حسبِ وعدہ خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کے بارے رائے پیش ہے۔ انسانی شعور اور قدرتی میلان ایسا ہے کہ بچپن سے انسان جادوئی غیر مرئی چیزوں اور محیّر العقول باتوں کہانیوں اور چیزوں سے شدید متاثر ھوتے ہیں۔ نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ یہی امید رکھتے ہیں کہ ایسا کچھ ضرور ھو۔، یعنی ھم اپنے اُس قدرتی میلان کی روشنی میں خیال گُمان اور فینٹیسی کی جانب رغبت رکھتے ہیں۔ اسی خاطر انسان نے سوچا کہ یہ قدرتی حیاتیاتی سلسلہ بنانے والی طاقتوں کو سوچا جائے انکا ھیولہ یا حلیہ بنایا جائے۔۔ زمانہ قدیم سے خیال گُمان وسوسہ اور خوابی ماحول کے تحت کسی نہ کسی چیز کو خود سے بھی برتر جادوئی پاک۔۔پوِتّر ماننے کا قدرتی رجحان انسان کے اندر ہے۔اس رجحان کو شدید تقویت دینے والی چیزوں میں خوف۔۔۔اور دوسرا لالچ شامل کیا جاتا ھے۔عربی مذاھب خاص طور پر ایسے ہی سوچ کے تحت رایج کئے گئے۔یونان کی عقل و شعور میں بڑھی قوم میں بھی دیوتاوں یا ھر خدائی صفت کا کوئی خدا یا دیوتا مقرر کیا گیا ھندو ازم میں بھی یہی نظر آتا ھے اسلام میں بھی ایک ہی خدا کو وہ سارے صفات دینے کی کوشش 99 ناموں مین ملتی ہے جو اصل میں انسان کی اپنی صفات ہیں۔ پس انسان اپنے خدا یا دیوتا یا خود سے زیادہ طاقت و شعور رکھنے والی سوچ کا اسیر ہے۔۔ بعض اوقات کئی مزھبی جب لاجواب ھو جاتے ہیں تو کہتے ہین اچھا اب مین اپنا مذھب چھوڑ کونسا مذھب اختیار کروں۔۔کیا عیسائی ھو جاوں۔۔۔ یا عیسائی کہیں گے کیا مسلمان ھو جاوں۔۔۔شیعہ کہے گا کیا احمدی ھو جاوں احمدی کہے گا کیا دیوبندی ھو جاوں ؟ میں حیران ھوتا ہوں کہ اے بندہِ اسیر۔۔۔ تجھےمذھب کی کیا ضرورت ہے؟ کیا عالمی اخلاق نہین بتاتے کہ جھوٹ بولنا فریب دینا بےایمانی کرنا قطار بندی نہ کرنا چوری ڈاکہ۔۔قتل ایذا پہنچانا بُرے اعمال ہیں؟ آخر مذھب کے بتانے سے ہی کیوں ماننا ہے۔ ۔۔۔؟ یوں بھی مذھبی ممالک میں پھانسیوں اور سزاوں کی تعداد غیر مذھبی ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ مذھبی خداوں دیوی دیوتاوں کی طرح انسانی سوچ ھم جیسی یا ھم سے بہتر کسی مخلوق کے بارے میں بھی پُرامیدی رکھتی ہے۔مثلاً قران میں اور کہانیوں یا افسانوں کی طرح جنّوں کا ذکر بھی ہے۔بلکہ سُورۃ کا نام سُوڑۃ الجن ہے ۔۔یعنی ایسی مخلوق جو آگ سے پیدا کی گئی ہے۔ ویسے یہ نہایت بیہودہ خیال ہے کیونکہ آگ تو کائنات کی ھر چیز کو جلا دیتی ہے۔پس بہت ہی زیادہ درجہ حرارت سے بھی دھاتوں کے درمیان تعامل ھونے سے دھاتین ھی بنیں گی یا گیسیں بنیں گی۔۔کوئی اور جیتا جاگتا وجود کسی صورت بننا ممکن نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے انسان کی مذھبی اور رجعتی سوچ کا کہ یہ فرض کر کے کہ جو سُن لیا پڑھ لیا وہ عین سچ ہے پوری زندگی اسی ایمان پر ضائع کر کے لوگ مَر جاتے ہیں۔ جنوں ہی طرح جب انسانی سوچ کسی طبیعی قدرتی کیمیائی یا طبیعاتی مظہر کو سمجھ نہیں پاتی تو اُسے فوری طور پر کسی غیر مرئی طاقت کا کام قرار دیتی ہے۔اس سے اسکے اس پرانے ایمان کی تسکین ھو جاتی ہے کہ ھم سے بہتر طاقتیں موجود ھیں۔جو جیسا چاھیں کر سکتی ہیں ھم جو نہین کر سکتے وہ کر سکتی ہیں۔ اسی سوچ کے تحت دنیا بھر کی تاریخ میں لوگوں نے ھر طرح کی خلائی مخلوق کے دیکھنے کا ذکر کیا جو انسان کی سوچ پڑھ لیتی ہے یا آنکھوں میں دیکھ کر انسان کو ساکت کر دیتی ہے۔انسان بےحس ھو جاتا ھے دیکھ سُن سکتا ھے مگر کچھ عمل نہیں کر سکتا۔۔ پھر اس خلاقئی مخلوق کے آنے جانے کو سواری کے لئے مختلف نام دئیے گئے جیسے جبرائیل ۔۔۔کا اڑتے گھوڑے پر سفر کرنا۔۔۔جیسے کسی گول یا بیضوی چیز اڑن گاڑی جس مین سے شعائین نکلتی ہوں اسکا ذکر کرنا۔۔۔ امریکہ چونکہ جدید ٹیکنالوجی میں سب سے آگے رھا ھے اس لئے امریکہ کے اداروں پر الزام ہے کہ وہ خلاقئی مخلوق سے رابطہ کر چکے ہیں۔۔یا خالقئی مخلوق کی گاڑی زمین سے ٹکرائی تو اسکے پرزے اور خلائی مخلوق کو زخیمی یا مردہ حالت میں امریکہ کے اداروں نے پکڑا اور کہین چھپایا ھوا ھے وغیرہ۔۔ اسی حوالے سے سیاسی یا کسی اور چال کے تحت وقتاً فوقتاً امریکی میڈیا اڑان طشتریوں کا ذکر شروع کر دیتا ھے۔تاکہ لوگوں کی توجہ کسی اور اھم صورتِ حال سے ھٹائی جاوے۔ اسی کے تحت پچھلے کچھ دنوں سے امریکی کانگریس کی ایک خصوصی کمیٹی کچھ ریٹائیرڈ خلائی ریسرچرز اور سائینسدانوں سے سوال جواب کر رھے ہیں،، تاھم کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی نہ ھو کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے۔صرف دعوے جات ہیں۔۔ناسا مکمل انکار کر چکا ہے۔ مشہور سائیسندان نیل ڈیگراس ٹائیسن نے چند دن پہلے لکھا کہ ۔Sometimes I wonder whether alien space vessels are inherently fuzzy & out-of-focus (that would be terrifying). And whether they love the US Navy (that would be charming). If so, it would explain a lot. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مجھے حیرانی ہے کہ خلائی مخلوق کے جہاز ھمیشہ دھندلے اور غیر واضح ہی کیوں ھوتے ہیں (ویسے یہ خوف والی بات ہے) اور انکو امریکہ کی نیوی سے ہی چھپنے چھپانے میں کیوں لطف آتا ھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نیل ٹائیسن عمومی خیال کو جُھٹلا رھا ھے کہ ایسی کوئی خلائی گاڑی یا مخلوق ہے۔اب یہ روشنیاں اور دھندلی چیزوں کی تیز ترین حرکت کیوں ھوتی ہے تو اس بارے فزکس شاید ابھی اس میگنیٹک اور الیکٹریکل میدان کو سمجھ نہیں سکی جسکی وجہ سے قریبی جہازوں کے بعض انسٹرومینٹ کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔عام لوگوں کو شاید معلوم نہ ھو کہ آسمانی بجلی کا گیند سا جب بےپناہ چارج کی وجہ سے بنتا ھے تو بعض اوقات جہاں بنتا ھے وھاں سے 25 کلومیٹر دور بھی جا کر گِرتا ہے۔یعنی جہاں بادل ہیں وھاں سے ادھر بھی جا کر گِر سکتا ھے جہاں بادل نہیں ہیں۔جو غیر سائینسی ذھن کے عام شخص کے لئے سمجھنا بہت مشکل ہے اور ایسا ھوتا دیکھ کر وہ فوری خدا کے غضب ۔۔۔۔خلائی مخلوق کی گاڑی وغیرہ کے خیال کی روشنی میں مشاھدے کو بدل بدل کے پیش کرے گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نہایت تیز رفتار کیمرے ان خلائی گاڑیوں کی تصویر تک نہین لے سکتے جو واضح ھو ۔۔۔اسکی وجہ میرے یہی ہے کہ بے پناہ چارج کے دباؤ اور برقی اور مقناطیسی میدان کی وجہ سے کیمرے کی جانب جانے والے روشنی اپنے معمول یا منطر کی تصویر دھندلا جاتی ہے۔ میں سائینس کا معمولی طالب علم ہوں لیکن میں نے نیل ڈیگراس ٹائیسن کو لکھا کہ جس زاوئیے سے میں سوچ رھا ہُوں اسکو پرکھنے کا کیا طریقہ ھو سکتا ھے؟ کیونکہ یہ رپورٹ کیا جاتا ھے کہ جیسے 1976 کے ایرانی اڑن طشتری والے کیس میں دوسرے جہاز کے نہایت ماھر پائلٹ نے بھی جب جوابی میزائل داغنے کی کوشش کی تو قریبی فاصلے پر اسکے انسٹرومینٹ فیل ھو گئے۔۔ اسنے خؤد کو بچانے کے لئے سرعتی گراوٹ کو اختیار کیا۔۔۔تو بعد مین اسکے انسٹرومینٹ کام کرنے لگے۔۔ اس سے صاف معلوم ھوتا ھے کہ ایسی خلائی چیز کے قریبی علاقے میں بجلی سے چلنے والی چیزیں متاثر ھوتی ہے۔اب اگر آپ سولر سسٹم اور اس سے زمین پر پہنچنے والے خلائی شمسی طوفانون کے بارے جانتے ہوں آپ کو معلوم ھوگا کہ شمسی سولر طوفانوں کی وجہ سے ھماری مواصلاتی نظام درھم برھم ھوجاتے ہیں۔۔کمپیوٹر ۔۔انٹرنیٹ،،بجلی کی ترسیل کا نظام سب متاثر ھو جاتے ہیں۔،، شمسی طوفان اگر شدید تر ھوں تو خلا میں مواصلاتی سیارے ان بےپناہ طاقتور مقناطیسی میدانوں کی وجہ سے تباہ ھوجاتےہیں۔ جاپان کو سیارہ بھی ایسے ہی شمسی طوفان نے تباہ کیا تھا۔ پس یہ خلائی روشنیاں جو لوگ دیکھتے ہین اور جنکی تصاویر تک ٹھیک سے نہین بن سکتیں اور جن میں سے روشنیان نکلتی ہیں۔۔شاید مقناطیسی اور برقی ارتکاز کے حصار ہوتے ہیں اور بعض اوقات ساکن ھوتے ہیں لیکن جب حرکت کرتے ہیں تو بعض اوقات روشنی کی رفتار سے طرح غائب ھو جاتے ہیں۔ انکا اتنی تیزی سے غائب ھونا یا ایک جگہ کے الٹ کسی جگہ جا موجود ھونا بتاتا ھے کہ وہ دھاتی سٹرکچر نہیں ہیں ۔۔۔یہ تو سائینسی استدلال تھا دیکھتے ہیں سائینس اس پر آگے کیسے روشنی ڈالتی ہے۔ اب ھم اس پر فلسفیانہ اور منطقی طور پر غور کرتے ہیں۔ اگر یہ نظام حیات کسی طاقت یا خدا یا خداوں نے بنایا ہے تو ظاھر ھے وہ ھم سے زیادہ طاقت ہیں۔۔ اگر وہ اپنے آپ کو کسی ڈائمینشن یا جہت میں چھپائے ھوئے ہیں تو ھم جتنا چاھیں ترقی کر جائیں انکو۔۔انکی مرضی کے بغیر نہیں ڈھونڈ سکتے۔ اگر اُن طاقتوں نے یا طاقت نے یا خدا نے کچھ بھی کہہ لیں(لیکن مذھبی خدا جھوٹ ہے) اگراس زمین کی مخلوق کے علاوہ بھی کوئی مخلوق بنائی ہے تو کیوں وہ ھم سے زیادہ طاقت ور ھوگی؟جبکہ کروڑوں اربوں سالوں کے ارتقا سے ھمارا وجود کم از کم زمین پر اشرف المخلوقات طے ھوا۔ اگر کروڑوں سالوں میں یہ سنگ میل انسان تک پہنچا ھے تو کیسے ممکن ہے کہ کہین اور اس سے بہتر ڈیزائین کی حامل مخلوق بن گئی ہو؟ کیونکہ جب خدائی طاقتیں کنٹرولڈ ارتقا کی جانب چل رھے ہین تو کسی اور سیارے پر اس سے بہتر ڈیزائن ممکن نہیں۔یعنی اگر جدید ترین کمپیوٹرز کو جوڑ کر سُپر کمپیوٹر صرف اسنان زمین پر بنانے میں بمشکل کامیاب ھوا ھو تو کسی کسی ستارے یا چاند اس سے بہتر کمپیوٹر انسان تیار کر لے گا؟ پس عقلی طور پر یہ ممکن نہیں۔ مذھب خدا کا خیال تو خیر نہایت ھی ادنی خدا کا خیال ہے جو جنت دوزخ بنا کر بیٹھے ھوئے احمق اور طیش سے بھرے بُڈھے کی صورت کا خیال ہے۔جسکو گناہ گار انسانون کو دوزخ میں پھینکنے اور نیکوکاروں کو کنواری عورتیں دینے کے سوا کوئی خوف یا لالچ معلوم نہیں۔ ایسے خدا نے جب انسان کو اشرف المخلوق قرار دیا ہے تو پھر خلائی مخلوق کی گاڑی اور اسکی کارستانیاں انسانوں کے لئے ھیچ ھونی چاھئیں۔اور انسان کو غالب آنا چاھئیے۔۔لیکن کیا کیا جائے کہ مذھب بیچارہ خود ھی متضاد سوچ کا کنفیوذ خدا رکھتا ھے جس نے جن بھی بنائے آگ سے۔۔۔۔جو سلیمان کا تخت ایک پل میں اسکے پاس لے آئے۔ تیسرا زاویہ یہ ہے کہ کیا یہ روشنیاں یا خلائی جہاز وغیرہ۔۔۔کہیں خدائی طاقت کے مظاہر نہ ھوں؟ آئیے غور پر کرتے ہیں کہ حیاتیاتی نظام میں نام نہاد خدا یا خدائی طاقتوں نے کیا کبھی حیاتیاتی نظام چلانے کو اعلی ترین طبیعاتی فلکی مقناطیسی میدانوں کو استعمال کیاہو؟ ھم دیکھتے ہیں کہ کیمیائی تعامل کثرت سے انسانوں جانوروں اور پودون میں استعمال ھوتے ہیں۔ مگر بہت مقامات پر حیاتیاتی طاقت۔۔۔ طبیعاتی یا فزکس کے اصولوں کی مکمل غلام ہے اور کسی بھی جگہ کسی بھی طور پر کائنات کے فلکیاتی اور طبیعاتی نظاموں پر کسی فنکشن کی وجہ سے کسی کاریگری سے تسلط نہین پا سکی۔ مثلاً انسانی فوطے اس لئے جسم سے باھر آتے ہیں کہ اندر کی زیادہ گرمی سپرمز کو مار نہ دے۔ یعنی ایسا نظام نہ بنا سکا کہ سپرم اندر ہی رھتے
فالتو عضو باھر لٹکانے کی کیا ضرورت تھی؟
One of my favorite examples of evolution and how we can see it in living things today: The laryngeal nerve of the giraffe, linking larynx to brain, a few inches away — but because of evolutionary developments, instead dropping from the brain all the way down the neck to the heart, and then back up to the larynx. In giraffes the nerve can be as much as 15 feet long, to make a connection a few inches away. Richard Dawkins explains: All mammals have the nerve, and as a result of our fishy ancestry, in all mammals, the nerve goes down the neck, through a heart blood vessel loop, and back up. In fish, of course, the distance is shorter — fish have no necks.
ڈاکٹر رچرڈ ڈاکنز سے سائینسدانوں کے ایک بڑے ھال میں ایک نمائش کی اور ایک زرافے کے دماغ سے حلق میں آنے والی اور پھر واپس آنے والی نرو ٹیوب کو دکھایا۔ laryngeal nerve دماغ سے نکل کر جانداروں کے حلق میں آتی ہے انسانوں میں اور مثلاً مچھلیوں میں یہ نرو دماغ سے گلے میں آ کر واپس جاتی ہے لیکن راچرڈ ڈاکنز اسے کاپی پیسٹ ڈیزائن کی خرابی کہتا ہے کہ ذرافے میں یہ نرو ٹیوب دماغ سے نکل کر لمبی گردن سے ھوتی ھوئی دل کے قریب سے یوٹرن لیکر واپس دماغ میں چلی جاتی ہے۔جبکہ ھرگز اسکی کوئی طبی ضرورت نہیں تھی۔ اس سے پتہ چلتا ھے کہ خدائی طاقتوں یا طاقت نے کیمیائی تعاملات کو حیاتیاتی سلسلے میں رایج کرنے میں مکمل کامیابی نہیں پائی کچھ خامیاں موجود ھیں۔ جو ھر سال لاکھوں معزور انسانوں معزور درختوں ، معزور پرندوں اور معزور جانوروں کی ناقص پیدائیش کا باعث ہے یونیسیف کے مطابق اس وقت دنیا میں 240 ملین معزور بچے ہیں اب سوچیں کہ یہ تعداد پاکستان کی آبادی سےبھی زیادہ ہے۔اگر بالغ اور معزور بچے شمار کریں تو تعداد 1300 ملین سےبھی زیادہ ھوگی۔ یعنی کُل انسانی آبادی کا چھٹا حصہ معزور ہے؟ کیا خدائی ڈیزائینگ نقایص سے عاری ہے؟ نہیں ھرگز نہیں ۔۔پس ۔ خدا کی اس ڈیزائینگ کی خامی کے باقصف ھم کہہ سکتے ہیں کہ ھمارے خداوں یا خدا کی ھم سے بہتر کسی خلائی مخلوق کا تصور درست نہیں
قرآن کو بارے میں غیر مذھبی، اور خالص سائینسی تحقیقات کے مطابق ابتدائی قرانی ٹکڑوں میں پرانے انبیا کے بارے آیات تو موجود ھیں لیکن محمد صآحب کے بارے نہیں، مدینہ یا مکہ کا کوئی تذکرہ نہیں کہ معلوم ھو کہ یہ تحاریر کب کی ہیں،،،۔ بعد میں ان سے متعلق مواد بھی ھے۔ تحقیق کے مطابق نسخہ کا میٹیریل کتنا پرانا ھے کا اندازہ لگانے والوں نے اُسے اسلام سے بھی کچھ پہلے کا بھی مانا ھے۔کچھ نے محمد کی ولادت سے پہلے اور کچھ نے قریب و بعد ولادت کاربن ڈیٹنگ کی تواریخ نکالی ہیں۔ اس بارے سچی تحقیق کسی مذھبی یا خاص مسلمان سے کی جانے کی امید رکھنے والے بیوقوف ھونگے کیونکہ وھاں ایمان کی بنیاد پر تحقیق کی جائیگی جو کہ سائینسی رویہ یا طریقہ نہیں ھے ،،اسکے لئے بےلاگ بے ایمان سائینسی لوگ ھی مدد دے سکتے ھیں۔
۔
ھمیشہ سائینس میں بھی مستشرقیں و ملحدین وغیرہ سے مدد لینا پڑتی ھے۔کیونکہ ان سے ھمیں بغیر ایمان کے سچی تحقیق کی امید ھوتی ھے۔۔ برمنگھم کی لائیبریری میں موجود تین چوتھائی سے کم حصہ والے اس قرانی نسخوں اور موجودہ یا بعد کے قرآنی نسخوں کی طوالت اور آیات و مضامین میں مماثلت موجود ھے۔ ابوبکر کے بارے کافی خیال کیا جاتا ھے کہ اصل مصنف وہ بھی ھو سکتے ھیں۔ کیونکہ وہ ہی محمد کے قریب ترین ساتھی رھے ھیں۔ پھر سب سے اھم بات یہ ھے کہ عثمان نے سارے دوسرے نُسخے کیوں جلائے؟ اگر فرق نہیں تھا؟ یہ بات ایسی ھے کہ اس کو کسی صورت بھی رد کرنے والے مسلمان سے مزید بحث کرنا احمقانہ ھوگا۔۔یہاں اُسکا اور تحقیق کا میدان الگ ھوجاتا ھے۔ معلوم ھوتا ھے عثمان کے دور میں ایسے نسخوں مین بہت زیادہ فرق تھا جسکی وجہ سے اُن نسخون کو جلا دیا گیا۔۔تاھم اس سے پہلے یا بعد میں کچھ اور نسخے جن کے مضامین الگ تھے وہ کچھ لوگوں نے کہیں چھپا دئیے کسی مٹی کے یا آھنی مرتبان میں محفوظ کر دئیے ۔۔جو مختلف قریبی ممالک کی کھدائیوں میں بار بار دریافت ھوئے ھیں۔ یمن سے خاص طور پر کئی نمونے ملے۔۔۔یمن سے کیوں مِلے؟ اس سے پتہ چلتا ھے کہ یمن کے اُن ادوار کے بادشاھوں کا بھی اس میں حصہ ھوگا۔۔۔جنہوں نے پہلے مسلمانوں کو پناہ دی ۔۔یا مِلکر یہ قرآنی منصوبے بنائے۔۔ سائینسی سکالرز کے مطابق ایسے قرآنی نسخوں میں جو کہ کسی جانور کی کھال پر لکھے ملتے ھیں۔ بسا اوقات ایک تحریر کے نیچے سے اور مختلف مضمون و معانی کی تحریر جا بجا ملتی ھے جس سے پتہ چلتا ھے۔ کہ مضامین میں ترامیم تھیں،،اسی لئے عثمان کے دور میں سب کو مِلا جُلا کر جو قرانی ترتیب بنائی گئی اسے نافذ کرنے کی زبردستی کوشش کے نتیجے میں باقی انفرادی قرآنی نمونے جلا دئیے گئے۔۔اور ممانعت کی گئی کہ باقی طرح کے قرآنی نمونے نہ استعمال ھوں، برمنگھم یونیورسٹی لندن انگلینڈ میں عرب ممالک سے قدیم پارچات کی کھدائیوں کے دوران ملنے والے اس جزوی قرآن، کے بارے تحقیق کی گئی تو مختلف کارب ڈیٹنگ نتائج معلوم ھوئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلریٹر یونٹ کے ذریعہ کئے گئے یہ ٹیسٹ ، بتاتے ہیں کہ یہ ٹکڑے ، جو بھیڑوں یا بکریوں کی کھال پر لکھے گئے تھے ، قرآن کریم کی قدیم زندہ عبارتوں میں شامل تھے۔ یہ ٹیسٹ بہت سی تاریخوں کی تاریخ فراہم کرتے ہیں ، جس میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سنہ 568 سے 654 تک اسکی عمر ھو سکتی ھے
یونیورسٹی کے عیسائیت اور اسلام کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے کہا ، "وہ اسلام کے اصل بانی چند سالوں میں ہمیں اچھی طرح سے واپس لے جاسکتے ہیں۔
پروفیسر تھامس کے مطابق ، فولیوز کی ڈیٹنگ کا بھی بہت اچھی طرح سے مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ قرآن پاک لکھنے والا شخص شاید زندہ رہتا تھا اور حضرت محمد (ص) کی تبلیغ سنتا تھا۔
واقعتا. جس شخص نے یہ لکھا تھا وہ محمد کو اچھی طرح سے جان سکتا تھا۔ شاید وہ اسے دیکھتا ، شاید اس نے اسے تبلیغ کرتے ہوئے سنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اسے ذاتی طور پر جانتا ہو – اور یہ واقعی اس کے ساتھ قابو پانا کافی سوچ ہے۔ ،، محقق کی اس تحقیق سے کاتیبین وحی یا مصنفین قرآن کی جانب وجہ جاتی ھے۔میرا ذاتی خیال اور تحقیق کے بتاتی ھے۔ کہ ابوبکر یعنی ابن قحافہ کا حسہ بہت زیادہ ھوگا۔جبکہ عمر نے بعد میں کچھ مضامین کو شامل کروایا جن میں شراب کی ممانعت وغیرہ شامل ھے۔ برمنگھم کے ان مخطوطات میں دو اوراق ہیں۔تحقیقی نگار نے صرف 33 ممضامین یا جملوں کا بعد کے قرآنی نسخون سے موازنہ کیا تو معلوم ھوا کہ قران کے آدھے سے کچھ زیادہ جملے یا آیات نامکمل ، ٹوٹے پھوٹے، یا مضمون کی کافی تبدیلی والے یا مختلف ھیں۔ برمنگھم کے ان نسخوں پر دو سکالرز سے لیکچرز کی درخواست کی گئی۔۔یہ 2015 کا واقعہ ھے۔ اسے برمنگھم فریگمینٹس شو کا نام دیا گیا۔۔ روسی سکالر ایفین ریزوان۔۔۔۔۔نے بتایا کہ “The very early dating of all these fragments-before the reign of Uthman-casts doubt on *both the Islamic tradition” *refer to the next section “The fact that the folios were kept for centuries in an iron box, underground can partly explain the early radiocarbon dating” “Parchment was an expensive material (the skin of an entire animal was used to produce the big folio). Monastic and state scriptoria, located on the territory of Greater Syria, Antiochia, al Hira and Alexandria areas, could store this valuable material (including the donations of the pious laity). یعنی یہ شام سے مِلے کسی جانور کی مکمل کھال پر لکھے گئے ہیں،اور کسی آھمی مرتبا میں بہت لمبا عرصہ تک چھپائے گئے۔
۔ These stocks became part of the loot captured by the Arabs in the first years of the conquest. Captured leaves were used for writing the Quran.” اب مسئلہ یہ ھےکہ جانور کی کھال جس پر لکھا گیا وہ تو بہت پرانی ھے کیوں کہ مسلمانوں نے جب شام کو تاراج کیا اور لُوٹا تو یہ پارچات یعنی اَن لکھے پارچات انکے ھاتھ لگے۔۔۔اب ان پارچات پر کب لکھا گیا یہ معلوم نہیں۔۔ ظاھر محمد کے زمانے میں لمبی تحاریر لکھنے کے لئے عربوں کے پاس مہارت موجود نہیں تھی۔
Conclusion; is that we cannot know when the writing took place as the carbon dating only gives a time line to the animal skin, not the writing, and the parchments were written on at a much later date.
Emilio Platti; “pointing out differences to the Sana codex-unquestionably the oldest manuscript (705), which therefore means that this Birmingham fragment is subsequent to the oldest manuscript (Sana).” جبکہ دوسرے محقق ایمیلیو پلاٹی کے مطابق صنا یا صنعا لکھائی کا طریق قدیم ترین اسلوب 705 عیسوی کا ھے۔۔ جبکہ ایک اور محقق ڈاکٹر جے سمتھ کے مطابق کاربن ڈیٹنگ سے یہ نسخے اسلام سے بھی پہلے کے معلوم ھوئے ھیں۔ اور یہ درآمدہ پرانی کہانیوں کو بدل کر لکھا گیا ھے۔اور بہت سی آیات بائبل اور انجیل وغیرہ سے کچھ تبدیلی کیساتھ یہان لکھ دی گئی ھیں۔ لیکن کسی میں بھی مدینہ، مکہ۔۔اور محمد کا ذکر حیرت انگیز طور پر نہیں موجود ھے۔
Dr. Jay Smith; the verses found on the Birmingham text pre-date Islam, examples and are plagiarised stories; Sura 18:17-31; = the 7 sleepers of Ephesus (Metaphrastes & Surag 521 A.D.) Sura 19: 91-98 = Proto Evangelium of James (145 A.D.) Sura 20: 1-40 = the story of Moses (1400 B.C.) None of the verses cover Mohammed, Medina, or Mecca, and there is nothing to do with the Caliphs7 ۔۔۔۔ برٹش لائبریری کے ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ واضح لکھائی میں حجازی لکھائی میں لکھے گئے یہ نسخے یقینی طور پر پہلے تین خلفا کے زمانے کے ہیں یعنی 632 اور 656 کے عرصے کے۔ ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان اس وقت اتنے امیر نہیں تھے کہ وہ دہائیوں تک کھالوں کو محفوظ کر کے رکھتے اور قرآن کی ایک مکمل نسخے کے لیے کھالوں کی بڑی تعداد درکار تھی، یہ نسخہ 3000 سے زیادہ مشرق وسطیٰ کے دستاویزات کے مسٹر منگانا مجموعے کا حصہ ہے جو 1920 کی دہائی میں جدید کےعراق کے شہر موصل سے پادری الفونسے منگانا لائے تھے،
برمنگھم یونیورسٹی میں ملنے والے قرآن کریم کے صفحات 1370 سال پرانے ہیں اور یہ ایک زمانے میں مصر میں فسطاط میں واقع دُنیا کی قدیم ترین مسجد عمر بن عاص میں رکھے ہوئے تھے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماہرین کو تقریباً یہ یقین ہو گیا ہے کہ یہ صفحات پیرس میں فرانس کی نیشنل لائبریری ’ببلیوتھک نیشنل دی فرانس‘ میں رکھے قرآن شریف کے صفحات سے ملتے ہیں۔
۔
لائبریری اس بارے میں قرآن کے تاریخ دان اور کالج دی فرانس میں معلم فرانسوا دریچو کا حوالہ دیتی ہے جنھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برمنگھم میں ملنے والے صفحات اور پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات قرآن شریف کے ملتے جلتے نسخے کے ہیں۔
برمنگھم یونیورسٹی کی دستاویزت میں قرآن کے صفحات تلاش کرنے والے محقق البا فدیلی کا بھی یہی کہنا ہے کہ پیرس اور برمنگھم یونیورسٹی میں موجود صفحات ایک ہی نسخے کے ہیں۔
پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات کے بارے میں علم ہے کہ یہ فسطاط میں مسجد عمر بن عاص کے قرآن شریف کے نسخے کے ہیں۔
پیرس کی لائبریری کے صفحات انیسویں صدی کے اوائل میں نپولین کی فوج کے مصر پر قبضے کے دوران وہاں تعینات وائس کونسل ایسلین دی چرول یورپ لائے تھے۔
پروفیسردریچو کا کہنا ہے کہ ایسلین دی چرول کی بیوہ نے یہ نسخہ اور کچھ اور قدیم دستاویزات برٹش لائبریری کو سنہ 1820 میں فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پیرس کی نیشنل لائبریری کو مل گئے اور جب سے اب تک یہ وہیں محفوظ ہیں۔
اسی دوران کچھ حصے نکال لیے گئے جو بعد میں فروخت کر دیے گئے۔ قیاس یہی ہے کہ متعدد بار فروخت ہونے کے بعد یہ صفحات ایک عراقی پادری ’ایلفاس منگانا‘ کے ہاتھ آئے۔ وہ مشرق وسطی میں نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ جایا کرتے تھے جن کا خرچہ برطانیہ کا کیڈبری خاندان اٹھاتا تھا۔
پروفیسر دریچو کا کہنا ہے کہ اس بات کے کوئی سرکاری شواہد موجود نہیں رہے لیکن اس طرح مسٹر منگانا کو فسطاط کے خزینے کی چند دستاویزات ملی ہوں گی۔ منگانا کو انہی گراں قدر علمی خدمات کے عوض ’لیجن آف آنر‘ کا اعزاز دیا گیا۔ ۔۔ اب ان دلائل اور تواریخ کے بعد ھم اصل منشا کی جانب چلتے ہیں، جس میں قرآن کے بارے میں دعوی جات کی فہرست بنائیں اور ھر ایک کا شافی جواب بھی تلاش کریں، لیکن ھمارا رویہ ایمانی نہیں ھوگا درسی و تدریسی و تحقیقی ھوگا۔کیونکہ پہلے بھی لکھ چکا ھُوں کہ ایمان کے ذریعے کسی بھی معاملے میں تحقیق جھوٹ کی ملاوٹ لازمی رکھتی ھے۔ ۔۔۔ آئیے اب سوالوں کی فہرست بناتے ہیں۔ قران کب بنایا گیا، قران کب لکھا گیا قرآن نبی پر اترنے کے دعوے کو ھم چھوڑ دیتے ھیں اور اسے سچ مان لیتے ھیں، تاکہ جھگڑا کھڑا نہ ھو کیونکہ ھمارے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں ھے کہ ھم معلوم کرسکیں کہ واقعی وحی کوئی چیز ھوتی ھے اور محمد پر وحی نازل ھوتی رھی، یا انہوں نے دوسروں کی مدد سے قرآنی آیات تشکیل دیں۔ ھم تحقیق کرتے ھیں کہ قران کب بنایا گیا۔۔ قرآن کب لکھا گیا قران کی ترتیب کیا ایسی ھی اتری یا تبدیل ھوئی قران کی ترتیب کیوں بدلی؟ کس نے بدلی؟ کب بدلی؟ کیا قرانی نسخے جو بھی دریافت ھوئے ھیں ان میں بہت جگہ جو فرق موجود ھے وہ کیا بتاتا ھے؟ ابتدائی قران میں کیا کچھ نہ تھا اور کیا کچھ بعد میں شامل کئے جانے کا امکان ھے؟ پیٹریشیا کرون میری طرح یہ سوال اٹھاتی ھیں کہ۔۔ Patricia Crone, a widely acknowledged expert on early and medieval Islam:wrote !
We can be reasonably sure that the Quran is a collection of utterances that [Muhammad] made in the belief that they had been revealed to him by God … [He] is not responsible for the arrangement in which we have them. They were collected after his death—how long after is controversial! یعنی ھم شواھد کی مدد سے یہ نتیجہ تو نکال سکتے ھیں کہ قرآنی لکھت محمد کے مطابق اُن پر اترنے والی آیات ہیں، لیکن محمد، اُس ترتیب کے ذمے دار نہیں ہیں جس میں یہ اب موجود ھے !۔۔ یعنی قران کی آیات اور پاروں اور سورتوں کی ترتیب محمد کی بنائی ترتیب کسی صورت نہیں ھوسکتی،،۔۔یہ کب بنائی گئی ؟ کیوں بنائی گئی؟یہ ھے اگلے سوالات !۔۔۔ اوپر کے سوالوں میں سے دوسرے سوال کا جواب کہ قرانی کی یہ ترتیب ممکنہ طور پر کب بنائی گئی کا جواب محققین نے ڈھونڈ لیا ھے اور برمنگھم کے نسخے اور فرانس میں موجود نسخے کے تقابل سےمعلوم ھوتا ھے کہ محمد کی موت کے بعد قران کو ترتیب دیا گیا کیونکہ اس سے پہلے یہ سہولت موجود نہ تھی کہ ھزاروں جانوروں کی کھالوں پر اسے لکھ کر محفوظ کیا جا سکتا ، یہ ھنر پہلے عربوں کے پاس نہیں تھا ، جب عربوں نے پہلے رسول کے اخری وقت اور بعد موت کے دوسرے ممالک پر قابضانہ حملے کئے تو مال و متاع کے ساتھ وھاں سے مختلف ھنر بھی انکے ھاتھ لگے، کھالیں محفوظ کرنے کا ھنر اور محفوظ شُدہ کھالیں مِلیں جن پر لکھا جا سکتا تھا۔کچھ لوگوں نے اپنے طور یہ کام کیا۔لیکن ھر ایک متن مختلف تھا۔ جیسے برمنگھم کے نسخے میں مدینہ مکہ محمد وغیرہ کے بارے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ تحقیق کاروں کے نزدیک سب سے پرانا مکمل کے قریب نسخہ عثمانی قران کے طور پر مشہور ھے۔عثمان کا دور محمد کے مرنے کے 20 سال بعد کا دور ھے۔۔ اسی قرآنی نسخے کو تاشقند نسخہ یا ثمرقند نسخہ بھی کہتے ہیں، یہ مسخہ اصلی نسخے کے ایک بٹا تین حصے کے برابر محفوظ ھے۔ دوسرا قرآنی نسخہ صنا نامی نسخہ ہے۔جسکی کاربن ڈیٹنگ 578 سے 669 تک ہے۔۔ ۔Results from radiocarbon dating from a Sana Quran parchment indicate that the parchment has a 68% probability of belonging to the period between AD 614 to AD 656. It has a 95% probability of belonging to the period between AD 578 and AD 669 (Behnam Sadeghi; Uwe Bergmann, “The Codex of a Companion of the Prophet and the Qur’ān of the Prophet,” Arabica, Volume 57, Number 4, 2010, p.348.)
The Sana palimpsest is not only significant because it is one of the oldest Qurans in existence. It’s also significant because the top layer (the text written over what was erased) is the text of the standard Uthmanic version of the Quran. Beneath this standard Uthmanic version (the part that was erased) is a non-Uthmanic version of the Quran. یہاں اب نہایت ضروری بات یہ ھے اوپری سطح کو مِٹا کر دیکھا گیا کہ نیچے کی سطح پر غیر عثمانی ورژن کا قرآن تھا جسے مِٹا کر اوپر کی سطح پر عثمانی طرز کا قرآن لکھا گیا ھے۔اب یہ سائینسی دریافت ثبوت کے ساتھ موجود ھے۔کوئی مخالفانہ بیان نہیں ھے۔ ۔۔۔ اسلامی نکتہ نظر والے محقق اس بارے مندرجہ ذیل رائے رکھتے ھیں۔ Muhammad Mustafa Al-Azami, Professor Emeritus at King Saud University, argues that the following list of manuscripts “have been conclusively dated to the first century A.H.”
A copy attributed to Caliph Uthman bin Affan. Amanat Khizana, Topkapi Saray, Istanbul, no.1.
Another copy ascribed to Uthman bin Affan. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.208. This copy has some 300 folios and it is missing a portion from both ends.
Another ascribed to ‘Uthman bin ‘Aflan. Amanat Khizana, TopkapiS aray, no. 10. It is only 83 folios and contains notes written inthe Turkish language naming the scribe.
Attributed to Caliph ‘Uthman at the Museum of Islamic Art, Istanbul. It lacks folios from the beginning, middle and end. Dr. al-Munaggid dates it to the second half of the first century.
Attributed to Caliph ‘Uthman in Tashkent, 353 folios.
A large copy with 1000 pages, written between 25-31 A.H. at Rawaq al-Maghariba, al-Azhar, Cairo.
Attributed to Caliph ‘Uthman, The Egyptian Library, Cairo.
Ascribed to Caliph ‘Ali bin AbI Talib on palimpsest. Muzesi Kutuphanesi, Topkapi Saray, no. 36E.H.29. It has 147 folios.
Ascribed to Caliph ‘Ali. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.33. It has only 48 folios.
Ascribed to Caliph ‘Ali. Raza Library, Rampur, India, no. 1. Contains 343 Folios.
Ascribed to Caliph ‘Ali, San’a’, Yemen.
Quran kept at the al-hussein mosque in Cairo, Egypt. Some believe it goes back to Uthman. Quran kept at the al-hussein mosque in Cairo, Egypt. Some believe it goes back to Uthman.
Ascribed to Caliph ‘Ali, al-Mashhad al-Husaini, Cairo.
Ascribed to Caliph ‘Ali, 127 folios. Najaf, Iraq.
Ascribed to Caliph ‘Ali. Also in Najaf, Iraq.
Attributed to Husain b. ‘Ali (d. 50 A.H.), 41 folios, Mashhad,Iran.
Attributed to Hasan b. ‘Ali, 124 folios, Mashhad, Iran, no. 12.
Attributed to Hasan b. ‘Ali, 124 folios. Najaf, Iraq.
A copy, 332 folios, most likely from the early first half of the first century. The Egyptian Library, Cairo, no. 139 Masahif.
Ascribed to Khudaij b. Mu’awiya (d. 63 A.H.) written in 49 A.H. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no. 44. It has 226 folios.
[#21 is missing in al-Azami’s list.]
A Mushaf in Kufic script penned in 74 A.H. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.2. It has 406 folios.
A copy scribed by al-Hasan al-Basri in 77 A.H. The Egyptian Library, Cairo, no. 50 Masahif.
A copy in the Museum of Islamic Art, Istanbul, no. 358. According to Dr. al-Munaggid it belongs to the late first century.
A copy with 112 folios. The British Museum, London.
A copy with 27 folios. The Egyptian Library, Cairo, no. 247.
Some 5000 folios from different manuscripts at the Bibliotheque Nationale de France, many from the first century. One of them, Arabe 328(a), has lately been published as a facsimile edition.
Al-Azami overstates that these have been “conclusively dated to the first century A.H.” For example, the manuscripts from Topkapi can be dated to the second century A.H. (Islamic Awareness). Several of the manuscripts attributed/ascribed to Uthman probably did not belong to him.
Nevertheless, considering that Muhammad died around 632 AD, these are still old Quran manuscripts. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر ان اسلامی محقق کا دعوی ھے کہ ان مختلف ٹکڑوں میں موجود قرآنی صفحات محمد کی موت کے فوری بعد یا اسی صدی کے قرآنی ٹکڑے ہیں۔ ۔۔ اس وقت جو قدیم نسخے کہیں بھی موجود ھیں انکے نام اور تعارف نیچے درج کرتا ھُوں ۔۔۔ پہلا قرآنی نسخہ اسوقت برمنگھم میں موجود ھے۔جو جیسے کہ پہلے بھی بتایا ھے۔ کاربن ڈیٹنگ میں 568 سے 645۔۔۔اور بعض کے مطابق 669 ویں صدی کے قریب ھے۔ اسکی لکھائی حجازی، یا صنا طرز کی ھے۔۔۔
Birmingham Quran Manuscript Year Written: c.568 AD – 645 AD Language: Arabic Script Type: Hijazi Current Location: University of Birmingham, Birmingham, England
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا نسخہ جرمنی مین موجود ھے۔ یہ بھی حجازی یا صنا لکھائی میں لکھا گیا ھے۔۔
Tübingen Fragment Year Written: c. 649 AD – 675 AD Language: Arabic Script Type: Hijazi Current Location: University of Tübingen, Tübingen, Germany The manuscript has been in the university’s possession since the 19th century when first Prussian Consul to Damascus, Johann Gottfried Wetzstein, acquired several ancient Arabic manuscripts. The research into the fragment’s age was conducted as part of a project funded by the German Research Society (DGF) and the corresponding French institution: Agence National de la recherché (ANR). یاد رھے کہ کاربن ڈیٹنگ کی سچائی 95 فیصد تک ھوتی ھے۔
تیسرا قرآنی نسخہ یمن سے مِلا اور صنا کہلاتا ھے۔
Sana’a Manuscript Year Written: c.671 AD Language: Arabic Script Type: Hijazi Current Location: Great Mosque of Sana’a, Yemen ۔۔۔۔۔ چوتھا قرانی نسخہ پیریسینو پیٹروپولیٹینس کہلاتا ھے۔ ساتوین یا آٹھویں صفی عیسوی میں لکھاگیا۔۔ اور لکھائی حجازی ہے۔۔ساٹھ اوراوراق پر مشتمل ہے۔اور لندن ویٹیکن کے خلیلی نواردات میں موجود ھے۔۔
Codex Parisino-Petropolitanus Year Written: c. late 7th to early 8th century Language: Arabic Script Type: Hijazi Current Location: 70 folios at Bibliothèque nationale de France, Paris; 26 folios at the National Library of Russia in Saint-Petersburg, Russia; 1 folio in the Vatican Library; and 1 folio in Khalili Collection in London
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانچواں قرآنی نسخہ کُوفی لکھائی میں ہے اور اس کے بارے غلط مشہور رہا کہ سب سے پرانا قرآنی نسخہ ہے۔۔اس کی کاربن ڈیٹنگ سے یہ 8 ویں صدی کے بعد کا نسخہ ھے۔اور ترکی کے عجائب گھر میں موجود ھے۔
Topkapi Manuscript Year Written: c. early to mid 8th century Language: Arabic Script Type: Kufic Current Location: Topkapi Palace Museum, Istanbul, Turkey ۔۔۔۔ چھٹا قرآنی نسخہ ازبکستان میں موجود ھے اور ترکی کے نسخے کی طرح ایمان لانے والے اسے سب سے قدیم سمجھتے تھے مگر یہ بھی 9 ویں صدی کے قریب کا لکھا گیا نسخہ ھے۔
Samarkand Kufic Quran (Uthman Quran) Year Written: c.765 AD – 855 AD Language: Arabic Script Type: Kufic Current Location: Hast Imam Library, Tashkent, Uzbekistan ۔۔۔
Blue Quran نیلا قران نمبر سات،،،، Year Written: c. late 9th century to early 10th century نویں اور دسویں صدی میں لکھا گیا۔ Language: Arabic Script Type: Kufic اسکا رسم الخط کُوفی ھے۔ Current Location: Most of it is located in the National Institute of Art and Archaeology Bardo National Museum in Tunis, Tunisia; 67 folios in the Musée de la Civilisation et des Arts Islamiques in Raqqada, Tunisia; 1 folio at the Los Angeles County Museum of Art in California, USA; and the other folios are scattered worldwide at various museums یہ نسخہ تیونس میں محفوظ ھے۔ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، سُنی فرقے والے یہ مانتے ہیں کہ قران ابوبکر کے زمانے میں لکھا گیا جو کہ 632 سے 634 کا زمانہ ھے۔۔ تاھم محققین متفق ھیں کہ عثمان کے دور میں جو قرآن عثمان کی نگرانی میں ترتیب دیا گیا وُہ ھی بچا رھا اور باقی مختلف و متعدد نسخے جلانے کا حکم دے دیا گیا تھا۔
جبکہ ایک معروف ترین محقق جون وانزبرگ کے مطابق قرآن کی ترتیب محمد کی موت کے 200 بعد کہیں جا کر قائم کی گئی۔ صناع ، مخطوطے کے بےشمار ٹکڑوں پر لکھے گئے ٹیکسٹ میں 5000 مختلف تبدیلیاں پائی گئیں ھیں۔ جس سے معلوم ھوتا ھے کہ عثمان کے زمانے تک کوئی جاری سکرپٹ موجود نہیں تھا مختلف اسلوب ملے جلے تھے۔۔ گرڈ پیوئن نامی ایک ماھر نوادرات و قدیمی مخطوطات کو یمن کی حکومت نے ایک بہت لمبا پروجیکٹ دیا تھا جس میں یمنی قرآن کے پندرہ ھزار صفحات کو ایک ایک لفظ پڑھ کر پرکھ کر بہتر کرنا شامل تھا۔اسکے کام اور تحقیق سے ابن وراق نامی سکالر نے قرآن پر کافی مواد لکھ رکھا ھے۔ جسمیں میں نے اسلام کیوں ترک کیا بھی شامل ھے۔ ماھر ِ مخطوطات گرڈ پیوئن کے بقول اسنے جو نتائج اب تک نکالے ھیں وہ یہ ھیں ،،، میرا نظریہ یہ ھےکہ قرآن اصل میں بہت سارے اقوال و بیانات و کہانیوں کا ایسا مجموعہ ھے جسے محمد کے دور میں بھی ٹھیک اور مکمل سمجھا نہیں گیا تھا۔ لکھے ھوئے کلمات اسلام سے بھی کئی سو سالوں پرانے معلوم ھوئے ھیں۔ خود اسلام چلن کے اندر بہت زیادہ متضاد خیالی و متضاد اعمالی پائی جاتی ھے۔ قرآن خود کو کہتا ھے کہ و شفاف، واضح، اور مبین و کُھلا کُھلا ھے، لیکن ھر پانچواں چھٹا کلمہ بے تُکا معلوم ھوتا ھے۔ اندازے کے مطابق قران کا پانچواں حصہ بے معنی و بے تعلقی کا شکار ھے۔اور اسی وجہ سے ھمیشہ سے قرآنی آیات کی تشریح میں شدید اختلافات ھیں جو مبین اور کُھلا کُھلا ھونے کے خلاف دلیل ھے۔اگر اسکو عربی مین بھی ایسی دقت سے سمجھنے کا سوال اٹھتا ھے تو پھر اسے ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔ جو اسکے خود اٹھائے گئے نکتے کہ قران شفاف ھے۔ واضح ھے خواہ مچھر جتنی چھوٹی بات بھی ھو کھول کھول کر بیان کرتا ھے۔ تو خود عربی علما بھی تذبذب کا شکار ھوتے ھیں، جس سے قرآن کی سچائی پر کافی اعتراضات اٹھتے ھیں، جبکہ ایمان لے انے والوں کو آیات کی جو بھی تشریح سمجھائی جاوے وہ اس پر مطمئن رھیں گے،
۔جیسے قرانی حروف مقطعات کا مسئلہ ھے آجتک کوئی بھی ان کی کوئی واضح توجیہہ اور مطالب نہیں بتا سکتا۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ھے کہ ان کوڈ ورڈز کو اُس پرانے زمانے میں شاید سمجھا جاتا ھو لیکن اسلامی تاریخ میں ان حروف کو اُس وقت بھی نہ سمجھا گیا کے موضوع پر احادیث موجود ھیں،، اغلب خیال یہ ھے کہ چونکہ محمد نے اپنی تحریک کو وسیع کرنے کے لئے دوسروں کو ساتھ مِلانا تھا تو اسی غرض سے انہوں نے یہودیوں، انصاریوں، ، مُشرکوں، عیسائیوں وغیرہ کو خوش کرنے کے لئے ایسے مشترک الفاظ قرآن میں شامل کروائے جن سے اُن گروھوں کی پزیرائی اور نمائیندگی بھی ھو جائے۔ بعض آیات کے منسوخ ھونے کا ذکر بھی تاریخ میں ملتا ھے جس سے پتہ چلتا ھے۔اُن آیات کے بنانے کا مقصد پورا نہ ھونے کی وجہ سے اُنہیں نکال دیا گیا۔ قران کے حروفِ مقطعات، کافروں ، یہودیوں اور مختلف گروھوں کو ساتھ ملانے کے لئے بنائے گئے۔۔کہ دیکھو آپکی ریپریزینٹیشن بھی ھے۔ جیسے الف لام میم۔۔۔ میں پہلے خدا کی ان بیٹیوں کے ناموں کو بعینہُ استعمال کرنے کی بجائے اعزی ،،الف لات،،،لام منات۔۔۔میم۔۔۔۔ بنائے گئے۔۔۔ آیات کی منسوخی ، والے واقعات اسی جانب روشنی ڈالتے ھیں۔جب مخصوص گروہ ان آیات پر راضی نہ ھوئے۔ اسلام کے ابتدائی دنوں میں یہ کوششین رھیں کہ جیسے ممکن ھو سب کو شامل کیا جائے۔۔۔کیونکہ قرآن بنانے والے مصنفین وغیرہ کی ٹیم دوسرے قریبی اور دور کے ممالک کے حالات ، ٹریڈ ٹُورز کے سبب جانتے تھے۔۔اور اس خطے میں بھی قبائل کو جور کر کوئی اتحادی ریاست بنانا چاھتے تھے۔اس لئے پہلے بظاھر مشرکین جو کبھی مشرکین نہیں تھے کو ساتھ ملنے کے لئے کوششین کی گئین۔ اور انکی دلچسپی کے نام شامل کئے گئے۔۔پھر۔۔۔ یہودیوں کو شامل کرنے کے لئے موسی کی تعظیم کی گئی۔۔پھر عیسی کی تعظیم کی گئی کہ عیسائی شامل ھوں۔اگر اسلام پہلے انبیا کو جھوٹا کہتا تو عیسائی یہودی لوگوں میں سے وہ جو ھمہ وقت روحانی تبدیلی کی خواھش رکھتے ھین کم تعداد مین اسلام میں شامل ھوتے۔۔یہ بات غور کر کے سمجھی جا سکتی ھے۔ ۔۔۔ سب سے بڑی دلیل جس کا کوئی جواب کسی اھل ایمان کی طرف سے شافی طور پر نہیں دیا جا سکتا وہ یہ ھے۔۔کہ قران اپنے بارے کہتا ھے کہ ۔۔ ھم چھوٹی سے چھوٹی بات کھول کھول کر بیان کرتے ھیں۔تاکہ مخاطب یہ نشانیاں سمجھ سکیں۔۔ لیکن آپ انکے معانی نہ سمجھتے ھیں نہ مسجھا سکتے ھیں۔ اور پڑھے جاتے ھیں جیسے کوئی منتر تنتر ھوں 2000 سال کے بعد بھی یہ حروف مقطعات کا نہ سمجھا جانا اور پھر ایک دو نام نہاد لبرل جدید و قدیم بزرگان کی جادوگری سے کوئی نہ کوئی معنی ان سے برآمد کرنے کی کسی بھی کوشش پر اھل ِ ایمان کا خوش ھونا تو بالکل منطقی ھے۔ کہ اھلِ ایمان ھر اُس بات کو سراھنے میں خوشی محسوس کرتے ھیں جو اس زمانے میں انکے مذھب کی اچھائی ثابت ھو۔۔۔ خواہ وہ۔۔۔چین سے علم پانے کی جھوٹی حدیث ھو۔۔۔ یا صفائی نصف ایمان کا عملی مظآھرہ فی المعاشرت الاسلامیہ ھو۔۔۔۔۔۔۔۔بالکل ایسے جیسے علی مشکل کُشا کو اپنے قتل سے بچاؤ کا علم تھا نہ ملکہ۔۔۔لیکن وہ دوسروں کے لئے مشکل کُشا ہیں۔ جب قرآن کہتا ھے وہ دنیا میں بھی فلاح پائیں گے اور آخرت میں بھی تو۔۔۔ تین خلیفہ تو قتل ھوئے اور بہت ذلیل طریقے سے مارے گئے۔۔ عائشہ کی اولاد تک نہ ھوئی۔۔بیوگی میں زندگی گزری۔۔۔پتہ نہیں کونسی فلاح تھی۔۔۔ جنگ جمل میں علی و عائشہ آمنے سامنے تھے۔۔۔ al-Baqarah ʾAlif Lām Mīm الم Āl Imrān ʾAlif Lām Mīm الم al-Aʿrāf ʾAlif Lām Mīm Ṣād المص Yūnus ʾAlif Lām Rā الر Hūd ʾAlif Lām Rā الر Yūsuf ʾAlif Lām Rā الر Ar-Raʿd ʾAlif Lām Mīm Rā المر Ibrāhīm ʾAlif Lām Rā الر al-Ḥijr ʾAlif Lām Rā الر Maryam Kāf Hā Yā ʿAin Ṣād كهيعص Ṭā Hā Ṭā Hā طه ash-Shuʿārāʾ Ṭā Sīn Mīm طسم an-Naml Ṭā Sīn طس al-Qaṣaṣ Ṭā Sīn Mīm طسم al-ʿAnkabūt ʾAlif Lām Mīm الم ar-Rūm ʾAlif Lām Mīm الم Luqmān ʾAlif Lām Mīm الم as-Sajdah ʾAlif Lām Mīm الم Yā Sīn Yā Sīn يس Ṣād Ṣād ص Ghāfir Ḥā Mīm حم Fuṣṣilat Ḥā Mīm حم ash-Shūrā Ḥā Mīm; ʿAin Sīn Qāf حم عسق Az-Zukhruf Ḥā Mīm حم Al Dukhān Ḥā Mīm حم al-Jāthiya Ḥā Mīm حم al-Aḥqāf Ḥā Mīm حم Qāf Qāf ق Al-Qalam Nūn ن ۔۔ اب دیکھیں جن مسلمان علما نے کچھ ڈھونڈ لانے کی ٹھانی تو کیا ڈھونڈا «الم» جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں۔ ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں۔ اس لیے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے۔ قرطبی رحمہ اللہ نے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہی نقل کیا ہے۔ عامر، شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابوحاتم بن حبان رحمہ اللہ کو بھی اسی سے اتفاق ہے۔ بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمحشری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں «الم السجدة» اور «هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنْسَان» پڑھتے تھے ۔ [صحیح بخاری:891] مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الم» اور «حم» اور «المص» اور «ص» یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ «الم» قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ قتادہ اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو عبدالرحمٰن بن زید اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لیے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام «المص» ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ «المص» پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ الاعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ شعبی، سالم بن عبداللہ، اسماعیل بن عبدالرحمٰن، سدی کبیر رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ «الم» اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے۔ اور روایت میں ہے کہ «حم»، «طس» اور «الم» یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں۔ سیدنا علی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں سے یہ مروی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی «أَنَا اللَّهُ أَعْلَمُ» ہیں یعنی ”میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا“۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہ مروی ہے۔ سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف «الف» اور «لام» اور «میم» انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں۔ «الف» سے اللہ کا نام، «الله» شروع ہوتا ہے اور «لام» سے اس کا نام «لطیف» شروع ہوتا ہے اور «میم» سے اس کا نام «مجید» شروع ہوتا ہے اور «الف» سے مراد «آلَاء» یعنی نعمتیں ہیں اور «لام» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «لُطْف» ہے اور «میم» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «مَجْد» یعنی بزرگی ہے۔ «الف» سے مراد ایک سال ہے «لام» سے تیس سال اور «میم» سے چالیس سال۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:28/1] امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ بھی، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے۔ بات نکلے گے تو پھر دور تلک جائے گی۔۔۔۔ لبرل یا دھریہ یا پہلے جو مسلمان ھوتے تھے۔۔۔ایسے لوگ جناب غامدی صاحب کے بیانات سےخوش ھوتے ھیں۔ کہ دیکھو جی اسلام کا کتنا چھا چہرہ سامنے لاتے ھیں۔ لیکن سوال تو یہ ھے کہ پچھلے 30 سال سے وہ یہی کرتے ھوئے کتنے شدت پسند مسلمانوں، اور طالبان۔۔اور ختم نبوت کے فسادیوں،،،وغیرہ کو اپنے جیسا بےضرر مسلمان بنا سکے ھیں؟؟ سوال تو کرنا ھی ھوگا کہ انکی اس مسلسل کوشش اور انکے مسلسل کتابی لیکچرز ور ویڈیوز سے انکی فاونڈیشن تو چل گئی لیکن زمینی حقائق کیا ھیں؟ کونسی بستی ھے جس میں مسلمان پہےل سے بہتر ھوئے اور رحمت کا نمونہ بن گئے؟ جب غامدی جی سے پوچھا جائے کہ حور کا لالچ کیوں؟ تو ھنس دیتے ھیں۔۔ بات گول کر دیتے ھیں۔۔ ڈھکے انڈوں والی آنکھوں والی عورتوں کو حور کہا جاتا ھے جی۔۔وہ اصلی نہیں ھونگی۔بس خیال ہی ھے۔۔یا آپکی بیویاں ھی ھونگی۔۔حالنکہ صاف لکھا ھے۔۔۔ لم یطمس ھُن۔۔۔وہ کنواری عورتیں ھونگی جنکی آنکھیں بڑی بڑی غلافی ھونگی۔۔۔عرب میں ھمیشہ سے بڑی آنکھوں والی عورتوں کو پسند کیا جاتا ھے۔۔میک اپ بھی ایسا کیا جاتا ھے کہ آنکھیں بڑی بڑی لگیں،،،تو ایک ربڑ کو آپ کتنا کھینچ سکتے ھیں؟ جب پڑھے لوگ کہین کہ دیکھو جی علی نے کہا تھا کہ ایک ذرہ پھٹ جائے تو کائنات پھٹ جائے ۔۔یہ اٹامک فشن کا علم علی کو تھا۔۔۔۔ تو کیا واقعی علی کو یہ علم تھا؟ کیا واقعی علی کو سائینسی مساوات سے معلوم تھا یا ابو طالب نے میتھ سکھایا تھا یا اللہ نے کوئی فشکس کا فرشتہ انکے لئے ایسے روز علم لاتا تھا جیسے طاھر القادری 40 سال سے کسی بزرگ کی کلاس میں جاتے ھیں۔ اور پھر کافرون کی گود میں کینیڈا میں امن پاتے ھیں۔امان پاتے ھیں۔۔۔اور غامدی جی ملائیشیا میں جان بچاتے ھیں۔ اور اس جملے سے انسانیت کو کیا فائدہ ؟ کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ۔۔۔ 2000 سال سے یہی بتایا جاتا ھے کہ ان حروف کے معانی اللہ کو ھی معلوم ھیں۔۔زیادہ چالاک لوگ کہتے ھیں کہ اللہ انکے معانی کسی آنے والے زمانے میں کھولے گا۔۔ جاری فتوی میں سے ایک کے مطابق بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa : 1129-1050/SN=1/1440 ”الٓم“ ”عسق“ ”حم“ ”یس“ وغیرہ حروفِ مقطعات کہلاتے ہیں، ان کے متعلق جمہور صحابہ و تابعین اور علمائے امت کے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ حروف رموز اور اسرار ہیں، جس کا علم سوائے خدا تعالی کے کسی کو نہیں ، اور ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم بطور ایک راز دیا گیا ہو جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں (معارف القرآن) اس لئے آپ ان الفاظ کے معانی اور تفصیلات کے درپے نہ ہوں۔ حروف مقطعات کے سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے معارف القرآن (۱/۱۰۶، ۱۰۷) کا مطالعہ کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے قران اتارا نبی پر۔۔۔اور نبی نے اللہ سے مطلب نہ پوچھا کہ بھائی جان۔۔۔اسکا مطلب بھی تو میں نے لوگوں کو سمجھانا ھے وہ بھی بتائیے۔۔۔ پر اللہ نے کہا۔۔۔تُو کہ۔۔۔ میں اللہ خوب جاننے والا ھوں۔۔ایک تو بات بات پر اللہ یہی کہتا ھے کہ میں اللہ خوب جاننے والا ھوں درست جواب کیوں نہیں دیتا کہ پھڈا ھی نہ ھو۔۔جھگڑا ھی نہ پڑے۔؟ مہدی کے بارے کچھ نہیں کہا۔۔صاف کہتا ھے مہدی انا ھے یا نہیں آنا ھے۔۔۔۔چکر بازی کیوں؟ نماز کی حکم کوئی 89 بار دیا۔۔۔ لیکن پڑھنے کا طریق نہیں بتایا ؟کیوں؟ کوئی بھی مسلمان جواب گھڑے گا کہ نماز تو رسول جی پڑھتے تھے اس لئے یہ سب کو معلوم تھا۔۔۔اس لئے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔۔نہ ھے۔۔۔واہ کیسا جواب ھے۔۔۔73 فرقے۔۔۔ ھر ایک کہتا ھے حدیث و روایت میں نماز ایسے پڑھنی ھے۔۔ شیعوں کی نماز سنیوں دیو بندیوں احمدیوں کے لئے پتھروں ٹھیکریوں سے ٹکر مارنے والی احمقانہ نماز ھے۔۔غرض ھر ایک کا اپنا انداز و تشریح ھے اللہ کو مسلمانوں کے بیچ جھگڑا کرانے کا شوق کیوں ھے؟؟ اب دیکھئیے۔۔۔ کہ تفسیر کرنے والے آپس میں ھر بات پر راضی نہیں۔۔۔کچھ پر راضی ھیں۔۔اور دور دور کی کوڑی لاتے ھیں۔۔جیسے۔۔۔کسی ایمان لانے والے کی تشفی کےلئے کتنی بظاھر خوش امید تصویر تشریح پیش کی گئی ھے۔۔دیکھیں۔۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ، ایک ساتھ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آتے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں۔ ان کے معنی ہر جگہ جدا جدا تو ضرور ہوتے ہیں، لیکن ہر جگہ ایک ہی معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لیے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو نہ تو مقدر ماننے سے، نہ ضمیر دینے سے، نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لیے یہ فیصلہ قابل غور ہے۔ اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لیے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جو مسلمان کے قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے [سنن ابن ماجہ:2620، قال الشيخ الألباني:ضعيف جدا] مطلب یہ ہے کہ «اقْتُلْ» پورا نہ کہے بلکہ صرف «إِقْ» کہے مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً «ق»، «ص»، «حم»، «طسم الر» وغیرہ یہ سب حروف «هِجَا» ہیں۔ بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا «ا ب ت ث» لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتداء کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:208/1] سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں «ا ل م ص ر ك ہ ي ع ط س ح ق ن» ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے۔ «نَصٌّ حَكِيمٌ قَاطِعٌ لَهُ سِرٌّ» تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لیے یہ پورے آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب ان دلائل اور ابحاث کے بعد بنیادی سوال کی جانب لوٹتے ھین کہ موجودہ دور کے بظاھر بڑے لبرل مسلمان سکالرز اس مذھبی وکٹ پر کس جانب شاٹس کھیلتے ھیں۔۔جیسے غامدی صاحب اور پروفیسر رفیق اختر صاحبان نے اسلامی کتب کا مطالعہ کر کے ان میں سے ممکنہ دلائل کو ترجمہ کر کے جدید ذرائع انٹرنیٹ وغیرہ پر پیش کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ھے اس سے لوگوں میں یہ غلط تاثر پھیلتا ھےکہ جیسے یہ اصحاب خود کسی تحقیق کے نتیجے میں کوئی سائینسی منطقی دلائل لے آئے ھوں جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ھے۔۔ ان دونوں اصحاب نے ھمیشہ پرانی اسلامی کتب سے حوالہ جات دئیے ھیں اور کوئی نئی بات نہیں کہ ھے۔ غامدی جی تو خود امین اصلاحی کے شاگرد ھیں اور انہیں کے اقوال و اعتقاد و تفاسیر سے متاثر ھیں۔ قران کے حروفِ مقطعات، کافروں ، یہودیوں اور مختلف گروھوں کو کرنے کے لئے بنائے گئے۔۔کہ دیکھو آپکی ریپریزینٹیشن یا نمائیندگی بھی ھے۔ جیسے الف لام میم۔۔۔ میں اسلامی خدا ، اپنے سے منسوب ان بیٹیوں کے ناموں کو بعینہُ استعمال کرنے کی بجائے حروف مقطعات استعمال کر کے اُس گروہِ مشرکاں کو ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ھے۔ بالکل ایسے ھی کوئی بھی مذھبی ھمیشہ ہمیشہ اپنے عقیدے کو سچا ثابت کرنے کے دلائل ڈھونڈتا ھے۔مطلق سچائی کی جانب نہیں چلتا۔ یہ لازمی فرق ایک متکلم اور فلسفی کے بیچ ھوتا ھے جو ملحوظ رھے اب یہ بحث ختم ھو جانی چاھئیے کہ قران کیا کسی خدا نے اتارا یا بنایا یا ترتیب دیا گیا۔کیونکہ ماننے والے نے کسی طرح بھی یہ نہیں ماننا کہ قرآن کی ترتیب بدلتی رھی، الفاظ بدلتے رھے،،، متن بدلتا رھا، موضوعات بھی بدلے،،کیونکہ اس سے خدائی ؤھی اور قرآنی حفاظت کے وعدے پر سوال اتھے گا اور ایمان باطل ھو جائے گا۔۔یہ مجبوری ھے۔ ،،، رفیع رضا
"کیا ذبح ہونے والا جانور آ گیا ہے؟” یہ سوال سعودی ولی عہد کے ذاتی محافظ اور ہِٹ ٹیم کے سربراہ، ماہر عبدالعزیز المطرب کی جانب سے پوچھا جاتا ہے۔ یہ واقع بتاتے ہوئے اقوام متحدہ کی خصوصی تفتیش کار برائے ماورائے عدالت قتل، ایگنس کیلامارڈ کی معاون، برطانوی وکیل، ہیلینا کینیڈی کی آواز سے دہشت جھلکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کسی کی آواز میں خوف کو سننے کی ہولناکی، اور یہ کہ آپ ایسے زندہ شخص کی آواز سن رہے ہیں جسے چند ہی لمحوں میں ذبح کیا جانے والا ہے، کی سرسراہٹ آپ کی ریڑھ کی ہڈی سے گزرتی ہے۔ آپ انہیں ہنستے ہوئے سن سکتے ہیں۔ وہ مزہ کر رہے ہیں۔ وہ وہاں انتظار کر رہے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ جو شخص اندر آنے والا ہے اسے ذبح کر کے اس کی لاش کو ٹکڑوں میں کاٹا جائے گا۔
مطرب فرانزک پیتھالوجسٹ صالح الطبیقی سے پوچھتے ہیں، "کیا ان کی لاش کسی بیگ میں رکھنا ممکن ہو گا؟” "نہیں، وہ بہت بھاری اور لمبے ہیں”۔ دونوں خشوگی کے جسم کو چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنے کی افادیت پر تبادلہ خیال کرتے ہیں، الطبیقی کے مطابق یہ کام "آسان” ہوگا۔ "ان کا جوڑ جوڑ علیحدہ کٹ جائے گا۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ہم پلاسٹک کے تھیلے لے کر ان کے جسم کو ٹکڑوں میں کاٹ لیں تو یہ جلدی ہو جائے گا۔ ہم ان میں سے ہر ایک کو الگ لپیٹ دیں گے۔” الطبیقی مزید کہتے ہیں، "میں نے کبھی بھی گرم جسم پر کام نہیں کیا ہے، لیکن میں آسانی سے اس کو کاٹ لوں گا۔”
یہ ساری گفتگو سعودی صحافی جمال خشوگی کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے سے ٹھیک پہلے تقریبا اس وقت کی ہے جب وہ استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ جمال کو اپنے بیٹے کو میسیج کرنے کو کہا جاتا ہے جس میں ان کے بیٹے کو تاکید کی گئی ہو کہ اگر وہ چند دنوں تک گمشدہ رہیں تو یہ بات کسی کو نا بتائی جائے جس پر وہ انکار کر دیتے ہیں۔ "جلدی کرو۔ ہماری مدد کرو تاکہ ہم بھی آپ کی مدد کرسکیں کیونکہ بالآخر ہم آپ کو واپس سعودی عرب لے جائیں گے اور اگر آپ ہماری مدد نہیں کرتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوگا۔ یہ کام اچھے سے ہونے دیں۔”
خشوگی ایک پرسکون شخص سے، خوف کے احساس تلے دبتے ہوئے، سراسیمہ اور مضطرب شخص کے طور پر سنائی دیتے ہیں- یہ جانتے ہوئے کہ کچھ مہلک واقع ہونے والا ہے، ان کی آواز میں در آنے والا خوف آخری حد تک پہنچ جاتا ہے۔ ‘کیا آپ مجھے زبردستی انجیکشن دینے جارہے ہیں؟’ جس پر انہیں ‘ہاں’ کہا جاتا ہے۔ "یہ کسی سفارت خانے میں کیسے ہوسکتا ہے؟” اس کے فورا بعد ان کے منہ پہ دم گھونٹنے والا تھیلا چڑھا دیا جاتا ہے۔ خشوگی کی مزاحمت جلدی ہی دم توڑ جاتی ہے کیونکہ انہیں اعصاب مختل کر دینے والا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ ان کے آخری الفاظ ہوتے ہیں، "مجھے دمہ ہے ایسا مت کرو، میرا دم گھٹ جائے گا۔” تبھی ماہر المطرب کہتے ہیں کہ ‘اسے کاٹ دو’، ‘اسے اتار دو ، اسے اتار دو۔ اس کے سر پر رکھو۔ اس کے سر کو اس میں لپیٹو.’ شاید یہی وہ لمحہ ہے جب جمال کا سر کاٹ کر ان کے دھڑ سے الگ کر دیا جاتا ہے۔
الطبیقی اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ جب وہ پوسٹ مارٹم کر رہے ہوتے ہیں۔ "میں انسانی لاشوں کو کاٹتے ہوئے اکثر ہیڈ فون پہ موسیقی سنتا ہوں اور کبھی کبھی تو میرے پاس کافی اور ہاتھ میں سگار بھی ہوتا ہے۔ اب کی بار زندگی میں پہلی دفعہ مجھے زمین پر ہی کسی انسان کے ٹکڑے کرنا پڑیں گے، بصورت دیگر تو اگر آپ قصائی بھی ہیں تو آپ جانور کو کاٹنے کے لٹکا دیتے ہیں۔” الطبیقی ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ وہ بظاہر غیر مطمئن سے لگتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لاش کو ٹھکانے لگانے کے واضح مقصد کے ساتھ ، الطبیقی کو آخری لمحے میں شامل کیا گیا تھا۔ الطبیقی کہتے ہیں، "میرے براہ راست منیجر کو معلوم نہیں ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ کسی پریشانی کی صورت میں مجھے کوئی نہیں بچائے گا۔”
ایک اور شخص جو اس منظر نامے میں پریشان محسوس ہوتا ہے وہ قونصل جنرل محمد العتیبی ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ ملک واپسی پہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو بکواس بند رکھیں اور کاروائی میں رکاوٹ نا ڈالیں۔ انہیں اس لیے یہ سننا پڑا ہے کیونکہ وہ ٹیم کو اپنا کام کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں، "یہ کام باہر جا کر کرو۔ آپ کا یہ کام مجھے کسی مصیبت میں پھنسا دے گا۔” اسی دوران، اگلے ۳۰ منٹ تک، پوسٹ مارٹم کرنے والے آرے کی ہڈیاں اور گوشت کاٹتے ہوئے آواز آتی ہے۔
جمال واشنگٹن پوسٹ کے صحافی تھے اور سعودی حکومت کی مطلق العنانیت کے سخت مخالف تھے۔ وہ سعودی ولی عہد کی ایک ایسی آمرانہ شبیہہ دنیا کو دکھا رہے تھے جسے سعودی حکومت یقینی طور پر کبھی پروجیکٹ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان کی تحاریر نے ولی عہد کو برافروختہ کردیا اور وہ اپنے ساتھیوں سے جمال کے مسئلے کے بارے میں کچھ کرنے کو کہتے رہے۔ استنبول میں، سعودیوں کو خشوگی کے بارے میں "کچھ کرنے” کا موقع مل گیا۔
ایگنس کیلامارڈ نے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی اپنی حتمی رپورٹ میں یہ نتیجہ نکالا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ جرم ریاستی قتل کے علاوہ کسی بھی اور طریقے سے بیان کیا جا سکے۔ اپنے آخری الفاظ میں، جمال کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے ان کے قتل کی حقیقی اہمیت سے خبردار کرتے ہوئے کہا، "یہ نہ صرف میرے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے المیہ ہے، ان تمام لوگوں کے لئے جو جمال کی طرح آزادانہ سوچتے ہیں اور جنہوں نے ان جیسا جمہوری مؤقف اختیار کیا۔”
میں ظالموں سے آزادی کی جدوجہد کبھی نہیں چھوڑوں گاحالانکہ میں زندگی بھر جیل کا قیدی رہوں گا۔یہ الفاظ نوبل انعام یافتہ، لیو ژیاؤبو ایک چینی ناقد، لکھاری، پروفیسر اور انسانی حقوق کے کارکن کے ہیں جو چینی کمیونسٹ پارٹی کے یک جماعتی حکومتی نظام کے خلاف تھے۔ ژیاؤبو کو دسمبر 2008ء میں نمائندہ جمہوریت کے لئے آواز بلند کرنے پر حراست میں لیا گیا اور ایک سال بعد ان کو 11 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ژیاؤبو کے آخری سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرنے کا باعث بننے والا "جرم” منشور 08 تھا۔ "موجودہ سیاسی نظام اس حد تک پسماندہ ہوچکا ہے کہ تبدیلی سے گریز نہیں کیا جاسکتا،” انہوں نے یک جماعتی حکمرانی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے منشور میں کہا۔ یہ منشور 1949 میں چین کی آزادی کے بعد سے چھپنے والا پہلا منشور تھا۔
2010 میں ، لیو کو "چین میں بنیادی انسانی حقوق کی طویل اور عدم تشدد کی جدوجہد” کے سبب امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ایوارڈ کی تقریب میں ان کی نمائندگی خالی کرسی نے کی کیونکہ تب ان کو جیل میں قید دوسرا سال تھا۔ ناصرف ان کو بلکہ ان کی شریک حیات لیاؤ ژیاء کو بھی حراست میں لے لیا گیا جو تاحال قید تنہائی کاٹ رہی ہیں۔
ژیاؤبو دوران حراست جگر کے کینسر کا شکار ہو گئے۔ چینی حکومت نے ان کے علاج کے لیے کی گئی درخواستوں کو رد کر دیا اور ان کو تب تک مسلسل جیل میں رکھا گیا تاوقتیکہ کہ حکومت کو ان کی بیماری کے ناقابل علاج ہونے کا یقین نہیں ہو گیا۔ ذاتی درخواستوں کے علاوہ بین الاقوامی دباؤ بھی اس سلسلے میں ناکافی رہا۔ بالآخر ان کی موت سے صرف چند ہفتے پہلے حکومت نے انہیں جیل سے نکال کر ہسپتال پہنچایا جہاں ان کا کینسر آخری سٹیج پر تشخیص ہوا۔ بین الاقوامی برادری بار بار انہیں علاج کی خاطر ملک سے باہر بھیجنے پر زور دیتی رہی مگر چینی حکومت مصر رہی کہ ان کا تسلی بخش علاج ملک میں ہی ہو سکتا ہے۔
چند دن بعد چائنا میڈیکل یونیورسٹی کے شینیانگ فرسٹ اسپتال نے جگر کے کینسر کے باعث ان کی موت کی اطلاع دی۔ "مجھے اس حکومت سے نفرت ہے ،” مصنف اور سیاسی کارکن ٹینائچی مارٹن لیاؤ، جو 30 سال سے ژیاؤبو کی دوست رہی ہیں، نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ صرف غم ہی نہیں، غم و غصہ ہے۔ ژیاؤ جیسے شخص کے ساتھ کوئی حکومت ایسا سلوک کیسے کرسکتی ہے؟
20 اگست 2020 کو، روسی شہر ٹومسک سے ماسکو جانے والی پرواز کے دوران ایک شخص منہ کے بل جہاز کے فرش پہ جا گرتا ہے۔ اندیشہ ہے کہ اسے بعید الاثر زہر دیا گیا ہے۔ طیارے کی ہنگامی لینڈنگ کے بعد انہیں کوما کی حالت میں اسپتال داخل کیا جاتا ہے۔ یہ خبر پھیلنے کے چند ہی لمحوں میں وفاقی سیکیورٹی اداروں کے اہلکار اسپتال کے کمرے کو گھیر لیتے ہیں کیونکہ زہر خورانی کا شکار ہونے والا شخص الیکسی ناوالنی ہیں جو روسی صدر پیوٹن کے سب سے بڑے ناقد ہیں۔ ان کی جان کو درپیش خطرے کے پیش نظر جلد ہی انہیں علاج کی خاطر جرمنی منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں سے وہ صحت یاب ہو کر روس واپس لوٹتے ہیں۔
جرمن تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ انہیں ملٹری گریڈ زہر ایک ایسے روسی خفیہ ڈیتھ اسکواڈ نے دیا تھا جو 3 سال سے اس مشن پہ تھِا۔ یہی زہر برطانیہ میں پناہ گزین، برگشتہ روسی جاسوس سرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی کو بھی دیا گیا تھا۔ جنوری 2021 کے وسط میں ناوالنی کو روس واپس پہنچتے ہی حراست میں لے لیا گیا۔ جس تھانے میں انہیں رکھا گیا تھا وہیں پہ عدالت لگاتے ہوئے انہیں اس رات جیل کی سزا سنا دی گئی۔ حالانکہ ان کی اس سزا پہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر ممالک نے زبردت تنقید کی مگر روسی حکومت کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔ بلکہ اس کے جواب میں انہیں بیگار کیمپ میں بھیج دیا گیا۔
ناوالنی نے ایک باضابطہ شکایت میں حکام پر نیند سے محروم رکھنے، تلاوت کے لیے قرآن فراہم نا کیے جانے اور تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔ ناوالنی کے ایک وکیل نے ان کی صحت کی خرابی کی نشاندہی کی جبکہ جیل حکام نے ناوالنی کی جانب سے سویلین طبیب سے متعلق درخواستیں رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی صحت "اطمینان بخش” ہے۔ کچھ دن کے بعد، چھ ڈاکٹروں، جن میں ناوالنی کی ذاتی معالج ، اناستاسیا واسیلییوا، اور سی این این کے دو نامہ نگار شامل تھے، کو جیل کے باہر سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب انہوں نے ناوالنی سے ملنے کی کوشش کی جن کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل، ایگنس کیلامارڈ نے صدر ولادیمیر پوتن پر الزام لگایا ہے کہ ناوالنی کو جیل میں تشدد اور غیر انسانی سلوک کے ذریعے آہستہ آہستہ قتل کیا جا رہا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ناوالنی کو فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت ہے۔ ناوالنی کی ذاتی ڈاکٹر، واسیلییوا اور تین دیگر ڈاکٹروں ، جن میں امراض قلب کے ماہر بھی شامل ہیں، نے جیل کے عہدیداروں سے یہ کہتے ہوئے انہیں فوری طبی رسائی دینے کا مطالبہ کیا کہ "ہمارا مریض کسی بھی لمحے دم توڑ سکتا ہے”، اس کا مطلب ہے مہلک دل کا دورہ یا بڑھتے ہوئے طبی خطرے کی وجہ سے "کسی بھی لمحے” گردوں کی ناکامی۔ تاہم، روسی حکام کی طرف سے غیر ملکی حکومتوں کی روسی صدر پر تنقید کی سرزنش کرتے ہوئے کریملن کے ترجمان دمتری پیسوکوو نے کہا کہ جیل کے حکام ناوالنی کی صحت کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہ صدر کی ذمہ داری نہیں ہے۔
اگر آپ چند ہفتے پہلے بیلارس کے 26 سالہ حکومت مخالف صحافی، رومن پروٹاسیوچ کی ایک بین الاقوامی پرواز سے اغوا کی سازش، شمالی کوریائی رہبر اعلی کم جونگ ان کے وزن میں کمی سے پریشان سرکاری صحافت اور پاکستان میں مخالف رائے کا گلا گھونٹے جانے سے پریشان ہیں تو یقین کیجئے کہ یہ مماثلت صرف اتفاقی نہیں ہے۔ کچھ دیگر مماثلتوں میں حکومتی ڈھانچہ بھی شامل ہے۔ سعودی عرب میں 88 برس سے، چین میں 72 برس سے اور روس میں 104 سال سے ایک ہی نقطہ نظر سوار بر اقتدار ہے۔ بعینہٖ، پاکستان میں پچھلے 74 سال سے، شمالی کوریا میں 73 برس سے اور بیلارس میں آزادی سے لے کر آج تک ایک ہی ادارہ حکومت پہ قابض ہیں۔
چنانچہ اگر پاکستان دوست ممالک کی پیروی کر رہا ہے تو کیا قیامت آ گئی؟ اگر ہمارے نظریاتی رہنما، سعودی، جمال خشوگی کے جسم کے ٹکڑے کر کے غائب کر سکتے ہیں تو پاکستانی شہر منڈی بہائوالدین میں لاپتہ صحافی سید سلیم شہزاد کی کٹی پھٹی لاش ملنے میں کیا قباحت ہے؟ اگر دوست ملک چین، لیو ژیاؤبو کو جیل میں رکھ کر موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے تو پاکستانی دانشوروں کی جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل کیوں قابل اعتراض ہیں؟ اگر روسی حزب اختلاف کے رہنما الیکسی ناوالنی کو جبری مشقت کے کیمپ میں سست موت دی جارہی ہے تو کیوں پاکستانی اختلافی آوازیں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت وغیرہ کا فضول مطالبہ کریں؟ آخرکار، شمالی کوریا کے چینی، بیلارس کے روسی اور پاکستان کے سعودی، چینی اور روسی، سب کے مشترکہ، نقش قدم پہ چلنے میں حرج ہی کیا ہے؟
سعودی عرب کے سابق گرینڈ مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز کے شاگرد رشید، ڈاکٹر سلمان العودہ نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم جنس پسندی کی اس دنیا میں کوئی سزا نہیں ہے اور ہم جنس پسند اس فعل کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں ہوتے- ان کے مطابق اس جرم کی شرعی سزا جو کہ سنگسار کیا جانا ہے، بذات خود لواطت سے بڑا جرم ہے۔
اسی طرح عرب سپرنگ کا آغاز کرنے والے ملک، تیونس کے٨٠ سالہ مفکر راشد الغنوشی نے بھی ایک انٹرویو میں بتایا، "ہم جنس پسندی کو ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ ہے- ان کے مطابق ہم جنس پسندی ایک نجی معاملہ ہے اور اس سلسلے میں قانون کا اختیار نہیں ہونا چاہیے چنانچہ اسے جرم نہیں ہونا چاہیے۔
مردوں میں ہم جنس پسندی کی تاریخ نسلوں کی بجائے صدیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ عربی زبان میں اسے لواطت اور انگریزی میں sodomy کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی اصلاحات میں مذہب کا دخل ہے۔ عربی کا لواطت پیغمبر لوط کے نام سے مشتق ہے جب کہ انگریزی sodomy موجودہ اسرائیل میں بحیرہ مردار کے جنوب مغربی کنارے پر واقع جبل سدوم (Mount Sodom) سے ماخوذ ہے۔
حالانکہ موجودہ دور میں سدوم نام کی کوئی آبادی وہاں موجود نہیں ہے مگر عہدنامہ عتیق (تورات عظیم) اور عہدنامہ جدید (انجیل مقدس) سدوم شہر کی تباہی کی تفصیل دی گئی ہے (دنیا کے تمام مذاہب قابل تعظیم ہیں)۔ یہ وہی شہر ہے جہاں قرآن حکیم نے پیغمبر لوط کی رہائش اور ان کی قوم پہ عذاب کا بتایا ہے حالانکہ اس شہر کے نام کا حوالہ قرآن حکیم میں نہیں دیا گیا۔ اسلام سے پہلے کی ابراہیمی کتابوں میں پیغمبر لوط کا ذکر بہت محدود سا ہے جبکہ قرآن پاک میں پیغمبر لوط کا ذکر نسبتا تفصیل سے آیا ہے۔
جب بھی ہم جنس پسندی کی بات آتی ہے تو عمومی طور پر مردوں کے ہی جنسی رویے کی بات کی جاتی ہے مگر یہ جنسی رویہ عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ عورتوں کے اس جنسی رجحان کو انگریزی زبان میں (Lesbianism) کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ یونانی جزیرے (Lesbos) اخذ کیا گیا ہے۔ اس جزیرے کی وجہ شہرت مشہور یونانی شاعرہ سیفو ہیں جنہوں نے معلوم تاریخ میں پہلی بار اہنی محبوبہ کے بارے میں جذباتی شاعری مرتب کی (شاعری لکھی نہیں جاتی بلکہ ترتیب دی جاتی ہے)۔
اس طرح کے جنسی رویے کو عجیب سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ جنسی عمل کے متعلق عام غلط فہمی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ اس لیے بھی ناقابل قبول لگتا ہے کیونکہ جنسی عمل کو صرف افزائش نسل کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زمین پہ پائی جانے ذہین ترین مخلوقات (انسان، چمپینزی اور ڈولفن) جنسی عمل تسکین کے حصول کے لیے کرتے ہیں (جس کی وجہ سے کبھی کبھی بچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں ورنہ ان کے سیکس کی فریکوئینسی کی نسبت سے ان کی آبادی کو بےقابو ہو جانا چاہیے) یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام جانداروں کے جنسی عمل اور نئے بچے پیدا ہونے کا ایک خاص موسم ہوتا ہے جبکہ ان ذہین مخلوقات کے بچے سارا سال پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
بنیادی طور پر ہم جنس پسند رویے کا تعلق بھی جنسی لذت سے ہوتا ہے جو کہ ایک انتہائی ذاتی رجحان ہے یہی وجہ ہے کہ ایسا جنسی رویہ رکھنے والے افراد جنس مخالف کی دستیابی کے باوجود ہم جنسی کا رجحان رکھتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں شادی بھی اس مسئلے کا مستند حل نہیں ہے اور ایسے افراد شادی کے بعد بھی ایسا رجحان رکھتے ہیں بلاشبہ یہ کچھ دب ضرور جاتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا کیونکہ ہم جنس پسندی ایک قدرتی رجحان ہے جو ماں کے پیٹ سے ہی پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ ہم جنس پسندی کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم نے جنسی رویوں کو حال ہی میں سمجھنا شروع کیا ہے لہذا ہم جنس پسندی کو روایتی طور پر قابل اعتراض سمجھا جاتا رہا ہے چنانچہ بالکل منطقی طور پر تقریبا ہر مذہب نے اس کے لیے سخت سزائیں تجویز کیں ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ بالعموم مذہبی پیشوا ہی اس عمل میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صوفیانہ روایات سے مزین مردانہ اجارہ داری کی حامل مذہبی قیادت بالعموم نسائی لذت سے محروم رہی ہے کیونکہ تقدس کا تصور زنانہ جنسی لذت سے آلودہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ جنسی گھٹن کی شکار مذہبی قیادت کے لیے دینی تربیت کے لیے مدخول بچے آسان ہدف رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بچوں کو خوف زدہ کر کے خاموش رہنے پہ مجبور کر دینا اور ان کے دل میں تقدس کے ہیولے کا ادب (رعب) پیدا کر لینا آسان رہا ہے۔ بچے سمجھتے ہیں چونکہ مذہبی رہنما خدا کے دنیاوی نمائندے ہیں لہذا ان کی ہر بات پہ مطلق فرمانبرداری ضروری ہے چاہے وہ حکم بظاہر ناجائز ہی ہو کیونکہ وہ مذہب کو مقدس ہستی سے زیادہ تو نہیں سمجھتے۔ ماسوائے اس کے بچوں کو سیکس کے موضوع پہ تعلیم کی کمی بھی اس کے لیے ذمہ دار رہی ہے۔
یہ مشق کسی ایک تہذیبب یا مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تقریبا ہر ثقافت اور مذہب اس حوالے سے شریک لطف رہا ہے۔ قدیم جاپان میں مردوں کی کم عمر لڑکوں سے جنسی لذت حاصل کرنے کے رواج کو Nanshoku کہا جاتا تھا، اس مقصد کے لئے اشرافیہ کے پاس wakashu کہلائے جانے والے لڑکے موجود ہوتے تھے۔ اسی طرح یونانیوں نے بھی لڑکے رکھے ہوئے تھے ارسطو نے اپنی کتاب پولیٹکس میں اس پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ Crete کے حکمران آبادی کنٹرول کرنے کے لئے pederasty بچہ بازی/ اغلام بازی کی پزیرائی کرتے تھے۔
چینی تہذیب میں بھی یہ رواج عام تھا۔ شہنشاہ Ai کی آستین پر ایک مرتبہ انکا عاشق سو گیا اس نوجوان کو اٹھانے کے بجائے آپ نے اپنی آستین ہی کاٹ لی۔ یہ دیکھتے ہوئے بعد میں درباری بھی ایک آستین نکال لیا کرتے تھے، اسی وجہ سے چین میں لڑکوں کا شوق رکھنے والوں کے لئے Passion of Cut Sleeves کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
فارس میں بھی یہ مرض عام تھا، سکندرِ اعظم کو فارس کے حکام نے Bagoas نامی ایک لڑکا بھی تحفہ میں دیا تھا، سکندر کویہ نوجوان بہت عزیز تھا رقص کے مقابلوں میں اسے نچوایا کرتا تھا، اس سے کھلے عام اپنے پیار کا اظہار بھی کردیا کرتا تھا Bagoas Kiss کی اصطلاح یہاں سے نکلی۔ عباسی دور میں خلیفہ الامین نے لڑکوں سے دربار میں رونق لگائے رکھی۔ عثمانی دور کی اشرافیہ بھی یونانیوں سے اس درجہ متاثر تھی کہ حماموں میں تلک نام کے کم عمر لڑکے رکھے جاتے جو مردوں کو نہلانے کے علاؤہ دیگر خدمات بھی سر انجام دیتے تھے۔
بابل کی تہذیب میں بھی مرد کا مرد سے جنسی تسکین حاصل کرنا ایک معمول کا فعل تھا۔ خوش بختی اور اچھی قسمت کے لئے ضروری تھا کہ مذہبی پیشواؤں سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ مصر کی تہذیب میں بھی یہ ہی چیز جاری رہی تھی۔ انکی تین ہزار سال پہلے کی گلگامش کی کہانی میں بھی بادشاہ گلگامش انکیدو نامی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
آج بھِی افغان معاشرے میں یہ رویہ مباح سمجھا جاتا ہے کہ سماجی شان و شوکت کے لیے نوعمر لڑکے رکھے جائیں۔ یہ رویہ اس حد تک مقبول ہے کہ 2015 میں امریکی جرنیلوں نے اپنے فوجیوں کو ہدایت کی تھِی کہ افغان "بچہ کشی” میں مداخلت نا کی جائے۔ شاید ہی کوئی افغان سردار ایسا ہو گا جس کے حجرے میں امرد موجود نا ہوں۔ ناصرف یہ کہ ان لڑکوں کی ملکیت قابل فخر ہے بلکہ ان کے توارد کے لیے جنگجو سرداروں کی خونی لڑائیاں بھِی عام ہیں۔ یہ لڑکے ناصرف جنسی راحت دیتے بلکہ فنکارانہ ذوق کی تسکین بھی کرتے ہیں جیسا کہ پازیب کے ساتھ رقص وغیرہ۔ اس حوالے سیاسی یا مذہبی وابستگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مذہبی، متشرع طالبان اور افغان حکومت کے حامی سیکولر سردار، دونوں اس حمام میں ننگے ہیں۔
مذہب میں اس حوالے سے سب سے زیادہ بدنام مسیحی گرجا رہا ہے (پیغمبر عیسی کے ماننے والے عیسائی نہیں بلکہ مسیحی ہیں)۔ میڈیا کے فروغ نے بیسیویں اور اکیسیویں صدی کے دوران مسیحی گرجا کی ہم جنسی پرستی کا پول کھول دیا ہے حالانکہ گرجا پہ ایسے الزامات صدیوں سے لگتے آئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ گرجا میں رہنے والی راہباووں کی بکارت کو محفوظ رکھتے ہوئے ان سے غیر فطری جنسی فعل کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
بعینہہ، یہودی برادری کی عبادت گاہوں (سینا گوگ) میں ہم جنسی اشتہاانگیزیوں کی شکایات کا انبار ہے۔ بودھ صوفی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ابھی حال میں ہی تھائی لینڈ کی بودھ خانقاہوں میں نوعمر بودھ بھکشووٗں کے ساتھ عمر رسیدہ بھکشووٗں کی جنسی ذیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک ۱۳ سالہ بھکشو کی شکایت کے مطابق ۵۱ سالہ رہبر بھکشو اسے اپنے ننگے جسم کا مساج کرنے اور اپنے جسم کو چوسنے کا کہتے۔
پاکستان میں یہ روایت اردو کی رعایت سے آئی ہے حالانکہ اردو کی قبولیت عام سے پہلے بھی برصغیر کے مسلمانوں میں عشق افلاطونی (افلاطون کے نزدیک عورت سے محبت فضول ہے کیونکہ عورت سے جنسی عمل صرف نسل آ گے بڑھانے کے لیے ہے جب کہ عشق حقیقی کا حظ صرف نوعمر بغیر داڑھی کے لڑکوں سے ہی اٹھایا جا سکتا ہے) کی مضبوط ثقافت موجود تھی۔
اردو کی اولین تحریر سے بھی ۳۵۰ سال پہلے پیدا ہوئے سلطان علاوالدین خلجی کی اپنے غلام ملک کافور سے محبت پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ خلجی کے دورِ حکومت میں ایک مبصر ضیا الدین بارانی نے خلجی کے آخری دنوں کا احوال بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان چار پانچ برسوں میں جب سلطان اپنی یاداشت کھونے لگے تھے تو وہ ملک کافور کے ساتھ گہری محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کچھ ایسی ہی حکایات سلطان محمود غزنوی اور ان کے چہیتے مملوک ایاز کے لیے بھی ہیں۔ تزک جہانگیری میں مغل بادشاہ جہانگیر نے بھی لڑکوں پہ اپنی شبینہ فتوحات کا ذکر کیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد سرمد پر اپنی تحریر کی ہوئی کتاب ’حیاتِ سرمد‘ میں صوفی سرمد کی اپنے محبوب ابھےچند کے لیے سرمستی عشق کے بارے میں لکھا ہے۔
پنجابی کے نامور شاعر اور لاہور کے صوفی شاہ حسین اور ہندو لڑکے مادھو کے عشق سے کون واقف نہیں ہے؟ اس عشق کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنے محبوب کا نام اپنے نام کا مستقل حصہ بنا لیا اور اب بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ مادھو لال حسین ایک شخص کا نام نہیں تھا بلکہ دو الگ الگ نام تھے۔
اسلامی تصوف میں اس حوالے کی روایت پہلے عرب (شاعر ابو نواس) اور پھر فارس (عمر خیام اور حافظ شیرازی کا مشہور شعر تو ہر کوئی کس لذت سے سناتا ہے کہ اگر وہ شیراز کا ترک لڑکا مجھے مل جائے تو میں اس کے گال کے تِل کے بدلے سمر قند اور بخارا کے شہر اسے بخش دوں) سے وارد ہوئی۔ اس سلسلے میں صوفی سلسلے کی مشہور بزرگ شاہ شمس تبریز اور مولانا روم کا عشق زبان زد عام ہے۔
1244 میں مولانا رومی کی جب شمس تبریز سے ملاقات ہوئی تو ان کی عمر 37 برس اور شمس تبریز کی عمر 60 برس تھی۔ اس وقت تک مولانا رومی ایک مستند و معتبر عالم بن چکے تھے۔ ان کا خطبہ سننے سینکڑوں ہزاروں لوگ جمع ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل تھی۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک خوشحال‘ باعزت اور کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ شمس نے رومی کو چھوڑ جانے کا فیصلہ کیا تو رومی نے شمس کی شادی اپنی منہ بولی بیٹی کیمیا سے کر دی۔
یہ حقیقت بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جوں جوں رومی شمس سے جذباتی طور پر قریب آتے گئے رومی اپنی بیوی سے رومانوی طور پر دور ہوتے گئے اور شمس بھی اپنی نو بیاہتا بیوی کیمیا سے ازدواجی تعلقات نہ قائم کر سکے۔ اس تعلق کی شرمندگی سے بچنے کے لیے رومی کے بیٹوں نے شمس کو قتل کر دیا۔
اردو غزل کے بادشاہ، ریختہ کے استاد، صوفی ابن صوفی سید محمد تقی (ولد سید محمد متقی جو ایک معروف مزار کے سجادہ نشین تھے) عرف میر تقی میرؔ، جن کو خداۓ سخن کا لقب دیا جاتا ہے، نے شاعری کے اپنے دیوان کے متعلق کہا تھا کہ میرے دیوان میرے معشوق لڑکے کے لکھا گیا ہے۔ ان کے معشوق لڑکے کے حسن کے قصے اور طرحداریوں کے افسانے اس کے خال و خد سے لے کر عشوہ طرازیوں تک چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح پرانی دلی کے قدماء میں سے ایک بزرگ شاعر شیخ شرف الدین مضمون نے اپنے محبوب کے بارے میں لکھا کہ میرے محبوب کے چہرے پر داڑھی آ گئی ہے جبکہ میری داڑھی سفید ہو چکی ہے۔ لیکن وہ اب بھی ساری رات مجھ سے مصاحبت کرتا ہے۔ ہندو اردو شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھ پوری بھی اپنے بیٹے کے عمر کے لڑکے کے عشق میں مبتلا تھے۔ کہتے ہیں کہ فراقؔ گھورکھ پوری کی ہم جنسیت کی وجہ سے ان کے بیٹے نے خود کشی کر لی تھی کہ اس کا باپ اس کے دوستوں سے بھی باز نہ آتا تھا۔)
ایک فقیہ اعظم نے اس رویے کا علاج یہ تجویز کیا تھا کہ اپنے شاگرد کا سر منڈوا دیا تاکہ وہ خوبصورت ہونے کی وجہ سے دوران سبق امام صاحب کی توجہ منتشر نا کروا دیں۔ مگر کیا کیجئے، مسئلہ حل نہیں ہوا اور اس کے بعد استاد محترم اپنے عزیز شاگرد کو اپنی مسند کے عقب میں یعنی اپنی نظروں سے اوجھل بٹھاتے۔ کیا اس سب کے بعد مفتی الشیخ عزیز الرحمان پہ گرفت کی جانی چاہیے؟ جواب آپ کا ہے۔
سچائی کیا ھے؟ کیا جھوٹ ھے؟ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ایک دوست نے پوچھا۔۔۔
۔ خدائے مذھبی کیا ھے ، خدائے قدرتی کیا ھے؟ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، المختصر بیان کرتا ھُوں جب ھم کائنات کو دیکھتے ھیں۔ اور پھر دنیا کو اور اپنی زمین پر نباتات و حیوانات کو دیکھتے ھیں،،،، تو سوچتے ھیں کہ آخر انکی ابتدا کہاں سے ھوئی۔ ھم ایسا اس لئے سوچتے ھیں یا ھماری یہ سوچنے کی نہج اس لئے ایسی ھے کیونکہ ھر جاندار کی کوئی ابتدا ھمیں نظر آتی ھے۔۔ہر عمومی پروسس کو ہم بنتے شروع ہوتے دیکھتے ہیں یہ ھمارا روز کا مشاھدہ ھے۔ عام انسان نہیں جانتے کہ پلاسٹک کیسے بنتا ھے، وہ اس پر سوال نہیں اٹھاتے کہ پلاسٹک اور نائیلون کیسے وجود میں آگیا؟ تیل سے بھلا پلاسٹک کیسے بن سکتا ہے وہ نہیں کہتے یہ پاگل پن اور جھوٹ ہے۔۔بس مان لیتے ہیں وہ سوچتے ھیں فیکٹری میں بنتا ھے اور وہ بس اسی علم پر مطمئن ھیں،لیکن سائینس کسی بھی چیز، کا مشاھدہ مخلتف سطح کے علوم سے کرتی ھے ، عام انسان لاؤڈ سپیکر کی آواز روز سنتا ھےمگر جانتا نہیں یہ کام کیسے کرتا ھے؟ آواز کیا ھے؟ کیسے وائیبریشن والی صوتی لہریں۔۔مائیک کے پردے سے ٹکراتی ھیں۔۔ پھر اس پردے سے آگے جو لرزش پیدا ھوتی ھے اس کے اثر کو کیسے مقناطیسی میدان برقی رو میں منتقل کرتا ھے پھر کیسے وہ برقی پیغام میں منتقل ہوتی ہے آگے منتقل ھو کر پھر کسی سپیکر سے آواز کیسے خارج ھوتی ھے عام انسان کو اسی طرح دنیا کی کروڑوں چیزوں اور اربوں کھربوں کیمائی تعاملات کا علم نہیں ھوتا۔۔ لیکن اُسے ایک علم ھوتا ھے کہ ایک مذھبی خدا ھے جو سب دیکھ رھا ھے اچھے بُرے کو جزا سزا دیتا ھے پتّے ھِلتے نوٹ کرتا ھے بادل لاتا ھے زلزلے لاتا ھے سیلاب لاتا ھے۔ فرشتے رکھتا ھے شیطان سے اسکی لڑائی ھے۔۔۔یہ عام انسان کوصرف پتہ ھی نہیں ھوتا بلکہ وہ اسے ایسا سچ سمجھتا ھے کہ اس کے انکار پر آپ کو قتل کر دیتا ھے۔اپنے بیوی بچوں ماؤں بھائیوں کو قتل کر دیتا ھے کہ اس خدا کا انکار کیوں کیا۔۔۔تاھم آپ کو معلوم ھے کہ یہ عام انسان دنیا کی کروڑوں چیزوں کا علم نہیں رکھتا۔۔ اسے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانا ھوتا ھے سائیکل خراب ھو تو میکینک کے پاس جاتا ھے۔ روٹی کے لئے کسان کا محتاج ھے۔تعلیم کے لئے سکول و استاد کا محتاج ھوتا ھے۔لیکن ایک بات پر اسکے یقین ایمان اور علم ایسے پکّے ھوتے ھیں کہ وہ آپکو کافر مُلحد زندیق بندر خنزیز کہہ دیتا ھے۔ زندگی اجیرن کر دیتا ھے۔ تو صاحبو۔۔۔۔ایسا عام انسان اس لئے ایسا کرتا ھے کیونکہ اسکے دماغ کی برین واشنگ یا بچپن سے تربیت اس مسلّط کردہ ایمان یا غیبی عِلم کے سائے میں ھوتی ھے۔وہ اِس کنویں سے باھر سوچنے سے معزور ھوتا ھے۔! اُسے کنویں سے باھر جو دکھائیں گے وہ اسے چُلّو بھر پانی کہے گا۔ وہ اپنے موجود کو ھی احسن ترین سمجھے گا۔ وہ دوسروں کو کافر باطل دوزخی کہے گا اور اس پر دل سے یقین رکھے گا اسکا کوئی قصور نہیں ۔۔یقین کریں اسکا اس میں کوئی قصور نہیں وہ چونکہ اس فاسد تربیت سے گزرا ھے جس میں اَن دیکھے پر ایمان فرض ھے اُسے صرف وہ دلائل پسند ھونگے جنکی روشنی میں وہ اپنے ھی عقیدے ایمان مذھب یا علم کو سچا ثآبت کر سکے۔ ھر وہ بات جو اسکے پسندیدہ عقیدےکے خلاف ھوگی وہ کافرانہ ، دھریانہ، بُری، باطل ، گمراہ کُن ھوگی۔ دوسری طرف سائینس ایسا علم ھے جس میں ایمان و عقیدے کے پرچار کی روشنی میں کسی بھی چیز، منظر، مادے، آواز، لہر، موج، پروسس وغیرہ کو نہ صرف پرکھا جاتا ہے بلکہ مشاھدے تجربے اور جزیاتی پیچیدگیوں کی تہوں کو کھنگالنے کے بعد کوئی نتیجہ بھی نکالا جاتا ھے۔ اگر نامعلوم ہو تو کوئی نظریہ قائم کیا جاتا ہے لیکن کوئی زبردستی نہیں کی جاتی کہ اس پر ایمان لانا یقین کرنا لازم ہے۔۔۔پوچھا جاتا ھے کہ آپ کوئی شواھد لائیں کوئی تجربہ کر دکھائیں۔ سائینس نے قدیم ترین فوسلز میں ابتدائے حیات کے شواھد تلاشے اور یہ نتیجہ نکالا کہ شاید ابتدا میں یک خلیاتی حیات۔ کیمیائی تعامل سے پیدا ھوئی ھوگی۔۔پھر اینٹروپی کے نظرئیے کے تحت کثیر خلوی جاندار بنے۔۔اور یوں ارتقائی طور پر موجودہ جانداروں تک وقت پہنچ گیا۔ تاھم اس نظرئیے کے مطابق ابتدائی حیات یا جاندار خلئیے میں ضربی تحریک کیسے پیدا ھوئی؟ یعنی خلیہ خود ھی کیسے مزید خلیوں کو جنم دینے کا کام کرنے لگا؟ یہ سوال، شافی جواب نہیں پا سکا۔ کیونکہ جدید ترین ریسرچ میں بھی کسی ضرباتی خود کار حیاتیاتی خلیہ یا خلیوں کو کسی جینیٹک ھدایت نامے کی تابعداری کرنی لازم ہوتی ہے۔تو جینیٹک کوڈ کیسے آ داخل ھُوا؟ ادھر مذھبی سائنسی یا مذھبی غیر سائینسی نظرئیے کے مطابق ایک خدا ھے جو ھمیشہ سے ھے ھمیشہ رھے گا اور اُس نے زمین بنائی۔۔آسمان بنایا۔۔اور ھوا ۔. پانی اور عناصر بنائے۔۔۔اور حیات بنائی۔۔۔اور وہ اسکو کنٹرول کرتا ھے۔۔ وہ طیش میں زلزلہ لاتا ھے تاکہ لوگ اچّھے ھو جائیں بیماریاں لاتا ھے تاکہ سزا دے۔۔۔سیلاب لاتا ھے تاکہ سزا دے ۔۔۔ بجلی چمکاتا ھے کہ ڈرائے اور آنکھوں سے بینائی لے جائے۔۔۔ یخطف ابصارھُم۔۔۔ اور یہ خدا یعنی یہ مذھبی خدا بہت سی صفات رکھتا ھے جیسے قرآن میں صفاتی نام۔۔جیسے بائیبل میں صفاتی نام ھیں۔ یعنی، رحیم، مہربان، سمیع، غنی، بصیر، نزیر، ودود، باری، مصور، کریم، غفور، مکّار، وغیرہ (اللہ خیر الماکرین) اپنی صفات کی روشنی میں خدائے مذھبی نے زمین پر حیاتیاتی نظام بنایا۔۔۔ جو ھم دیکھتے ھیں۔ کہ جاندار آکسیجن کے محتاج بنائے۔۔ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ھیں جو درختوں پودوں کو ملتی ھے وہ جذب کر کے واپس آکسیجن بناتے ھیں۔ اسی خدا نے جاندار بنائے۔۔۔ جانور بنائے۔۔۔ جن میں بھیڑیا، کُتے، بھگیاڑ، مگرمچھ، شیر ، چیتے۔۔ نیولے، عقاب، بنائے۔۔۔۔جو گوشت خور ھیں۔ پس اس خدا نے دوسرے جانور بنائے جو گھاس کھاتے ھیں اور انکو یہ گوشت خور کھاتے ھیں۔ اب چونکہ وہ مذھبی خدا رحیم۔بہت رحم کرنے والا ترس کھانے والا۔ مہربان مشفق اور ماں کی درد درد رکھنے والا ھے اس لئے اس نے ایسا نظام بنایا جس میں گوشت خور دوسرے جانوروں کو نوچ نوچ کر کھاتے ھیں۔نوچے جانے والی گائے بھینس بکری ھرن ھاتھی۔۔زرافے، بندر ، وغیرہ ۔۔ درد کی شدت سے چیختے ھیں۔ ایک جانور ماں کے سامنے اسکے بچے کو شیر ، بھیڑئیے نوچ نوچ کھاتے ھیں۔ اب چونکہ خدا بڑا رحیم ھے اور ترس کھانے والا ھے ۔۔۔مخلوق روئے تو اسکو ترس آتا ھے تو اس نے ایسا نظام کیسے بنایا جس میں گوشت خور دوسرے جانداروں کو ضرورت میں اور بلا ضرورت بھی قتل کریں بھنبھوڑیں نوچیں انکی بوٹیاں کاٹ کاٹ کھائیں؟ کیا خدا ترس کھانے والا نہیں؟ آپ تو کہتے ھیں مذھبی خدا ترس کھانے والا مہربان رحیم ھے پھر۔۔۔یہ تکلیف دینے والا نظام کیوں؟ اگر آم ، سیب کیلا کھانے سے پھلوں کو تکلیف نہیں ھوتی تو سب کو سبزی خور ھی بنا دیتا ۔۔ لیکن مچھلی کو مچھلی کھا رھی ھے۔۔ھزاروں قسم کے جانور ایک دوسرے کو قتل کر کے کھاتے ھیں۔ایسا نظام بنانے والا کیسے رحم کرنے والا ھو سکتا ھے۔۔کیسے ماں کی طرح اولاد کے لئے رو سکتا ھے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ھمارا کنویں جیسا دماغ جو مذھبی تعلیم سے محدود کر دیا ھو گیا اُس نے خیالی مذھبی خدا کی صفات خود بنائی ہوں؟ ترس کھانے کا تصور شاید خود انسانی دماغ کی صفت نہ ھو؟ ایسا کیوں ہے ۔آپ نے کبھی نہ سوچا؟ آپ کہیں گے کہ خدا نے یہ نظام ھی ایسا بنایا ھے۔ تو پھر میں یہی سوال کروں گا ایسا تکلیف دہ نظام کیوں بنایا ھے؟ یا پھر جانداروں کو ایسی حِسّیات ھی نہ دیتا کہ وہ اس ظلم یا کریہہ نظام کو بُرا اور بےرحمانہ سمجھیں۔ یہ صلاحیّت ھی نہ دیتا؟ اگر صلاحیّت بھی دی ھے اور بے رحمانہ نظام بھی بنایا ھے تو یقینی بات ھے کہ وہ رحم پر مبنی نظام بنانے کی صلاحیّت سے عاری تھا۔ورنہ وہ اپنی صفاتِ مہربانی و رحم کی وجہ سے بے رحمانہ نظام نہ بناتا۔۔ یا پھر۔۔ خدا میں یا بنانے والے میں رحم کی صفت موجود ھی نہیں اور ھم اپنے کنویں میں سوچ کر جو صفت اس سے منسوب کر بیٹھے ھیں وہ اسکی نہیں ھماری انسانی صفت ھے ! اس گفتگو سے یہ ثابت ھو گیا ھے کہ خدا کی ایسی صفات جو نرمی مہربانی رحم ترس محبت پر مشتمل ھیں وہ انسان نے بنائی ھیں۔ خدا کی صفات نہیں ھیں۔یا پھر یہ وہ والا خدائے مذھبی نہیں ھے کوئی اور خدائے قدرتی ھے جو ایسی کسی بھی صفت سے عاری ھے سائینس ھمیں سمجھاتی ھے کہ دیکھو۔۔۔ بجلی کوئی نہیں چمکاتا بلکہ فضا میں موجود گیسیں اور ھوا کا دباؤ اور پانی کے بخارات اور مقناطیسی میدان یہ سب کچھ پیدا کرتے ھیں جسے ھم آسمانی بجلی کہتے ھیں جو مندروں مسجدوں گورو گھروں ، کعبہ ، وغیرہ پر ضرور گِرے گی اگر وھاں خدا کے حملے سے بچاؤ کے حفاظتی ارتھ سسٹم والا آلہ نہ لگائیں! یعنی خدا کے اپنے گھروں کو بھی اُسی کے غضب یعنی بجلی سے بچانے کے لئے انسان کو آلہ ایجاد کرنا پڑ گیا۔ اس دلیل کے جواب میں مذھبی علما کی آئیں بائیں شائیں دیکھنے والی ھوگی ، وہ کہیں گے انسان کو خدا نے عقل اسی لئے دی ھے۔ مگر بجلی خدا کے حکم سے کسی پر سزا کے لئے گرنے والے پرانے عقیدے کو خود ھی جُھٹلا دیں گے کہ فلاں الہامی کتاب میں جو لکھا ھے وہ اور حوالے سے ھے اور حدیثیں تو خدائی نہیں ھیں بعد کے لوگوں نے بنائی ھیں۔ بائیبل میں بتایا گیا کہ کافروں پر خدا نے بجلی گِرائی۔۔۔ موجودہ احمدی فرقہ کے بانی نے لکھا کہ زلزلہ خدا کی ناراضگی کا اظہار ھے۔ اور ایک واقعہ لکھا کہ ایک عمارت میں مرزا صاحب موجود تھے اور اسی میں دور دراز اندرون میں ایک ھندو جوگی بھی تھا۔۔۔ بجلی عمارت پر گِری مرزا صاحب محفوظ رھے لیکن وہ ھندو پنڈت جل کر راکھ ھو گیا حالانکہ وہ بجلی سے زیادہ دوری پر تھا۔۔۔۔اسی طرح مرزا صاحب گزشتہ مذھبی بزرگوں صوفیوں رسولوں کی طرح کے واقعات میں مخالفین کی موت کی پیشگوئیاں کرتے تھے۔ لیکن اپنے ھی نو عمر بچے مبارک احمد کی وفات کو بھی اپنی ھی سچائی کا نشان بنا ڈالا کہ مجھے پہلے سے خدا نے بتادیا تھا کہ وہ مر جائیگا۔ یہ عجب منطق ھے کُل انسانیت کو یہ منطق سمجھ نہیں ا سکتی مگر یہ منطق مذھبی کو سمجھ آئیگی اور وہ ایمان لائے گا کہ بالکل درست ھوا اللہ کی مرضی ھی ایسی تھی۔ اتفاق دیکھیں بالکل یہی حال محمد رسولِ عربی کا ھُوا کہ انکا بیٹا نو عمری میں تڑپ تڑپ کر مَر گیا۔۔۔ بعد میں نوجوان ماں بھی مَر گئی۔۔۔ دوسروں کی شفاعت کرنیوالے اور دوسروں کو لعاب دھن لگا کر شفا دینے والے کُل آسمان کی سیر کرنے والے خدا سے ملاقات کرنیوالے کو آنسو بہانے پڑے اور بچے کو نہ بچا سکے نہ کوئی دعا کام آئی نہ خدا کی مدد ، اُلٹا بیوی بھی مَر گئی۔لیکن اس واقعی سے ماننے والے مذھبی کے ایمان میں کمی نہیں ھوئی اور مضبوط ھُوا کہ اللہ کی مرضی تھی اللہ نے واپس لے لیا۔۔اور یہ نمونہ خلقت کو خدا نے دکھانا تھا کہ دیکھو نبی کا بیٹا بھی اللہ مار سکتا ھے اسکی رضا پر راضی ھونے کا نمونہ دکھایا گیا ھے۔ بالکل ایسے ھی مسیح بن مریم کا صلیب پر چڑھنا ، لوگوں کو گناھوں کا کفارہ ھو گیا۔۔۔ یا یہ کہ دیکھیں جی اللہ نے پہلے ھی سے بتادیا تجھے صلیب ھوگی اور تیرا فلاں حواری مخبری کرے گا۔۔مذھبی ایسی بنائی گئی سب کہانیوں کو سچ ھی سمجھتا ھے یہ کہانیاں بار بار سنا کر اسکا ایمان مضبوط کیا جاتا ھے۔ چھاپہ خانے کی ایجاد کو کُفر کہا گیا۔گانے بجانے کو کُفر کہا گیا۔فلمیں، اور بُت گری کو کُفر و شرک کہا گیا۔خدا کے کام میں مداخلت کو ناقابل معافی جرم کہا گیا جس میں دوائیں بھی شامل ھیں۔جیسے افغانستان و پاکستان میں پولیو کا ختامہ نہیں ھو سکا کیونکہ مقامی جاھلیت اور مذھبی جاھلیت کا اتفاق ھے کہ ویکسیئن اور دوائیں خدا کے کام میں مداخلت ھیں اور کافروں کی ایجادیں ھیں۔ انکار کرنے والے انکار کرتے رھے۔۔۔ مذھبیوں نے پھر جدید ایجادات کو تھوڑا بہت ماننا شروع کیا۔۔لیکن اس میں کوئی نہ کوئی مذھبی شدت برقرار رکھی۔۔ مثلاً دوا کھانے سے پہلے اس پر فلاں سورۃ پڑھ کر پھونکو۔۔ دوا حلال ھو حرام جزیات نہ ھوں۔۔ پھر آھستہ آھستہ اجتہاد کر کے معانی بدل کر ایسی آیات چن لیں جنکے مطالب مشتبہ ھیں۔۔کہا گیا کہ اسلام میں تصویر بنانا منع ھے۔۔ پھر اسلامی بزرگوں نے کہا ھماری تصویر تبلیغ کی اشعات کے لئے تو ٹھیک ھے ورنہ کُفر و بُت گری ھے۔ پھر آیات کے مطالب کہیں سے کہیں لے گئے۔۔ کیونکہ زمانے کا ارتقائی کُلی شعور پرانے افلاس زدہ خیالات کو رد کر رھا تھا تو معانی کی بجائے تشریحات کا سہارا لیا گیا۔ کہا گیا فلاں فلاں آیات اصل میں صرف فلاں اَمر سے متعلق ھیں انکا اطلاق یکساں ھر وقت ھر عمل پر نہیں۔ کہا گیا النجم و شجر یسجدان۔ کہ خدا کو ستارے سجدہ کرتے ھیں۔ کا مفہوم یہ نہیں اصل میں اس سے مُراد درختوں جیسی سایہ دار ھستیوں کا خدا کو سمجدہ کرنا ھے۔۔یا پھر درختوں کے سجدے سے مراد خدا کی پیداواری تخلیقی صلاحیت کی ودیعت کا شُکر ھے۔ غرض اُلجھا اُلجھا کر مذھبی ذھن کو بند کر دیا گیا۔ عام مذھبی انسانی ذھن چونکہ مذھب کے مقیّد کنویں میں ھی سوچتا ھے اس لئے اسکی تسکین مذھبی علما یہ کہہ کر کرتے ھیں کہ خدا کی مرضی اسی میں ھے۔۔ بچہ پیدا ھوتے ھی بیماری سے مَر گیا تو خدا کی مرضی ھے معزور پیدا ھوا تو خُدا کی مرضی ھے۔ قرآن کہتا ھے کہ تمھارے چچا کے لڑکے لڑکیاں تم پر حلال تو سائینس کہتی ھے تھیسیلمیا کی بیماری اس سے بڑھ رھی ھے مت کرو کزنوں میں شادی ورنہ معزور معاشرہ بن رھا ھے۔ مذھبی کہتا ھے پولیو کے قطرات خدا کے عمل میں رکاوٹ ھیں۔ کورونا وائرس مغرب نے پھیلایا ھے وہ مسلمانوں کی نسل بندی کرنا چاھتے ھیں۔ پھر ایک طرف کوئی نبی رسول ولی اللہ خلیفہ پوپ پنڈت ربی گورو ، مخالفوں کی موت کو اور مخالفوں کے بچوں کی موت کو اپنا خدائی مجعجزہ ھائے دعا بتاتا ھے لیکن اپنا بچہ مَر جائے تو اُسے مخالفین کی سچائی نہیں مانتا بلکہ خود پر ابتلا کہہ کر بات گُھما دیتا ھے۔ کہ مجھے خدا نے میرے بچے کی موت کے بارے خود پہلے ھی بتا دیا تھا۔۔ یعنی مخالف کا بچہ مَر جائے تو خدا سے انکا تعلق ۔۔۔اپنا بچہ مَر جائے تو بھی خدا سے تعلق پکّا ھے مذھبی کتب میں غیر مذھب کو مخالفوں کو خدا بُرا بھلا کہتا ھے ۔۔۔ مگر غور سے دیکھیں تو جو جو الفاظ خدا مخالفوں کے لئے استعمال کرتا ھے وہ سارے انسانی خصائلِ بد ھیں۔ یعنی صاف پتہ چلتا ھے ان الہامی کتابوں میں خدائی طیش و غضب اصل میں انسانی غصہ مایوسی ناراضگی وغیرہ ھے جیسے دیہات میں پنجابی میں کچھ ھو نہ سکے تو کہتے ھیں۔۔تیرا ککھ نہ رھوے۔۔۔ تُوں ڈُب مَریں،، تینوں شالہ موت آوے۔۔۔ اوئے لعنتی،،، اوئے مُورکھ۔۔۔ تجھے خدا بے اولاد رکھے۔۔۔ تُو اندھا گونگا بہرا ھے۔ تُو بندر جیسا ھے تُو خنزیر جیسا ھے۔۔اوئے مکٗار لُومڑ اوئے گیدڑ !۔ یعنی خدا اپنی ھی ایک مخلوق، انسان ،کو اپنی ھی دوسری مخلوقات جیسا بتا کر بُرا بھلا کہتا ھے۔۔ خدا خود ھی کہتا ھے۔۔ان نہ ماننے والے لوگوں کے دِلوں میں پہلے سے ھی بیماری ھے اور اللہ انکی بیماری اور بڑھاتا ھے۔۔فی قلوبھم مرض فزاد ھم اللہ مرض،،،،،،،یاد رھے کہ یہ خدا وہ خدا ھے جو ماں سے زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرتا ھے۔ اور رب ھے اور رحیم ھے اور کریم ھے اور غفور ھے ۔۔اور ودود ھے۔۔اور رحمان ھے۔۔ اچھا اب اس مذھبی خدا کو ماننے والوں کے مختلف علمی ذھنی طبقے ھیں۔ جو بہت فاتر العقل ھیں وہ تو ایک آدھ آیت کے بعد جواب سے معزور ھو جاتے ھیں دوسرے وہ جو تھوڑا بہت جانتے ھیں کچھ ادھر سے لیا کچھ ادھر سے لیا اور پھر ایک ملغوبہ قسم کا ایمان اپناتے ھیں جس میں بات کو گُھما پِھرا اپنا عقیدہ سچا ثابت کرنا مقصود ھوتا ھے۔لیکن تفسیر و پیچیدہ مسائل کے لئے وہ مفسّر نما مذھبیوں کے محتاج ھوتے ھیں۔ جیسے ذاکر نائک، یا جاوید غامدی ایسے مذھبیوں کی تشفّی اپنی امثال سے کر دیتے ھیں۔ مثلاً جب غامدی جی سے پوچھا گیا کہ یہ قرآن میں بار بار لالچ اور دھونس و ڈراوا ، کیوں خدا کی طرف سے آتا ھے؟ یہ حوروں کا ذکر ڈھکے انڈوں جیسی بڑی موٹی آنکھیں۔ حُوریں جو کنواری ترین ھونگی۔۔۔ تو عورتیں کیا پائیں گی؟ تو ھنس کر یا تو ٹال دیتے ھیں یا کہہ دیتے ھیں وہ اصل میں بیویاں ھی ھونگی یا محسوسات ایسی ھونگی ۔۔وغیرہ ایک درس کے دوران جاوید غامدی نے شہری کی جانب سے بھیجا گیا سوال پڑھا، شہری نے پوچھا ”جنت میں حوریں ہوں گی جنہیں اہل جنت سے پہلے کسی جن و انس نے چھوا نہیں ہوگا ،کیا اہل جنت ان حوروں کے نتیجے میں اولاد سے بہرہ ور ہوں گے؟“۔ شہری کے سوال پر جاوید غامدی نے کہا ایک تو یہ سمجھ لیجئے کہ حور کوئی مخلوق نہیں ہے بلکہ حور ایک صفت کا نام ہے جس کا مطلب آہو چشم ہے ، آپ کی بیویاں ہی حوریں ہوں گی، اب آپ غور کریں تو قران میں آھُو چشم کا کوئی لفظ نہیں۔۔ ڈھکے انڈوں جیسی آنکھیں کہا ھے۔۔۔ جسکو اردو میں غلافی آنکھیں کہتے ھیں۔ تاھم آھو چشم، یعنی غزال یا ھرن کی انکھ جیسی خوبصورت آنکھ ، غامدی صاحب نے اللہ کی مرضٰ سے قرآنی تفسیر میں بطور آیت ڈال لی اور کوئی اُن سے پوچھتا نہیں کیونکہ سب پہلے سے مانے بیٹھے ھیں۔ آپ خود ایمانداری سے سوچیں قرآن میں صآف صاف لکھا ھے لیکن یہ مُلاں اپنے معانی بناتے ھیں۔ائیے ذرا اسکو پھیلاتے ھیں حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِۚ(۷۲)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِۚ(۷۳)ترجمہ: کنزالایمان حوریں ہیں خیموں میں پردہ نشین تو اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے تفسیر: صراط الجنان {حُوْرٌ: حوریں ۔} ارشاد فرمایا کہ ان جنتوں میں خیموں میں پردہ نشین حوریں ہیں جو کہ اپنی شرافت اور کرامت کی وجہ سے ان خیموں سے باہر نہیں نکلتیں ۔ (خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۲، ۴ / ۲۱۵) جنتی حور اور ا س کے خیموں کا حال: حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر جنتی عورتوں میں سے زمین کی طرف کسی ایک کی جھلک پڑجائے تو آسمان وزمین کے درمیان کی تمام فضا روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۴، الحدیث: ۶۵۶۸) اورحضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’مؤمن کے لئے جنت میں ایک کھوکْھلے موتی کا خیمہ ہو گا، اس کی لمبائی 60میل ہو گی، مؤمن کے ا ہل ِخانہ بھی اس میں رہیں گے ،مؤمن ان کے پاس (حقِ زوجیّت ادا کرنے کے لئے) چکر لگائے گا اور ان میں سے بعض بعض کو نہیں دیکھ سکیں گے۔( مسلم،کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا،باب فی صفۃ خیام الجنّۃ وما للمؤمنین فیہا من الاہلین،ص۱۵۲۲،الحدیث: ۲۳(۲۸۳۸)) {فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے وہ نعمتیں پیدافرمائیں جو تمہارے لئے پردہ نشین اور (دوسروں سے) چھپی ہوئی ہیں توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۳، ۹ / ۳۱۳) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر کے بیانات کو دیکھیں اور جاوید غامدی سمیت بہت سے ایسے مذھبی علما کی تاویلات کو سنیں تو آپ اگر برین واشڈ نہیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ سب الہامی کتابیں انسانی کاوشیں ھیں۔۔۔ان میں کچھ اس پرانے عہد میں قدرے روشن خیال باتیں سمجھی جا سکتی ھیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ھے کہ جو کتاب خود کھول کھول کر مچھر جتنی حقیقت بھی لاریب طریق پر بیان کرتی ھے وہ حوروں کا لالچ دیتے ھوئے یہ کیوں نہیں بتاتی کہ تمھاری موجودہ بیویاں آخرت میں کنواری بن جائیں گی اور خوبصورت بن جائیں گی وغیرہ۔؟ خدا کو مسئلہ کیا ھے کہ اسکی بات غامدی جی کو ھی سمجھ آتی ھے پورے عرب کو سمجھ نہیں آئی؟ اور پھر مخاطب بھی وہ زمانہ جہاں لونڈیاں خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ حسین عورتوں کے دام بہت بالا تھے۔۔جہاں لونڈی کو خریدنے والے کے لئے عین حلال تھا کہ وہ اسکے اعضا دبا کر دیکھے پسند کرے۔۔ وھاں اپنی پرانی بیویوں پر عربی انسان کیسے قناعت کرتے؟ صآف ظاھر ھے آخرت میں مظلوم کو ظالم کے مقابلے پر جنّت کی نعمتیں ملیں گی۔۔۔اور رسول کے ساتھیوں کو اعلی مدارج ملیں گے کی ترغیب گروہ کو بڑھانے کی انسانی کاوش کا نتیجہ ھے۔ کسی مذھبی خدا سے اسکا کوئی تعلق نہیں ، نہ ایسا کوئی خدا ھے۔ جس کو ستارے سجدہ کرتے ھیں۔۔۔یا اشجار سجدہ کرتے ھیں۔ النجم و الشجرُ یسجدان۔۔۔ ،،،،، تاھم جب آپ سائینس اور علقیت کی طرف آئیں تو آپ دیکھتے ھیں کہ کوئی نہ کوئی طاقت ھے یا طاقتیں ھیں جنہوں نے فزکس کے اصولوں کے تابع رہ کر حیاتیات بنائی۔۔ایسی طاقتیں ایک ھوں یا چار یا پانچ سو اس سے ھمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ سائینس مسلسل دریافت کا علم ھے۔کئی اور ڈائیمینشن ھو سکتی ھیں۔۔جن تک ھماری رسائی نہیں ھے۔۔۔۔ یا محدود کر دی گئی ھے۔ اگر رسائی ھوئی تو ان طاقتوں سے ملاپ ھو سکتا ھے۔۔ تاھم مذھبی خدا بقول مذھب رحم کرتا ھے مہربان ھے غنی ھے سلیم ھے سمیع ھے۔۔تاھم غور کریں تو حیاتیاتی نظام میں کوئی رحم نہیں سوائے مادر پدر کے شفقت پدری و مادری کے رحم نہیں ھے ۔کیونکہ حیات کے سلسلے کو چلانا ھے وہ بھی ٹوٹا پھوٹا رحم ھے کئی جگہ ماں باپ بچے کو خود ھی مار دیتے ھے۔ ماں بچّے کو کھا بھی لیتی ھے کئی جانور اپنے بچوں کو کھا جاتے ھیں۔۔ قدرت میں ھماری انسانی رحم کی صفت کا کہیں پتہ نہیں۔۔ جاندار دوسرے جانداروں کا حق مار کے خود زندہ رھتے ھیں بھیڑئیے اور بیسیوں جانور دوسروں کو زندہ نوچ نوچ کھاتے ھیں۔ کیا آپ دیکھنا پسند کرتے ھیں کہ ھرن یا گائے کو سات آٹھ بھگیاڑ زندہ نوچ نوچ کر کھائیں؟ آپ اس منظر کو دیکھ کر دکھ محسوس کرتے ھیں یا بہت لذّت ملتی ھے؟ اگر ھم کسی جاندار کی تکلیف نہیں دیکھ سکتے تو خدا تو رحیم کریم مہربان ھو کر کیسے ایسا نظام بنا سکتا ھے۔۔کوئی قصائی کبھی شاعر نہیں بن سکتا کیونکہ شاعر کے لئے نازکیِ خیالات، ترحّم، جذبہ، فکر، گہرائی ، ندرت اور اُپچ لازم ھوتی ھے۔ ۔۔۔ پس ھمارا مشاھدہ بتاتا ھے کہ قدرتی خدا کبھی رحیم کریم مہربان غفور سمیع علیم نہیں ھو سکتا۔ ورنہ وہ ایسا ظالمانہ تکلیف دہ نظام نہ بناتا۔۔ آپ نے تصاویر دیکھی ھونگی کہ ایک معروف پاکستانی کرکٹر اپنی معصوم پانچ چھ سال کی بچی کو جانور کی گردن کاٹتے یا کٹی گردن دکھاتا ھے وہ روتی ھے اور نہین دیکھنا چاھتی، کیونکہ بچے ابتدا میں ایساے ظالم طبع نہیں ھوتے۔ بعد مین انکی تربیت انہیں اچھا یا بُرا بناتی ھے۔ تاھم یہ معاملہ صرف انسان کے ساتھ ھے ، وہ مذھبی کرکٹر جگہ جگہ نمازیں پڑھتا دکھایا جاتا ھے، کیا مذھب کی تلقین جانوروں کا قتال ھے؟ معصوم بچی کو کیا تربیت دے رھا تھا؟ کیا آپکو علم ھے کہ جانوروں کے انسداد بے رحمی کے قوانین کافر اقوام نے بنائے ھیں؟ حتی کہ درختوں تک کی حفاظت کے عالمی قوانین کافروں نے بنائے ھیں۔مذھب نے یہ بتایا کہ مجرم کو سزا کے طور پر اسکے ھاتھ کی کون کون سے انگلی شریعت میں کاٹنی ضروری ھے۔ مذھبی خدا نے کیوں ایسی شریعت بنائی؟خدا میں انسانی غصہ کیوں ھے؟ خدا غصہ کرنے کی بجائے دلوں کی بیماری ٹھیک کیوں نہیں کرتا؟ خدا معزور کیوں پیدا کرتا ھۓ؟ خدا نے بیماریاں کیوں پیدا کیں؟ خدا ھر چیز پر قادر ھے تو پاخانہ اور غلاظت والے نظام کی بجائے کچھ اور کیوں نہ بنایا؟ آپ سوچیں اور پھر آپ سمجھیں گے کہ مذھبی خدا انسان کا بنایا گیا تصوّر ھے۔ اور قدرتی خدا وہ ھے جو حیاتیاتی نظام بنانے والی قوت ھے وہ قوت کدھر ھے یہ سائینس ابھی تک معلوم نہیں کر سکی۔۔ جیسے سائینس اور کُل انسانی شعور کو پہلے بہت سی باتیں معلوم نہ تھیں۔۔ کہ جیسے زمین کی کششِ ثقل ھے۔ یا زمین سورج کے گرد گھومتی ھے۔ یا آسمان اوپر نہیں ھر طرف ھے۔۔ یہ بتایں سائینس نے لاکھوں سال بعد دریافت کی ھیں اس لئے جلدی کی کوئی ضرورت نہیں ذرا صبر کریں۔ سوچیں قدرتی خدا کسی اور ڈائمینشن میں ھوگا۔۔۔نہ بھی ھو تو ھمیں کوئی فرق تو پڑتا نہیں ھم بیماریوں اور قدرتی آفات سے خود ھی لڑتے ھیںَ ھر بظاھر معجزے اور جادو کا سائینسی تجزیہ موجود ھوتا ھے کوئی جادو نہیں ھوتا ۔کسی روح کا ھونا سائینس سے ثابت نہیں۔۔ جِلد کو لیبارٹری میں اُگایا جا سکتا ھے۔۔اب اعضا بھی بنائے جائیں گے۔ دِلوں میں بیماری ھے کے مقابل سائینس نے ربڑ کا دل بنایا اور دنیا میں کئی مریض اُسی دل کی پمپنگ سے جی رھے ھیں۔ مُلّاں کہیں گے قرآن میں جو انکے دِلوں میں بیماری سے مراد ھے وہ دماغ ھے۔۔تو پھر۔۔ رسول کا اوپن ھارٹ آپریشن یاد آئیگا جس میں جبریل نے دل کو صاف کیا تھا۔۔ ظاھر ھے کوئی بیماری ھی ھوگی،،، لیکن یاد رکھیں دل نکالا تھا دماغ نہیں۔۔۔ پس ۔۔ آپ جو دلیل دیں وہ آپکو واپس ادھر بھی لاگو کرنی ھوگی۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا نے کہا تھا دِلوں میں بیماری ھے مگر اصل میں دماغوں میں بیماری مُراد ھے۔ اور یُوں بھی پہلے ادوار میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ انسانی حیات کا دارو مدار یا جزبات کا منبع اور مرکز دل ھے۔۔اسی لئے ھم اب بھی کہتے ھیں۔ میرے دل میں یہ خیال آیا۔۔جبکہ دل میں نہیں دماغ میں خیال پیدا ھوتا ھے۔ میرا کُھلا استدلال یہ ھےکہ جب جبریل نے سینہ کھولا تو وھاں دماغ کھولنا چاھئیے تھا۔ ایمانی بیماری دل میں نہیں ھوتی دماغ میں ھو سکتی ھے میں نے یہاں تک کا سفر 50 سال میں کیا ھے۔ اچانک نہیں پہنچ گیا۔ جن دھریوں اور ملحدین کو قدرتی خدا کی ترکیب پسند نہیں آئی وہ کوئی بھی نام رکھ لیں، لیکن یہ ثابت ھے کہ ارتقائی طور پر کوئی حیات خود نہیں بن سکتی ان دھریوں اور خاص پاکستانی دھریوں میں کسی کا علم بھی طبیعات کے عالمی ماھر سائینسدان برائن کاکس کے برابر نہیں ھے اُس کی ویڈیوز ھی دیکھ لیں شاید سمجھ سکیں کہ حیاتیات کو پیدا کرنے والا خدا یا خدائی طاقتیں، کائناتی یا مادیاتی منبع سے مخلتف ھیں ورنہ مَیں تو حیاتیاتی خُدا کے ھونے نہ ھونے دونوں سے ھرگز پریشان نہیں ھوں لیکن جو بھی خدا ھے اسکو میرا یہ پیغام ھے کہ۔ ،،،،،،، اگر خُدا نے چلایا ھے یہ نظامِ حیات قسم خُدا کی بہت ھی بُرا چلایا ھے ۔۔۔رفیع رضا۔۔کینیڈا 2021۔۔ ساتھ میں حجرِ اسود کی اسلامی تاریخ بھی لف کر دیتا ھُوں تاکہ سند رھے کہ نام نہاد بہشتی پتھر کی عصمت دری کیسے خود مسلمانوں نے کی ھے۔۔۔ چونکہ حج آنے والا ھے اس لئے اللہ و سعودی عرب نے ، خانہ کعبہ میں نصب کالے پتھر کی ھائی ریزولیوشن فوٹوز میڈیا کو دی ھیں۔ اور اللہ مارکیٹنگ کو تم سے بہتر جانتا ھے یہ پتھر امکانی طور پر شہاب ثاقب کا ٹکڑا ھے جو دنیا بھر میں گرتے رھتے ھیں، حجر اسود کے حوادث تاریخ کے آئینے میں حجر اسود عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود سیاہ اور کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ حجر اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ یہ ٹکڑے اندازاً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے۔ جو مسلمان حج یاعمرہ کرنےجاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجراسود کو بوسہ دیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جاسکتا ہے۔ جس کو استلام کہتے ہیں۔ تاریخ وحوادث تاریخ میں کم ازکم چھ واقعات ملتے ہیں جب حجر اسود کو چوری کیا گیا یہ اس کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ہوسکتا اس کے حوادث کی تعداد اس بھی زیادہ ہو۔اسلامی روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ تو حضرت جبرائیل نے یہ پتھر جنت سے لا کر دیا جسے حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا۔ 1۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے قبیلہ بنی جرہم کے متعلق ملتا ہے کہ ان لوگوں نے حجر اسود کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔تاریخ میں ہے کہ جب بنو بکر بن عبد مناہ نے قبلہ ” جرہم ” کو مکّہ سے نکلنے پر مجبور کیا تو انہوں نے مکّہ سے بے دخل ہوتے ہوئےکعبہ میں رکھے دو سونے کے بنے ہرنوں کے ساتھہ ” حجر اسود ” کو کعبہ کی دیوار سے نکال کر زم زم کے کنویں میں دفن کر دیا اور مجبورا” یمن کی جانب کوچ کر گئے– الله تعالی کی حکمت دیکھیے کہ یہ پتھر زیادہ عرصے زم زم کے کنویں میں نہیں رہا – جس وقت بنو جرہم کے لوگ حجر اسود کو زم زم کے کنویں میں چھپا رہے تھے ایک عورت نے انھیں ایسا کرتے دیکھ لیا تھا – اس عورت کی نشان دہی پر حجر اسود کو زم زم کےکنویں سے بازیاب کرا لیا گیا ۔ 2 – ابو طاہر نامی شخص کی قیادت میں ” قرا ما تین "نے 317 ہجری میں مکّہ مکرمہ کا محاصرہ کرلیا اور مسجد الحرام جیسے مقدس مقام پر تقریبا” سات سو انسانوں کو قتل کیا اور زم زم کے کنویں کو اور مسجد الحرام کے احاطے کو انسانی لاشوں اور خون سے بھر دیا – اسکے بعد اسنے مکّہ کے لوگوں کی قیمتی اشیا کو اور کعبہ مشرفہ میں رکھے جواہرات کو غصب کر لیا – اسنے کعبہ کے غلاف کو چیر پھاڑ کر کے اپنے پیروکاروں میں تقسیم کر دیا – کعبہ مشرفہ کے دروازے اور اسکے سنہری پر نالے کو اکھاڑ ڈالا – اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور 7 ذوالحجہ317 ہجری کو ابو طاہر نے حجر اسود کو کعبہ مشرفہ کی دیوار سے الگ کردیا اور اس کی جگہ کو خالی چھوڑ دیا اور اسکو موجودہ دور میں جو علاقہ ” بحرین ” کہلاتا ہے وہاں منتقل کر دیا – یہ حجر اسود کا ایک نہات تکلیف دہ دور تھا – تقریبا 22 سال حجر اسود کعبہ شریف کی دیوار سے جدا رہا – اس دور میں کعبہ مشرفہ کا طواف کرنے والے صرف اس کی خالی جگہ کو چومتے یا اس کا استلام کر تے تھے – پھر الله سبحان و تعالی کی مشیت دیکھیے کہ 22 سال بعد 10 ذوالحجہ 339 ہجری کو” سنبر بن حسن ” جس کا تعلق بھی قراماتین قبیلے سے ہی تھا ، اس نے حجر اسود کو آزاد کرا یا اور واپس حجر اسود کے اصل مقام پر پیوست کروا دیا – اس وقت ایک مسلہ یہ ضرور درپیش آیا کہ کیا واقعی یہ اصل حجر اسود ہی ہے یا نہیں تو اس وقت مسلمانوں کے ایک دانشور نے کہا وہ اس کو ٹیسٹ کر کے بتا دیگا کہ یہی اصل حجر اسود ہے یا نہیں کیوں کہ اس نے اس کے بارے میں احادیث کا مطا لعہ کر رکھا ہے .- اس نے حجر اسود پر آگ لگائی تو حجر اسود کو آگ نہیں لگی اور نہ ہی وہ گرم ہوا – پھر اسنے اسکو پانی میں ڈبویا تو یہ پتھر ہونے کے باوجود اپنی خصلت کے بر خلاف پانی میں ڈوبا نہیں بلکہ سطح آب پر ہی تیرتا رہا – اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہ اصل جنت کا پتھر ہی ہے کیوں کہ جنت کا پتھر کا آگ سے اور غرق یابی سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے – 3 – سن 363 ہجری میں ایک رومی شخص نے اپنے کلہاڑے سے حجر اسود پر کاری ضرب لگائی جس سے اس پر چٹخنے کا ایک واضح نشان پڑ گیا – اس نے دوسری شدید ضرب لگانے کے لیے جیسے ہی اپنے کلہاڑے کو اٹھایا . الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور قریب ہی موجود ایک یمنی شخص نے جو اسکی یہ گھناونی کاروائی دیکھ رہا تھا ، چشم زدن میں اس نے اسے قتل کر ڈالا اور اسکی حجر اسود پر دوسری ضرب لگانے کی خواہش دل ہی میں رہ گئی – 4 – سن 413 ہجری میں فاطمید نے اپنے 6 پیروکاروں کو مکّہ بھیجا جس میں سے ایک ” الحاکم العبیدی ” تھا جو ایک مضبوط جسم کا مالک سنہرے بالوں والا طویل قد و قامت والا انسان تھا – وہ اپنے ساتھہ ایک تلوار اور ایک لوہے کی سلاخ لایا تھا – اپنے ساتھیوں کے اکسانے پر اسنے دیوانگی کے عالم میں تابڑ توڑ تین ضربیں ”حجر اسود ” پر لگا ڈالیں جس سے اسکی کرچیاں اڑ گئیں – وہ ہزیانی کیفیت میں اول فول بکتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ( معاذ الله ) جب تک وہ اسے پورا نہ اکھاڑ پھینکے گا جب تک سکوں سے نہ بیٹھے گا – بس اس موقع پر ایک مرتبہ پھر الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور گھڑ سواروں کے ایک دستے نے ان سب افراد کو گھیر لیا اور ان سب کو پکڑ کر قتل کردیا گیا اور بعد میں ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا گیا۔ 5 – اسی طرح کا ایک واقعہ سن 990 ہجری میں بھی ہوا جب ایک غیر عرب باشندہ اپنے ہتھیا ر کے ساتھ مطاف میں آیا اور اسنے حجر اسود کو ایک ضرب لگا دی – اس وقت کا ایک شہزادہ ” شہزادہ نصیر ” مطاف میں موجود تھا جس نے اسے فوری طور سے موت کے گھاٹ اتار دیا – 6 – سن 1351 ہجری کے محرم کے مہینے میں میں ایک افغانی باشندہ مطاف میں آیا اور اسنے حجرہ اسود کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر نکال دیا اور کعبہ کے غلاف کا ایک ٹکڑا چوری کر ڈالا -ا س نے کعبہ کی سیڑھیوں کو بھی نقصان پہنچایا – کعبہ مشرفہ کے گرد کھڑے محافظوں نے اسے پکڑ لیا – اور پھر اسے مناسب کارروائی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی – اسکے بعد 28 ربیع الاول سن 1351 ہجری کو شاہ عبد العزیز نے اس پتھر کو دوبارہ کعبہ مشرفہ کی دیوار میں نصب کیا جو اس فاطر العقل افغانی نے نکال باہر کیا تھا – حجر اسود اس وقت ایک مکمل پتھر کی صورت میں نہیں ہے جیسا کہ یہ جنت سے اتارا گیا تھا بلکہ حوا د ث زمانہ نے اس متبرک پتھر کو جس کو بوسہ دینے کے لیے اہل ایمان کے دل ہر وقت بےچین رہتے ہیں آٹھ ٹکڑوں میں تبدیل کردیا ہے ۔ 606ء میں جب رسول اللہ ﷺ کی عمر35 سال تھی ، سیلاب نے کعبے کی عمارت کو سخت نقصان پہنچایا اور قریش نے اس کی دوبارہ تعمیر کی لیکن جب حجر اسود رکھنے کا مسئلہ آیا تو قبائل میں جھگڑا ہوگیا۔ ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ یہ سعادت اسے ہی نصیب ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور تمام سرداران قبائل سے کہا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور جب چادر اس مقام پر پہنچی جہاں اس کو رکھا جانا تھا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو دیوار کعبہ میں نصب کر دیا۔ سب پہلے عبداللہ بن زبیر نے حجر اسود پر چاندی چڑھوائی ۔ 1268ء میں سلطان عبدالحمید نے حجراسود کو سونے میں مڑھوایا ۔ 1281ء میں سلطان عبدالعزیز نے اسے چاندی سے مڑھوایا۔ 696ء میں جب حضرت عبداللہ بن زبیر خانہ کعبہ میں پناہ گزین ہوئے تو حجاج بن یوسف کی فوج نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھر برسائے اور پھر آگ لگا دی۔ جس سے حجر اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ عباسی خلیفہ الراضی باللہ کے عہد میں ایک قرامطی سردار ابوطاہر حجر اسود اٹھا کر لے گیا اور کافی عرصے بعد اس واپس کیا۔ فضائل حجر اسود با زبان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا : بلاشبہ حجر اسود اورمقام ابراھیم جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت ہيں اللہ تعالٰی نے ان کے نوراورروشنی کوختم کردیا ہے اگراللہ تعالٰی اس روشنی کوختم نہ کرتا تو مشرق ومغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 804 ) ۔ ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حجراسود جنت سے نازل ہوا ۔ سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 2935 ) ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حجراسود جنت سے آیا تودودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اوراسے بنو آدم کے گناہوں نے سیاہ کردیاہے ۔ سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 ) ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کے بارے میں فرمایا : اللہ کی قسم اللہ تعالٰی اسے قیامت کولاۓ گا تواس کی دوآنکھیں ہونگی جن سے یہ دیکھے اورزبان ہوگی ۔جس سے بولے اور ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حقیقی استلام کیا ۔ سنن ترمذي حدیث نمبر ( 961 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2944 ) جابربن عبداللہ رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لاۓ توحجر اسود کا استلام کیا اورپھراس کے دائيں جانب چل پڑے اورتین چکروں میں رمل کیا اورباقی چار میں آرام سے چلے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔ حجر اسود کا استلام یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جاۓ ۔ اگر بھیڑ زیادہ ہوتو ہاتھ کے اشارہ بھی کفایت کرے گا۔ حضرت عمر رضي اللہ تعالٰی عنہ حجراسود کے پاس تشریف لاۓ اوراسے بوسہ دے کرکہنے لگے : مجھے یہ علم ہے کہ توایک پتھر ہے نہ تونفع دے سکتا اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے ، اگرمیں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوۓ نہ دیکھا ہوتا تومیں بھی تجھے نہ چومتا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1250 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1720 ) ۔ نافع رحمہ اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما نے حجراسود کا استلام کیا اورپھر اپنے ہاتھ کوچوما ، اورفرمانے لگے میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کرتے ہوۓ دیکھا ہے میں نے اسے نہیں چھوڑا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1268 ) ۔ ابوطفیل رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے اورحجر اسود کا چھڑی کے ساتھ استلام کرکے چھڑی کوچومتے تھے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1275 ) ۔ ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پرطواف کیا توجب بھی حجر اسود کے پاس آتے تواشارہ کرتے اوراللہ اکبر کہتے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4987 ) ۔ ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 959 ) امام ترمذی نے اسے حسن اورامام حاکم نے ( 1 / 664 ) صحیح قرار دیا اور امام ذھبی نے اس کی موافقت کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کعبے میں پہلا جھگڑا تب ہوا جب حضرت علی علیہ السلام نے امیر حج مقرر کیا مگر معاویہ نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنا امیر حج بھیج دیا.. دونوں امیروں کی امارت پر عین حج کے موقع پر جھگڑا ہوا تاہم بات زبانی کلامی لڑائی جھگڑے تک محدود رہی قتل و غارت کی نوبت نہیں آئی۔ لیکن اس کے بعد کعبہ میں قتل و غارت کا ایک سلسلہ ملتا ہے جو ابھی تک جاری ہے. یزید بن معاویہ نے حصین بن نمیر کی قیادت میں ایک لشکر کعبے کی طرف بھیجا جس نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھراؤ کیا، غلاف کعبہ کو آگ لگا دی، دس سال بعد حجاج بن یوسف نے دوبارہ کعبے پر حملہ کیا صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جنھوں نے کعبہ کے اندر پناہ لے رکھی تھی انھیں اور ان کے تمام ساتھیوں کو شہید کیا اور ان کی لاش مکہ مکرمہ کے چوک میں لٹکا دی. کعبے پر تیسرا بڑا حملہ اسماعیل بن یوسف علوی نے کیا، گیارہ ہزار حاجی قتل ہوئے، کعبے کا غلاف، سونا، چاندی اور لاکھوں دینار لوٹ کر چلا گیا. اس کے بعد جزارین اور مناطین کی آپس کی لڑائی کعبے میں لڑی گئی اس میں بھی کئی حجاج کرام شہید ہوئے اکثریت حج کیے بغیر ہی واپس لوٹ گئی مناسک حج بھی جنگ کی نظر ہو گئے. بحرین میں قرامطہ نے طاقت حاصل کی تو ابو طاہر قرامطی کی قیادت میں کعبہ پر حملہ کیا، یہ اب تک کا سب سے خونخوار حملہ ثابت ہوا. تیس ہزار مکہ مکرمہ کے رہائشی اور دو ہزار حاجی مارے گئے. کعبے کا فرش خون سے سرخ ہو گیا. قرامطہ نے مکے میں خوب لوٹ مار کی اور حجر اسود اکھاڑ کر اپنے ساتھ بحرین لے گئے. بائیس سال حجر اسود قرامطہ کے قبضے میں رہا اور مسلمان بائیس سال حجر اسود کے بغیر حج کرتے رہے. بعض روایات میں ہے کہ قرامطہ نے حجر اسود کو توڑ کر تین ٹکڑے کر دئیے اور انہیں دریا میں پھینک دیا تھا. موجودہ حجر اسود اصلی حجر اسود نہیں ہے. بعض روایات یہ ہیں کہ معتصم نے بائیس ہزار اشرفیوں کے عوض حجر اسود واپس لیا تھا.. بنو امیہ، بنو عباس کی آپسی لڑائی بھی کعبہ میں لڑی جاتی تھی، ہر فریق چاہتا تھا کہ خطبہ میں اس کے خلیفوں کا نام لیا جائے انہی کی مرضی کا خطبہ پڑھا جائے. اس لئے ہر سال امیر حج بنانے پر لڑائی جھگڑا یقینی تھا. بنو عباس کی خلافت کمزور ہوئی تو ترکوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر لی، ترک بادشاہوں نے حجاز کے علاقوں پر قبضہ کر کے اپنے امیر حج سے اپنے نام کا خطبہ شروع کر دیا. بادشاہوں کی آپس کی لڑائی بھی چلتی رہی، مصر کے بادشاہ بھی کعبہ پر قبضے کی جنگ میں شامل ہو گئے. سترہویں صدی میں عبدالعزیز نے ترکوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، ترک امراء آپس میں بھی لڑتے رہتے تھے، عرب قبائل کی بھی آپس کی لڑائیاں ہر وقت جاری رہتی تھیں. عبدالعزیز نے ریاض تک کا علاقہ فتح کیا اس کے بعد اس کے بیٹے سعود بن عبد العزیز کو حکومت ملی. سعود بن عبدالعزیز نے ترکوں سے جنگیں لڑیں، آخری فیصلہ کن جنگ مکہ مکرمہ میں لڑی گئی. آل سعود کی مدد انگریز کر رہے تھے، اسلحہ گولہ بارود انگریزوں کا اور خون دونوں طرف مسلمانوں کا. قرامطہ نے حجر اسود کے تین ٹکڑے کیے تھے، اگلے آٹھ سو سال میں آٹھ ٹکڑے ہو گئے. سلطنت عثمانیہ کے عبد العزیز نے آٹھ ٹکڑوں کو جوڑ کر چاندی کا خول چڑھا دیا تھا یہی خول آج تک چل رہا ہے. 1979 نومبر میں محمد بن عبداللہ قحطانی نے فجر کی نماز کے وقت کعبے پر حملہ کیا، وہ امام مہدی ہونے کا دعویدار تھا اس کے ساتھ لگ بھگ چار سو جنگجو موجود تھے. سعودی عرب نے مختلف ممالک کی آرمی سے مدد مانگی، چودہ دن خانہ کعبہ کا محاصرہ جاری رہا. ایک سو ستر افراد کعبہ میں مارے گئے اور دو سو گرفتار ہوئے. ہر مسلمان حکمران نے اپنے اقتدار کی جنگ کو دین اسلام کی بقاء کی جنگ قرار دیا، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو تاراج کیا.۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ اسلام میں اب تک 39 بار حج ادا نہیں ہوا اگر 2020ء میں بھی حج موقوف ھوتا ھے تو یہ 40ویں بار ھوگا سعودی ریاست کے وجود میں آنے سے اب تک حج کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ یا خلل واقع نہیں ہوا سعودی ریاست کے وجود سے چند سال پہلے 1917ء میں دنیا میں اسپینش فلو کی وبا پھیلی تھی جس کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے تھے تب بھی حج کی ادائیگی ہوئی تھی اب ترتیب وار دیکھتے ھیں حج کب اور کس سن میں موقوف ہوا 865 ء میں عباسی خلافت کے مخالف اسماعیل بن یوسف السفاک نے مکہ مکرمہ پر حج کے دنوں میں حملہ کردیا بہت سے حاجی شہید ہوگئے اور پہلی دفعہ حج موقوف ہوا پھر اس کے بعد 930 عیسوی میں بحرین پر قابض قرامطی (اسماعیلی) فرقے کے سردار ابوطاہر الجنبی نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا یہ بھی حج کے شروعات کے دن تھے اس حملے میں 30 ہزار حاجی شہید ہوئے حملہ آوروں نے مسجدالحرام میں بھی لوٹ مار کی اور حجر اسود بھی اپنے ساتھ بحرین لے گئے اس کے بعد کئی سال تک حج ادا نہ ہوسکے پھر حجر اسود بحرین سے لاکر دوبارہ نصب کیا گیا اور حج کی ادائیگی شروع ہوئی 983ء سے 990ء تک مسلسل آٹھ سال حج کی ادائیگی نہ ہوسکی اس کی وجہ ایران عراق پر قائم عباسی خلافت اور شام میں قائم فاطمی خلافت کی آپس میں جنگیں تھیں 991ء سے دوبارہ حج کی ادائیگی شروع ہوئی 1831 میں برصغیر پاک وہند میں طاعون کی وباء پھیلی تو اس خطے سے جو لوگ حج کے لیے مکہ معظمہ پہنچے ان کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں موجود حاجیوں میں بھی یہ وباء پھیل گئی تاریخ کے حوالے سے پتہ چلتا ہے کہ حج کے شروع کے دنوں میں ہی مکہ میں موجود تین چوتھائی حاجی جاں بحق ہوگئے ان سنگین حالات کی وجہ سے مناسک حج منسوخ کر دیے گئے گئے چھ سال بعد دوبارہ وباء نے سعودی عرب اس وقت کا نام حجاز مقدس پر دوبارہ حملہ کیا 1837ء سے 1858ء کے درمیان مختلف اوقات میں مختلف متعدی امراض پھیلتے رہے اور سات بار حج ادا نہ ہوسکا 1837ء میں مکہ میں طاعون کی وبا پھیلی تو اٹھارہ سو چالیس تک حج ادا نہ ہوسکا 1846ء میں مکہ والوں کو ہیضہ کی وباء نے آن گھیرا اور پندرہ ہزار افراد جاں بحق ہوگئے 1949ء تک حج کی ادائیگی رکی رہی 1858ء میں بھی ہیضہ کی وجہ سے حج مکمل نہ ہوسکا پھر 1865ء اور 1883ء میں بھی حج ادا نہ ہوا۔ ۔۔۔۔)۔جاری ھے.(
قلمی نام…………… اصل نام شاعروں اور ادیبوں کے اصلی نام اور قلمی نام دستیاب نام لکھ دیے ۔۔۔۔مزید معلومات میں شرکت کی دعوت افضال نوید ۔۔۔۔۔افضال احمد قمر رشید ندیم۔۔۔۔۔۔ رشید ملک پرویز پروازی۔۔۔۔ ناصر احمد خان پروازی تہذیب حافی۔۔تہذیب حسین ۔ ۔ علی زریون۔۔شاہد محمود ۔۔ رفیع رضا۔۔۔۔۔۔ محمد رفیع
پریم چند ۔۔۔۔۔ دھنپت رائے سری واستو آثم فردوسی میاں عبدلحمید آرزو لکھنوی سید انور حسین اختر شیرانی محمد داود خان اختر کاشمیری محمد طفیل اختر ہاشمی محمد جلیل اختر وارثی عبدالعزیز محسن بھوپالی عبدالرحمٰن آئی آئی قاضی امداد امام علی قاضی ابن انشاء شیر محمد خان انشاء سید انشاءاللہ خان اسلم راہی محمد اسلم ملک افسر ماہ پوری ظہیر عالم صدیقی تبسم کاشمیری ڈاکٹر محمد صالحین انور سدید محمد انورالدین انیس ناگی یعقوب علی جاذب قریشی محمد صابر پطرس بخاری سید احمد شاہ تبسم رضوانی حبیب اللہ تنویر بخاری فقیر محمد ثاقب حزیں محمد غلام مصطفیٰ ثمر جالندھری محمد شریف جان کاشمیری محمد نصیر بہزاد لکھنوی سردار حسن خان جعفر بلوچ غلام بلوچ جلیل قدوائی جلیل احمد جمال پانی پتی گلزار احمد جوش ملیح آبادی شبیر حسن تابش دہلوی مسعودالحسن حافظ امرتسری محمد شریف حبيب ساجد حبيب الله بلوچ حبیب جالب حبیب احمد حفیظ جالندھری ابوالاثر حفیظ خاطر غزنوی محمد ابراہیم بیگ سہیل بخاری محمود نقوی شاعر لکھنوی حسین پاشا شکیب جلالی سیدحسن رضوی شوکت تھانوی محمد عمر صبا اکبر آبادی محمد امیر قتیل شفائی اورنگزیب جمیل جالبی محمد جمیل خان حافظ لدھیانوی محمد منظور حسین رئیس امروہوی سید محمد مہدی حسن عسکری محمد حسن ن م راشد نذر محمد صہبا اختر اختر علی رحمت قمر جلالوی محمد حسین کوثر نیازی محمد حیات محسن نقوی غلام عباس محشر بدایونی فاروق احمد نسیم حجازی محمد شریف منو بھائی منیر احمد ناسخ شیخ امام بخش ذوق محمد ابراہیم راسخ شیخ غلام علی داغ نواب مرزا خان دبیر مرزا سلامت علی درد سید خواجہ میر سرشار پنڈت رتن ناتھ ساحر لدھیانوی عبدالحئ سودا مرزا محمد رفیع ماجد صدیقی عاشق حسین ماہر القادری منظور حسین مجنوں گورکھپوری احمد صدیق مومن حکیم مومن خان آتش خواجہ حیدر علی آرزو محمد حسین حسرت موہانی فضل الحسن ابوالکلام آزاد محی الدین اصغر گونڈوی اصغر حسین افسوس میر شیر علی فراق گورکھپوری رگھو پتی سہائے فانی بدایونی شوکت علی مصحفی غلام ہمدانی میرا جی ثناءاللہ ڈار میرحسن میر غلام حسن میر محمد تقی رسا چغتائی. . . . . مرزا محتشم علی بیگ نظیر اکبرآبادی شیخ محمد ولی نظم طباطبائی سید حیدر علی ناصرکاظمی ناصر رضا کاظمی مرزا غالب اسداللہ خان نسیم پنڈت دیا شنکرم یاس یگانہ چنگیزی مرزاواجد حسین ولی دکنی شمس الدین محمدولی محروم تلوک چند امیر خسرو ابوالحسن یمین الدین عمر خیام غیاث الدین ابوالفتح اشرف صبوحی ولی اشرف امانت لکھنوی سید اکبر حسین امیر مینائی امیر احمد انیس میر ببر علی بےخود دہلوی سیدوحیدالدین بےدل مرزا عبدلقادر پریم چند دھنپت رائے تاباں غلام ربانی جوش ملیسانی پنڈت لبھو رام جرأت یحیٰ امان جگر مرادآبادی علی سکندر حالی مولاناالطاف حسین چکبست پنڈت برج نارائن امام غزالی ابوحامدمحمدبن غزالی شیخ سعدی مصلح الدین بلھے شاہ سید عبداللہ سچل سرمست عبدالوہاب فرمان فتح پوری . . سید دلدار علی عزیز حامد مدنی . . محمد عزیز حامد سحر انصاری۔۔۔۔۔۔۔۔ انور مقبول انصاری احمد فراز . . . سید احمد شاہ شاداب احسانی . . ذوالقرنین احمد صدیقی آصف فرخی . . . . . . . آصف اسلم صہبا لکھنوی . . . . . . . سید شرافت علی رئیس فروغ . . . . . . . سید محمد یونس نازش حیدری. . . …خورشید حسن خاور نظامی. . . . . …محمد رفیق شبنم رومانی ۔۔۔مرزا عظیم احمد بیگ چغتائی محسن نقوی۔۔۔ سید غلام عباس محسن سلیم . . . . سلیم احمد جوش مليح آبادي…..شبير حسن خان مسلم شميم…..محمد مسلم ڈاکٹر سہیل بخاری۔،۔۔۔۔۔ سید محمود نقوی صابر ظفر۔۔۔۔۔۔۔۔ . . . . مظفر احمد فہیم شناس کاظمی۔۔۔۔۔۔۔سید فہیم اقبال کاشف حیسن غائر۔۔۔۔۔۔۔۔سید کاشف حسین .اشرف سلیم۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔چودھری محمد اشرف محمد زبیر بیگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی زبیر سارہ شگفتہ۔۔۔۔۔۔۔۔شگفتہ پروین سحرتاب رومانی۔۔۔۔،۔ محمد نعیم کامی شاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید کامران شاہ سندھی ادیب، شعرا، مصنفین کے قلمی نام اور اصلی نام: ابراہیم منشی: محمد ابراہیم سومرو ادل سومرو: عبد الکریم سومرو اختر ہالائی: خلیفہ محمد عمر استاد بلاری: سید احمد شاہ اسحاق راہی: محند اسحاق سومرو امر جلیل: قاضی عبد الجلیل امر سندھی: سلمیٰ لغاری امداد حسینی: سید امداد علی شاہ انعام شیخ: انعام اللہ انور فگار ہکڑو (ڈاکٹر): محمد انور محمد صدیق انور قمبرانی: انور علی اے کے بروہی: اللہ بخش خان بروہی بردو سندھی: محمد رمضان لاشاری تنویر عباسی (ڈاکٹر): نور النبی تاجل بیوس: تاج محمد سموں حمید سندھی: عبد الحمید میمن دادا سندھی: کریم بخش سومرو زخمی چانڈیو: جام خان چانڈیو زیب عاقلی: عبد الحق سومرو سرشار عقیلی: حاجی اللہ بخش عقیلی سرکش سندھی: عبد المجید چانڈیو سرویچ سجاولی: محمد صدیق سلیم ہالائی: قاضی عبد الحئی شیخ ایاز: مبارک حسین ع ق شیخ: عبد اللہ قادر عارف المولیٰ: پیر حاجی شاہنواز عبد الرزاق راز: عبد الرزاق شیخ عزیز کنگرانی: عزیز اللہ علی آکاش: معشوق علی گوپانگ فیض بخشاپوری: فیض اللہ خان ڈومکی مسرور بدوی: فقیر غلام علی نثار بزمی: قلندر بخش جونیجو منور ہالائی: عبد القادر
مولائی شیدائی: میر رحیم داد خان
آئی ایچ برنی: اقبال حسین اختر انصاری اکبرآبادی: محمد ایوب ادیب رائے پوری: سید حسین علی افسر صدیقی امروہوی: منظور حسین تسلیم فاضلی: اظہار انور تشنہ بریلوی: عبد القوی شکور جمال احسانی: محمد جمال عثمانی جوہر سعیدی: سید محمد علی حبیب جالب: حبیب احمد حیدر دہلوی: سید جلال الدین کے ایچ خورشید: خورشید الحسن خورشید دعا ڈبائیوی: سید مرتضیٰ حسین دکھی پریم نگری: وہاج محمد خان دل لکھنوی (منشی): عزیز احمد دلاور فگار: دلاور حسین دلشاد کلانچوی (پروفیسر): عطا محمد ذکی آذر (پروفیسر): ذکی احمد صدیقی ساغر صدیقی: محمد اختر سرور بارہ بنکوی: سید سعید الرحمٰن شہزاد منظر: ابراہیم عبد الرحمٰن عارف صادقین: سید صادقین احمد نقوی صائم چشتی: محمد ابراہیم صبا متھراوی: رفیع احمد صبا لکھنوی: سید حیدر حسین صہبا اختر: اختر علی نقوی طالب جالندھری: طالب اسلام ظفر جونپوری (پروفیسر): سید مظفر حسن زیدی عارف سیماب سیالکوٹی: فقیر محمد خاں عاصی کرنالی (پروفسیر ڈاکٹر): شریف احمد عالم تاب تشنہ: سید عالم تاب علی عبیر ابوذری: عبد الرشید عرش تیموری: مرزا احمد سلیم شاہ عرش صدیقی: ارشاد الرحمٰن عشرت رحمانی: امتیاز علی خان عین الحق فریدکوٹی: فضل الہٰی فرید جاوید: فرید الدین فضل فتح پوری: سید افضال حسین نقوی فہیم اعظمیٰ: ڈاکٹر امداد باقر رضوی قمر جمیل: قمر احمد فاروقی قمر صدیقی: عبد الناظر صدیقی قمر ہاشمی: سید محمد اسماعیل قیوم نظر: عبد القیوم کامل جوناگڑھی: غلام علی خان کسریٰ منہاس: غلام حسین کشفی الاسدی ملتانی: فقیر اللہ بخش کلیم حیدرآبادی: غلام جیلانی کلیم جلیسری: کلیم اللہ کلیم عثمانی: احتشام الہٰی کوکب شادانی: سید محمد ایوب علی زیدی مسٹر دہلوی: مشتاق احمد چاندنا مقرب آفندی: محمد مقرب ممتاز حیدر ڈاہر: ممتاز علی خان ملا رموزی: ضیاء الملک محمد صدیق ممتاز گوہر: ممتاز اختر مرزا منظور رائے پوری: سید منظور مہدی منور بدایونی: ثقلین احمد محجور بخاری: سید اللہ وسایا مہر کاچیلوی: محمد حنیف مینا زبیری: انیس مجتبیٰ نادم صابری: گلزار احمد نازش رضوی: سید علی امام نازش کاشمیری: محمد صادق ناطق لکھنوی (علامہ): حکیم سید سعید احمد نجم آفندی: مرزا تجمل حسین نشاط امروہوی: سید آل مصطفےٰ رضوی مسعود کشفی: میر مسعود احمد سلطان مظہر عرفانی: مظہر علی خان معشوق یار جنگ: معشوق حسین خان مقبول الوری: سید مقبول حسین نشتر جالندھری: محمد عبد الحکیم خان پریشان خٹک (پروفیسر): غمی خان پرتو روہیلہ: مختار علی خان تاج سعید: تاج محمد ثاقب حزیں: محمد غلام مصطفےٰ جوہر میر: میر قربان علی رضا ہمدانی: مرزا رضا حسین ہمدانی شمیم بھیروی: خواجہ عبد اللطیف سیٹھی شوکت واسطی (پروفیسر): سید صلاح الدین صابر کلوروی: صابر حسین صغیر دہلوی: صغیر احمد جان غنی خان: خان عبد الغنی خان فارغ بخاری: سید میر احمد شاہ فدا مطہر: عبد المطہر خان فرید صحرائی: فرید خان قلندر مومند: صاحبزادہ حبیب الرحمٰن قمر راہی: قمر الزمان خان مظمر تاتاری: غلام ہمدانی ممتاز منگلوری (ڈاکٹر): اورنگ زیب یونس قیاسی: محمد یونس خان (حوالہ: وفیات خیبر پختونخوا اور ناموران پاکستان از ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ) آغا بابر: سجاد حسین ابراہیم جلیس: محمد ابراہیم حسن ابن انشاء: شیر محمد خان ابن صفی: اسرار احمد ابن حنیف: مرزا ظریف بیگ احسان دانش: قاضی احسان الحق اطہر نفیس: کنور اطہر علی خاں الطاف گوہر: الطاف حسین الیاس سیتاپوری: محمد الیاس خان الیاس عشقی محمد الیاس خان امرائو طارق: سید طارق علی انجم رومانی: فضل الدین چغتائی انیس خورشید (پروفیسر): محمد انیس الدین اے ڈی اظہر: احمد الدین ایم اسلم: میاں محمد اسلم ایم اے راحت: مرغوب احمد ایم ڈی تاثیر (ڈاکٹر): محمد الدین تاثیر باری علیگ: غلام باری باقی صدیقی: محمد افضل بخش لائلپوری: کریم بخش تابش دہلوی: سید مسعود الحسن تسلیم فاضلی: اظہار انور تنویر نقوی: سید خورشید علی جمیل الرحمن۔۔۔۔۔۔۔کنور محمد جلیل الرحمن جمیل الدین عالی: مرزا جمیل الدین احمد خان جون ایلیا: سید جون اصغر جیلانی کامران: غلام جیلانی شیخ حاجی لق لق: ابو علاء عطا محمد چشتی حجاب امتیاز علی: حجاب اسماعیل حزیں صدیقی: قاضی عفیف الدین احمد ایس اے رحمٰن (جسٹس): شیخ عبد الرحمٰن حسرت کاسگنجوی (ڈاکٹر): عبد الحق خان حسن عابدی: سید حسن عسکری عابدی حفیظ ہوشیارپوری: شیخ عبد الحفیظ سلیم حنیف اخگر: سید محمد حنیف خان آصف: آصف شاہ خان خالد علیگ: سید خالد احمد شاہ خیال امروہوی: سید علی مہدی نقوی جی الانا: غلام علی الانا راشد برہانپوری: سید محمد مطیع اللہ راغب مراد آبادی: سید اصغر حسین رام ریاض: ریاض احمد رحمٰن کیانی: عبد الرحمٰن رحمان مذنب: عزیز الرحمٰن رشید ترابی: رضا حسین خان رفیق خاور : محمد رفیق حسین رعنا اکبر آبادی: شکور احمد رضی اختر شوق: خواجہ رضی الحسن رفعت القاسمی: محمد ابو القاسم رفعت ہاشمی: سید فدا حسین رفیع پیر: پیرزادہ رفیع الدین دانیال طریر: مسعود دانیال شریف کنجاہی: محمد شریف شفقت رضوی: سید شفقت حسین شورش کاشمیری: آغا عبدالکریم شوکت سبزواری: شوکت علی شہاب دہلوی: سید مسعد حسین خان ضیاء جالندھری: سید ضیاء نثار احمد ضمیر نیازی: ابراہیم جان محمد درویش ظریف جبلپوری:سید حامد رضا نقوی ظہیر کاشمیری: غلام دستگیر عبد اللہ حسین: محمد خان عطاء شاد: محمد اسحاق فدا حسین خالدی: عبد الحمید فرخندہ لودھی: فرخندہ اختر قیسی رام پوری: خلیل الزماں خان کامل القادری: سید محمد شاہ کاوش رضوی: سید سبطِ رسول رضوی کرار نوری: سید کرار میرزا کرم حیدری (پروفیسر): ملک کرم داد کیف بنارسی: سید یاور حسین کیف رضوانی: سید فخر الحسن لالہ صحرائی: محمد صادق مجید لاہوری: عبد المجید چوہان محبوب خزاں: محمد محبوب صدیقی محشر بدایونی: فاروق احمد مختار صدیقی: مختار الحق مصطفیٰ زیدی: مصطفیٰ حسن مظفر وارثی: محمد مظفر الدین احمد صدیقی مقبول جہانگیر: مقبول الہٰی ملا واحدی: محمد ارتضیٰ ممتاز مرزا: مرزا توسل حسین ممتاز مفتی: ممتاز حسین میرزا ادہب: دلاور علی نادم سیتاپوری: سید محمد اظہر ناظم پانی پتی: اسماعیل ناظم نجم الاسلام (ڈاکٹر): نجم الدین صدیقی نسیم امروہوی: سید قائم رضا نعیم آروی: نعیم الحسن نگار صہبائی: محمد سعید الکریم نہال سیوہاروی: منشی عبد الخالق نیاز فتح پوری: نیاز محمد خاں وارث سرہندی: محمد وارث علی شاہ خان وحشت کلکتوی: سید رضا علی وحید قریشی (ڈاکٹر): عبد الوحید وفا راشدی (ڈاکٹر): عبد الستار خان وقار انبالوی: ناظم علی ============ππππππππ======== آسی ضیائی (پروفیسر): امان اللہ خان استاد دامن: چراغ دین اثر صہبائی: خواجہ عبد السمیع پال احمد عقیل روبی: غلام حسین سوز احمد ندیم قاسمی: احمد شاہ افتخار جالب: افتخار احمد انور سدید (ڈاکٹر): محمد انوار الدین اے آر خاتون: امت الرحمٰن ایلس فیض: ایلس کیتھرین جارج ایم ایم شریف (پروفیسر): میاں محمد شریف بابا عالم سیاہ پوش: محمد حسین پرنم الہٰ آبادی: محمد موسیٰ ہاشمی تاجور نجیب آبادی: احسان اللہ خان درانی حبیب کیفی: حبیب اللہ حفیظ صدیقی (پروفیسر) محمد حفیظ الدین حکیم لاہوری: عبد الرحیم راجہ رسالو: محمد صادق زیڈ اے سلہری: ضیاء الدین احمد سی اے قادر (ڈاکٹر): چودھری عبد القادر سیف زلفی: سید ذو الفقار حسین رضوی عبادت بریلوی (ڈاکٹر): عبادت یار خان فیروز نظامی: فیروز الدین احمد کے کے عزیز (پروفیسر): خورشید کمال مسعود کھدر پوش: محمد مسعود منیر نیازی: محمد منیر خان وارث لدھیانوی: چودھری محمد اسمعٰیل ہاشمی فرید آبادی: سید ہاشم علی ہمایوں ادیب: سید ہمایوں اختر
رشید اختر امجد ۔۔۔ رشید امجد محمد ندیم اسلم ۔۔۔ روش ندیم محمدثاقب شفیع ۔۔۔ ثاقب ندیم ارشد محمود آصف ۔۔۔ ارشد معراج محبوب حسین۔۔۔۔۔۔ محبوب ظفر عمران اختر کیانی ۔۔۔ عمران عامی رانا سعید احمد ۔۔۔ سعید دوشی اختر محمود ۔۔۔ اختر عثمان عابد حسین سیال ۔۔ عابد سیال افتخار حسین عارف ۔۔۔ افتخار عارف انجم اعظمی….مشتاق احمد عارفہ شہزاد۔۔۔۔۔۔عارفہ اقبال آثم فردوسی میاں عبدلحمید آرزو اکبر آبادی عبد الرحمان آرزو سرحدی وزیر محمّد خان آزاد انصاری الطاف احمد آزاد جمال دینی واحد بخش آصف شاہکار اعجاز حسین آرزو لکھنوی سید انور حسین اپندر ناتھ اشک مادھو رام آغا شورش کاشمیری عبد الکریم اختر شیرانی محمد داود خان ارشد جالندھری غلام رسول ارمان سرحدی محمّد اسلام ملک ارمان عثمان عبد الرشید اسیر عابد غلام رسول افسر ماہ پوری ظہیر عالم صدیقی افسر صدیقی امروہوی منظور احمد صدیقی انجم وزیر آبادی محمّد جان انجم اعظمیٰ مشتاق احمد انجم رضوانی قاضی احمد دین انصر لدیھانوی محمّد رمضان ادا جعفری عزیز جہاں امرتا پریتم امرت کور اختر کاشمیری محمد طفیل اختر ہاشمی محمد جلیل اختر وارثی عبدالعزیز آئی آئی قاضی امداد امام علی قاضی ابن انشاء شیر محمد خان ابن مفتی سید ایاز مفتی ابن ظریف مرزا ظریف بیگ ابن صفی اسرار احمد انشاء سید انشاءاللہ خان اے- جی جوش عبد الغفور جوش استاد دامن چراغ دین اسلم راہی محمد اسلم ملک افسر ماہ پوری ظہیر عالم صدیقی تبسم کاشمیری محمد صالحین انور سدید محمد انورالدین انیس ناگی یعقوب علی احمد ندیم قاسمی احمد شاہ احمد راہی غلام احمد احمد شہباز خاور شہباز احمد اختر الایمان راؤ فتح محمّد اجمل وجیہ محمّد اجمل خان اثرصہبائی عبد السمیع پال اقبال نجمی محمّد اقبال حسین این – ایس شانی نادر سلطان ابوالکلام آزاد محی الدین اصغر گونڈوی اصغر حسین الیاس گھمن محمّد الیاس افسوس میر شیر علی اخلاق حیدر آبادی محمّد اخلاق خان ایاز شیخ شیخ مبارک علی اے حمید عبد الحمید اے- ایچ عاطف الطاف حسین بہادر شاہ ظفر سراج الدین شاہ ظفر بری نظامی شیخ محمّد سفیر بسمل عظیم آبادی سید شاہ محمّد حسن بسمل شمسی محمّد خان باقی صدیقی محمّد افضل باقی احمد پوری مقبول حسین بخاری بیدل حیدری عبد الرحمان تابش دہلوی مسعود الحسن تنویر سپرا محمّد حیات خان جاذب قریشی محمد صابر پطرس بخاری سید احمد شاہ تابش دہلوی مسعود الحسن تبسم رضوانی حبیب اللہ تنویر بخاری فقیر محمد تبسم بٹالوی ریاض قدیر ثاقب حزیں محمد غلام مصطفیٰ ثمر جالندھری محمد شریف جان کاشمیری محمد نصیر جون ایلیا سید سبط اصغر نقوی بہزاد لکھنوی سردار حسن خان جعفر بلوچ غلام جعفر بلوچ جلیل قدوائی جلیل احمد جمال پانی پتی گلزار احمد جوش ملیح آبادی شبیر حسن جی – اے چشتی غلام احمد چشتی تابش دہلوی مسعودالحسن حافظ امرتسری محمد شریف حبیب جالب حبیب احمد حفیظ جالندھری ابوالاثر حفیظ حاجی لق لق عطا محمّد چشتی خاطر غزنوی محمد ابراہیم بیگ خالد قیوم تنولی خالد خان سلیم بیتاب محمّد سلیم ساغر صدیقی محمّد اختر سہیل بخاری محمود نقوی سریندر پرکاش سریندر کمار اوبارے شاعر لکھنوی حسین پاشا شکیب جلالی حسن رضوی شوکت تھانوی محمد عمر صبا اکبر آبادی محمد امیر فارس مغل غضنفر علی قتیل شفائی اورنگزیب قریش پور ذوالقرنین قریشی جمیل جالبی محمد جمیل خان رئیس امروہوی مسید حمد مہدی راہی فدائی ظہیر احمد رضیہ بٹ رضیہ نیاز بٹ ویر سپاہی تنویر زمان خان دوبندر ستیارتھی دوبندر باٹا حسن عسکری محمد حسن ن م راشد نذر محمد ناز خیالوی محمّد صدیق صہبا اختر اختر علی رحمت صدف جالندھری شاہ محمّد صائم چشتی محمّد ابراہیم صابری عالی عبد العزیز قمر جلالوی محمد حسین عابدی کوثر نیازی محمد حیات کاوش زیدی ماجد علی زیدی محسن بھوپالی عبدالرحمٰن محسن نقوی غلام عباس محشر بدایونی فاروق احمد ماہر القادری منظور حسین مظہر حیدری لبھو خان منظر پھلوری عبد المجید افضل منیر جہلمی منیر حسین کھٹانہ محمود رضا سید محمود مرسل محمود دہلوی فضل الہی نسیم حجازی محمد شریف ناظم پتی محمّد اسمعیل نوشی گیلانی نشاط گیلانی منو بھائی منیر احمد ناسخ شیخ امام بخش ذوق محمد ابراہیم رتن سرشار پنڈت رتن ناتھ سرشار ریاض مجید ریاض الحق طاہر راسخ شیخ غلام علی رشید ہادی رشید احمد راجا رسالو محم
124156 7, [23.10.20 04:39] ّد صادق رفعت ہاشمی عبد الرشید زلفی سید ذوالفقار علی داغ نواب مرزا خان دبیر مرزا سلامت علی درد سید خواجہ میر دلاور فگار دلاور حسین دلاور عسکری دلاور حسین ذہین شاہ تاجی محمّد طاسین فاروقی سرشار پنڈت رتن ناتھ ساحر لدھیانوی عبدالحئ سودا مرزا محمد رفیع سیماب اکبر آبادی عاشق حسین شبنم رومانی مرزا عظیم بیگ چغتائی ماجد صدیقی عاشق حسین ماہر القادری منظور حسین مجنوں گورکھپوری احمد صدیق مومن حکیم مومن خان مسرور بدایونی مسرور الحسن آتش خواجہ حیدر علی آرزو محمد حسین حسرت موہانی فضل الحسن حافظ لدھیانوی سراج الحق ھپوری رگھو پتی سہائے فانی بدایونی شوکت علی فقیر مصطفیٰ امیر نواز اعوان مصحفی غلام ہمدانی میرا جی ثناءاللہ ڈار محسن مگھیانہ نیاز علی مرتضی برلاس مرتضی بیگ برلاس منصور ملتانی تنویر عارف خان حاتم بھٹی عبد الحمید حسن میر غلام حسن خلیق قریشی غلام رسول میر محمد تقی نظیر اکبرآبادی شیخ محمد ولی نظم طباطبائی سید حیدر علی نادر جاجوی امانت علی ناصرکاظمی ناصر رضا کاظم نور کپور تھلوی نور محمّد ندیم باری فقیر محمّد مرزا غالب اسداللہ خان میرزا ادیب دلاور علی میر تنہایوسفی محمّد صالح نسیم پنڈت دیا شنکرم یاس یگانہ چنگیزی مرزاواجد حسین ولی دکنی شمس الدین محمد ولی محروم تلوک چند امام غزالی ابو حامد محمّد بن غزالی امیر خسرو ابوالحسن یمین الدین عندلیب شادانی وجاھت حسین غافل کرنالی محمّد یٰسین ع- م ۔مسّلم عبدالستار عمر خیام غیاث الدین ابوالفتح عرش ملیسانی بل مکند علی اختر اختر علی غزالی محمّد اسلم اشرف صبوحی ولی اشرف امانت لکھنوی سید اکبر حسین امیر مینائی امیر احمد انیس میر ببر علی بےخود دہلوی سیدوحیدالدین بےدل مرزا عبدلقادر پریم چند دھنپت رائے تاباں غلام ربانی جوش ملیسانی پنڈت لبھو رام جرأت یحیٰ امان جگر مرادآبادی علی سکندر حالی مولاناالطاف حسین حکیم رمضان اطہر محمّد رمضان حکیم ساحر قدوائی صفی اللہ خان حفیظ تائب عبدالحفیظ خمار بارہ بنکھوی محمّد حیدر خان خیال امروہوی سید علی مہدی نقوی خوشتر گرامی رام رکھا مل چکبست پنڈت برج نارائن شیخ سعدی مصلح الدین بلھے شاہ سید عبداللہ سجاد مرزا مرزا عبد الحمید سچل سرمست عبدالوہاب سلیم اختر فارانی اختر سلیم سرور بارہ بنکھوی سید سعید الرحمان شوق انصاری شوکت علی شیر افضل جعفری شیر محمّد کوثر نیازی محمّد حیات خان کیفی اعظمیٰ اطہر حسین رضوی کامل دہلوی عبدالله کامل دہلوی کلیم عثمانی احتشام الہی گلزار سمپیورن سنگھ گل بخشالوی سبحان الدین گستاخ بخاری سید منیر احمد گوہر ملسیانی میاں محمّد طفیل یزدانی جالندھری سید عبد الرشید یزدانی زیڈ – اے سلہری ضیاءالدین احمد سلہری
۱) مراۃالعروس، ابن وقت، بنات النعش، توبتہ النصوح اور فسانہ مبتلا کس کی تصانیف ہیں؟ ج ڈپٹی نذیر احمد ۲) کپاس کا پھول، دشت وفا، چوپال ، سناٹا، گھر سے گھر تک کس کی تصانیف ہیں؟ ج احمد ندیم قاسمی ۳) ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلئے، آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے کس کی تصانیف ہیں؟ ج ابن انشاء ۴) مسدس حالی، مقدمہ شعر و شاعری، حیات جاوید، حیات سعدی، یادگار غالب کا مصنف کون ہے؟ ج الطاف حسین حالی ۵) بانگ درا کب شائع ہوئی؟ ج ۱۹۲۴ء اردو کلام ۶) ارمغان حجاز اردو اور فارسی کا مجموعہ ہے جو ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا کس کی تصنیف ہے؟ ج اقبال ۷) اردوئے معلی خطوط، عود بندی، مہر نیم روز، گل رعنا، قاطع برہان، سبد چین، قادرنامہ کا خالق کون ہے؟ ج غالب ۸) نسخہ ہائے وفا، نقش فریادی، دست صبا، سروادی سینا، زندان نامہ، دست تہ سنگ، میزان کا خالق کون ہے؟ ج فیض احمد فیض ۱۰) موازنہ انیس و دبیر، شعر العجم، علم الکلام، الفاروق، المامون، سیرت النبی، الغزالی ج شبلی نعمانی ۱۱) نکات شعراء، ذکر میر، خواب و خیال کس کی تصانیف ہیں؟ ج میر تقی میر ۱۲) خود کلامی، خوشبو، انکار، ماہ تمام کس کے مجموعے ہیں؟ ج پروین شاکر ۱۳) شاہنامہ اسلام اور سوز و ساز کا خالق کون ہے؟ ج حفیظ جالندھری ۱۴) تذکرہ غبار خاطر اور الہلال کس نے لکھیں؟ ج ابوالکلام آزاد ۱۵) انار کلی، چچا چھکن اور کمرہ نمبر ۵ کس نے لکھیں؟ ج امتیاز علی تاج ۱۶) راجہ گدھ اور شہر بے مثال کس کی ہیں؟ ج بانو قدسیہ ۱۷) بستی، شہر افسوس اور چاند گرہن کس کی ہیں؟ ج انتظار حسین ۱۸) سوزِ وطن اور بازارِ حسن کا خالق کون ہے؟ ج منشی پریم چند ۱۹) آبِ کوثر اور موچِ کوثر کا خالق کون ہے؟ ج شیخ محمد اکرام ۲۰) تماشا، گنجے فرشتے، کروٹ، کالی شلوار، ہتک ، یزید، نمرود کی خدائی، خالی ڈبے کس کی تصانیف ہیں؟ ج سعادت حسن منٹو ۲۱) زندگی اور دین اسلام کس کی تصانیف ہیں؟ ج چوہدری افضل حق ۲۲) نقش نگار، شعلہ و شبنم، روح ادب کا خالق کون ہے؟ ج جوش ملیح آبادی ۲۳) خطبات احمدیہ، تہذیب الاخلاق، آثار الصنادیر، تاریخ سرکشی بجنور، تبین الکلام ، رسالہ اسباب بغاوت ہند اور رسالہ احکام طعام اہل کتاب کا خالق کون ہے؟ ج سر سید احمد خان ۲۴) اردو کی آخری کتاب اور رانی کیتکی کا خالق کون ہے؟ ج اردو کی آخری کتاب ابن انشاء اور رانی کیتکی کے انشاء اللہ خان ۲۵) آب حیات، نیرنگ خیال، اردو کی پہلی کتاب کا خالق؟ ج محمد حسین آزاد ۲۶) علی پور کا ایلی، لبیک، الکھ نگری، غبارے اور تلاش کا خالق کون ہے؟ ج ممتاز مفتی ۲۷) آنگن، تلاش گمشدہ، چند روز، کھیل اور بوچھاڑ کس کی تصانیف ہیں؟ ج خدیجہ مستور ۲۸) آرائش محفل، طوطا کہانی ، گل و مغفرت کس کی تصانیف ہیں؟ ج حیدر بخش ۲۹) علامہ اقبال کو سر کا خطاب کب ملا؟ ج 1922ء میں لاہور میں ۳۰) علامہ اقبال کا پہلا مجموعہ کب شائع ہوا؟ ج بانگ درا 1924ء ۳۱) ذکر اقبال کس کی تصنیف ہے؟ ج مولانا عبدالمجید سالک ۳۲) گل رعنا، شعرالہند اور شعر العجم کا تعلق کس صنف سے ہے؟ ج تنقید نگاری ۳۳) یادوں کی برات، شہاب نامہ، اور میرا افسانہ کا تعلق اردو ادب میں کس صنف سے ہے ج خود نوشت ۳۴) لہو اور قالین، اور فصیل شب کس کے ڈرامے ہیں؟ ج مرزا ادیب ۳۵) ریختہ میں سب سے پہلا دیوان کس نے مرتب کیا؟ ج سعد سلمان نے مگر معدوم ہے چند شعروں کا ہی معلوم ہوسکا ہے؟ ۳۶) بیت الغزل سے کیا مراد ہے؟ ج غزل کا پہلا شعر, جس غزل کے ایک یا دو شعر ہوں.. ۳۷) مدہوش، یہودی کی لڑکی اورکالی بلا کس کے ڈرامے ہیں؟ ج سجاد حیدر یلدرم ۳۸) عبدالحلیم شرر، ڈپٹی نذیر احمد اور مرزا ہادی کا تعلق کس سے تھا؟ ج ناول نگاری سے ۳۹) باغ وبہار میں اردو کے علاوہ کسی اور زبان کا کوئی لفظ نہیں یہ کس کی تصنیف ہے؟ ج میر امن دہلوی ۴۰) مرزا غالب نے ابتداء میں کس کی پیروی کی؟ ج عبدالقادر بیدل ۴۱) بابائے اردو مولوی عبدالحق نے کس کو سرتاج شعرائے اردو کہا؟ ج میرتقی میر ۴۲) شاعری میں سب سے پہلے زبان کے لئے اردو کا لفظ کس نے استعمال کیا؟ ج مراد شاہ لاہوری ۴۳) جگر نامہ، شعلہ عشق، جوش عشق، دریائے عشق، اعجاز عشق اور معاملات عشق اور خواب و خیال کس کی مثنویاں ہیں؟ ج میر تقی میر ۴۴) لسان العصر کس کا خطاب ہے؟ ج اکبر الہ آبادی ۴۵) مصور غم کس کا لقب ہے؟ ج علامہ راشدالخیری ۴۶) مصور حقیقت کسے کہتے ہیں؟ ج اقبال ۴۷) جدید غزل کا امام اور آبرو غزل کس کو کہتے ہیں؟ ج حسرت موہانی کو ۴۸) علامہ اقبال کو حکیم الامت کا خطاب کس نے دیا؟ ج خواجہ حسن نظامی ۴۹) اقبال کو احسان الہند کا خطاب کس نے دیا؟ ج مولانا آزاد ۵۰) اقبال کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی؟ ج مولانا غلام مرشد ۵۱) الف نون کس کا مشہور کھیل ہے؟ ج کمال احمد رضوی ۵۲) ابلیس کی مجلس شوری کس کی نظم ہے؟ ج علامہ اقبال ۵۳) اک چادر میلی سی کس کا ناول ہے! ج راجندر سنگھ بیدی ۵۴) اصغری اور اکبری کس مشہور ناول کے کردار ہیں؟ ج مراۃ ال
124156 7, [23.10.20 04:42] عروس ۵۵) اردو شاعری میں ہجو کا آغاز کس شاعر نے کیا؟ ج رفیع سودا ۵۶) زبور عجم علامہ اقبال کی کتاب ہے یہ کس زبان میں ہے؟ ج فارسی ۵۷) بازار حسن کس کا ناول ہے؟ ج پریم چند ۵۸) باغ و بہار کس کا ترجمہ ہے؟ ج نو طرز مرصع کا ۵۹) دل دریا سمندر کس کی تصنیف ہے؟ ج واصف علی واصف ۶۰) ترقی پسند تحریک کے حوالے سے افسانوں کا پہلا مجموعہ کونسا تھا؟ ج انگارے 1932ء ۶۱) رباعی فارسی ادب سے آئی ہے اس کا سب سے بڑا شاعر عمر خیام ہے اس میں کتنے مصرعے ہوتے ہیں؟ ج چار ۶۲) طنزیہ شاعری کو کیا کہتے ہیں؟ ج ہجو , طنزیہ شاعری ہوتی ہے جبکہ طنزیہ کے متضاد قصیدہ کی صنف ہے. ۶۳) شہر آشوب کے حوالے سے شاعری کا بڑا نام کس کا ہے؟ ج ظفر علی خان ۶۴) اردو کا پہلا افسانہ نگار کون تھا؟ ج پریم چند ۶۵) اقبال کی مشہور نظم مسجد قرطبہ کس کتاب میں ہے؟ ج بال جبریل میں ۶۶) علامہ اقبال کی کتاب تشکیل جدید الیہات میں کتنے خطبات ہیں؟ ج 7 ۶۷) جوش ملیح آبادی کی سوانح حیات کا نام بتائیں؟ ج یادوں کی برات ۶۸) شاعر اعظم اور شاعر انقلاب کس کا خطاب ہے؟ ج جوش ملیح آبادی ۶۹) ریختہ کا لفظ اردو زبان کے لئے کس بادشاہ کے دور میں استعمال ہوا؟ ج اکبر بادشاہ ۷۰) اردو کا پہلا صوفی شاعر اور تخیل کا سرخیل کس کو کہتے ہیں؟ ج میر درد ۷۱) لفظ اردو پہلی دفعہ کس کتاب میں استعمال ہوا؟ ج تزک جہانگیری ۷۲) ٹیڑھی لکیر کس کی تصنیف ہے ج عصمت چغتائی ۷۳) مشہور نظم ماں جائے کی یاد کس کی تصنیف ہے؟ ج جوش ملیح آبادی ۷۴) مثنوی کسے کہتے ہیں؟ ج ایسی نظم جس میں ہر شعر الگ الگ قافیہ میں ہو ۷۵) قطعہ میں اشعار کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟ ج دو سے لے کر کم از پچیس تک اس سے زائد بھی شعراء نے کہے ہیں ۷۶) جو شعر مطلع ہونہ مقطع کیا کہلاتا ہے؟ ج بیت,,, ۷۷) مرزا غالب کا اصل نام کیا تھا؟ ج اسداللہ خان ۷۸) ابوالکلام آزاد کا اصل نام کیا تھا؟ ج محی الدین احمد ۷۹) انیس کا اصل نام کیا تھا؟ ج میر ببر علی ۸۰) پریم چند کا اصل نام؟ ج دھنپت رائے سری واستو ۸۱) جگر مراد ابادی کا اصل نام؟ ج علی سکندر ۸۲) دبیر کا اصل نام؟ ج مرزا سلامت علی ۸۳) سودا کا اصل نام! ج مرزا محمد رفیع ۸۴) مصحفی کا اصل نام؟ ج غلام ہمدانی ۸۵) نظیر اکبرآبادی کا اصل نام؟ ج شیخ محمد ولی ۸۶) ولی دکنی کا اصل نام؟ ج شمس الدین محمد ولی ۸۷) عمر خیام کا اصل نام؟ ج غیاث الدین ۸۸) ذوق کا اصل نام؟ ج محمد ابراہیم ۸۹) حسرت موہانی کا اصل نام؟ ج فضل الحسن ۸۰) قتیل شفائی کا اصل نام؟ ج اورنگزیب ۹۱) محسن نقوی کا اصل نام؟ ج غلام عباس ۹۲) داغ کا اصل نام؟ ج نواب مرزا خان ۹۳) پطرس بخاری کا اصل نام؟ ج سید احمد شاہ ۹۴) جوش ملیح آبادی کا اصل نام؟ ج شبیر حسین ۹۵) بلھے شاہ کا اصل نام؟ ج سید عبداللہ ۹۶) آرزو کا اصل نام؟ ج محمد حسین ۹۷) ن م راشد کا اصل نام؟ ج نذر محمد ۹۸ شوکت تھانوی کا اصل نام؟ ج محمد عمر ۹۹) اختر کاشمیر ی کا اصل نام؟ ج محمد طفیل ۱۰۰) باقی صدیقی کا اصل نام؟ ج سائیں محمد افضل
سر اقبال، جنہیں پاکستان میں علامہ اقبال کہا جاتا ھے،
انکی شاعری اور انکے نثری خیالات کے حوالے سے پاکستان میں کافی گفتگو ھوتی ھے،اور
اس گفتگو کو جاری رکھنے کے لئے اقبال اکیڈمی کا قیام حکومت عمل میں لائی،
اقبال اکیڈمی نے حکومت کی منشا اور ارادے کے تحت اقبال کی
زندگی ، حالاتِ زندگی ، شاعری اور نثری بیانات و تقاریر کی روشنی میں سر محمد
اقبال (علامہ اقبال) کی کُل شخصیت کے خدوخال ایسے بنائے یا بنانے کے لئے معاون
معلومات و واقعات و تحاریر کو پیش کیا جن کے ذریعے سر اقبال ایک نہایت متقی،مومن،
بزرگ،دانشمند، فلسفی، شاعر، ادیب،انقلابی اور جینیوئن ھیرو ثابت ھوسکیں۔
جہاں جہاں ایسے واقعات، تحاریر، شاعری ، نثریات و
شواھدات ایسے مِلیں جو اوپر بیان کردہ تخلصات و تعاریف کے مخالف کچھ مواد ملے اُسے
یا تو چھپا دیا جائے یا تبدیل کیا جائے یا اُس کے خلاف بظاھر دانشمند لکھاریوں سے
کچھ کہلوایا جائے تاکہ ایک قومی یا ریاستی ھیرو کے تصوراتی خاکے میں کوئی کجی یا
کمی نہ معلوم ھو۔
اس ارادی سہوِ نظر نے ایسے مواد کو نظر انداز کرنے اور
کروانے کا حق ایسا ادا کیا کہ بیچارے سر محمد اقبال کو علامہ اقبال رحمہ اللہ بنا
کر پیش کرنے میں مکمل کامیابی ھوئی۔۔
نوجوان تو کیا 60 سال تک کے پیٹے کے لوگ بھی اس گمراھی
میں صراطِ مستقیم ڈھونڈنے کی کوشش میں مگن رھے۔
مثلاً مندرجہ ذیل
پیراگراف کا نتیجہ ایک مکمل دلیل ھے لیکن یہ اقبال اکیڈمی کے ڈسے معصوم لوگوں کے
اُس خیال یا عقیدے کو توڑ پھوڑ دے گا جو انہیں زبردستی فوجی مزاج لوگوں کے رٹایا
ھوا ھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
”
صوبے کے قیام کا مقصد اقبال کے نزدیک یہ ہے کہ اس طرح اس
دستوری ڈیڈ لاک سے نکلنے کا راستہ نکل آئے گا۔ چنانچہ کہتے ہیں: ”صوبوں کی مناسب
تقسیم سے مخلوط اور جداگانہ انتخاب کا مسئلہ ہندوستان کے آئین کے بارے میں نزاع کو
خود بخود ختم کر دے گا۔ اس نزاع کا باعث بڑی حد تک صوبوں کی موجودہ تقسیم ہے…. اگر
صوبوں کی تقسیم اس طور پرہو جائے کہ ہر صوبے میں کم و بیش ایسے گروہ بستے ہوں جن
میں لسانی، نسلی، تمدنی، اور مذہبی اتحاد پایا جاتا ہو تو مسلمانوں کو علاقہ
وارانہ انتخاب پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا“۔
اس بات سے اقبالیات کے بڑے بڑے ماہرین کے اس دعوی کی تردید ہو جاتی ہے کہ اقبال زندگی کے کسی بھی مرحلے پر جداگانہ انتخاب سے دست برداری پر آمادہ نہیں ہوئے تھے۔ اقبال کی اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں کہ جداگانہ انتخاب مذہبی نہیں سیاسی مسئلہ تھا۔۔۔””””