ماھرین، جیالوجسٹس، کیمیا کے ماھر، وغیرہ بھی شامل ھیں۔
ایک ماھر نے جب پرانے ترین معدنیات کے ٹکڑے کا خوردبینی جائزہ لیا تو معلوم ھوا کہ یہ ٹکڑا زرقون کا ٹکڑا ھے اور یہ کوئی ساڑھے چار بلین سال پرانا ھے۔یعنی زمین کی ابتدا جتنی اسکی عمر ھے،
اس ٹکڑے کے معائنے سے پتہ چلا کہ اس کے اندر پانی کے خالص ترین مالیکیولز موجود ھیں تو ابتدائے زمین کے زمانے کے ھیں۔یہ حیرت ناک دریافت مزید سوالات جنم دے گئی۔معدنیات میں اُس وقت پانی کہاں سے آیا؟ جبکہ زمین سورج سے الگ ھوئی تو آتشیں گولے کی مانند تھی۔
یہ اب سب سے بڑا سوال بن چکا تھا۔
سائینسدانوں اس بارے مختلف نظریات پر کام کرتے رھے ، حتی کہ کیمیائی تجربات اور ابلتے آتش فشاں کا مشاھدہ کرنے پر معلوم ھوا کہ یہ نہیں ھوتا کہ جب کوئی انتہائی درجے کا کھولاؤ یا آگ ھو تو اس میں پانی کا وجود ختم ھوجاتا ھے۔
معلوم ھوا کہ مختلف تعاملات جو ابتدائے آفرینش، بنگ بینگ میں ھوئے ان میں ھائیڈروجن اور آکسیجن کے مِلاپ سے کئی طرح کے پانی بنتے رھے ھیں جن میں آکسیجن یا ھائیڈروجن کے ایٹموں کی تعداد مخلتف رھی۔ جبکہ ھمارے ھاں ھم جسے پانی کہتے ھیں اس میں ایک آکسیجن اور دو ھائیڈروجنز کے ایٹم ھوتے ھیں۔ جبکہ ھائیڈروجن پر آکسائیڈ میں دو ایٹم آکسیجن اور دو ایٹم ھائیڈروجنز کے ھوتے ھیں۔۔اسی طرح ھیلے شہاب ثاقب والے پانی میں چار ھائڈروجن کے ایٹم تھے ،،۔۔
جب زرقون کے معدنی ٹکڑے میں ساڑے چار بلین سال پرانا پانی موجود ھے تو اسکا مفہوم یہ ھےکہ زمین بننے کے عمل میں پانی دو نہیں تین طریقوں سے یہاں آیا،
پہلے طریقے میں جب سورج کے ٹکڑے ارد گرد گردش کر رھے تھے تو اُس دھماکے کے بعد جو بڑے قابل ذکر ٹکڑے ایک دوسرے کے قریب سورج کے مدار میں حرکت میں تھے تو زمین کے آتشیں گولے سے برفانی یا زیادہ پانی والے گولے ٹکرائے جسکی وجہ سے یہاں پانی آ موجود ھوا ، گڑھے بھی پڑ گئے۔
مُشتری، مریخ ، عطارد وغیرہ کے مطالعے سے بھی برف پانی وغیرہ کا ھونا ثابت ھے۔
اسکے علاوہ جب زمین سورج سے ایک دھماکے سے جُدا ھوئی تو ساتھ میں پانی بھی موجود تھا جو تجربات سے ثابت ھے جیسے خشک ترین معدنیات کو جب گرم کیا جائے تو اس میں سے پانی کی کنڈینسیشن دکھائی دیتی ھے۔یعنی پانی کے بارے یہ تصور غلط ھے کہ پانی سخت گرم ھونے سے نابود ھوجاتا ھے ،،یہ نابود نہیں ھوتا بلکہ ٹھوس کے اندرون میں مالیکیولز کے ڈیپازٹس میں محفوظ رھتا ھے۔اسکی دلیل وہ پانی ھے جو زمین کے نہایت گرم علاقوں سے دن رات بھاپ یا بادلوں کی صورت فضا میں شُوٹ کرتا رھتا ھے۔
چونکہ چاند بھی زمین سے الگ کیا ٹکڑا مانا جاتا ھے اس لئے اس پر بھی پانی کا ھونا لازم ھے تاھم پانی کسی گھومتے جسم کی بیرونی ساخت کے دانے دار ھونے کی وجہ سے محفوظ نہیں رھتا اور باھر نکل جاتا ھے اسی لئے چاند پر پانی بیرون میں موجود نہیں نظر آیا۔
یہ بھی دلچسپ بات ھےکہ شاید اسی لئے پورے چاند کی کشش سے پانی زمین پر متاثر ھوتا ھے۔
پس سائینس کے مطابق زمین کی ابتدا میں ھی ایک تو زمین کے معدنیات میں پانی موجود تھا اور بعد میں آبی سیاروں کے ٹکرانے سے مزید پانی بیرونی سطح پر وجود میں آتا رھا۔اور یہ صرف زمین پر ھی نہیں ھوا بلکہ دوسرے سیاروں پر بھی ھوا ھے۔
تیسری صورت برفانی شہابیوں کے ٹکرانے سے بھی پانی مزید آ شامل ھوا۔
مزید ریسرچ سے معلوم ھوا ھماری زمین اصل میں اُن سیاروں جیسی ھے جو مائع کی صورت میں سورج سے ٹوٹ کر حرکت پزیر تھے۔ اسی لئے زمین پہلے مائع تھی اور جب ٹھنڈی ھوئی تو اس میں موجود ابتدائی پانی کے علاوہ ھائیڈروجن نے مزید پانی بنایا۔
اسی لئے زمین پر 70 فیصد پانی موجود ھے،جو قوی ثبوت ھے کہ ھمارا سیارہ اصلی میں آبی سیارہ ھی تھا۔اور اسی لئے ابتدا میں آبی جاندار ھی ظہور میں آئے۔۔
آپ اس انگریزی پیرے کو پڑھیں جسے میں ترجمہ بھی کر دیتا ھُوں
،،
While modern Earth’s surface is about 70 percent water-covered, the new research indicates that our planet was a true ocean world some 3 billion years ago. At this point, only scattered archipelagos breached our global ocean’s briny surface. That is, if any land existed at all.
۔۔۔
اب جبکہ موجودہ زمین کی سطح 70 فیصد پانی پر مشتمل ھے۔ایک نئی ریسرچ کے مطابق ھماری زمین 3 بلین سال پہلے اصل میں ایک آبی سیارہ تھی۔بعد مین صرف کچھ حصہ زمین کا خشکی کا بھی اوپری سطح پر نمودار ھونے میں کامیاب ھو سکا۔
The scientists based their findings on unique rock samples found in Western Australia’s Panorama district. Because rocks carry imprints of the environments they formed in, the researchers determined the rocks formed in a hydrothermal vent system on the sea floor about 3.24 billion years ago. Over the eons, the rocks were turned on their side and exposed, which allowed scientists to investigate Earth’s watery past from the convenience of dry land. This led them to conclude that ancient Earth may have been a waterlogged planet without any significant landmass.
،،،
سائینسدانوں نے اپنی دریافت سے یہ نظریہ ایسے بنایا کہ انہیں مغربی آسٹریلیا سے ایسے پتھر مِلے جو ابتدائے زمین کے بلڈنگ بلاکس متصور ھوتے ھیں۔
معلوم ھوا کہ یہ بلاکس تب بنے جب ماحول ھائیڈرو تھرمل یعنی سخت گرم آبی، ماحول تھا، اور سمندر کی تہہ میں اُلٹ پُلت سے یہ اُوپر آ ظاھر ھوئے۔
ان نمونہ جات کے بارے اوپر مین بیان کر چکا ھوں کہ اُن میں پانی کا مالیکیولز ٹھوس معدنیات کے اندر محفوظ تھے۔
اب پہلی معلومات سے زیادہ پُرلطف تجزیات کی طرف چلتے ھیں۔

"An early Earth without emergent continents may have resembled a ‘water world,’ providing an important environmental constraint on the origin and evolution of life on Earth, as well as its possible existence elsewhere,” wrote the authors of the new study, which was published March 2 in Nature Geoscience.

Despite Earth’s abundant present-day oceans, many mysteries remain about their origins. Did Earth always contain water, or was it delivered later? If later, how much later? And was the source of the water comets, asteroids, or something else?

Scientists are still pondering these questions and more. This is because the evidence — like ancient minerals called zircons that seem to have formed in a watery environment — clearly implies that Earth sported water since about 4.4 billion years ago, just after our planet came to be. That’s a long oceanic history.

However, it’s less clear how much water early Earth actually had. And by studying their chunk of the ancient seafloor, the researchers were able to probe that question.

The oxygen network
When rocks form in water, that water imprints its story in stone. Water, or H2O, is always made of hydrogen and oxygen. But the isotope, or type of oxygen, within the water also reveals something about the environment that water formed in. For example, how warm it was, or how the water cycled between land, sea, and air over time.

There are two common isotopes of oxygen. A light version, oxygen-16 (O16), which has eight protons and eight neutrons. And its heavier cousin, oxygen-18 (O18), which has eight protons and ten neutrons. Those two extra neutrons give O18 extra weight, which means water molecules containing O16 evaporate more readily than the heavier O18 versions. Additionally, rocks and dry land are more likely to capture and absorb O18, removing it from the sea stores.

When the authors of the new study examined their chunk of ancient seafloor, they found a lot of O18 — more, on average, than is found in our modern oceans. And because dry land is a huge reservoir of heavy oxygen, an abundance of O18 in Earth’s early days hints that such a reservoir simply didn’t exist. The researchers determined that the most likely reason for the excess of heavy oxygen in their sample is that dry land hadn’t yet emerged from the ancient ocean.

آئیے پھر دُھراتے ھیں
پہلے نظریے کے مطابق تین ارب سال پہلے جب زمین کو وجود میں آئے ہوئے تقریبا ایک ارب سال بیت چکا تھا اور زمین آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہو رہی تھی تو اس پر کیمیائی عمل کے نتیجے میں پانی وجود میں آیا ۔

شروع میں زمین بہت گرم تھی، جس وجہ سے ایٹمز آپس میں مل کر کوئی نئے مالیکیولز بنا رہے تھے، لیکن جیسے جیسے زمین ٹھنڈی ہوئی ویسے ہی مختلف ایٹمز ملے اور نئے مالیکیولز کو ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس اور زمین میں موجود ہائیڈروکاربنز جنم دیا، یہ مالیکیولز بھی ایک دوسرے سے ملے اور مزید باریک مالیکیولز بنے، ان کے ملنے سے پہلا خلیہ پہلا جاندار بنا جو ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس اور زمین میں موجود ہائیڈروکاربنز کو بطور خوراک استعمال کرتے۔ اس سے فضا میں آکسیجن گیس بننے لگی اور پھر اوزون کی تہہ بن گئی۔۔ اس کے ساتھ ہی آکسیجن مٹی میں موجود دوسری معدنیات سے ملی اور اس کیمیائی عمل کے نتیجے میں پانی کا مالیکیول جس میں دو ایٹم ہائیڈروجن اور ایک ایٹم آکسیجن کا ہوتا ہے وجود میں آیا۔

اس عمل کو کیمیائی ریڈکشن کہتے ہیں۔

اس عمل کے نتیجے میں پانی تیزی سے بننے لگا۔ اور زمین پر موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے، سورج کی روشنی تو پہلے سے موجود تھی اس لیے بادل بننے کا عمل اور بارشوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا، جس سے زمین اور ٹھنڈی ہوتی چلی گئی اور مختلف اقسام کے جانداروں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے نظرئیے کے مطابق زمین پر گرنے والے شہاب ثاقب زمین پر پانی لائے۔ زمین کے ابتدائی دور میں بڑے بڑے شہاب ثاقب زمی پر گرتے تھے اور اب بھی مسلسل گر رہے ہیں۔ یہ شہاب ثاقب اپنے ساتھ پانی بھی لاتے تھے۔ جو کے اس وقت کی گرم زمین کو ٹھنڈا کرنے میں معاون ثابت ہوئے اور زندگی کی ابتداء کا باعث بھی بنے۔لیکن پانی کی مقدار چونکہ بہت زیادہ ھے اس لئے یہ نظریہ مناسب نہیں ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرا نظریہ یہ کہ زمین جب بنی تو زمین سے آبی سیارے ٹکرائے اور پانی وھاں سے زمین پر منتقل ھوا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھا نظریہ یہ کہ زمین اصل میں خود ھی ایک آبی سیارہ تھی یا مائع سیارہ تھی اور اس پر خشکی بعد میں بنی۔۔ یہی نظریہ نئی دریافتوں کے قریب ترین نظریہ ھے۔
،،،،،،،

المختصر، جب نئی تحقیق کرنے والوں نے قدیم سمندر کی تہہ والے معدنی ٹکڑے کا تجزیہ کیا تو اس میں آکسیجن اٹھارہ کی کثرت پائی۔جو ھمارے موجود سمندر میں اتنی مقداری اوسط میں موجود نہیں ھے۔۔
اس سے پتہ چلا کہ ابتدا میں خشک زمین کسی جگہ شاید موجود نہ تھا اور اِسی لئے آکسیجن کا سرچشمہ آبی فضا تھی۔
یعنی زمین پر پانی بعد میں کسی نے ھرگز نہیں بھیجا، پانی پہلے سے موجود تھا۔اُسوقت جب زمین بنی تھی پانی بھی ساتھ آیا تھا۔ اب تک کی جدید ترین تحقیق یہی کہتی ھے۔اور اسکا سائینسی ثبوت بھی رکھتی ھے۔
(رفیع رضا۔۔۔2021
کینیڈا