تحریر : رشید سندیلوی
شعر و ادب سے مجھے شروع سے ہی دلچسپی تھی برادرم رفیق سندیلوی کی شاعری کا میں عاشق تھا اس لئے ان کا کلام مجھے ازبر تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ خالد اقبال یاسر ، غلام حسین ساجد ، اظہار الحق اور رفیع رضا کے اشعار مجھے پسند تھے ۔ انہیں دنوں مجھے اردو اشعار کے انتخاب پر مبنی ایک ایسی کتاب کی تالیف کا شوق پیدا ہوا جس میں ایک شاعر کا ایک شعر منتخب کیا گیا جو اس کی پوری شاعری کا غماز تھا اس تالیف میں شعراء کرام کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کا بھی التزام کیا گیا۔۔۔ میں نے یہ کام غالباً نوے کی دہائی میں شروع کیا۔۔۔ ان اشعار کا انتخاب میں نے اپنے شعری ذوق جبکہ غالب و اقبال کا انتخاب استخارے (meditation) کی مدد سے کیا۔ انہیں دنوں مجھے رفیع رضا کی شاعری کو عمیق نگاہی سے پڑھنے کا موقع ملا۔ان کے اس شعر کو میں نے کئی دنوں کی ریاضت کے بعد منتخب کیا
ترتیب سے رکھے ہیں یہ خوابوں کے جنازے
آ دیکھ لے تیرا کوئی پیارا تو نہیں ہے
اب مرحلہ تاریخ پیدائش کا تھا۔میں نے رفیع رضا سے رابطہ کیا تو انہوں نے اگلے ہی دن اپنی تاریخ پیدائش بھیج دی۔میں اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔۔۔۔ شاید یہی وہ زمانہ تھا جب ان پر کفر و الحاد کے فتوے لگے ان پر بہت زیادہ دباؤ پڑا ادیب اور شاعر حضرت ان سے متنفر ہو گئے ۔۔۔ مذہبی معاملات اور عقائد ہوتے ہی ایسے ہیں۔۔ عقائد و نظریات سے قطع نظر میں ان کی شاعری کا ہمیشہ معتقد رہا۔۔۔ ان کے تغزل سے لطف لیتا رہا۔ ان کے بد ترین دشمن بھی ان کی شاعرانہ عظمت کے معترف نظر آتے ہیں ۔۔۔ میں ان کے اشعار سے تخلیقی قوت حاصل کرتا تھا ۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ میں سخت مایوسی کے عالم میں اب بھی ان کا یہ شعر پڑھتا ہوں
میرے رونے سے کچھ نہیں بدلا
اب کوئی اور معتبر روئے
میں سمجھتا ہوں کہ دیوانوں پر دیوان اور ہزاروں اشعار لکھنے والے شاعر اس طرح کا مکمل اور مدلل شعر اپنے کھیسے میں نہیں رکھتے۔۔۔ میرا دعویٰ ہے کہ رفیع رضا کا یہ ایک ہی شعر انہیں اردو شاعری میں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔اردو غزل اس لحاظ سے خوش بخت ہے کہ اسے غالب کے بعد بھی جلیل القدر شاعر نصیب ہوئے ہیں جن میں عصرِ حاضر کے نمائندہ شاعر رفیع رضا سب سے نمایاں نظر آتے ہیں۔
Sign in
Sign in
Recover your password.
A password will be e-mailed to you.
Prev Post
Next Post