افسانہ
بیورگ بزدار
ہم جب بچے تھے تب ہمارے محلے میں ایک بوڑھا شخص ہر ہفتے ہمارے محلے میں گھر کے سامنے اتوار کی شام کو اکر بیٹھتا تھا اور ہم اس کے پاس بیٹھ کر کہانیاں چپ چاپ سنتے۔ وہ اکثر غلامی و آزادی کے قصے کہانیاں سناتا تھا۔ ہماری ناسمجھی کہو یا کم عقلی کہ ہم کہانی کے درمیان میں اس سے سوال کرتے تھے اور اسے یہ چیز کبھی پسند نہیں تھی۔ ایک دن جب میں ماموں کے گھر سے لوٹ کر گھر کی جانب رواں دواں تھا تبھی میں نے اس بڑھے شخص کو اپنی گلی سے گزرتے دیکھا تو سوچا کچھ بات کر لو تب تک کے لیے کچھ سیکھنے کو مل جائے گا۔ وہ سگریٹ کا بہت شوقین مزاج آدمی تھا اور ابو اکثر اس سے ہمیں دور رہنے کو تلقین کرتا۔
ایک دن میں نے اس سے پوچھا چاچا صادق اپ سے ایک سوال پوچھو؟
تو چاچا صادق نے ہنس کر کہا ہاں بیٹھا لیکن ایک پوچھنا۔
میں نے بطرز عادت پوچھ لیا کہ چاچا غلامی کسے کہتے ہیں؟
چاچا کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا بیٹا جب کوئی انسان کسی انسان کو اپنی ملکیت میں رکھے اور اسے بندی بنائے اسے غلامی کہتے ہیں۔ وہ اجتماعی ہو یا انفرادی۔ دیکھو بیٹا غلامی اچھوت اور غلیظ بیماری ہے جہاں قبائلی جھگڑے، زات پات، رنگ نسل، خود کشی کا رجحان، عورتوں بچوں کے ساتھ ریپ، مذھب کے نام پر قتل عام اور عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنانا ہی غلامی ہے بیٹا۔ اگر بذات خود مجھ سے پوچھو تو میں یہی کہونگا کہ اس کا حل تشدد کے سوا کچھ نہیں۔
میرے لیے تشدد نیا لفظ تھا تو میں نے بلا جھجک مطلب پوچھا؟
چاچا صادق اب کی بار ہنسے نہیں اور جواب دیا بیٹا جب اپ کو لگتا ہو کہ آقا کو مارے بنا اپ آزاد نہیں ہوسکتے ہیں۔ مجھے بس سننے میں کچھ نیا ملا اور سوال کرنے کا موقع بھی۔ خیر چاچا اب کی بار صرف مجھے کہانی سنانا چاہتا تھا تو میں بھی ان کے قریب بیٹھ گیا اور سننے کے لیے تیار ہوگیا۔
چاچا صادق بولے بیٹا پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک ملک میں غلاموں کو بیچا جاتا تھا وہاں ایک البرٹ نامی بادشاہ تھا جو غلاموں کا کاروبار کرتا تھا وہ ان سے محنت مزدوری کرواتا اور ان کے بدلے بس ایک وقت کا کھانا اور کبھی مزدور اگر کام کرنے کو انکار کرتا تو سرعام پھانسی دیتا تاکہ باقی غلاموں میں خوف بنا رہے اور اس طرح لاکھوں غلام غلامی کے دوران مارے گئے مگر بادشاہ سلامت کا تسلسل وہی رہا بجائے اس کے خلاف کوئی نہ بولا۔ کبھی کبھار بادشاہ اپنی حوس پوری کرنے کے لیے ان غلام مرد کے ساتھ یا ان کی بیویوں یا بیٹیوں کے ساتھ اپنی خواہشات کو ترجیح دیتا۔ حیرانگی اس بات کی نہیں وہ مارے جارہے تھے بلکہ اس بات کی تھی وہاں کے جو شاعر اور لکھاری تھے وہ بھی بادشاہ کی تعریف میں نوحے لکھ کر انعامات وصول کررہے تھے۔ وزیر اور فوج تو جب چاہیے کسی بھی موڑ پر لاشوں کا انبار لگا دیتے۔ وہاں ہر چیز مہنگی تھی مگر غلاموں کی خون بہت سستی۔ اس البرٹ بادشاہ کے خلاف کوئی کسی کو اکساتا یا خود بغاوت کرنے کا سوچتا یا کوشش کرتا تو اس کے ساتھ وہ کرتے جو کسی کے ساتھ نہ ہوتا۔ اس کے جسم پر ڈرل مشین سے سوراخ کرکے بادشاہ کا نام لکھتے، ناخن نکالتے، سر کے بال ناچتے، منہ پر کپڑا ڈال کر اوپر پانی ڈالتے، ننگا تشدد کرتے، اس کے سامنے اس کی بیوی کا آٹھ سالہ بچی کا ریپ کرتے، اسے الٹا لٹکا کر خوب تشدد کرتے تاکہ وہ یا زندہ نہ رہے یا بغاوت کرنے کے قابل نہ رہے۔ تشدد بھی کیا عجیب چیز ہوتی ہے جنہیں مقصد پیارا ہوتا ہے ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی اور جن کی زندگی کا مقصد نہ ہو تو وہاں تشدد بہت سے کام پیچھے چھوڑ دیتی ھے۔
غلاموں کی ایک عادت تھی کہ وہ ہمیشہ بادشاہ کو دل میں گالیاں نکالتے تھے اور کبھی کبھار جب انہیں شراپ پینے کا موقع ملتا تو جی بھر کو اس بادشاہ کے خلاف بولتے یا تو وہ کل تک زندہ نہ ہوتے یا پھر وہ خود کی رسی بنا کر خودکشی کرتا۔ البرٹ کی جیل میں قیدی ہوتا ہے جس کا نام راجا ہوتا ہے جو اکثر جیل کی دیواروں پر رات کے پچھلے پہر جاکر سرخ رنگ سے بادشاہ کے خلاف شاعری لکھتا ہے اس سے جیل کا تمام ماحول تنگ رہتا ہے اور جو بھی اس کے خلاف اٹھتا ہے وہ مارا جاتا ہے۔ اب کی بار وہ شاعری کے علاوہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھ کر جاتا ہے غلاموں کی اپنی زبان (تاخ) میں لمبی چوڑی تحریر لکھتا ۔ اب تو ان کے لیے زبان سب سے بڑی مصیبت تھی کیوں اپنی زبان میں جرت ہے، غیرت ہے، متھالوجی، شاعری، ادب اور مزاحمت بھی۔
بادشاہ سلامت غلاموں کی تاخ زبان سے تنگ اتا ہے اور سب کو اکھٹا کرتا ہے ان میں تیس ہزار لوگوں پر گولیاں چلاتا ہے جن میں سے دس ہزار لوگ مارے جاتے ہیں۔ تسلسل یہی نہیں رکتا بلکہ راجا اپنا کام اب کسی اور طریقے سے کررہا ہوتا ہے رات کو اٹھتا ہے کسی بھی بادشاہ کے نوکر کو موت کی نیند سلا کر اپنے قید خانے میں لوٹ اتا ہے راجا ہمیشہ یہ کام رات کو کرتا ہے اور کوئی بھی سراخ نہیں چھوڑتا اپنے پیچھے۔ راجا کی جو سب سے خاص بات تھی وہ غلام نہیں تھا وہ بادشاہ کے دربار کا مالی تھا اور وہ بادشاہ کا قومی تھا نہ کہ تاخی کا۔
راجا شب دیر اٹھتا دو کو مارتا اور واپس اکر سو جاتا تھا۔ ایک دن راجا جب اٹھتا ہے دیکھتا ہے بادشاہ کے وزیر کو کسی نے مار دیا ہے راجا حیران تھا یہ اس نے بھی نہیں کیا تو کس نے کیا۔ مگر راجا کو اس بات کی خوشی تھی ان غلاموں میں ہمت پیدا ہورہی ہے ایک نہ ایک دن اس بادشاہ سے چھٹکارا تو لازمی پالین گے۔
اب راجا صرف دو لوگوں کے ساتھ بیٹھتا تھا اور ان کو غلامی سے آذادی کے درس دیتا تھا اور انہیں کرنے کو کچھ کام دیتا تھا۔ مثلا جو اچھی طرح لکھ سکتا تھا اسے لکھنے کا کام دیا جاتا تھا یا شاعری کرنے کا۔ کوئی بندوق کا اچھا نشانہ باز ہوتا راجا اب ہر کسی کو اس جیل میں تربیت کر رہا ہوتا ہے۔ راجا ہر کسی کو اس کے صلاحیت و نفسیات کو پرکھ کر اسے کام پر لگاتا تھا۔ اب راجا بس اس جیل سے کچھ قیدیوں سمیت بھاگنا چاہتا تھا اور ٹھیک دس دن بعد وہ سو لوگوں کے ساتھ بھاگ جاتا ہے اور کچھ دن بعد راجا مارا جاتا ہے اور کہتے ہے کہ وہاں راجا کے مارنے کے بعد بہت بڑی بغاوت چھڑگئی اور بادشاہ سمیت وزیر اور فوج کو سب کا قتل عام کرکے اس کرسی پر خود بیٹھ گئے تاکہ اب مزید کوئی غلام نہ رہے اور جبر کا سہارا نہ لے۔
البرٹ غلاموں کو مختلف سزائیں دیتا تھا ان میں سے اکثر ایسے قیدی تھے جو بغاوت کے جرم میں پکڑے جاتے تھے تو انہیں البرٹ کہتا تھا غلاموں میں تمھیں اس لیے نہیں مارتا کہ تم بغاوت کرتے ہو بلکہ اس لیے کیوں کہ تم میرے بنائے نظام کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہوں یہ چیز نازیبا ہیں اور اس لیے تم اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہوں۔
غلام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وہ جس چراہے پر مارا جائے تو ایک دو دن سوال کیا جاتا ہے اس کے بعد غلام کسی اور حادثے کا انتظار کرتے ہے تاکہ پہلے والا سانحہ بھول جائیں۔ راجا جو اکثر غلاموں سے کہا کرتا تھا دیکھو یہ وطن ہے تمھارا ، تمھارے باپ دادا کی زمین البرٹ کی کیا حیثیت تمھیں تمھاری زمین پر غلام رکھے۔ وہ کہتا تھا دشمن کی چالیں بہت ہوتی ہے تمھیں مارنے کے لیے مگر سب سے بڑی بات یہ اہمیت رکھتی ہے وہ تمھارا دشمن ہے اور اسے مارنا جائز ہے۔
راجا کچھ باتوں سے غصہ کرتا تھا کہ جب لوگ البرٹ کی جیل سے رہا ہوتے تو قیدی کے وارث ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے تو راجا کہتا تھا تم غلام ہو اس کے لیے خوشی بے معنی ہیں۔ تم جیل سے آزاد ہوئے ہو البرٹ جیسے ظالم سے نہیں۔ جیل میں جو سب سے زیادہ پابندی تھی کہ تاخی قوم کو یکجا ہونے نہیں دیا جاتا تھا تاکہ وہ اپنے معاملات یا بادشاہ کے خلاف سازش نہ کرے مگر لوگ کا مقصد انہیں اس چیز سے نہیں روکتا بلکہ تیز کرتا تھا تاکہ وہ اپنا کام اور زیادہ کرسکے۔ جب کبھی البرٹ جیل جاتا تو وہاں کے لوگوں سے کہتا کہ تم لوگ آزاد ہوں، پہلے تم جاہل تھے اور میں تمھیں شعور دینے ایا ہوں تم وحشیانہ زندگی بسر کررہے تھے اب تم خود کو انسان کہلاتے ہوں۔
راجا کہتا تھا کہ اس سے بڑا جاہل کوئی نہیں جو کسی اور قوم پر قابض بنے وہ بھی تہذیب کے نام پر۔۔۔۔۔۔۔ طاقتور جنزیر ہوتا ہے اور وہ کبھی تہذیب یافتہ نہیں ہوتا۔ تاخی قوم کی اپنی ایک تہذیب ہے اپنا رسم و رواج، زبان، متھالوجی، نفسیات قومی، اپنے کوڈ آف آنر اور کوڈ آف کنڈکٹ جو طور حسن سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔
تاخی قوم کے لیے جو سب دکھ کی بات تھی وہ سمجھتے تھے یہ ہماری قسمت، بدنصیبی اور کنڈلی میں ہے مگر راجا کہتا تھا یہ ناممکن ہے دنیا میں نصیب و قسمت صرف طاقتور کو ملے۔ یہ سب بکواس ہے تاکہ تم جیسے لوگ مزید غلام رہے اور کبھی سوال نہ کرے۔ راجا جب جیل سے بھاگا تھا تب اس نے سب سے پہلے تاخی قوم کو ان کی زبان میں تعلیم دینا شروع کیا اور وہاں کے لوگوں میں گھل مل گیا تاکہ ان کی نفسیات کو سمجھا جائے۔ راجا کے مطابق البرٹ نے تاخی قوم کو ستر سال غلام رکھا ہے جب سے غلام کیا ہے اس دن سے ابتک صرف ایک کروڑ لوگوں میں سے سو بچوں کو پڑھایا گیا اور ان میں سے کچھ یعنی نصفِ دلال بن گئے۔ ڈاکٹرز، ہسپتال، کالج اور یونیورسٹی کا کہی نام و نشان نہیں تھا کیوں البرٹ نے جب قبضہ کیا تو سب کو جلا دیا تھا تاکہ تاخی قوم کو بتاسکو تم کتنے بڑے جاہل تھے میں تمھیں ترقی دینے ایا ہوں۔ یہی نہیں آدب و شاعری کی کتابیں، شاعروں کو ازیت دے کر مارنا، لکھاریوں کے ہاتھ کاٹنا، ڈاکٹروں کی بینائی ختم کرنا اور پھر بھی نا مانے تو اسے گرم کوئلے پر جلا کر راکھ کر دینا۔ کیوں کہ شاعر و ادیب دانشور کا کردار سب سے زیادہ زہن سازی میں ہوتا ہے وہ اگر البرٹ کے ہاتھ ہوتا تو وہاں غلام کے سوا کچھ پیدا نہیں ہوتا اور ایسا ہوا مگر کم کیوں کہ زیادہ لوگوں نے موت کو گلے لگایا نہ کے غلامی کو قبول کیا ہاتھ جوڑ کر۔ یہی مزاحمت البرٹ کے لیے بہت تکلیف دہ چیز تھی اس لیے اس نے دانشوروں کو اکٹھا کیا ان کو تاریخ کے نام پر نابلد کردو اور ادب پر جاہل اور وحشی لکھ دو اور تاکہ یہ پوری زندگی کنفیوز ہوکر مرتے رہیں۔ قوموں کا تاریخ میں بہت بڑا کردار ہے وہ انہیں مزاحمت سے جوڑی رکھتی ہے کہ ان کے باپ دادا نے اپنی زمین پر کسی بھی دشمن کو زیادہ عرصہ ٹیکنے نہ دیا۔ یہی مزاحمت شاعری کی صورت میں انہیں دشمن کو نکالنے میں جذبہ سے قربان ہونے میں سرشار کرتی ہیں۔
کہتے ہے کچھ عرصوں بعد وہاں ایک بادشاہ بنا تھا جس نے البرٹ کی طرح کرنا چاہا مگر وہ دو دن میں مارا گیا انہیں اپنے لوگوں کے ہاتھوں۔
چاچا صادق جب کہانی ختم کرتے تو بس سگریٹ سلگا کر اپنی گھر کی جانب گامزن ہوجاتے اور وہ شاید ہماری آخری ملاقات تھی میں نے بھی اس دن بعد چاچا صادق کو نہیں دیکھا۔