رشید سندیلوی کی شاعری پر مختصر گفتگو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشید سندیلوی کی شاعری پر مختصر گفتگو
،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : رفیع رضا
چونکہ میری ناقدانہ تحاریر اصولی محاکمے کے تحت ھوتی ہیں اور ان میں تعمیری تنقید کا اصول اپنایا ہوتا ھے اور پاکستانی یا ھندوستانی نصاب کی درسی تنقید کے لنگ کو میں ساتھی تسلیم نہیں کرتا اس لئے بیشتر شُعرا میری شعری تنقید سے خائف رھتے ہیں۔اسی طرح میری شاعری سے خآئف رھنا بھی انکے لئے لازم ھوتا ہے کیونکہ انہیں اپنی کم مائیگی کا احساس ھونے لگتا ھے۔ جیسے نفسیات میں احساس برتری کی کوئی حیثیت اس لئے نہیں ھوتی کہ یہ برتری کا احساس احساسِ کمتری کا ردعمل ھوتا ھے۔تو کیا ایسا کہہ کہ کر میں خود بھی اسی تفخر کا شکار ہوں؟ اسکا حتمی شافی جواب یہ ہے کہ چونکہ میری تنقید سخت ہے تو میری اپنی شاعری کا معیار اس قابل ضرور ہے کہ اسے میں کہیں بھی پیش کرسکتا ہوں،یعنی جو میں کہتا ہوں وُہ کر کے دکھاتا ہوں، بس یہی فرق مجھے دوسروں سے مختلف رکھتا ھے۔اردو شاعری کے اتنے بڑے جہان میں چند شعرا کو اگر انفرادیت ملتی ہے تو وہ اھم شعرا کہلائیں گے۔اھم شعرا عظیم شعرا سے مختلف ھوتے ہیں، عظیم شعرا ایک رو یا لہر ایسی چلاتے ہیں کہ دوسرے شعرا اور سامعین اُس نہج کی شعوری یا لاشعوری تقلید کرنے لگتے ہیں۔ اھم شعرا ،،،عطیم شعرا کی طرح
Trend Setter۔۔
نہیں ھوتے لیکن اھم اسی لئے ھوتے ہیں کہ وہ دوسروں سے کچھ مختلف پیش کرتے ہیں۔۔میں مکمل تجربے اور تحقیق کی بنا پر کہ سکتا ہوں کہ شکیب جلالی ایک اھم شاعر تھا۔اور قدرے رجحان ساز بھی تھا۔مجید امجد اھم شاعر بھی تھا رجحان ساز بھی تھا۔تاھم غالب یا میر، فارسی کے بیدل، عرفی۔۔رُومی،،۔۔۔اردو کے ساحر، اقبال ، فیض، احمد ندیم قاسمی ، فراز،اھم کے درجے سے اوپر چلے گئے ہیں۔
اپنے انفراد کے باعث بعض پاکستانی شعرا کو اھمیت ملی بھی اور نہیں بھی ملی۔۔۔جیسے شکیب جلالی کو وہ اھمیت نہیں ملی جسکا اسے حق تھا۔اقبال ساجد کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ مجید امجد کو جدت کا بادشہ ماننا چاھئیے۔ لیکن عام قاری اسکو نہیں جانتا۔۔۔ تاھم اسکی شاعری کے چربے کو وصی شاہ نے پیش کردیا تو بہت تذکرہ رھا۔قارئین کی تربیت ھمیشہ بڑے اور اھم شاعر کرتے ہیں۔
اب تو گروہ بندی کا یہ حال ہے کہ مشینی کرافٹ کے شاعر عباس تابش کو اچھا یا اھم شاعر گنا جاتا ھے۔جو نہایت ھی افسوناک منافقت اور جھوٹ ہے۔رحمان فارس ، عباس تابش کی نسبت کہیں بہتر اور غنائی شعریت کا شاعر ہے اختر عثمان کو بہت دیر بعد پزیارائی مل رھی ہے وہ اعلی شاعر ہے۔فرحت عباس کو نظر انداز کیا گیا۔۔اب اسے سمجھا جا رہا ھے۔۔گروہ بندیوں اور دھڑے بندیوں کے باعث اچھے خاصے شعرا کو میڈیا پر ویسی اھمیت نہین دی جاتی جیسے دی جانی چاھئیے۔ ایسی پابندی کی زد میں رشید سندیلوی بھی آتے ہیں۔ انکی کتاب معمول کی کاپی مجھے موصول ھوئی ہے۔۔۔جس پر کچھ تعارفی باتیں کرنا چاھتا ہوں۔، ھوسکتا ہے میرے تبصرے سے موصوف زیادہ خوش نہ ہوں لیکن میں اپنے اصول پر قائم ہوں اور پوری دیانت داری سے تنقید لکھتا ہوں۔اس میں میری ذاتی پسند یا ذاتی تعلق کا کوئی دخل نہیں ھوتا۔
یہ بات یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔ کہ جیسے عربی شاعری کے قصص میں بیان ہوا ہے کہ
عصر جاہلی میں اس کا م کے لئے سوق عکاظ میں باضابطہ سرخ رنگ کاخیمہ نصب ہوتا، نابغہ ذبیانی فیصل ہوتا، شعراء آتے اور اپنا کلام سنا جاتے، نابغہ اس پر رائے زنی کرتا ، اور اپنا فیصلہ سناتا ، ایک بار اعشیٰ میمون اور حسان بن ثابت نے بھی اس خیمے میں اپنا کلام پیش کیا ، نابغہ نے اعشیٰ کے اشعار کو سراہا اور حسانؓ بن ثابت کے بارے میں کہا کہ اگر اعشیٰ کا کلام میرے سامنے نہ آتا تو میں تمہارے بارے میں جن وانس کے بڑے شاعر ہونے کا اعلان کرتا، حضرت حسانؓ کو غصہ آگیا اور فرمایا میں تم سے اور تمہارے باپ سے بڑا شاعر ہوں ، نابغہ نے کلام کی فنی خوبیوں اور خامیوں پر بات نہیں کی ، صرف اتنا کہا کہ تم اعشیٰ کے اس شعر کے مقابل شعر نہیں کہہ سکتے ۔
فاِنَّکَ کَاللیلِ المُذیِ ھُو مُدْرِکِی
واِنْ ظَنَنْتَ اَن المُتَنائی عَینُکَ وَاسع
اسی طرح ایک موقع سے امرؤ القیس اور علقمہ بن عبدہ دونوں بڑے شاعر ہونے کے دعوے دار تھے ،حَکم امرؤ القیس کی بیوی ام جندب کو بنایا گیا ، ام جندب کی تجویز پر دونوں نے گھوڑے کی تعریف میں قصیدہ کہا۔
امرؤ القیس کے قصیدہ کا مطلع تھا ۔
خَلِیْلِی مَرابی علیٰ اُمّ جُنْدُبِ
نَقْضِی لِبانات الفُوأدِ المُعَذّبِ
علقمہ بن عبدہ التمیمی نے اسی قافیہ وردیف میں قصیدہ کہا ، جس کا مطلع تھا:
ذَھَبْتُ مِنَ الھِجْرَانِ فِی غَیْرِ مَذْھبِ
وَلَمْ یَکُ حَقاً کُلَّ ھٰذا التجّنبِ
ام جندب نے فیصلہ دیا کہ علقمہ بڑا شاعر ہے ، اس لیے کہ امرؤ القیس گھوڑے کو مارمار کر بھگاتا ہے اور علقمہ کی فکر میں گھوڑا ہوا کی طرح بھاگتا ہے۔ ام جندب نے جس شعرکی بنیاد پر علقمہ کو بڑا کہا وہ درج ذیل ہے۔
فِلِسوطِ الھوب وللسَاقِ دُرَّۃُ
ولِلزجر منہ وقعُ اخرج مِنعَبِ
فاَدْرَکَھُنَّ ثَانِیاً مِن عِنانِہِ
یَمُرّ کَمُرّ الرائحِ المُتَحَلِّبِ
ظاہر ہے یہ تنقید فنی نہیں تھی، فکری تھی۔
میرا تنقیدی مزاج فکری ، فنی، دونوں پر استوار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشید سندیلوی کی شاعری میں ابلاغ کی شدت کی کوشش نظر آتی ہے وہ کرافٹ کی طرف دھیان کم دیتے ہیں۔
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ شاعری کو کُل فنون لطیفہ میں اسی لئے برتری حاصل ہے کہ شعر کی تاثیر سے جو وجد آفرینی قاری پر اثر کرتی ہے اور حیرت، شدت، غمی ، خوشی، جوش کے جزبات کو ایسے بھڑکانے پر قادر ھوتی ہے کہ کوئی اور فنِ لطیفہ ایسا اثر اتنی دیر تک نہیں رکھتا ۔
رشید سندیلوی کا شعر ہے
مَیں نے پوچھا کہ یہ فنا کیا ہے
زرد پتّے زمیں پہ گِرنے لگے
۔۔
اب اس اکیلے شعر پر سینکڑوں شعرا کے ھزاروں دیوان قربان کئے جا سکتے ہیں۔
دیکھیں۔۔۔اس مندرجہ بالا شعر کے خالق ھونے کے ناطے رشید سندیلوی میر تقی میر کے ھمنشیں معلوم ھونے لگتے ہیں۔کیونکہ میر تقی کہتا ھے
کہا میں نے گل کا ہے کتنا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح ایک اور شعر میں کہتے ہیں
علم کی معتبر دلیلوں سے
مجھ کو میرے خلاف اُس نے کیا
۔۔۔۔
رشید سندیلوی اپنی حسّاس طبیعت کے باعث شعر کے خیال کو اھمیت دیتے ہیں اسکی کرافٹ اور بنت پر پوری توجہ نہیں دیتے،،لیکن میں سمجھتا ہوں شعر پہلے بیرونی یا جمالیاتی طور پر شعر ھوتا ھے۔فکری سطح تو بعد میں کُھلتی ہے۔انکا یہ شعر دیکھیں۔۔
قطع کر لیتے ہیں بیماروں سے رشتے سارے
پیڑ بوڑھا ہو تو آرا سا چلا دیتے ہیں
،،،
پہلے مصرعے میں لفظ سارے کا مفہوم کھولتے ہیں۔ وہ شاید کہنا چاھتے ہیں۔ کہ بیماروں سے سب لوگ رشتے توڑ لیتے ہیں۔ یعنی ۔۔۔سارے سے مراد سب لوگ ہے۔۔۔تاھم پہلی پڑھ میں لگتا ھے۔۔ جیسے کہہ رھے ہوں ۔۔۔بیماروں سے سارے رشتے۔۔یعین تمام رشتے ختم کر لئے جاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے مصرعے میں آرا چلانا تو درست تھا مگر آرا۔۔سا۔۔۔ چلانا نہیں جچتا۔ظاھر ہے پیڑ پر آرہ ہی چلاتے ہیں۔ وزن پورا کرنے کی بجائے کرافٹ کو دیکھنا چاھئیے ۔فکری سطح پر مگر انکا شعر انکی حساس طبعیت اور مشاھدے کو پیش کرنے میں کامیاب ہے۔
انکی طبیعت کی حساسیت اور اطمینان کا مظہر ایک شعر ہے کہ
لبریز ہوں درویش کے سینے کی طرح
اس شب کے اجالے میں ترا ساتھ بہت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکی پہلی کتاب کا نام "حیرت” ہے۔۔اطلاعاً بتا دوں کہ لاھور کے شاعر جو چنیوٹ سے تعلق رکھتے ہیں ناصر علی، انکا پہلا مجموعہ کلام بھی حیرت کے انم سے کئی سال پہلے چھپ چکا ہے۔
رشید سندیلوی کے مزید اشعار دیکھیں
کسی بھی بات پہ میں نے زباں نہیں کھولی
اسی سکوت سے پھیلیں گے میرے افسانے
جہاں غبار میں تم مجھ کو چھوڑ آۓ تھے
اسی غبار میں میری لحد تلاش کرو
اس کے پیغام مجھے دل سے ملا کرتے تھے
اس کا مکتوب تو موصول نہیں ہوتا تھا
جب کناروں کی طلب دل میں سما جاتی ہے
پھر سمندر کا تو موسم نہیں دیکھا جاتا
،،،،،،،،،،،
اس مجموعہ کلام "معمول” سے پہلے انکی کتاب "حیرت” کے یہ اشعار بھی قابل ذکر ہیں
کون دیتا ہے یہ دستک مرے دروازے پر
کون مرقد پہ چراغوں کو جلاتا ہے میاں
دن تو کاموں میں کسی طور گزر جاتا ہے
رات ڈھلتی ہے تو اک خوف سا آتا ہے میاں
________________________
ہم جنھیں جھک کے ملا کرتے تھے
ان کو اپنی ہی انا نے مارا
_____________________
سورج بجھا تو یار سبھی گھر کو چل دیے
ایسے میں اک چراغ جلانا پڑا مجھے
______________________
ممکن نہیں دوا ہو کوئی جنون کی
بڑھ جاتا ہے خلل سا اکثر بہار میں
______________________
ایک منظر میں کئ روپ نظر آتے ہیں
کبھی وحدت کبھی کثرت میں پڑا رہتا ہوں
______________________
وقت زنجیر ڈال دیتا ہے
آدمی بے وفا نہیں ہوتا
______________________
زیست گزری نہیں گزاری ہے
لمحہ لمحہ یہ مجھ پہ بھاری ہے
__________________
جزو باقی بھی ضروری ہیں مگر
غم کی شدت میں غزل ہوتی ہے
____________________
میرے تنکے سنبھالنے والے
کون دیکھے گا میرا شیرازہ
__________________
،،
زیر نظر مجمعے "معمول: کی جانب دوبارہ آنے سے پہلے یہ بتانا ھی اھم ہے کہ انہوں نے شاعری شاید کچھ ھی برس پہلے شروع کی ہے۔اتنے کم عرصے میں بہت سے اعلی شعر کہہ لینا بہت قابل تعریف ہے۔کیونکہ میں بیسیوں بدقسمت شعرا کو جانتا ہوں جو دھائیوں سے لکھ رھے ہیں اور کئی کئی مجموعے چھپوا چکے ہیں مگر انکے پاس ایک بھی شعر ایسا نہیں جسکو دوبارہ دھرا کر کوئی شعری لطف ھی حاصل ھوتا۔میں کبھی سوچتا ہوں بیچارے بہت ہی بدقسمت شعرا ہیں۔۔ مثلاً کامی شاہ۔۔۔ منیف اشعر۔۔۔۔تسلیم الہی زلفی۔۔۔سعود عثمانی ۔۔احمد رضا راجہ وغیرہ کے پاس ایک بھی اعلی شعر نہیں ہے۔اگر کوئی خیال یا مصرع ھے بھی تو نقالی جگالی ہے اور بس۔ پس ایسے میں رشید سندیلوی سے آئیندہ کی شاعری میں مزید توجہ اور کرافٹ کی مضبوطی کی توقع بہت ہی ضروری ہے۔
انکی شاعری میں دوسروں کی جگالی کا شائبہ نہیں نظر آتا جو خوش آئیند بات ہے۔ وہ اپنا خیال رکھتے اور اپنی بنت رکھتے ہیں۔۔انہیں چاھئیے کہ وہ تہداری فطری بہاؤ کو ملحوظ رکھیں۔۔جیسے انگریز شاعر ملٹن سے جُڑا یہ بیان مشہور ہے کہ آمد و آورد کا فرق کچے انگور کا رس زبردستی نکالنے یا پکے ھوئے انگور کے رس کے خود نکلنے کا فرق ملحوظ رکھا جاوے/
اسی سلسلے میں خود رشید سندیلوی صاحب کا شعر پیش کرتا ہوں
مرے وجود کے چہرے پہ اس کی آنکھیں تھیں
جہاں بھی جاتا تھا میں اس کی نظر میں رہتا تھا
بات کرتے ہوئے تعزیر کی شق لگتی تھی
شعر لکھتا تھا جو مقبول نہیں ہوتا تھا
وہ موسی اور فرعون کے قصے یا افسانے سے متلعق۔۔تلمیح کو ایسے استعمال کرتے ہیں کہ تلمیح کے الفاظ کو استعمال ہی نہیں کرتے۔۔بلکہ منظر نامہ تشکیل دیتے ہیں۔
اتنے مجبور ہیں افلاس میں جکڑے ہوئے ہم
اپنے بچوں کو بھی دریا میں بہا دیتے ہیں
چونکہ وہ کچھ برس پہلے سے شاعری میں وارد ھوئے ہیں اس لئے اپنا مقام طے کرنے کو ابھی وہ کلاسیکی روایات کی پاسداری کرتے ہیں۔۔
شجر کی شاخ پہ کوئی بھی آج پھول نہیں
خزاں کی رُت میں عبث ہم نے باغبانی کی
ایک بات جو خاصی اھم ہے کہ انکی شاعری میں کلاسیکی جگالی کی یبونت نہیں ہے ۔ثقیل تراکیب سے ابھی تک انہوں نے کنارہ ہی کیا ہے۔جو اچھی بات ہے۔
،،،
اب آتے ہیں شاعری کے فکری اور فلسفیانہ پہلو کی طرف، تو اس جہت سے انکی شاعری انکی شخصیت پر پرتو معلوم ھوتی ہے۔
ھمارے ھاں ایک نہایت ھی غلط تصور رائج ہے کہ شاعر کی شخصیت کو اسکی شاعری سے منہا کر کے دیکھا جاتا ھے۔ جو مکمل طور پر غلط ہے۔جب آُپ کسی کے ایک دو اشعار دیکھتے ہین تو آپ کو شاعر کی شخصیت کو جاننا ضروری معلوم نہین ھوتا۔۔ شعر اگر بہت ہی گہرا تھا۔۔بہت ہی وجدانی تاثر دیتا تھا تو پھر قاری کوشش کرے گا کہ جانے کس کا شعر ہے۔۔ اگر مزید شاعری اسی شاعری کی ویسی پائی تو وہ اسکو پڑھنا چاھے گا۔ پس جب ھم کسی شاعر کی کُل شاعری یا کتاب کا جائزہ لیتے ہیں تو ھم اسکی شاعری سے اسکا ایک شخص تصور بھی لازمی بناتے ہیں۔۔۔ میری بعض اشعار پر میرے دوست یا ناقدین کہہ دیتے ہیں کہ یہ شعر آپ کی شخصیت اور آپکی شاعری کے معیار سے مختلف ہے۔ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ وہ میرے شعر کو کس دوسرے شاعر کے شعر کی طرھ پڑھ کر گزر نہیں جاتے؟ کیوں انکو بتانا پڑتا ھے کہ یہ شعر مختلف ھے؟ وہ اسی لئے کہ ھم مجموعی طور پر کسی کی شاعری کو دیکھتے ہوئے اسکی شخصیت کو اس میں سے برآمد کر لیتے ہیں۔۔مثلاً عباس تابش کی کُل شاعری میں سے ایک میکانکی ، مگر چالاک شخصیت کا پتہ چلتا ھے جو کرافٹ کی حد تک مہارت رکھتا ہے مگر لفظوں کے وجدانی تاثر اور محسوسات سے نابلد ہے۔حالنکہ وہ اردو کا پروفیسر ہے مگر اسکی شاعری میکانکی طور پر کرافٹ مین پکی پیڈی ہے لیکن جذباتی احساساتی سطح پر مہمیز انگیز نہیں ہے، وہ بنے بنائے ڈھانچے استعمال کرتا ھے اور داد طلب کرتا ھے جیسے
ایک مدت سے مری ماں نہین سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ھے۔۔
اس شعر میں کوئی دل پزیری نہیں ہے۔ ماں کے ذکر سے کچھ لوگ احساس کی سطح پر نرمی لائیں گے۔۔۔مگر شاعر کا بیان صرف ایک مشینی سا بیان ہے ایک اطلاع ہے جو پرکھیں تو مکمل جھوٹی ہے۔کیونکہ ھمارے کلچر میں کثیر بچوں کو ڈرا کا مائیں ہی سُلاتی ہیں کجا ماں ہی نہ سوئے۔ اور پھر ایک بار بچے کے کہنے پر ایک مدت تک نہ سوئے۔۔۔ میں چاھتا ہوں پاکستانی سکولوں میں عباس تابش کا یہ شعر ناکام ترین میکانکی بیانئیے کی مثال کے طور پر پیش کیا جائے۔،،
رشید سندیلوی اسکے برعکس نئے شاعر ھونے کے باوجود نئے معلوم نہیں ھو رھے۔ وہ کہتے ہیں
جب کناروں کی طلب دل میں سما جاتی ہے
پھر سمندر کا تو موسم نہیں دیکھا جاتا
وقت ڈھلتا ھے تو حالات بدل جاتے ہیں
شہر کے ساتھ مضافات بدل جاتے ہیں
۔۔
اس مطلع پر غور کریں۔۔۔ دیکھا تو آپ نے بھی یہ منظر لیکن آپ نے یہ کبھی بیان نہیں کیا۔۔یہی بات ایک اچھے شاعر کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔

اسی غزل کا ایک اور شعر ہے
ھم نے بھی سمجھا تھا رشتوں کو مقدس لیکن
دل بدلتا ھے تو جزبات بدل جاتے ہیں۔۔۔
انکا ایک شعر پہلے لکھا تھا جس میں رشتوں کا ذکر تھا جس میں سارے کے لفظ کے استعمال پر میں نے تحفظات پیش کئے تھے۔۔
لگتا ھے۔۔ان دونوں اشعار کا منبع انکی زاتی تجربہ بھی ہے۔کیونکہ وہ کورانا کی وبا میں بیمار بھی رھے تھے۔۔شاید اس دوران انہیں رشتے داروں یا دوستوں کی مدد جیسی وہ چاھتے تھے میسر نہ آئی جسکو محسوس کر کے انہوں نے یہ اشعار لکھے ہیں۔
یاد رکھیں اعلی ترین شاعری کسی شاعر کے ذاتی اور اجتماعی تجربے سے جُڑ کر ہی ھوتی ہے۔ جان کیٹس کی اعلی ترین نظم اسکی بیماری کا حاصل ہے۔سارا شگفتہ کی تہدار علامتی شاعری اسکے بیماری یاسیت غربت کا نہایت زوردار بیان ہے۔
انکے داخلی تجربات کی مثال انکی ایک غزل ہے شاید انکی والدہ کی رحلت پر لکھی گئی ہے
زندگی میں کمی سی رہتی ہے
دل میں اک بے کلی سی رہتی ہے
ترے دم سے ہی ساری رونق تھی
اب تو سنساں گلی سی رہتی ہے
دل بھی اکثر اداس رہتا ہے
آنکھ میں بھی نمی سی رہتی ہے
تری تربت پہ سرخ پھولوں کی
ایک چادر تنی سی رہتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان امثال سے ثابت ھوتا ہے کہ آپ کسی کی کُل شاعری پر بات کرتے ہوئے شاعر کی شخصیت کو منہا نہیں کر سکتے۔۔یہ غلط رجحان درست کرنے کی ضرورت ہے۔
آئیندہ وقت ملا تو انکے اشعار پر مزید بات بھی کرونگا ۔۔
انکے کچھ اشعار دیکھیں
اپنی اپنی انا کی دنیا ہے
آگ پانی ھوا کی دنیا ہے
جسطرف دیکھو اک تحیّر ہے
کیسی کیسی خدا کی دنیا ہے
ماورا ہے وہ ھر تصور سے
حیرت و انتہا کی دنیا ہے
غور کریں ایک ھی غزل کے دو اشعار میں حیرت اور تحیر انکے مضامین ہیں۔۔
میں نے بھی کیا کسی سے نبھانی ہے دوستی
میں اب تو خاک کے بھی برابر نہیں رھا
اسکی باتوں سے مجھ کو لگتا ھے
میرے دل میں شگاف اس نے کیا
علم کی معتبر دلیلوں سے
مجھ کو میرے خلاف اس نے کیا
میں سمجھتا تھا سب ہی اچھا ھے
زخم کا انکشاف اُس نے کیا
اُس سمے ہی خزان نے دستک دی
جب شجر برگ و بار میں گُم تھا
بھول بیٹھا تھا اپنے ھونے کو
ایسا اسکے خمار مین گُم تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جتنی شاعری انکی مین پڑھ چکا ہوں اس کے بارے ایک ہی فقرے میں کہوں گا کہ برے شاعر نہیں ہیں کہ مایوس ہی کرتے جائیں۔ انکے شعروں میں کہیں نا کہیں کسی بھی قاری کو اپنا تجربہ نظر آئے گا جو وجدانی سطح پر اثر پزیری کرے گا اور کسی بھی شاعر کے لئے یہی اعزاز کی بات ہے۔
رشید سندیلوی صاحب کو چاھئیے کہ آئیندہ وہ اپنی شاعری میں تھوڑی سی تہداری بھی لائیں۔ احساس و تجربے کی گہرائی انکے ھاں پہلے سے موجود ہے۔جو بری اھم بات ہے۔ذاتی طور پر میں ایہام کو بھی اعلی ترین شاعری کا عنصر سمجھتا ہوں لیکن ھر طبیعت کو اس پر مائل نہیں کیا جاسکتا ۔۔
ایہام کی بدولت جان کیٹس کی نظم لا بیل دیم سینس میرسی کے کئی قطعات کے تین تین معانی نقادین نے بیان کئے ہیں جو ایہام و تہداری کی بدولت ممکن ھوا ھے۔
اپنی شاعری میں رشید سندیلوی کسی ایک شاعر سے متاثر نہیں لگتے کہ کسی کی چھاپ ان پر لگ جاوے جو نہایت خوش آئیند بات ہے۔
انکے مزید اشعار دیکھئے۔۔
سات رنگوں کا توازن دیکھو
حُسنِ فطرت میں غزل ہو تی ہے
ایسا لکھا گیا ہوں پیچیدہ
میں خلاصہ نہیں ہو نے والا
لب ہلاۓ نہ استخارہ کیا
اولیں عشق پر گزارہ کیا
لاکھ ہوں قربتیں مگر پھر بھی
واہمے مختصر نہیں ہوتے
میرے وجود کے چہرے پہ اس کی آنکھیں تھیں
جہاں بھی جاتا تھا میں اس کی نظر میں رہتا تھا
ہمارے اشک نہیں یہ فلک کے تارے ہیں
ہمارے لفظ نہیں ہم سخن تراشتے ہیں
علم کی معتبر دلیلوں سے
مجھ کو میرے خلاف اس نے کیا
ہر نئے موڑ پر تعمیر بدل جاتی تھی
ہم نے سو بار تیرے شہر کے نقشے دیکھے
اس طرح اختتام ہو میرا
عشق میں انہدام ہو میرا
یہ کیا ہے کہ گم شدہ ہوں میں
تذکرہ صبح و شام ہو میرا
آپ کا حسن جاوداں ٹھہرے
اور دکھ میں دوام ہو میرا
کتنا عرصہ اداس گزرا ہے
ابر آئے نہ کام ہو میرا
جا کے دیکھیں کہاں ٹھہرتا ہے
خواب بھی تیز گام ہو میرا
حوصلہ جب کسی سالار کا مر جاتا ہے
لشکری ہاتھ سے تلوار گرا دیتے ہیں
مرے زخموں کا ازالہ نہیں ہونے والا
اب چراغوں سے اجالا نہیں ہونے والا
میرا شیرازہ کسی وقت بکھر سکتا ہے
میں ترے پاس تو جانے کے لئے آیا ہوں
اپنی خوشبو اٹھا کے لے جاؤ
رنگ سارے چرا کے لے جاؤ
پھنس گیا ہوں میں ریگ زاروں میں
مجھ کو اونچا اڑا کے لے جاؤ
اپنی تلوار پھینک بیٹھا ہوں
مجھ کو قیدی بنا کے لے جاؤ
سر کے کٹنے کا ڈر نہیں کوئی
جب بھی چاہو بلا کے لے جاؤ
میں کھڑا ہوں تمہارے رستے میں
رخ سے پردہ ہٹا کے لے جاؤ
کون دیتا ہے یہ دستک مرے دروازے پر
کون مرقد پہ چراغوں کو جلاتا ہے میاں
دن تو کاموں میں کسی طور گزر جاتا ہے
رات ڈھلتی ہے تو اک خوف سا آتا ہے میاں
________________________
ہم جنھیں جھک کے ملا کرتے تھے
ان کو اپنی ہی انا نے مارا
_____________________
سورج بجھا تو یار سبھی گھر کو چل دیے
ایسے میں اک چراغ جلانا پڑا مجھے
______________________
ممکن نہیں دوا ہو کوئی جنون کی
بڑھ جاتا ہے خلل سا اکثر بہار میں
______________________
ایک منظر میں کئ روپ نظر آتے ہیں
کبھی وحدت کبھی کثرت میں پڑا رہتا ہوں
______________________
وقت زنجیر ڈال دیتا ہے
آدمی بے وفا نہیں ہوتا
______________________
زیست گزری نہیں گزاری ہے
لمحہ لمحہ یہ مجھ پہ بھاری ہے
__________________
جزو باقی بھی ضروری ہیں مگر
غم کی شدت میں غزل ہوتی ہے
____________________
میرے تنکے سنبھالنے والے
کون دیکھے گا میرا شیرازہ
__________________
وہ ایسا شہر تھا جس میں نہیں تھے ہم سائے
میں ایک دشت کے اندر کھنڈر میں رہتا تھا
کوئی آرزو نہیں ہے تجھے دیکھنے کے بعد
بڑی زندگی حسیں ہے تجھے دیکھنے کے بعد
اس طرح اختتام ہو میرا
عشق میں انہدام ہو میرا
یہ کیا ہے کہ گم شدہ ہوں میں
تذکرہ صبح و شام ہو میرا
آپ کا حسن جاوداں ٹھہرے
اور دکھ میں دوام ہو میرا
کتنا عرصہ اداس گزرا ہے
ابر آئے نہ کام ہو میرا
جا کے دیکھیں کہاں ٹھہرتا ہے
خواب بھی تیز گام ہو میرا
دشت میں سر پہ کڑا سورج ہے
اپنی قامت سے بڑا سورج ہے
کٹ گئے جنگ میں لڑتے ہوئے بازو میرے
شدتِ درد سے نکلے نہیں آنسو میرے
جب ترے عشق میں مشغول نہیں ہوتا تھا
اس قدر درد کا معمول نہیں ہوتا تھا
میں نے پوچھا کہ یہ فنا کیا ہے
زرد پتے زمیں پہ گرنے لگے
ایک شیشہ تھا اس کو توڑ گئے
میرے احباب مجھ کو چھوڑ گئے
جانے کیا سوچ کے بندوق اٹھا لی میں نے
لوگ تو اور بھی لاچار نظر آتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا
کینیڈا
2024۔۔۔مئی 4

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.