نقل۔۔۔۔سرقہ۔۔پلیجر ازم ۔۔۔اور شاعری

سوشل میڈیا خاص طور پر اور باقی میڈیا اور کتابوں میں چھپی شاعری کو چوری کرنے کے بہت سے طریقے اردو شاعری میں رائج کئے گئے۔اور پھر ان طریقوں کو ادبی اصطلاحی نام بھی عطا ہوئے۔جیسے کلاسیکی تتبع۔۔۔روایت سے جُڑنا۔وغیرہ
،،
تین عظیم آرٹسٹس 18ویں صدی میں ھو گزرے جنہوں نے ملتے جلتے الفاظ میں آرٹ کی چوری یا اکتساب یا اثر کو بیان کیا ھے۔
اِگور سٹراوِنسکی، پابلو پِکاسو، ٹی ایس ایلیٹ ان تینوں نے یہی کہا ھے کہ آرٹ یعنی پینٹنگ، فوٹو گرافی، شاعری ڈرامہ وغیرہ کو کمزور اور کمتر آرٹسٹس توڑ مروڑ کر اپنا لیتے ھیں۔
جبکہ عظیم و اعلی آرٹسٹس ھُو بہو اپنا لیتے ھیں۔ جیسے آپ نے دیکھا غالب نے بیدل کی اتنی تعریف کی اور پھر اسکا شعر اپنا لیا۔۔۔
بوئے گُل ، نالہِ دل، دُودِ چراغِ محفل
ہر کہ از بزم تو برخاست، پریشاں برخاست
اسی طرح فیض نے ساحر سمیت کئی شعرا کا کلام بغیر واوین کے استعامل کیا ھے۔۔
یہ تو بڑے شعرا کی بات تھی۔۔
اب ھمارے ارد گرد روز ایک دوسرے کے اشعار سے متاثر ھو کر شاعری کرنے کو یہ کہہ کے اخلاقی بتایا جاتا ھے کہ کلاسیکی شعرا بھی ایسا ھی کرتے تھے اور ایک ھی زمین میں سب کوششیں کرتے تھے۔۔۔یعنی کلاسیکی شعرا اگر لونڈوں کی تعریف میں غزلیں کہتے تھے تو اب بھی یہی کرنا چاھئیے
عجیب احمق گاؤدی مسلمان معاشرے سے پالا پڑا ھے جو برائی کو اچھائی کا سرٹیفیکیٹ ،،خود ھی دیتا ھے اور سارے چور اور نقال اس نقالی کو مزید اخلاقی سند جاری کرتے ھیں۔۔کہ واہ واہ جناب کیا نقل کی !
میں اس معاملے میں سطحی باتیں نہیں کرنا چاھتا اور اس نقل کی سائیکی کی تہہ میں پہنچنا چاھتا ھُوں۔۔اسے ایک سنجیدہ تحریر کے طور پر پڑھیں
،،،
واپس چلتے ھیں۔ اقبال نے مغربی شاعری کے ترجمے کئے۔۔۔ اور بہت جگہ حوالے دئیے اور کئی جگہ کچھ نہ بتایا، کسی جگہ نیا لفظ ایجاد کیا "ماخوذ "، یعنی نقل کے لئے اگر ھُو بہو نقل نہ کیا تو اُسے ماخوذ کہہ دیا۔جس سے مُراد یہ ھے کہ انکی اس شاعری کا ماخذ کوئی اور ھے۔جو لوگ اقبال کو عظیم شاعر یا فلسفی وغیرہ کہنے میں جلدی کرتے ہیں انکو سوچنا چاھئیے کہ کوئی بھی عطیم لکھاری عظیم فلسفی لازمی طور پر اوریجنل ھوتا ھے وُہ دوسروں کے ترجمے نہیں کرتا نہ دوسروں سے اکتساب کر کے ماخوذ کی ٹرم ایجاد کرتا ھے۔دنیا بھر میں عظیم ادیب دانشور شاعر پینٹر پائے جاتے ہین لیکن مجال ہے کہ کسی عطیم شاعر کے ھاں ایسا کوئی ماخوذ یا اکستساب یا ترجمہ کا عندیہ بھی مِلے۔۔اس لئے آپ پاکستانی مسلمان ذرا ھتھ ھولا رکھا کریں ھیرو ھوتے ھیں زبردستی نہیں بنائے جاتے۔ آپ غلطی پر ھیں۔
۔۔۔
انگریزی ادب میں سرقہ چوری نقل پلیجرازم کی کئی قسمیں بیان ھوئی ھیں۔۔ھم پہلی قسم کی بات کر رھے تھے۔۔۔کہ جس میں ھُو بہو لفظ بہ لفظ چوری کر لینا ،لیجانا اور بیان کردینا شامل ھے۔۔
۔۔
جیسے غالب کا شعر اوپر بیان ھوا ھے غالب نے کہا

بوئے گُل نالہِ دل ، دُودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
،،
ایک دو الفاظ کے علاوہ تمام مفہوم و منظر وھی ھے جو بیدل کے فارسی کلام میں ھے۔۔اس سرقے یا چوری یا نقل کو کلوننگ پلیجر ازم کہتے ھیں۔کلوننگ کا لفظ پاکستان میں تب مشہور ھوا جب سائینسدانوں نے بھیڑوں کی کلوننگ کی جس میں ایک بھیڑ کے ڈی این اے سے اُسی جیسی بھیڑ لیباریٹری میں بنائی گئی۔پس کسی ادب پارے کےبنیادی ڈھانچے یا منظر ڈی این اے کو نقل کرنا ادب میں چوری کہلاتا ھے۔
اس میں کسی نثر کا پورے کا پورا پیرا گراف شامل کرنا ،
ھُو بہو نقل میں شمار کیا جاتا ھے۔جیسے کراچی میں غالباً چار پروفیسران پر عدالتی مقدمے ھوئے اور انہیں چور گردانا گیا انہوں نے طلبا کے مقالہ جات کو اپنے مقالہ جات ظاھر کیا۔ پاکستان اور ھندوستان میں مقالہ جات کا سرقہ بہت عرصے سے جاری ھے ، بہت سے نام نہاد ایوارڈ یافتہ پاکستانی ھندوستانی پروفیسران کی کتابیں اور مقالہ جات ھرگز انکے اپنے نہین بلکہ انکے طالب علموں کی کوشیں ھوتی ھیں،،جیسے ساختیات،،اور پس ساختیات وغیرہ ڈبل چربے ھیں یعنی انگریزی کے چربے اور پھر لکھا کسی نے شائع کسی اور نے کروایا۔ بیسیوں خبروں میں سے ایک خبر آپ پڑھیں
معطل ہونے والے اساتذہ میں سب سے بڑا نام اسلامک سٹڈیز فیکلٹی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر جلال الدین احمد رومی کا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مشرق وسطٰی کے مختلف عربی مصنفوں کی تحریریں چرا کر تحقیقی مقالہ تیار کیا اور اس مقالے کی مدد سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے پروفیسر اور فیکلٹی کے ڈین کے عہدے پر ترقی حاصل کی۔

معطل ہونے والے دوسرے اساتذہ میں کیمیسٹری ڈپارٹمینٹ کے چیرمین پروفیسر ڈاکٹر سعید آرائیں اور ان کی اہلیہ پروفیسر ڈاکٹر نجمہ سلطانہ شامل ہیں جو پہلے فیکلٹی آف فارمیسی کی ڈین بھی رہ چکی ہیں۔ دونوں نے ترقی پانے کے لیے دوسرے سکالروں کے مضامین چراکر تحقیقی مضامین لکھے۔

اسلامک سٹڈیز فیکلٹی کے ڈین ڈاکٹر رومی پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اپنی مدت ملازمت بڑھانے کے لیے جعل سازی کے ذریعے اپنے شناختی کارڈ کے ریکارڈ میں چار سال عمر کم کرائی تھی۔

کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر رئیس علوی نے بتایا کہ ان اساتذہ کے خلاف کارروائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایت پر کی گئی ہے۔
اسی طرح ایک اور واقعے میں،،
وزارت مذہبی امور کی جانب سے جمع کردہ مقالوں کی تعداد 100سے زائد تھی،جن میں سے جیتنے والوں میں ڈاکٹر عامر طاسین اور آسیہ اکرام کا نام بھی تھا۔جنہیں صدرپاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے انعامات و ایوارڈ سے نوازہ تھا۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ مقالہ جات کی شائع ہو ے والی کتاب میں ڈاکٹر عامر طاسین اور آسیہ اکرام کا مقالہ لفظ بہ لفظ ایک ہی جیسا تھا۔
جس کے بعد ایگیزیکٹیو ڈائیریکٹر مجلس علمی فاؤنڈیشن اوررکن بورڈ آف گورنر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، معروف مذہبی اسکالر ومحقق ڈاکٹرعامرطاسین نے وزارت مذہبی امور کو ایک خط لکھا اور انکشاف کیا تھا کہ میرا مقالہ غائب کرکے اسلام آباد کی آسیہ اکرام کوبھی صدارتی ایوارڈ اور انعام سے نوازا گیا ہے۔ڈاکٹر عامر طاسین نے 31 مارچ کو مذکورہ خط وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور سیکرٹری مذہبی امور کے نام لکھ کر انکوائری کرنے کی درخواست کی تھی۔
۔۔
مزید اسلامی جمہوریہ میں تحقیق چوری کا معاملہ دیکھیں۔
لاہور: پنجاب یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کا مقالہ چوری کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ سنٹر فار انٹیگریٹیڈ ماؤنٹین ریسرچ کے سربراہ ڈاکٹر صفدر علی شیرازی کے مقالے میں 40 فیصد چربہ سازی کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے سی آئی ایم آر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر صفدر شیرازی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نےایک ہی مقالہ دو مختلف ریسرچ جرنلز میں مبینہ طور پر شائع کرایا ہے جبکہ اس تحقیقی مقالے میں 40 فیصد چربہ سازی کی گئی ہے۔

تعلیمی زاویہ کو دستیاب دستاويزات کے مطابق ڈاکٹر صفدر علی شیرازی نے انڈین پنجاب کی موسمیاتی تبدیلی پر لکھے گئے ریسرچ پیپر کو من و عن پاکستانی پنجاب کی موسمیاتی تبدیلی سے منسوب کیاجس میں صرف شہروں کے نام تبدیل کیے گئے اور باقی ماندہ تحقیق انڈین پنجاب سے متعلق بھارتی پروفیسر کی تحقیق ہے۔
۔۔۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے بعد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے 30 پروفیسرز پر بھی چوری شدہ مقالے جمع کرانے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ملک بھر سے چوری شدہ مقالوں کے حوالے سے سینکڑوں شکایات موصول ہوچکی ہیں۔ لیکن کسی کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ ذرائع کے بقول ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ارشد علی نے استعفیٰ بھی دباؤ پر دیا ہے۔ جبکہ سرقہ ثابت ہونے پر نہ صرف پی ایچ ڈی کی ڈگری واپس لے لی جاتی ہے بلکہ ملازمت سے بھی فارغ کردیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دوسروں کے مقالے چوری کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں کے معاملات سامنے پر عالمی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔
،،،،،،،،،،،
اوپر تو صرف چند خبریں شامل کی ھیں وگرنہ زمینی صورتِ حال اس سے کہیں بُری ھے۔۔
کینیڈا میں ایک متشاعر تسلیم الہی زلفی نے ادھر ادھر سے شاعری لیکر کئی مجموعے چھپوائے اور اُسے اسلام آباد پنڈی کے احمق شُعرا و ادیبوں رحمان حفیظ وغیرہ نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔اسی ٹور میں اس فراڈ شخص تسلیم الہی زلفی نے مختلف پاکستانی شاعرات کو اُلّو بنایا کچھ سے رقم اینٹھی کچھ سے اپنے حق میں تشہیری پروگرام کروائے ۔۔۔اور لالچ دیا کہ وہ کینیڈا میں انکے لئے عالمی مشاعرہ کروائے گا۔ متاثرین کی لمبی فہرست میں حبیب جالب کی بیتی بھی شامل ھیں، اسناتھ کنول نامی لاھور کی شاعرہ بھی اور بہت سے ایسے لوگ بھی جنہوں نے شرم کے مارے اپنی ذاتی کہانی نہیں کھولی۔ اسی طرح تسلیم الہی زلفی نے ایک من گھڑت کتاب ،،فیض بیروت میں۔۔۔کے نام سے چحاپی جو مکمل جھوٹ کا پلندہ ھے،،،تسلیم الہی کی کوئی ملاقات کبھی فیض سے ھوئی ھی نہیں، اشفاق حسین کینیڈآ نے مکمل حوالوں سے اس کتاب کو افسانہ ثابت کیا ھے اور میں نے ماڈرن تکنیک سے وہاں شائع شُدہ فوٹو کو جعلی ثابت کیا جس میں تسلیم الہی فراڈیہ ، فیض کے ساتھ کھڑا ہے۔
خیر میں نے اوپر پہلی قسم کی نقالی یا کلوننگ پلیجرازم کی بات کی ھے آئیے دوسری قسم پر گفتگو کرتے ھیں
،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چربہ ، چوری، نقالی کی دوسری قسم مکس ازم پلیجرازم کہلاتی ھے، اس میں "بنیادی منظر” ، "خیال” یا "ارادے” کو تھوڑی تبدیلی سے بیان کر کے چوری کی جاتی ھے۔ ،
جیسے،،،
اقبال کا شعر دیکھیں
میں جو سر بسجدہ ھوا کبھی تو زمیں سے یہ آنے لگی صدا
ترا دل تو ھے صنم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز میں
۔۔۔
اب دیکھیں اقبال کا شعر کہاں سے برآمد ھوا؟

بہ زمیں چو سجدہ کردم ز زمیں ندا بر آمد
کہ مرا خراب کردی ،تو ، بہ سجدۂ ریائی
(فخر الدین عراقی)
یعنی اقبال کے وھم و گمان میں بھی یہ خیال نہیں آ سکتا تھا کہ سجدہ کرنے پر ان سے یہ تخاطب ہوگا ۔ اقبال کو یہ خیال و منظر مکمل طور پر عراقی نے دیا۔ جس میں اقبال نے قدرے تبدیلی ، یعنی مکسزم پلیجرازم کا استعمال کیا ھے۔(اور ھاں کہیں نہیں کہا کہ یہ ماخوذ ھے، وہ لوگ جو جلدی سے کہتے ھین اقبال نے ترجمے کئے تو ساتھ لازمی بتایا کہ ماخوذ ھے )
خیر اقبال کی تو کوئی 36 نظمیں اور بےشمار اشعار دوسروں کے اشعار کا ترجمہ ہیں یا مکسزم سرقہ کا شکار ھیں۔ کثرت سے خوشحال خان خٹک کی شاعری اور دوسری پشتو انقلابی شاعری کے ترجموں سے اقبال نے بہت فائدہ لیا۔۔ساری کی ساری تراکیب و نظریات لے لئے۔۔ جو ان کے وھم و گمان میں بھی نہیں تھے۔۔۔جیسے ۔۔۔ستاروں پر کمند ڈالنے والے جوان۔۔۔
حوالوں کے لئے یہ اشعار یاد رکھئیے
،،،،
علامہ اقبال خوشحال خان خٹک کی شاعری سے کیسے مرعوب ھوئے۔ ترجمہ کیا۔۔نظریہ لیا۔۔۔خیال لیا۔۔۔۔۔مضمون لیا۔۔۔
چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
‏د خوشحال سلام په هغه شا زلمو دے
‏کمندونه چې د ستورو په اسمان ږدي
خــــــوشحال خٹک
۱. ‏محبت مجهے ان جوانوں سے هے
‏ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اقـــــبال
۲. ځه هغه شهباز شه چې یې ځای په سردرو وي
نۀ لکه د کلي کارغۀ ګرځه غم د نس کا
خوشحــــــال خٹک
٢. نہیں ہے تیرا نشیمن قیصری سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اقـــــــبال
۳. د کارغۀ لايق خو باز دی يا شاهين دی
پۀ دا څۀ چې د کلاغ په سر کلاه شي
خوشحال خٹک
۴. برہنہ سر نو عزم بلند پیدا کریہاں
فقط سر شاہین کے واسطے ہے کلاہ
اقبـــــــال
۵. و اغېارته لکه کانړی موم و يار ته
پۀ سختۍ او پۀ نرمۀ کې هغه زۀ يم
خوشحــــال
۵. ہو حلقہ یاران تو بریشم کی طرح نرم
روزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اقـــــبال
۶. د شهباز او د عنقا برابر نه دی
مچ او ماشی که الوځي پۀ وزرو
خوشحـــال خٹک
۶. پرواز ہے دونوں کا اسی فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
اقـــــبال
۷. د مردۍ او نا مردۍ تر مېنځ ميل نۀ دی
تفاوت يې يا پۀ زړۀ دی يا پۀ کام
خوشحــــال خٹک
۸. الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذان اور مجاہد کی اذان اور
اقبـــــال
۹. کۀ کوشش کا پۀ اخلاص زۀ یې ضامن يم
کۀ کامران پۀ خپل مراد نۀ شي سړی
خوشحال خٹک
۹. ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہو چیتے کی آنکھ جس کی
اقــــــبال
۱۰. يا عاشق شه يا شهيد شه چې یادیژی پۀ بدلو پۀ سندرو
پۀ ښاغلو جهان ارت دی په نامردو باندی تنګ
خوشحال خٹک
۱۰. شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
جرات ہے نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
اے مرد خدا ملک خدا تنگ نہیں ہے
اقــــــبال
۱۱. دا سړی چی فريشته ده هم شيطان دی
کۀ سړی د خپل عمل وته نګران شي
کۀ جنت لره څوک بيايي کۀ دوزخ له
بله نۀ وينم پۀ مينځ کې خپل اعمال دي
خوشحال خٹک
۱۱. عمل سے بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اقــــــبال
۱۲. لۀ بتانو اميدوار يې پۀ خپل خدای يې نا اميده
لږ وښايه تۀ ما ته، نوره څۀ دہ کافري؟
خوشحال خٹک
۱۲. بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نا امیدی
مجھے بتاؤ تو سہی، اور کافری کیا ہے
اقــــــبال
۱۳. ځان ژوندی پۀ زمکه ښخ کړه لکه تخم
کۀ لویي غواړې د خاورو پۀ مقام شه
رحمــــــان بابا رح
۱۳. مٹاو اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
کہ دانہ خاک میں ملکر گل گلزار ہوتا ہے!
،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اسکے علاوہ اقبال پر مضامین میں، مَیں بہت جگہ باقی سرقہ شدہ خیالات یا شاعری بیان کرچکا ھُوں یہ مضمون صرف اقبال پر نہیں ھے۔اس لئے آگے چلتے ھیں،،۔۔
اب تک دو قسموں کے سرقہ جات کی بات ھوئی اور امثال دیں۔اب آئیے تیسری قسم کی طرف، تیسری قسم کونسی ھوتی ھے
تیسری قسم کے سرقے میں سورس بیسڈ چوری ھوتی ھے۔ یعنی پرائمری سورس کا حوالہ تو دیا جاتا ھے لیکن جو مواد لیا جاتا ھے وہ سیکنڈری سورس سے لیا ھوتا ھے۔۔یا سیکنڈری سورس کا حوالہ ھوتا ھے مگر پرائمری سورس کوئی اور ھوتا ھے۔۔
جیسے قرآن کو اگر کتاب ھی سمجھا جائے، جو کہ ھے، تو اس کے اندر کہانیاں یا افسانے بائبل سے آئے لیکن بائیبل کی اپنی کہانیاں قدیم ھندوستان چین عراق اور مایان کلچر اور زرتشتی مذاھب سے مزکور ھیں۔
مثلاً قرآن میں آیت ھے کہ اے مسلمانو تم پر روزے ایسے فرض کئے گئے جیسے بنی اسرائیل پر فرض کئے گئے۔۔یعنی یہ سرقہ سورس بتا کر اختیار کیا گیا
،،،،،
اوپر بیان کئے گئے لفظ بہ لفظ سرقوں کی مثال ، ایک مقدمہ تھا جو نوشی گیلانی اور منور جمیل نامی شاعری کے مابین تئیس سال تک چلا۔
منور جمیل کا دعوی تھا کہ دونوں کتابیں جو نوشی کے نام سے چھپی ھیں وہ تمام منور جمیل کی اپنی شاعری ھے نوشی کی نہیں۔اور نوشی نے مزکر کی جگہ مونث استعمال کر کے اپنا لی ھے۔
اسی طرح ناقدین کے نزدیک ریحانہ قمر کی شاعری سو فیصد انکی اپنی شاعری معلوم ھی نہیں ھوتی۔ کیونکہ آجتک کسی نے نہیں بتایا کہ کسی بھی شعر پر کوئی تنقیدی رائے ریحانہ قمر نے دی ھو۔ وہ شاعری کے بنیادی محاسن پر گفتگو تک کرنے سے معزور ھیں وہ خود شاعرہ کیسے ھو سکتی ھیں ! ریحانہ قمر نے کبھی کُھل کر اپنی صفائی ثبوت کے ساتھ نہیں دی کہ چلیں مجھ سے مخلتف مصرعوں پر گرہیں لگوا کر دیکھ لیں۔
بعض اور لوگوں پر الزامات لگتے رہتے ہیں مگر بہت سے معاملوں میں پسند نا پسند کا دخل ہوتا ہے متذکرہ شاعر یا شاعرہ ھرگز متشاعر یا متشاعرہ نہیں ھوتے۔ جیسے ماھین ملک مکمل شاعرہ ہیں اور آپکے مصرع پر فی البدیہہ گرہ لگاسکتی ہیں۔ ناحق الزام لگانا بہت بد اخلاقی ہے۔ ثمن شاہ کے بارے بھی ثبوت لوگ لاتے رہے کہ وہ ادھر ادھر سے کلام ٹھیک کرواتی رہی ہیں۔ جودرست معلوم ھوتا ہے۔
۔۔
پلیجر ازم کی اگلی قسم ایکسیڈنٹل پلیجر ازم کہلاتا ھے ، یعنی اتفاقیہ سرقہ ۔یہ اتفاقیہ سرقہ دو طرح سے ھو سکتا ھے پہلا غیر محسوس طور پر سرقہ یعنی کسی ادب پارے سے بہت مانوس ھونا اس میں اتنا محو ھونا کہ اپنی تخلیق میں اسکے استعمال کو خود بھی محسوس نہ کرنا۔۔اور دوسرا وہ جس میں معلوم ھے تو ھو، لیکن سخت رشک کی بدولت اس خیال یا لفظ یا منظر کو اختیار کر لینا۔
بعض میں صرف مضمون کو لے لینا شامل ھوتا ھے۔
جیسے میں چونکہ ایکٹوازم کے تابع بار بار شعر مین خدا کے ناحق خوف یا ڈر کو بیان کرتا ھُوں جو مذھب نے ناحق انسان پر مسلط کیا ھے تو اس خیال کو کہ خدا اصل میں خوف ناک ھستی نہیں بلکہ مذھب نے خوفناک اُسے ظاھر کیا ھے جو جھوٹ ھے اس بات کو کئی نئے شعرا بیان کرتے ھیں۔۔یہ سرقے کی فکری قسم ھے۔
بعض اوقات بعض شعرا کسی کے بہت بُودے کچے بیانیہ شعر میں چُھپے اچھے تبدیل شُدہ خیال کو بہتر کر کے اپنا لیتے ھیں۔
میں بھی ایسا کرتا ھُوں کیونکہ مجھے ایسے شاعر پر سخت غصہ آتا ھے اور میں اسکا شعر بہتر کر کے پوسٹ کر دیتا ھُوں لیکن میرا ارادہ دیکھا اور لے اُڑا کا نہیں ھوتا ۔ بلکہ مایوس ھوتا ھُوں کہ اس شاعر نے کیوں اس شعر پر محنت نہیں کی ، شاید میرا شعر دیکھ کر اسے سمجھ آئے۔ لیکن بعض احمق اس عمل سے یہ نتیجہ نکالتے ھیں کہ جیسے میں نے انکے شعر پر ھاتھ صاف کر دیا ھے۔ مجھے ایک دو نے تو کہہ بھی دیا ،،جیسے عمران اعوان نامی کچا سا شاعر ھے مگر جب اس نے یہ کہا تو میں نے فرینڈ لسٹ سے اٹھا کر باھر دے مارا۔ جسکی گردن میں سریہ اس سرئیے کی دوری سمت کہاں تک گئی ھے ھمیں کیا معلوم ، ایسوں کو چھوڑ دینا بہتر ھے
کچھ شعرا بعض اچھے شعرا سے بہت متاثر ھوتے ھیں، ایسے فینز بھی چاھتے نہ چاھتے ھوئے اپنے پسندیدہ شعرا کی نقالی میں انہی کی زمین میں اسی قافئیے میں ویسے ھی مضامین باندھنے لگتے ھیں۔ جو سرقہ ھی ھے۔۔
میری ایک بہت پرانی غذل ھے جس کی ردیف ھی انوکھی ھے اور اس ردیف میں میرے سوا کسی نے کوئی غزل نہیں لکھی۔۔۔

  • یہ جان و مال یہ گھر بار بھی کلیشے ھے *
    یہ جان و مال یہ گھر بار بھی کلیشے ھے
    یہ میری "مَیں” یہ مرا یار بھی کلیشے ھے
    بس ایک یہ ترا انکار ھی کلیشے نہیں
    اسی طرح مرا اصرار بھی کلیشے ھے
    نہیں ھے ریگِ رواں کا کوئی وجود اگر
    تو بُلبُل و گُل و گُلزار بھی کلیشے ھے
    یقین کر یہ جو سایہ ھے یہ خیالی ھے
    وُہ اس لئے کہ یہ دیوار بھی کلیشے ھے
    نہ آئینہ کہیں موجود ھے نہ عکس اِس کا
    یہ میری آنکھ کا زنگار بھی کلیشے ھے
    یہ استعارے ، تراکیب اور تشبیہیں
    یہ ناقدان کا معیار بھی کلیشے ھے
    فراقِ یار بھی جعلی ، وصال یار بھی جُھوٹ
    وُہ اس لئے کہ یہ دلدار بھی کلیشے ھے
    فقیر و فُقر ندارد، سگانِ دھر بھی گُم
    گلیم و جُبّہ و دستار بھی کلیشے ھے
    دُکان ِ محض سے گاھک بھی کیا خریدے گا
    ریال و درھم و دینار بھی کلیشے ھے
    شکست و فتح بھی عنقا ھے لشکروں کی طرح
    کمان و نیزہ و تلوار بھی کلیشے ھے
    نہیں کہیں کوئی صحرا، ، کوئی بھی قیس نہیں
    قیاسِ لیلیءِ درکار بھی کلیشے ھے
    کوئی زلیخا نہیں اور کوئی نہیں یُوسف
    یہ سارا مصر کا بازار بھی کلیشے ھے
    طلسمِ ھوش رُبا کا کوئی جواز نہیں
    امیر حمزہ و عیّار بھی کلیشے ھے
    نہ شاہِ وقت ، نہ شہزادیاں نہ کوئی غلام
    اور اُن کے ساتھ یہ دربار بھی کلیشے ھے
    بہشت و دوزخ و برزخ کا ذکر کُفرِ عظیم
    گُناہ گار و خطا کار بھی کلیشے ھے
    نہ وُہ مدینہ ، نہ مکّہ، نہ غارِ ثَور و حِرا
    نفاق و مومن و کُفّار بھی کلیشے ھے
    وجود ِ کوہِ ندا کا اُدھر ثبوت نہیں
    اِدھر یہ کوچہءِ مسمار بھی کلیشے ھے
    بچا نہیں ھے کنارہ کوئی جُگالی سے
    اسی طرف نہیں، اُس پار بھی کلیشے ھے

اب یہ غزل خاص طور پر پاکستانی مذھبی لوگوں کو بہت تکلیف دہ معلوم ھوئی اور انٹرنیٹ پر جا بجا 15 سال پہلے اس حوالے سے مجھے بُرا بھلا کہا گیا۔
چند سال پہلے ایک شاعر افتخار حیدر جی نے کوئی نظم لکھی جس میں کلیشے کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ کسی نے کہا کہ بھائی رفیع رضا کی غزل موجود ھے۔۔آپ اپنی نظم پر نظر ثانی کریں۔ موصوف مجھ پر چڑھ دوڑے کہ میں نے انکی نظم کا چربہ غزل میں کیا ھے۔۔اور میری بات سننے سے پہلے ھی بھاگ گئے کہ دیکھو انٹرنیٹ پر ایک دھائی پہلے سے مخالفین یہ غزل لکھ چکے ھیں اور مجھے گالیاں دے چکے ھیں۔ چربہ میں نے نہیں کیا آپ نے غلطی سے کر لیا ھوگا۔۔ بعد میں دیکھا بیچارہ غریب ریٹائیرڈ مسکین صورت آدمی ھے تو میں نے دوستی کا ھاتھ بڑھایا تاھم اسکے دل کی مذھبی کدورت وھیں موجود ھے۔۔ شیعہ کبھی دھریہ نہیں ھو سکتے۔
سرقے کی سب سے پہلے قسم ، ھُو بہو سرقہ یا کسی کی تصنیف پر قبضہ خود ھی کرلینا یا عوام کی غلطی کی وجہ سے آپ کے نام وہ آرٹ لگ گیا تو مشہوری ایسے ھونے پر کہتے جانا کہ ھاں یہ کلام میرا ھے۔ اس قسم کا چربہ پاکستانی شاعر نزیر قیصر اور بھارتی شاعری قیصر الجعفری کے مابین ھوا ،،،جس میں نزیرقیصر کے نام میں لفظ قیصر اور جعفری صاحب کے قیصر ھونے کا فائدہ پاکستانی میڈیا نے جسے تحقیق کی عادت ھی نہیں، غزلیں نزیر قیصر کو دے دیں۔اور مشہور غزلیں دیں جو گائی گئی تھیں اور ریڈیو ٹی وی پر نزیر قیصر کا نام چل رھا ھے۔ جو بہت افسوسناک بات ھے۔
نزیر قیصر اب تک اپنی ایسی متنازعہ شاعری کا کوئی ثبوت نہیں دے سکے صرف زبانی دعوے کرتے ھیں۔ جبکہ وہ غزلیں نزیر قیصر کے مزاج کی بھی نہیں ھیں۔جیسے

تمھارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چُرا لُوں اگر بُرا نہ لگے
قیصر الجعفری۔۔یا۔۔نزیر قیصر۔۔۔

اسی طرح
دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے۔۔۔

ان دونوں غزلوں کے بارے شمس الرحمن فاروقی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ قیصر الجعفری کی ہیں۔
لیکن نزیر قیصر منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں

ھمارے پاکستان کا کلچر بڑا بوسیدہ ہے یہاں سچی بات پوچھنے اور کہنے والے کو بدتمیز کہا جاتا ھے،،،مجحے شاید سب سے بدتمیذ شاعر کہا جاتا ہے مگر میں سچ پوچھنے سے نہیں رُک سکتا کوئی کیوں نہیں پوچھتا نزیر قیصر سے ۔۔؟ وحید احمد، حفیظ اللہ بادل،،امداد آکاش یہ سب کیوں خاموش ہیں؟۔۔

میرے ایک مشہور شعر کا ایک مصرع نزیر قیصر کی ایک کمزور غزل کے مصرعے جیسا ھے۔لیکن میں کسی صورت اپنے مصرعے سے دستبردار نہیں ھو سکتا۔

میں سامنے سے اُٹھا اور لو لرزنے لگی
چراغ جیسے کوئی بات کرنا چاھتا تھا
رفیع رضا

اور اگلی قسم کا چربہ ایسا دلچسپ ھے کہ آپ نے اسے چربہ نہ سمجھا ھوگا۔۔مگر چربہ ھی ھے۔۔وہ ایسے کہ مثال کے طور پر ایک منظر ھے جس میں دیوار ھے۔
اب اس دیوار اور تصویر پر مبنی منظر کے اشعار ھونگے جن میں لازمی تصویر ،،اور اپنی تصویر کے ھونے کی بڑائی کسی صورت ظاھر ھوگی۔۔یہ پاکستان کے شعرا میں کوئی 15 برس پہلے سے مقابلہ جاری ھے۔۔
میرا نوجوانی کا ایک شعر دیکھیں

لہو تصویر سے نکل آیا
کیل دیوار میں لگایا تھا
رفیع رضآ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم جو دیوار پہ تصویر بنانے لگ جائیں
تتلیاں آ کے ترے رنگ چرانے لگ جائیں
ندیم ناجد
ایک تصویر جو کمرے میں لگائی ہوئی ہے
گھر کی ٹوٹی ہوئی دیوار چھپائی ہوئی ہے
راشد امین
ایک دیوار سے اتری تصویر..
ساری دیواروں سے آہیں نکلیں
کونین حیدر
تم میری تصویر بنا کر لائے ھو
یعنی میں دیوار سے لگنے والا ھوں
قمر جلالوی
زخمِ دیوار بتاتا ہے منیر
ایک تصویر یہاں تھی پہلے
منیر سیفی
عین دیوار کے ظاھر ھونگے
میرے تصویر ھٹا دی گئی ہے
ندیم بھابھہ
یہ جو دیوار پہ تصویر ہے یہ کچھ بھی نہیں
وہ جو تصویر میں دیوار ہے کیا ٹینشن ہے
ادریس بابر
ﺗﺮﯼ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮨﭧ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻟﯿﮑﻦ
ﻧﻈﺮ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ
تہذیب حافی
ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﻣﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻣﺠﮭﮯ.
کاشف غائر
اس کی تصویر پھینک دی ہے مگر
کیل دیوار میں گڑی ہوئی ہے
عمار اقبال
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﭨﺎﻧﮏ ﺩﯼ ﺍﭘﻨﯽ
ﻭﺭﻧﮧ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮔﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ
ﺳﺮﻓﺮﺍﺯ آﺭﺵ
میرا تصویر سے معاملہ ہے
مجھے دیوار کی خبر کم ہے
محمد عامر۔
میں نے تصویر دیکھ لی تیری ۔۔
اور پھر ناچنے لگا کمرہ ۔۔
راشد امام
اس نے دیوار پہ تصویر لگائی تیری.
تو نے دیوار سے دیوانہ لگا رکھا ہے
عبدالقادر تابان
جو چپ چاپ رہتی تھی دیوار پر
وہ تصویر باتیں بنانے لگی
عادل منصوری
ایک کمی تھی تاج محل میں
میں نے تری تصویر لگا دی
کیف بھوپالی
کبھی دیوار سے تصویر اُتاری تھی کوئی
اب کہیں دیکھوں تو چبھتی ہے کوئی کیل مجھے
سعید شارق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب میرا شعر دیکھیں

میری دیوار پر لگا ، واپس
وُھی تصویر مہربانی کی
رفیع رضا
،،،،،،،،،،،،
اوپر کے شعر آپ نے دیکھ لئے۔۔ اپ دوبارہ ان پر غور کریں تو معلوم ھوگا کہ تمام شعرا نے دیوار کو ظآھر دیوار اور تصویر کو واقعی ظاھری تصویر استعمال کیا ھے
اور میرے شعر کو دیکھیں؟

میری دیوار پر لگا ، واپس
وُھی تصویر مہربانی کی
رفیع رضا
اپنی تعریف برحق کرنے کی کوشش کر رھا ھُوں کہ میں کسی کی شاعری کے خیال سے آسانی سے متاثر نہیں ھوتا ، میرے شعر میں نہ تو ظاھری دیوار کا ذکر ھے نہ ھی ظاھری تصویر کا۔بلکہ جو منظر بنایا ہے وہ استعاراتی تلازمہ ہے۔

باقی آپ کی پسند و ناپسند آپکا معاملہ ھے۔

اوپر کے اشعار میں زیادہ تر شعرا نے ایک دوسرے کی نقالی میں دیوار اور تصویر کا منظر بنایا ھے۔ ندیم بھابھہ نے بے جا تعلی کا شعر بنایا جسکا کوئی مفہوم معلوم نہیں ھوتا۔ کیا دیوار پر بھابھے کی تصویر اس لئے لگائی گئی ھے کہ پیچھے دیوار پر کوئی داغ تھا یا پلستر اُکھڑا تھاَ؟ تو اس کی مرمت کر لیتے۔
سرفراز آرش نے تو بہت ھی بڑی تعلی باندھی۔۔۔ دیوار گرنے والے تھی میری تصویر لگائی تو اب نہیں گِرے گی۔۔ اُف یہ بھی شاعری کہلاتی ھے؟
ویسے راز کی بات بتاؤں، صوفیا کے نزدیک تصویر۔۔۔یہ عالم موجود ھے اور اصل غیر موجود ھے۔۔
اب واپس اوپر جائیں اور پھر وہ اشعار پڑھیں تو جانیں گے۔۔ کون صوفی ھے ! کون صوفی کے بھیس میں سیاسی ھے!
خیر یہ تو اجتماعی پلیجر ازم ھے۔۔سب ایک دوسرے کا سرقہ فرما رھے ھیں۔
،،،،،،،،،،،
آج انگلینڈ میں بیٹھے خود کو ندیم بھابھہ کی طرح درویش ظاھر کرتے حضرت علی ارمان جی کی ایک تازہ غزل نظر سے گزری اور میں نے نہیں بلکہ بہت سے دوستوں نے یہی بات نوٹ کی جو بالکل درست اور برحق ھے کہ علی ارمان کی غزل ، اصل میں بہت اعلی شاعر ذو القرنین حسنی کی ایک نظم سے متاثر ھو کر کہی گئی ھے۔
یہ متاثر ھو کر کہنا ،، بالکل اقبال والی حرکت ھے ۔۔ جیسے ستاروں سے آگے کمند ڈالنا۔۔۔بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانا۔۔۔جیسے سجدہ کرنے پر زمین سے صدا آنا ،،جیسے اقبال کی نظم بہار ھو کہ خزاں ، لا الہ اللہ سے متاثر ھو کر بشیر الدین محمود صاحب کی نظم ۔۔ھے دستِ قبلہ نما لا الہ الا اللہ۔۔۔یا مرزا صآحب کی نظم سے اقبال نے ارادہ پکڑا؟
۔
یا پحر میری غزل۔۔۔گھر بار بھی کلیشے ھے،،، کی بنیاد پر نظم میں کلیشے ھر چیز کو کہنا۔۔وغیرہ متاثر ھو کر شعر کہنے کی امثال ہیں۔
دونوں کی شاعری یعنی حسنی کی نظم اور علی ارمان کی غزل تصویر میں لگا دی ھے۔یاد رھے علی ارمان ، بھابھہ اور امیر حسین جعفری کے بہت سگے ھیں۔اور یہ ایک دوسرے کے لئے مہم چلاتے ھیں۔ فتوے لیتے ھیں فتوے دیتے ھیں۔ جیسے دو لخت شعر کے بارے امیر حسین جعفری کا کہنا کہ انڈیا اور پاکستان سے کوئی بھی اُن سے پوچھ لے فلاں شعر دو لخت نہیں ھے

جبکہ خود جعفری جی کی اپنی بےوزن نظم کی میری کی گئی تقطیع کے بعد بھی اخلاقی جرات کا نہ ھونا کہ غلطی مان لیں۔ کہ یہ رن آن لائن کی فحاشی نہیں بلکہ عروض کا بلاد کار ھے۔
کون لوک او تُسیں ۔۔۔۔؟۔۔
میرے اس مضمون کے پوسٹ کرنے کے بعد افتخار جعفری جو پاکستان کے سرکاری آئینی مسلمان شیعہ شاعر ہیں، نے مجھے اسلامی گالی دی اور کہا غیرت ہے تو غزل کب لکھی تھی بتاوں،،، سو اس میں غیرت بےغیرتی کہاں سے آ گئی۔۔ ایسا رویہ پاکستانی معاشرے کے اخلاقی انحطاط کا عکاس ہے۔۔چاھیئے تو یہ کہ بتا دیں اگر یا نہیں تو انداز ے سے بتا دیں نطم کب لکھی۔۔۔۔ ؟ اور یوں بھی نظم سے متاثر ہو کر غزل نہیں کہی جاتی یہ اُلٹا طریق ہوتا ہے۔ یعنی غزل سے متاثر ہو کر نظم ضرور کہی جاتی ہے۔۔
پلیجر ازم کی اگلی قسم ، موزیک یا پیچورک نقالی کہلاتی ہے
اس میں کسی سورس کے الفاظ و خیالات کو توڑ کر اپنے الفاظ سے اُسی چیز کو بیان کیا جاتا ھے،،درحقیقت اقبال کے ماخوذ کا تعلق اسی قسم کے پیچ ورک یا موزیک سے ھے جس میں بنیادی خیال کو ذرا بدل کر بیان کر دیا جاتا ھے،،،جیسے اقبال نے میٹلڈا می مشہور حمد میں لفظی تبدیلی تو کی مگر بنیاد خدا سے دُعا کی ہی رکھی۔۔۔

I. “God make my life a little light”

By Matilda Barbara Betham-Edwards (1836–1919)

GOD make my life a little light
Within the world to glow;
A little flame that burneth bright,
Wherever I may go.

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

God make my life a little flower,
That giveth joy to all,
Content to bloom in native bower
Although its place be small.

ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

God make my life a little song
That comforteth the sad;
That helpeth others to be strong,
And makes the singer glad.

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب

God make my life a little staff,
Whereon the weak may rest,
That so what health and strength I have
May serve my neighbours best.

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

God make my life a little hymn
Of tenderness and praise;
Of faith—that never waxeth dim,
In all His wondrous ways.

مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو
۔۔۔۔
یہاں اقبال نے بنیادی خیال بچے کی خدا سے رھبری کی دعا کو قائم رکھا ھے،
۔۔۔مزید میں یہ پہلے لکھ چکا ھُوں حوالے کے لئے شامل کر رھا ھُوں
۔۔۔
مثلاً

بھارتری ہری کہتا ہے

Wanting to reform the wicked with nectar sweet advice, is like trying to control an elephant with the pith of a lotus stem, or cutting a diamond with delicate petals of the Shireesh flower, or sweetening the salty ocean with a drop of honey. The creator has provided only one means for hiding one’s ignorance

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

(بھرتری ہری( اقبال

پس اقبال کافی حد ترک ایک اچھے شاعر مترجم تھے اور انہین اسی حیثیت سے جانا جائے تو سچی تاریخ مرتب ہوگی۔پاکستان میں اقبال کی شاعری پڑھنے والے ایسی باتوں سے بالکل واقف نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ایسا اشعار اور نظمیں خود اقبال کی ذاتی فکر کا پھل ہیں جبکہ یہ درست نہیں اصل میں ایسی نظمیں اور بےشمار اشعار مختلف مشہور اور اہم شعرا و فلسفیوں کی اصل کاوشیں ہیں جنکو اقبال نے خوبی سے شاعری میں یا نثر میں ترجمہ کیا ہےجس کا انکا کریڈٹ ملنا چاہئیے۔

ایک سروے جو میں نے 2010 میں پاکستان میں کیا تھا ایک ہزار افراد سے پوچھا کہ اقبال کی نظم ، لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، کیا اقبال کی اپنی فکری کاوش ہے یا کسی اور کی شاعری کا ترجمہ یا اکتساب؟

جواب میں پورے ایک ہزار کا یہی جواب تھا اقبال کی اپنی فکر کا پھل یہ نظم ہے۔۔ جبکہ تاریخی سچائی یہی ہے کہ اقبال نے ترجمہ و اکتساب کیا تھا۔انکی اپنی فکر صرف شعر کی بنت اور اسے خوبصورت بنانے میں صرف ہوئی۔

پس میرا اصرار ہے کہ تاریخی سچائی کو عین پوری سچائی ہی سے بیان کیا جائے۔۔ اس سے اقبال سے منسوب بہت سے جھوٹے دعوے ختم ہوں گے اور ہم ایک اچھے شاعر کی شاعری کا ماخذ جان کر اسکی شاعری کے ہنر کی تعریف کر سکیں گے۔

لیکن عجب قصہ ہے کہ وہ نسل جو اقبال کا سرکاری الاپ الاپتی رہی ہے وہ کچھ سننے کو تیار نہیں ہےاور دھمکی گالی، فتوی بازی، ذاتی دشنام پر اتر آتی ہے۔

سنسکرت کے اُس عظیم شاعر بھارتری ہری کی کچھ اور شاعر دیکھیں کیسی نئی اور خوبصورت ہے۔ آج کی اردو شاعری کیسے اسکے سامنے ماند ہے۔آئیے دیکھیں۔

The clear bright flame of a man’s discernment dies:

When a girl clouds it with her lamp-black eyes.

[Bhartrihari #77, tr. John Brough; poem 167] …

عقل مند کے ساتھ خطرے میں کود جانا بے وقوف کے ساتھ سیر کو نکل جانے سے بہتر ہے۔

(بھرتری ہری)

عقل ہے محوِ تماشائے لب بام۔۔۔۔۔کا منبع معلوم ہوگیاَ؟

دشوار گزار پہاڑوں پر درندوں کی صحبت بہتر لیکن بےوقوف کی صحبت راجہ اندر کے محل میں بھی ناقابل برداشت ہے

(بھرتری ہری)

’’جو شخص عورت کو کمزورکہتا ہےوہ بلاشبہ عورت کی فطرت سے ناواقف ہے.”

(بھرتری ہری)

اسی طرح ، اقبال ، خوشحال خان خٹک سے سخت متاثر تھے اور اس بات کا ثبوت ان کےکئی اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اقبال نے ان کو بہت دھیان سے پڑھا ہے اور خوشحال خان خٹک کی عظمت کی اگر بات کی جائے تو اقبال بہتر جاننے والوں میں سے ہیں، اقبال کے بہت سے اشعار دراصل خوشحال خآن خٹک کی شاعری کا ترجمہ ہیں، اقبال کہتے ہیں۔

خوش سرود آن شاعر افغان شناس
آنکه بیند باز ګوید بې هراس

آن حکیم ملت افغانیان
آن طبیب علت افغانیان

راز قومی دید و بیباکانه ګفت
حرف شوخی رندانه ګفت

علامہ اقبال نے خوش حال خان کی وصیت کو اپنی زبان میں یوں پیش کیا ہے

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جوڈالتے ہیں کمند
اڑاکرنہ لائیں جہاں بادکو
مغل شاہ سواروں کی گرد سمند

اس طرح بہ زبان فارسی بھی علامہ اقبال نے خوش حال خان کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے

خوش سروداں شاعر افغان شناس
ہر چہ بیند بازگویدے ہراس
آں حکیم ملت افغانیاں
آں طبیب علت افغانیاں
راز قوے دیدوبے باکانہ گفت
حرف حق بازوخئی رندانہ گفت

اقبال کے خط کے ایک پیرا گراف کا فورینزک تجزیہ

عطیہ فیضی کے نام اقبال کے خط سے اقتباس

ایک انسان کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا حق حاصل ہے۔اگر معاشرہ یا فطرت میرے اس حق سے انکار کریں گے تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا۔میرے لئے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں یا مَے خواری (شراب نوشی) میں پناہ ڈھونڈوں جس سے خود کشی آسان ہو جاتی ہے۔ کتابوں کے یہ مردہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اعماق میں اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ میں ان کتابوں کو اور ان کیساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بنا سکتا ہوں۔‘‘

اقبال اس میں اپنا استحقاق بتاتے ہیں کہ اُنہیں لذت و خوشی (جسمانی تلذذ) کی خواہش ہے جو انہیں ویسی میسر نہیں جیسی وُہ فینسٹیسائز کرتے ہیں، یعنی اقبال کو پہلی بیوی سے جسمانی جنسی تلذذ ملنے کے باوجود وہ کچھ ایسا چاہتے ھیں جو صنف مقابل کے بارے میں انکے خیالات میں موجزن ہے۔

یہاں وُہ خانگی ادب آداب کی کمی کی شکایت نہیں کرتے بلکہ اصل میں میاں بیوی کے باہمی تعلق میں جسمانی کشش اور ذہنی کم آہنگی کی شکایت کرتے ہیں۔

وہ صاف صاف کہتے ہیں وہ سرخوشی کے انسانی حق کے تحت چاہتے ھیں کہ انکی جنسی (فطری) جبلت کو ویسی تسکین ملے جیسی وہ چاہتے ہیں۔

فطرتی اعتبار سے اور سماجی پابندیوں کی وجہ سے جنسی اختلاط کی آزادی اُس وقت ہندوستان میں ایسے میسر نہ تھی کہ اقبال اُس سے متمتع ہوتے ، خاص طور پر جب وہ جرمنی میں دوران تعلیم یہ فطری آزادی دیکھ آئے تھے انہیں ہندوستان میں ایک مدقوق گھر میں اپنی بیوی سے وہ رغبت نہ تھی جو انہیں جرمنی میں بآسانی وافر میسر تھی۔۔۔ اسی لئے اقبال نے معاشرہ یا فطرت کے خلاف بغاوت کے حق کو استعمال کرنے کی دھمکی دی۔۔

وہ اپنی ذاتی ناخوشی کی وجہ سے ملک ہندوستان کو بدبخت کہنے لگے۔۔۔ یعنی جب کسی خطے میں آپ کے مطلوبہ حقوق میسر نہ ہوں تو آپ اپس خطے کو بدبخت کہنے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ اہم نکتہ ہے کیونکہ اقبال، کہہ چکے تھے کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ بھی کہہ چکے تھے کہ جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اُس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو۔۔۔۔۔۔ پس وہ ملک کو بدبخت کہنے پر مائل ہوگئے کیونکہ یہاں انکی ذاتی انفرادی انسانی تلذذ کی راہ بند معلوم ہوتی تھی۔۔ وہ اپنی بیوی کو چھوڑدینا چاہتے تھے لیکن انکے والد یہ نہین چاہتے تھے۔۔ جبکہ انکے دو بچے بھی تھے ۔۔۔

انہوں نے لکھا کہ اگر وہ ملک نہ چھوڑ سکے تو خود کو شراب میں اتنا غرق کر دیں گے کہ اسکا زہر ان کی جان لے لے۔۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے وہ کبھی شراب کثرت سے نہیں پیتے تھے کہ جسکا نقصان جگر کو ہونا شروع ہو جائے۔۔ اگر پیتے تھے تو بہت اعتدال کے ساتھ، جس میں طبی طور کوئی مضائقہ نہیں ہے۔۔

چونکہ اقبال عملی ملازمت نہیں کرتے تھے اس لئے مطالعہ اور لکھنے میں وقت صرف ہوتا ، اب اس مایوسی کی صورتِ حال میں انہیں اپنا مطالعہ کا کام بھی بے معنی لگنے لگا۔۔

وہ کہتے ہیں میں ان کتابوں کو اس ملک کی روایات سمیت جلا کر راکھ کر دوں گا میرے اندر اتنی تشنگی کی آگ بھری ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ یہ خظ عطیہ فیضی کے نام ہے جو جرمنی میں دوران تعلیم اقبال کے بہت قریب رہیں۔ رومانی تعلقات کے بعد وطن واپسی اور پرانے فرسودہ خاندان میں واپس آ کر رہنا اسی طرح مشکل ہوتا ہے جیسے آج بھی پاکستان سے کسی کا بیرونِ ملک رہ کر پاکستان میں واپس جا کر رہنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔۔ بالکل یہی اپ سیٹ معاملہ اقبال کو پیش آیا تھا۔ اور اس کے پیچھے عطیہ فیضی سے انکو جو جسمانی اور ذہنی امیدیں وابستہ تھیں انکو پورا کرنے کے لئے اقبال شدید ترین بیتابی کا شکار ہوگئے ۔۔۔ ایسے خطوط آج بھی عاشق کی طرف سے محبوب کو لکھے جاتے ہیں۔ میں خود ایسی کیفیات سے بار بار گزرا ہوں، بہرحال اقبال ایک انسان تھے اور ان کی ایسے ذہنی و جسمانی تلذذ کی خواہش بالکل جائز تھی۔

انہی دنوں میں عطیہ فیضی کے ایک اور عاشقِ صادق شبلی نعمانی بھی عطیہ فیضی کو خط میں کہتے ہیں کہ ۔۔۔ جیسے مغلیہ شہنشاہوں کے قصیدوں میں انکو سایہ خدا کہا جاتا ہے ویسی غزلیں تو میں تمھارے لئے کہتا رہتا ہوں۔۔۔تاہم۔۔۔میرے جسم کا ہر رونگٹھااور ہر موئے بدن تمھارے لئے میری طرف سے ایک شعر ہے۔۔۔۔۔ یہاں شبلی بھی شدید جنسی تشنگی سے بھرے بیٹھے ہیں۔

دانشور ظہور ندیم لکھتے ہیں ۔

’’اقبال کی ازدواجی زندگی ہمیشہ ناہموار اور نا آسودہ رہی ہے ۔ ایک سے زائد شادیوں کی ایک وجہ یہ بھی تھی ۔ عطیہ فیضی نے کہیں ذکر کیا ہے کہ اقبال کی ذہنی صلاحیت اور اعتماد جو لندن کے قیام میں تھا وہ ہندوستان واپس لوٹ جانے پر ویسا نہیں رہا تھا ۔

متوسط طبقے کا کوئی شخص اگر وسیع مطالعے کی بنیاد پر اپنی فکری سطح میں کوئی غیر معمولی تبدیلی لے آئے اور اسے حسبِ منشا سماجی ماحول نہ ملے تو وہ دوبارہ قنوطیت کی طرف لوٹ جاتا ہے ۔ اقبال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ سے واپسی کے بعد وہ ذہنی طور پر منتشر اور مایوس نظر آتے ہیں ۔ آخرکار وہ اپنی فکری سطح کو محدود کر لیتے ہیں اور پھر انہوں نے ایسے اشعار تخلیق کئے جو انکی سوچ کے تضاد کی عکاسی کرتے ہیں ۔ محدود سے محدود تر ہوتے ہوئے آخرکار وہ ایک تنگ نظر مسلمان شاعر بن کر رہ جاتے ہیں ۔”

علامہ شیخ محمداقبال صاحب نے 1897 میں مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پر برضا و رغبت خود ہی بیعت کرکے جماعت عالیہ احمدیہ مسلمہ میں شمولیت اختیار کی تھی اورپھر1935 تک احمدی رہے لیکن 1935 میں جب قائد اعظم محمد علی جناح نے گول میز کانفرنس کیلئے اپنے وفد کا سربراہ ایک دوسرے احمدی سر چوہدری محمد ظفر اللہ خان کو نامزد کیا تو اس بنا پر علامہ اقبال صاحب ناراض ہوگئے اوراپنی سیاسی وجوہات کی بنا پر جماعت سے کچھ دوری دکھائی اور کچھ مخالفانہ باتیں بھی کیں لیکن اس کے باوجود اپنے ایک بھتیجے مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب اور ان کے بیٹے کو جماعت کی بیعت کرنے کے لئے کہا تھا اور پھر انہیں اپنے دو بچوں کا سرپرست بھی مقرر کیا تھا ۔

1931 میں سر شیخ محمداقبال صاحب نےکشمیر کمیٹی کی صدارت کے لئے امام جماعت عالیہ احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام خود پیش کیا جو کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے تھے ۔ یہ تمام کاروائی آپ کتاب ‘‘ انوار بشیر ‘‘ پہلا ایڈیشن مطبوعہ 1993 از پاکستان ۔ دوسرا ایڈیشن مطبوعہ 2007 از برطانیہ ۔ تیسرا ایڈیشن مطبوعہ 2010 از جرمنی کے صفحات پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔

علامہ اقبال صاحب نے اپنی تحریرات میں اپنے بھائی مکرم شیخ عطا محمد صاحب کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ وہ احمدی تھے ۔ علامہ اقبال صاحب کے ایک بیٹے مکرم مظفر اقبال صاحب 1982 میں لندن میں فوت ہوئے ( یہ ان کی تیسری بیوی محترمہ مختار بیگم صاحبہ میں سے تھے ) جو کہ تادم حیات احمدی مسلمان رہے اور پھر یہی نہیں بلکہ خود علامہ اقبال صاحب کے والد محترم مکرم شیخ نور محمد صاحب بھی احمدی تھے ۔ یہ تمام باتیں تاریخ پاکستان کا حصہ ہیں لیکن افسوس کہ آج کا پاکستانی مورخ انہیں لکھتے ہوئے ڈرتا ہے ۔

بہرحال ’’ ایک روایت کے مطابق علامہ اقبال نے ….. مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پربیعت کی تھی –‘‘

( ” اقبال اور احمدیت ” تصنیف : بشیر احمد ڈار)

1953ء کے فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت ( منیر انکوائری رپورٹ) میں خواجہ نذیر احمد چیئرمین سول اینڈ ملٹری بورڈ آف ڈائریکٹرز نے یہ بیان ریکارڈ کروایا کہ :-

’’اقبال نے 1893ء میں قادیان جا کر مولانا غلام محی الدین قصوری کے ہمراہ سلسلہ احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔‘‘

عدالت میں بیان دینے کے بعد جب خواجہ نذیر احمد صاحب کی بعد میں قصوری صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی تو انہوں نے بیعت کے سن کی تصحیح فرما دی – اور بتایا کہ علامہ اقبال نے میرے ہمراہ قادیان جا کر 1893ء میں نہیں بلکہ ــــــــــ 1897ء میں بعیت کی تھی – اس پر خواجہ نذیر احمد صاحب نے اگلے روز درخواست دیکر عدالت کے ریکارڈ میں سن کی تصحیح کرادی – ( بحوالہ: ” پاکستان ٹائمز ” لاہور 14 نومبر 1953ء) ۔

سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ آپ ادھر ادھر کے حوالہ جات تلاش کرنے کی بجائے وہ کتب پڑھیں کہ جو خود علامہ اقبال کے عزیزواقارب نے تحریر کی ہیں مثلا

علامہ اقبال کے بڑے احمدی بھائی مکرم ومحترم شیخ عطا محمد صاحب کے بیٹے مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب نے ‘‘ مظلوم اقبال ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے ۔ یہ وہی شیخ اعجاز احمد صاحب ہیں کہ جن کو علامہ اقبال صاحب نے اپنے آخری ایام میں اپنے بچوں جناب جسٹس جاوید اقبال صاحب اور بیٹی منیرہ اقبال صاحبہ کا سرپرست مقررکیا تھا ۔

اسی طرح اس خاندان میں اور کون کون احمدی ہیں اس کا ذکر پاکستان کےجسٹس جناب جاوید اقبال صاحب نے اپنی خودنوشت حیات کتاب ‘‘ اپنا گریباں چاک ‘‘ میں کیا ہے ۔ اب لوگ خود تو کوئی تحقیق کرتے نہیں بلکہ ‘‘ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘ کے مصداق ہمیں الزام دیتے ہیں کہ ہم لوگ کیوں حقائق سے پردہ اٹھا رہے ہیں ۔

اقبال نے جہاں انگریز شُعرا سے اکتساب کیا وہاں فارسی شعرا سے خیالات لا کر اپنی شاعری اُستوار کی۔۔۔۔ مثلا 1289 میں فوت ہونے والے مشہور شاعر فخر الدین عراقی کا شعر ہے

بہ زمیں چو سجدہ کردم، ز زمیں ندا برآمد
کہ مرا پلید کردی، ازیں سجدۂ ریائی

(فخر الدین عراقی)

کہ میں نے سجدہ کیا تو زمیں سے آواز آئی تُو نے ریاکاری سے بھر پور سجدے سے زمین کو پلید کر دیا۔

بالکل یہی خیال اقبال نے چُرا کر، جس کو اقبال پرست اکتساب اور نئی زبان ، مصرع مین جان ڈال دی کہہ کر ملفوف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ یہ چوری ہی ہے۔۔ خیر۔۔۔اقبال نے شعر کہا۔۔ اور میں اس شعر کا کافی شائق رہا ہوں جب تک مجھے عراقی کے اصل ماخذ کا پتہ نہین چلا تھا۔۔۔

میں جو سربسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

اقبال

بات یہ ہے سچ کو سچ کی طرح سے لکھیں جھوٹے مت بنیں ۔ یہ مت کہیں اقبال نے دوسرے مصرعے کی تبدیلی سے شعر میں جان ڈال دی۔ فخرالدین کا شعر بے مثال ہےاور اس میں کسی خاص مذہب کی جانب اشارہ نہیں۔ اقبال کا نماز کا لفظ اور صنم کا لفظ ، اسلامی مقامی خیال تک محدود ہے۔ اس لئے کم درجے کا ہے جبکہ فخر عراقی کا شعر بڑا اور خاکسساری سے پُر ہےاور اصلی سچے خیال کا عکاس معلوم ہوتا ہے۔۔

اقبال مغربی ادبیات سے پورے طورپر آگاہ تھے۔ انھوں نے ’’بانگِ درا‘‘ میں درجن بھر امریکی اور برطانوی شعرا:جیسے لانگ فیلو، ایمرسن، ولیم کوپر، ٹینی سن، براؤننگ، سیموئیل راجرز اور دوسروں کی نظموں سے اخذ و ترجمہ کیا ہے۔ ورڈز ورتھ کا انھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا اور ۱۹۱۰ء میں اپنی انگریزی بیاض میں لکھا تھا کہ ورڈز ورتھ نے انھیں الحاد سے بچایا۔ اسی طرح ملٹن کا بھی ذوق و شوق سے مطالعہ کیا۔ اپنے ایک مکتوب محررہ مارچ ۱۹۱۱ء میں یہ بات درج کی کہ ’’ملٹن کی تقلید میں کچھ لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔‘‘ شیکسپیئر کو انھوں نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ گوئٹے سے بھی اقبال کا گہرا تعلق ہے۔ کیا مغربی ادبیات کے اس حصے سے آگاہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقبال پر مغربی جدیدیت کے اثرات تھے؟ جواب ہاں اور ناں دونوں میں ہوگا۔ ۔ دراصل اقبال نے مغربی ادبیات سے اخذ و استفادے کا عمل اپنے ابتدائی دور میں شروع کیا اور ۱۹۱۰ء تک ان کا شعری مائنڈ سیٹ متشکل ہو چکا تھا۔ اپنے ابتدائی دور میں اقبال کا مغربی ادبیات سے تعلق تقلیدی ہے، انھوں نے کئی مغربی نظموں کو پورے کا پورا اور کہیں مغربی نظموں کے کچھ مصرعوں کو ترجمہ کیا ہے۔ جیسے’’کوپر‘‘ کے اس مصرعے:

And, while the wings of fancy still are free

کو نظم ’’مرزا غالب‘‘ کا یہ مصرع بنا دیا ہے :

ہے پرِ مرغِ تخیّل کی رسائی تا کجا

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اقبال نے مشرقی ادبیات کی روایت کو کھو جا ہی نہیں تھا اسے مرتّب بھی کیا اسکا بھر پور فائدہ اُٹھایا۔ مغرب کے ساتھ ساتھ مشرق کی شاعری کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال نے فارسی، عربی، اُردو، سنسکرت، ادبیات کو ایک روایت ٹھہرایا اور اسے اپنی شاعری کی روحِ رواں بنایا۔ ان کے یہاں فارسی شعرا ملّا عرشی، ابو طالب کلیم، فیضی، صائب، مرزا بیدل، عرفی، خاقانی، انوری، سنائی، حافظ، سعدی ، فخر الدین اور سب سے بڑھ کر فکر رومی کے اثرا ت بالواسطہ اور بطور تضمین ملتے ہیں۔ عربی ادبیات سے انھوں نے ہر چند کسی مخصوص شاعر کے اثرات نہیں لیے مگر عربی شعریات کے اصول سادہ بیانی اور صحرائیت پسندی ضرور قبول کیے۔ مولانا غلام رسول مہر نے جب طلوعِ اسلام پر تنقید کی تو اقبال نے جواب دیا کہ ’’میں عربی شاعری کی روش پر بالکل صاف صاف اور سیدھی سیدھی باتیں کہہ رہا ہوں۔‘‘

اردو ادب کے طالب علموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال کی کئی شہرہ آفاق نظمیں بھی غیر ملکی ادب سے اخذ شدہ ہیں۔ ان میں \’ماں کا خواب\’، \’بچے کی دعا\’، \’ایک مکڑی اور مکھی\’، \’ایک گائے اور بکری\’، \’ایک پہاڑ اور گلہری\’ (ماخوذ ازایمرسن) \’ہم دردی(ماخوذ ازولیم کوپر)، \’آفتاب\’ (ترجمہ، گایتری) \’پیامِ صبح\’ (ماخوذ از لانگ فیلو)،\’عشق اور موت\’ (ماخوذ ازٹینی سن)ِ، \’رُخصت اے بزمِ جہاں\’ (ماخوذازایمرسن) وغیرہ۔

اقبال کو دہریت سے کسی المشہور بہ الہامی کتاب۔۔قرآن وغیرہ نے نہین بچایا۔۔۔۔۔بلکہ۔۔۔۔۔ایک انگریز شاعر نے بچایا۔۔۔۔

مخزن کے پہلے شمارہ ﴿اپریل ۱۹۰۱ء ﴾ میں اقبال کی نظم “کوہستان ہمالہ” کے عنوان سے شائع ہوئی جس پر اڈیٹر کی طرف سے یہ نوٹ ہے۔

شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور جو علوم مشرقی اور مغربی دونوں میں صاحب کمال ہیں، انگریزی خیالات کو شاعری کا لباس پہنا کر ملک الشعراانگلستان ورڈسورتھ کے رنگ میں ہمالہ کو یوں خطاب کرتے ہیں۔

اپنی ابتدائی شاعری میں اقبال نے مغربی شاعروں سے بھر پور استفادہ کیا۔ اس کے متعلق لکھتے ہیں۔

“میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل، اور ورڈ سورتھ سےبہت استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ غالب اور بیدل نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ مغربی شاعری کے اقدار کو سمولینے کے باوجود اپنے جذبہ اور اظہار میں مشرقیت کی روح کو کیسے زندہ رکھوں اور ورڈسورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچالیا”

اقبال پر تعمیری تنقید و گفتگو کی اصل وجہ کیا ہے؟

چونکہ پاکستان کی گزشتہ حکومتوں نے اقبال سے منسوب شاعری اور فکرو فلسفہ کو عوام کے درسی نصاب میں زبردستی شامل کر رکھا ہے،اور ایک مخصوص زاوئیے سے اقبال سے ایک خاص شدت پسندانہ مذہبی سوچ منسوب کی ہوئی ہے، جس کے انکاری خود اقبال کے قابل بیٹے جسٹس جاوید اقبال بھی ہیں، اور بے شمار مشاہیر و علماِ تاریخ نے اقبال کی شاعری اور علم و فکر کا جائزہ مختلف نتیجے پر منطبق کیا ہے تو اس لئے یہ ضروری ہے کہ اقبال سے منسوب گمراہ کُن ، اور حکومتی پراپیگنڈے کی بجائے ثبوت اور دلیل کے ساتھ اصل اقبال کو اسکی شاعری ، فکر اور فلسفے میں پیش کیا جائے۔

تاریخ کا پہلا حوالہ علی عباس جلالپوری جیسے عالم کا ہے جس نے اقبال کی فکر اور فلسفے کو ایک متکلم کی سوچ قرار دیا، یاد رہے متکلم ایسا سوچنے والا ہوتا ہے جو اپنے ایمان و عقیدے کی حقانیت کو اولیت دے کر سائینسی اور زمانی مشاہدوں کی تشریح اپنے اُن عقائد کے ذریعے پیش کرتا ہے جن پر اسکا ایمان ہوتا ہے۔

جہاں کہیں ایمان سے باہر کوئی مشاہدہ یا جلوہ ہو تو اُس کے بارے میں خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے۔

اقبال کے ذہنی و فکری خلفشار کے مختلف ثبوت اور نمونہ جات، میں اپنے مختصر مضامین میں بیان کرتا رہتا ہوں، ایسا کرنے کا مقصد ہرگز اقبال کی شخصیت، خاندان سے کوئی دشمنی نہیں بلکہ اقبال کی فکری و شاعرانہ اصلیت کا درست جائزہ سامنے لانے کی کوشش ہے،

بعض نابکار میرے ایسے استنباط و دلائل کے جواب میں ذاتی رکیک حملے کرتے ہیں، کچھ کہتے ہیں، اقبال کے پیچھے کیوں پڑ گئے؟ اقبال نے تمھارا کیا بگاڑا ہے؟ کچھ کہتے ہیں تم اقبال جیسا ایک شعر کہہ کر دکھاو تو مانیں

ایسی لایعنی باتیں اور مبازرت بھرے کلمے خود ظاہر کرتے ہیں کہ اس معاشرے کو اقبال کی اصل فکری روش سے متعارف کروانا اور بھی ضروری ہو گیا ہے کیونکہ یہ وُہ پود ہے جو مسلسل جھوٹے رُوپ کے درشن کر کے اقبال کو ناحق ایک مذہبی بزرگ قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے اور اسکی وجہ اسکی وہ درسی معلومات ہیں جو اقبالیات کے شعبے نے خاص حکومتی شہہ پر جھوٹے طور پر اقبال سے منسوب کی ہیں۔

بعض نام نہاد پروفیسران تو ایسے آپے سے باہر ہوئے کہ اقبال کے معزز بیٹے جاوید اقبال کے ساتھ گفتگو کے دوران انکو جھٹلانے کی کوشش کرتے رہے۔ جبکہ جسٹس جاوید اقبال انتہائی لبرل سوچ کے دانشور تھے۔ انکے بقول پاکستان، ہندووں نے بنایا ہے۔ اقبال نے کبھی پاکستان بطور ایک الگ آزاد ملک کے کوئی تصور نہیں دیا تھا۔

افسوسناک بات یہ ہےکہ پاکستان کے ٹی وی ریڈیو اخبارات دن رات اقبال کو مفکرِ پاکستان کہتے ہیں اس طرح ایک چالیس پچاس سال کی عمر تک کی نسل کو گمراہ کر دیا گیا ہے۔

اقبال پر اس لئے بھی سچی تعمیری تنقید لازم ہے کہ اقبال کو ایک بزرگ و مصلح کے طور پر پیش کیا جاتا ہے پس اس حوالے سے کوئی بھی جھوٹ اُن سے منسوب کر دینے سے سننے والا اقبال کے نام سے گمراہ ہوتا ہے۔

مثلآً اقبال سے منسوب ہے کہ ایک قاتل علم دین کے ناجائز عمل کو اقبال نے خوب اچھا کہا اور کہا کہ

’’ترکھاناں دا مُنڈا بازی لَے گیا۔۔اسیں ویکھدے رہ گئے۔‘‘

یعنی یہ بات کہنے والے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ توہینِ رسول کرنے والے کو قتل کرنا اقبال کے نزدیک بہت احسن اقدام تھا۔ لیکن اصل اقبال ایسے قتال پر اسطرح اُکسانے والا معلوم نہیں ہوتا۔

اس مثال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے بیانات و فکر و تشریح سے اقبال کو ایک شدت پسند، قاتل ذہن، ٹھیٹھ مسلمان ، موقع پرست انسان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ایک غلط بات ہے۔

میری تحقیق و تبصرہ، اقبال بطورِ انسان، بطورِ شاعر، بطورِ مفکر، بطورِ فلسفی یا متکلم ، بطورِ باپ، بطورِ شوہر، بطورِ نثر نگار ، ، اقبال کیسے تھے پر مشتمل ہے۔

مجھے اقبال سے پرخاش نہیں بلکہ اقبال سے منسوب پاکستان حکومتوں اور جعلی یک نظر مقالوں سے پرخاش ہے۔ اور میں ایسے تمام مقالے رد کرتا ہوں جو اقبال کو ایک آفاقی فلسفی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور جو دوسرے مغربی و مشرقی مشاہیر و شُعرا کے کلام پر مبنی اقبال کے کلام کو اقبال کا ہی کلام کہہ کر پیش کرتے ہیں۔

یعنی جیسے مغربی شُعرا کی شاعری کے تراجم والی اقبال کی شاعری، یا مقامی شعرا خوش خان خٹک، رومی، حافظ، اور ہندی شُعرا سے اکتساب و ترجمہ۔ یہ سب باتیں خالص ادبی لوازمات ہیں۔

لیکن میں کسی طرح بھی اس بات پر راضی نہیں ہو سکتا اور نہ آپ کو ہونا چاہئیے کہ جو شاعری مغربی و مشرقی شُعرا سے اکتساب ہے یا ترجمہ ہے یا ماخوذ ہے اُسے خالصتاً اقبال کی اپنی شاعری کا درجہ دے کر مضامین میں انکے حوالے استعمال کئے جاویں۔

میں سمجھاتا ہوں، کہ جب کسی تقریر میں اقبال پر بات کرتے ہوئے اقبال کی اعلی سوچ کی تعریف کرتے ہوئے حوالہ دیا جائے کہ اقبال کہتے ہیں کہ

محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہین کمند

تو ۔۔ قارئینِ کرام ! ساری تقریر ہی جھوٹ پر مبنی ہے، یہ اقبال کے الفاظ نہیں ہیں ،یہ خالصتاً پشتو کے شاعر خوشحال خان خٹک کا کلام ہے جس کا ہو بہو ترجمہ اقبال نے کیا ہے۔

یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے کہ آئیں بائیں شائیں کر کے آپ کہہ دیں کہ تو کیا ہوا ،دوسرے شعرا بھی اور زبانوں کے شعرا کی شاعری کا ترجمہ کرتے رہے ہیں۔۔لیکن جناب،دوسرے ایسے شعرا پر مضامین و تقاریر کرتے ہوئے انکے تراجم کو ان کی اپنی تخلیق نہیں قرار دیا جاتا۔

ایک بار تو حد ہی ہو گئی۔ لاہور میں اقبال ڈے پر، کچھ انگریز مدعو تھے۔ کسی بُدھو نے جسے معلوم نہ تھا کہ بچے کی دُعا اقبال کی نظم ، اصل میں انہیں برٹش انگریزوں کی مشہور شاعرہ میٹلڈا ایڈورڈ کی حمد کا ترجمہ ہے۔ اس نظم کو اقبال کی اعلی تخلیقِ ذاتی کہہ کر پیش کیا۔

یہ اس لئے ہوا ہے کہ درسی کتاب میں واضح طور کبھی بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ یہ نظم کس شاعرہ کی ہے اور نہ کبھی اُس شاعرہ کی تعریف کی گئی ہے۔ جو ادبی ہی نہیں اخلاقی بددیانتی ہے۔اگرچہ اقبال نے اپنی کتاب میں لکحا کہ یہ ماخوذ ہے۔۔مسءلہ پاکستانیوں کا ہے وہ کیوں لوگوں کو بتانا نہیں چاہتے کہ نطم اصل میں ایک اچھا ترجمہ ہے۔؟!

اقبال کی شکوہ جواب شکوہ کا بنیادی تصور ملٹن کی مشہور زمانہ پیراڈائز لاسٹ اور پیراڈائز ری گین سے لیا گیا ہے ۔ اگر آپ اقبال کی شاعری پڑھ کر ملٹن کی شاعری کا پڑھیں تو آپ بلاجھجک یہ بتا سکتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کے بنیادی خیال کہاں سے ماخوذ ہیں۔ اس لئے ہمارے محب وطن پاکستانی بڑے فخر سے یہ کہتے ہیں کہ ملٹن مغرب کا اقبال ہے جبکہ ملٹن کا ظہور اس دنیا میں اقبال سے پہلے ہوئے لہذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اقبال مشرق کا جان ملٹن ہے

ستارہ لکیر چھوڑ گیا ، تجزیہ، تنقید

ستارہ لکیر چھوڑ گیا ۔۔رفیع رضا

جہان ِ حیرت کا مسافر ۔ رفیع رضا
عرفان ستار۔۔۔۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں کہ میں نے اب سے پہلے رفیع رضا کو پڑھنے کی طرح نہیں پڑھا تھا۔ اسی طرح پڑھا تھا جیسے فیس بک پر سب پڑھتے ہیں۔ ایک عرصے تک تو رفیع میری فرینڈز لسٹ میں بھی شامل نہیں تھا۔ مگر اس دوران میں وہ اپنی غزلوں کے لنک مجھے ای میل کرتا تھا اور میں ایک سرسری پڑھت کے بعد جو مناسب سمجھتا تھا، وہ رائے دے دیتا تھا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ مگر اس دوران بھی بحیثیت شاعر، میرے دل میں رفیع کی قدر و قیمت موجود تھی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے رویّے کی شدّت دوسروں کی طرح مجھے بھی پریشان کرتی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ شخص دل جمعی سے شاعری کرنے کی بجائے یہاں وہاں جھگڑے کیوں مولتا پھرتا ہے؟ آخر مسئلہ کیا ہے اس کا؟ پاگل ہے؟ ذہنی مرض میں مبتلا ہے؟ خود پسند ہے؟ حاسد ہے؟ کیا ہے آخر؟ اس مسئلے کو زیادہ گمبھیر میں نے یوں بنا لیا کہ کینیڈا آنے کے بعد رفیع سے دو ایک ملاقاتیں ہوگئیں۔ یہ کیا؟ یہ تو کوئی اور ہی شخص ہے۔ پُرخلوص۔ گرم جوش۔ سلیقے کی گفتگو کرنے والا۔ تو پھر وہ کون ہے جو فیس بک پر آگ اگلتا پھرتا ہے؟ یہ مسئلہ کبھی میرے لیے سلجھنے والا نہ تھا اگر بھائی فرحت عباس شاہ نے مجھ سے رفیع کی شاعری پر کچھ لکھنے کے لیے نہ کہا ہوتا۔ جب یہ ہوا تب بھی میرا ابتدائی ردّ ِ عمل کوئی بہت مثبت نہ تھا، اگرچہ میں نے اس کا اظہار نہ کیا۔ ذہن میں یہ آیا کہ کیا مصیبت ہے۔ کس نے میرا نام سجھا دیا شاہ جی کو؟ خواہ مخواہ رفیع کی شاعری پر لکھ کر اس کے مخالفین کی باتیں سننے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر سوچا چلو خیر ہے۔ کاریگری دکھا دوں گا۔ صاحب ِ اسلوب، جدید فکر کا حامل، تازہ کار، اور اس قسم کی چند باتیں پھیلا کر لکھ دوں گا، جس میں کوئی فقرہ قابل ِ گرفت نہ ہوگا۔ سوال اٹھانے والوں سے کہہ دوں گا کہ یار۔ دنیا داری بھی کوئی چیز ہے۔ اگر نہ لکھتا تو لوگ کہتے کہ میں رفیع سے جلتا ہوں۔ نمبر ون کی لایعنی بحث بھی تو چھڑی ہوئی ہے۔ نہ لکھتا تو لوگ کہتے رفیع کے نمبر ون شاعر ڈکلیئر ہوجانے سے ڈرتا ہوں، اس لیے لکھ دیا۔ خیر ہے یار۔ دو ایک دن میں تحریر اپنی موت آپ مر جائے گی۔ لوگوں کی یاداشت بڑی مختصر مدت کی ہوتی ہے۔ کس کو یاد رہے گا؟
خیر اسی ذہنی کیفیت میں ’’ستارہ لکیر چھوڑ گیا’’ کا مطالعہ شروع کیا۔ پہلی بار سرسری نظر دوڑائی۔ وہی تاثر ابھرا کہ جو ہہلے سے تھا۔ اچھا شاعر ہے۔ مگر اتنا بھی اچھا نہیں۔ اخاہ۔ یہ لفظ کیسے استعمال کیا ہے؟ اور یہ ترکیب؟ یار کیسی پتھریلی زمین ہے۔ شدت ہے، مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چلو کل بیٹھ کر ایک آدھ گھنٹے میں نمٹا دوں گا مضمون۔ خیال سے لکھنا ہوگا۔ کوئی فقرہ سخت نہ ہو۔ کوئی بات حتمی نہ ہو۔ بس بین بین چلتا ہوا سلامتی سے گزرجاوٗں گا۔
اگلے دن پھر کتاب کھولی اور ذہن کو ایک شعر نے زوردار جھٹکا دیا۔
سو پھیلنے کی اسی حد پہ علم جاکے رکا
میں کہہ رہا تھا جہاں یہ سمٹنے والا ہے
یہ کیا ہے؟ ایکسپینڈنگ یونیورس تھیوری؟ مگر اس کا غزل میں کیا کام؟ اور پھر شاعر یہ بھی کہتا ہے کہ یہ جہاں سمٹنے والا ہے؟ گویا سائنس کا یہ ماننا کہ کائنات مسلسل پھیلنے کے عمل سے گزر رہی ہے، اور یہ عمل کسی وقت پلٹے گا، اور کائنات ایک مرکز کی جانب پھر سمٹے گی اور نتیجہ؟ وہ سب ٹھیک مگر یہ تھیوری غزل میں کیا کررہی ہے؟ کمال ہے۔ اور دیکہیں؟ چلو چلو۔۔۔آگے بڑھو۔
یہ جو موجود ہے، اسی میں کہیں
اک خلا ہے، تجہے نہیں معلوم
پیریلل یونیورس تھیوری؟ نا ممکن۔ یہ تکا ہے یار۔ شاعر کو کہاں معلوم ہوگا۔ یونہی لکھ دیا اور میں اس کو اپنے حساب سے توجیہ دینے لگا۔ پرے ہٹاوٗ یار۔ غزل کو غزل کی طرح پڑھو۔
نظر آتا ہے سر پر، اور نہیں ہے
رضا اس آسماں کا کیا کیا جائے؟
نہیں یار یہ خالص سائنس ہے۔ یہ تکا نہیں ہوسکتا۔ بالکل صاف، واضح شعر ہے۔ آسماں کا کوئی وجود نہیں۔ بس خلا ہے۔ اتھاہ، لاانت خلا۔ یہ آسمان صرف نظر کا دھوکہ ہے۔ یہ شخص کسی اور مقام سے کلام کررہا ہے۔ ہوشیار باش۔ ذرا خیال سے۔ معاملہ نازک ہے۔
دھڑکتی رہتی ہے کوئی گھڑی مرے دل میں
یہ وقت میرے ہی چکر سے ہوکے جاتا ہے
وجود سے باہر وقت کی کوئی حقیقت نہیں؟ ٹائم اینڈ اسپیس؟ کیا کررہا ہے یہ شخص؟ یہ تو سائنس سے زیادہ مابعدالطبیعات کا موضوع ہے۔ یہ کیا جہمیلا ہے یار؟
ستارے ہیں کہ دروازے کھلے ہیں آسماں کے
مجھے اب دربدر جانا ضروری ہوگیا ہے
بلیک ہولز؟ اینٹری پوائنٹ ٹو دی ادر ڈائمنشن؟ نہیں یار ستارے لکھا ہے۔ تو بلیک ہول سے پہلے کیا تھا؟
جدھر سے آرہا ہے وقت کا خاموش دھارا
رضا میرا ادھر جانا ضروری ہوگیا ہے
نہیں یہ محض اتفاق نہیں۔ ایک ہی غزل میں دو ایسے اشعار؟ یہ شخص جانتا ہے کہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ نہیں ہے۔ یہ آگہی کا سفر ہے۔ اس کی آنکھ کو کوئی ایسی جھری مل گئی ہے جس سے یہ ممنوعہ علاقے میں جھانک رہا ہے۔
پھسل گئیں مری آنکہیں پھر آسماں کی طرف
میں اس کے بعد وہیں پر خرام کرنے لگا
اس کے لیے آسمان سر تنی ایک چادر نہیں جس میں ستارے ٹنگے ہیں۔ اس کے بزدیک آسماں ایک لامحدود حقیقت ہے جہاں سے جہان ِ دگر کی راہ داریاں گزرتی ہیں۔ اس کے پاوٗں تو زمین پر ہیں، مگر اس کا سفر اس دوسرے جہان کا ہے، جہاں سے خبریں لا لاکر یہ لوگوں کو سنا رہا ہے اور جب وہ نہیں سمجھتے تو یہ جھلاتا۔ الجھتا ہے۔ چیختا ہے۔ سب سے لڑتا ہے۔ اس لیے کہ یہ سب سے محبت کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سب اس کے جہان ِ حیرت کے سفر میں اس کے ساتھ شریک ہوں۔ جہان ِ حیرت؟ حیرت؟ کیا یہ کلید ہے اس کی شاعری کا قفل کھولنے کی؟ چلو پھر چلو کتاب کے پہلے صفحے پر۔ حیرت۔۔۔۔۔
مرے لیے گُل ِ حیرت کھلا ہوا رکھنا
رضا ابھی مرے پاس آنکھ کا پرندہ ہے
منظر سے میں کہتا ہوں کہ حیرت مجھے دے دے
منظر مجھے کہتا ہے نظر کاٹ کے دے دوں
میری جراٗت کہ میں حیرت کی کہانی لکھوں
میں الف کی ابھی تفسیر نہیں کرسکتا
اب تک رکا ہوا اسی حیرت کدے میں ہے
لگتا ہے پھر خمار میں آیا نہیں ہے تُو
نئی حیرت تھی اس لیے سب لوگ
رک گئے، اور میں بے خطر گھوما
ہاں ہاں ہاں۔ حیرت۔ اور نئی حیرت۔ سائنس کی تازہ تر دریافتوں سے وا ہونے والی دنیا کی حیرت۔ ایک ایسا طلسم کدہ جس میں ایک بار جھانکنے کے بعد اصل کے سامنے آئینہ بے حیثیت ٹھہرتا ہے۔ یا حیرت۔
کوئی منظر خرید سکتا ہے
مجھ کو حیرت کے ایک دھیلے میں
یہ ہے مسئلہ اس پاگل کا؟ یہ اگہی سے دامن چاک کرکے گھومتا ہے؟ ایسی چاک دامانی کی بخیہ گری جنوں کے بس میں نہیں۔ اس کا کوئی علاج نہیں۔ آگہی کی طلب مزید کھوج ہے۔ اور یہ لگا رہتا ہے اسی کھوج میں۔ کیا واقعی؟ اور دیکہیں؟
شاید اسے کہیں کوئی حیرت دبوچ لے
حدّ ِ نظر سے آگے اچھالی ہوئی ہے آنکھ
حیرت مجھے لگتی ہے کوئی آٹھویں رنگت
یہ رنگ مری آنکھ میں بھرنے کے لیے ہے
گویا یہ سب اتفاق نہیں؟ یہ شخص اٹھویں رنگ کو منظر میں بھرنے اور آٹھواں سُر راگ میں لگانے کی دھن میں تصویر بناتا اور گیت سناتا ہے؟
حیرت کسی صورت مجھے چلنے نہیں دیتی
اور اگلا نظارا مجھے رکنے نہیں دیتا
یائے ہائے۔ کیسی کشکمش لکھی ہے اس شخص نے۔ ایک طرف حاضر منظر کی گہرائی ہے جو مزید رکنے کا تقاضا کررہی ہے، اور دوسری جانب آگہی کا یہ اعلان ہے کہ آگے چل۔ آگے اور بھی بہت کچھ ہے۔ کتنی مختلف ہے یہ شاعری معلوم کے بیان سے؟ نامعلوم کی پراسراریت، رمزیت، اور ’’امکانیت’’ ہی اور ہے۔
اکیسویں صدی جس میں ہم سانس لے رہے ہیں، دو اعتبار سے انسانی علم کے مروّجہ قوانین اور ٓاصولوں کی دھجیّاں بکھیر رہی ہے۔ ایک کوانٹم فزکس میں ہونے والی پیش رفت، اور ایک پیراسائکولوجی کا پھیلتا ہوا منظرنامہ۔ یہ دوعلوم اس معلوم دنیا کو ایک یکسر نئی شکل دے رہے ہیں، مگر اس کے چھینٹے اردو غزل میں؟
حیرت ہے رقص میں تجہے کیا دیکھنے کے بعد
اے ذرّے کی دہمال، تجہے کیا مثال دوں؟
یہ وہ ذرّہ نہیں جو اس خاک کا ہوتا ہے جو عاشق کوچہٗ ِ محبوب میں اڑاتا پھرتا ہے۔ یہ اس ’’الیکٹرون’’ کا رقص ہے جو ساری وجودی حقیقتوں کی بنیاد میں جلوہ فرما ہے۔ آنکہیں کھلنے لگی ہیں اب۔ اشعار مزا بھی خوب دے رہے ہیں۔
مری نگاہ تو حیرت سے بات کرتی ہے
سو اس کو روکنا میری زباں پکڑنا ہے
میں ایک شرط پہ آوٗں گا بزم ِ یاراں میں
مرے لیے کسی حیرت کا اہتمام کرو
سن لو یارو۔ سمجھ لو کہ رفیع کیوں تمہاری غزلوں کی تعریفوں کے پل نہیں باندھتا؟ اسے حیرت مہیّا کرو۔ پھر دیکھو یہ کیسے ایک چھوٹے بچے کی طرح ہمکتا اور خوش ہوتا ہے اور تمہیں گلے لگاتا ہے۔
یہ جو ہر سمت میں لکھی ہوئی اک نظم سی ہے
اس کے حیرت بھرے اشعار سے باندھا ہوا ہوں
ایک منظر ہے کہ اوجھل ہے مری آنکھوں سے
ایک حیرت ہے کہ میں جس سے لگا پھرتا ہوں
بجھا ہوا کوئی منظر مجھے قبول نہیں
میں اپنی آنکھ سے حیرت نکال پھینکوں گا
عطا ہوا ہے مجھے حیرتوں کا شمس ِ منیر
مری نگاہ نئے منظروں سے روشن ہے
اسے تو کوئی بھی حیرت لگا کے لے جائے
میں اپنی آنکھ کی بے رہ روی سے ڈرتا ہوں
کیسی بے راہ روی ہے جو درست راستے پر لگا دیتی ہے؟ کیسا جہان ِ حیرت وا ہوتا جا رہا ہے۔ سبحان اللہ۔
گم کدے میں حیرتوں کا سلسلہ رکھا گیا
مجھ کو تنہا چھوڑ کر بھی رابطہ رکھا گیا
حیرتی ہوں سو مری کون ضمانت دے گا؟
کوئی منظر بھی مجھے وجد میں لاسکتا ہے
جو شک کا ذائقہ آیا ہے آب ِ زمزم میں
تو کیا یقین کا زمزم نتھارنا پڑے گا؟
ساری حیرت تو مری آنکھ اٹھا لائی ہے
میرے دیکہے ہوئے کو یار کہاں دیکھتے ہیں؟
یہ ہے گلہ۔ یہ ہے مسئلہ۔ حیرت یا اخی حیرت۔
نازل ہوا ہے آنکھ پہ منظر کے سامنے
حیرت نیا فرشتہ ہے اس دین کے لیے
کیا سمجھے؟ نشانیاں۔ عقل والوں کے لیے۔ عقل والوں کا پہلا ردِّ عمل؟ حیرت۔
All knowledge starts with curiosity!
Imagination is more important than knowldge. (Einstein)
کن لوگوں کا ہمسفر ہے یہ شخص؟ دیکھو۔ سمجھو۔
حصار پر گلِ خوبی کے گرد میرا ہے
جسے میں دیدہٗ ِ حیران سے بناتا ہوں
تو اس حیرت کے سفر نے کیا دیا رفیع رضا کو؟ ایسے نئے اشعار کہ اب آپ دیدہٗ ِ حیرت وا کرکے پڑہیں تو لطف آجائے۔ چلیں میرے ساتھ اس جہان ِ حیرت کے سفر پر۔
اب کسی شعر کی وضاحت میں نہیں کروں گا۔ ہر شعر پر ذرا رکیں اور سوچیں۔ مابعدالطبیعاتی تناظر کو ذہن میں رکہیں اور میرے ساتھ ورطہ ٗ ِ حیرت میں پڑ جائیں اور رفیع رضا کے لیے دعا کریں۔ اس کے سوالات پر غور کریں کہ سوچنے والے ذہن کا کام محض جوابات سے لطف لینا نہیں، سوال اٹھانا بھی ہے۔ بلکہ سوال اٹھانا ہی ہے۔ یہ بھی دیکھئے گا کہ رفیع مضامین کو کیسے برتتا ہے۔ کیسے ایک مکمل تعقل کے موضوع میں کیفیت پیدا کرتا ہے۔ کیسے اس کا لفظیاتی نظام موضوع سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ تمام باتیں الگ الگ مضمون کی متقاضی ہیں، مگر سر ِ دست صرف ان خوبیوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔
یہ پھڑپھڑاتا ہوا شعلہ کھول دے کوئی
بندھا چراغ سے کیوں آنکھ کا پرندہ ہے؟
کہیں کوئی خلا میرے نہ ہونے سے بھی ہوگا
جسے اب مجھ سے بھر جانا ضروری ہوگیا ہے
یہ بتا سکتا ہوں وہ آگ مقدّس ہے مگر
اپنے جلنے کی میں تشہیر نہیں کرسکتا
آسماں سے بھی یقیں اٹھتا چلا جاتا ہے
ایسا ہونا تو نہیں چاہیئے، پر ایسا ہے
ہر طرف آسمان کھلتا ہے
میں کہیں سے فرار نہ ہو جاوٗں
میرے ذرّے کو چمکنا ہے اسی نور کے ساتھ
وہ مری خاک سے بچ کر نہیں جانے والا
میں اگر زندہ رہوں گا تو چلا جاوٗں گا
میں یہاں سے کبھی مر کر نہیں جانے والا
نئے ہیں لوگ، سوالات بھی نئے لائے
اٹھا یہاں سے پرانا جواب اور نکل
تجہے پتہ ہے بگولے کی آنکھ میں تو ہے
سو اپنے گرد مرا انہماک دیکھنے آ
میں پکارا، کوئی نہیں بولا
پھر مرا خامشی سے دل نہ بھرا
کہیں مثال نہیں ہے کہیں پرندوں میں
کسی الاوٗ کے اتنا قریب جانے کی
میں مر رہا ہوں کسی اور زندگی کے لیے
نہیں ہے کوئی ضرورت مجھے بچانے کی
بچے کچہے یہی منظرسمیٹ آنکھوں میں
کوئی ترے لیے کتنے نشان چھوڑے گا؟
کھلا یہ راز کہ وحدت میں کیا بڑائی ہے
میں جب حقیر ہوا جمگھٹوں کے ہونے سے
میں تجھ کو دیکھ چکا اور تجھ کو جان چکا
میں تجھ کو مان چکا آئینے کے ہونے سے
وہ روشنی مری بینائی لے گئی پہلے
پھر اس کے بعد مرا دیکھنا مثال ہوا
میں اس کے سامنے بیٹھا کہ میں جھکوں لیکن
وہ شولہ رُو تو مرا احترام کرنے لگا
تُو کائنات تو کیا، میرے دل پہ بات نہ کر
ترے لیے یہ کہانی ذرا زیادہ ہے
پہلے دیوار کی صورت تھا یہ آئینہ مجھے
اب میں اِس پار سے اُس پار بھی تکنے لگا ہوں
میں اپنی خاک اڑاتا ہوں آسمان تلک
وگرنہ کون سرے سے سرا ملاتا ہے؟
ایسا لگتا ہے کوئی کھول نہیں پایا مجھے
ایسا لگتا ہے بڑے پیار سے باندھا ہوا ہوں
میں پار دیکھ رہا ہوں بڑی سہولت سے
اور آئینے کو یہاں سے ہٹا رہا ہے تُو؟
روک لے ایک گزرتے ہوئے لمحے کو یہیں
شے کوئی جیسے پڑی ہے وہ پڑی رہنے دے
یہ کیسا تعلق ہے سمجھ میں نہیں آتا
کیوں بیچ میں بے انت خلا چھوڑنا پڑ جائے
کہ ایک روز کھُلا رہ گیا تھا آئینہ
اگر گواہ بنوں تو بیان دے دوں کیا؟
میں سامنے سے اٹھا اور لو لرزنے لگی
چراغ جیسے کوئی بات کرنے والا تھا
کہاں یہ خاک کے تودے تلے دبا ہوا جسم
کہاں میں سیر ِ سماوات کرنے والا تھا
دکھا رہے ہو مجھے آسمان کا رستہ
مری اڑان کا آغاز کر رہے ہومیاں
وہ آگیا ہے زیادہ قریب آنکھوں کے
اسی لیے تو ذرا بھی نظر نہیں آتا
جا اپنے آسمان کو خود ہی اٹھا کے پھر
میں تو ہٹا رہا ہوں سہارا دماغ کا
اک سرنگ آنکھ میں لگتی ہوئی پکڑی بروقت
سارے قیدی تہے مری آنکھ سے جانے والے
مرا بدن مجھے اک قید خانہ لگتا ہے
یہاں خبرنہیں کتنا زمانہ لگتا ہے
یہ کیا کیا مجھے اڑنا سکھا دیا تُو نے
اب آسمان بھی مجھ کو پرانا لگتا ہے
لوگ روئے بچھڑنے والوں پر
اور ہم خود کو ڈھونڈ کر روئے
اڑان فرض ہوئی اب مجھے اجازت دو
میں بازووٗں پہ نئے پر نکال بیٹھا ہوں
پر، پرندہ، چراغ، شعلہ، آسمان، اور آنکھ اس جہان ِ حیرت کے سفر میں رفیع کا رخت ِ سفر ہے۔ یہ اس کے دوسری اقلیم میں داخل ہونے کے پاس ورڈ ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ اپنی شاعری کی تفہیم کرنے پر دوسروں کو مجبور نہیں کرسکتا۔ مگر وہ جانتا ہے یہ وہ ریگ زار ہے جس پر ’’تیاری’’ کے بغیر قدم دھرا تو پاوٗں جل جائیں گے۔ اسی لیے تو وہ کہتا ہے۔۔۔۔
میں نے سب سے کہا رکو، ٹھہرو
دیکھتا ہوں میں جاکے آتش کو
وہ اس پار کا منظر دیکھتا ہے اور اس پار کے لوگوں کو خبر کرتا ہے، مگر وہ لوگ نہیں سمجھتے۔ شاید سمجہیں گے بھی نہیں۔ مگر وہ اس بات سے لاپروا اپنے سفر میں مگن ہے۔ یہ اس کی اپنی دنیا ہے جس میں وہ بلا خوف و خطر گھومتا ہے، منظروں سے حیرت سمیٹتا ہے، لفظوں میں بنتا ہے، اور آگے چل پڑتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ انت سے آگے ایک سفر ہے۔۔۔۔۔
ایسا نہیں کہ اس کے یہاں کمزوریاں نہیں ہیں۔ بہت ہیں۔ مگر وہ کمزوریاں اس بزدل کی نہیں جو اپنی کمزوریوں پر کھوکھلے لفظوں کا ملمع چڑھاتا رہنا ہے۔ یہ کمزوریاں اس جراٗت مند شخص کی ہیں جو اپنے سفر کے دوران ملنےوالی صعوبتوں کو بھی انعام تصور کرتا ہے کیونکہ اس سے اسے حیرت کا خزانہ ملتا ہے۔ فنی کمزوریاں بھی ہیں، مگر وہ کس کے یہاں نہیں ہوتیں؟ اردو شاعری کو جو رفیع رضا سے مل رہا ہے وہ ایک نیا راستہ ہے جس قدم رکھنے سے پہلے وہ رخت ِ سفر بھی مہیّا کرنا ہوگا جس کے ساتھ نئی منزلوں کی جانب پیش قدمی کی جاسکتی ہے۔ رفیع رضا بڑا شاعر نہیں۔ رفیع رضا عظیم شاعر بھی نہیں۔ مگر رفیع رضا ایک بہت اہم شاعر ہے، جو اگر اپنا سفر جاری رکہے تو ایک دن ان منزلوں تک رسائی پاسکتا ہے جو کم کم لوگوں کا نصیب ہوتی ہیں۔ یہ امکان خود میں ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور میں اس کامیابی پر رفیع کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
نظر انداز میں ہُوا لیکن
کس قدر ظلم حرف و فن سے ہوا
یہ ظلم رفیع کے نزدیک اسے نظرانداز کرنے کا ظلم نہیں، بلکہ ان لوگوں کا راستہ روکنا کا ظلم ہے جو نئی منزلوں کی دریافت میں رفیع کے ہم سفر ہوسکتے ہیں۔
ابھی بہت سی باتیں رفیع کا آئندہ سفر طے کرے گا۔ مجھے امید ہے کہ سرِ دست رفیع پر ’’صوفی شاعر’’، ’’سائنسی شاعر’’ ’’با بعدالجدیدیت کا شاعر’’ وغیرہ قسم کے لیبل نہ لگائے جائیں اور اسے اپنا سفر اسی انہماک سے جاری رکھنے ریا جائے، جو اس کے لیے بڑی کامیابوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس کی شاعری کا ایک حصہ معاشرتی برائیوں کی عکاسی اور منافقت کے خلاف آواز اٹھانے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس میں وہ اکثر نعرے بازی کا شکار نظر آتا ہے مگر صاحب۔ احتجاج میں نعرہ تو لگتا ہی ہے، سو یہ بھی ٹھیک ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس گوشے پر کسی نہ کسی دوست نے ضرور گفتگو کی ہوگی چونکہ میں نے ابھی باقی مضامین نہیں پڑہے اس لیے یقین سے نہیں کہہ سکتا، مگر ایک مختصر تحریر میں ایک اچہے شاعر کا مکمل احاطہ کرنا ناممکن ہے، اس لیے اسے کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ موقع اپنی علمیت جھاڑنے کا نہیں بلکہ ایک خوبصورت شاعر کےکام کو سراہنے کا ہے اس لیے میں نے زیادہ توجہ اس کی شاعری سے اچہے اشعار آپ تک پہنچانے پر دی ہے۔ مگر یہ صرف انتخاب ہے۔ ستارہ لکیر چھوڑ گیا میں اور بہت مال ہے۔
اس مضمون کا مقصد رفیع کی شاعری کے اس گوشے کا قفل کھولنے کی کوشش یا کم ازکم اس کی کنجی مہیّا کرنے کی سعی تھی۔ امید ہے کہ کچھ نہ سہی مگر یہ مضمون رفیع کی شاعری کے اس بڑے حصے کی طرف احباب کی توجّہ ضرور مبذول کرائے گا جو اس کی شاعری کی اصل ہے اور جہاں سے وہ راستہ نکلتا ہے جو اس کا اصل راستہ ہے۔ اس کی منزل کا راستہ۔ جہان ِ حیرت سے گزرتا ہوا راستہ جہان ِ نامعلوم کی طرف جاتا ہوا راستہ۔
آخر میں رفیع کا وہ مزاج اور رویّہ جو لوگوں کو گراں گزرتا ہے تو صاحبو۔ شاعری جب شاعر کے وجود سے سفر اختیار کرلیتی ہے تو اپنا ایک علیحٰدہ وجود رکھتی ہے۔ اسے اس کی شخصیت سے الگ پرکھو اور اسے اس کا جائز حق دو۔ رہی شخصیت کی بات تو یہ پڑھ لو۔۔
جیسا بھی ہوں سینے سے لگا لو مجھے یارو
اب وقت ذرا کم ہی سدھرنے کے لیے ہے
عرفان ستار
ٹورنتو
۲۵ دسمبر
۲۰۱۰۔
………………………………………………………………………..
…………………………………………………………………………
NASIR ALI
ناصر علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستارہ لکیر چھوڑ گیا۔
رفیع رضاسے میری پہلی ملاقات رحمانپورہ لاہور پر اسی کی دہائی کے وسط میں ہوئی۔صحت مند چہرہ ،رنگ سرخ لیکن سیاہی مائل،شفاف شفاف آنکہیں لیے یہ نوجوان مجھے بہت اچھا لگا ۔چونکہ ہم دونوں تحصیل چنیوٹ سے تہے اس لیے ایک دوسرے سے قریب ہو جانا عین فطری تھا ۔ میں کیریم بہت اچھا کھیلتا تھا۔ اس نے میرے ساتھ میچ کھیلا۔ ہار جانے پر افسوس کی بجائے اس نے اگلا میچ اور جذبے سے کھیلا۔ کیریم کا بہت اچھا کھلاڑی نہ ہونے کی وجہ سے رفیع رضادوبارہ ہار گیا لیکن بعد ازاںاسے جب بھی موقع ملتا مجھے ہرانے کی کوشش کرتا ۔ مجھے اس کا یہ انداز بہت پسند آیا کہ یہ شخص مایوس ہونے کی بجائے کوشش پر یقین رکھتا ہے۔اب جب میں اسے مختلف مواقع پرکسی نہ کسی معاملے میں الجھا ہوا دیکھتا ہوںتو مجھے ہار نہ ماننے والا نوجوان رفیع رضا یاد آجاتا ہے ۔
گاہے بگاہے ہم ایک دوسرے ملتے رہے ۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ معاملہ کیسے کھلا کہ ہم دونوں شعر بھی کہتے ہیں لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ رفیع رضانہ صرف اچہے اچہے شعر سناتا تھا بلکہ عروض کے علاوہ دوسرے ٹیکنیکل مسائل پربھی توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ملاقاتوں کا یہ سلسلہ تقریباً چار سال تک قائم رہا اور اس کے بعد اچانک رفیع رضا سے ملاقات ختم ہوگئی کیونکہ اس نے لاہور چھوڑ دیا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد میرا یہ دوست فیس بک پر کچھ یوں نمودار ہوا کہ بعد ازاں مجھے بھی اپنے ساتھ کھینچ لایا۔سو جب کچھ دن پہلے جب محترم فرحت عباس شاہ صاحب نے حکم دیا کہ رفیع رضا کی شاعری پر مضمون لکھو تو مجھے نہ صرف مسرت بلکہ ذمہ داری کا احساس بھی ہوا کہ معاملہ ذاتی دوست کا ہے ۔
رفیع کی غزل پر بات کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ شاعری کی بابت اپنا نقطہ ءنظر بیان کر دوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ شعر کا لفظ شعور سے مشتق ہے یعنی شعور کا اظہار ۔ لیکن شعر میں شعور کا اظہار ایک خاص سلیقہ بھری بنت سے کیا جاتا ہے ۔ میرے ذاتی خیال میں شعر شعور یعنی بات کا بیان ہے ۔ کچھ دوست شاعری کو صرف تخیل کا اظہارقرار دے کر محدود مضامین کی قید میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ جبکہ کافی دوست شعر کو شعور اور تخیل کے ملاپ سے تشکیل پانے والا فن سمجھتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ وہ دوست جو شعر کو صرف تخیل کے اظہار قرار دیتے ہوں اس قضیے سے اختلاف کریں۔ ان دوستوں کا اختلاف سر آنکھوں پر کہ اختلاف ہی زندگی کا حسن ہے۔میں ذاتی طور پر پہلے اور تیسرے بیان سے متفق پا تا ہوں یعنی شعور کا شعری فنی حدود کے اندر رہتے ہوئے با سلیقہ بیان بھی میرے نزدیک شاعری قرار پاتا ہے اور شعور اور تخیل کے ملاپ سے تشکیل پاکربات کا فنی حدود کے اندر رہتے ہوئے با سلیقہ بیان بھی میرے نزدیک شاعری قرار پاتا ہے۔
میرے نظریہ شعر کے ساتھ ساتھ اردو غزل کے سفر پر چند معروضات پیش کرنا ضروری ہے ۔ یہ کہ اردو غزل کلاسیکی شعرا سے سفر کرتی ہوئی جب مولانا حالی تک پہنچی تو حالی نے اسے اسے طے شدہ استعارات و نظام علامات سے نکال کر نئے استعاراتی نظام کی جستجو پر لگا دیا ۔ بعد ازاں غزل اقبال سے ہوتی ہوئی عہدِ موجود تک پہنچی۔اس سفر کے دوران غزل بہت سے لسانی تجربات سے گزری ۔ مضامین کی سطح پر بھی بہت سے اضافے ہوئے۔ایسا بھی ہوا کہ نظم نے 1960کی دہائی میںصنف ِ غزل کی موت کا اعلان بھی کیا۔لسانی تشکیلات کے نعرے کے ساتھ نظم گو حضرات ایک تحریک بنانے میں بھی کامیاب ہوئے۔ لیکن غزل اتنی سخت جان نکلی کہ ہر مشکل سے نبرد آزماءہوتی ہوئی رفیع رضا جیسے صاحب ِ کمال شاعرتک آپہنچی ہے۔ اس سفر کے دوران غزل مختلف اسالیب سے گزری جن میں اہم طنزیہ و مزاحیہ اسلوب مثلاً اکبر الہ آبادی،تند خوئی مثلاً یگانہ ، اعلی اقدار پر مشتمل اسلوب مثلاً علامہ اقبال،نیم رومانی اسلوب مثلاً فراق،بعد ازاں لسانی تجربات کا ایک سلسلہ بھی چلا۔غز ل میں داستانی اسلو ب کو ثروت حسین جیسے شعرا نے رواج دیا اور کچھ شعرا نے تصوف کے مضامین کی مدد سے ایک نیا اسلوب دریافت کرنے کی کوشش کی جو میرے ذاتی خیال میں ابھی پوری طرح تشکیل نہیں ہو پایا۔اسلوب کے حوالے سے میں رفیع رضا کی غزل پر آخر میںبات کروں گا۔
رفیع رضا ایسا شاعر ہے جو غیر ضروری دباوکے تجربات سے گزرا۔اس دباو کی مختلف اشکال تہیں اور ہیں۔معاشی دباو کے ساتھ ساتھ سیاسی بد حالی اوربعد ازاں ہجرت کا تجربہ ۔ ہجرت کے نتیجے میں بیرون ملک تہذیبی اختلافات نے اور ہی قسم کے دباو جنم دئیے جو صرف ہجرت کرنے والا شخص ہی محسوس کر سکتا ہے۔یوں رفیع رضا جیسا شاعر ان تمام تجربات اور دباو سے گزرتا اور اظہار کا وسیلہ بصورت غزل لیے ہمارے سامنے موجود ہے۔
ستارہ لکیر چھوڑ گیا میں ایک سو پچاس غزلیں موجود ہیں جبکہ اس سے کہیں زیادہ غزلیں کتاب کی ضخامت کے باعث التوا میں ڈال دی گئی ہیں۔میں اس کتاب کی اشاعت کے سفر میں تقریباً ہر مرحلے پر موجود رہا ہوں۔اس دوران میں نے اس کتاب کا ایک ایک شعرکم از کم دو مرتبہ ضرور پڑھا۔کہیں پہلے بھی میں یہ لکھ چکا ہوں کہ رفیع رضا کی غزل نہ صرف تروتازہ لگتی ہے بلکہ یہ غزل کسی استادکی تھپکی کی جتنی پر اثراور نوجوان چہرے جیسی پر جمال ہے ۔کہیں یہ انسانی نفسیاتی تاریخ رقم کرتا نظر ٓتا ہے تو کہیںعلم الکلام کی ساری کتابوں کو شعری ٹھوکر مارتاہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔ کہیں اس کی غزل انوکہے اظہار سے گزرتی ہے تو کہیں روایت کے ملبے میں مدفون لاشوں پر فاتحہ خوانی اہتمام ہوتا ہے۔ رفیع رضاکی غزل نہ صر ف دل میں کھب جاتی ہے بلکہ اس کی غزل میں وقت بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔رفیع رضا کی غزل میں غزل اور مکالمے کا ملاپ بہت دلچسپ ہے اوراس ملاپ سے یہ بھی سیکھا جا سکتا ہے کہ مصرعے کو اپنی ساخت میں سیدھا کیسے کیا جائے۔ ہر لفظ اتنا موزوں بیٹھتا ہے جیسے غزل نہ ہو گفتگو کی جا رہی ہو۔رفیع رضاکی غزل میں موجود مضامین بوسیدگی کی بو سے بالکل پاک ہوتے ہیں وہ بالکل جگالی نہیں کرتابلکہ اپنے ہونے،کرنے اور بیتی واردات سے غزل کشید کرتا ہے ۔میں کہا کرتا ہوں کہ رفیع رضا بستر پر لیٹ کر ستاروں پر کمند ڈالنے والا شاعر نہیں بلکہ اس کا عمل ہی اس کی شاعری ہے۔یعنی اس کی غزل میں وقت بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔
میرے خیال میں مشتمل بر ردیف غزل کی عمارت قافیے پر نہیں ردیف کے مناسب ترین استعمال پر کھڑی ہوتی ہے ۔ حالانکہ کہ زیادہ تر شعرا دوران ِ نزول ِ غزل اور بعد ازاں غزل پر نظر ڈالتے وقت قافیے کی طرف توجہ زیادہ مبذول رکھتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ رفیع قافیہ بندی کے ساتھ ساتھ ردیف پر گہری نظر رکھتا ہے ۔ رفیع رضا کی غزل نہ صرف طے شدہ معیارات پر پوری اتری ہے بلکہ مشکل ترین ردیف کو بھی اتنی سہولت اور ہنرمندی سے استعمال کرتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔دور جانے کی ضرورت نہیںمثال کے طور پر اس کتاب کی پہلی پانچ غزلوںکی ردیفیں حاضر ہیں۔میں مجھے مل، پرندہ ہے،کاٹ کے دے دوں،سے گرے گا،لگی ہو تم۔ علاوہ ازیں رفیع رضا کی بہت بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ صرف اپنی زمینوں پر کاشت کرتا ہے ۔ اس کے ہاں نئی نئی زمینوں کی دریافت اور ان زمینوں میں کہی گئی غزلیں اپنی مثال آپ ہیں ۔کسی شاعر کی تخلیقی صلاحیت کو جانچنا ہو تو اس کی تخلیق کردہ زمینوں سے اس کے قد کاٹھ کا با آسانی پتا چلایا جا سکتا ہے ۔ رفیع اس معیار پر نہ صرف پورا اترتا ہے بلکہ اس حوالے سے بہت اہم شاعر قرار پاتا ہے۔ آ ئیے اس کی دریافت کردہ زمینوں میں کچھ زمینوں سے لطف اندوز ہوں ۔
غزل کو یاروں نے حجرہ بنا لیا ہوا ہے
ایک مجذوب اداسی میرے اندر گم ہے
بس آنکھ لایا ہوں اور وہ بھی تر نہیں لایا
گزرتے جا رہے ہیں دن، گزارا ہو رہا ہے۔
کچھ نہ کچھ ہونے کا یہ ڈر نہیں جانے والا۔
چاک پر ایسے میرا سر گھوما۔
اے وقت کے امام کہیں میں نہ چل بسوں۔
دن کے اجلے سفید تن سے ہوا۔
رفیع رضا کے ہاں اتنی زیادہ نئی زمینیں ہیں کہ مجھے مشکل ہو رہی ہے کہ کس کس کا ذکر کروں۔ اردو غزل احسان فرموش نہیں ۔ جس شاعر نے اردو غزل کے ساتھ پوری طرح جڑ کر اس کی خدمت کی ،غزل نے اسے یاد رکھا ۔ سواس حوالے سے رفیع رضا کا نام اردو غزل کی تاریخ میں ہمیشہ موجود رہے گا کہ اس نے نئی نئی زمینوں کی دریافت میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔
رفیع رضا کا ایک اور اہم کام یہ ہے کہ اس نے روزمرہ زندگی کے مکالماتی انداز کو غزل کی زبان بنا دیا ہے ۔ اس کا یہ مکالماتی اسلوب اس دور کی ضرورت بھی ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں فارسی کو سکولوں سے تقریباً خارج کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے مستعمل زبان کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان کتابی اور شعری اردو سمجھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے رفیع رضا کا مکالماتی انداز اور روزمرہ کی زبان میں معیاری اور بہترین غزل بہت اہم کام ہے ۔ بہت سے شعرا محدود اور مخصوص لفظیات میں مبتلا ہونے کے باعث عام مستعمل زبان سے شعر کشید کرنے سے قا صر رہتے ہیں۔ شعرا کی اس وجہ سے نوجوان نسل شعر سے دور ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے میں رفیع رضاکی غزل اردو زبان کے لیے تحفہ ہے۔
اردو شاعری میں اضافتوں کے استعمال پر بہت سی گفتگو کی جاسکتی ہے۔ اضافت اظہار کی سہولت دیتی ہے لیکن ساتھ ساتھ زبان کو بوجھل بھی بنا دیتی ہے ۔ بہت سے شعرا تو ایک سیدھا مصرعہ نہیں کہہ سکتے۔بعض اوقات تو اردو کی بجائے جناتی زبان بن جاتی ہے۔شعر کے ایک مصرعے میں دو اضافت فی مصرعہ کا حساب لگائیں تو پانچ اشعار کی غزل میں بیس عدد اضافیتں موجود ہوتی ہیں ۔ رفیع رضااس معاملے میں بہت سلجھا ہوا رویہ رکھتاہے۔ عام طور پر اس کی غزل اضافت سے پاک ہوتی ہے ۔اگر کہیں ضروری ہو تو اضافت اتنی سہل ہو کر آتی ہے کہ ذرا بھی بوجھل محسوس نہیں ہوتی۔اس کے ہاں آسان لیکن تازہ اضافت بھی موجود ہے لیکن مقدار میں بہت کم کیونکہ یہ اس طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔
جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ رفیع رضااردگرد کی زندگی اور انسانی تعلقات کو پوری طرح محسوس کرتا ہے اسی احساس کے تحت وہ اردو شاعری میں روائیت کے اندر رہتے ہوئے تعلقات میں بہتری کی تلاش میں رہتا ہے۔اس تگ دو نے اس کے شعری اسلوب کو تخلیق کیا ہے۔ رفیع رضا مسلمات پر اعتبار کرتا ہے لیکن کہیں کہیں انحراف کے رستے بھی نکال لیتا ہے ۔ میرے خیال میں اس کے اسلوب کے اہم پہلو کچھ یوں ہیں ۔(1) رفیع رضا نے اردو غزل میں مستعمل اسلوب سے واضح انحراف کرتے ہوئے غزل کو عام فہم بنا دیا ہے ۔(2)رفیع رضا نے نئی شعری علامتوں کو تشکیل دنے کی کوشش کی ہے جو کہ قابل تحسین ہے۔(3)لسانی سطح پر اردو غزل مشکل پسندی کا شکار تھی۔رفیع رضا نے اسے سیدہے اور آسان رستے پر ڈالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔(4)موضوعات کی سطح پر بھی اردو غزل محدودات کا شکار تھی۔ رفیع رضانے غزل کو محدود مضامین سے نکال کر بہت سے نئے امکانات کا در کھول دیا ہے۔(5) رفیع رضا نے کسی ایک موضوع سے وابستہ نہ رہ کر تمام زندگی کو شعر کا موضوع بنا کر ثابت کیا ہے کہ غزل کم مایہ اور کمزور وسیلہ اظہار نہ ہے ۔اگر صلاحیت ہو تو کوئی بھی بات سلیقے سے غزل کا حصہ بنائی جا سکتی ہے آخر میں کہنا چاہوں گا کہ ہماری رسمی شاعری اس قدر بے ہوش ہو چکی ہے کہ اس کی کائنات ایک بند کمرے سے زیادہ وسیع نہیں ۔ یہ رفیع رضاجیسے شاعر کا کام ہے کہ اس نے اپنے اردگرد کواپنی ذات سے علیحدہ کرنے کی بجائے اسے بھی اپنی ذات کا حصہ سمجھا اور بے ہوش اور رسمی شاعری کو بند کمرے میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور اپنے لیے نئے میدان تلاش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ (ناصر علی مورخہ
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا ، ایک منفرد اور بلند پرواز پرندہ
تبسم وڑا ئچ صآحب۔

بعض لوگ ادب کی تخلیق کے حوالے سے ادب برائے ادب کا پرچم اٹھائے پھرتے ہیں لیکن اگر ادب زندہ انسانوں کے حوالہ سے اور زندگی کے کینوس پر رنگ پکھیرنے کے پس منظر کے ساتھ صورتگری کا حامل ہے تو پھر ادب برائے زندگی اپنے اندر ایک بھرپور معنویت اور مقصدیت کا پیغامبر ہےِ ۔
آج مجھے جس تخلیق کار کے فن اور ادبی محاسن پر اپنی معروضات پیش کرنا ہیں وہ بھی ادب برائے زندگی کے روح پرور نظریہ پر یقین رکھتا ہے ۔ حال ھی میں اس منفرد لب و لہجہ کے مالک شاعر کا شعری مجموعہ ” ستارہ لکیر چھوڑ گیا ” کے نام سے منصّہء شہود پر آیا ہے ۔ اور شناوران سخنوری سے داد و تحسین سمیٹ رھا ہے ۔
گو کہ میں ابھی مذکورہ کتاب کا جم کے مطالعہ نہیں کر پایا لیکن جتنا بھی مطالعہ کیا ہے اس کے زریعہ مجھ پر ایک ایسا درِ حیرت وا ھوا ہے کہ جس نے مجھے ایک ایسے رفیع رضا سے متعارف کروایا ہے جس سے پہلے میں نا آشنا تھا ۔ مجھے اس کتاب کے حوالہ سے رفیع رضا پیک وقت ایک شاعر،ایک انقلابی، ایک محب وطن، انسان اور انسانیت سے ٹوٹ کر پیار کرنے والا، زندگی کے تمام رنگوں ، جذبوں اور جہتوں کا صورتگر ، معاشرتی ناہمواریوں کا شدید نقاد ، طبقاتی استحصال سے نفرت کی حد تک اختلاف رکھنے والا ، تاریخ کی تلخ ترین سچائیوں کا مرثیہ گو ، مذھب کے نام پر پروان چڑھنے والی بدترین منافقتوں کا نوحہ گر ہے ۔ جہاں پر اپنی شاعری کے آئینے میں رفیع رضا اقوام عالم کے حوالے سے بین الاقوامی و عالمی طاقتوں کے استعماری ھتھکنڈوں اور استحصال پرور رویّوں اور منفی پالیسیوں پر سراپا احتجاج نظ آتا ہے وہیں پر وہ امت مسلمہ کی باہمی کمزوریوں ، ریشہ دوانیوں اور استعماری قوتوں کی کاسہ لیسی سے بھی اپنے شدید غم و غصی کا توانا انداز میں اظہار کرتا ہے ۔ رفیع رضا بیک وقت انسانی اجتماعی المیوں کا خطیب بھی ہے اور آنے روشن صبحوں کا نقیب بھی ہے، دکھوں،صدموں اور محرومیوں کا بیانگر بھی ہے اور امیدوں، آروؤں اور تمنّاؤں کا پیغامبر بھی ۔ آئیے رفیع رضا سے ملتے ہیں ۔
رفیع رضا کی مزکورہ کتاب میں پرندہ اسکے نمائندہ لفظ کے طور پہ واضح نظر آتا ہے ۔ پرندہ جو کہ ایک معصوم اور بے ضرر مخلوق ہے ، امن و آشتی، صلح جوئی اور بلند نگاھی ، وسیع الظرفی اور کشادہ روئی کی علامت ہے ، بلند ہمتی، جہد مسلسل اور نا مساعد حالات کا دلیری اور مستقل مزاجی سے مقابلہ کرنے کا استعارہ ہے اور یہ لفظ آپ رفیع رضا کی شاعری میں بار بار دیکہیں گے لیکن ھر بار ایک نئے مفہوم اور الگ آھنگ کیساتھ یہ آپکو رفیع کی سوچ دریچوں کی مختلف جہتوں اور زاویوں سے متعارف کراتا ہے ۔ اور شاعر کی سوچ میں پھیلی ھوئی ہمہ گیر وسعتوں اور بیکراں عالم امکانات کا عکّاس ہے ۔ مثالیں اسلئے نہیں دونگا کہ تحریر طوالت کا شکار ھو جائیگی
رفیع محبتوں،چاھتوں اور امن عالم کا علمبردار ہے وہ اس عالمگیر اور آفاقی سچائی کا درس دیتے ھوئے بھی اپنی روایتی عقلیت پسندی اور منطق و استدلال کے جاندار روئیّے کا دامن ھاتھ سے نہیں چھوٹنے نہیں دیتا ۔
طاقت کی یہاں کوئی ضرورت ھی نہیں ہے
نفرت کا درندہ ہے محبّت سے گرے گا
ساتھ ھی وہ اپنے لوگوں میں پروان چڑھنے والی ایسی برائیوں ، معاشرتی خرابیوں اور اخلاقی کمزوریوں کے مہلک اور تباہ کن اثرات اور نتائج سے اپنے اھل معاشرہ کو خبردار بھی کرتے ہیں
دشمن بھی اسی طاق میں مدّت سے ہے لیکن
یہ گھر مرے اپنوں کی وساطت سے گرے گا
اسی کے ساتھ وہ تاریخی حقائق کے تلخ پہلوؤں سے بھی چشم پوشی کرنے پہ آمادہ نہیں اور بڑے واضح لہجہ میں اسکا اظہار بھی کرتا ہے
اس شہر کی بنیاد میں پہلے بھی لہو تھا
یہ شہر اسی اپنی نحوست سے گرے گا
رفیع رضا ایک صاحب شعور اور صائب الرّائے معاشرتی اکائی ھونے کے حوالے سے معاشرہ میں پائے جانے والی مذھبی روایات کو من و عن بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے صرف اندھی عقیدت کے بل بوتے پر تسلیم کرنے کو تیار نیں بلکہ وہ تو بلند بانگ اعلان کرتے ہیں کہ
عجیب لوگ ہیں خود سوچنے سے عاری ہیں
روایتوں کو عقیدہ بنا لیا ھوا ہے
رفیع رضا عالمی امن کے نام نہاد علمبرداروں اور انسانیت کی بھلائی کے جھوٹے دعویداروں کی دوغلی اور منافقانہ بلکہ انسانیت کش جبر و جور پر مبنی ظالمانہ چالوں اور عالمی امن کو سبوتاژ کرنے والی دھشت گرد پالیسیوں کا انتہائی جرآت اور بیباکی سے پردہ چاک کرتے ہیں
کہتا ہے بستیوں کو بسانا ہے اسکا کام
ساری زمیں اجاڑ کے کہتا ہے خوش رھو
آئین لکھتا رھتا ہے امن و امان کا
قرطاس امن پھاڑ کے کہتا ہے خوش رھو
کہتا ہے اب فضا پہ فقط اسکا راج ہے
اور پنکھ سب کے جھاڑ کے کہتا ہے خوش رھو
کہتا ہے اس کے قد کے برابر کوئی نہیں
آئینے توڑ تاڑ کے کہتا ہے خوش رھو
حریّت فکر کا ھر مجاھد دشت کربلا میں حق و باطل کے مابین برپا ھونے والی عظیم ترین معرکہ آرائی میں لشکر الہی کے سپہ سالار حسین ابن علی سے اکتساب فیض اور انکی روایت عشق سے طاقت حاصل کئے بغیر نعرہ ء انالحق لگا ھی نہیں سکتا اور یہی حقیقت رفیع رضا کے ھاں بھی اظہر من الشمس ہے کہ وہ کربلا کی روشنی سے اپنی راہ کا تعیّن کرتے ہیں
منظر سب کاٹنے آتے ہیں مرے نام و نشاں کو
میں ایک دیئے کا انہیں سر کاٹ کے دے دوں
لیکن وہ اس روشن ترین استعارے کا استعمال کس جاندار اور خوبصورت انداز سے فنکارانہ چابکدستی اور مہارت سے کرتے ہیں کہ عقل داد دینے پر مجبور ھو جاتی ہے
ڈھونڈ ھی لیتی ہے نیزے کی طرح کوئی بات
مجھ سے چھپتا ھی نہیں میرا سر ایسا ہے
یہ کتنا بڑا ظلم اور تاریخی بد دیانتی ہے کہ آجتک مسلمانوں کی تاریخ کو اسلامی تاریخ بنا کر پیش کیا جاتا رھا ہے حالانکہ اسلام کی تاریخ شعب ابی طالب ، غار حرا و ثور ، بدر و حنین،خیبر و خندق و احد و کربلا سے روشن ہے جبکہ مسلمانوں کی تاریخ جابر و مستبد حکمرانوں ،حجاج بن یوسف جیسے درندوں اور قاضی ابو یوسف جیسے درباری مولویوں اور مفتیوں سے آلودہ ہے ،رفیع شیخ و شا ہ کے اسی ناباک گٹھ جوڑ پر بلیغ تبصرہ کرتے ہیں
ضرور یہ کوئی ناپاک سا تعلق ہے
جو شیخ و شاہ نے رشتہ بنا لیا ھوا ہے
درج زیل اشعار میں رفیع رضا کی اظہار بیان کے حوالے سے جدّت پسندی ، تنوّع اور انفرادیت بھر پور انداز سے قاری کو اپنی سحر بیانی میں گرفتار کرتی نظر آتی ہے اور یہی لب و لہجہ اسے اپنے ہمعصر شعرا ء سے ممتاز و منفرد ٹھراتی ہے
لوگ روئے بچھڑنے والوں پر
اور ہم خود کو ڈھونڈ کر روئے
واقعی اپنی زات کی تلاش ، اپنی حقیقت کی پہچان اور اپنی سچائی کا عرفان ھی سب سے مشکل مرحلہ ہے اور جب کوئی اس دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرکے اپنی زات سے متعارف ھونے پر احساس زیاں کے سوا کچھ نہ پائے تو پھر آنسو
ھی حاصل زندگی قرار پاتے ہیں لیکن پھر یہی آنسو اسکی
کامیابیوںکا پیش خیمہ ٹہرتے ہیں
مجھے اکیلا حد وقت سے گزرنا ہے

میں اپنے ساتھ کوئی ہمسفر نہیں لایا

کیسے دوں آگ کو ، پانی کو ، ھواؤں کو شکست

اپنی مٹی کو تو تسخیر نہیں کر سکتا

آنسو ہے ، پرندہ ہے ، ستارہ ہے ، فلک ہے

کیا کچھ نہ تری آنکھ کی غفلت سے گرے گا

ہمارے نام سے مشہور ھو رہے ہیں میاں
کئی پہاڑ یہاں طور ھو رہے ہیں میاں
ہم نے اپنے مضمون کے آغاز میں اپنے اس ذھین شاعر کی حب الوطنی اور اپنی دھرتی سے بے پناہ پیار کا زکر کیا تھا ، یہ خوبصورت رویّہ اسکی شاعری میں پوری ادبی وجاھت سے رواں دواں لہو کی گردش اور حرارت کی طرح موجزن ہے ، دیکہیں اس شعر میں دکھ کے احسا س کیساتھ محبت کی چاشنی اور مٹھاس بھی چھلک رھی ہے
کاٹتے رھتے ہیں شاخوں کو مرے دیس کے لوگ
چھاؤں دیتا چلا جاتا ہے شجر ایسا ہے
ھاں یہ دیس ،اسکی فضائیں، اسکی مٹی کی خوشبو اسقدر مہربان ہیں کہ اس کے باسی اپنے ھی دست و بازو نفرتوں اور تعصبات کی بھینٹ چڑھا کر اپنے جسم سے علیحدہ کردیتے ہیں ناقدرئ عالم کی اس سے افسوسناک مثال اور کہیں نہیں ملیگی لیکن یہ بد قسمت دست و بازو اپنے بدن سے کٹ کے ، اپنی دھرتی سے دربدری کی سزا جھیل کر بھی اپنے اسی گم گشتہ بدن کی سلامتی کیلئے بےقرار رھتے ہیں ملٹن کی پیرا ڈائز لاسٹ کیطرح رفیع رضا بھی اپنی گم گشتہ جنّت کا متلاشی ہے ۔
میری دعا ہے کہ خالق قرطاس و قلم افق شعر پہ رفیع رضا کو رفیع الشّان مقام پہ فائز فرمائے اور یہ ستارہ شاعری کے آسمان پر لکیر نہیں روشن تصّورات کی دھنک اور درخشاں امکانات کی کہکشاں چھوڑ کر جائے ، آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبسم وڑا ئچ صآحب۔

شعر، عروض، اوزان، تقطیع،شعریت

رفیع رضا

شعر، شعریت، شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان تینوں چیزوں کی کوئی عالمی تعریف متعین کرنےمیں تمام زبانوں کے ادب ناکام ھو گئے ھیں۔۔۔جدیدیت کے نام پر کلاسیکی درجہ بندی کو قریبآ ۷۰ برس پہلے دنیا بھر میں چیلینج کر دیا گیا تھا۔۔۔اسی طرح جب فرانس میں کہا گیا کہ دیکھو انگریزی شاعری کو آج، بلینک ورس کے نام پر قتل کر دیا گیا ھے۔۔اب یہ قتل، مذھب کی طرح اردو مین بھی جاری و ساری ھے اور ایسی بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مِل رھی ھین کہ الاماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی پُوچھے کہ جب نثری ۔یا نثر پارہ، شاعری کی مَد میں داخل کردیا جائے تو ایرانی و عربی اصنافِ سخن ، مثنوی، قصیدہ، منقبت، غزل، وغیرہ کی کیا وقعت باقی رَہ گئی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔اردو ، فارسی اور عربی شاعری ھاتھ سے ھاتھ ملائے چلتے ھین ۔۔اور وجہ ظاھر ھے عروض کی زیادہ تر ھم آھنگی ھے۔۔۔ھم آھنگی ھیئت مین ھو یا خٓاصیت میں دونوں کو جُدا جدا دیکھا جا سکتا ھے۔۔۔جب امرا لقیس کو خاتم الشعرا کہا جاتا تھا تو یہ شاعر مقدمہ شعر و شاعری۔۔پڑھ کر شاعری نہین کرتا تھا۔۔۔شاعری میں اصناف کبھی پہلے نہین بنیں شاعری ھمیشہ پہلے تھی۔۔۔اصناف زیادہ تر انہوں نے بنائیں جو خود شاعری کے قابل نہ تھے یا شاعری مین غیر شاعر کی حد تک شاعر تھے۔۔۔۔جیسے ھمارے شمس الرحمن فاروقی صاحب ، میر کا مقدمہ تو لکھ سکتے ھین لیکن ایک شعر ایسا نہین کہہ سکتے جو طبعِ رواں سے اُٹھایا گیا ھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں؟؟؟ ایسا کیوں ھے ؟؟۔ْ۔۔۔۔۔۔۔ایسا اس لئے ھے کہ واپس خاتم الشعرا کی طرف چلئیے۔۔۔امرا القیس نے شعر کی اصناف متعین کر کے شاعری نہین کی تھی۔۔۔۔۔۔۔اصناف کو متعین کر کے جو شاعری کی جاتی ھے سوائے گنے چُنے شُعرا کے وُہ سب شاعری کلیشے کے کھاتے مین جاتی ھے۔۔۔۔چونکہ اردو ادب مین تعمیری تنقید کا سوال ھی پیدا نہین ھُوا اسی لئے توصیفی تنقید نے اصنافی شاعری کی ھر بونگی برداشت کی ھےمرثیہ۔۔کو دیکھ لیں۔۔۔دنیائے عالم مین ۔۔اردو ادب کے لئے۔۔۔۔سوائے کربلا کے کُچھ موجود ھی نہین ۔۔۔اور جو موجود ھے وُہ کربلا کا کلیشے ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کلیشے۔۔۔۔معنوی سطح پر تو کلیشے ھے ھی۔۔۔۔ھیئتی سطح پر بھی کلیشے ایسا بن جاتا ھے جب معنوی اور ھیئتی دونوں سطحیں رسمی طور پر اختیار کی جائیں۔۔۔۔۔مثلا غالب کے قصیدے بنام بادشاھان وقت، اور علامہ اقبال کا مرثیہ بنام ملکہ وکٹوریہ ۔۔ایک غلیظ قَے سے بڑھ کر ادب مین کوئی مقام نہین رکھتے۔۔۔۔۔جب اقبال کہتا ھے کہ اے ملکہ وکٹوریہ تیرے مرنے کا دن کربلا سے بڑا ھے۔۔۔اور عید ایک نحوست ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔میر انیس کربلا کو دو جہان کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیتا ھے۔۔۔۔۔۔سوال تو قاری کا ھے قاری کہاں جائے گا۔۔۔زورِ بیان،،،،،کیا علمی ، عقلی غرابت کا اعلان ھوتا ھے؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پس ان سوالوں کے ساتھ عرض کردُوں کہ اردو کی پوتھی میں اصناف کی تعداد اور ھیئت و بحور متیعین کرنے والوں کا درسی حصہ ھو تو ھو۔۔۔۔۔ادبی حصہ ندارد ھے ۔۔۔۔۔میں کبھی صنف کو سامنے رکھ کر شاعری نہیں کرتا۔۔۔اسی لئے مُجھے طرحی مشاعرے سے نفرت ھے حالنکہ میں فی البدیہہ شاعری فیس بُک پر کر کے ضائع کردیتا ھُوں ۔۔صنف کو نشانہ بنا کر ، یا طرحی مصرعے کو نشانہ بنا کر شاعری کرنا لفظی مُشت زنی ھے اس بحرِ خشک کو شاعری کا عطر کہنے والا اپنے خیال پر نظرِ ثانی کرے۔۔۔غلطی کسی کو بھی لگ سکتی ھے اور اردو کے بیشتر نقاد اور سمجھنے والے مسلسل غلطی پر ھین۔۔۔
اردو فارسی عربی شاعری کے کچھ رموز یہ ہیں
۱۔ فعولن
۲۔ فاعلن
۳۔ مفاعیلن
۴۔ فاعلاتن
۵۔ مستفعلن
۶۔ مفعولات
۷۔ متفاعلن
۸۔ مفاعلتن
انہیں آٹھ افاعیل کی مخلتف ترتیبوں سے بحریں بنتی ہیں، اور ان بحروں میں شعر کہنا لازم ہوتا ہے۔
کچھ مفرد بحریں ہوتی ہیں کہ جن میں ایک ہی افاعیل کی تکرار ہوتی ہے جیسے بحر متقارب (جو اس تھریڈ میں تفصیل سے زیرِ بحث رہی ہے) اس میں فعولن کی تکرار ہے یعنی مثمن میں فعولن فعولن فعولن فعولن ہے۔ جو بھی شعر ان افاعیل کے وزن پر کہا جائے گا اسے بحر متقارب میں کہا ہوا شعر کہیں گے۔
اسی طرح ایک اور مفرد بحر ہے، بحر ہزج اس میں مفاعیلن کی تکرار ہوتی ہے (بحر ہزج مثمن سالم کا وزن ہوگا، مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)۔
کچھ مرکب بحریں ہوتی ہیں جن میں ایک افاعیل کی بجائے دو اراکین کی تکرار ہوتی ہے جیسے بحر مضارع مثمن سالم کا وزن ہے مفاعیلن فاعلاتن مفاعیلن فاعلاتن، یعنی اس میں دو مختلف افاعیل آ گئے ہیں سو مرکب ہے۔
اس طرح کل ملا کر (مفرد اور مرکب) انیس بحریں بنتی ہیں جن میں سے کچھ اردو میں استعمال ہوتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتیں جیسے بحر وافر جو کہ مفرد بحر ہے اور اسکا وزن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن ہے لیکن اردو میں اس میں شعر نہیں کہے جاتے کہ اسکا مزاج سراسر عربی اور فارسی کا ہے، اور اگر اردو میں کوئی شعر ہے بھی تو بطور مثال کے۔
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔
اوپر جو آٹھ افاعیل دیئے گئے ہیں ان میں ایک خاص ترتیب اور انداز سے حروف کی کمی بیشی کرنے سے کچھ نئے وزن اور افاعیل حاصل ہوتے ہیں، اس کمی بیشی کے عمل کو زحاف یا زحافات کہتے ہیں اور ان سے بے شمار اوزان اور بے شمار بحریں حاصل ہوتی ہیں اور یہی عروض کا مشکل ترین حصہ ہے۔ اور ہر زحاف اور ہر بحر کا ایک الگ نام بھی ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک رکن ‘مفاعیلن’ پر زحافات کے عمل سے اٹھارہ نئ صورتیں حاصل ہوتی ہیں اور ان سے بننے والی بحر ہزج کے 35 ذیلی صورتیں بحر الفصاحت میں بیان کی گئی ہیں۔
کچھ مثالیں لکھتا ہوں۔
مفاعیلن کے اگر آخری دو حرف گرا دیں تو اس زحاف کو حذف کہتے ہیں، اسے سے ‘مفاعی’ بچتا ہے جسے فعولن بنا لیتے ہیں۔
اگر پہلا حرف ‘م’ ختم کر دیں تو فاعیلن بچتا ہے جسے ‘مفعولن’ بنا لیتے ہیں۔ (اس زخاف کو خرم بروزنِ شرم کہتے ہیں)
اسی طرح مفاعیلن پر زحافات کے عمل سے جو وزن حاصل ہوتے ہیں ان میں، مفاعیل، مفاعلن، فاعلن، مفعول، فعول، فعل، فاع، فع، مفاعیلان، مفعولان، فعلن وغیرہ وغیرہ حاصل ہوتے ہیں اور پھر ان سے بحریں بنتی ہیں جیسے
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
مفاعلن مفاعیلن مفاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل
وغیرہ وغیرہ
مزید برآں، اسی ایک رکن ‘مفاعیلن’ کی مختلف صورتوں (یعنی بحر ہزج ہی سے) رباعی کے چوبیس وزن بھی نکلتے ہیں۔
اور یوں آٹھ افاعیل کی مختلف صورتوں سے سینکڑوں بحریں بنتی ہیں، لیکن عملی طور پر، ایک رپورٹ کے مطابق، صرف ساٹھ ستر بحریں ہی عربی، فارسی اور اردو شاعروں کے مستقل استعمال میں رہی ہیں۔ اردو شاعری کی تاریخ میں تقریباً چالیس بحریں استعمال ہوئی ہیں، اور دیوانِ غالب میں غالب کے استعمال میں آنے والی بحروں کی تعداد انیس یا بیس ہے
بہت سے نئے لکھنے والے۔۔۔ عروض۔۔اور شعروں کے اوزان کے بارے میں پوچھتے ھیں۔یہ نوٹس پڑھ لیں۔۔۔
نوٹ۔۔۔ یہ پرانے کچھ نوٹس اکٹھے کئے ھیں اس میں اگر کسی کے کام کی کوئی چیز ھے تو بغیر شکریہ وہ لے لے۔۔۔ اصل میں بنیادی اکاونٹ بلاک ھونے سے تمام لکھا شاعری اور مضامین غتر بود ھو گئے ھیں۔۔ جو جہاں سے ملے گا اس میں شامل کرتا جاوں گا۔۔

رموزِ شاعری،،،اور مزید نوٹس،،،،،،رفیع رضا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم البیان کی ایک صورت شاعری ھے۔۔
شاعری ۔۔۔۔شعر سے نکلا ھے۔۔۔۔جس کا مفہوم۔۔۔۔ معنی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔
لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً۔۔۔کوشش کر کے کہا جائے۔
یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے طابع ہوتا ہے۔
اور کسی واقع کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نےکوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے
اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔مغرب میں نثری نظم کا آغاز انیسویں صدی میں فرانس میں اور بعدمیں امریکہ میں اسے بہت فروغ حاصل ہوا۔ اردو میں مختلف ہیئتوں سے نثری نظم کی مثالیں بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک ادبی تحریک کے طور پر اس کا باقاعدہ آغاز ساٹھ کی دہائی سے ہوا۔ لیکن لگ بھگ چار دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی نثری شاعری کا یہ تجربہ اردو نظم میںعمومی قبولیت کے مقام تک نہ پہنچ سکا اور نثری نظم کا ” دور اول ” بالعموم کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا۔
نثری نظم کےاول دور میں زیادہ تر وہ شعرا تھے جو جدید تر شعری حسیات اور عصری ادبی شعور رکھنے کے ساتھ ساتھ اردو کی کلاسیکی شعری روایات سے بھی مربوط و منسلک تھے اور فن شعر گوئی یعنی اوزان و بحور پر بھی قدرے گرفت رکھتےتھے ۔لیکن بعد میں اسی طرح جیسے امریکہ میں ہُوا اوزان اور بحور سے ناواقف افراد کا جم غفیر نثری نظم پر پل پڑا۔پھر انٹرنیٹ کی آسانی سے فائدہ اُٹھاتے ہُوئے مغرب کی نثری شاعری کے بغیر حوالہ دیئے ترجمہ جات پر مبنی نثری شاعری پاکستانی خود ساختہ نثری شاعروں کی کاوشوں کی صورت میں جگہ جگہ دکھائی دینے لگی –
نثری نظم کے حق میں بولنے والوں کی دلیلیں ایسی ہیں کہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے، مثال کے طورنثری نظم میں ایک اندرونی آھنگ ہوتا ہے، نثری نظم تہذیب کی آگہی کے بغیر نہیں لکھی جاسکتی- غرض جتنے مُنہ اُتنی بے بُنیاد اور ہوائی باتیں۔
میرے نزدیک ایسی کسی صنف میں اظہار پر تو کوئی اعتراض نہیں لیکن اس کے نام کا مسئلہ درپیش ہے۔
شعر و ادب کا ماخذ چاہے کسی بھی زبان سے نسبت رکھتا ہو، حتمی تخلیقی معیار کی قدر و تعین کے لئے اسے با لآخر اسی زبان کے حوالے سے دیکھا اور پرکھا جانا چاہیئے جس میں وہ تخلیق کیا گیا ہو۔ چنانچہ اردو نثری نظم کو بھی سنسکرت، ہندی، فرانسیسی اور انگریزی زبان و ادب کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے، اردو زبان کے سانچوں میں ڈھال کر دیکھنا ضروری ہے

شاعری کے اوزان کا سبق۔۔یاد دھانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پُرانی تمام کلاسوں کا اعادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری میں ایک اندرونی موسیقی سموئی جاتی ھے جس کو وزن، یا بحر کہتے ھیں۔۔۔وزن یا بحر، ایک اندونی ردھم ھے بیرونی طور پر اس کو پرکھنا یا جانچنا ، عروض کہلاتا ھے۔۔۔۔۔۔
اس اندرونی ردھم کو حساب سے تصویر سے یا الفاظ سے ظآھر کیا جا سکتا ھے۔۔۔۔الفاظ کوئی بھی بے معنی استعمال کئے جا سکتے ھیں۔۔اصل نُکتہ یہ ھے کہ۔۔۔الفاظ میں ۔ متحرک ، اور ساکن حروف کی پہچان ھو۔۔۔
ؔؔ@@@متحرک اُس حرف کو کہتے ھیں ۔۔۔جس پر زبر، زیر، یا پیش ھو۔۔
@@@ ساکن ۔حرف وُہ ھوتا ھے جس پر جزم ھو۔۔۔
جیسے ۔۔۔۔پَر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں پ پر زبر ھے۔۔۔پَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ر۔۔۔پر جزم ھے۔۔
اس لئے۔۔۔۔۔۔قاعدہ یہ ھوا کہ۔۔۔۔
متحرک +ساکن۔۔۔
اب اس کی مثال دیکھیں جن میں یہ کُلیہ استعمال ھو۔۔
جَا،،،،،،لَا،،،،ھَے۔۔۔۔۔تُو۔۔۔۔۔۔ھَم۔۔۔۔سَن۔۔۔۔۔۔۔۔لو۔۔۔۔۔دو۔۔۔پا۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔اُس۔۔اِس۔۔۔اُن۔۔۔جَل، کَل۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ھم آٹھ بار۔۔۔۔متحرک+ساکن کا ایک کُلیہ۔۔یا بحر۔۔یا وزن بنا لیں تو۔۔۔۔۔
متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن
متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن
اب مندرجہ بالا چار ارکان۔۔۔۔۔ھُوئے۔۔۔ان ارکان کے وزن یا ردھم کے مطابق کُچھ لکھیں
ھم تُم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مِل کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بولے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بابا
متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن
متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔+متحرک+ساکن
ھم=متحرک+ساکن۔۔====ھَ م۔۔
تُم=متحرک+ساکن۔۔===تُ م۔۔۔
۔مِل=متحرک+ساکن=== مِ ل۔۔۔
کَر===متحرک+ساکن== کَر۔۔۔
آپ نے غور کیا۔۔۔؟۔۔۔۔اب اگلا قدم۔۔۔۔۔لیکن اگر سمجھ نہیں آئی تو پھر پڑھیں۔۔دُنیائے اُردو میں اس سے آسان طریق کسی نے اختیار نہ کیا ھوگا۔۔۔جو رفیع رضآ نے اختیار کیا ھے۔۔
اب اگر۔۔۔۔۔۔۔ایک۔۔۔۔۔۔متحرک+ساکن۔۔۔۔۔۔۔کو ھم۔۔۔۔۔کسی نشان۔۔یا لفظ سے ظآھر کریں ؟ تو کیسا رھے گا۔۔۔۔۔؟۔۔
یعنی۔۔۔۔۔۔
متحرک+ساکن=====فَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَ ا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔لُن۔۔۔۔-۔۔۔یا پھر۔۔عِی۔۔۔۔عِ ی۔۔۔۔۔
اور اسی طرح۔۔۔۔فِعل۔۔۔۔۔–فِ ع ل۔۔۔۔==متحرک ، +ساکن+ساکن۔۔
متحرک ، +ساکن+ساکن۔۔====فِعل۔۔
اور ۔۔متحرک + متحرک+ساکن۔۔۔۔۔====مَفَا۔۔۔۔۔۔۔۔—==عِلُن۔۔۔
پس جو عربی کے الفاظ ھم ۔۔وزن کے لئے استعمال کرتے ھیں وُہ بے معنی الفاظ ھیں صرف۔۔حروف کے تلفظ کو ظآھر کرنے کے لئے ھم انہیں استعمال کرتے ھیں۔۔
اور ۔۔۔۔@@@@@سب سے اھم بات۔۔۔۔۔@@@@ یاد رکھیں۔@@@
شاعری میں الفاظ کا آھنگ یا صوتی تاثر یا تلفظ ھی ضرورت ھے۔۔۔۔حروف کی تعداد نہیں گنتے۔۔۔
یعنی۔۔۔۔۔۔۔۔لفظ ۔۔کیا، کیوں۔۔۔۔اصل میں۔۔۔کا۔۔اور کوُں ھیں اور کُوں==کُو۔۔۔۔۔ں کو نہیں بولنا۔۔۔
لفظ گُناہ ، کا تلفظ کیا بنے گا۔۔۔۔؟؟ گُ نَ ا ہ۔۔۔۔۔۔= متحرک،متحرک، ساکن ساکن
گُناہ==فَعُول۔۔۔-مَفَال۔۔۔۔== اُدھار۔==اُ دَ ار۔۔۔۔===خَیَال۔۔۔۔، فَصیل۔۔۔۔وغیرہ۔۔۔
پہلے سے ماھرین نے بحریں یا اوزان بنائے ھُوئے ھیں۔۔۔
مثلا۔۔۔۔
فَعلُن فَعلُن فَعلُن فَعلُن==متحرک۔ساکن۔۔متحرک ساکن۔۔متحرک ساکن۔۔۔۔۔وغیرہ
فَعلُن۔۔۔۔۔=فَع لُن۔۔۔۔۔۔===جَا لَا۔۔۔۔۔==کَر لے۔۔۔۔۔==سو جَا۔۔۔۔۔پی لو۔۔۔۔
اس بحر میں مصرعہ لکھیں۔۔۔
فَعلُن فَعلُن فَعلُن فَعلُن
فَعلُن۔۔۔۔ فَعلُن۔۔۔ فَعلُن۔۔۔۔۔ فَعلُن
دیکھا۔۔ ھم نے۔۔تارہ۔۔توڑا
آدھا،،،توڑآ، سارا تُوڑا۔۔۔
بھاگو بھاگو بلی آئی۔۔۔۔۔۔
کیسے۔۔۔۔اس کی تقطیع کرتے ھیں۔۔۔
بھَ ا۔۔۔گُ و۔۔۔۔۔۔بھَا گُو۔۔۔۔۔۔۔بِل لی۔۔۔۔۔۔آا ئی۔۔۔
دیکھا۔۔؟؟ ۔۔بلی۔۔میں دو لام ھیں کیونکہ ۔۔بلی متشدد ھے۔۔۔۔۔تو ھم آواز کو دیکھتے ھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دیکھیں۔۔۔۔۔
مَفا عِلُن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔=== مَفَا====خُدَا۔۔۔۔عِلُن۔۔بھی —خُدا۔۔۔
اگر وزن ھو۔۔۔۔کہ
خدا خدا ۔۔۔۔خدا خدا۔۔۔ خدا خدا۔۔۔۔۔۔۔خدا خدا۔۔۔۔ ۔۔۔یعنی چار مرتبہ
تو ھم مصرعہ لکھتے ھیں۔۔۔۔۔۔۔
چلو مرو ۔۔۔۔۔۔۔کدھر گئے۔۔۔۔ابھی تلک ۔۔مِلے نہیں۔۔۔
چَلو مَرو–خدا خدا۔۔۔
کِدَر گَئے۔۔۔ خدا خدا۔۔
اَبی۔۔تلک۔۔۔۔۔خدا خدا۔۔
مِلے ۔نئیں۔۔۔۔خدا خدا۔۔
خدا خدا کی بجائے۔۔۔۔بحر ھوتی ۔۔۔۔۔۔مَفَا عِلُن۔۔۔
جیسے۔۔۔۔
ابھی تو مَیں جوان ھُوں
ابی تُ مَ=====مفاعلن
جوا۔۔۔ن ُھوں۔۔۔۔مفاعلن۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دیکھیں۔۔۔۔
فَعِلاتن۔۔۔۔۔۔۔–====فَ عِلا۔۔۔۔۔تَن۔۔۔
یہ خدا ھے۔۔۔۔۔— ===یِ خُدا۔۔۔ھے۔۔۔
نہ کسی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔— نَ کِسی ۔۔کو
مِرے دل پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔—==مِ۔۔ رِ دِل۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔–فعلاتن۔۔۔
لیکن۔۔۔۔اگر میں اس کو پڑھوں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَرے دل پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مِرِے۔۔۔۔۔دل پر۔۔۔۔
تو اس کا وزن ھے۔۔۔
مَفَا عی لُن۔۔۔۔۔۔۔-متحرک متحرک۔۔ساکن۔۔۔۔+ متحرک ساکن+ مُتحرک ساکن۔۔
اس طرح کے الفاظ کو کئی اوزان ھو سکتے ھین جو صوتی طور پر مُختلف ھوتے ھیں۔۔۔
اسی لئے کہا تھ ایاد رکھین صوتی۔۔۔۔اھمیت۔۔۔۔۔ھے شاعری میں۔۔
تو ۔۔پھر دیکھین۔۔۔مَرِے جن کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَ رِ ے۔۔۔۔۔۔جِن۔۔ کِے۔۔–==مفاعیلن۔
یا۔۔۔مَ۔۔ رِجِن۔۔۔۔۔۔کے۔====۔۔۔۔فَعِلاتن۔۔۔۔۔۔۔
آئیے پریکٹس کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فعلن فعلن======میرے۔۔۔۔۔بھاءی۔۔۔===پتھر توڑو۔۔۔۔۔لینا دینا۔۔۔۔تُم نے اُس نے۔۔۔
مَفَاعِلُن— خدا خدا۔۔۔۔۔۔چلے چلو۔۔۔ادھر اُدھر۔۔۔۔گلے مِلو۔۔۔ارے نہیں۔۔کہاں چلے۔غلط غلط۔
فَعِلاتن۔—-یہ تومیرا۔۔۔۔۔یہ تُمھارا۔۔۔۔نہ کسی نے۔۔۔مرے اندر۔۔۔۔ترے باھر۔۔۔۔۔۔
مَفَاعِیلن۔۔۔۔۔خدا آیا۔۔۔۔۔نہیں تُوڑا۔۔۔۔۔۔مرا دفتر۔۔۔۔چلو دیکھو۔۔اُٹھو پنجم۔۔۔ارے بابا۔۔میاں جاو۔۔
فعول فعول۔۔۔۔۔۔۔۔بُخار اُتار۔۔۔۔۔خیال سنبھال۔۔۔۔۔جناب شناب۔۔۔کتاب وقار۔۔۔۔رفیع رفیع
مفاعِلاتَن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا خدا تھا۔۔۔۔نہیں پتہ تھا۔۔۔۔اگر یہی ھے۔۔۔کہاں چلو گے، ادھر نہ جانا
مُستَفعِلُن۔۔۔۔۔۔۔۔مُس تَف۔۔عِلُن۔–جانا پڑا۔۔۔۔آیا نہیں۔۔۔توڑآ ُھوا۔۔سادہ توھے۔۔پتھر گِرا۔۔
فَاعِلان۔۔۔۔۔۔درمیان۔۔۔۔۔۔نو جوان۔۔۔۔۔دُلمیال۔۔۔۔جا اُتار۔۔۔۔۔زینہار۔۔۔۔۔۔بحساب۔۔۔۔
فاعلُن۔۔۔۔۔یہ کُھلا۔۔۔ھم نہیں۔۔جا پڑے۔۔گِر گیا۔۔۔۔سہہ لیا۔۔۔ھنس پڑا۔۔۔۔۔۔
فَعل۔۔۔۔۔۔۔۔فَ ع ل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جال،،،رحم۔۔۔۔۔پات۔۔۔ریت۔۔۔۔چُھوت۔۔۔رنج۔۔۔۔۔بھیج۔۔۔بھینچ۔۔۔گرم۔۔شرم۔۔
اور یہاں سے ھم آگے چلیں گے۔۔۔۔
آگے بڑھنے سے پہلے ان سبھی ارکان کی مثالیں دیکھ لیتے ہیں۔
فعلُن: پتھر، رشتہ،محفل، اڑنا، راکھی، سیرت، جانب
فعِلُن: ، رگِ جاں ،سرِ دَم۔ غمِ دل، شبِ غم، رہِ گم، سرِ رہ، درِ دل
فعول؛ ،بُخار، جماع،خیال، جواب، عروج، جوان، پڑوس
فعولُن؛ ۔، اشارہ، حسینوں،سمندر، مرا دل، گواہی، شہادت، ادھر آ، تمنا
فاعلُن؛ ، تُم چلو، رت جگا، دیکھنا، سامنا، روبرو، جستجو، جانِ من
مفعول؛ ، مردُود، منقار،اسرار، دستور، سیلاب، الزام، ہر روز
مفاعلُن؛ ، چلے چلو،سنبھالنا، جواب دے، نظر نظر، سوال ہے، بکھر گیا
فاعلات؛انتساب ،انتخاب، کامران، روک ٹوک، لا جواب، خون رنگ
مفاعیل؛ ، جوابات ،سوالات، سحرتاب، ترا ساتھ، بہت شوخ، مری جان
مفتعِلُن؛ آہِ سحر، چھوڑ گیا، اے شبِ غم، شاخ شجر، تیرِ ستم
فعِلاتن؛ غمِ جاناں، شبِ تیرہ، پسِ پردہ، لبِ دریا، سرِ محفل
مفاعیلن؛ تمنا ہے، نہ حسرت ہے، گزارا کر، نظر رکھنا، بدل جانا
فاعلاتن؛ کام دینا، سامنے ہے، دوسرا دن، ہر طرف سے، آسمانی
مستفعلُن؛ ہر رنگ میں، میری طرح، اچھا ہوا، دل توڑ کر، جائے کہاں
مفعولات؛ تیری ذات، اصلاحات، میری جان، نا منظور، میرے خواب
مفعولُن؛ دیواریں، بازاری، تنہائی، یہ دنیا، ملتا ہے، مجبوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان الفاظ کے ھجے اور اوزان پر غور کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بُنیادی باتیں ھیں۔۔۔۔
۔
@@@ شاعری میں اوازان یا تقطیع۔۔۔الفاظ ، حروف سے نہیں۔۔۔آھنگ سے ھوتی ھے۔۔
یعنی۔۔۔۔۔۔اگر ۔۔۔مصرع ہے کہ۔۔۔
آخر اس درد کی دوا کیا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ۔۔بحر۔۔۔۔۔فاعلاتن ، مفاعلن۔۔۔فعلن۔۔۔۔
میں تقطیع صوتی ھوگی۔۔
یعنی اسے ایسا پڑھیں گے۔۔
فاعلاتن۔۔۔۔۔۔آخرس در۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الف کو دبا دیا۔۔۔۔۔ھے۔۔۔۔
د کی ۔دوا۔۔۔۔۔۔۔مفاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
کا ،ھے،،،،فعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی کیا–=کا——-فع=====
تو یُوں پڑھیں گے۔۔۔
آخرس در دکی دوا کا ھے۔۔۔۔۔
فعلاتن ، مفاعلن، فعلن۔۔۔۔
غور کریں کہ حروف متحرک ساکن کیسے ھوئے۔۔۔؟
فَا۔۔۔==آ
عِلَا۔=== خِِرَس۔۔۔۔۔
۔۔تَن۔۔=دَر۔۔۔
مَفَا ==دَکِی
عِلُن===دَوَا۔۔
فَع–== کَا۔۔۔
لُن-=== ھَے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب۔۔۔۔۔۔ایک اور مصرع دیکھیں۔
دلِ ناداں تُجھے ھُوا کیا ھے
یہاں۔۔دلِ ناداں۔۔۔کے تو تلفظ یا ھجے ممکن ھیں
دلِ ناداں===مفاعیلن
دِ لِنا داں۔۔۔== فَعِلاتن۔۔
اور یہی ھُوا ھے غالب نے۔۔۔۔دُوسرے بیان کردہ تلفظ کو اس بحر میں باندھا ھے۔۔
دِ لِنا داں۔۔تُجھے ھُوا ۔کا ھے۔۔
فَعِلاتن، مفا۔۔۔عِلُن۔۔۔۔فع لُن۔۔
تو ایسے دونوں مصروں کی تقطیع ھم نے کر لی۔۔
دِ لِنا داں۔۔۔۔۔۔تُجھے ھُوا۔۔۔۔۔۔ ۔کا ھے
آخرس در۔۔۔۔۔ دکی دوا ۔۔۔۔۔ کا ھے۔۔۔
یاد رھے کہ۔۔۔۔۔مندرجہ ذیل الفاظ میں ی کو خاموش رھنا ھے۔۔۔
کیا، کیوں،
=== کا۔۔کُوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ۔۔۔۔۔۔ں نُوں غنہ بھی پڑھا نہیں جاتا۔۔۔یعنی تقطیع میں اس کی اھمیت کوءی نہیں۔۔۔
آگے بڑھنے سے پہلے ان سبھی ارکاں کی مثالیں دیکھ لیتے ہیں۔
فعلُن: محفل، اڑنا، راکھی، سیرت، جانب
فعِلُن: غمِ دل، شبِ غم، رہِ گم، سرِ رہ، درِ دل
فعول؛ خیال، جواب، عروج، جوان، پڑوس
فعولُن؛ سمندر، مرا دل، گواہی، شہادت، ادھر آ، تمنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحروں کے اراکین۔۔۔۔یا زحافات

۱۔ فعولن
۲۔ فاعلن
۳۔ مفاعیلن
۴۔ فاعلاتن
۵۔ مستفعلن
۶۔ مفعولات
۷۔ متفاعلن
۸۔ مفاعلتن
انہیں آٹھ افاعیل کی مخلتف ترتیبوں سے بحریں بنتی ہیں، اور ان بحروں میں شعر کہنا لازم ہوتا ہے۔
کچھ مفرد بحریں ہوتی ہیں کہ جن میں ایک ہی افاعیل کی تکرار ہوتی ہے جیسے بحر متقارب (جو اس تھریڈ میں تفصیل سے زیرِ بحث رہی ہے) اس میں فعولن کی تکرار ہے یعنی مثمن میں فعولن فعولن فعولن فعولن ہے۔ جو بھی شعر ان افاعیل کے وزن پر کہا جائے گا اسے بحر متقارب میں کہا ہوا شعر کہیں گے۔
اسی طرح ایک اور مفرد بحر ہے، بحر ہزج اس میں مفاعیلن کی تکرار ہوتی ہے (بحر ہزج مثمن سالم کا وزن ہوگا، مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن)۔
کچھ مرکب بحریں ہوتی ہیں جن میں ایک افاعیل کی بجائے دو اراکین کی تکرار ہوتی ہے جیسے بحر مضارع مثمن سالم کا وزن ہے مفاعیلن فاعلاتن مفاعیلن فاعلاتن، یعنی اس میں دو مختلف افاعیل آ گئے ہیں سو مرکب ہے۔
اس طرح کل ملا کر (مفرد اور مرکب) انیس بحریں بنتی ہیں جن میں سے کچھ اردو میں استعمال ہوتی ہیں اور کچھ نہیں ہوتیں جیسے بحر وافر جو کہ مفرد بحر ہے اور اسکا وزن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن ہے لیکن اردو میں اس میں شعر نہیں کہے جاتے کہ اسکا مزاج سراسر عربی اور فارسی کا ہے، اور اگر اردو میں کوئی شعر ہے بھی تو بطور مثال کے۔
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔
اوپر جو آٹھ افاعیل دیئے گئے ہیں ان میں ایک خاص ترتیب اور انداز سے حروف کی کمی بیشی کرنے سے کچھ نئے وزن اور افاعیل حاصل ہوتے ہیں، اس کمی بیشی کے عمل کو زحاف یا زحافات کہتے ہیں اور ان سے بے شمار اوزان اور بے شمار بحریں حاصل ہوتی ہیں اور یہی عروض کا مشکل ترین حصہ ہے۔ اور ہر زحاف اور ہر بحر کا ایک الگ نام بھی ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک رکن ‘مفاعیلن’ پر زحافات کے عمل سے اٹھارہ نئ صورتیں حاصل ہوتی ہیں اور ان سے بننے والی بحر ہزج کے 35 ذیلی صورتیں بحر الفصاحت میں بیان کی گئی ہیں۔
کچھ مثالیں لکھتا ہوں۔
مفاعیلن کے اگر آخری دو حرف گرا دیں تو اس زحاف کو حذف کہتے ہیں، اسے سے ‘مفاعی’ بچتا ہے جسے فعولن بنا لیتے ہیں۔
اگر پہلا حرف ‘م’ ختم کر دیں تو فاعیلن بچتا ہے جسے ‘مفعولن’ بنا لیتے ہیں۔ (اس زخاف کو خرم بروزنِ شرم کہتے ہیں)
اسی طرح مفاعیلن پر زحافات کے عمل سے جو وزن حاصل ہوتے ہیں ان میں، مفاعیل، مفاعلن، فاعلن، مفعول، فعول، فعل، فاع، فع، مفاعیلان، مفعولان، فعلن وغیرہ وغیرہ حاصل ہوتے ہیں اور پھر ان سے بحریں بنتی ہیں جیسے
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
مفاعلن مفاعیلن مفاعلن مفاعیلن
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل
وغیرہ وغیرہ
مزید برآں، اسی ایک رکن ‘مفاعیلن’ کی مختلف صورتوں (یعنی بحر ہزج ہی سے) رباعی کے چوبیس وزن بھی نکلتے ہیں۔
اور یوں آٹھ افاعیل کی مختلف صورتوں سے سینکڑوں بحریں بنتی ہیں، لیکن عملی طور پر، ایک رپورٹ کے مطابق، صرف ساٹھ ستر بحریں ہی عربی، فارسی اور اردو شاعروں کے مستقل استعمال میں رہی ہیں۔ اردو شاعری کی تاریخ میں تقریباً چالیس بحریں استعمال ہوئی ہیں، اور دیوانِ غالب میں غالب کے استعمال میں آنے والی بحروں کی تعداد انیس یا بیس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری میں دو باتیں اھم ترین ھیں۔
1۔ شعریت
2۔ ترسیل
شعریت، ندرت،و پیش کاری ، اور تاثیر سے آتی ھے
لیکن ترسیل کے بغیر سب بیکار ھو جائے گا۔
آج کی شاعری پر نظر ڈالیں تو، صاف نظر آتا ھے کہ خیال کی ترسیل کردی جاتی ھے اور اسے کافی سمجھا جاتا ھے۔ بات کہہ دینا یا وزن میں بات کہہ دینا ھی شاعری نہیں ھوتا۔
اصل بات شعریت کی ھے ، اور شعریت جیسے اوپر بیان کیا ھے، اندازِ بیان، الفاظ کا چناو، پیش کاری، تاثیر ۔۔۔سے آتی ھے۔۔۔
اب بہت سے پرانے لکھنے والے ایک ھی نہج پر شعریت سے عاری اشعار لکھتے جاتے ھیں اور سمجھتے ھیں کی تغزل بھری بات کہہ دی ھے جو خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ھے۔
نئے لکھنے والے جب ندرت لانے کی کوشش کرتے ھیں تو ڈرامئی اور غیرممکن تعلیات کو شاعری کا نیا تغزل سمجھتے ھیں، لیکن مشاھداتی تجربہ ھمین بتاتا ھے کہ یہ بھی شعریت سے عاری کوشش ھے۔۔۔
پس شعریت لانے کے لئے ندرتِ خیال کے علاوہ ندرت پیش کاری بھی درکار ھے۔ ساتھ میں روایتی تغزل ھو تو مکمل شعر وجود میں آتا ھے۔
فکری سطح پر دقیق اشعار ، درحقیقت پست درجہ رکھتے ھیں۔
جب شاعری کا فن ھی پیش کاری کی بہترین بنیاد پر ایستادہ ھے تو پیش کاری و ترسیل کے بغیر کوئی فن پارہ کیا اھمیت رکھے گا۔۔ اس لئے خوش فہمی سے نکل آنا ھی بہتر ھے
نئے اور پرانے دونوں سطح کے شُعرا، کی شاعری ، زیادہ تر مایوس کُن کلیشیائی خیالات سے بھری ملتی ھے،
چند ایک احباب و خواتین اپنا رستہ الگ بنا رھے ھیں۔۔۔جو قابلِ تعریف بات ھے۔۔
لیکن کچھ پرانے شعرا جو دوستوں میں بھی شامل ھیں، لکیر پیٹے جاتے ھیں، ایسے دوست ناقابلِ علاج ھیں جو اپنی شاعری میں نئے مضامین لانے سے اس لئے قاصر ھیں کہ وُہ مطالعہ نہیں کرتے اور اپنے ھزاروں پرانے اشعار کا حوالہ دیکر ، ناصح کو چپ کرانے کی کوشش کرتے ھیں۔
اب پنجابی یا سرائیکی یا بلوچ یا سندھی اردو شاعر کو کیا مصیبت پڑی ھے کہ میرؔ تقی کی متروک زبان میں شاعری کا چُھدؔا ھمارے سر پر لادے؟
عجب مسئلہ ھے کہ ایسے دوست شعرا یہ سمجھنے سے قاصر ھیں، کہ میاں ! یہ شاعری ،،،صرف وزن پورا کرنے والی بیکار کوشش ھے۔۔۔
نیا مضمون لاو۔۔۔موجود کے نئے مضامین باندھو۔۔۔۔پھر دیکھیں ۔۔گے۔۔۔۔
میرا ایسے دوستوں کو چیلینج ھے موجود کے مضامین موجود کی زبان میں باندھ کر دکھاو۔۔۔۔ جن دوستوں نے یہ سمجھا ھُوا کہ انہیں موسیقی کے چند راگ اور شاعری کی اصناف پر پورا عبور ھے۔۔۔اور اب انہیں باقی علوم کی کوئی ضرورت نہیں وُہ صرف کنویں کے مینڈک ھیں۔ اور اسے سمندر سمجھ رھے ھیں۔۔

میں دلیل سے یہ ثابت کر سکتا ھُوں کہ طب، فلسفہ، کیمیا، طبیعات، اور تاریخ کے کثیر مطالعے کے بغیر شاعری کھوکھلی سطحی اور بیکار ھوتی چلی جاتی ھے۔
جس کو ذرہ برابر اختلاف ھو وہ ابھی مجھ سے یہاں دلیل اور امثال کے ساتھ بحث کرسکتا ھے۔۔بغیر دلیل کے نہیں۔۔۔ کیونکہ وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

میرے ھمراہ کچھ لوگ جس عصری شعور سےبھری تنقید کی کمی کا رونا روتے ھیں، اُس سے ناواقفیت خود ھمارے لکھنے والوں میں پائی گئی ھے ۔قاری تووہ شاگرد ھوتا ھے جسکی تربیت لکھنے والا ھی کرتا ھے۔
میں نے جو غزل تنقید کے پیش کی تھی اور مکمل پرخچے اُڑانے کا چیلنج دیا تھا اُسئ بہت سے لکھاریوں نے پسند اور ناپسند کے عمومی نصابی تنقید و تنقیص کے پیمانے پر یا تو پسند کر لیا یا ناپسند کر دیا۔۔
یہ لمحہ فکریہ بنتا ھے کہ خود لکھاری جو شاعر ھے ادیب ھے صحافی ھے وہ بھی کیا کسی تخلیق کے نقائص کو دلیل و مثال سے ثابت نہیں کر سکتا؟۔۔یعنی کسی بھی تخلیق کا تنقید جائزہ جن بنیادی اصولوں کے گرد گھومنا چائیے ان میں سے کچھ نیچے درج ھیں
۔
نمبر 1۔۔۔۔فنی طور پر گرفت
نمبر 2،، ھیئت کی خوبی و خرابی
۔۔نمبر 3،،،،کرافٹ میں تجربہ،،، بیانیہ واضح یا مبہم
نمبر 4۔۔۔ جگالی زدہ مضامین۔۔۔کی موجود گی ، ناموجودگی۔۔۔
نمبر 5۔۔۔ اگر جگالی زدہ مضامین ھیں تو ،،ان میں جدت یا محض جگالی
نمبر 6۔۔رُوحِ عصر سے میل کھاتی کوئی بات کوئی اشارہ؟
نمبر 7۔۔۔ کوئی عام مشاھدہ۔۔نئے انداز سے۔۔کوئی سائینسی حقیقت؟
نمبر 8۔۔کوئی معاشرتی مسئلہ۔۔۔ اس پر اصرار و انکار۔؟
نمبر 9۔۔۔کوئی ریاستی ، یا بین الریاست اھم نکتہ۔۔۔
نمبر 10۔۔شعریت کی عمومی موجودگی
نمبر 11،،ترنم کی کمی یا زیادتی۔۔
نمبر 12۔۔کوئی نئی ترکیب۔۔۔یا پرانی ترکیب کی نئی سمت۔۔
نمبر 13۔۔کوئی جدید لفظ ۔۔؟ غیر کلاسیکی لفظ؟
نمبر 14۔۔ شاعر کی اپنی شعوری یا لاشعوری پہچان کراتی کوئی سمت ، انداز۔
نمبر 15۔۔شاعر و معاشرے کی کُل سائیکی کا عکس؟
نمبر 16۔۔لفظی مباشرتی بنت یا الفاظ کی ماھیت سے شاعری کی واقفیت اور برتاو
نمبر 17۔۔ زمین کا چناو،،، پہلے سے استعمال کردہ یا ۔۔پٹا یا نہ مِٹا ھونا۔۔
نمبر 18۔۔ مضامین کا پٹا یا نہ نیا پن۔۔
نمبر 19۔۔ مضموعی غزل کا میلان۔۔
نمبر 20۔۔۔۔مجموعی غزل کا آخری تاثر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ بنیادی نکات ھیں جن پر جدید تنقید قائم ھوتی ھے۔۔ شاعری ایک ھنرِ پیشکاری ھے۔۔ خارجی جمالیات اور داخلی محسوسات اور جاذبیت کتنی فطری ھے کتنی مصنوعی ھے۔۔یہ دیکھنا بہت اھم ھے۔۔ اس لئے تین تجرباتی اشعار بھی اُسی طرح درج کئے تھے۔۔ جیسے خبریہ انداز ھوتا ھے۔۔
دیکھنا تھا کہ شعریت اور سپاٹ خبر میں لوگ کیسے امتیاز کرتے ھیں۔
اگر چہ اُن اصحاب و خواتین کا شکریہ جنہوں نے محض ایک پیراگراف بغیر تفصیل میں جائے عمومی پسند و ناپسند کا اظہار کیا۔ لیکن ان سے امید و تقاضہ آئیندہ یہی رھے گا کہ ھر شعر پر گفتگو اس لئے کریں کہ ھر شعر اپنی جگہ ایک الگ اینٹیٹی ھوتا ھے۔۔
اور مجموعی پر اسلئے ضرور بات کریں کہ غزلِ مسلسل کو بھی ھم رواج دے رھے ھیں۔
باوجود منع کرنے کے۔۔ذاتی کمنٹس پھر آ موجود ھوئے۔۔۔جو حیران کن اور مایوس کُن بات ھے۔۔تاھم یہ بھی ھمین ھمارے قاری و لکھاری کی نفسیات سے واقف کرتا ھے۔
میری اپنے معیار کے مطابق غزل میں کوئی بہت بڑا شعر نہیں ھو سکا۔۔۔
دو تین اشعار،،شعریت لئے ھوئے ھیں۔ جو غزل کا عمومی مزاج ھے۔۔
مطلع کو کچھ لوگ سمجھے اور کچھ نہین سمجھے،،اسکی وجہ بھی میرا اپنا ارادہ تھا۔۔کیونکہ پاکستان کے ماحول پر مطلع کہتے ھوئے اخفا ھی درکار ھوتا ھے۔مرغانِ گرفتار۔۔۔۔اور ھم پرندے ۔۔کے عظیم فرق کو جو نہین سمجھے انہیں ایک سبق کے طور پر یاد رکھنا چاھئیے۔ جو مرغان گرفتار ھیں۔۔۔ انکے سوا جو گرفتار نہیں۔۔ انہیں۔۔۔صرف مرغان یا پرندے ھی کہا جانا کافی تھا۔۔۔اور ھم۔۔۔۔ ساتھ لگا کر ایک گروہ بنایا ھے جو فراری ھے۔۔ اشجار،،کی کمی والا شعر نہایت محنت سے کہا گیا تھا۔۔ جس تک سب نہین پہنچے جو سخت افسوسناک بات ھے۔ پاکستان سمیت دنیا میں درختوں کی کمی اور ھاوسنگ کے بڑھنے سے ماحول میں گرمی کا بڑھنا ایک نہایت اھم مسئلہ ھے۔۔۔اگر ھم نئے مضامین نہ لائیں تو ۔۔۔ غزل لکھنا چھوڑ دینا چاھئیے۔ قبروں والے ایہامیہ شعر کو سپاٹ دینے والے اس پر پھر غور کر سکتے ھین کیونکہ جنہوں نے اسکا درست مفہوم نکالا ھے وہ کیسے اس پر قادر ھوئے۔۔۔ اسی طرح مسجدوں اور ھسپتالوں میں جانے والون کو بیمار کہنا ناپسند کرنا، مذھبی بنیاد پرستی سے جڑا ھو سکتا ھے ادب سے نہین۔۔کیونکہ ۔۔غزل میں۔۔۔ تیرا بیمار۔۔۔۔ بیمارِ عشق،،عام رائج بات ھے۔۔ خیر تمام تبصرہ کنندگان کا شکریہ۔۔۔۔ تاھم۔۔۔جو نکات اوپر بیان کئے تھے انکے استعمال سے اگر اگلی غزل پر تنقید ھو تو بہت بہتری کی جانب ھم قدم اُٹھائیں گے۔
کچھ حروف علت کے بارے مین بھی پڑھ لیں
حروف علت اور تقطیع

حروفِ علت : ان سے مراد تین حروف ہیں ، واؤ ، الف ، یاء
انگریزی میں انہیں واولز کہا جاتا ہے ۔اردو میں یہ زبر ،پیش اور زیر کی حرکات کے قائم مقام ہیں۔

آئیے باری باری اب تینوں حروف کے احکام مختصراً پڑھتے ہیں


الف کا بیان:-

الف بطورِ پہلا حرف:-
ایک مصرع اگر ایسا ہو کہ اس میں کوئی ایسا لفظ جو مصرع کے آغاز میں نہ ہو تووہاں الف کا گرانا جائز ہے ۔اور ایسی صورت میں اسے الف موصولہ کہا جاتا ہے ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ مصرع کے آغاز میں آنے والی کوئی الف الف موصولہ نہیں ہو سکتی۔

مثلا:-
ہم اُس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
اس الف کو "س” کے ساتھ ملا کر یوں بھی پڑھ سکتے ہیں ، ہمُس کے —- الخ

اس گر جانے والے الف کو الف موصولہ کہتے ہیں ۔اور توجہ سے دیکھئے کہ یہ دوسرے لفظ کا پہلا حرف ہے

ہم نے اس سے پہلے یہ طے کیا ہے کہ الف اگر شروع کلمہ یا لفظ میں آئے بشرطیکہ وہ مصرع کا پہلا لفظ نہ ہو تو اسے گرایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ خود گر کر اپنی حرکت اپنے سے پہلے حرف کو منتقل کر دیتا ہے ۔جیسے کہ "ہم”کی ساکن میم کے ساتھ ہوا۔
لیکن یہاں ایک اور بات سمجھنے کی ہے ۔الف ضروری نہیں کہ لفظ کا پہلا حرف ہی ہو ۔یہ پہلا،درمیانی یا آخری کوئی حرف بھی ہو سکتا ہے ۔تو پھر کیا ہو گا؟؟

الف بطورِ درمیانی حرف:-
سب سے اہم بات اس سلسلے میں یاد رکھنے والی یہ ہے کہ اگرالف کسی لفظ کے درمیان یا وسط میں واقع ہو تو اسے ماسوائے چند الفاظ کے ہرگز ساقط نہیں کیا جا سکتا ۔کیونکہ ایسا کرنے سے اس لفظ کی شکل اس طرح بدل سکتی ہے کہ اس کے معنی ہی بدل جائیں ۔ذرا تصور کریں ۔اگر لفظِ "حال” کا وسطی الف گرا دیا جائے تو وہ لفظِ "حل” میں تبدیل ہو جائے گا اور شعر یا تو مہمل ہو جائے گایا اس کے معانی ہی بدل جائیں گے. اسی طرح لفظِ جان ، سال ، دال ، وغیرہ ہیں

صرف کچھ الفاظ ایسے ہیں جن میں وسطی الف کو ساقط کرنے سے ان کے معانی نہیں بدلتے اور وہ الفاظ مندرجہ ذیل ہیں۔
گناہ سے گنہ
سیاہ سے سیَہ
راہ سے رہ
تباہ سے تبہ
اور
سپاہ سے سپہ پڑھا اور لکھا بھی جاتا ہے

بہر حال کسی بھی لفظ کے درمیانی الف کو گرانے کے سلسلے میں بنیادی اصول یہ یاد رکھئےے کہ اگر اس الف کو گرانے سے لفظ کی ہیئت اس طرح بدلتی ہو کہ اس کے معنی بدل جائیں تو اس کی قطعا اجازت نہیں ۔مثلاًایک لفظ ہے "کاہ” جس کا مطلب گھاس کا تنکا ہوتا ہے۔اس کا الف گرا دیا جائے تو وہ لفظ”کہ” میں تبدیل ہوجائےگاجو وضاحت کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اس طرح کی صورتحال میں درمیانی الف کا گرانا ممنوع ہے۔

اوپر کچھ امثال درمیانی الف گرانے کی دی گئی ہیں ۔ان میں ایک بات نوٹ کیجئے کہ رہ،گنہ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ میں جہاں الف گرایا گیا ہو ۔ہ مختفی کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔

الف بطور آخری حرف:-
اس مقام پر آپ کو یہ علم ہونا چاہئے کہ مصدر کیا ہوتا ہے اور فعل کسے کہتے ہیں۔تب ہی آپ اس الف کو گرانے یا نہ گرانے کے بارے میں سمجھ سکیں گے۔

مصدر:-
کسی لفظ کی اصل بنیاد کو کہتے ہیں ۔جس سے اس لفظ کے افعال اور دیگر صیغے مشتق ہوتے ہیں۔اردو میں اس کی پہچان یہ ہے کہ جس لفظ کے آخر میں ( نا) آئے وہ مصدر کہلاتا ہے ۔مثلا ً :-
کرنا ،ہونا ،جانا، وغیرہ

فعل:-
اس کلمے کو کہتے ہیں جس میں کسی کام کا ہونا ،کرنا یا سہنا بہ اعتبارِ وقت پایا جائے۔مثلاً :-
کیا ، کرتا ہے ، کرے گا، کرے ، وغیرہ

مصدر اور فعل کی تعریف جان لینے کے بعد اب آپ آخری الف کے بارے میں یہ سمجھ لیں کہ یہ گر تو سکتا ہے مگر اس کا گرانا ناگوار اور ممنوع سمجھا جاتا ہے ۔مگر جب آپ مشق کریں تو بے شک گرا لیں مگر ایسا کرنا جائز نہیں سمجھا جاتا – اسے ان امثال سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

مصدر میں الف بطور آخری حرف کی مثالی یہ دیکھیں کہ :-
خاک بھی ہوتا تو خاکِ درِ جاناں ہوتا۔

اس مثال میں پہلا والا "ہوتا” مصدری لفظ ہے جس کے آخر کا الف گرایا گیا ہے اور جو اب پڑھنے میں اگلے حرف کے ساتھ مل کر "تتو” کی آواز دے کر ناگوار فضا پیدا کر رہا ہے۔یعنی : خاک بھی ہو تَ تو خاک در جاناں ہوتا۔ یعنیٰ ہوتتو — بن جاتا ہے

فعل میں الف بطور آخری حرف:-
مثلاً یہ جملہ دیکھیں :- "اس نےبھیجا ہے مرے خط کا جواب”
اس میں بھیجا کا لفظ فعل کو ظاہر کر رہا ہے ۔مگر جب بھیجا کا الف ساقط ہو گا تو اس کی آواز کچھ ایسے نکلے گی "اس نےبھیجَ ہےمرے خط کاجواب.

میرا خیال ہے کہ اب آپ اس بات کو سمجھ گئے ہوں گے کہ مصادر و افعال کا آخری حرف گرانا کیوں معیوب ہے ۔


حرفِ "واؤ” کا بیان:-

یہ حرف بنیادی طور پر پیش ُ کی حرکت کا قائم مقام ہے۔ چونکہ یہ ایک ایسا حرف ہے ۔جس کی کئی اقسام ہیں ۔اس لئے سب سے پہلے ہمیں یہ علم ہونا چاہئے کہ اس ایک حرف کی کئی اقسام کیوں ہیں ۔اگر ہم اس الجھن کا شکار ہو گئے کہ ایک حرف کی کئی اقسام کیسے ہو سکتی ہیں تو پھر ہم اس کے بارے میں ہماری سمجھ کسی ٹھکانے نہیں لگنے والی تو اقسام سے مراد یہ ہے کہ یہ حرف ہماری زبان کے جس لفظ میں استعمال ہو ۔وہاں اس کی آواز کسی دوسرے لفظ سے مختلف ہوتی ہے ۔کیونکہ ہماری زبان بہت سی زبانوں سے مل کر بنی ہے ۔اس لئے جس زبان سے بھی ایک لفظ حرفِ "واؤ” کے ساتھ اردو میں آیا ہے ۔وہ اُس زبان کے لہجے کے مطابق یا تو اپنی آواز ساتھ لایا ہے یا پھر مقامی سطح پر اس نے اپنی الگ آواز اختیار کر لی ہے۔ان آوازوں میں امتیاز کرنے کے لئے علماے اردو نے ان کے لئے پانچ اصطلاحیں وضع کی ہیں ۔عمومی دلچسپی کے لئے میں ان اصطلاحوں یا اقسام کے نام لکھ دیتا ہوں :-
1- واؤ معدولہ
2واؤ معروف
3۔واؤمجہول
4۔واؤ لین
5۔واؤ عاطفہ
6۔واؤ مخلوط

چھ اقسام کے یہ واؤبارہ طریقوں سےاستعمال میں آتے ہیں ۔لیکن آپ کو اس ابتدائی سطح پر اس جھمیلے میں پڑنے کی ضرورت نہیں- آپ فی الحال وہ سیکھئے جو میں سکھا رہا ہوں۔

1–اگر واؤسے کوئی لفظ شروع ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ واؤ نہیں گر سکتا ورنہ لفظ ہی غلط ہو جائے گا یا اس کے معنی بدل جائیں گے ۔مثلا اگر وقت کا واؤ ساقط کر دیا جائے تو کچھ نہیں بچے گا ۔اسی طرح لفظِ "وہم ” کو لیجئے ۔اگر و اؤساقط کر دیا جائے تو ہم بچے گا ۔جس کا وہم کے معنی سے کوئی تعلق نہیں ۔اس لئے یہ سمجھ لیجئے کہ جو لفظ حرفَ واؤ سے شروع ہو اس کا پہلا واؤکسی صورت نہیں گر سکتا

2–اسی طرح اگر حرفِ واؤ کسی لفظ کے وسط میں آئے تو اسے بھی ساقط نہیں کیا جا سکتا ۔مثلاً :
اگر قوم ، یوم ، بول کا درمیانی واؤ ساقط کر دیا جائے تو ان الفاظ کے معانی ہی بدل جائیں گے

3– کسی لفظ کے درمیان موجود صرف وہی و اؤتقطیع میں گرتا ہے جو لکھنے میں تو آئے مگر بولنے میں نہ آئے ۔جیسے لفظِ خوشبو میں ، یا لفظِ "اور” میں جبکہ یہ عطف کے لیے ہو

4– آخر کلمہ یا لفظ کے ہر واؤ کو ساقط کیا جاسکتا ہے۔یہ الگ بحث ہے کہ وہ کہاں معیوب ہے یا ناگوار ہے۔لیکن اصول یہی سامنے رہنا چاہئے کہ اسے گرایا جا سکتا ہے ۔علما نے فارسی الفاظ مثلا خوشبواورگفتگو جیسے الفاظ کو گرانے کی سخت ممانعت کی ہے ۔کیونکہ ایسا کرنے سے یا تو وہ بے معنی ہو جاتے ہیں یا ان کے معانی بدل جاتے ہیں۔مگر یہ ایک طویل بحث ہے ۔آُپ عروض میں مہارت حاصل کرنے تک اور اس سطح پر صرف یہ یاد رکھیں کہ آخری واؤ کو گرایا جا سکتا ہے ۔

5– اسی طرح اگر کسی لفظ میں جس میں و اؤنون غنہ سے پہلے ہو ۔ جو عام طور پر جمع الجمع کی شکل میں ہوتا ہے۔۔جیسے لوگوں –
عام طور پر اسے گرانا اچھا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ پھر لوگوں کا لفظ لوگ میں بدل جائے گا ۔مگر لوگوں چونکہ جمع الجمع ہے اس لئے اسے گرانے پر کوئی پابندی نہیں۔


حرفِ "یاء” کا بیان:-

حروف علت میں آخری حرف "ی” ہے۔جس کے بارے میں یہ جان لیجئے کہ اس حرف کی اقسام کے لئے بھی علما نے اصطلاحات وضع کر رکھی ہین ۔جنہیں جاننا قطعی لازم نہیں مگر اُن کی آوازوں کو پہچاننا ضروری ہے۔بہر حال میں عمومی دلچسپی کے پیش نظر ان میں سے کچھ کے نام لکھ دیتا ہوں:-
1–یائے معروفی
2–یائے مجہول
3–یائےلین
4–یائے مخلوطی
5–یائے ہندی

حرفِ ی کے سلسلے میں ایک بہت اہم بات جان لیجئے کہ ایک مصرعے میں ی کو لمبی آواز دے کر یعنی پورےرکن کے طور پر بھی پڑھا جا سکتا ہے اورچھوٹی آواز سے بھی ۔یہ شعر یا مصرع کی بحر طے کرتی ہے کہ اسے کس طرح پڑھا جائے۔

اب آئیے اس کو گرانے کی طرف:-

1–یہ طے ہے کہ اگر کوئی لفظ ی سے شروع ہوگا تو اس کی ی نہیں گرائی جا سکتی۔
2–ہندی کے علاوہ دوسرے الفاظ کی درمیانی ی گرانے سے اگر اس لفظ کے معنی پر کوئی اثر نہ پڑتا ہو تو بلا کھٹکے گرائی جا سکتی ہے
3– ہندی اسماء کی درمیانی ی کو گرانا لازم نہیں مگر مستحسن ہے۔
4–افعال کی ی کو گراتے ہوئے بھی یہ دیکھنا چاہئے کہ کہیں وہ معنی پر اثر انداز تو نہیں ہو رہی۔
5–ہر لفظ کی آخری ی کو بلا خطر گرایا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ معانی کو متاثر نہ کرے۔
6– بے بمعنی بغیر خی ی گرانا درست نہیں اسی طرح حرف ندا جیسے "اے” کی ی کو گرانا ممنوع ہے۔
7۔مرکب افعال، جیسے، پی گیا ، سی لیا— ان کی بھی ی اجازت ہونے کے باوجود گرانے سے احتراز کرنا چاہئے۔
رفیع رضا

اقبال ترقی پسندوں کے حضور۔۔۔ تاریخی مغالطے اور حقیقت پہلا حصہ،،، از رفیع رضا

سر اقبال، جنہیں پاکستان میں علامہ اقبال کہا جاتا ھے، انکی شاعری اور انکے نثری خیالات کے حوالے سے پاکستان میں کافی گفتگو ھوتی ھے،اور اس گفتگو کو جاری رکھنے کے لئے اقبال اکیڈمی کا قیام حکومت عمل میں لائی،

اقبال اکیڈمی نے حکومت کی منشا اور ارادے کے تحت اقبال کی زندگی ، حالاتِ زندگی ، شاعری اور نثری بیانات و تقاریر کی روشنی میں سر محمد اقبال (علامہ اقبال) کی کُل شخصیت کے خدوخال ایسے بنائے یا بنانے کے لئے معاون معلومات و واقعات و تحاریر کو پیش کیا جن کے ذریعے سر اقبال ایک نہایت متقی،مومن، بزرگ،دانشمند، فلسفی، شاعر، ادیب،انقلابی اور جینیوئن ھیرو ثابت ھوسکیں۔

جہاں جہاں ایسے واقعات، تحاریر، شاعری ، نثریات و شواھدات ایسے مِلیں جو اوپر بیان کردہ تخلصات و تعاریف کے مخالف کچھ مواد ملے اُسے یا تو چھپا دیا جائے یا تبدیل کیا جائے یا اُس کے خلاف بظاھر دانشمند لکھاریوں سے کچھ کہلوایا جائے تاکہ ایک قومی یا ریاستی ھیرو کے تصوراتی خاکے میں کوئی کجی یا کمی نہ معلوم ھو۔

اس ارادی سہوِ نظر نے ایسے مواد کو نظر انداز کرنے اور کروانے کا حق ایسا ادا کیا کہ بیچارے سر محمد اقبال کو علامہ اقبال رحمہ اللہ بنا کر پیش کرنے میں مکمل کامیابی ھوئی۔۔

نوجوان تو کیا 60 سال تک کے پیٹے کے لوگ بھی اس گمراھی میں صراطِ مستقیم ڈھونڈنے کی کوشش میں مگن رھے۔

 مثلاً مندرجہ ذیل پیراگراف کا نتیجہ ایک مکمل دلیل ھے لیکن یہ اقبال اکیڈمی کے ڈسے معصوم لوگوں کے اُس خیال یا عقیدے کو توڑ پھوڑ دے گا جو انہیں زبردستی فوجی مزاج لوگوں کے رٹایا ھوا ھے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔

” صوبے کے قیام کا مقصد اقبال کے نزدیک یہ ہے کہ اس طرح اس دستوری ڈیڈ لاک سے نکلنے کا راستہ نکل آئے گا۔ چنانچہ کہتے ہیں: ”صوبوں کی مناسب تقسیم سے مخلوط اور جداگانہ انتخاب کا مسئلہ ہندوستان کے آئین کے بارے میں نزاع کو خود بخود ختم کر دے گا۔ اس نزاع کا باعث بڑی حد تک صوبوں کی موجودہ تقسیم ہے…. اگر صوبوں کی تقسیم اس طور پرہو جائے کہ ہر صوبے میں کم و بیش ایسے گروہ بستے ہوں جن میں لسانی، نسلی، تمدنی، اور مذہبی اتحاد پایا جاتا ہو تو مسلمانوں کو علاقہ وارانہ انتخاب پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا“۔

اس بات سے اقبالیات کے بڑے بڑے ماہرین کے اس دعوی کی تردید ہو جاتی ہے کہ اقبال زندگی کے کسی بھی مرحلے پر جداگانہ انتخاب سے دست برداری پر آمادہ نہیں ہوئے تھے۔ اقبال کی اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں کہ جداگانہ انتخاب مذہبی نہیں سیاسی مسئلہ تھا۔۔۔””””

جاری ہے