باقیات شعری کا انتخاب
اقبال نے اسے ردّ کر دیا تھا ۔ تاہم اقبال کے فکری اور فنّی ارتقا کی مختلف کڑیوں کو ملانے کے لیے اس کلام سے استفادہ ناگزیر ہے۔
اس کے باوجود راقم الحروف کا خیال ہے کہ اگر ماہرین اقبالیات کا ایک بورڈ اس مقصد کے لیے تشکیل دیا جائے تو باقیات کے اس ذخیرے سے ایساکلام منتخب کیا جا سکتا ہے جو فکری اور فنی دونوں پہلوئوں سے اقبال کے متداول کلام کے ہم پلہ ہو ۔ ذیل میں ہم محض نمونے کے طور پر ایسے اشعار کا انتخاب پیش کر رہے ہیں جو کسی لحاظ سے اقبال کے معروف کلام سے کم نہیں ہے۔
ہر گھڑی اے دل نہ یوں اشکوں کا دریا چاہیے
داستاں جیسی ہو ویسا سننے والا چاہیے
٭٭٭
آج ہم حالِ دلِ درد آشنا کہنے کو ہیں
اس بھری محفل میں اپنا ماجرا کہنے کو ہیں
٭٭٭
ہم جو خاموش تھے اب تک تو ادب مانع تھا
ورنہ آتا تھا ہمیں حرفِ تمنّا کہنا
٭٭٭
ہوں کبھی اس شاخ پر میں اور کبھی اُس شاخ پر
ناک میں آخر کو دم آیا مرے صیّاد کا
٭٭٭
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
٭٭٭
حسرت نہیں کسی کی تمنّا نہیں ہوں میں
مجھ کو نکالیے گا ذرا دیکھ بھال کے
٭٭٭
ہائے کس ناز سے آیا ہے خیالِ جاناں
چمنِ دل میں مرے بادِ بہاری آئی
٭٭٭
ذکر کچھ آپ کا بھی ہے ان میں
قبر میں جو سوال ہوتے ہیں
٭٭٭
تڑپ کے شانِ کریمی نے لے لیا بوسہ
کہا جو سر کو جھکا کر گناہ گار ہوں میں
٭٭٭
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
٭٭٭
میں نخل ہوں وفا کا محبت ہے پھل مرا
اس قول پر ہے شاہدِ عادل عمل مرا
٭٭٭
ہے خبر تاروں میں لیکن آمدِ خورشید کی
ظلمتِ شب میں نظر آئی کرن امید کی
٭٭٭
فضا اک اور ہی عالم کی ہوگی سامنے میرے
مگر ڈر ہے کہ یہ بھی پردئہ محمل نہ بن جائے
٭٭٭
نظر آئی نہ مجھ کو بو علی سینا کے دفتر میں
وہ حکمت جو کبوتر کو کرے شاہیں سے بے پروا
٭٭٭
علم کے زخم خوردہ کو علم سے، بے نیاز کر
عقل کو مے گسار کر ، عشق کو نے نواز کر
صورتِ ریگ بادیہ مرے غموں کا کیا حساب
درد کی داستان نہ پوچھ دستِ کرم دراز کر
٭٭٭
شہید جستجو ہے فکرِ انساں بزم ہستی میں
یہ کس الجھی ہوئی گتھی کے سلجھانے کی باتیں ہیں
٭٭٭
ہے سوئے منزل رواں ہونے کو اپنا کارواں
ہم صریرِ خامہ کو بانگِ درا کہنے کو ہیں
۔۔
۔۔۔
متداول کلام کی بہتر تفہیم
باقیاتِ شعر اقبال کا مطالعہ اقبال کے متداول کلام کی تفہیم میں بھی خاصا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ مثلاً اقبال کے متداول کلیات کے صفحہ ۴۹۰ پر ایک نظم ’جہاد‘ موجود ہے ۔ اس کا ابتدائی عنوان ’’بہااللہ‘‘ تھا ۔ آخری شعر میں اقبال نے ’’بہااللہ‘‘ کے حوالے سے بھی ایک شعر شامل کیا تھا جو یہ تھا :
میں تو بہا کی نکتہ رسی کا ہوں معترف
جس نے کہا فرنگ سے ترکِ جہاد کر
۔۔۔۔۔ۃیہی کام مرزا غلام احمد نے کیا تھا۔۔۔
۔۔۔
اقبال کے متروک کلام سے اقبال پر دیگر شعرا کے اثرات کا بھی صحیح تناظر میں جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ مثلاً علامہ کی ابتدائی غزلوں میں داغ ، امیر اور دیگر ہم عصر شعرا کے اثرات موجود ہیں ۔ غالب اور داغ کے اثرات کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے۔
غالب کا اثر
لکھتا ہوں شعر دیدئہ خوں بار سے مگر
کاغذ کو رشکِ بابِ گلستاں کیے ہوئے
بوتے ہیں نخل آہ کو باغِ جہان میں
ممنونِ آب دیدئہ گریاں کیے ہوئے
(اشک خون)
داغ کا اثر
یہ جوانی کے ولولے اے دل
دو گھڑی کے اُبال ہوتے ہیں
ذکر کچھ آپ کا بھی ہے ان میں
قبر میں جو سوال ہوتے ہیں
’اکبری‘ رنگ کے متعدد قطعات ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل نہیں ہو سکے ۔ اکبر کے اثرات کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے باقیات کا مطالعہ ناگزیر ہے۔
تفضیل علیؓ کے اشعار
حضرت علیؓ سے علامہ کی بے پناہ عقیدت کا اظہار جتنا متروک کلام سے ہوتا ہے اتنا مدون کلام سے نہیں ہوتا ،شاید اسی بنا پر ایک زمانے میں علامہ کو تشیع سے منسوب کیا گیا ۔ ممکن ہے یہی پہلو ان اشعار کو ترک کرنے کا سبب بنا ہو۔ کہتے ہیں :۔
ہمیشہ وردِ زباں ہے علیؓ کا نام اقبال
کہ پیاس رُوح کی بجھتی ہے اس نگینے سے
پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال
یہ گنہ گار بوترابی ہے
اقبال کی فرضی نام سے لکھی گئی نظمیں
باقیات شعر اقبال میں شامل بعض نظموں سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ علامہ نے فرضی نام (ایکس شاعر) سے بھی کچھ نظمیں لکھی تھیں۔ یہ نظمیں جن کا عمومی انداز طنزیہ اور مزاحیہ ہے اقبال کی اُس کشمکش کو ظاہر کرتی ہیں کہ ایک طرف تو وہ قائد اعظم کے حکم سے یونینسٹ پارٹی کو مسلم لیگ میں ضم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، دوسری طرف اس پارٹی کے بعض لیڈروں کی منافقت کا پردہ بھی چاک کرنا چاہتے ہیں۔ اقبال کی ان بارہ غیر مدوّن نظموںمیں اتحادیوں اور قادیانیوں پر جو چوٹیں کی گئی ہیں متداول کلام میں ان کا کوئی نمونہ موجود نہیں ۔
اقبال کی تاریخ گوئی
علامہ کے متداول کلام میں علامہ کی تاریخ گوئی کا کوئی نمونہ شامل نہیں کیا گیا ۔ علامہ کے ہاں یہ فن داغ اور معاصر شعرا کے مطالعے سے آیا ہے۔ وہ آخر وقت تک تاریخ گوئی نکالنے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ اقبال نے دوسرے شعرا کی تخلیقات کے نئے اور خوبصورت تراجم بھی کیے ہیں۔ جن سے بعض انگریزی شعرا سے اقبال کی اثر پذیری کا اندازہ ہوتا ہے۔ ترجمہ کے فن میں ان کی مہارت کا ثبوت ان کی یہی نظمیں ہیں ۔ علامہ کبھی اصل خیال پر اضافہ کرتے ہیں اور یوں ان کے ہاں ترجمہ تخلیق کا درجہ اختیار کرتا نظر آتا ہے۔
علامہ کی اصلاحات
اقبال کے ہاں کلام کو خوب سے خوب تر بنانے کا عمل لمحہ تخلیق سے مجموعے کی اشاعت تک جاری رہتا تھا ۔ مولانا مسعود عالم ندوی کے نام خط میں اگرچہ علامہ اپنے آپ کو فنِ اصلاح سے نابلد قرار دیتے ہیں۔ ۹ لیکن یہ محض ان کا انکسار ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ وہ اس فن کے تمام اسرار و رموز سے واقفیت رکھتے تھے ۔ ۱۹۱۷ء میں علامہ نے اورنگ زیب عالمگیرکی قبر کی زیارت کی اور ایک نظم لکھی اس نظم کا ایک مصرع یوں تھا ؎
ترکشِ مارا خدنگ آخریں
علامہ نے اس بے نظیر مصرعے کے بارے میں دین محمد مرحوم (سابق گورنر سندھ) سے کہا کہ انہوں نے اس مصرعے پر چالیس بار نظر ثانی کی تھی تب موجودہ صورت میں یہ مصرع سامنے آیا علامہ کی بیاضیں اور مسودات اس امر کے گواہ ہیں کہ ایک ایک مصرعے کو تین تین اور بعض اوقات چار چار دفعہ تبدیل کیا۔ اصلاحات کا یہ عمل اُس وقت بھی جاری رہتا تھا جب آپ مسودہ کاتب کے حوالے کر دیتے تھے۔ آج جو اشعار زبان زدِ خاص و عام ہیں، اس جگر کاوی کے نتیجے ہی میں انہوں نے موجودہ صورت اختیار کی ہے چند مثالیں ؎
سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
کا دوسرا مصرع ابتدا میں یوں تھا ؎
باقی ہیں کچھ آثار ملوکی کے مٹا دو
اسی طرح ؎
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
کا یہ شعر ابتدا میں یوں تھا لیکن وزن درست نہ ہونے کی وجہ سے اسے تبدیل کر دیا ؎
محبت مجھے آفریدیوں سے ہے
کہ ہے آسمان گیر ان کی کمند—