فیض کےکلام میں کلاسیکی شاعری کی جگالی

فیض کے ہاں 90 فیصد شاعری محض پرانے شعرا کے برتے ھوئے انداز اور قرینے اور تراکیب و بندشوں سے بھرا پایا۔۔
یہ درست ھے کہ چند الفاظ انہوں نے تواتر سے استعمال کر کے کچھ انفراد بھی کیا۔۔ ورنہ انکی شاعری کی کشش انکا کلاسیکی تغزل ھے جو تاثیر لاتا ھے۔انکے خاص برتے الفاظ یہ ھیں
وفا
قفس
قاتل مقتول
جولاں
پا بہ جولاں
بازار
محبوب
ھجر
واعظ
محبت
پہلی سے محبت
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
تاھم یہ عجیب بات ھےکہ فیض کی مشہور ترین شاعری میں انکے ھم عصر یا گزشتہ شعرا کی باز گشت بہت بلند ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ر فیض کی نظم ’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘‘ڈنمارک کے معروف ترقی پسند شاعراوفی ہارڈر کی لائن ’’میٹھے خواب اوردوپہر کا اندھیرا‘‘کی یاد دلاتی ہے ۔۔۔۔سیاہ روشنی ، کالا سورج یا اندھیروں سے بھری ہوئی صبح کے استعارے فرانسیسی شاعری میں بہت زیادہ ملتے ہیں یہ تصور پہلی بار بائیبل کی Book of Revelation میں Apoclypseکی نمائندگی کرتے ہوئے نظرآتا ہے ، فرانسیسی شاعرNervalکے 1853میں لکھے گئے ایک سانیٹ EL DESDICHADOمیں پژمردگی کے کالے سورج کی علامت بہت مشہورہوئی۔
’’گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں ‘‘ پڑھ کرفیض کا ہم عصرنارویجن شاعر لارش سوبیئے کرسٹن سن یاد آجاتا ہے جس نے کہا تھا ’’دریچوں نے صلیبیں ہی صلیبیں تان رکھی ہیں ۔دریچے میں صلیبوں کو دیکھتے ہوئے جی کے چسٹرٹن بھی ذہن میں لہرا جاتا ہے جس نے کہا تھا
میرے باغ میں گاڑی ہوئی سولی
بہت ہی صاف ستھری اور نئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیض کی مشہور نظم۔۔۔۔رقیب سے۔۔۔کے بارے کہتے ھیں کہ جی دیکھو اردو میں نیا مضمون پیدا کر دیا رقیب سے محبت کی۔۔۔جبکہ یہ نہایت پرانا خیال ھے۔۔
شیخ فخر الدین عراقی کہتے ہیں ۔
عجب عشقے کہ درراہ طریقت
رقیبت شد عزیز ہمچو رفیقت
﴿عجیب عشق ہے کہ طریقت کے رستے میں تیرے رقیب بھی تجھے تیرے رفیق کی طرح عزیز ہوگئے ﴾۔یہ اور اس قسم کے بیسیوں اقوال نظم و نثر میں صو فیائ سے منقول ہیں ۔
مومن نے بھی کہا تھا
میں کوچہ ئ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
معروف شاعر Sir John Suckling کی نظم My dearest Rival, منظرِ عام پر آئی ۔ اِس نظم میں سر جان سکلِنگ اپنے رقیب سے مخاطب ہوکر اُسے غمِ الفت کے مشترکہ معاملات سمجھاتے ہوئے اپنی محبت کا رُخ جاودانیت کی طرف موڑنے کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے رقیب سے اپنے محبوب کے حسن و جمال کی مدح میں اپنے محبوب کی ساحرانہ آنکھیں ، ہونٹ ،ہاتھ، تصور اور کشِش کی یاد دلائی ہے بالکل اُسی طرح جیسے فیض نے اپنے رقیب سے مخاطب ہوکر کہا ہے
تونے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جِس کے تصور میں لُٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحرآنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
یہ اور بات ہے کہ جان سکلِنگ کی نظم موضوع کے اعتبار سے نہایت مرکوز ہے انہوں نے گریز کرتے ہوئے اپنی محبت کو دوام دینے کی سعی فرمائی ہے جب کہ فیض نے گریز سے کام لیتے ہوئے اپنی محبت کوغریبوں کی حمایت کی طرف مبذول کیا ہے۔ تاہم یہ حقیقت بھی قابلِ غور ہے کہ سکلِنگ کی نظم اورفیض کی نظم میں عنوان سمیت بنیادی خیال ایک ہے مگر جان سکلِنگ کی نظم فیض احمد فیض کی پیدائش سے کئی سو برس پہلے کی تحلیق ہے۔
عاجزی سیکھی ، غربیوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرماں کے ، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے ، رخ زرد کے معنی سیکھے
۔۔۔۔۔
یہاں اقبال کی گونج صاف ظاھر ھے۔۔۔
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غربیوں کا لہو بہتا ہے
۔۔۔۔۔
یہ کہنا کہ فیض نے مرغ گرفتار۔۔۔۔اور گرفتاری۔۔اسیری۔۔۔زنداں کو متعارف کروایا مکمل غلط ھے۔۔انکی ایسی شاعری مین بالکل کشش موجود ھے لیکن اسکی غنائیت ایسی ھے کہ احتجاج لگتا نہیں۔۔
گزشتہ شعرا میں ۔۔۔یہ الفاظ اور تراکیب استعمال ھو چکی ھین۔۔غالب میر۔۔۔مصحفی۔۔سب نے اس پر بہت شعر کہے ھیں۔۔
میر نے کہا
زنداں میں بھی شورِش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا .
مصفحی نے بھی اس موضوع پر بہت سے شعر کہے
ہم اسیران ِ قفس لطفِ چمن کیا جانیں
کون لے جاتا ہے ہم کو گل و گلزار کے پاس
خبر تو لیجو کوئی خستہ مر گیا تو نہ ہو
کہ آج آتی ہے آوازِ نوحہ زنداں سے
فصلِ بہار آئی ،گئی، اب قفس کے بیچ
پھڑکیں ہیں طائران ِ گرفتار کس لئے
یہ تو آوازِ ہم صفیر ہی ہے
اس قفس میں کوئی اسیر ہی ہے
ایک اور کسی استاد شاعر کا مصرعہ یا د آر ہا ہے دیکھئے زنداں کی کوٹھری کا نقشہ کس طرح کھینچ دیا ہے
تنگ ہے خانہ ئ زنجیر سے زنداں اپنا
رند کا ایک شعر دیکھئے
کھلی ہے کنجِ قفس میں مری زباں صیاد
میں ماجرائے قفس کیا کروں بیاں صیاد
غالب کو تو قید کی سزا بھی ھوئی تھی۔۔۔
قرض کی پیتے تھے کے لیکن سمجھتے تھے ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
۔۔۔۔۔
کنج میں بیٹھا رہوں یوں پر کھلا
کاش کے ہوتا قفس کا در کھلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزیز لکھنوی کا شعر تھا۔۔۔
اس نے بجھا دیا ہے چراغِ قفس تو کیا
وہ جل اٹھا ہے دیدہ ئ مہتاب بام پر
فیض کی نظم کی آخری لائنیں یوں ہیں
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں
۔۔۔۔۔
ساحر لدھیانوی کی۔۔۔۔مجھ سے پہلی سے محبت مرے محبوب نہ مانگ۔۔۔۔۔ اصل مارکسزم والی سوچ ھے۔۔۔۔ فیض کی نظم مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ۔۔۔۔ قدرے قدرے ھے۔۔
1974 میں فیض پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے اس وفد میں شامل تھے جو بنگلہ دیش بننے کے بعد پہلی بار وہاں گیا تھا۔
فیض، شیخ مجیب الرحمٰن کو پہلے سے جانتے تھے۔ جب وہ اُن سے ملے، تو انھوں نے کہا کہ ہمارے بارے میں بھی کچھ لکھیے جس پر بنگلہ دیش سے واپس آنے کے بعد انھوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کے اصرار پر معروف نظم کہی تھی: ’ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد۔۔۔‘
مجیب نے فیض سے کہا تھا۔۔۔ خون کے دھبے بارشوں سے کبھی نہین دُھلتے۔۔۔۔۔
یہی سچ ھے۔۔۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.