ظفر اقبال کیوں اردو کے اھم ترین شاعر ھیں

پہلے آ کر وہ مرے بیٹھ گیا ایک طرف
اور پھر ایک طرف اُس نے کیئے چاروں طرف
ظفر اقبال
اک لہر ہے کہ مجھ میں اچھلنے کو ہے ظفرؔ
اک لفظ ہے کہ مجھ سے ادا ہونے والا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏خواب کی تعبیر پر اصرار ہے جن کو ابھی
پہلے ان کو خواب سے بیدار ہونا چاہئے
ظفر اقبال
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفرؔ
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں
ظفر اقبال
ذاکرہ تھی کوئی ۔۔ اور خوب رُلاتی تھی ظفر
مجلسیں پڑھتے ہوئے ، دل کے عزا خانے میں
( ظفر اقبال)
‏دیکھا تھا ظفر جس کو ابھی نہر کے پل پر
روشن ہے وہی شمع کتابوں کی دکاں میں
ظفر اقبال
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻟﺠﮭﺘﺎ ﮨﮯ، ﺍﮮ ﻇﻔﺮ
ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﺎ
ﻇﻔﺮ ﺍﻗﺒﺎﻝ
‏میرے کہنے کے لیے بات نئی تھی نہ کوئی
کہہ کے چپ ہوگئے سب لوگ تو گویا ہوا میں
ظفر اقبال
مدد کی تم سے توقع تو خیر کیا ہو گی
غریب شہر ستم ہوں میرا پتہ رکھنا
(ظفر اقبال)
میں روز اپنے کناروں سے دیکھتا ہوں ظفر۔۔۔۔۔!!!!
کہاں سے دور ہے دنیا۔۔۔ کہاں سے دور نہیں ۔۔۔۔۔!!!
ظفر اقبال
پھیلتا جاتا ہے کاغذ پہ علاقہ میرا
کیوں نہ ہو باعثِ تخلیق دھماکا میرا
ظفر اقبال
لفظ پتوں کی طرح اڑنے لگے چاروں طرف
کیا ہوا چلتی رہی آج مرے چاروں طرف
میں نے خود کو جو سمیٹا تو اُسی لمحے میں
اور بھی چاروں طرف پھیل گئے چاروں طرف
رک گئے ہیں تو یہ دریا میرے اندر ہی رکے
چل پڑے ہیں تو اُسی طرح چلے چاروں طرف
اب کہ ہوتا ہی نہیں میرا گزارا ان پر
چاہیے ہیں مجھے اس بار نئے چاروں طرف
ہیں بھی ایسے کہ فقط مجھ کو نظر آتے ہیں
ایک ہی دوسرے میں الجھے ہوئے چاروں طرف
میں ہی معدوم سا ہوتا گیا رفتہ رفتہ
ورنہ منظر تو فلک بوس رہے چاروں طرف
پہلے تو ایک طرف بیٹھ گیا وہ آ کر
اور پھر ایک طرف اس نے کیے چاروں طرف
کوئی اطراف کی اب فکر اُسے کیا ہو گی
ساتھ ہی ساتھ جو پھرتا ہے لیے چاروں طرف
آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں، ظفر
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف
۔۔۔۔۔
ابھی کسی کے نہ میرے کہے سے گزرے گا
وہ خود ہی ایک دن اس دائرے سے گزرے گا
بھری رہے ابھی آنکھوں میں اس کے نام کی نیند
وہ خواب ہے تو یونہی دیکھنے سے گزرے گا
جو اپنے آپ گزرتا ہے کوچۂ دل سے
مجھے گماں تھا مرے مشورے سے گزرے گا
قریب آنے کی تمہید ایک یہ بھی رہی
وہ پہلے پہلے ذرا فاصلے سے گزرے گا
قصوروار نہیں پھر بھی چھپتا پھرتا ہوں
وہ میرا چور ہے اور سامنے سے گزرے گا
چھپی ہو شاید اسی میں سلامتی دل کی
یہ رفتہ رفتہ اگر ٹوٹنے سے گزرے گا
ہماری سادہ دلی تھی جو ہم سمجھتے رہے
کہ عکس ہے تو اسی آئینے سے گزرے گا
سمجھ ہمیں بھی ہے اتنی کہ اس کا عہد ستم
گزارنا ہے تو اب حوصلے سے گزرے گا
گلی گلی مرے ذرے بکھر گئے تھے ظفرؔ
خبر نہ تھی کہ وہ کس راستے سے گزرے گا
بشکریہ رفیع رضا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.