کوربانی یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ‘متاثرہ یا مظلوم’ ہے جو عبرانی اور ترک زبان میں بھی اسی طرح استعمال کیا جاتا ہے لیکن عربی میں اسکے حروف بدل کر ‘قربانی’ ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے مختلف مذاہب میں قربانی کی رسومات کے حوالے سے مختلف تعلیمات ملتی ہیں۔ جیسے تورات حکیم اور انجیل مقدس کے مطابق، خدا پیغمبر ابراہیم کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے اسحاق کو بطور قربانی پیش کریں۔ پیغمبر اسحاق کو مقدس پہاڑی، جو مسجد اقصٰی کے صحن میں ہے، پر واقع قربان گاہ پر باندھے جانے کے بعد، خدا کی طرف سے ایک پیامبر قربانی ہونے سے پہلے ابراہیم کو روکتا ہے، "اب میں جانتا ہوں کہ تم خدا سے ڈرتے ہو۔” ابراہیم نے دیکھا کہ ایک مینڈھا پاس کی جھاڑی میں کھڑا ہے اور اسحاق کی بجائے اس کی قربانی دی۔ اسی طرح ہندو، بودھ، جین، اور شنتو مذہب جانور کاٹنے کی ممانعت کرتا ہے۔
"
جانوروں سے محبت کریں، انہیں سوچ بچار کی مبادیات اور پُر سکون محبت کے احساس سے نوازا گیا ہے۔ اس میں خلل نہ ڈالیں، انہیں تنگ نہ کریں، ان سے ان کی مسرت نہ چھینیں. اے انسان، اپنے آپ کو جانوروں سے بلند نہ کر، گناہ وہ نہیں کرتے، یہ تو تُو ہے جو اپنی عظمت اور شان و شوکت کے زعم میں دھرتی کو اس پر اپنی موجودگی سے آلودہ کر رہا ہے اور اپنے نجس نشانات پیچھے چھوڑے جا رہا ہے. حیف، صد حیف، اس کا اطلاق ہم سب پر ہوتا ہے.” مشہور روسی ادیب فیودور دوستوئیوسکی نے اپنی کتاب کرامازوو برادران میں جانوروں کے بارے میں لکھا ہے۔
تمام انسان اس بارے میں کبھی نا کبھی ضرور حیران ہوئے ہوں گے کہ کس طرح کسی بلی کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کی خبروں پہ لوگ آنسو بہا سکتے ہیں لیکن پھر بھی مرغی کے گوشت سے بھرے ہوئے ڈونگے کھاتے انہیں کوئی پچھتاوا محسوس نہیں ہوتا جس کی خاطر کسی معصوم جاندار کو تکلیف اور موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا جواب "نوعیت پسندی یا سپیشیزم (Speciesism)” میں ہے ، یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس کے مطابق ایک نوع دوسری نوع سے زیادہ اہم ہے۔ یہ ذہنیت ہمارے معاشرے میں گہرائیوں سے قائم ہے، اور اس کے نتیجے میں ہر طرح کے منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ہماری پرورش کے دوران بیشتر انسانوں کو کچھ خاص انواع کو نگہداشت اور ہمدردی کے قابل اور دوسروں کو محبت اور رحم کے لیے نااہل سمجھنے کی شرط رکھی گئی ہے – یہ سب کچھ صریحاً انسانی ترجیحات پر مبنی ہے۔
اگر انسانوں میں سے کوئی بھی اپنے بچے کو نہیں کھا سکتا تو پھر وہی انسان ایک بھیڑ یا بکری کے بچے کو کیسے کھا سکتا ہے؟ کیونکہ مچھلی کی چیخوں کی آواز ہم تک نہیں پہنچتی تو جب کانٹے کی نوک سے اس کا منہ پھٹ جاتا ہے تو کیا اسے تکلیف بھی نہیں ہوتی؟ یہ اور اس طرح کے کئی اور بچگانہ سوالوں نے بچپن کو یقیناً پریشان کیا ہو گا مگر جان بوجھ کر یا انجانے میں، والدین، اساتذہ، میڈیا اور دیگر ذرائع بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ کتے اور بلی کے بچے "دوست” ہیں ، مچھلی اور مرغی "کھانا” ہیں ، اور چوہے اور کینچوے "غلیظ” ہیں۔ زیادہ تر بچوں کو یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ انسانی خواہشات، ضروریات اور مفادات خواہ کتنے ہی معمولی نوعیت کے ہوں، ہمیشہ دوسری انواع پر فوقیت رکھتے ہیں۔
اس سوچ کو اعتقادات کی تائید بھی حاصل ہے، جسے "اینتھروپو سینٹرسزم (Anthropocentrism)” یا انسان کی مرکزیت کہا جاتا ہے۔ دنیا میں موجود 4300 کے قریب مختلف اعتقادات نے انسان کو باور کروایا ہے کہ وہی مرکز کائنات ہے اور کائنات کی ہر شے انسان کی سہولت کے لیے ہی پیدا کی گئی ہے چنانچہ انسان کو تمام دیگر انواع حیات کا استحصال کرنے کا آفاقی جواز حاصل ہے۔ اس سوچ کے تانے بانے بہت دور، بہت گہرائی میں، نظریہ ارتقاء (Theory of Evolution) یا نظریہ پیدائش (Theory of Special Creation) سے جا ملتے ہیں۔
نتیجتاً، انسان اپنے ضمیر کی آواز کو نظر انداز کرنا سیکھ جاتے ہیں، جو انہیں یہ بتاتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ بد سلوکی کرنا غلط ہے۔ ہم اپنے آپ کو اس بات پر راضی کر لیتے ہیں کہ ہمارے پاس جانوروں کو قتل کرنے کا "حق” ہے کیونکہ یہ ہمارے لیے فائدہ مند یا مزےدار ہے۔ ہم اپنے آپ کو کہتے ہیں کہ دودھ سے بنی آئس کریم کھانا یا چائے پینا ٹھیک ہے کیوں کہ ہماری مٹھاس کی خواہش کسی ماں کی ممتا اور اس کے اپنے بچھڑے کو دودھ پلانے کے حق سے کہیں زیادہ ہے، یہ کہ سویٹروں وغیرہ کے لیے بھیڑوں کی اون چوری کرنا ٹھیک ہے، یہ کہ مرغی کے انڈا دینے کی اذیت اس کی نسل کی بقاء سے زیادہ ہمارے ناشتے کی میز کے لیے ہے، اور یہ کہ مچھلی کو اس کے درد سے کہیں زیادہ لطف اندوز ہونے کے لیے پکڑتے ہیں۔ تاریخی طور پر، ہر طرح کے ظلم کا تصوراتی جواز پیش کرنے کے لئے انسان نوعیت پسندی کا استعمال کرتے آئے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم قبل از تاریخ سے ہی ایسے کھوکھلے جواز گھڑتے رہے ہیں۔ تجارتی پیداوار کے باعث جانوروں کی فراوانی سے پیشتر، ہم انسانوں کو ہی خوراک یا اعتقاد کے نام پہ قربان کرتے رہے ہیں۔ انسانی قربانی کا اطلاق متعدد مختلف مواقع پر اور بہت سی مختلف ثقافتوں میں ہوتا رہا ہے۔ انسانی قربانیوں کے پیچھے مختلف عقائد وہی تھے جو عام طور پر رسمی قربانیوں کو تحریک دیتے ہیں۔ قربانی کا مقصد عموماً خوش قسمتی لانا اور دیوتاؤں کو راضی کرنا رہا ہے، مثال کے طور پر کسی مندر یا پل جیسی کسی عمارت کی تکمیل پہ شکرانے کے تناظر میں یا اپنی وفاداری ثابت کرنے کو۔ اس کے علاوہ جنگ میں کامیابی، بہت ساری فصلیں یا ندی میں پانی کا اتار چڑھاؤ بھی قربانی کا موجب رہا ہے۔
اس کے علاوہ، سائنسی جریدے ‘نیچر’ کی تحقیق کے مطابق قربانی کا مقصد سماج میں طبقاتی تقسیم کو یقینی بنانا تھا۔ یعنی کہ کمزور ہمیشہ کمزور رہیں اور طاقتور ہمشہ طاقتور۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ رسمی قربانی سے انسانوں کو ہمارے آباؤ اجداد کے چھوٹے مسلکی گروہوں سے آج ہم جس بڑے معاشرے میں رہ رہے ہیں، اس تک ترقی کرنے میں مدد ملی۔ بالخصوص، بطور سزا قربانی کا تصور زبردست سیاسی کشیدگی کا باعث رہا ہو گا جس کے نتیجے میں قانون کی حاکمیت اور فیصلہ سازی کے پیچیدہ تصورات نے جنم لیا ہو گا۔
قربانی کبھی بھی سادہ نہیں رہی۔ اسے ہمیشہ ایک عوامی تقریب یا سماجی تہوار کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ خون خرابہ اور ظلم، لوگوں کو خوف و ہراس میں ڈالنے کا ایک طریقہ تھا جس سے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں، جو کہ زیادہ تر ثقافتوں میں ایک ہی تھے، اور جن کو دوسروں کے قتل کے احکام دینے کا اختیار حاصل تھا، کو بلامقابلہ اقتدار مستحکم کرنے کا موقع ملتا۔ ایک بار جب ان کا اختیار مطلق ہوجاتا تو طبقاتی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے وہ مزید روایتی طریقوں یعنی پولیسنگ، ٹیکس لگانے، غلام بنا لینے اور جنگ کا استعمال کرتے۔
بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قربانی کو اکثر، دیوتاؤں کی بجائے کسی اور کے مفاد کے لئے ترویج دیا گیا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح مذہب کو معاشرتی اشرافیہ کے ذریعہ ان کے اپنے سیاسی مفاد میں استحصال کیا جا سکتا ہے۔ مذہب کلی طور پر انسان اور اس کے خدا، اگر وہ کسی خدا میں یقین رکھتا ہے تو، کے بیچ کا معاملہ ہے لیکن قربانی کا تصور کفارے یا متبادل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تقریباً تمام ہی مذاہب نے رحم اور اخلاقیات کا درس دیا ہے لیکن تب بھی قربانی جیسی رسومات مذہبی جواز رکھتی ہیں۔
بہت ابتداء سے ہی انسانوں کو اس پریشان کن تضاد کا احساس رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے قربان ہونے والے جانوروں کی تکلیف سے صرف نظر کرنے کے لیے کئی پینترے بدلے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ جب لوگ ایسا کام کرتے ہیں جس کے بارے میں وہ مشتبہ ہوں اور جس کے لیے انھیں جواز گھڑنے میں دشواری پیش آتی ہو، تو انھیں اندرونی عدم اطمینان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب ان کے گوشت کھانے سے جانوروں کو پہنچنے والے نقصان کو لوگوں کے سامنے واضح طور پر لایا جاتا ہے تو، وہ ان جانوروں کو کم ذہنی صلاحیتوں کے حامل گرداننے لگتے ہیں۔ اس طرح کا انکار لوگوں کو جانوروں کے کھانے میں کم تکلیف دیتا ہے۔ جو لوگ جانوروں کو قتل کرنے میں یقین رکھتے ہیں وہ اپنے خیالات اور طرز عمل کے مابین اخلاقی تضادات کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جانوروں کے احساسات کے بارے میں اپنے اعتقادات کو ایڈجسٹ کر سکیں۔
جانوروں کے قتل کا جواز، محسوس کرنے کی ان کی کم تر صلاحیت اور انہیں کاٹتے وقت تکلیف سے مبراء ہونے کو فرض کر کے گھڑا جاتا ہے۔ لیکن صدیوں کے تجربے سے ہم نے یہ سیکھا ہے کہ جانور خوشی اور اداسی، جوش اور ناراضگی، افسردگی، خوف اور درد کو محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس سے کہیں زیادہ حساس اور ذہین ہیں جتنا ہم سوچتے ہیں۔ بچپن کے کچھ سوالوں میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اگر جانور کو کاٹتے وقت درد نہیں ہوتا تو اس کو باندھ اور بے بس کر کے کیوں کاٹا جاتا ہے۔
جانوروں کو تکلیف نا پہنچانے اور قتل نا کرنے کی بالکل وہی وجوہات ہیں جو انسانوں کو تکلیف نا پہنچانے اور نا مارنے کی وجوہات ہیں۔ کسی جانور کا قتل، جیسے کسی انسان کو مارنا، انتہائی حالات میں ہی قابل برداشت ہوسکتا ہے۔ کسی زندہ مخلوق کا استعمال صرف اس کے ذائقہ، سہولت کے لیے، یا بطور مشغلہ کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ چونکہ ہم انسان، دوسرے جانوروں کے برعکس، اپنے اخلاقی طرز عمل کے اثرات سے آگاہ ہیں لہذا ہم انسانوں پہ دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم زندگی کا تحفظ اور احترام کریں چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔
اپنے بچے کو یہ سکھانا کہ وہ کسی مکوڑے کو کچل نا دے یا کسی چوہے کے بچے کا خیال رکھے، اس بچے کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس جانور کے لیے ہے۔ اسے یہ بتانا کہ ایک چیونٹی کی زندگی بھی اہم ہے اس کی اپنی زندگی کے لیے بھی اہم ہے۔ کسی بکرے یا بچھڑے کی معصومیت اور ان جانداروں کی آنکھوں میں ہم انسانوں کے لیے ایک ابدی پیغام، بشرط یہ کہ کوئی آنکھوں کی کائناتی زبان جانتا ہو، جاننا انسانیت کے لیے بہت ضروری ہے۔ جملہ جات ہائے معترضہ برطرف، فاضل مصنف نے انہی گمراہ کن خیالات کے باعث انڈے، دودھ، گوشت، اون اور کسی بھی دیگر قسم کی حیوانی پیداوار کے استعمال سے معذرت رکھی ہوئی ہے۔ 200 برس پہلے جیریمی بینتھم نے کہا تھا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ کیا وہ منطق کا استعمال کرتے ہیں؟ کیا وہ بولتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا انہیں تکلیف ہوتی ہے؟