ایطائے خفی کی بابت پوچھا ہے۔
مختصر سمجھاتا ہوُں کہ ایطائے جلی اور ایطائے خفی کیا ہوتے ہیں؟
ایطا۔۔۔ کمزوری خامی غلطی ۔۔ناجائز کو کہتے ہیں۔۔ جلی کا مفہوم واضح اور بڑا اور سامنے کا۔۔۔ یا ظاھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ خفی کا مفہوم چُھپا ۔۔پوشیدہ ،،مستور۔۔۔ وغیرہ ہے۔۔
یہ عیوب کسی شعر کے قافئیے اور ردیف کے برتاؤ سے متعلق ہوتے ہیں
ایطائے جلی والی خامی شعر میں تب ھوتی ہے جب مثال کے طور پر کسی مطلع میں دھرانے والے الفاظ کو کاٹ کر ۔۔پیچھے والے قافئیے سے جُڑے لفظ کے معانی تو بالکل ہوں مگر ان میں صوتی یا لفظی قافیہ تک نہ ہو۔۔
مثلاً کسی مطلع کے دو مصرعوں کے آخری میں۔۔۔
درد مند آیا
حاجتمند آیا۔۔۔
اب مشترک الفاظ کو الگ کر کے قافیہ دیکھتے ہیں۔
درد۔۔۔۔
حاجت۔۔۔۔
اور مندآیا۔۔۔ردیف ہے۔۔
لیکن درد اور حاجت معانی رکھتے ہیں مگر ھم آواز اختتامیہ نہیں رکھتے ۔۔۔اس لئے ایسا شعر بالکل شعر نہیں کہلائے گا اور اسکی وجہ ایطائے جلی کی خامی ہے۔۔
مثلآ آئیے شعر بناتے ہیں۔
شاید کہ اب انسان جفا گر ہیں زیادہ
ہاں آپ مگر ان میں ستم گر ہیں زیادہ
بظاھر یہ ھم قافیہ و ھم ردیف لگتے مصرعے ہیں۔۔ مگر غور کریں تو۔۔۔
گر ہیں زیادہ۔۔۔ گر ہیں زیادہ سے پہلے کے الفاظ یہ ہیں۔۔
جفا۔۔
ستم۔۔۔
یہ دونوں الفاظ معانی رکھتے ہیں۔ مگر ھم قافیہ نہیں۔ اس لئے شعر ایطائے جلی کا شکار ہے اور شعر نہیں مانا جائے گا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروین شاکر کا شعر ہے
عکسِ خوشبو ہوں،بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بِکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
یہاں۔۔۔ روکے کوئی۔۔۔۔ سمیٹے کوئی ۔۔۔قافیہ اور ردیف ہیں۔
لیکن ردیف ۔۔کوئی۔۔۔۔ سے پہلے۔۔۔ نرو۔۔کے۔۔۔۔ ۔۔سمے ٹے۔۔۔ ہے۔۔۔ جو ایک جیسی آواز نہین رکھتے ۔۔۔۔یہ ایطائے جلی ہے۔۔
وصی شاہ کا شعر ہے۔۔
ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﺍُﺗﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻬﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺗﺮﯼ ﺁﻧﮑﻬﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮍﻫﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻬﯿﮓ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
یہان۔۔۔ اترتا۔۔۔ پڑھتا۔۔ قافئے ہیں جو ایطائے جلی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قوافی: اترتا، پڑھتا، لکھتا، سلگتا، لگتا، کرتا، پڑھتا، رکھتا، تکتا، گزرتا، ہنستا
ردیف: ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ان تمام میں کلمۂ آخر متحد المعنی ”تا“ ہے۔ چنانچہ بقیہ بچنے والے الفاظ ہیں:
لکھ، سلگ، لگ، کر، پڑھ، رکھ، تک، گزر، ہنس
مطلع سے دیکھیں، تو ”اتر، کر، گزر“ اور ”سلگ، لگ“ درست قوافی ہو سکتے تھے۔ چنانچہ اس غزل میں اگر ”اترتا، کرتا، گزرتا“ وغیرہ قوافی استعمال کیے جاتے تو غزل سے ایطا کا نقص دور ہوتا، اس صورت میں بقیہ تمام قوافی بے کار ٹھہرتے ہیں اور ان تمام اشعار کو دوسری کسی غزل میں جگہ دی جا سکتی ہے جن کے قوافی ان سے match ہوتے ہوں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ وصیؔ کے اس شعری مجموعے کا نام اسی غزل کی ردیف ”آنکھیں بھیگ جاتی ہیں“ ہے۔ یعنی یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ یہ اپنے کلام میں سے وصی شاہ کا ”انتخاب“ ہے۔
۔۔۔۔۔۔
اب ھم ایطائے خفی کی جانب چلتے ہیں
۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غالبؔ کا یہ شعر دیکھیں: اس میں ایطائے خفی پایا جاتا ہے۔
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
یعنی۔۔۔ ساں ہونا۔۔۔۔سے پہلے کے الفاظ (کا آ۔۔۔۔۔۔یِنس۔۔۔۔۔معانی نہیں رکھتے اس لئے ایطائے جلی نہیں بلکہ خفی ہے۔۔
غالب کا ایک شعر
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
قافیے۔۔ جگر، نوحہ گر: ہیں۔۔۔
یہاں حرفِ روی ”ر“ ہے۔ لیکن اس سے پہلے ”گ“ کی تکرار دونوں مصرع میں ہوئی ہے۔ چنانچہ قاری یہ توقع کرتا ہے کہ آگے بھی ہر قافیہ میں ”گر“ کی قید ہوگی۔ لیکن دیگر قوافی(گژر، کمر، گھر) اس پر پورے نہیں اترتے اور صرف روی ”ر“ کا خیال رکھتے ہیں۔ چنانچہ یہاں ایطاء خفی ہے
۔۔۔۔
اقبال کا مشہور مطلع ہے۔۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بُلبلیں ہیں اِسکی یہ گُلستاں ہمارا
اس میں ستاں ہمارا۔۔۔۔ دونوں مصرعوں میں ہے۔۔۔ لیکن اس سے پہلے۔۔۔۔۔۔۔واو۔۔۔۔ اور دوسرے مصرع میں۔۔۔ گُل ہے۔۔
میرا شعر ہے۔۔۔
حالانکہ نہیں ہے اُسے درکار محبت
کرتا ہی چلا جاتا ہُوں بیکار محبت۔۔
یہ بھی ایطائے خفی ہے۔۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ۔۔ بعض اوقات ایسے مطلع جات اس عیب کے ھونے سے حُسنِ مطلع بن جاتے ہیں۔۔ تبھی تو یہ مشہور مطلعے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا