افسوسناک بات

افسوسناک بات یہ ہے کہ ادبا اور فلاسفہ کے نزدیک اقبال کے بارے میں سوائے الٹرا پازیٹو کوئی زاویہ تنقید ناقابل قبول ہے۔۔یہ پاکستانی سماج کی منفی سائیکی ہے جسے اپنے اصل ھیروز کی پہچان نہیں اور جو اگر کسی کو ھیرو بنا لے تو اسے ان ٹچ ایبل بنا لیتی ہے۔۔ ورلڈ کپ تو دوسرے ممالک نے بار بار جیتا ہے لیکن ہمیں لگتا ہے کہ ھمارا کپتان دنیا میں سب سے اعلی کرکٹر تھا۔۔پھر ڈاکٹر سلام ایک نوبل پرائز ونر تھے بہت اعلی شخصیت ۔۔مگر انکے ساتھ دو اور لوگوں کو اور بےشمار لوگوں کو نوبل پرائز ملا۔۔انکے نام تک ہمیں معلوم نہیں۔۔ھم اپنے اچھے کارنامے کو دنیا میں سب سے اعلی خود ھی قرار دیتے ہیں اور پھر اسے بزرگ ترین بنا لیتے ہیں ۔جبکہ ایجاد اور نئے نظریات ۔۔پرانے نظریات و ایجادات سے مطمئن جہ ھونے کا ثبوت ہوتا ہے۔۔سر ظفراللہ کے علاوہ بھی دنیا میں عالمی عدالت کے صدران بنے۔۔ایتھوپیا صومالیہ کے لوگ اقوام متحدہ کے اھم ترین عہدوں پر رھے۔۔مگر پاکستانی اپنے بندے کے علاوہ کسی کو عظیم ترین نہیں سمجھتے۔۔اقبال نے انگریز کی مداحی کر کے ہی سر کا خطاب پایا تھا۔۔ٹیگور کو تو سر کا خطاب کیا نوبل پرائز بھی دیا گیا تھا ۔۔اقبال کا مقام ٹیگور سے بہت کم ہے کیونکہ اقبال نے جلیانوالا باغ کے قتال پر انگریز سے اختلاف نہ کیا۔۔ٹیگور نے کیا اور خطاب واپس کر دیا۔۔
پاکستانیوں کی نئی پود کو اپنے بڑوں کی منفی روش ترک کر دینی چاھئے اور سچ کی جانب رجوع کرنا چاھیئے۔
رفیع رضا۔۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.