اقبال کے منظوم تراجم

ایک صاحب (رفیع رضا ) نے ایک پیج پر اقبال کے منظوم تراجم اور ماخوذات پر ایک مضمون لکھا ہے جس کو میں من و عن یہاں پیسٹ کردیتا ہوں، اس پر آپ اپنی رائے کا اظہار کریں۔
مضمون یہ ہے:
"انگریزی شاعری کے منظوم ترجمے کم و بیش تین سو شاعروں نے کئے ہیں، ان شاعروں نے ایک سے زیادہ پابندیوں کو اپنے اﹸوپر عائد کیا اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں آپس میں مسابقت بھی کی۔
یہ بات کہ انگریزی کے مخصوص شاعروں ہی نے ہمارے شاعروں کو اپنی جانب متوجہ کیا اور ان کی تقریباً ساڑے سات سو نظموں ہی کے منظوم ترجمے ہوئے ۔۔۔ یقیناً چونکا دینے والی ہو گی۔
پروفیسر عبد القادر سروری اپنی کتاب "جدید اردو شاعری” میں لکھتے ہیں۔
"اقبال کی ابتدائی شاعری کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو مغربی شعراء جیسے ٹینی سن، ایمرسن اور گوئٹے وغیرہ کے کلام سے ماخوذ ہے، یہ درحقیقت اقبال کی موضوعی نظموں کا اولین نقش ہیں۔ اکثر شعراء جنہوں نے مغربی نظموں کے مقابلے میں نظمیں لکھنے کی کوشش کی ہے، پہلے مغربی شعراء کے کلام کو نمونہ بناتے رہے۔”
مخزن اپریل ۱۹۰۴ء میں سر عبدالقادر کا سہ سالہ ریویو شائع ہوا ۔ انہوں نےلکھا :
مخزن کا ایک مقصد اردو نظم میں مغربی خیالات، فلسفہ اور سائنس کا رگنگ بھرنا اور نتیجہ خیز مسلسل نظم کو رواج دینا تھا تاکہ نظم اردو کا رنگ نکھرے، اس کے اثر کا حلقہ وسیع ہو اور جو لوگ انگریزی نظم کی خوبیوں کے دلدادہ ہیں ان کی نسل کے لیے بھی کچھ سامان ملکی زبان میں مہیا ہو جائے۔ یہ مقصد بھی خاطرخواہ پورا ہوا اور اس کے پورا کرنے میں سب سے زیادہ کوشش شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے اور نیرنگ بی۔اے کی طرف سے ہوئی، جن کے کلام کا مجموعہ جب شائع ہوگا تو شائقین دیکھیں گے کہ کتنے نئے خیالات اور کس کس خزانے کےعلمی جواہرات ان دل آویز چھوٹی چھوٹی نظموں میں جمع کئے گئے ہیں۔
اقبال کی نظم "بچے کی دعا” مٹیلڈا بینتھم ایڈورڈس کی
نظم Child’s Hymn کا آزاد ترجمہ ہے۔ بقول
ڈاکٹر اکبر حسنین قریشی انگریزی نظم زیادہ متصل اور
متنوع ہے اور اس میں پیکر نگاری زیادہ دلکش اور بلیغ
ہے۔ خاص کر آخری بند میں شاعر نے پوری نظم کو
سمو دیا ہے۔ اقبال کی نظم نہ صرف مختصر ہے بلکہ
اس کو پڑھنے سے تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ اصل
نظم پانچ بند پر مشتمل ہے۔ ایک ایک بند میں بچہ دعا
کرتا ہے کہ اس کی زندگی علی الترتیب روشی، پھول،
راگ، عصا، اور دعائیہ نظم کے مانند ہو۔ اقبال نے
ترجمہ کرتے ہوئے اصل نظم کے دو بند کی حد تک
پابندی کی ہے اور دعا کی ہے کہ زندگی "شمع کی
صورت” اور پھول کی مانند زینت دینے والی ہو۔ پھر
وہ اصل سے ہٹ کر زندگی مثل پروانہ ہونے کی دعا
کرتے ہیں۔
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
اقبال ترجمہ میں زندگی کو راگ، عصا اور دعائیہ نظم
سے مما ثلت دینے کا حصہ کا ترجمہ نہیں کرتے۔ اس
کمی کی وجہ سے یہ کہا جاسکتاہے کہ ترجمہ مکمل
نہیں ہے۔ لیکن اس نظم کو ترجمہ ہی کے حدود میں
رکھا جا سکتا ہے۔ ماخوذ کے رمزے میں شامل نہیں کیا
جاسکتا۔
اقبال کی نظم "پرندہ اور جگنو” ﴿۳:۵۹﴾ ولیم کوپر کی
نظم
The Nightingale And The Glowworm
﴿۱۰:۳﴾ کا آزاد ترجمہ ہے۔ یہ ۱۹۰۵ء سے پہلے کی نظم ہے۔ اقبال نے اصل شاعر کا حوالہ نہیں دیا اور نہ دوسرے منظوم ترجموں کی طرح ماخوذ ہونے کی صراحت کی ہے ۔ البتہ مولوی عبدالرزاق نے کلیات اقبال میں لکھا ہے یہ نظم انگلستان کے ایک نازک خیال شاعر” ولیم کوپر” کی ایک مشہور و مقبول نظم ” اے نائٹ اینگل اینڈ گلوورم” سے ماخوذ ہے۔
اقبال کی نظم” ہمدردی” جس کے متعلق اقبال نے ماخوذ از ولیم کوپر لکھا ہے ” اے نائٹ اینگل اینڈ گلوورم” ہی سے ماخوذ ہے۔ چونکہ دونوں نظموں یعنی ” ایک پرندہ اور جگنو ” اور "ہمدردی” کا ماخذ ایک ہی نظم ہے ۔ محققین کو اس کا ﴿ ہمدردی ﴾ کا ماخوذ تلاش کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر اکبر حسین قریشی ” تلمیحات و اشارات اقبال ”
میں ہمدردی کے بارے میں اعتراف کرتے ہیں کہ اس
عنوان کی نظم” کوپر” کے مجموعہ کلام میں نہیں مل سکی۔
اقبال نے اپنی دونوں نظموں میں ولیم کوپر کی ایک ہی
نظم کے خیال کو الگ الگ استعمال کیا ہے، ہمدردی کو
ہم ماخوذ قرار دے سکتے ہیں جب کہ "ایک پرندہ اور جگنو” آزاد ترجمہ ہے۔ اس منظوم ترجمہ میں مفہوم کو باقی رکھتے ہوئے لفظی ترجمے سے اجتناب کیا گیا ہے۔ اس کے بولتے فقرے پر کیف ہیں ۔ زبان کی صفائی کا یہ عالم کہ پورا منظوم ترجمہ پڑھ جائیے کوئی لفظ ایسا نہیں ملے گا جو ذرا بھی کھٹکے۔ کوئی ترکیب ایسی نہیں ملے گی جو ذرا بھی گراں گزرے۔ اقبال کے دوسرے منظوم ترجموں کی طرح اس نظم میں بھی انگریزی خیالات اردو کے نفیس سانچوں میں ڈھل کر نکلتے ہیں۔
اقبال سے پہلے بانکے بہاری لال نے ” حکایت بلبل اور شب تاب کی ” ﴿۴۶:۹﴾ اور رحیم اللہ نے بلبل اور جگنو کی حکایت ﴿۴۷:۹﴾ کے عنوان سے منظوم ترجمے کئے تھے۔ یہ نہیں معلوم کہ یہ ترجمے اقبال کی نظر سے گزرے تھے یا نہیں ۔ تین ا ہم ترجمے یعنی "بدرالزماں بدر” کا ترجمہ "عندلیب اور کرمک شب تاب” ﴿۶۳:۳﴾ نسیم کا ترجمہ "بلبل اور جگنو” ﴿۵۱:۷﴾ اور سعید الدین خاں سعید کا ترجمہ ” بلبل اور جگنو” ﴿۵۱:۷﴾ بعد کے ہیں۔ ان تمام ترجموں میں اقبال کے منظوم ترجمہ کو خاص امتیاز حاصل ہے۔
اقبال کے منظوم ترجمے کے مقام کا تعین کرنے کے لیے اصل نظم کے ایک بند کا ترجمہ اقبال اور دوسرے شاعروں نے کس طرح کیا ہے اس کا تقابلی مطالعہ معاون ہوگا۔ مثلاً انگریزی نظم کا ایک بند ہے ۔۔۔۔۔
When looking eagerly around
He spied far off upon the ground
A something shining in the dark
And knew glowworm by his spark
بانکے بہاری نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے۔۔۔۔۔۔
کی جو چاروں طرف بہ شوق نظر
دیکھا کچھ دور سے کسی جاء پر
ہے اندھیرے میں دیر پا کچھ تاب
جانا اس تاب سے کہ ہے یہ شب تاب
رحیم اللہ کا منظوم ترجمہ یوں ہے۔۔۔۔۔۔۔
جستجو سے کر کے ہر جانب نظر
دیکھتی کیا ہے زمیں پر دور تک
ہے اندھیرے میں چمکتی ایک شئے
اور و سمجھی کرمک شب تا ب ہے
اقبال کے بعد کے شاعروں میں بدرالزماں بدر نے اپنی کاوشوں کو یوں پیش کیا ہے
گرد اپنے جب نگہ شوق سے دیکھا
وہاں تو نظر آئی زمیں پر ایک شے سی ناگہاں
ظلمت شب میں چمکتی تھی وہاں کچھ فصل پر
کرمک شب تاب اس کی ضو سے وہ سمجھی مگر
نسیم کہتے ہیں
پھر گرد و پیش شوق سے وہ دیکھتی رہی
اک چیز اسے زمیں پہ نظر دور سے پڑی
وہ تیرہ شب میں ایک تھا جگنو پڑا ہوا
اور اس جگہ چراغ ضیا تھا جلا رہا
سعید الد ین خاں سعید نے اس بند کو یوں اردو کا قالب
دیا ہے۔
ہر سو نظر اٹھا ئی غذا کی تلاش میں
دیکھی چمکتی دور سے اک ارتعاش میں
تابندگی نے اس کو دلایا اسے یقین
جگنو تھا جس کو کہتے ہیں مشعلچیء زمیں
ان سب کے مقابل اقبال نے اس مفہوم کو صرف ایک
شعر میں یوں ادا کیا ہے
چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر
اڑا طائر اسے جگنو سمجھ کر
اقبال پہلے شعر میں بلبل کی نغمہ سرائی کا ذکر کرتے ہیں، لیکن بھوک سے بے قابو ہونے کا ذکرنہیں کرتے۔ چھٹے مصرعہ میں اتنا ظاہر ہوتا ہےکہ بلبل جگنو کو کھا لینا چاہتا ہے
نہ کر بےکس پہ منقارﹺ ہوس تیز
اقبال پرندے کی دلکش صدا اور جگنو کی چمک کو اللہ کی قدرت و بخشش قرار دیتے ہیں۔ نظم کے آخری چار اشعار میں اقبال انگریزی نظم سے انحراف کرتے ہیں۔
آخری بند میں انگریزی شاعر نے اخلاقی رنگ اختیار کیا ہے ۔ جب کہ اقبال اپنے بند میں آفاقی معنویت بخشتے ہیں۔ لیکن اس جزوی اختلاف کے باوجود” ایک پرندہ اور جگنو ” کو منظوم ترجمہ ہی قرار دی جاسکتا
………………۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ:
اقبال پرستوں نے جان بوجھ کے اصلی شاعرہ کا حوالہ کبھی نہیں دیا جو اقبال پرستوں اور پاکستانی حکومت کی بددیانتی ھے۔۔۔ مین سمجھتا ھُوں کہ انگلینڈ حکومت کے ادبی ناقدوں کو پاکستانی حکومت پر جعل سازی اور ادبی خینات و بددیانتی کا عالمی مقدمہ کر دینا چاھئیے اور جواب طلبی کی جائے کہ مشہور مغربی شاعروں کی نظمون کے ترجموں کو کیوں اقبال کی اصلی تخلیقات کہہ کر ۶۰ سال سے خیانت کی جا رھی ھے۔۔۔جبکہ اقبال کا اپنا عندیہ ھرگز ایسا نہیں تھا۔۔۔انہوننے انگریز ادب سے مکمل اکتساب کیا ھے۔۔۔ اقبال نے صاد صاف کہا تھا کہ ورڈزورتھ نہ ھوتا تو اقبال دھریا ھو جاتے۔۔۔ یہ باتیں نظر انداز کرنیوالی نہیں ھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال کی ۔۔۔ مشہور نظم۔۔۔۔ لب پہ آتی ھے دعا بن کے
یہ نظم۔۔۔۔سینکڑوں سالوں سے گرجا گھروں میں دعائیہ طور پر گائی جاتی رھی ھے۔۔
پاکستان کے درسی اور حکومتی اداروں نے ھی نہیں بلکہ اقبالیات کے نام نہاد جعلی مذھبی شدت پسند شُعبے اور افراد نے۔۔۔۔یہ بات چھپانے کی بہت کوشش کی۔۔۔۔اور اُلٹآ چور کوتوال کو ڈآنٹے کے مصداق۔۔میرے خلاف ایک باقاعدہ منظم کوشش سے منفی تحریک چلائی گئی۔۔۔۔تاکہ سچ کو دبایا جا سکے۔۔۔۔مگر انہیں ضرور ناکامی ھوگی
۔۔
٭٭٭ایک مکڑی اور مکھی ﴿۱۱:۹﴾ ماخوذ لکھا، لیکن آزاد ترجمہ ہے
٭٭٭ایک پہاڑ اور گلہری ﴿ ۱۵۳:۳﴾ ماخوذ ایمرسن لکھا لیکن آزاد ترجمہ ہے۔
٭٭٭ایک گائے اور ایک بکری ﴿ ۱۷:۹﴾ ماخوذ لکھا لیکن آزاد ترجمہ ہے
٭٭٭بچے کی دعا ﴿۹:۸ ﴾ ماخوذ لکھا لیکن آزاد ترجمہ ہے
٭٭٭ہمدردی ﴿ ۱۹:۹ ﴾ ماخوذ از ولیم کوپر لکھا ۔ ماخو ذ ہے
٭٭٭ماں کا خواب ﴿۲۲۵: ۳ ﴾ ماخوذ نہیں لکھا۔ ماخوذ ہے
٭٭٭پرندے کی فریاد۔ ماخوذ نہیں لکھا لیکن ماخوذ ہے
٭٭٭پیامِ صبح ﴿۱:۹: ۱ ﴾ ماخوذ از لانگ فیلو لکھا۔ ماخوذ ہے
٭٭٭عشق اور موت ﴿۲۰۵﴾ ماخوذ از ٹینی سن لکھا ہے۔ ماخوذ ہے
٭٭٭رخصت ائے بزمﹺ جہاں ﴿۱:۵۴۱ ﴾ ماخوذ از ایمر سن لکھا لیکن کامیاب منظوم ترجمہ ہے
٭٭٭مرثیہ داغ ۔ ماخوذ نہیں لکھا لیکن ماخوذ ہے
٭٭٭گورستان شاہی۔ ماخوذ نہیں لکھا لیکن ماخوذ ہے
٭٭٭ایک پرندہ اور جگنو ۔ ﴿۵۹: ۳ ﴾ ماخوذ نہیں لکھا۔ آزاد منظوم ترجمہ ہے
٭٭٭والدہ مرحومہ کی یاد میں۔ ماخوذ نہیں لکھا لیکن ماخوذ ہے
٭٭٭ابرکوہسار۔ ماخوذ نہیں لکھا لیکن ماخوذ ہے۔
٭٭٭ایک آرزو۔ ماخوذ نہیں لکھا لیکن ماخوذ ہے
٭٭٭اقبال کی نظم "پیام صبح” لانگ فیلو کی نظم” ڈے بریک” کا آزاد ترجمہ ھے
ا٭٭٭٭قبال کی نظم "ماں کا خواب ” ولیم بارنس کی نظم کا ترجمہ ھے
٭٭٭اقبال کی نظم "مکڑا اور مکھی” Mary Haworthکی نظم The Spider and The Fly کا ٭٭٭آزاد ترجمہ ہے۔ اصل انگریزی نظم چالیس سطروں ﴿مصرعوں﴾ پر مشتمل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭٭جب کہ اقبال کا منظوم ترجمہ ۲۴ اشعار پر مشتمل ہے
ا٭٭٭٭قبال کا منظوم ترجمہ ” رخصت اے بزم جہاں” ایمرسن کی نظم Good Bye کا منظوم ترجمہ ہے
٭٭٭٭اقبال کی نظم "بچے کی دعا” مٹیلڈا بینتھم ایڈورڈس کی نظم ۔ سے لی گئی ھے۔۔”لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنا میری”۔۔۔
٭٭٭٭٭اقبال کی نظم "پرندہ اور جگنو” ﴿۳:۵۹﴾ ولیم کوپر کی نظم The Nightingale And The Glowworm ﴿
کا آزاد ترجمہ ہے۔ یہ ۱۹۰۵ء کے پہلے کی نظم ہے۔ اقبال نے اصل شاعر کا حوالہ نہیں دیا اور نہ دوسرے منظوم ترجموں کی طرح ماخوذ ہونے کی صراحت کی ہے ۔
البتہ مولوی عبدالرزاق نے کلیات اقبال میں لکھا ہے یہ نظم انگلستان کے ایک نازک خیال ٭٭٭٭شاعر” ولیم کوپر” کی ایک مشہور و مقبول نظم ” اے نائٹ اینگل اینڈ گلوورم” سے ماخوذ ہے۔
٭٭٭٭٭اقبال نے اپنی دونوں نظموں میں ولیم کوپر کی ایک ہی نظم کے خیال کو الگ الگ استعمال کیا ہے، ہمدردی کو ہم ماخوذ قرار دے سکتے ہیں جب کہ "ایک پرندہ اور جگنو” آزاد ترجمہ ہے۔ اس منظوم ترجمہ میں مفہوم کو باقی رکھتے ہوئے لفظی ترجمے سے اجتناب کیا گیا ہے
٭٭٭٭اقبال سے پہلے بانکے بہاری لال نے ” حکایت بلبل اور شب تاب کی ” اور رحیم اللہ نے بلبل اور جگنو کی حکایت کے عنوان سے منظوم ترجمے کئے تھے۔
A child’s prayer
Language: English
God make my life a little light,
Within the world to glow, —
A tiny flame that burneth bright,
Wherever I may go.
God make my life a little flower,
That giveth joy to all; —
Content to bloom in native bower
Although its place be small.
God make my life a little song,
That comforteth the sad;
That helpeth others to be strong,
And makes the singer glad.
God make my life a little staff
Whereon the weak may rest, —
That so what health and strength I have
May serve my neighbor best.
God make my life a little hymn
Of tenderness and praise, —
Of faith, that never waxeth dim,
In all His wondrous ways.
)****************************
Metilda Betham Edward…(
Matilda Betham-Edwards (March 4, 1836, Westerfield, Ipswich – January 4, 1919, Hastings) was an English novelist, travel writer and Francophile, and also a prolific poet. In addition she wrote several children’s books and corresponded with well-known English male poets of the day.
اپنی ابتدائی شاعری میں اقبال نے مغربی شاعروں سے بھر پور استفادہ کیا۔ اس کے متعلق لکھتے ہیں۔
"میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل، اور ورڈ سورتھ سے بہت استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ غالب اور بیدل نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ مغربی شاعری کے اقدار کو سمولینے کے باوجود اپنے جذبہ اور اظہار میں مشرقیت کی روح کو کیسے زندہ رکھوں اور ورڈسورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچالیا”
اقبال کے خیالات اور اندازﹺ بیان میں مغربی افکار کی جھنکار سنائی دیتی ہے۔ ان کا حوالہ اقبال نے اشارتاً دیا ہے نہ صراحتاً۔ خیالات کے علاوہ اقبال نے کلام کی موسیقیت اور آہنگ میں بھی مغربی شاعروں سے استفادہ کیا۔ اقبال نے اپنے اسلوب میں صوتی حسن پر جو توجہ دی ہے اس کے لیے بقول ڈاکٹر سید حسین، ٹینی سن کے برائے راست یا بالواسطہ اثر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ﴿ تحقیق اور حاصل تحقیق ﴾
۱۔ سلسلہ نشان ۲،۵،۸،۹ اور ۱۰ کی حد تک اقبال نے اصل انگریزی شاعر کی نشاندہی کی اور علی الترتیب ماخوذ لکھااز ایمرسن، از ولیم کوپر، ماخوذ از لانگ فیلو۔ ماخوذ ٹینی سن، ماخوذ ایمرسن لکھا لیکن انگریزی نظموں کا عنوان ظاہر نہیں کیا۔
۲۔ دوسرے رمزے میں سلسلہ نشان ۱، ۳، ۴، ۶ کی نظمیں ہیں جن کی حد تک اقبال نے صرف ماخوذ لکھنے پر اکتفا کیا ۔
۳۔ تیسرے رمزے میں سلسلہ نشان ۷، ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴، اور ۱۵ کی نظمیں شامل ہیں، جن کے ساتھ اقبال نے ماخوذ نہیں لکھا لیکن ایک پرندے کی فریاد اور جگنو آزاد ترجمہ ہے اور بقیہ نظمیں ماخوذ کی تعریف میں آتی ہیں۔
اردو شاعروں میں اقبال شاید پہلے شاعر ہیں جنہوں نے ماخوذ کی اصطلاح استعمال کی اور اس اصطلاح کو ماخوذ نظموں کے لیے بھی استعمال کیا اور منظوم ترجموں کے لیے بھی ۔
یہاں ماخوذ اور ترجمے کا فرق ذہین میں رکھنا ضروری ہے۔ ماخوذ نظمیں منظوم ترجمہ کے حدود سے باہر ہیں اور ان پر منظوم ترجموں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ منظوم ترجمہ کرتے ہوئے اگر شاعر آزاد ترجمہ مطابق اصل نہ ہو بلکہ اصل نظم سے صرف بنیادی خیال و ہئیت کو اخذ کیا جائے اور شاعر اپنی تخلیقی صلاحیت کو کام لاتے ہوئے صرف بنیاد خیال کے اطراف اپنی تخلیق کو پیش کرے تو اس نظم کو ماخوذ کہیں گے۔ ماخوذ نطم کو شاعراگر منظوم ترجمہ قرار دے تو ہم جہاں تک ترمہ کا تعلق ہے اس کو ناکام کوشش قرار دیں گے۔ لیکن اگر یہ ادعا نہ کرے کہ منظوم ترجمہ ہے تو پھر بہ حیثیت ماخوذ اس کے معیار کا تعین کیا جا سکے گا۔ ﴿۶﴾
اقبال نے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا اور منظوم ترجموں کو بھی ماخوذ کہا ہے، جبکہ صرف سلسلہ نشان ۵، ۷، ۹، ۱۱، ۱۳، اور ۱۵ کو ہم ماخوذ کے رمزے میں شریک کر سکتے ہیں۔
متذکرہ بالا نظموں کے من جملہ ۸ ماخوذ نظموں کو چھوڑ کر بقیہ ۷ نظمیں منظوم ترجمے ہیں۔ یہ سب منظوم ترجمے ۱۹۰۵ ء سے قبل کے ہیں۔ اقبال نے اپنے ترجمون میں آزادی سے کام لیا ہےاور ان کے سب ترجمے آزاد یا نیم آزاد کی تعریف میں آتے ہیں۔ اقبال کے اپنے معیاراور اعلیٰ تخلیقی صلاحیت کے پیش نظر ان کے لیے ممکن نہ تھا کہ اصل نظم کے پابند ہو جاتے، انہوں نے ان منظوم ترجموں میں انگریزی نظموں کے خیالات سے استفادہ کیا ، لیکن بسا اوقات اپنی نظموں کی تشکیل اپنے ذاتی اور فکری رجحان کے تحت کی۔ اقبال کے سب ترجمے وفادارانہ نہ سہی۔۔۔ خوبصورت یقیناً ہیں۔
اقبال کے تمام منظوم ترجمے نہ صرف اردو شاعری کا جزو بن گئے ہیں بلکہ یہ مختصر ذخیرہ اتنا قیمتی ہے کہ اردو شاعری اس پر ناز کر سکتی ہے۔ یہ منظوم ترجمے زبان و بیان کی لطافت و شیرینی مضامیں کی ندرت اور خیالات کی نزاکت کے اعتبار سے قاری کو اس طرح متا ثر کرتے ہیں کہ وہ ترجمہ نہیں بلکہ اصل تخلیق معلوم ہوتے ہیں۔ اگر اقبال اشارتاً یا صراحتاً حوالہ نہ دیتے تو یہ پہچا ننا مشکل تھا کہ یہ تخلیقات اقبال یا انگریزی شاعروں کی ملکیت ہیں۔
اقبال کی نظم "پیام صبح” لانگ فیلو کی نظم” ڈے بریک” کا آزاد ترجمہ ہے۔ اصل نظم میں لانگ فیلو نے طلوع آفتاب کا ذکر مکالمہ کے انداز میں کیا ہے۔ اصل نظم کے مطابق سمندر سے نسیم صبح آتی ہے اور شبنم سے جہازوں ، زمین سے، جنگل سے پرندوں سے، مرغ خانہ سے کھیت سے اور گھنٹہ سے مخاطب ہو کر جگاتی ہے اور صبح کا پیام دیتی ہے۔ لیکن قبرستان پر سے گزرتی ہے تو کہتی ہے ابھی آرام کرو ۔ یہ مخاطبت شاعر نے نسیم صبح کے الفاظ میں بیان کی ہے۔ اٹھارہ مصرعوں کی نظم کا ترجمہ اقبال نے اٹھارہ مصرعوں ہی میں کیا ہے۔ اقبال کی نظم "پیام صبح” کے مطابق نسیم صبح بلبل کو، دہقان کو، برہمن و موذن کو ، غنچہ و گل کو ، قافلہ والوں کو پیام صبح دیتی ہے۔ اصل نظم میں تمام پیام نسیم سحر کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اقبال ابتدائی حصہ میں طلوع سحر سے متعلقہ مناظر کی عکاسی خود کرتے ہیں۔ البتہ بعد کے حصہ میں نسیم سحر یا نسیم صبح کی بجائے نسیم زندگی کہہ کرطلوع سحر کو وسیع تر مفہوم میں استعمال کیا، چنانچہ موذن سے اور اہل قافلہ سے نسیم زندگی کی مخاطبت میں بھی ان وسیع معنوں کی طرف صاف اشارہ ملتا ہے۔
اقبال کی نظم "ماں کا خواب ” ولیم بارنس کی نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴾The Mother’s Dream ﴿ کا پابند ترجمہ ہے۔ گو اقبال نے اصل نظم کے مقابلے میں کچھ زیادہ تفصیلات پیش کی ہیں پھر بھی اس کو پابند ترجمہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس ترجمہ کو صرف اقبال کا مکمل اور کامیاب ترجمہ کہہ سکتے ہیں، بلکہ انگریزی سے اردو
میں جو کامیاب ترجمے ہوئے ہیں ان میں اس کو با آسانی شریک کر سکتے ہیں۔
اقبال کی نظم "مکڑا اور مکھی” Mary Haworthکی نظم The Spider and The Fly کا آزاد ترجمہ ہے۔ اصل انگریزی نظم چالیس سطروں ﴿مصرعوں﴾ پر مشتمل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کہ اقبال کا منظوم ترجمہ ۲۴ اشعار پر مشتمل ہے۔ ایک ہم ترجمہ ناظم انصاری کی کاوش کا نتیجہ ہے جو ۵۴ اشعار پر مشتمل ہے۔
اقبال کے تین شعر زائد ہیں جو اصل سے مطابقت نہیں رکھتے۔
"مکڑے نے کہا واہ فریبی مجھے سمجھے”
مکڑے Pantryکے تعلق سے جو کہا اس کا ذکر اقبال کے ترجمہ میں نہیں ہے۔ انگریزی نظم میں مکھی خوشامد کی باتیں سن کر چلی جاتی ہے اور مکڑی کی توقع کے مطابق واپس ہوتی ہے۔ اقبال کے منظوم ترجمہ میں خوشامد کی باتیں سن کر مکھی پسیج جاتی ہے اور اسی وقت مکڑی کے جال میں پھنس جاتی ہے۔ اقبال کی نظم کے یہ اشعار
مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
یہ اصل سے زائد ہیں ، اصل نظم کا Theme یہ ہے کہ مکری اپنی چیزوں کی تعریف کرتی ہے اور مکھی کو بلاتی ہے تو مکھی انکار کرتی ہے۔ تب مکڑی مکھی کے پروں اور اس کی آنکھوں کی تعریف کرتی ہے اور کہتی ہے کہ میرے پاس ایک آئینہ ہے اگر تم میرے پاس آو تو خود دیکھ لوگی ۔ اس پر مکھی شکریہ کر کے پھر کبھی آنے کا وعدہ کرکے اڑ جاتی ہے ۔ چنانچہ مکڑی جالا تان کر رتیار رہتی ہے۔ جب حسب توقع مکھی آتی ہے تو مکڑی خوشامد کی باتیں کرتی ہے ۔ مکھی ان باتوں میں آکر جال میں پھنس جاتی ہے۔
اقبال کا منظوم ترجمہ ” رخصت اے بزم جہاں” ایمرسن کی نظم Good Bye کا منظوم ترجمہ ہے۔ بقول ایس جالب مظہری یہ ترجمہ تخیلی شاعری کی مثال ہے۔
ڈاکٹر اکبر حسین قریشی ” تلمیحات و اشارات اقبال ” میں ہمدردی کے بارے میں اعتراف کرتے ہیں کہ اس عنوان کی نظم” کوپر” کے مجموعہ کلام میں نہیں مل سکی۔
اقبال نے اپنی دونوں نظموں میں ولیم کوپر کی ایک ہی نظم کے خیال کو الگ الگ استعمال کیا ہے، ہمدردی کو ہم ماخوذ قرار دے سکتے ہیں جب کہ "ایک پرندہ اور جگنو” آزاد ترجمہ ہے۔ اس منظوم ترجمہ میں مفہوم کو باقی رکھتے ہوئے لفظی ترجمے سے اجتناب کیا گیا ہے۔ اس کے بولتے فقرے پر کیف ہیں ۔ زبان کی صفائی کا یہ عالم کہ پورا منظوم ترجمہ پڑھ جائیے کوئی لفظ ایسا نہیں ملے گا جو ذرا بھی کھٹکے۔ کوئی ترکیب ایسی نہیں ملے گی جو ذرا بھی گراں گزرے۔ اقبال کے دوسرے منظوم ترجموں کی طرح اس نظم میں بھی انگریزی خیالات اردو کے نفیس سانچوں میں ڈھل کر نکلتے ہیں۔
اقبال سے پہلے بانکے بہاری لال نے ” حکایت بلبل اور شب تاب کی ” ﴿۴۶:۹﴾ اور رحیم اللہ نے بلبل اور جگنو کی حکایت ﴿۴۷:۹﴾ کے عنوان سے منظوم ترجمے کئے تھے۔ یہ نہیں معلوم کہ یہ ترجمے اقبال کی نظر سے گزرے تھے یا نہیں ۔ تین ا ہم ترجمے یعنی "بدرالزماں بدر” کا ترجمہ "عندلیب اور کرمک شب تاب” ﴿۶۳:۳﴾ نسیم کا ترجمہ "بلبل اور جگنو” ﴿۵۱:۷﴾ اور سعید الدین خاں سعید کا ترجمہ ” بلبل اور جگنو” ﴿۵۱:۷﴾ بعد کے ہیں۔ ان تمام ترجموں میں اقبال کے منظوم ترجمہ کو خاص امتیاز حاصل ہے۔
اقبال کے منظوم ترجمے کے مقام کا تعین کرنے کے لیے اصل نظم کے ایک بند کا ترجمہ اقبال اور دوسرے شاعروں نے کس طرح کیا ہے اس کا تقابلی مطالعہ معاون ہوگا۔ مثلاً انگریزی نظم کا ایک بند ہے ۔۔۔۔۔
انیسویں صدی کے آخری دو دہایوں میں اردو شاعری کی اصلاح کی جس تحریک کا آغا ز ہوا اس سے اقبال بڑی حد تک متاثر ہوئے۔ اقبال کی شخصیت اور ان کے فن کی عظمت کی وجہ سے بیسویں صدی کی ابتداء ہی سے اقبال کی شاعری کے اثرات صاف دکھائی دیتے ہیں۔ جو نئے رنگ اردو زبان کو دئیے ان سے دوسرے شاعر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اقبال نے اپنے منظوم ترجموں میں مروجہ سانچوں ہی کو استعمال کیا اور ہئیت میں نئے تجربے نہیں کئے لیکن اپنی شاعری و نیز منظوم ترجموں میں جو اسالیب پہلی بارانہوں نے استعمال کئے ان سے ان کے ہم عصر اور بعد کے شاعر متاثر ہوئے۔
رفیع رضآ”

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.