پاکستان کی تاریخ اور فوج کا کردار۔۔۔ جاھل عوام

اچـانک رونما ہونیوالے انکشافات…

جسٹس صفدر شاہ
نے بھٹو کو قتل کیس میں بےگناہ لکھا تو فوجی آمر کو اچانک انکشاف ہوا کہ جسٹس شاہ کی میٹرک کی سند جعلی ہے ضیاءالحق کی ایماءپر ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا گیا۔

جسٹس صمدانی
نے بھٹو کی ضمانت لی تو فوجی امر کو اچانک انکشاف ہوا کہ جسٹس صمدانی جج بننے کے اہل نہیں لہذا ان کو نکال دیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
نے فیض آباد دھرنے میں ایجنسیوں کے کردار پر فیصلہ دیا تو اچانک انکشاف ہوا کہ انکی بیرون ملک پراپرٹی ہے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں اچانک ریفرنس دائر کر دیا گیا۔

جسٹس شوکت صدیقی
نے ایجنسیوں کے فیض اباد کیس اور اسلام آباد ریڈ زون ایریا پر ریمارکس دئے اور عدلیہ پر اثرانداز ہونے کی بات کی تو جوڈیشنل کونسل نے اک دن میں ٹرائل کرکے نااہل قرار دیکر نوکری ختم کردی گئی۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری
نے مشرف کی ہاں میں ہاں ملانے سے انکار کیا تو اچانک انکشاف ہوا کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری مس کنڈک کے مرتکب ہوئے ہیں اور نعیم بخاری فوجی ٹٹو کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل میں اچانک ریفرنس دائر کر دیا گیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ
نے ایکسٹینشن پر فیصلہ دیا تو ارباب اختیار کو اچانک انکشاف ہوا کہ وہ کسی کے ایماء پر ایسا کر رہے ہیں۔ انکے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کئے جانے کی دھمکیاں دی گئیں جو کام دکھا گئیں۔اور وہ ڈھیر ہو گیا۔

جسٹس وقار سیٹھ
نے آئین شکن مشرف کو سزا سنائی تو طاقتور حلقوں کو اچانک انکشاف ہوا کہ ان کا ذہنی توازن درست نہیں لہذا ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کی تیاریاں اچانک شروع کر دی گئیں اور پھر مشرف کے خلاف فیصلہ دینے والی عدالت ہی اچانک اڑا دی گئی۔

نیب کورٹ کے جج ارشد ملک
نے جب اپنے ضمیر کی آواز جاگنے پہ اپنے فیصلوں کی اصلیت بتائی کہ آئی ایس آئی کے کورٹ ونگ کی طرف سے فیصلے بھیجے جاتے تھے میرے صرف سائن ہوتے تھے تو ان کی قابل اعتراض وڈیو اچانک مل گئی-

نیب چیئرمین جسٹس جاوید اقبال
نے جب کہا کہ اب بس کریں مزید جھوٹے کیس ہم نہیں چلا سکتے نہ بے گناہ لوگوں کو پکڑ کر بند کر سکتے ہیں۔تو ان کی چمیوں والی وڈیو اچانک مل گئی۔اور وہ پھر زیر ہو گیا۔

جسٹس سعید الزمان صدیقی

نے جب بزدل ڈکٹیٹر سے حلف لینے سے انکار کیا تو اسے گرفتار کر لیا۔اور چیف جسٹس کو گھر میں محسور کر دیا۔

جسٹس ناصر اسلم زاہد

نے جب ڈکٹیٹر کے مرضی کے فیصلے دینے سے انکار کیا تو اسے قتل کی دھمکی دی تمہارے بچے اٹھا لیئے جائیں گے جو فلاں فلاں سکول میں پڑھتے ہیں۔پھر نوکری بھی گئی اور پینشن میں

سوال یہ ہے کہ
"ملک میں بائیس کروڑ بھیڑ بکریاں رہتی ہیں جن کو چند مسخرے اچانک جدھر چاہے ہانک دیتے ہیں۔”

آخر یہ سارے انکشافات اچانک ہمارے جرنیلوں اور انکے ٹولے کو اسوقت ہی کیوں ہوتے ہیں جب انکو اپنی چوری اور گردن گرفت میں آتی محسوس ہوتی ہے۔