مسخ شدہ لاشیں(افسانہ)

مسخ شدہ لاشیں(افسانہ)
بیورگ بزدار
بالاچ اور میری دوستی کالج میں ہوئی تھی مجھے اکثر کہا کرتا تھا چاکر تم ہرجگہ صلح کرتے ہو تم اپنا نام بیورگ کیوں نہیں رکھتے بنا کسی جواب دیے میں ہنس پڑتا تھا۔ بالاچ کی ماں بات کرتی تھی مجھے ایسے لگتا تھا جیسے وہ بالاچ کی نہیں میری ماں تھی۔ دوستی بڑھتے بڑھتے ہم دونوں نے ایک ہی یونیورسٹی سے psychology میں داخلہ لیا مگر من کہی اور تھا کیا کرتا بالاچ کی ماں نے قسم دیا تمھیں صرف موت الگ کرسکتی ہے ورنہ نہیں۔ وقت کے ساتھ بالاچ اور میری دوستی اور مضبوط ہوتئ گئ۔ کچھ دنوں بعد بالاچ گھر چلا گیا تھا چاغی اور وہاں سے شال ۔ایک دن بالاچ رابطہ کرتا ہے کہ امی سے بات کرو۔ میں جی امی کہہ کر بات کررہا ہوتا ہو کہ بالاچ کی ماں کہتی ہے بیٹا اپ آجاو شال کچھ دن رہ کر چلے جانا۔ میں تیسرے دن یونیورسٹی سے نکلتا ہو سیدھا ٹکٹ کراکے شال کو روانہ ہوجاتا ہوں وہاں جاکر بالاچ کو کال کرتا ہو اتنے میں بالاچ دومنٹ کے وقفے کے بعد پہنچ جاتا ہے کہ ہم ابھی مل رہے ہوتے ہیں کہ سیاہ گاڑی میں کچھ نقاب پوش ہمیں مار کر دھکے مار کر انکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر گاڑی میں بیٹھا کر روانہ ہوجاتے ہے اتنے میں بالاچ اواز دیتا ہے چاکر تو وہ اگے سے کہتا ہے دونوں ساتھ ہو۔ اب میں دل میں بےسرور تھا یہ لوگ اگر مجھے ماریں گے یا بالاچ کو ۔ آخر ہمارا قصور کیا ہے ؟ ۔ دو تین گھنٹوں کے مسافت کے بعد ہمیں الگ الگ کالی کوٹھیڑوں میں رکھا جاتا ہے جس کا نقشہ کچھ اسطرح تھا کہ ادمی پوری طرح لیٹ نہیں سکتا ، بہت زیادہ بدبو دار کمرہ، خالی گھڑہ، ساتھ بہت سی کالہ کوٹھیڑیاں اور یہ کوئی تہہ خانہ لگ رہا تھا مجھے ویت نام کا جیل یاد اگیا جو امریکہ نے ویتنامیوں کے لیے بنایا تھا جہاں چھ ہزار ویتنامیوں کا قتل عام کیا گیا تھا اور سوچا دشمن کی ہرجگہ مارنے کی پالیسی ایک ہی ہے وہ چاہیے جس شکل میں ہو اور اس کے ساتھ والے میں بالاچ کو رکھا گیا تھا۔ میں سوچنے لگا تھا کہ کیا زندگی ہے ماں باپ کئ برس کما کر بیٹوں کو اچھی زندگی گزارنے کے لیے کیا کیا کرتے ہے مگر بے سود دو گھنٹہ میں سب کچھ برباد تو کیوں میں خود آزاد کہوں۔؟ یہاں تسلسل رکتا نہیں بلکہ بڑھ جاتا ہے ان کا اپنا ایک Interogation روم ہوتا ہے جو خاص پوچھ گاچھ کے لیے ہوتا ہے، جو سیاسی لوگوں کا الگ کمرہ ہوتا ہے میں حیران تھا یہاں بھی طبقات کی جنگ ہے تو کیوں نہ سوشلسٹ لڑے۔ اب میں نے سوچا اگر بھگت سنگھ ہوتا تو شاید بھوک ہڑتال کرتا مگر یہ جیل کے نظام میں جمہوریت لاتا اور پھانسی پر چڑھتا مگر بے سود یہاں صرف ایک ریاست وجود رکھتی تھی جو طاقت کے نام پر استحصال جانتا تھا خیر یہ جیل نہیں لاپتہ افراد کی کوٹھیڑیاں تھی۔ جیل اور لاپتہ افراد کی کوٹھیڑوں میں زمین آسمان کا فرق تھا سب سے پہلے ظاہری شکل جیل کا ہوتا ہے نہ کے سیاہ زندانوں کا۔ یہاں ہرکسی کو ایک گھنٹے کے لیے Interogation Room میں لے جاکر اس سے سوال کیا جاتا تھا کبھی کبھی اگر وہ زیادہ تنگ کرے تو اس کو ٹارچر کیا جاتا تھا۔ مگر یہاں کی جو خاص بات تھی وہ یہ کہ ان کے اپنے Categories ہوتے تھے
فرسٹ: جہاں قیدی کو کچھ دن کے لیے رکھا جاتا تھا اور پوچھ گوچھ کے بعد سہی جواب دے دیتا تو اس کو کچھ دن رکھتے اور اسے چھوڑا جاتا تھا۔
دوئم: یہاں ایسے مجرموں کو لایا جاتا تھا جن کا چھوڑنا ناممکن تھا بس وہ کبھی کبھار انہیں ٹارچر سیلوں میں مارے جاتے تو ان کی لاش مسخ کرکے پھینک دیتے جو بہت کم پہچان میں ہوتی تھی۔
سوئم : جہاں عورتوں کا ٹارچر سیل تھا انہیں برہنہ کرکے مرد ٹارچر کرتے تھے کبھی ان سے سوالوں کے جواب کے بعد اگر وہ سہی جواب نہ دیتے تو انہیں کے سامنے ان کے بچے کو مارا جاتا یا اس کی عزت نفس کو مجروح کرتے تاکہ وہ کچھ بول سکے۔
چہارم : جہاں ایسے مجرم تھے جن کو کئی سالوں سے رکھا ہوتا ہے جو کبھی بھی کسی وقت کسی جھوٹے بہانے میں انہیں مارکر دہشتگردی کا دعوئ کرتے۔ مثلا کبھی پولیس والوں کو فیک انکاونٹر میں کوئی مارنا ہوتا تو اصل مجرم کی بجائے اسے مارکر دعوئ ڈکیتی یا مقابلے میں مارتے یا کبھی ریاست کو لگتا کہ اب زیادہ لوگ سوال کررہے تو ان میں سے چار کو چھوڑ کر دس اور لاپتہ کردیا جاتا تھا اور کبھی کبھار سی ٹی ڈی کا دعوئ کرکے ان کو مختلف تنظیموں سے جوڑ کر ماوں کے کلیجوں کو مسخ کیا جاتا تھا جن میں زیادہ تر نودربر تھے۔
اخری کیٹاگریز جن میں ایسے لوگوں کو رکھا جاتا تھا جن پر انہیں سد فیصد یقین تھا کہ ان کا کسی تنظیم سے واستہ ہے اور ان کی مخبری بعد از لاپتہ بھی کی جاتی تھی کالم سے، کسی سیاسی تنظیموں سے ، ان میں سے بہت کم کو چھوڑا جاتا تھا ان میں زیادہ تر طالبعلم ، بوڑھے، جوان، عورتیں اور بچے شامل تھے جن پر ہرطرح کا ٹارچر جائز تھا وہ اگر ٹارچر کے دوران مارے جاتے تو ان کا غصہ کم ہونے کے لیے ان کے جسم کے حصے مرنے کے بعد بیچتے تھے اور انہیں سے ان کو تسلی ملتی تھی۔
یہاں سے بات واضع ہوجاتی تھی کہ اخر اتنے سالوں سے لاپتہ افراد کی لاشوں کو پھینکنا، اور لاپتہ افراد کو رہا کرتے وقت عام عوام کو خبر کیوں نہیں ہوتی بوجہ کہ ان کی سارا کام رات کو کیا جاتا تھا ۔ یہاں ایسے لوگ بھی تھے جو دن کو دکانداری کرتے تھے اور رات کو انہیں شہر کے ٹارچرسیلوں میں لوگوں کو ٹارچر کرتے تھے۔ میرا اور بالاچ کو دوسرا دن تھا ان سیاہ زندانوں میں مگر اب تک نہ ہم نے پیشاپ کیا، نہ کچھ کھایا، نہ پیا اور نہ ہی دھوپ دیکھا۔ کچھ گھنٹوں بعد ایک بھوری وردی والا اکر میرا دروازہ کھولتا ہے اور گالی دے کر کہتا ہے "آجا تیرے پیو دا بلا وا ہگا”۔ وہی شخص جو میری انکھوں میں دوبارہ پٹی ڈال کر مجھے انٹیروگیشن روم میں لیے جاکر بیٹھا دیتا ہے اور خود ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے اتنے میں اور شخص کی اندر انی کی اواز اتی ہے تبھی میری انکھوں سے پٹی کھولی جاتی ہے کیا دیکھتا ہو سامنے ٹیبل پر کچھ کیل، ہتھوڑے، ڈرل اور کچھ اور اوزار بال اکھاڑنے اور ناخن نکالنے والے، کمرے میں کچھ لوہے ، رسیاں اور کرنٹ والٹیج موجود ہیں۔ جو شخص داخل ہوتا ہے اس کی وردی پر کچھ سٹار ہوتے ہے لمبا قد، بڑی مونچھیں، داڑھی شیف، اور منہ میں سگار تھا جو جیسے اندر اتا ہے تو ساتھ کھڑے شخص سے کہتا ہے اس کو میرے بارے میں کچھ بتایا تم نے۔ ساتھ کھڑا شخص کہتا ہے جو بھی بات جانتے ہو اسے بتادو ورنہ یہ وہ حال کریں گا جو اج تک اپ نے کسی کا نہیں دیکھا ۔ افیسر جس کے وردی پر ناصر راجپوت تھا۔ وہ اکر پہلا سوال کرتا ہے۔ نام بتاو
چاکر بلوچ
کہاں سے ہو ؟
آپ نے اٹھایا ہے تو اپ کو پتہ ہوگا پورا پتہ؟
اتنے میں آفیسر کہتا ہے جتنا پوچھا اتنا جواب دو زیادہ بکواس مت کرو مادرچود۔۔۔۔؟
پھر سوال کرتا ہے تم لوگ کیوں ایسے کام کرتے ہو جو ایسا وقت دیکھنا پڑ رہا ہیں۔
مجھے خود نہیں پتہ کس لیے مجھے اور میرے دوست کو لایا گیا۔ اتنے میں زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارتا ہے جتنا کہو اتنا بتاو زیادہ بک بک مت کرو۔ اب میں سمجھ گیا تھا کہ طاقت ور اپنی اصلی زبان پر اگیا ہے اب سچ اور جھوٹ کے بیچ صرف تشدد ہوگا بات نہیں۔ تم لوگ دہشتگرد ہو ،غدار ہو اس ملک کے خلاف بھونکتے ہو، جس کا کھاتے ہو اسی کو بھونکھتے ہو، اس ملک کے خلاف باہر سے مدد لے رہو ہیں۔ میں خاموش لب بس اس کی طرف دیکھتا رہا ۔ افیسر بولتا رہا گالیاں بکتا رہا، کبھی دل کرتا تو زور سے تپھڑ مارتا یا منہ پر پانی پھینکتا۔ حیرانگی اس بات سے تھی کہ قابض کو کیوں لگتا ہے وہ اتنا تہذیب یافتہ ہیں۔ افیسر مجھ سے پوچھتا ہے تمھیں کیا لگتا ہے مادرچود تم ہمارے خلاف جو بولتے ، لکھتے، کرتے ہو وہ ہمیں نہیں پتہ کیا ہم تمھاری ہرخبر رکھتے ہے۔ تمھیں جو فقیر، عورتیں ، پاگل لوگ، بچے جو بھیک مانگتے ہے، یا کئی دکاندار، ہوٹل والے جہاں اپ باتیں کرتے ہو ہر جگہ ہمارے لوگ موجود ہیں جن کی نظر اپ پر ہوتی ہیں۔ خیر میں بولا میرا قصور کیا ہے ؟ مجھے کیوں مار رہے ہو؟ اس بات سے افسر اگ بگولہ ہوگیا اپ بتاو اپ کا کس سیاسی و مسلح تنظیم سے تعلق ہیں ؟ ۔ تو میرا جواب نہیں میں تھا ۔ تو ساتھ کھڑے شخص سے کہتا ہے دو تین دن تک اسے سونے مت دینا، کھانے کو بھی، اور جب نیند سے تنگ ائے گا تو یہ لازم بڑ بڑائے گا، اگر پھر بھی یہ زیادہ تنگ کررہا ہو تو اس کی انکھوں میں لال مرچیں ڈال دینا مگر اسے سونے نہ دینا۔ مجھے دوبارہ گھسیٹتا لے جاکر میرے کمرے میں مجھے چھوڑا جاتا ہے تبھی وہی شخص مجھے کان میں اکر کہتا ہے سب کچھ سچ بتاو اپنی جان چھڑواو۔ جاو اچھی زندگی گزارو کیا رکھا ہے اس کام میں۔ میرا جواب وہی تھا کہ مجھے کچھ نہیں پتہ تو کیا بتاو تو اگے سے وہ منہ پر لات مار کر کہتا ہے "مرجا کتی دے بچے”۔
سیاہ زندانوں میں خوف بنا ہوا تھا جو ڈرتے تھے سب کچھ بتاتے تھے تب بھی انہیں کئی ماہ تک مارا جاتا تاکہ وہ ائندہ ایسا کام نہ کرسکے۔ روزانہ معمول کے مطابق دن میں دو مرتبہ ہر کھوٹھڑی میں جاکر بانس کی دو لکڑیاں لوگوں پر توڑی جاتی تاکہ چیخیں ساتھ والے سنیں اور سب کچھ سچ سچ بتادئے۔ خوف و ہراس کا ماحول تھا، کبھی ان قیدیوں سے کہا جاتا کہ اپ لوگوں جلد از جلد چھوڑا جائے گا مگر ان کو جاکر کسی اور چھاونی میں منتقل کیاجاتا تھا۔کس طرح کا خوف، کس طرح سچ، کس طرح کا بیان اور کیسی تنظیم جب ہو بھی کچھ نہیں تو کیا کہے ؟۔ میں نے زیادہ تر عورتوں کی چیخیں بھی سنی جو بار بار کہہ رہی تھی کہ مجھے چھوڑ دوں پلیز میرا ریپ مت کرو ، پلیز مجھے مارڈالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ وہاں کسی قیدی کے کمرے سے کوئی نوک تار چیز کبھی نہیں ملتی تاکہ وہ خودکشی کبھی نہ کرسکے۔ میں حیران تھا دنیا میں مارنے کے لیے صرف بندوق ہی اصل ہتھیار کیوں تھا تاکہ ازیت سے چھٹکارا مل سکے۔ ہر دس منٹ بعد دروازہ کھٹکٹاتے تھے تاکہ خوف زندہ رہے اور سو نہ سکے۔ پھر اس وقت میرے جانے کے بعد کہتا ہے جاو دوسرے کو لاو جو اس کے ساتھ لائے تھے۔ اب بالاچ کی باری تھی وہ جسامت سے بہت کمزور تھا اگر اسے زیادہ ٹارچر کیا تو وہ مر بھی سکتا ہیں۔ جب بالاچ کو بلانے جاتا ہے تو وہ اکر بالاچ بھوک و پیاس کی وجہ سے بے ہوش تھا اتنے میں کچھ لوگ نقاب پوش اکر پانی منہ پر ڈالتا ہے تبھی بالاچ کو اٹیروگیشن میں بلایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ مجھے دوبارہ بلایا جاتا ہیں۔ ہم دونوں کو ساتھ بیٹھایا جاتا ہے تو افیسر مجھے کہتا ہے کھانا نہ دینے کی وجہ سے بہوش ہوگیا تھا سچ بتاو ورنہ یہ مربھی سکتا ہیں۔ اتنے میں افیسر کہتا ہے نام بتاو ؟
بالاچ بلوچ
کون ؟
بالاچ بلوچ
پوچھا یہ غداروں کا نام کس نے رکھا ۔ بالاچ کہتا ہے میری ماں نے۔ اگے سے افیسر کہتا ہے تو تم سب غدار ہو ۔ اتنے میں بالاچ بس غصے سے افیسر کو دیکھتا ہے بس۔ کس مسلح تنظیم سے تعلق ہے دونوں کا ؟ ۔ بالاچ جو نیم بے ہوشی کی حالت میں بس سر ہلاتا ہے” نہیں "
تبھی افیسر زور سے بالاچ کی ناک پر مشت مارتا ہے بالاچ کے ناک سے خون بہنے لگتا ہے بالاچ پھر بےبہوش ہوجاتا ہے میں بنا کچھ کیے بس برداشت کرسکتا تھا۔ بس یہاں سے نکلو گا تو بہت کچھ کرونگا لیکن میں نے اب تک کچھ نہیں کیا۔ پھر بالاچ کو وہی چھوڑا جاتا بے مجھے کہتا ہے تم بتاو اسے تم کیسے جانتے ہو ۔ یونورسٹی میں دوستی ہوئی ہیں۔ اب تم بتاو کہ کس تنظیم کو سپورٹ کرتے ہو جلدی ورنہ تمھیں ازیت سے دوچار کیا جائے گا۔ سر میں کچھ نہیں جانتا ایسا جو اپ پوچھ رہے ہو۔ تبھی ساتھ کھڑے شخص سے کہتا ہے پلاس لاو اس کے ناخن نکالو۔ تبھی میری دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کے ناخن کو پلاس سے پکڑتا ہے کہتا ہے سچ بتاو۔ سر میں کچھ نہیں جانتا ؟ تبھی اتنی زور سے نکالتا ہے میری اتنی زور سے چیخ نکلتی ہے کہ جسم کانپنے لگتا ہے، سفید کپڑے خون سے تر ہو جاتے ہیں۔ پھر کہتا ہو بتاو اسطرح سب نکلیں گے اب میرے منہ سے الفاظ کی بجائے میرا سر نا میں ہل رہا تھا تبھی دوبارہ انگھوٹی کی ناخن کو نکالا جاتا ہے اور سبھی کو نکالا جاتا ہے دائیں ہاتھ کے۔ اب کپڑے خون سے تر تھے مگر جسم نیم سن تھا اب اگر گولی بھی لگتی تو شاید کچھ محسوس نہ ہوتا۔ناخن نکالنے کے بعد جسم میں سقت طاری ہوگئی تھی کہ درد کا احساس کیا ہے اج پتہ چلا۔ افیسر کہتا ہے اس کی دوسرا ہاتھ بھی لاو تو میں ہاتھ پہلے سے اگے رکھ دیتا ہو مجھے معلوم تھا جب انہوں نے ماننا کچھ نہیں ہے صرف تشدد کرنا ہے اور مجھے سہنا ہے اور ہمارا قصور تو تھا ہی نہیں ۔ اب کی بار دوبارہ بالاچ کو پکڑا جاتا ہے کہ تم بتاو دلے دلال کس تنظیم کو اسلحہ دیتے ہو ، کس کو خوراک پہنچاتے ہو، وہ رزاق تو تمھارے علاقے کا تھا اور شاید خاندان کا ہو۔ بالاچ بس دیکھ کر خاموش لب سن رہا تھا۔ ہمیں اتنا مارا گیا کہ بالاچ اور میرے کپڑوں میں خون کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ہماری انکھوں میں لال مرچیں ڈالیں گی، ہمیں کرنٹ دیا گیا بار بار جس سے بالاچ زہنی توازن کھو بیٹھا تھا۔ بالاچ کے بال سر سے بار بار اکھاڑے گئے شاید اس افسر کو بالاچ کے نام سے اتنی نفرت تھی بار بار تشدد بالاچ کو کرتا تھا۔ ہمارے سامنے ایک عورت جس کا ریپ کیا گیا توبہ مگر اس کے بچے کے سامنے شاید یہ ہمارے لیے سبق تھا کہ اپ کے ساتھ ہوسکتا ہے لیکن ہوا نہیں۔ ایسا بہت بار ہوا ہے صرف زندانوں میں عورتوں کے ساتھ ریپ نہیں بلکہ بچوں اور نوجوان لڑکوں کے ساتھ بھی کیا جاتا تھا۔ بالاچ زخموں کی تاب نہ لاسکا اتنا خون بہا کہ وہ بچ نہ سکا۔ اب مجھے دکھ اس بات کا تھا کہ مجھے کیوں زندہ چھوڑا گیا اور بالاچ کی ماں کو کیا جواب دونگا اور کیا اس سے انکھیں ملا پاونگا۔ بالاچ کی موت کے بعد تین دن تک بالاچ کی میت کو میرے کمرے میں رکھا گیا تاکہ میں موت سے عبرت حاصل کرو اور انہیں سب کچھ سچ بتاو لیکن اب مجھ میں بس ایک بات باقی تھی مارا جاونگا، اگر بات پتہ ہوتی تو کبھی نہیں بتاونگا۔ تین دن بعد بالاچ کی میت کو میرے کمرے سے اٹھایا گیا۔ کئی ماہ بعد مجھے ایک دن گاڑی میں ڈالتے ہے انکھوں میں سیاہ پٹی تھی اور ایک ویرانے میں رات کو اکر چھوڑ دیتے ہے مجھے کان میں کہا جاتا ہے کہ دس منٹ بعد پٹی اتارنا ورنہ گولی کھاو گئے لیکن گولی سے مجھے شاید میرے سوالوں کے جواب سے چھٹکارا ملتا کہ تیری دوست کی لاش ہے مگر تو زندہ ہیں۔ جسم میں اتنی سقت نہیں تھی کہ پٹی اتارو۔ درد کی وجہ سے ہڈیاں کڑ کڑا رہی تھی تبھی گھنٹے بعد ایک بوڑھا شخص اکر پٹی کھولتا ہے اور باقیوں کی طرف دوڑتا ہے شاید باقی زندہ ہو ۔ اب دور دور سے مائیں اپنے کلیجوں کی لاشیں اٹھانے ائی ہے ، بہنیں اپنی بھائی کے لیے، بیوی اپنی شوہر کے لیے برعکس اس کے میرے علاوہ 500 لاشیں پھینکی جاتی ہیں جن میں عورتیں ، بچے، بوڑھے اور زیادہ تر جوان تھے جو مسخ شدہ لاشیں تھی جو پہچان میں تب اتی جب ان کی جسامت کے حصے پورے ہوں۔ میں اس دکھ سے نکلتا دور اسے جنگل کی جانب روانا ہو کہ وہآں سے کبھی نہیں لوٹا۔
..ختم شد۔

بیورگ بزدار