عورت کی آدھی گواھی۔۔۔اسلامی زاویہ

عورت کی آدھی گواھی کیوں کیسے، غلطی کا ازالہ

خدیجہ پوری گواھی تھی جس نبوّت کی

اُسی نے آدھی گواھی کا حق دیا اُس کو

رفیع رضا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اخبارات میں کافی دنوں سے قانون شہادت زیربحث ہے او ر یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ حالانکہ اہل علم نے مسئلہ کی وضاحت کربھی دی ہے کہ:1۔ حدود و قصاص کے سلسلہ میں عورت کو گواہی کے لیے زحمت نہیں دی جائے گی۔2۔ رضاعت وعدت وغیرہ کے مسائل میں عورت کی گواہی قابل قبول ہوگی اور مرد مکلّف نہ ہوگا۔3۔ مالی معاملات میں دو مردوں کی گواہی مطلب ہوگی، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اورد و عورتیں گواہی دیں گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَ‌جُلَيْنِ فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ…﴿٢٨٢﴾…سورۃ البقرۃ……. اور قرآن مجید میں جہاں ”فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ” کا ذکر ہے ، وہاں اس کی حکمت بھی بیان فرما دی گئی ہے۔
﴿أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ ۚ…﴿٢٨٢﴾…سورۃ البقرۃکہ”ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے۔”
مسئلہ تو بالکل واضح ہے، مگر حقوق نسواں کے نام نہاد علمبرداروں نے اسے چسیتاں بنا کے رکھ دیا ہے۔بالخوص سورة البقرة کی مندرجہ بالا آیت ان کی ستم رانیوں کا نشانہ بنی ہے کہ ﴿أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ ۚ…﴿٢٨٢﴾…سورۃ البقرۃ” کے تحت چونکہ ”گو اہی تو ایک ہی عورت (شاہدہ) دے گی، دوسری مذکرہ ہوگی جو شہادت کے کسی حصہ کو بھولنے پر اطلاع دے گی!” ……. فلهذا:”اسلام میں ایک عورت کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے!”
….. او رپھر اس بنیاد پر تفسیر بالرائے کا جو اودھم مچا اور تفسیر قرآن کےنام پر جو ، نت نئے شگوفے چھوڑے گئے ہیں، انہوں نے ان طوفانوں کی ہلاکت خیزیوں کوبھی مات کردیاہے، جوبے حجابیوں کی لہروں پر سوار ہوکر لاہو راو رکراچی کی سڑکوں پر مچلے تھے۔
سوال یہ ہے کہ : ﴿أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ ۚ…﴿٢٨٢﴾…سورۃ البقرۃ” کے تحت کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایک عورت کے بھول جانے کا خدشتہ لاحق نہ ہو تو ”فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ” ”(دو مردوں کی بجائے) ایک مرد او ردو عورتوں ” کے قرآنی اصول سے صرف نطر کرلیا جائے گا؟ ……حکمت و مصلحت خواہ کچھ بھی ہو، شہادت کا انداز خواہ کوئی ہو، اس مذکورہ نصاب میں کچھ کمی بیشی ممکن ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے کہ ایک عورت کی یادداشت قوی ہونے کی صورت میں دو کی بجائے ایک ہی عورت کی گواہی قابل قبول ہوسکتی ہے ، جیسا کہ اس سلسلہ میں کئی آراء سامنے آئی ہیں۔ تو پھر براہ کرم ہمیں یہ کہنے کی بھی اجازت دیجئے کہ اگر دو عورتوں کی یادداشت کمزور ہے تو پھر تیسری کو، اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو تیسری کے بعد چوتھی کو بھی ایک مرد کی بجائے گواہی کےلیے لاکھڑا کیا جاسکتا ہے! ظاہر ہے جہاں تک مرد کاتعلق ہے، اس کی یادداشت کا مسئلہ تو زیر بحث ہی نہیں او رجب یہ مسئلہ عورت ہی سے متعلق ہے تو پھر کمئ تعداد کے علاوہ زیادتئ تعداد کا مسئلہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ فافهم و تدبر!
او رجہاں تک ”شاہدہ” اور ”مذکرہ” کا معاملہ ہے کہ ”گواہی صرف ایک ہی عورت دے گی، دوسری صرف بھول جانے پر یاد دلائے گی” یا ” بغور سنے گی!” تو یہ قرآن مجید کی کس آیت کا ترجمہ او رکس حدیث رسول اللہ ؐ کی تشریح ہے؟
قرآن مجیدنے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں یعنی ”أن تضل إحداهما فتذكر إحداهما الأخرى” ان سے یہ نتیجہ کشید کرنا کہ ”گو اہی صرف ایک ہی عورت دے گی” کہاں تک درست ہے؟
اس طرح تو کئی اشکال سامنے آئیں گے۔مثلاً1۔ کیا عدالت پہلے سے یہ طے کرلے گی کہ دو عورتوں میں سے ایک ”شاہدہ” ہے اور دوسری ”مذکرہپ؟”2۔ یہ تعیین کس بنیاد پر ہوگی؟ جبکہ دونوں عورتوں میں سے ہر ایک ”شاہدہ” بننے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور ”مذکرہ” بننے کی بھی۔ قرآن مجید کے الفاظ کا ترجمہ تو یہی ہے کہ ”ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے” ”شاہدہ” اور ”مذکرہ” کی تقسیم کے تحت بھولنے والی کون ہوگی اور یاد کون دلائے گی؟3 دونوں عورتوں میں سے کوئی ایک ، خواہ وہ ”’شاہدہ” ہو یا ”مذکرہ” جس معاملہ پر شہادت مطلوب ہے، اس کے لیے موقع کی گواہ ہونا دونوں کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ ”شاہدہ” شاہدہ نہیں ہوسکتی اور ”مذکرہ” کی تذکیر بے معنی ہے، لہٰذا شہادت و تذکیر دونوں ہی شہادت کے زمرہ میں آئیں گے۔ اس بناء پر یہ کہنا کہ ”شہادت تو ایک ہی عورت دے گی…..!” کہاں تک درست ہوگا؟4۔اگر ایک عورت شہادت دیتی ہے اور دوسری خاموشی سے ”بغور سنتی رہتی ہے” کہ وہ بھولی نہیں لہٰذا یاددلانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ اب کیا یہ خاموش رہنے والی پھر بھی ”مذکورہ” ہی کہلائے گی؟5۔ ایک معاملہ اگر دونوں عورتیں ایک دوسری کو یاد دلاتی ہیں، تو دونوں ”مذکرہ” ہوتیں، پھر ”شاہدہ” کون ہوگی؟6۔ ”رجلین” کی بجائے ”فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ” کا نصاب تو بہرحال پورا کرنا ہے۔ شق نمبر 4 کے تحت اگر ”مذکرہ”، مذکرہ ہی نہیں اور شق نمبر 5 کے تحت دونوں ہی ”مذکرہ” ہیں، ”شاہدہ” کوئی بھی نہیں تو ”وامرأتان” کی اس تفسیر (ایک ”شاہدہ” اور دوسری ”مذکرہ” کے تحت یہ نصاب کیونکر پورا ہوگا؟7۔ اور سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ ”شاہدہ” کے ساتھ ”مذکرہ” اور ”مذکرہ” کے ساتھ ”شاہدہ” کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب اگر عنایت فرمادیا جائے تو مسئلہ خود بخود ہی حل ہوجائے گا کہ:”دو مردوں کی شہادت ، ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت کےبرابر ہے!”اور :”ایک مرد کی شہادت ، دو عو رتوں کی شہادت کے برابر ہے!”
اور یہی قرآن مجید کا مقصود بھی ہے ، ورنہ جہاں تک ”أن تضل إحداهما فتذكر إحداهما الأخرى” کا تعلق ہے تو یہ:دو عورتوں کی شہادت …… ایک مرد کی شہادت
کی وجہ مذکور ہوئی ہے۔ جس میں عورت کی فطرت کوملحوظ رکھا گیا ہے او رجس میں اس کا اپنا کوئی قصور بھی نہیں نہ کہ اس سے ”شاہدہ” اور ”مذکرہ” کی تعیین و تعریف مراد ہے۔ پس یہ کہنا کہ ”گواہی تو ایک ہی عورت دے گی، دوسری صرف بھو ل جانے پر یاد دلائے گی۔” از روئے قرآن سراسر باطل و بیکار ہے اور عقل و نقل سے بھی بعید! 2
علاوہ ازیں ہم اپنے مؤقف کی تائید میں قرآن مجید ہی سے ایک او ردلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ:قرآن مجید میں”فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ” کے بعد ”مِمَّن تَرْ‌ضَوْنَ مِنَ ٱلشُّهَدَآءِ” کے الفاظ مذکور ہیں۔ لہٰذا ”رجلین” یا ”رجل و امرأتان” (اور بقول ”مفسرین کرام” رجل ، شاہدہ او رمذکرہ) ان سب پر شہداء ہی کا اطلاق ہوگا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ”گواہی تو ایک ہی عورت دے گی، دوسری صرف بھول جانے پر یاد دلائے گی” نص قرآنی کے یکسر خلاف ہے۔ فهو المطلوب!
جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، مذکورہ بالا آیت قرآنی کی تفسیر میں کئی آراء سامنے آئی ہیں، جن سے اپنے من مانے مطلب کشید کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن افسوس کہ ان تمام ”مفسرین” میں سے کسی نے بھی ”فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَ‌جُلَيْنِ” کے حرف ”ان” (اگر) کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا کہ ”اگر و مرد نہ ملیں” تو پھر ”ایک مرد اور دو عورتیں” (فرجل و امرأتان) کی ضرورت پیش آئے گی، ورنہ مردوں کے ہوتے ہوئے عورتوں کو مالی معاملات میں بھی شہادت کے لیے زحمت دینے کی ضرورت ہی نہیں!
اگر بات اب بھی سمجھ میں نہ آتی ہو تو ہم دوبارہ عرض کیے دیتے ہیں کہ ”ان” حرف شرط ہے لہٰذا ”ایک مرد اور دو عورتوں” کی شہادت کا معاملہ مشروط ہے اس شرط کے ساتھ کہ ”جب دو مرد نہ ملیں” اور اگر یہ انتظام ہوجاتا ہے تو دوسرا انتظام (جس میں عورتوں کی ضرورت بغرض سہولت ، متبادل ہے)کرنا ضروری ہی نہیں ہے ، کجا یہ کہ اس سے 1=1 کا نتیجہ حاصل کرنےکے لیے کھینچ تان کی جائے۔ جیسا کہ اسی آیت میں اس سے قبل ”وَٱسْتَشْهِدُواشَهِيدَيْنِ مِن رِّ‌جَالِكُمْ” (کہ اپنے مردوں میں سے دو گواہ کرلیاکرو) کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔ ہاں اگر ”دو مرد نہ ملیں” تو پھر بغرض سہولت ”ایک مرد اور دو عورتیں (مل کر گواہی دیں گی!”) او رایک مرد کی بجائے دو عورتیں اس وجہ سے ”تاکہ ایک بھول جائے اور دوسری یا ددلا دے۔”
فرمایا اللہ رب العزت نے:﴿ذَ‌ٰلِكَ نُفَصِّلُ ٱلْءَايَـٰتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿٢٨﴾…سورۃ الروم
قرآن مجید کے الفاظ ”أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ‌ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَ‌ىٰ” واضح طور پر یہ بتلاتے ہیں کہ بھولنے اور یاد دلانے کا یہ معاملہ عورت کےساتھ مخصوص ہے، مرد کے سلسلہ میں یہ بات نہیں۔ لہٰذا خود قرآن مجید کی نظر میں عورت کا کسی بات کو بھول جانا ظاہر و باہر ہے اور اسی بناء پر شہادت کے لیے اس کے ساتھ دوسری عورت کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ جس سے ایک تو ”دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر” ہونےکی واضح طور پر نشاندہی ہوتی ہے اور دوسرے اس سے عورت کی عقل کے نقصان کا حقیقت پر استدلال ہوتا ہے۔
اب ذرا ایک نظر حدیث رسول اللہ ﷺ پربھی ڈال لیجئے:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”یامعشر النسآء تصدقن فإني أریتکن أکثر أھل النار فقلن فبم یارسول اللہ قال تکثرن اللعن و تکفرن العشیر ما رأیت من ناقصات عقل و دین أذھب للب الرجل الحازم من أحد کم قلن وما نقصان دیننا و عقلنا یارسول اللہ؟ قال ألیس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل؟ قلن بلیٰ قال فذالك من نقصان عقلها قال ألیس إذا حاضت لم تصل ولم تصم؟ قلن بلیٰ قال فذالك من نقصان دینها!” 3کہ ”اے عورتوں کی جماعت صدقہ کرو، اس لیے کہ تمہاری کثیر تعداد مجھے جہنم میں دکھلائی گئی ہے” عورتوں نے کہا، ”یہ کس وجہ سے، اےاللہ کے رسولؐ؟” فرمایا، ”تم لعنت زیادہ بھیجا کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو، میں نے نہیں دیکھا کہ باوجود عقل و دین کے نقصان کے مردوں کی مت مارنے والی تم سے بڑھ کر کوئی ہو!” عورتوں نے کہا، ”اے اللہ کے رسولؐ، ہمارے دین اور عقل کا کیا نقصان ہے؟” آپؐ نے فرمایا ”کیا ایک عورت کی شہادت ایک مرد کی نصف شہادت کے برابر نہیں؟” عورتوں نے کہا، ”کیوں نہیں!” آپؐ نے فرمایا، ”یہ ان کی عقل کے نقصان سے ہے!” پھر آپؐ نے فرمایا، ”کیا ایسا نہیں کہ ایام مخصوص میں عورت نہ تو نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے؟” عورتوں نے کہا، ”درست ہے!” آپؐ نے فرمایا، ”یہ اس کے دین کے نقصان سے ہے!”
……. ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ حدیث رسول اللہ ﷺ نے کس قدر واضح الفاظ میں قرآن مجید کی تائید فرمائی ہے اور ان دونوں کا آپس میں کس قدر گہرا تعلق ہے؟ ہمیں تعجب ہے کہ اس قضیہ کو نپٹانے کے لیے ”مفسرین کرام” میں سے کسی نے بھی رسول عربی ﷺ کے اس دو ٹوک فیصلہ کا حوالہ کیوں نہیں دیا؟ خدا کے بندو، الفاظ کے گورکھ دھندا یا مرد و عورت کی ہمدردی و عداوت کے نام پربات کو گھمانے پھرانے سے مسائل حل نہ ہوں گے۔ ہاں یہ تسلیم کیجئے کہ قرآن مجید کا مفہوم سمجھنے کےلیے ہمیں اس ہستی کی شدید ضرورت ہے ، جس پر یہ قرآن ناسل ہوا اور جس کی بعثت کا مقصد اسی قرآن مجید میں یوں بیان ہوا کہ:
﴿وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ…﴿١٦٤﴾…سورۃ آل عمران” اور (یہ رسول) انہیں (مسلمانوں کو) کتاب و حکمت سکھاتا ہے!”
اور :﴿وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ…﴿٤٤﴾…سورۃ النحل”ہم نے آپؐ کی طرف ذکر ناسل فرمایا ہے تاکہ آپؐ اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں۔”
نیز فرمایا :﴿وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى ٱخْتَلَفُوافِيهِ ۙ وَهُدًى وَرَ‌حْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿٦٤﴾…سورۃ النحل” 4کہ ” ہم نے آپ کی طرف کتاب اس لیے اتاری ہے کہ آپؐ اسے لوگون کے سامنے بیان کریں، جس میں انہوں نے اختلاف کیا ہے، نیز ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لیے!”
لیکن اس کے باوجود اگر اس مسئلہ کے تصفیے کے لیے اس معلّم انسانیت (ﷺ) کی طرف رجوع نہیں کیا گیا تو اس پریہی کہا جاسکتا ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے!
ورنہ سلف کا طریق تفسیر تو یہی تھاکہ وہ قرآن مجید کا مفہوم خود قرآن مجید او رحدیث رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں متعین کرتے تھے۔ آئیے ذرا تفسیر ابن کثیر کے اس گلستان کی سیر کریں جہاں ”قال اللہ” اور ”قال الرسول” کے رنگا رنگ پھول جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ امام ابن کثیر سورة البقرہ کی مذکورہ آیت 282 کے تحت لکھتے ہیں:﴿فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَ‌جُلَيْنِ فَرَ‌جُلٌ وَٱمْرَ‌أَتَانِ﴾وھٰذا إنما یکون في الأموال وما یقصد به المال و إنما أقیمت المرأتان مقام الرجل لنقصان عقل المرأة کما قال مسلم في صحیحه۔ عن أبي هریرة عن النبي صلی اللہ علیه وآله وسلم أنه قال: ”یامعشر النسآء تصدقن وأکثرن الاستغفار فإني رأیتکن أکثر أھل النار، فقالت امرأة منھن جزلة ومالنا یارسول اللہ أکثر أھل النار؟ قال تکثرن اللعن و تکفرن العشیر مارأیت من ناقصات عقل و دین أغلب لذي لب منکن ” قالت یارسول اللہ ”ما نقصان العقل والدین؟” قال ”أما نقصان عقلها فشهادة امرأتین تعدل شهادة رجل فهذا نقصان العقل…… الخ! ” 5کہ ” اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں……. اور یہ صرف مالی معاملات میں ہے، اور دو عورتیں ایک مرد کے قائم مقام عورت کی عقل کے نقصان کی بناء پر بنائی گئی ہیں جس طرح کہ مسلم شریف کی روایت میں نبیﷺ نے فرمایا: ”اے عورتوں کی جماعت صدقہ کرو اور استغفار کثر تسے کرو، کیونکہ میں نے تمہاری اکثریت اہل النار میں سے دیکھا ہے؟ اس پر ایک عورت نے کہا، ”ہمارے اکثر اہل النار میں سے ہونے کی کیا وجہ ہے؟” فرمایا، ”تم لعنت زیادہ بھیجتی ہو او رخاوند کی ناشکری کرتی ہو، میں نے نہیں دیکھا کہ ناقصات عقل و دین ہونے کے باوجود ذی عقل پر تم سے بڑھ کر کوئی غالب ہو!” اس عورت نے پوچھا، ”اللہ کے رسولﷺ، ہمارے دین و عقل کا نقصان کیاہے؟” فرمایا، ”عقل کا نقصان تو یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے!” الخ
اور امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری ”کتاب الشہادات” میں یوں باب باندھا ہے:”باب شهادة النسآء وقوله تعالیٰ فإن لم یکونا رجلین فرجل وامرأتان” اور اس کے بعد معاً بعد یہ حدیث نقل فرمائی ہے:”عن أبي سعید الخدري رضی اللہ عنه عن النبي صلی اللہ علیه وآله وسلم قال ألیس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل … قلنا بلیٰ….قال فذالك من نقصان عقلها!”کہ ”نبی ﷺ نے فرمایا: ”کیا ایک عورت کی شہادت مرد کی نصف شہادت کے مثل نہیں؟” ہم نے عرض کی، کیوں نہیں!” آپؐ نے فرمایا، ” یہ عورت کی عقل کے نقصان سے ہے!”…………….ولعل فيه کفایة لمن له داریة”
بات اگرچہ طویل ہوجائے گی تاہم یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ہفت روزہ ”الاعتصام” 18 مارچ 1983ء کی اشاعت کے ایک مضمون میں، صاحب مضمون نے تحریر فرمایا ہے:
”امام ابن کثیر نے لکھا ہے: ”إن شهادتها معها تجعلها کشهادة رجل فقد أ بعد!””یعنی جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک عورت کی شہادت دوسری سے مل کر مرد کی شہادت کے برابر ہوتی ہے ، ان کا یہ قول عقل و نقل سےبعید ہے۔ صحیح صورت وہی ہے جو پہلے بیان ہوچکی ہے کہ دونوں میں سے شہادت تو ایک عورت دے گی، دوسری ”مذکرہ” یاددلانے والی ہوگی!” 6
ہمیں افسوس ہے کہ یہاں صاحب مضمون سے (جو ہماری نظروں میں انتہائی محترم ہیں) سہو ہوگیا ہے یا انہوں نے غور نہیں فرمایا۔ ابن کثیر کے اصل الفاظ یہ ہیں:”إن شهادتها معها تجعلها کشهادة رجل فقد أ بعد!”
جبکہ صاحب مضمون نے ”کشهادة ذکر” کی بجائے۔ ”کشهادة رجل” کےالفاظ نقل فرمائے ہیں او ریہیں سے معاملہ کچھ سے کچھ ہوگیا ہے۔ گویا یہی وہ نقطہ ہے جس نے محرم سے مجرم کردیا ہے اور جس کی بناء پر انہوں نے استدلال فرمایا ہے کہ:”صحیح صورت وہی ہے جو پہلے بیان ہوچکی ہے کہ دونوں میں سے گواہی تو ایک عورت دے گی، دوسری صرف مذکرہ یا دلانے والی ہوگی!”
چنانچہ ان کا پورا مضمون اسی نقطہ کے گرد گھوم کر رہ گیا ہے۔
اصل صورت حال یہ ہے کہ امام صاحب نے یہاں ایک عجیب و غریب تفسیر کی تردید فرمائی ہے کہ بعض لوگوں نے یہ لکھا ہے کہ:”جب ایک عورت بھول جائے گی تو دوسری اس کے ساتھ شامل ہوکر اسےمذکر (متضاد مونث) بنا دے گی۔” اور یہ اس صورت میں جب ”فتذکر” کو بغیر تشدید کے ”تذکر” پڑھا جائے گا۔ چنانچہ امام صاحب لکھتے ہیں:”إذا نسیت الشهادة (فتذکر إحداھما الأخریٰ) أي یحصل لها ذکر بما وقع به من الإشهاد و بهذا قرأ آخرون فتذکر بالتشدید من التذکار ومن قال إن شهادتها معها تجعلها کشهادة ذکر فقد أبعد والصحیح الأوّل”کہ ” جب ایک عورت بھول جائے گی تو ان دونوں میں سے ایک دوسری کو واقعہ یا د دلائے گی اور اسی قراء ت کے ساتھ دورے قاریوں نے قراء ت کی ہے یعنی ”فتذکر” تشدید کے ساتھ تذکار (یاددلانے) سے ہے۔ او رجس نے (اسے ”تذکر” پڑھاہے اور کہا کہ ا س کی شہادت اس کے ساتھ مل کر اسے مذکر کی شہادت کے مانند بنا دے گی، تو یہ بعید ہے، صحیح صورت پہلی ہی ہے (کہ اسے تشدید کے ساتھ ”تذکر” یاد دلانے کے معنی میں پڑھا جائے نہ کہ ”تذکر” مذکر بنانے کے معنی میں)”
او ریہی مفہوم دوسری تفسیروں سے بھی ثابت ہے (ملاحظہ ہو، فتح القدیر، الکشاف، الخازن)بلکہ بعض نے تو یہ تصریح بھی کی ہے کہ ”فتذکر” ”تضل” کے مقابلے میں ہے۔ یعنی بھول جانے کےبالمقابل یاد دلانا، لہٰذا ”تذکر” پڑھنا غلط ہے ! ورنہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو امام صاحب خود ایک بات لکھ کر کہ ”دو عورتیں” عورت کی عقل کے نقصان کی بناء پر ایک مرد کے قائم مقام بنائی گئی ہیں” پھر اس کی تائید میں حدیث رسولؐ (دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر ہے) بھی پیش کرکے اس کی تردید خود ہی کیسے کرسکتے تھے، جیساکہ صاحب مضمون نے تحریر فرمایا ہے کہ:”جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک عورت کی شہادت دوسری سے مل کر مرد کی شہادت کے برابر ہوتی ہے، ان کا یہ قول عقل و نقل سے بعید ہے۔صحیح صورت وہی ہے کہ دونوں میں شہادت تو ایک عورت دے گی، دوسری مذکرہ یاد دلانے والی ہوگی۔”
یہ تو حدیث رسول اللہ ﷺ کے صریحاً خلاف ہے، اور ”جو لوگ یہ کہتے ہیں” کی زد براہ راست رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی پر پڑتی ہے۔ العیاذ باللہ!
او رجبکہ صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق بھی رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی گواہی کو ایک مرد کی نصف گواہی کے مثل قرار دیاہے۔ تو صحیح یہی ہے کہ یہ دو نصف شہادتیں (وامرأتان) مل کر ہی ایک شہادت (رجل)کے قائم مقام بنیں گی!
امید ہے کہ صاحب مضمون اس جسارت پر ہمیں معاف فرمائیں گے ۔ تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ مضمون روزنامہ ”جنگ” میں چھپا او رنہ صرف علماء اہل حدیث میں سے کسی نے اس کا نوٹس نہ لیا، بلکہ اس کے بعد ہفت روزہ ”اہل حدیث” او رپھر اس کے بعد ہفت روزہ ”الاعتصام” میں بھی من و عن چھاپ دیا گیا۔بغیر یہ تحقیق کیے کہ اس کے بعض مندرجات حدیث رسول اللہ ؐ سے مطابقت نہیں رکھتے او رنہ ہی یہ زحمت فرمائی گئی کہ امام ابن کثیر سے منسوب مندرجہ بالا عبارت کو تفسیر ابن کثیر میں ایک نظر دیکھ لیا جاتا۔ بہرحال ایک ایسی جماعت کے لیے ، جو اہلحدیث کہلانے میں فخر محسوس کرتی اور تقلید کی بجائے اتباع رسول اللہ ﷺ کا دم بھرتی ہے، ایسی تقلید کی مثال قائم کرنا، نرم سے نرم الفاظ میں بھی عبرتناک نہیں تو او رکیا ہے؟

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہاکارواں کے دل سے احساس زباں جاتا رہااو ریہاں تفاوت مرد و زن یا حقوق و مساوات کی بحث کہاں سے ٹپک پڑی؟ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:”الجنة تحت أقدام الأمهات” کہ ”جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے!”
اسی طرح مشہور حدیث ہے کہ ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضری دے کر سوال کیا ، ”اللہ کے رسولؐ، میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟” فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ،”تیری ماں” سائل نے عرض کی، ”اللہ کے رسولؐ ، پھر کون؟” فرمایا، ”تیری ماں!”، تیسری مرتبہ سائل نے پوچھا، ”اللہ کے رسولؐ، پھر کون مستحق ہے؟” فرمایا، ”تیری ماں” اور چوتھی مرتبہ سائل نے جب یہی سوال دہرایا تو فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ” تیرا باپ!” 7
عورت کی حیثیت صرف بیوی کی نہیں، وہ ماں بھی ہے، بہن بھی او ربیٹی بھی! اور ان تین حیثیتوں میں اسلام نے اسے جو کچھ عطا فرمایا ہے ، کیا کوئی دشمن عقل و خرد اس میں کیڑے نکال سکتا ہے؟ اور بیوی کی حیثیت میں بھی اسلام نے عورت پر کون سے ستم ڈھائے ہیں؟ رہی بات مرد کی، تو قرآن مجید میں محض شرط عدل کے ساتھ مرد کو چار بیویوں تک کی اجازت ہے۔ کیا یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ یہاں پاکستان میں ان گھرانوں کی اوسط تعداد کیا ہے جن میں ایک سے زیادہ بیویاں آباد ہیں؟ او رجہاں کہیں چند ایک ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں ، وہاں بھی ہمارے موجودہ عائلی قوانین کی رجو سے یہ پہلی بیوی کی اجازت سے ہوا ہے۔ کیا قرآن مجید میں اجازت کی یہ شرط موجو دہے؟ اگر اسے طلم کا نام دیا جائے تو ظالم کون ہے؟ اور اس ظلم پر احتجاج کے لیے مردوں نے آج تک کتنے جلوس نکالے؟ کتنے بیان داغے؟ کس حد تک شور مچایا؟ ”جنت ماں کے قدموں میں ہے” کسی باپ نے آج تک اس پر احتجاج کیا؟ یا رسول اللہ ﷺ نے حقوق کے سلسلہ میں تین دفعہ ماں کا نام لیا او رصرف ایک (چوتھی) مرتبہ باپ کا نام لیا، اس پر کوئی مرد معترض ہوا؟ اور اس کے باوجود بھی عورتوں ہی کو جلوس نکالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پھرکیا وہ خواتین بھی مرد ہی تھیں، جنہوں نے بھرے مجمعوں میں ان جلوس نکانے والیوں کی مذمت کی؟ یا وہ مرد بھی ، خواتین ہیں جن کے مضامین عورت کی ہمدردی میں اخبارات میں شائع ہورہے ہیں؟ او راس کے لیے کتاب و سنت کی واضح تعلیمات کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا ہے!
ہم پوچھتے ہیں ، وہ فرضی ظلم کہاں ہے جس پر یہ شور مچایا جارہا ہے؟ ہم واضح لفظوں میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قانون شہادت کی ان تمام بحثوں میں خود قانون شہادت زیر بحث ہی نہیں ہے، بلکہ ان بحثوں کامقصود و مطلوب وہ بے راہروی ، عیاشی، جہالت او راسلام کی عائد کردہ ان پابندیوں سے بغاوت ہے، جو ان عیاشیوں اور فحاشیوں پر قدغن لگاتی ہیں۔ ورنہ آج ہمارے معاشرہ میں عملی طور پر عورت کی شہادت کی نوبت مالی معاملات میں بھی کہں تک پیش آتی ہے؟ اور اگر ایک عورت کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر (1=1) کا اصول تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس سے عورت کی دفاتر میں بے حجابانہ ملازت کا جواز مہیا ہوجائے گا یا بےپردہ بازاروں میں پھرنے او ربن سنور کر غیر مردوں سے اختلاط کی پابندی اس پر سے اُٹھ جائے گی؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ جلوس ان عورتوں نے نکالے ہیں جو پردے کو خیر باد کہہ کر بے حجابی کو گلے لگا چکی ہیں؟ کیا یہ وہی عورتیں نہیں جنہوں نے علماء کرام کی داڑھی کو ”جنگل” کا نام دیا، زنا کے مجرم کو ”مظلوم” گردانا اور شادی کو ایک ”گھناؤنے بندھن” سے تعبیر کیا؟ 8
خدا شاہد ہے کہ ، ہم ایک مرد ہونےکےناطے بھی عورت کوبے حد محترم خیال کرتے ہیں۔ مائیں، بہنیں او ربیٹیاں سبھی ہماری نظروں میں انتہائی قابل قدر ہیں، اور ازدواجی زندگی میں بھی عورت کو اس کے اسلامی حقوق کا تحفظ دینے کے قائل ہیں، کیونکہ ہماری نظر میں بُرائی بھلائی کا معیار کسی کا مرد و عورت ہونا نہیں، بلکہ اس کامعیار دین اسلام کے وہ فطری قوانین ہیں جن کے شارع خود اللہ رب العزّت ہیں او رجن کی تعلیم رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دی ہے ۔کوئی مرد ان قوانین سے بغاوت کامرتکب ہوگا تو ہم اسے اچھا نہیں کہیں گے، او راگر کوئی عورت ان قوانین کو اپنے لیے راہنما بنائے گی تو ہم اس کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیں گے۔ لیکن جب عورت ہی بے عورت ہوجائے تو اسے یہ سوچ لینا چاہیے کہ ”لیڈیز فسٹ ” کا وہ اصول آج کہاں گیا؟ جس کے تحت ایک مرد چلتی بس میں اپنی سیٹ سے دستبردار ہوکراسے اپنی بہن، بیٹی یا ماں کے لیے خالی کردیا کرتا تھا۔ لیکن آج وہ اپنی سیٹ پربیٹھا آرام سے سوجاتا ہے۔ اس بات سے بالکل بے پروا، کہ اس کے قریب ہی ایک بہن کی گود میں بچہ ہے اس کے ایک ہاتھ میں گٹھڑی ہے اور دوسرے ہاتھ سے بچے کو سہارا دیئے، او راپنے لیے سہارا لینے کے باوجود چلتی بس میں اپنا توازن برقرار رکھ لینا بھی اس کے لیے دشوار ثابت ہورہا ہے۔ ہاں اگر اپنی اس بہن کی مصیبت (9) کا خیال اس کے دل میں آتا بھی ہے تو ”مساوات” کا دوسرا خیال اس کو دوبارہ بےفکر ہوکر سوجانے پر مجبور کردیتا ہے۔اے بنت حوّا، کیا تو اسی ”مساوات” کی تلاش میں ہے؟ او رکیا بات یہیں تک محدود رہے گی؟ خدا سے ڈر، اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی نہ کر، یقیناً دنیا او رآخرت میں تیرا بھلا ہوگا۔ وما علینا إلا البلاغ۔
حوالہ جات1. صحیح مسلم عن ابی ہریرةؓ2. مزید اطمینان کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر فتح القدیر ، جلد اوّل ص302، تفسیر خازن جلد اوّل ص258، احکام القرآن ج1 ص255،2563. بخاری ، مسلم عن ابی سعید الخدریؓ4. ایضاً 645. تفسیر ابن کثیر، ج1 ص3376. ص57. بخاری ، مسلم۔ بحوالہ مشکوٰة باب البر ولصلة8. ملاحظہ ہو روزنامہ ”جسارت” 10 مارچ 1983ء9. او ریہ مصیبت ایسی مصیبت ہے کہ ایئر کنڈیشنڈ کاروں میں بیٹھ کر سفر کرنے والی بیگمات اس کا تصور تک نہیں کرسکتیں او ریہ جلوس بھی انہی بیگمات نے نکالے ہیں۔ خدارا ”حقوق نسواں” کے نام پر کوئی طوفان کھڑا کرنے سے پہلے یہ تو انداسہ کرلیا کرو، کہ اس کے اثرات ان کی غریب بہنوں پر کیا مرتب ہوں گے؟