علامہ اقبال کی انسانی جنسی خواھشات

May be an image of ‎2 people and ‎text that says '‎شادی) شُده اقبال (رح اور ايما ویگے ناسٹ عشق سادگی يا جنسى کشش www.silsla.com سلسله ڈاٹ کوم‎'‎‎
ایما ویگے ناسٹ کو لکھے گئے علامہ اقبال کے خطوط کا آخری حصہ
21 جنوری 1908ء کو تحریر کیا :
جب آپ کا پچھلا خط پہنچا تو میں بڑا بیمار تھا اور اس نے مجھے اور بھی بیمار کر ڈالا۔ کیونکہ آپ نے لکھا تھا کہ آپ نے بڑے طوفان میں سے گزرنے کے بعد اپنی آزادی دوبارہ حاصل کی ہے۔ میں یہ سمجھا کہ آپ میرے ساتھ مزید خط و کتابت نہیں کرنا چاہتیں اور اس بات سے مجھے بڑا دکھ ہوا۔ اب مجھے پھر آپ کا خط موصول ہوا ہے اور اس سے مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے۔ میں اکثر آپ کے بارے میں سوچتا ہوں اور آپ کے لیے میرا دل ہمیشہ بڑے حسین خیالات سے معمور رہتا ہے۔ ایک شرارے سے شعلہ اٹھتا ہے اور شعلے سے بڑا الاؤ روشن ہوجاتا ہے، لیکن آپ غیر جانبدار ہیں، غفلت شعار ہیں، آپ جو جی میں آئے کیجیے، میں بالکل کچھ نہ کہوں گا اور ہمیشہ صابر و شاکر رہوں گا۔ شاید جب میں ہندوستان روانہ ہوں گا تو آپ سے ملاقات کرسکوں گا۔
26 فروری 1908ء کو تحریر کیا :
میں ہر چیز کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے اس قدر مصروفیت رہی کہ آپ کو خط نہ لکھ سکا، مگر آپ چونکہ فرشتہ خصلت ہیں، اس لیے امید رکھتا ہوں کہ آپ مجھے معاف کردیں گی۔ آج شام بھی مجھے ایک لیکچر دینا ہے، تصوف پر۔۔۔۔۔مجھے آپ کے کانوں کو اپنی بھونڈی جرمن سے مورد توہین بنانے پر شرم آتی ہے۔۔۔۔۔۔میں جولائی کے اوائل میں ہندوستان لوٹ رہا ہوں اور میری تمنا ہے کہ اپنے سفر سے پیشتر آپ سے ملاقات کا موقع مل جائے۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ چند روز کے لیے ہائیڈل برگ آسکوں، لیکن اگر ممکن ہو تو کیا آپ پیرس میں مجھ سے مل سکتی ہیں؟ ۔۔۔۔۔آپ تمام دن کیا کرتی ہیں؟ کیا آپ مطالعہ کرتی ہیں یا دوستوں کے ساتھ وقت گزارتی ہیں؟ آپ کی تصویر میری میز پر رکھی ہے اور ہمیشہ مجھے ان سہانے وقتوں کی یاد دلاتی ہے جو میں نے آپ کے ساتھ گزارے تھے۔ ایک تسبیحِ خیالاتِ خوش آیند کے ساتھ۔
3 جون 1908 ء کو تحریر کیا :
براہِ کرم لکھیے اور مجھے بتائیے کہ آپ کیا کررہی ہیں اور کیا سوچ رہی ہیں۔ آپ میرے خط کا انتظار کیوں کرتی ہیں؟ میں ہر روز آپ سے اطلاع پانے کی آرزو رکھتا ہوں۔۔۔۔ میں بہت مصروف ہوں، جلد انگلستان سے رخصت ہورہا ہوں، آغاز جولائی میں۔ مجھے معلوم نہیں کہ آیا جرمنی کے رستے سفر کرنا ممکن ہوگا کہ نہیں، یہ میری بڑی تمنا ہے کہ میں ہندوستان لوٹنے سے پہلے آپ سے ملاقات کرسکوں، بے رحم نہ بنیے، براہ کرم جلد خط لکھیے اور تمام احوال بتائیے۔ میرا جسم یہاں ہے، میرے خیالات جرمنی میں ہیں۔ آج کل بہار کا موسم ہے، سورج مسکرا رہا ہے لیکن میرا دل غمگین ہے۔ مجھے کچھ سطریں لکھیے اور آپ کا خط میری بہار ہوگا۔ میرے دلِ غمگین میں آپ کے لیے بڑے خوبصورت خیالات ہیں اور یہ خاموشی سے یکے بعد دیگرے آپ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
10 جون 1908ء کو تحریر کیا :
میں آپ کو پہلے خط لکھ چکا ہوں اور آپ کے خط کا منتظر ہوں۔ میں اپنی ایک تصویر لف کررہا ہوں۔شاید میں ایک اور تصویر آپ کو بھیجوں۔ میں 2 جولائی کو ہندوستان روانہ ہورہا ہوں اور وہاں سے خط لکھوں گا۔
لندن سے آخری خط 27 جون 1908ء کو تحریر کیا۔ لکھتے ہیں :
میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ جرمنی کے رستے سفر کرسکوں لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ میں 3 جولائی کو انگلستان سے روانہ ہوں گا اور چند روز پیرس میں رکوں گا۔ جہاں مجھے کچھ کام ہے۔ براہ کرم فوراً لکھیے۔ میں ہندوستان روانہ ہونے سے پیشتر آپ کا خط پانے کا ممتنی ہوں۔ میں اگلے سال یورپ آنے اور آپ سے ملنے کی امید رکھتا ہوں۔ مت کہیے گا کہ کئی ملک اور سمندر ہمیں ایک دوسرے سے جدا کریں گے، پھر بھی ہمارے درمیان ایک غیر مرئی رشتہ قائم ہے۔ میرے خیالات ایک مقناطیسی قوت کے ساتھ آپ کی سمت دوڑیں گے اور اس بندھن کو مضبوط بنائیں گے۔ ہمیشہ مجھے لکھتے رہیے گا اور یاد رکھیے گا کہ آپ کا ایک سچا دوست ہے، اگرچہ وہ فاصلہ دراز پر ہے۔جب دل ایک دوسرے کے قریب ہوں تو فاصلہ کچھ معنی نہیں رکھتا۔
ایما ویگے ناست کی ذات کے بارے میں محمد اکرام چغتائی نے ہائیڈل برگ جا کر تحقیق کی ہے اور اس سلسلے میں ان کا ایک مضمون "اقبال اور ایما ویگے ناست” نوائے وقت (جمعہ میگزین مورخہ 9 تا 15 نومبر 1984ء) میں چھپ چکا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق ایما ویگے ناست کچھ مدت پانسی یاں شیرر میں جرمن زبان پڑھاتی رہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے کلینک میں بطور کیمسٹ ملازم ہوئیں اور اٹھائیس برس تک یہی خدمت انجام دیتی رہیں۔
1947ء میں بعمر 68 سال ریٹائر ہوئیں۔ تمام عمر غیر شادی شدہ رہیں۔ ہائیڈل برگ میں اپنی بہن صوفی ویگے ناست کے ساتھ رہتی تھیں۔ 1956ء میں انہیں بڑھاپے الاؤنس ملنا شروع ہوا۔ بالآخر پچاسی سال کی عمر میں 16 اکتوبر 1964 کو وفات پاگئیں۔
اقبال کی ایما ویگے ناست کے ساتھ مراسلت جاری رہی، لیکن وہ پھر ایک دوسرے سے کبھی نہ مل سکے۔ اب تک دریافت شدہ خطوط کی تعداد ستائیس(27) ہے۔ پہلا 16 اکتوبر 1907ء کو اور آخری 21 جنوری 1933ء کو لکھا گیا۔سترہ(17) خط جرمن زبان میں ہیں اور دس(10) انگریزی میں۔ایما ویگے ناست جرمن زبان کے علاوہ اور کوئی زبان نہ جانتی تھیں۔ انہوں نے اقبال کو جو خطوط لکھے، وہ محفوظ نہیں۔ دونوں نے آپس میں تصاویر اور تحائف کا تبادلہ بھی کیا۔ اقبال انہیں اپنی تقاریر یا کلام بھی بھیجتے رہتے تھے اور بعض اوقات ان کے کلام کا جرمن ترجمہ بھی ایما ویگے ناست کی وساطت سے ہائیڈل برگ کے اخبارات میں چھپتا تھا۔
ایما ویگے ناست کی وفات سے چند برس پیشتر ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے کسی پاکستانی طالب علم کا وہاں کے اخبار میں مراسلہ شائع ہوا، جس میں تحریر کیا گیا تھا کہ 1907ء میں اقبال اس شہر میں چند ماہ ٹھہرے تھے مگر معلوم نہیں کہ کہاں ٹھہرے تھے۔ یہ مراسلہ ایما ویگے ناست کی نظر سے گزرا اور انہوں نے پاکستانی طالب علم کو اپنے ساتھ لے جا کر اس مکان کی نشاندہی کرائی۔
حوالہ کتاب : "زندہ رُود”
از : "ڈاکٹر جاوید اقبال”
ص : 151..152..153