شرطِ پیرایہءِ اظہار لگا دیتے ہیں
بَند کَس لیتے ہیں تلوار لگا دیتے ہیں
یہ تعفّن بھرے فرقوں کی کتابیں ہیں چلو
ڈھیر اِنکا پسِ دیوار لگا دیتے ہیں
دُشمنوں کی مُجھے مِنّت نہیں کرنی پڑتی
آگ کُچھ ایسی مِرے یار لگا دیتے ہیں
پہلے کہتے ہیں لگانے کی اجازت نہیں ہے
اور پھر مُہر بہ اِصرار لگا دیتے ہیں
کرچیاں پہلی اکٹّھی نہیں کرنے دیتے
پھر مجھے آئینہ بردار لگا دیتے ہیں
جوڑتے ہیں کِسی سّید سے تِرا حسب و نسَب
چل تُجھے صاحبِ اِسرار لگا دیتے ہیں
فیض مِلتا ہے جنہیں آھنی بُوٹوں سے یہاں
مُجھ پہ وُہ فتویِ غدّار لگا دیتے ہیں
اک فرنگی نے لکھا ہےکہیں پنجاب کے لوگ
مادرِ مَن سرِ بازار لگا دیتے ہیں
جھوٹ تُم بول دیکھو گے تو اچّھا لگے گا
لوگ تعریفوں کے انبار لگا دیتے ہیں
سایہ دیتے ہوئے کاموں کی طرف آتے نہیں
شعر کہتے ہوئے اشجار لگا دیتے ہیں
ایسا مِلنا تو دکھاوے کا ہے ملنا سائیں
جیسے رُخسار سے رُخسار لگا دیتے ہیں
اتنا آسان ہے مذھب کا تشدّد یعنی
راہ چلتے ہوئے دو چار لگا دیتے ہیں
اسقدر امن کا مذھب ہے ہمارا مذھب
جو نہ مانے اُسے ہم پار لگا دیتے ہیں
رفیع رضا