سائینسی دریافتیں

دو طرح کی سائینسی دریافتیں ھوتی ہیں۔ایک جسپر سب متفق ھوں اور ثبوت سمجھ آئیں۔ ایک وہ جو ایک ٹیم کا خیال ہو اس لئے یوروپ کے کسی اخبار رسالے ویب سائٹ سے کسی ٹیم کا اپنا خیال سائینسی دریافت کی مد میں ڈآلنے کی جلدی نہ کیا کریں۔
جیسے آپ دوسرے معاملات زندگی میں دیکھتے ہیں لوگ مختلف نظریات رکھتے ہیں۔انکے نظریات میں انکے علاقے اور سماج اور مذھب وغیرہ کا اثر بھی شامل ھوتا ھے۔ ھزاروں عیسائی ریڈیو ٹی وی پر بتاتے ہیں کہ عیسی کا ھیولہ دیکھا۔۔ مریم کا ھیولہ دیکھا وغیرہ۔۔۔اسی طرح مسلمان بھی اپنے بزرگان کو دیکھتے ہیں۔۔یہ بالکل آسانی سے سمجھنے کی بات ہے ،،انسانی دماغ کو کسی اور کی ترغیب اور خود اپنی ترغیب پر ایسے فریبی مناظر دیکھائے جا سکتے ہیں۔
تحلیل نفسی اور ھپناٹزم اجتماعی اور انفرادی اثر رکھتا ھے۔ عامل معمول سے کہے کہ تمھیں درد ھو رھا ھے تو وہ درد سے چیخے گا۔۔حالانکہ نہیں ھو رھا ہوتا۔۔۔کوئی چینی زبان بولنا شروع کردیتا ھے چینی نہیں ھوتی لیکن وہ ایسے ھی بولتا ھے جیسے سچ مچ چینی ھو۔۔۔اسکے ریکارڈ کر کے بعد میں دکھایا جائے کہ دیکھو معمول بن کر تم کیا احمق کام کر رھے تھے۔۔۔جوتے چاٹنا۔۔۔زمین کو چاٹنا سمیت مزاحیہ کام عامل کرواتے ہیں۔۔
سمجھانے کی کوشش یہ ہے کہ جو آپ پڑھ کر سمجھتے ہیں وہ کافی نہیں ھوتا ۔۔مزید سمجھنے کی کوشش کرنی چائیے مگر بےلاگ کوشش ھو۔۔یہ نہ ھو کہ غزالی کی طرح اقبال کی طرح اپ کسی منظر ، معاملے ، ایونٹ یا phenamenon ..
کو ھستی ، اور حواس خمسہ اور علوم کی مدد سے سمجھا کریں۔
یاد رکھیں کہ کسی گتھی کو اور خاص کائنات و حیاتیاتی گُتھی کو سلجھانے کی کوشش کرنے والے دو گروہ ھوتے ہیں۔۔
1۔۔۔ خالص فلسفی
2۔۔۔ متکلم۔۔۔۔یا مذھب و عقیدے ہی کی روشنی میں پرکھ والے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خالص فلسفیوں میں ارسطو، افلاطون نیوٹن۔۔سقراط،،مارکس، ، ھیوم وغیرہ ۔۔۔۔ فلسفے کے عظیم رھنما تھے۔۔انکا فلسفہ عمومی طور پر کسی مذھب سے مبرا تھا۔۔
متکلم اور سُوڈو فلسفیوں میں آپ نے بہت سے نام بطور فلسفی کے سنے ہیں لیکن اصولی طور پر یہ لوگ اوریجلن فلسفی نہیں کہلا سکتے کیونکہ یہ لوگ کسی اخلاقی قید، عقائد، مذھب، رسم کے تحت کسی منظر کی تشریح کرتے ہیں۔
مسلمانوں میں غزالی کا فلسفہ جس سے اقبال متاثر ھوا وہ معلوم و نامعلوم کو اسلامی عقیدے ، قران وغیرہ سے دیکھنے دکھانے سمجھانے کے اسیر تھے۔ غزالی ایک طرف سائینسی نظریات کی سچائی سے متاثر تھا مگر دوسری طرف اسے بطور متکلم فلسفی اپنے عقیدے کو سچا ثابت کرتے ھوئے سائینس کو پرکھنا تھا یا سائینس کے نظریات کی پرکھ اس طرھ سے کرنی تھی جسکی وجہ سے اسکا یہ سُوڈو فلسفہ ایسی ہی کشمکش کا شکار نظر آتا ہے جیسے کہ اسکا عکس بعد میں اقبال کی شاعری اور ایک دو خطبات میں نظر آتا ھے۔ اقبال کی شاعری میں ایک طرف مغرب کی سائینسی علمی چکاچوند سے محبت و نفرت کا اکٹھا رشتہ ہے۔دوسری طرف وہ ملت کا نام لیکر سب سے بڑی تاریخی و عقلی غلطی یہ کرتا ہے کہ ھر نسل کے مسلمان کو ایک ملت شمار کرتا ھے۔مین نہایت حیران ھوتا ہوُں کہ اقبال کا مطالعہ اسلامی تاریخ کے بارے اتنا کم کیوں تھا؟۔۔ اقبال کو خوب پتہ ھونا چاھئیے تھا کہ بانی اسلام نے جب مکہ کو تلوار سے فتح کر لیا تو مکہ کے ماضی کے بزرگ قبائل سمجھنے والے قبیلے کے لوگوں کو خاص مراعات دیں۔۔اس سے پہلے جنگ بدر اور یہودیوں کے قلعوں اور انکی میراث کے اموالِ غنیمت کو ھمیشہ قبیلہ قریش۔۔بنو ھاشم۔۔بنو امیہ وغیرہ میں زیادہ حصہ کیساتھ تقسیم کیا گیا۔۔جبکہ مدینہ کے انصآری نوجوان جنکو مالِ غنیمت کا لالچ دیکر ساتھ رکھا گیا تھا انہوں نے احتجاج بھی کیا کہ ھمیں کچھ بھی نہیں دیا یا بہت کم دیا ہے۔ جسپر کہا کہ تمھیں اللہ کا رسول کافی نہیں۔۔۔ یعنی بنو قریش امیہ وغیرہ کو اللہ کا رسول کافی نہیں تھا اس لئے مال دیا گیا؟
کہنا یہ چاھتا ہؤں کہ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ھمیشہ نسل کی علیحدگی پسندی دنیا میں رایج رھی ہے۔جب کوئی کال پڑتا ھے تو ھمیشہ ایک نسل والے الگ ھوجاتے ہیں۔ ۔۔بانی اسلام کی موت پر انکے لاش کو تین دن چھپانا بھی بتاتا ھے کہ مسلمانوں میں ھرگز اتحاد نہ تھا۔وہ کبھی بھی ایک ملت نہ رھے اور آپس میں شدید قتال کیا۔۔۔اس سے بڑھ کر کیا بات ھو سکتی ہے کہ عائشہ اور علی کے جنگ ھوئی؟؟؟؟؟؟
تو اقبال کونسی ملت کی بات کرتے رھے؟
واپس فلسفے کی جانب چلتے ہیں۔۔کہ سوڈو فلاسفی اور متکلم فلاسفی کا خاصہ یہی ھوتا ہے کہ محدود دائرے میں کسی چیز خیال نظریہ ،،شواھد کی پرکھ کی جائے۔چھوٹی سی بات ہے آپ کسی کو یہ کہیں کہ دانت اس لئے صاف کرنے چاھئیں کہ دانتوں مین بیکٹیریا کی زیادہ گروتھ سے کیڑا لگ جائے گا۔۔اور صحت متاثر ھوگی۔۔۔یا متکلمانہ یا مذھبی نصیحت یہ ھوگی کہ اللہ نے کہا ہے کہ دانت صآف کرو۔۔یا اسوہ رسول کی پیروی کرو۔۔تاکہ جنت مین جاؤ۔۔۔۔
اب معمول دونوں طریق پر یہاں فائدہ اٹھاتا ھے۔چاھے سائینسی سوچ پر یہ کام کرے یا مذھبی طور پر کرے۔۔
تاھم ھر بار یہ فارمالہ کامیاب نہیں ھوتا ۔۔۔جب ایسا ھو تو فلسفی یا سائینسی مزاج کی نصائح بظاھر مذھبی نصآئح پر سبقت لیجاتی ہیں۔۔اس سبقت کو توڑنے کے لئے مذھبی فلسفی کوئی بات کہیں سے کھینچ کر لاتا ھے۔۔۔تاکہ اس غیر مذھبی سبق کو توڑا جائے۔۔۔ اور چونکہ سائینسی رویہ عمومی تجربے میں درست ثآبت ھوتا ھے تو مذھبی فلسفی پہلے پہل ایک متضاد رائے رکھتا ھے۔ پھر جب دیکھتا ہے کہ عموم میں یہ طریق رائج بھی ھوچکا پسند بھی کر لیا گیا تو ۔۔۔مذھبی فلسفی پہلے جو اس طریق کا مذھبی انکار کر رھا تھا۔۔وہ یکسر بات کو پلٹ کر اسی طریق کو جائز مان لیتا ہے تاھم مکمل شکست سے فرار کے لئے کچھ شرائط لگا دیا ہے۔۔
آئیے زندہ امثال دیکھتے ہیں۔
چھاپہ خانے بنے او بائیبل اس مین چھپی تو مذھب نے شور کردیا ۔۔کتابیں جلانے لگے کہ یہ اللہ کے حکم کی حکم عدولی ہے۔بجلی سے بچاؤ کے آلے چرچوں مین لگائے گئے تو چیخ پڑے خدا کے کام مییں رکاوٹ ہے۔
نقاشی تصویر کشی کو خدا کے مقابل صنعت کی کوشش کہہ کر منع کیا گیا۔۔حرام قرار دیا گیا۔۔ موسیقی کو حرام قرار دیا گیا۔۔
تاھم وقت گزرنے کے ساتھ مذھب نے گانے خؤد چرچوں میں گانے شروع کئے اور کہا۔۔موسیقی صرف خدا کی حمد کے لئے جائز ہے تاھم بعد میں یہ اصرار بھی معدوم ھوگیا۔۔پس چھاپہ خانوں کو خود مذھب نے اختیار کیا اور اسوقت بھی شاید مذھبی کتابون کی تعداد دوسری کتابون سے زیادہ ھوگی۔ اور کا نہیں تو پاکستان کی لائیبریریوں میں کثیر تعداد مذھبی کتابون کی ھی نظر آتی ہے۔ تی وی پر تمام مذاھب کے مُلاں چوبیس گھنٹے پروگرام کرتے ہیں۔۔تصویر کشی سے منع کروانے تصاویر بناتے اور بنواتے ہیں۔۔
یہ عام سی امثال اس لئے دی ہیں کہ تمام قارئین کے لئے سمجھنے میں آسانی ھو کہ فلسفہ اور فلسفی کی پرکھ کیسے کرتے ہین۔ کیسے کسی غیر فلسفی کو فلسفی نہین کہنا چاھئیے۔۔ اقبال کا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی 60 سال سے اسقدر جھوٹ اقبال کی شخصیت اور شاعری کو ملا جلا کر پیش کیا گیا ہے کہ کثیر تعداد پاکستانیوں کی اس عظیم غلطی فہمی سے دوچار ہے کہ شاعر سر محمد اقبال کوئی عالمی فلسفی یا کوئی بہت بڑے مجتہد عالم تھے۔ یا وہ انگریزوں کے خلاف تھے۔۔یا انگریزوں سے انہوں نے آزادی لینے کی خواھش ہی نہیں شاید جدوجہد بھی کی ہو۔۔۔یعنی ایک غلیظ بہتان ایک عمدہ شاعر پر لگایا گیا ہے جسکی درستی بارھا خود جناب جاوید اقبال نے کرنے کی کوشش کی کہ میرے والد اقبال ھرگز ایسے نہیں تھے۔۔نہ تو وہ بڑے مذھبی تھے۔۔کہ پنج وقتہ نمازیں پڑھتے ہوں۔۔۔نہ وہ حج پر گئے کبھی کبھار روزہ رکھ لیتے تھے۔،،وہ قرآن سامنے رکھ کر روتے دھوتے نہین تھے۔۔انہوں نے کبھی الگ آزاد ملک کا مطالبہ نہین کیا بلکہ صفائی الگ سے دی کہ ارے او انگریز گورنر ! میری مجال کہ میں سرکار انگلشیہ جس نے مجھے سر کا خطاب دیا ہے پھر میرے کہنے پر میرے استاد کو بھی خطاب دیا تو میں کیوں الف وطن چاھوں گا ۔۔ھان کچھ علاقے جہاں مسلمانون کی کثرت ہے اس طرف کو ھندووں سے الگ کردیں۔ مگر سرکار آپ انگلیشیہ کی ھوگی۔۔۔ یہ خط نہ صرف لکھا بلکہ بطور اشتہار خصوصی اخبار مین بھی چھپوایا تاکہ سند رھے۔۔
اب اس تاریخ سچ کو پاکستانی تسلیم نہیں کرتے۔۔۔اور وجہ میں پہلے بیان کر چکا ہُوں۔۔۔جب کوئی عامل اپنے معمول کو مسلسل تحلیل نفسی کر کے کچھ رٹاتا ہے تو معمول وھی سمجھتا ھے جو اسے رٹایا گیا ہوتا ھے۔
ابن رشد کی مخالفت کی وجہ بھی یہی تھی۔۔ غزالی مزھب کے دائرے میں جو سمجھنا چاھتا تھا ابن رشد وُہ ریاضی اور طبیعات کی روشنی میں سمجھانا چاھتا تھا۔ اس لئے اقبال نے جو کہا کہ فلسفے میں رُوحِ غزالی نہ رھی تو وہ کہنا یہ چاھتا ھے کہ فلسفہ اور سائینس نے انسانی جسم اسکی حسیات اور کائناتی نظام اور پیریاڈک چارٹ اور جینیات وغیرہ کی وضاحت کی ہے اس وضاحت میں یہ شامل نہیں کہ اللہ نے ایسے بنایا ۔۔پھر ایسے بنایا پھر ایسے بنایا۔۔۔وغیرہ۔۔۔ یعنی اللہ کی شمولیت نہ ھونے سے فلسفہ کھوکھلہ ھوگیا۔
تھوڑی دیر کے لئے اقبال کی زندگی پر نظر ڈالیں تو عجب معاملہ نظر آتا ھے ایک پرشکوہ شاعر۔۔۔رقص کا دلدادہ۔۔موسیقی کا دلدادہ۔۔۔،عورت کے حسن کا شدید دلدادہ اور پہلی بیوی سے جنسی رومانی کمی کا معترض۔۔۔۔ اپنے گھر سے باھر کی تعلیم یافتہ و لبرل مزاج خواتین کا عاشق بندہ تھا۔۔۔ایک کو چھوڑ کر تین شادیاں کیں۔اپنی بیٹی کو کالج یا ھائی سکول نہ جانے دیا گھر مین پرائمری یا مڈل کی تعلیم دلوائی اور بس۔۔۔اسی طرح ابتدا میں مغربی شاعری سے شدید متاثر ھو کر خود کہا کہ میں اگر ورڈزورتھ کی شاعری نہ پڑھتا تو دھریہ ھوجاتا۔۔۔یہ نہیں کہا کہ میں قرآن پڑھ کر یا حدیث پڑھ کر یا کسی مذھبی قول کو پڑھ کر دھریہ ھونے سے بچا۔ بلکہ کہا کہ ورڈزورتھ کی قدرتی ماحول کی خوبصورت شاعری نے مجھے کافر ھونے سے روکا۔۔
اب غور کریں تو پاکستان کے پیش کردہ اقبال کی جعلی تصآویر ،،رحل پر قرآن دھرے سوچون میں غرق اقبال کا تصور کسقدر بد دیانت تصور ہے۔
پچھلے دنوں پروفیسر ھُود بھائی سے ایک انٹرویو میں اقبال کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا بطور شاعر انہیں پسند ھے اسکے خیالات جہان سائیسن کا تذکرہ ہے انہیں پسند ہیں۔انہوں نے کہا ستاروں پر کمند ڈالنے والے خیال بھی اس قدر میں شامل ہیں۔چونکہ ھُود بھائی سائینسی تحقیق زیادہ کرتے ہیں اس لئے انہون نے شاید یہ تحقیق ابھی نہیں پڑھی کہ اقبال کہ یہ خیالات ھرگز ھرگز اور ھرگز اقبال کے اپنے نہیں بلکہ خود اقبال نے لکھا کہ خوشحال خان خٹک کا نوجوانوں سے خطاب۔۔۔اور اس میں تامم ارشد اشعار خٹک کی اپنی شاعری کا ترجمہ و تشریح پر مشتمل ہیں۔
یعنی جو خیال اقبال کا ہے ھی نہیں اُس پر بھی پاکستان میں اقبال کی تعریف کی جاتی ہے جیسے لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اصل میں انگریزی شاعری میٹلڈا کی حمد کا ھو بہو معنوی ترجمہ ہے۔
آئیے حوالہ بھی دے ہی دوں ۔۔یہ مضمون اب قسطوں میں چلے گا
میٹیلڈا بیتھم ایڈورڈ ۔۔۔ایک مشہور شاعرہ کی یہ حمد تھی۔۔۔۔۔
Matilda Betham-Edwards was an English novelist, travel writer and francophile. She was also a prolific poet and wrote several children’s books. She also corresponded with well-known English male poets of the day. WikipediaBorn: March 4, 1836, England, United KingdomDied: January 4, 1919, Hastings, United Kingdom
Hymn for a Little Child
God make my life a little light,
Within the world to glow;
A little flame that burneth bright,
Wherever I may go.
God make my life a little flower,
That giveth joy to all,
Content to bloom in native bower,
Although its place be small.
God make my life a little song,
That comforteth the sad;
That helpeth others to be strong,
And makes the singer glad.
God make my life a little staff
Whereon the weak may rest,
That so what health and strength I have
May serve my neighbours best.
God make my life a little hymn
Of tenderness and praise;
Of faith – that never waxeth dim,
In all his wondrous ways.
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جاے
ہر جگہ میرے چمکنے سےاجالا ہو جاے
ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
میرے اللھ براٴیی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو
۔۔۔۔
پہلے اقبال نے اسکا ترجمہ کیا تھا جو مختلف تھا اور ترک کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔
آپ میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں کہ اقبال نے جب میٹلڈا کی حمد کا ترجمہ کیا، جسے لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنّا میری۔۔۔کی صورت میں گایا گیا اور مشہور ھو گیا۔۔۔اُسی نظم کا دوسرا ترجمہ بھی اقبال نے کیا تھا۔۔جو مخزن میں شائع بھی ھوا تھا۔۔۔۔میٹلڈا کی نظم یہ تھی۔۔
She was also famous well known name for children poetry like Iqbal often did in his books of poetry.علامہ اقبال کی مشہور نظم ۔۔۔۔۔لب پہ آتی ھے دُعا بن کے تمنا میری
مشہور شاعرہ میٹیلڈا بیتھم ایڈورڈ کی انگریزی نظم کا ترجمہ ہے
Hymn for a Little ChildGod make my life a little light
Within the world to glowA little flame that burneth bright
Wherever I may goGod make my life a little flower
That giveth joy to allContent to bloom in native bower
Although its place be smallGod make my life a little song
That comforteth the sadThat helpeth others to be strong
And makes the singer gladGod make my life a little staff
Whereon the weak may rest
That so what health and strength
I haveMay serve my neighbors bestGod
make my life a little hymnOf tenderness
and praiseOf faith – that never waxeth
dimIn all
his wondrous ways
۔۔بچّے کی دعا
میری خوشبو سے معطر ہو زمانہ سارا
بن کے بلبل ہو مرے حسن پہ دنیا شیدا
علم دنیا کے چمن میں ہو اگر گل کی طرح
میں چہکتا رہوں اس پھول پہ بلبل کی طرح
دکھ اٹھائے مرے ہاتھوں سے نہ جاندار کوئی
اے خدا عمر اسی طرح بسر ہو میری
دکھ بھی آ جائے تو ہو دل نہ پریشاں میرا
شکر ہر حال میں ہو میری زباں پر تیرا،
اقبال۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد رھے اقبال کے علاوہ دو اور شعرا نے بھی اس انگریزی نظم کا ترجمہ کیا تھا مگر وہ تراجم مقبول نہ ھوسکے۔کیونکہ اقبال بہرحال ایک نہایت قادر الکلام شاعر تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں اصل بات کی طرف لوٹتے ہیں کہ اقبال کسی طور پر بھی خود فلسفی نہ تھے۔۔خالص فلسفی تو کیا وہ مذھبی متکلم بھی نہ تھے۔۔اور جزوی طور پر وہ فلسفے کے طالب علم ضرور تھے۔
پہلے بیان کیا تھا کہ اقبال یوروپ کی عطیم ترقی سے شدید مرعوب ھوئے کہان ھندوستان کہاں یوروپ، اقبال کو یوروپ سے محبت بھی ھوئی اور نفرت بھی ہوئی۔ محبت اس لئےکہ آزادی کا تصور اور انسانی خوشحالی اور عزت و رائے دھی کی آزادی انہین پسند آئی۔۔
لیکن اندر کے پنجابی ٹھیٹھ پنجابی باپ کے مذھبی ٹھیٹھ پن کی شکست انہین پسند نہ آئی۔۔وہ لفظ تراشنے لگے ھلے بہانے سے یوروپ کی تباھی کی پیشگوئیاں بھی شروع کردیں۔۔ وہ سپین کی مسجد جو مسلمانوں کے 800 سالہ ناجئز ترین قبضےکی نشانی تھی اس میں عربی اسلام ھندوستانی پیرائے میں ڈھونڈنے لگے۔۔۔لیکن اسکے ساتھ ساتھ انکو یہ بھی یاد رھا کہ بطور انسان انکا قدرتی حق ہے کہ وہ شہوتی تلذذ سے بھر پور زندگی گزاریں۔۔اسی لئے انہون نے عطیہ فیضی کو خط لکھا جس کے بارے ڈاکٹر خالد سہیل نے ایک مضمون میں ذکر ایسے کیا ہے۔۔
1908 میں جب اقبال مغربی تعلیم ختم کر کے ہندوستان لوٹے تو انہیں ایک نفسیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنے روایتی ماحول اور ناگفتہ بہ حالات سے اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ گھر اور ملک سے بھاگ جانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے۔ ان دنوں انہوں نے عطیہ فیضی کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اپنا حالِ دل رقم کیا ہے۔ اس خط کا ذکر عبدالجید سالک نے اقبال کی سوانح حیات ’ذکرِ اقبال، میں بھی کیا ہے کیونکہ وہ خط کئی حوالوں سے بعد میں اقبال کا مشہور ترین اور بدنام ترین خط ثابت ہوا۔ اس خط میں اقبال نے اپنی زندگی سے بیزاری اور غصے کا اظٖہار کیا ہے۔ اس خط میں انہوں نے اپنی ذہنی اذیت کا کچھ حد تک ذمہ دار اپنی بیوی کو قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے والد نے نوجوانی میں ان کی زبردستی شادی کر دی تھی اور وہ بندھن ان کے پائوں کی زنجیر بن گیا تھا کیونکہ اقبال اپنی بیوی سے ذہنی مطابقت محسوس نہ کرتے تھے۔ اقبال نے یہ بھی لکھا کہ کبھی کبھار وہ سوچتے ہیں کہ اپنے تمام دکھوں کو شراب میں گھول کر پی جائیں کیونکہ شراب خود کشی کو آسان بنا دیتی ہے۔ اقبال اپنے 9 اپریل 1909 کے خط میں رقم طراز ہیں ’ میں بیوی کو نان نفقہ دینے پر آمادہ ہوں لیکن میں اسے اپنے پاس رکھ کر اپنی زندگی کو عذاب بنانے کے لیے تیار نہیں۔ ایک انسان کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا پورا حق حاصل ہے۔ اگر معاشرہ یا فطرت میرے اس حق سے انکار کریں گے تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا۔ میرے لیے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں یا مے خواری میں پناہ ڈھونڈوں جس سے خود کشی آسان ہو جاتی ہے۔ کتابوں کے یہ مردہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اعماق میں اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ ان کتابوں کو اور ان کے ساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بنا سکتا ہوں،
اس خط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ان دنوں ایک شدید ذہنی بحران سے گزر رہے تھے اور ان کی ذات کی گہرائیون میں اپنی بیوی، روایتی خاندان اور فرسودہ روایات پر مبنی معاشرے کے خلاف چھپا ہوا غصہ سطح پر آ رہا تھا جسے وہ اپنی دوست اور محبوبہ کا بتا رہے تھے۔ عطیہ فیضی نے اس دکھ بھری خط کا نہایت ہمدردانہ جواب دیا اور مشورہ دیا کہ وہ ایک ماہرِ نفسیات سے رجوع کریں۔
جب ہم اقبال کی زندگی کے اس دور کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یورپ سے واپسی پر اقبال ایک دوراہے تک آ پہنچے تھے۔ وہ اپنی شادی سے ہی نہیں وہ اپنی ثقافت اور روایت سے بھی بد دل ہو گئے تھے۔ وہ ایک شدید نفسیاتی تضاد کا شکار تھے۔ ایک طرف انہیں خاندانی ذمہ داریوں کا احساس تھا اور دوسری طرف وہ یورپ کی آزاد طرزِ زندگی کے گرویدہ ہو گئے تھے جس میں اور کئی معاشرتی اور رومانوی نعمتوں کے ساتھ ساتھ عطیہ فیضی کی دل موہ لینے والی قربت بھی شامل تھی۔
عین ممکن ہے وہ دل کے نہاں خانوں میں عطیہ فیضی کو اپنانا چاہتے ہوں لیکن اتنی جراتِ رندانہ نہ رکھتے ہوں کہ اپنی محبت کا کھل کر اظہار کر پائے ہوں۔ انہوں نے اشارتاٌ تو لکھا کہ وہ اپنی بیوی سے ناخوش ہیں لیکن عطیہ فیضی بھی ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ عورت تھیں۔ وہ ایک دکھی شاعر، رنجیدہ فلاسفر اور پریشان حال شوہر سے ہمدردی تو کر سکتی تھیں انہیں اپنا شریکِ حیات نہیں بنانا چاہتی تھیں۔ انہیں اندازہ تھا کہ انہیں دوسری بیوی سے زیادہ ایک نفسیاتی معالج کی ضرورت تھی۔ عطیہ فیضی اقبال کی مداح ضرور تھیں لیکن جذباتی اور سادہ لوح نہیں تھیں۔
اقبال کو جب اندازہ ہو گیا کہ عطیہ فیضی انہیں اپنا شریکِ حیات نہیں بنانا چاہتیں اور وہ اپنی پہلی بیوی کے ساتھ رہ کر اپنی زندگی حرام نہیں بنانا چاہتے تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ انسانی نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناطے میں اس تکلیف دہ حقیقت سے بخوبی واقف ہوں کہ جب انسان نفسیایت بحران کا شکار ہو اور اس اس کے اندر غصے کا الائو روشن ہو تو وہ جو جذباتی اور رومانوی فیصلے کرتا ہے وہ دانشمندانہ نہیں ہوتے۔ یہی حال اقبال کا ہوا۔ انہوں نے اس نفسیاتی بحران سے نکلنے کے لیے دوسری شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور کسی کے مشورے پر سردار بیگم سے نکاح کر لیا۔ نکاح کے بعد ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ انہیں گمنام خطوط موصول ہونے شروع ہو گئے جن میں سردار بیگم کے کردار پر کیچڑ اچھالا گیا تھا۔ اقبال ان خطوط سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ انہوں نے سردار بیگم کو طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو سالوں کے وقفے کے دوران اقبال کی زندگی میں تین شادیوں اور دو بیویوں کا اضافہ ہوا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جب اقبال نے اپنی دوسری اور تیسری بیوی کو اپنے گھر میں یکجا کیا تو ان کی پہلی بیگم کریم بی بی نے بھی سیالکوٹ سے اپنے بچوں آفتاب اقبال اور معراج اقبال کے ہمراہ لاہور آنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ ایک وہ دور تھا جب اقبال لاہور میں اپنی تین بیویوں اور دو بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔
شاعرِ مشرق کی زندگی کا یہ وہ دور ہے جب وہ ایک محبوبہ، تین بیویاں اور چار شادیاں سے نبھاہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ چونکہ یہ طرزِ زندگی نفسیایت کے حوالے سے نہایت تکلیف دہ اور غیر حقیقت پسندانہ تھا اس لیے وہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ آخر ایک دن کریم بی بی کی والدہ سیالکوٹ سے تشریف لائیں۔ انہوں نے اقبال کو نہایت غیر ذمہ دار داماد قرار دیا۔ وہ اس قدر برہم ہوئیں کہ غصے میں اپنی بیٹی اور اس کے بچوں کو لے کر واپس چلی گئیں
اقبال کی سوانح عمریوں کے مطالعہ اور تجزیہ سے یوں لگتا ہے جیسے اپنی تینوں بیویوں میں سے وہ اپنی بیوی سردار بیگم پر سب سے زیادہ مہربان تھے۔ وہ تینوں بیویوں میں سے خوبصورت بھی سب سے زیادہ تھیں۔ اس رشتے سے ان کے دو بچے جاوید اقبال اور منیرہ اقبال پیدا ہوئے لیکن آہستہ آہستہ اس محبت کی آگ بھی سرد پڑنے لگی۔ وہ خاندانی ذمہ داریوں سے پوری طرح عہدہ برآ نہ ہو سکے۔ سردار بیگم کو اندازہ ہو گیا کہ علامہ اقبال ایک کامیاب شاعر اور نابغہِ روزگار فلسفی تو تھے لیکن ایک ناکام اور غیر ذمہ دار شوہر تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سردار بیگم کے خوابوں پر اوس پڑنے لگی اور وہ ناراض اور برہم رہنے لگیں۔ علامہ اقبال کے چھوٹے بیٹے جاوید اقبال نے اپنی سوانح عمری ’اپنا گریباں چاک، میں اپنی والدہ اور والد کے رشتے کی نقشہ کشی بڑی دیانتداری سے ان الفاظ میں کی ہے ’میری والدہ کا اصرار تھا کہ والد باقاعدگی سے وکالت کریں کیونکہ گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ نیز کرایہ کی کوٹھی میں رہنے کی بجائے اپنا گھر بنوائیں۔ یہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ والدہ میرے والد کے ذاتی کمرے میں کھڑی انہیں کوس رہی ہیں اور روتے روتے کہہ رہی ہیں کہ میں اس گھر میں ایک لونڈی کی طرح کام کرتی ہوں اور ساتھ ہی پیسے بچانے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں۔ دوسری طرف آپ ہیں کہ بجائے نیک نیتی سے کچھ کرنے کے،بستر پر دراز شعر لکھتے رہتے ہیں اور جواب میں میرے والد لیٹے ہوئے بغیر کچھ منہ سے بولے کھسیانی ہنسی ہنس رہے ہیں
اس تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ دنیا کے عظیم شاعروں، سیاست دانوں اور دانشوروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا شخص اپنی بیوی کے اعراضات کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر تھا۔ وہ بیوی اپنے آپ کو ملکہ سمجھنے کی بجائے لونڈی محسوس کرتی تھی۔ اگر پسندیدہ بیوی کا یہ حال تھا تو ہم تصور کر سکتے ہیں کہ دوسری بیویوں کے دل دلوں پر کیا بیتی ہوگی۔
علامہ اقبال ہندوستان میں تین بیگمات کے ساتھ زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ اپنی دوست اور محبوبہ عطیہ فیضی کو بھی متواتر خط لکھتے رہے۔ اقبال کی رومانوی زندگی ایک حوالے سے کئی اور مشرقی شاعروں کی زندگی سے مختلف نہ تھی جن کی محبوبہ کبھی ان کی بیوی نہ بن سکی اور بیوی کبھی محبوبہ نہ بن سکی۔
اقبال کبھی ہندوستان چھوڑ کر بقیہ زندگی گزارنے یورپ تو نہ گئے لیکن ساری عمر یورپی خواتین سے متاثر رہے اور وہ بھی ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار رہیں۔ وہ دور دور سے ان سے ملنے آتی تھیں۔ اقبال بھی بڑے تپاک سے ان سے ملتے اور اپنے اندازِ تکلم سے ان کا دل موہ لیتے۔ جاوید اور منیرہ کی والدہ کی وفات کے بعد انہوں نے کسی ہندوستانی خاتون کی بجائے ایک جرمن نژاد خاتون کو گھر میں رکھا تا کہ وہ بچوں کی نگہداشت کر سکے۔ وہ خاتون جرمن،انگریزی اور اردو تینوں زبانوں سے واقف تھیں اور بچے انہیں آنٹی ڈورسAUNTY DORIS کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ بچوں سے نہایت شفقت سے پیش آتیں۔ نفسیاتی طور پر یوں لگتا ہے جیسے ڈورس بچوں کو محبت مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اقبال کی یورپ کی نوسٹلجیا کی ضرورت بھی پوری کرتی تھیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اقبال نے اپنے فرزندِ ارجمند جاوید اقبال کے لیے بچپن میں ایک یورپی ماں تلاش کی لیکن جوانی میں ان سے شکایت کی
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلا تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
جاوید اقبال نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ ان کی والدہ کی وفات کے بعد ایک ہندوستانی عورت ان کا اور ان کی بہن کا خیال رکھنا چاہتی تھیں اور اقبال سے شادی بھی کرنا چاہتی تھیں لیکن اقبال نے اس عورت کی دعوت کو قبول نہ کیا۔
سالک ’ذکرِ اقبال، میں لکھتے ہیں کہ ایک ہندو عورت بھی اقبال کے عشق میں گرفتار ہو گئی تھیں۔ وہ ایک صاحبِ ثروت ڈپٹی کمشنر کی بیٹی تھیں جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہندو مردوں کی نسبت مسلمان مردوں کو زیادہ پسند کرتی ہیں۔ انہوں نے اقبال سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش کی اور رشتہ بھیجا لیکن اقبال نے انکار کر دیا۔
علامہ اقبال کی بہو رشیدہ نے، جن کی شادی اقبال کے بڑے بیٹے آفتاب اقبال سے ہوئی تھی، اپنے شوہر اور سسر کی سوانح میں اقبال کی زندگی کے بہت سےراز ہائے سربستہ سے پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے عبدالمجید سالک کے بیان کہ علامہ اقبال کو سردار بیگم کے بارے میں خطوط نبی بخش وکیل نے بھیجے تھے کو غلط ثابت کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ خطوط اقبال کی بہن کریم بی بی کی سازش تھے۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کا بھائی دوسری شادی کرے۔ انہیں ان کی پہلی بیوی سے، جو ان کی ہم نام بھی تھی، ہمدردی تھی۔ اقبال کی بہن نے ان کی بیٹی معراج سے خط لکھوائے اور کسی اور شہر سے پوسٹ کروائے تا کہ اقبال کو شک نہ ہو۔ کافی عرصہ بعد اقبال کو اپنی بیٹی معراج کا خط ملا تو انہوں نے معراج کی لکھائی پہچان لی۔ اقبال کو شک ہوا تو وہ سیالکوٹ گئے اور بیٹی سے سچ پوچھا تو اس نے اعتراف کیا کہ خط اسی نے لکھے تھے۔ اس طرح برسوں کا راز بے نقاب ہو گیا
راز کہاں تک راز رہے گا منظرِ عام پہ آئے گا
جی کا داغ اجاگر ہو کر سورج کو شرمائے گا
اس رومانوی ٹریجڈی کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب اقبال کی بہن اور بیٹی ایک سازش میں ملوث تھیں ان کی پہلی بیوی کو اس سازش کی بالکل خبر نہ تھی۔ وہ خاموشی سے آنسو بہاتی رہتی تھیں۔
نفسیات کا طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ جان کر بہت حیران ہوا کہ شاعرِ مشرق، جو ساری قوم کے مسائل کا حل پیش کرتے رہے، اپنے رومانوی اور نفسیاتی مسائل نہ حل کر سکے۔ میرے لیے یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ انہوں نے
۔۔۔ پہلی بیوی کریم بی بی سے سولہ برس کی شادی کے بعد علیحدگی اختیار کر لی اور ان کے بچوں سے کنارہ کش ہو گئے
۔۔۔ دوسری بیوی سردار بیگم کو گمنام خطوط پڑھ کر طلاق دے دی
۔۔۔ تیسری بیوی مختار بیگم سے شب زفاف کے بعد جانا کہ وہ غلط مختار بیگم تھی اور ۔۔۔ سردار بیگم سے دوسری بار نکاح کرنے سے پہلے کسی مولوی سے حلالہ کے بارے میں رجوع کیا، فتویٰ لیا اور پھر اس فتوے پر عمل بھی نہ کیا۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اقبال کی ذاتی زندگی اور انکے روز کے افعال انکی شاعری کے بعض چنیدہ اشعار سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں تعمیری تنقید کا ڈھب تو عام ھی نہیں ہے یا تو تعریفِ مسلسل ہے یا تنقیصِ مسلسل۔۔۔بین بین کوئی صورت نہیں۔۔اسی لئے جب میں اقبال کو بہت قادر الکلام شاعر کہتا ہوں تو سچ بولتا ہوں۔۔۔اور اس سچ کو سارے پاکستانی بھی مانتے ہیں۔۔تاھم جب میں اقبال کو فلسفے کا معمولی شخص کہتا ہوں یا ذاتی افعال میں قدرے منافق شخص کہتا ہوں تو لٹھ لیکر مجھ پر دوڑ اُٹھتے ہیں۔ یہ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کسی کو زبردستی ھیرو نہیں بنانا چاھئیے۔۔اگر اسکے اشعار مین سے ستاروں پر کمند ڈالےن والے شعر ملیں تو یہ نہین سمجھنا چاھئیے کہ اقبال کا اپنا خیال تھا۔۔یا شاھین کا خیال اسکا اپنا خیال تھا اور خوشحال خٹک کی نظموں کے ترجموں سے اقبال تک نہین پہنچا تھا۔۔یا مردِ مومن کا تصور اقبال نے جرمنی کے فلاسفر نیطشے کے مردِ کامل سے نہین لیا !
جوش ملیح آبادی سے لیکر عباس جلالپوری تک نے یہی لکھا کہ مرد کامل کو اقبال نے مرد مومن برتا ھے۔
(مضمون جاری ہے)
رفیع رضا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.