امیر مینائی ( غزل)

نِیم جاں چھوڑ گئی نِیم نِگاہی تیری
زندگی تا صد و سی سال الٰہی تیری

ناز نیرنگ پہ، اے ابلقِ ایّام نہ کر
نہ رہے گی یہ سفیدی یہ سِیاہی تیری

دِل تڑپتا ہے تو کہتی ہیں یہ آنکھیں رو کر
اب تو دیکھی نہیں جاتی ہے تباہی تیری

کیا بَلا سے توُ ڈراتی ہے مجھے، اے شَبِ گور
کچھ شبِ ہجْر سے بڑھ کر ہے سِیاہی تیری؟

برہَمن کعبہ نَشِیں، شیخِ حَرَم بندۂ بُت
مصلحت ہے، جو مشیّت ہے الٰہی تیری

چُھپ گیا مہْرِ قیامت بھی، تہِ ابْرِ سِیاہ
بل بے اے نامۂ اعمال سِیاہی تیری

کیا ہُوا تجھ کو، کہ غافِل ہے اوامر سے امِیر
حِرص سے طبْع ہے مُشتاق نواہی تیری