ہم جنس پسندی کی تاریخ

سعودی عرب کے سابق گرینڈ مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز کے شاگرد رشید، ڈاکٹر سلمان العودہ نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم جنس پسندی کی اس دنیا میں کوئی سزا نہیں ہے اور ہم جنس پسند اس فعل کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں ہوتے- ان کے مطابق اس جرم کی شرعی سزا جو کہ سنگسار کیا جانا ہے، بذات خود لواطت سے بڑا جرم ہے۔

A Byzantine ancestor to same-sex marriage?


اسی طرح عرب سپرنگ کا آغاز کرنے والے ملک، تیونس کے٨٠ سالہ مفکر راشد الغنوشی نے بھی ایک انٹرویو میں بتایا، "ہم جنس پسندی کو ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ ہے- ان کے مطابق ہم جنس پسندی ایک نجی معاملہ ہے اور اس سلسلے میں قانون کا اختیار نہیں ہونا چاہیے چنانچہ اسے جرم نہیں ہونا چاہیے۔

مردوں میں ہم جنس پسندی کی تاریخ نسلوں کی بجائے صدیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ عربی زبان میں اسے لواطت اور انگریزی میں sodomy کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی اصلاحات میں مذہب کا دخل ہے۔ عربی کا لواطت پیغمبر لوط کے نام سے مشتق ہے جب کہ انگریزی sodomy موجودہ اسرائیل میں بحیرہ مردار کے جنوب مغربی کنارے پر واقع جبل سدوم (Mount Sodom) سے ماخوذ ہے۔

حالانکہ موجودہ دور میں سدوم نام کی کوئی آبادی وہاں موجود نہیں ہے مگر عہدنامہ عتیق (تورات عظیم) اور عہدنامہ جدید (انجیل مقدس) سدوم شہر کی تباہی کی تفصیل دی گئی ہے (دنیا کے تمام مذاہب قابل تعظیم ہیں)۔ یہ وہی شہر ہے جہاں قرآن حکیم نے پیغمبر لوط کی رہائش اور ان کی قوم پہ عذاب کا بتایا ہے حالانکہ اس شہر کے نام کا حوالہ قرآن حکیم میں نہیں دیا گیا۔ اسلام سے پہلے کی ابراہیمی کتابوں میں پیغمبر لوط کا ذکر بہت محدود سا ہے جبکہ قرآن پاک میں پیغمبر لوط کا ذکر نسبتا تفصیل سے آیا ہے۔

جب بھی ہم جنس پسندی کی بات آتی ہے تو عمومی طور پر مردوں کے ہی جنسی رویے کی بات کی جاتی ہے مگر یہ جنسی رویہ عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ عورتوں کے اس جنسی رجحان کو انگریزی زبان میں (Lesbianism) کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ یونانی جزیرے (Lesbos) اخذ کیا گیا ہے۔ اس جزیرے کی وجہ شہرت مشہور یونانی شاعرہ سیفو ہیں جنہوں نے معلوم تاریخ میں پہلی بار اہنی محبوبہ کے بارے میں جذباتی شاعری مرتب کی (شاعری لکھی نہیں جاتی بلکہ ترتیب دی جاتی ہے)۔

اس طرح کے جنسی رویے کو عجیب سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ جنسی عمل کے متعلق عام غلط فہمی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ اس لیے بھی ناقابل قبول لگتا ہے کیونکہ جنسی عمل کو صرف افزائش نسل کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زمین پہ پائی جانے ذہین ترین مخلوقات (انسان، چمپینزی اور ڈولفن) جنسی عمل تسکین کے حصول کے لیے کرتے ہیں (جس کی وجہ سے کبھی کبھی بچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں ورنہ ان کے سیکس کی فریکوئینسی کی نسبت سے ان کی آبادی کو بےقابو ہو جانا چاہیے) یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام جانداروں کے جنسی عمل اور نئے بچے پیدا ہونے کا ایک خاص موسم ہوتا ہے جبکہ ان ذہین مخلوقات کے بچے سارا سال پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

بنیادی طور پر ہم جنس پسند رویے کا تعلق بھی جنسی لذت سے ہوتا ہے جو کہ ایک انتہائی ذاتی رجحان ہے یہی وجہ ہے کہ ایسا جنسی رویہ رکھنے والے افراد جنس مخالف کی دستیابی کے باوجود ہم جنسی کا رجحان رکھتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں شادی بھی اس مسئلے کا مستند حل نہیں ہے اور ایسے افراد شادی کے بعد بھی ایسا رجحان رکھتے ہیں بلاشبہ یہ کچھ دب ضرور جاتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا کیونکہ ہم جنس پسندی ایک قدرتی رجحان ہے جو ماں کے پیٹ سے ہی پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ ہم جنس پسندی کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔

لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم نے جنسی رویوں کو حال ہی میں سمجھنا شروع کیا ہے لہذا ہم جنس پسندی کو روایتی طور پر قابل اعتراض سمجھا جاتا رہا ہے چنانچہ بالکل منطقی طور پر تقریبا ہر مذہب نے اس کے لیے سخت سزائیں تجویز کیں ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ بالعموم مذہبی پیشوا ہی اس عمل میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صوفیانہ روایات سے مزین مردانہ اجارہ داری کی حامل مذہبی قیادت بالعموم نسائی لذت سے محروم رہی ہے کیونکہ تقدس کا تصور زنانہ جنسی لذت سے آلودہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ جنسی گھٹن کی شکار مذہبی قیادت کے لیے دینی تربیت کے لیے مدخول بچے آسان ہدف رہے ہیں۔

اس کے علاوہ بچوں کو خوف زدہ کر کے خاموش رہنے پہ مجبور کر دینا اور ان کے دل میں تقدس کے ہیولے کا ادب (رعب) پیدا کر لینا آسان رہا ہے۔ بچے سمجھتے ہیں چونکہ مذہبی رہنما خدا کے دنیاوی نمائندے ہیں لہذا ان کی ہر بات پہ مطلق فرمانبرداری ضروری ہے چاہے وہ حکم بظاہر ناجائز ہی ہو کیونکہ وہ مذہب کو مقدس ہستی سے زیادہ تو نہیں سمجھتے۔ ماسوائے اس کے بچوں کو سیکس کے موضوع پہ تعلیم کی کمی بھی اس کے لیے ذمہ دار رہی ہے۔

یہ مشق کسی ایک تہذیبب یا مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تقریبا ہر ثقافت اور مذہب اس حوالے سے شریک لطف رہا ہے۔ قدیم جاپان میں مردوں کی کم عمر لڑکوں سے جنسی لذت حاصل کرنے کے رواج کو Nanshoku کہا جاتا تھا، اس مقصد کے لئے اشرافیہ کے پاس wakashu کہلائے جانے والے لڑکے موجود ہوتے تھے۔ اسی طرح یونانیوں نے بھی لڑکے رکھے ہوئے تھے ارسطو نے اپنی کتاب پولیٹکس میں اس پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ Crete کے حکمران آبادی کنٹرول کرنے کے لئے pederasty بچہ بازی/ اغلام بازی کی پزیرائی کرتے تھے۔

چینی تہذیب میں بھی یہ رواج عام تھا۔ شہنشاہ Ai کی آستین پر ایک مرتبہ انکا عاشق سو گیا اس نوجوان کو اٹھانے کے بجائے آپ نے اپنی آستین ہی کاٹ لی۔ یہ دیکھتے ہوئے بعد میں درباری بھی ایک آستین نکال لیا کرتے تھے، اسی وجہ سے چین میں لڑکوں کا شوق رکھنے والوں کے لئے Passion of Cut Sleeves کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

فارس میں بھی یہ مرض عام تھا، سکندرِ اعظم کو فارس کے حکام نے Bagoas نامی ایک لڑکا بھی تحفہ میں دیا تھا، سکندر کویہ نوجوان بہت عزیز تھا رقص کے مقابلوں میں اسے نچوایا کرتا تھا، اس سے کھلے عام اپنے پیار کا اظہار بھی کردیا کرتا تھا Bagoas Kiss کی اصطلاح یہاں سے نکلی۔ عباسی دور میں خلیفہ الامین نے لڑکوں سے دربار میں رونق لگائے رکھی۔ عثمانی دور کی اشرافیہ بھی یونانیوں سے اس درجہ متاثر تھی کہ حماموں میں تلک نام کے کم عمر لڑکے رکھے جاتے جو مردوں کو نہلانے کے علاؤہ دیگر خدمات بھی سر انجام دیتے تھے۔

بابل کی تہذیب میں بھی مرد کا مرد سے جنسی تسکین حاصل کرنا ایک معمول کا فعل تھا۔ خوش بختی اور اچھی قسمت کے لئے ضروری تھا کہ مذہبی پیشواؤں سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ مصر کی تہذیب میں بھی یہ ہی چیز جاری رہی تھی۔ انکی تین ہزار سال پہلے کی گلگامش کی کہانی میں بھی بادشاہ گلگامش انکیدو نامی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔

آج بھِی افغان معاشرے میں یہ رویہ مباح سمجھا جاتا ہے کہ سماجی شان و شوکت کے لیے نوعمر لڑکے رکھے جائیں۔ یہ رویہ اس حد تک مقبول ہے کہ 2015 میں امریکی جرنیلوں نے اپنے فوجیوں کو ہدایت کی تھِی کہ افغان "بچہ کشی” میں مداخلت نا کی جائے۔ شاید ہی کوئی افغان سردار ایسا ہو گا جس کے حجرے میں امرد موجود نا ہوں۔ ناصرف یہ کہ ان لڑکوں کی ملکیت قابل فخر ہے بلکہ ان کے توارد کے لیے جنگجو سرداروں کی خونی لڑائیاں بھِی عام ہیں۔ یہ لڑکے ناصرف جنسی راحت دیتے بلکہ فنکارانہ ذوق کی تسکین بھی کرتے ہیں جیسا کہ پازیب کے ساتھ رقص وغیرہ۔ اس حوالے سیاسی یا مذہبی وابستگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مذہبی، متشرع طالبان اور افغان حکومت کے حامی سیکولر سردار، دونوں اس حمام میں ننگے ہیں۔

مذہب میں اس حوالے سے سب سے زیادہ بدنام مسیحی گرجا رہا ہے (پیغمبر عیسی کے ماننے والے عیسائی نہیں بلکہ مسیحی ہیں)۔ میڈیا کے فروغ نے بیسیویں اور اکیسیویں صدی کے دوران مسیحی گرجا کی ہم جنسی پرستی کا پول کھول دیا ہے حالانکہ گرجا پہ ایسے الزامات صدیوں سے لگتے آئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ گرجا میں رہنے والی راہباووں کی بکارت کو محفوظ رکھتے ہوئے ان سے غیر فطری جنسی فعل کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

بعینہہ، یہودی برادری کی عبادت گاہوں (سینا گوگ) میں ہم جنسی اشتہاانگیزیوں کی شکایات کا انبار ہے۔ بودھ صوفی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ابھی حال میں ہی تھائی لینڈ کی بودھ خانقاہوں میں نوعمر بودھ بھکشووٗں کے ساتھ عمر رسیدہ بھکشووٗں کی جنسی ذیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک ۱۳ سالہ بھکشو کی شکایت کے مطابق ۵۱ سالہ رہبر بھکشو اسے اپنے ننگے جسم کا مساج کرنے اور اپنے جسم کو چوسنے کا کہتے۔

پاکستان میں یہ روایت اردو کی رعایت سے آئی ہے حالانکہ اردو کی قبولیت عام سے پہلے بھی برصغیر کے مسلمانوں میں عشق افلاطونی (افلاطون کے نزدیک عورت سے محبت فضول ہے کیونکہ عورت سے جنسی عمل صرف نسل آ گے بڑھانے کے لیے ہے جب کہ عشق حقیقی کا حظ صرف نوعمر بغیر داڑھی کے لڑکوں سے ہی اٹھایا جا سکتا ہے) کی مضبوط ثقافت موجود تھی۔

اردو کی اولین تحریر سے بھی ۳۵۰ سال پہلے پیدا ہوئے سلطان علاوالدین خلجی کی اپنے غلام ملک کافور سے محبت پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ خلجی کے دورِ حکومت میں ایک مبصر ضیا الدین بارانی نے خلجی کے آخری دنوں کا احوال بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان چار پانچ برسوں میں جب سلطان اپنی یاداشت کھونے لگے تھے تو وہ ملک کافور کے ساتھ گہری محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کچھ ایسی ہی حکایات سلطان محمود غزنوی اور ان کے چہیتے مملوک ایاز کے لیے بھی ہیں۔ تزک جہانگیری میں مغل بادشاہ جہانگیر نے بھی لڑکوں پہ اپنی شبینہ فتوحات کا ذکر کیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد سرمد پر اپنی تحریر کی ہوئی کتاب ’حیاتِ سرمد‘ میں صوفی سرمد کی اپنے محبوب ابھےچند کے لیے سرمستی عشق کے بارے میں لکھا ہے۔

پنجابی کے نامور شاعر اور لاہور کے صوفی شاہ حسین اور ہندو لڑکے مادھو کے عشق سے کون واقف نہیں ہے؟ اس عشق کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنے محبوب کا نام اپنے نام کا مستقل حصہ بنا لیا اور اب بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ مادھو لال حسین ایک شخص کا نام نہیں تھا بلکہ دو الگ الگ نام تھے۔

اسلامی تصوف میں اس حوالے کی روایت پہلے عرب (شاعر ابو نواس) اور پھر فارس (عمر خیام اور حافظ شیرازی کا مشہور شعر تو ہر کوئی کس لذت سے سناتا ہے کہ اگر وہ شیراز کا ترک لڑکا مجھے مل جائے تو میں اس کے گال کے تِل کے بدلے سمر قند اور بخارا کے شہر اسے بخش دوں) سے وارد ہوئی۔ اس سلسلے میں صوفی سلسلے کی مشہور بزرگ شاہ شمس تبریز اور مولانا روم کا عشق زبان زد عام ہے۔

1244 میں مولانا رومی کی جب شمس تبریز سے ملاقات ہوئی تو ان کی عمر 37 برس اور شمس تبریز کی عمر 60 برس تھی۔ اس وقت تک مولانا رومی ایک مستند و معتبر عالم بن چکے تھے۔ ان کا خطبہ سننے سینکڑوں ہزاروں لوگ جمع ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل تھی۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک خوشحال‘ باعزت اور کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ شمس نے رومی کو چھوڑ جانے کا فیصلہ کیا تو رومی نے شمس کی شادی اپنی منہ بولی بیٹی کیمیا سے کر دی۔

یہ حقیقت بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جوں جوں رومی شمس سے جذباتی طور پر قریب آتے گئے رومی اپنی بیوی سے رومانوی طور پر دور ہوتے گئے اور شمس بھی اپنی نو بیاہتا بیوی کیمیا سے ازدواجی تعلقات نہ قائم کر سکے۔ اس تعلق کی شرمندگی سے بچنے کے لیے رومی کے بیٹوں نے شمس کو قتل کر دیا۔

اردو غزل کے بادشاہ، ریختہ کے استاد، صوفی ابن صوفی سید محمد تقی (ولد سید محمد متقی جو ایک معروف مزار کے سجادہ نشین تھے) عرف میر تقی میرؔ، جن کو خداۓ سخن کا لقب دیا جاتا ہے، نے شاعری کے اپنے دیوان کے متعلق کہا تھا کہ میرے دیوان میرے معشوق لڑکے کے لکھا گیا ہے۔ ان کے معشوق لڑکے کے حسن کے قصے اور طرحداریوں کے افسانے اس کے خال و خد سے لے کر عشوہ طرازیوں تک چلے جاتے ہیں۔

اسی طرح پرانی دلی کے قدماء میں سے ایک بزرگ شاعر شیخ شرف الدین مضمون نے اپنے محبوب کے بارے میں لکھا کہ میرے محبوب کے چہرے پر داڑھی آ گئی ہے جبکہ میری داڑھی سفید ہو چکی ہے۔ لیکن وہ اب بھی ساری رات مجھ سے مصاحبت کرتا ہے۔ ہندو اردو شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھ پوری بھی اپنے بیٹے کے عمر کے لڑکے کے عشق میں مبتلا تھے۔ کہتے ہیں کہ فراقؔ گھورکھ پوری کی ہم جنسیت کی وجہ سے ان کے بیٹے نے خود کشی کر لی تھی کہ اس کا باپ اس کے دوستوں سے بھی باز نہ آتا تھا۔)

ایک فقیہ اعظم نے اس رویے کا علاج یہ تجویز کیا تھا کہ اپنے شاگرد کا سر منڈوا دیا تاکہ وہ خوبصورت ہونے کی وجہ سے دوران سبق امام صاحب کی توجہ منتشر نا کروا دیں۔ مگر کیا کیجئے، مسئلہ حل نہیں ہوا اور اس کے بعد استاد محترم اپنے عزیز شاگرد کو اپنی مسند کے عقب میں یعنی اپنی نظروں سے اوجھل بٹھاتے۔ کیا اس سب کے بعد مفتی الشیخ عزیز الرحمان پہ گرفت کی جانی چاہیے؟ جواب آپ کا ہے۔

پولیس گردی

بے یار و مددگار، ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے، پانچ بچوں کے باپ 48 برس کے ولیم جینیٹ کو منہ کے بل جیل کے فرش پہ گرایا جاتا ہے اور چند پولیس اہلکار ان کی کمر پہ گھٹنوں سے دباؤ ڈالنے لگتے ہیں۔ ولیم چیخ کر اپنا دم گھٹنے کی شکایت دیتے ہیں مگر پاس کھڑی ایک پولیس افسر انہیں جواب دیتی ہیں کہ انہیں سانس لینے کے قابل رہنا بھی نہیں چاہیے۔
پولیس اہلکار چار منٹ تک ان کے پھیپھڑوں پہ دباؤ ڈالے رکھتے ہیں جس سے ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ان کی موت کے مقدمے کی دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے آخری لمحات میں انہیں ہراسانی سمیت گالیاں دیتے ہوئے زدوکوب بھی کیا گیا۔
امریکی ریاست ٹینیسی کے علاقے لیوس برگ کی مارشل کاؤنٹی جیل میں سفید فام ولیم کو بعینہٖ اسی انجام کا سامنا کرنا پڑا جو اب سے چند ماہ قبل سیاہ فام جارج فلائیڈ کو پولیس کے ہاتھوں کرنا پڑا تھا۔

جمعہ کی شام 3 بجے بھارتی صوبے اتر پردیش میں ایک 17 سالہ سبزی فروش نوجوان، فیصل اسلام، کو مبینہ طور پر لاک ڈاؤن کا اجازت شدہ وقت ختم ہونے کے باوجود فٹ پاتھ پر سبزی بیچنے کے الزام میں پولیس تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ مزاحمت پر دو پولیس اہلکار اس نوجوان کو تھانے لے جاتے ہیں جہاں اسے بہیمانہ سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے۔
کوئی بھی درست طور پر نہیں جانتا کہ تھانے کے اندر کیا ہوا مگر 4 بجے ایک فون کال پر اس نوجوان کے والد تھانے پہنچتے ہیں جہاں وہ اپنے نوعمر بیٹے کو آخری سانسیں لیتا ہوا پاتے ہیں۔ نوجوان کو ہنگامی طور پر ہسپتال لے جایا جاتا ہے مگر ڈاکٹر نوجوان کو مردہ قرار دیتے ہیں۔

ابھی سانحہ ساہیوال، صلاح الدین کی پولیس تشدد سے موت، اسامہ ستی قتل، اور ایک شدت پسند تنظیم کے زیرِ حراست کارکنان کی پٹائی کی ویڈیوز کی بازگشت باقی تھی کہ حال ہی میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی پابندیوں کی خلاف ورزی پر کس طرح گوجرانولہ پولیس کے جوان ایک نوجوان کو بھرے بازار میں تھپڑوں کا نشانہ بناتے ہیں۔
2014 میں ژیل یونیورسٹی کینیڈا کے لاء سکول کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی پولیس تشدد کا بدترین مجرمانہ ریکارڈ رکھتی ہے۔ اس تحقیق میں بالخصوص پنجاب پولیس کے تشدد کے طریقہ کار، آلات، ذرائع، اور جواز پر جو روشنی ڈالی گئی ہے اس کے مطابق غیر انسانی تشدد کی تفصیلات اندوہناک ہیں۔
جسمانی تشدد کے علاوہ، نفسیاتی حربے، توہین آمیز رویے، جذباتی شکستگی اور جمالیاتی بدذوقی بھی تشدد کے عمومی ذرائع ہیں۔

حالانکہ ریاست کو طاقت (معاشی، مرئی، اور استحصالی وغیرہ) کے استعمال پر اجارہ داری حاصل ہے مگر پھر بھی کسی ریاستی ادارے کی جانب سے طاقت کے بےدریغ استعمال کا کوئی جواز نہیں ہے اور اسی بلاجواز استعمال پر قابو پانے کے لیے تشدد کے خلاف قوانین متعارف کروائے گئے ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں ریاستی تشدد سے بچاؤ کے خلاف کوئی خصوصی قانون تو موجود نہیں ہے تاہم پاکستان میں پولیس تشدد کے خلاف ضمنی قوانین موجود ہیں۔ جیسا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل (2)14 میں تشدد سے بچاؤ کی دستوری ضمانت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اقوام متحدہ کے زیرِ انتظام تشدد سے بچاؤ کے بین الاقوامی معاہدے کا بھی رکن ہے۔ مزید برآں پولیس آرڈر سیکشن (b)156 اور CrPC کا سیکشن 176 بھی تشدد کی ممانعت کرتا ہے اور پولیس کے ایسا کرنے کی صورت میں سزائیں تجویز کرتا ہے۔

تاہم پولیس فورس سے پولیس سروس تک کا بدلاؤ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک عوام اپنے حقوق سے باشعور نہیں ہو جاتے۔ یہی حقیقی جمہوریت کی روح بھی ہے۔

خدا ، مذھبی خدا، قدرتی خدا، بے رحم خدا، کالا پتھر، حجر اسود . عقلی گفتگو

سچائی کیا ھے؟ کیا جھوٹ ھے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ایک دوست نے پوچھا۔۔۔




۔ خدائے مذھبی کیا ھے ، خدائے قدرتی کیا ھے؟
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
المختصر بیان کرتا ھُوں
جب ھم کائنات کو دیکھتے ھیں۔ اور پھر دنیا کو اور اپنی زمین پر نباتات و حیوانات کو دیکھتے ھیں،،،، تو سوچتے ھیں کہ آخر انکی ابتدا کہاں سے ھوئی۔
ھم ایسا اس لئے سوچتے ھیں یا ھماری یہ سوچنے کی نہج اس لئے ایسی ھے کیونکہ ھر جاندار کی کوئی ابتدا ھمیں نظر آتی ھے۔۔ہر عمومی پروسس کو ہم بنتے شروع ہوتے دیکھتے ہیں یہ ھمارا روز کا مشاھدہ ھے۔
عام انسان نہیں جانتے کہ پلاسٹک کیسے بنتا ھے، وہ اس پر سوال نہیں اٹھاتے کہ پلاسٹک اور نائیلون کیسے وجود میں آگیا؟ تیل سے بھلا پلاسٹک کیسے بن سکتا ہے وہ نہیں کہتے یہ پاگل پن اور جھوٹ ہے۔۔بس مان لیتے ہیں
وہ سوچتے ھیں فیکٹری میں بنتا ھے اور وہ بس اسی علم پر مطمئن ھیں،لیکن سائینس کسی بھی چیز، کا مشاھدہ مخلتف سطح کے علوم سے کرتی ھے ، عام انسان لاؤڈ سپیکر کی آواز روز سنتا ھےمگر جانتا نہیں یہ کام کیسے کرتا ھے؟ آواز کیا ھے؟ کیسے وائیبریشن والی صوتی لہریں۔۔مائیک کے پردے سے ٹکراتی ھیں۔۔ پھر اس پردے سے آگے جو لرزش پیدا ھوتی ھے اس کے اثر کو کیسے مقناطیسی میدان برقی رو میں منتقل کرتا ھے پھر کیسے وہ برقی پیغام میں منتقل ہوتی ہے آگے منتقل ھو کر پھر کسی سپیکر سے آواز کیسے خارج ھوتی ھے عام انسان کو اسی طرح دنیا کی کروڑوں چیزوں اور اربوں کھربوں کیمائی تعاملات کا علم نہیں ھوتا۔۔
لیکن اُسے ایک علم ھوتا ھے کہ ایک مذھبی خدا ھے جو سب دیکھ رھا ھے اچھے بُرے کو جزا سزا دیتا ھے پتّے ھِلتے نوٹ کرتا ھے بادل لاتا ھے زلزلے لاتا ھے سیلاب لاتا ھے۔ فرشتے رکھتا ھے شیطان سے اسکی لڑائی ھے۔۔۔یہ عام انسان کوصرف پتہ ھی نہیں ھوتا بلکہ وہ اسے ایسا سچ سمجھتا ھے کہ اس کے انکار پر آپ کو قتل کر دیتا ھے۔اپنے بیوی بچوں ماؤں بھائیوں کو قتل کر دیتا ھے کہ اس خدا کا انکار کیوں کیا۔۔۔تاھم آپ کو معلوم ھے کہ یہ عام انسان دنیا کی کروڑوں چیزوں کا علم نہیں رکھتا۔۔ اسے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانا ھوتا ھے سائیکل خراب ھو تو میکینک کے پاس جاتا ھے۔ روٹی کے لئے کسان کا محتاج ھے۔تعلیم کے لئے سکول و استاد کا محتاج ھوتا ھے۔لیکن ایک بات پر اسکے یقین ایمان اور علم ایسے پکّے ھوتے ھیں کہ وہ آپکو کافر مُلحد زندیق بندر خنزیز کہہ دیتا ھے۔ زندگی اجیرن کر دیتا ھے۔
تو صاحبو۔۔۔۔ایسا عام انسان اس لئے ایسا کرتا ھے کیونکہ اسکے دماغ کی برین واشنگ یا بچپن سے تربیت اس مسلّط کردہ ایمان یا غیبی عِلم کے سائے میں ھوتی ھے۔وہ اِس کنویں سے باھر سوچنے سے معزور ھوتا ھے۔!
اُسے کنویں سے باھر جو دکھائیں گے وہ اسے چُلّو بھر پانی کہے گا۔ وہ اپنے موجود کو ھی احسن ترین سمجھے گا۔ وہ دوسروں کو کافر باطل دوزخی کہے گا اور اس پر دل سے یقین رکھے گا اسکا کوئی قصور نہیں ۔۔یقین کریں اسکا اس میں کوئی قصور نہیں وہ چونکہ اس فاسد تربیت سے گزرا ھے جس میں اَن دیکھے پر ایمان فرض ھے اُسے صرف وہ دلائل پسند ھونگے جنکی روشنی میں وہ اپنے ھی عقیدے ایمان مذھب یا علم کو سچا ثآبت کر سکے۔ ھر وہ بات جو اسکے پسندیدہ عقیدےکے خلاف ھوگی وہ کافرانہ ، دھریانہ، بُری، باطل ، گمراہ کُن ھوگی۔
دوسری طرف سائینس ایسا علم ھے جس میں ایمان و عقیدے کے پرچار کی روشنی میں کسی بھی چیز، منظر، مادے، آواز، لہر، موج، پروسس وغیرہ کو نہ صرف پرکھا جاتا ہے بلکہ مشاھدے تجربے اور جزیاتی پیچیدگیوں کی تہوں کو کھنگالنے کے بعد کوئی نتیجہ بھی نکالا جاتا ھے۔ اگر نامعلوم ہو تو کوئی نظریہ قائم کیا جاتا ہے لیکن کوئی زبردستی نہیں کی جاتی کہ اس پر ایمان لانا یقین کرنا لازم ہے۔۔۔پوچھا جاتا ھے کہ آپ کوئی شواھد لائیں کوئی تجربہ کر دکھائیں۔
سائینس نے قدیم ترین فوسلز میں ابتدائے حیات کے شواھد تلاشے اور یہ نتیجہ نکالا کہ شاید ابتدا میں یک خلیاتی حیات۔ کیمیائی تعامل سے پیدا ھوئی ھوگی۔۔پھر اینٹروپی کے نظرئیے کے تحت کثیر خلوی جاندار بنے۔۔اور یوں ارتقائی طور پر موجودہ جانداروں تک وقت پہنچ گیا۔
تاھم اس نظرئیے کے مطابق ابتدائی حیات یا جاندار خلئیے میں ضربی تحریک کیسے پیدا ھوئی؟ یعنی خلیہ خود ھی کیسے مزید خلیوں کو جنم دینے کا کام کرنے لگا؟ یہ سوال، شافی جواب نہیں پا سکا۔ کیونکہ جدید ترین ریسرچ میں بھی کسی ضرباتی خود کار حیاتیاتی خلیہ یا خلیوں کو کسی جینیٹک ھدایت نامے کی تابعداری کرنی لازم ہوتی ہے۔تو جینیٹک کوڈ کیسے آ داخل ھُوا؟
ادھر مذھبی سائنسی یا مذھبی غیر سائینسی نظرئیے کے مطابق ایک خدا ھے جو ھمیشہ سے ھے ھمیشہ رھے گا اور اُس نے زمین بنائی۔۔آسمان بنایا۔۔اور ھوا ۔. پانی اور عناصر بنائے۔۔۔اور حیات بنائی۔۔۔اور وہ اسکو کنٹرول کرتا ھے۔۔ وہ طیش میں زلزلہ لاتا ھے تاکہ لوگ اچّھے ھو جائیں بیماریاں لاتا ھے تاکہ سزا دے۔۔۔سیلاب لاتا ھے تاکہ سزا دے ۔۔۔ بجلی چمکاتا ھے کہ ڈرائے اور آنکھوں سے بینائی لے جائے۔۔۔ یخطف ابصارھُم۔۔۔
اور یہ خدا یعنی یہ مذھبی خدا بہت سی صفات رکھتا ھے جیسے قرآن میں صفاتی نام۔۔جیسے بائیبل میں صفاتی نام ھیں۔
یعنی، رحیم، مہربان، سمیع، غنی، بصیر، نزیر، ودود، باری، مصور، کریم، غفور، مکّار، وغیرہ (اللہ خیر الماکرین)
اپنی صفات کی روشنی میں خدائے مذھبی نے زمین پر حیاتیاتی نظام بنایا۔۔۔ جو ھم دیکھتے ھیں۔ کہ جاندار آکسیجن کے محتاج بنائے۔۔ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ھیں جو درختوں پودوں کو ملتی ھے وہ جذب کر کے واپس آکسیجن بناتے ھیں۔
اسی خدا نے جاندار بنائے۔۔۔ جانور بنائے۔۔۔ جن میں بھیڑیا، کُتے، بھگیاڑ، مگرمچھ، شیر ، چیتے۔۔ نیولے، عقاب، بنائے۔۔۔۔جو گوشت خور ھیں۔ پس اس خدا نے دوسرے جانور بنائے جو گھاس کھاتے ھیں اور انکو یہ گوشت خور کھاتے ھیں۔
اب چونکہ وہ مذھبی خدا رحیم۔بہت رحم کرنے والا ترس کھانے والا۔ مہربان مشفق اور ماں کی درد درد رکھنے والا ھے اس لئے اس نے ایسا نظام بنایا جس میں گوشت خور دوسرے جانوروں کو نوچ نوچ کر کھاتے ھیں۔نوچے جانے والی گائے بھینس بکری ھرن ھاتھی۔۔زرافے، بندر ، وغیرہ ۔۔ درد کی شدت سے چیختے ھیں۔ ایک جانور ماں کے سامنے اسکے بچے کو شیر ، بھیڑئیے نوچ نوچ کھاتے ھیں۔ اب چونکہ خدا بڑا رحیم ھے اور ترس کھانے والا ھے ۔۔۔مخلوق روئے تو اسکو ترس آتا ھے تو اس نے ایسا نظام کیسے بنایا جس میں گوشت خور دوسرے جانداروں کو ضرورت میں اور بلا ضرورت بھی قتل کریں بھنبھوڑیں نوچیں انکی بوٹیاں کاٹ کاٹ کھائیں؟ کیا خدا ترس کھانے والا نہیں؟ آپ تو کہتے ھیں مذھبی خدا ترس کھانے والا مہربان رحیم ھے پھر۔۔۔یہ تکلیف دینے والا نظام کیوں؟ اگر آم ، سیب کیلا کھانے سے پھلوں کو تکلیف نہیں ھوتی تو سب کو سبزی خور ھی بنا دیتا ۔۔ لیکن مچھلی کو مچھلی کھا رھی ھے۔۔ھزاروں قسم کے جانور ایک دوسرے کو قتل کر کے کھاتے ھیں۔ایسا نظام بنانے والا کیسے رحم کرنے والا ھو سکتا ھے۔۔کیسے ماں کی طرح اولاد کے لئے رو سکتا ھے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ ھمارا کنویں جیسا دماغ جو مذھبی تعلیم سے محدود کر دیا ھو گیا اُس نے خیالی مذھبی خدا کی صفات خود بنائی ہوں؟ ترس کھانے کا تصور شاید خود انسانی دماغ کی صفت نہ ھو؟ ایسا کیوں ہے ۔آپ نے کبھی نہ سوچا؟ آپ کہیں گے کہ خدا نے یہ نظام ھی ایسا بنایا ھے۔ تو پھر میں یہی سوال کروں گا ایسا تکلیف دہ نظام کیوں بنایا ھے؟ یا پھر جانداروں کو ایسی حِسّیات ھی نہ دیتا کہ وہ اس ظلم یا کریہہ نظام کو بُرا اور بےرحمانہ سمجھیں۔ یہ صلاحیّت ھی نہ دیتا؟
اگر صلاحیّت بھی دی ھے اور بے رحمانہ نظام بھی بنایا ھے تو یقینی بات ھے کہ وہ رحم پر مبنی نظام بنانے کی صلاحیّت سے عاری تھا۔ورنہ وہ اپنی صفاتِ مہربانی و رحم کی وجہ سے بے رحمانہ نظام نہ بناتا۔۔
یا پھر۔۔ خدا میں یا بنانے والے میں رحم کی صفت موجود ھی نہیں اور ھم اپنے کنویں میں سوچ کر جو صفت اس سے منسوب کر بیٹھے ھیں وہ اسکی نہیں ھماری انسانی صفت ھے !
اس گفتگو سے یہ ثابت ھو گیا ھے کہ خدا کی ایسی صفات جو نرمی مہربانی رحم ترس محبت پر مشتمل ھیں وہ انسان نے بنائی ھیں۔ خدا کی صفات نہیں ھیں۔یا پھر یہ وہ والا خدائے مذھبی نہیں ھے کوئی اور خدائے قدرتی ھے جو ایسی کسی بھی صفت سے عاری ھے
سائینس ھمیں سمجھاتی ھے کہ دیکھو۔۔۔ بجلی کوئی نہیں چمکاتا بلکہ فضا میں موجود گیسیں اور ھوا کا دباؤ اور پانی کے بخارات اور مقناطیسی میدان یہ سب کچھ پیدا کرتے ھیں جسے ھم آسمانی بجلی کہتے ھیں جو مندروں مسجدوں گورو گھروں ، کعبہ ، وغیرہ پر ضرور گِرے گی اگر وھاں خدا کے حملے سے بچاؤ کے حفاظتی ارتھ سسٹم والا آلہ نہ لگائیں!
یعنی خدا کے اپنے گھروں کو بھی اُسی کے غضب یعنی بجلی سے بچانے کے لئے انسان کو آلہ ایجاد کرنا پڑ گیا۔ اس دلیل کے جواب میں مذھبی علما کی آئیں بائیں شائیں دیکھنے والی ھوگی ، وہ کہیں گے انسان کو خدا نے عقل اسی لئے دی ھے۔ مگر بجلی خدا کے حکم سے کسی پر سزا کے لئے گرنے والے پرانے عقیدے کو خود ھی جُھٹلا دیں گے کہ فلاں الہامی کتاب میں جو لکھا ھے وہ اور حوالے سے ھے اور حدیثیں تو خدائی نہیں ھیں بعد کے لوگوں نے بنائی ھیں۔
بائیبل میں بتایا گیا کہ کافروں پر خدا نے بجلی گِرائی۔۔۔ موجودہ احمدی فرقہ کے بانی نے لکھا کہ زلزلہ خدا کی ناراضگی کا اظہار ھے۔ اور ایک واقعہ لکھا کہ ایک عمارت میں مرزا صاحب موجود تھے اور اسی میں دور دراز اندرون میں ایک ھندو جوگی بھی تھا۔۔۔ بجلی عمارت پر گِری مرزا صاحب محفوظ رھے لیکن وہ ھندو پنڈت جل کر راکھ ھو گیا حالانکہ وہ بجلی سے زیادہ دوری پر تھا۔۔۔۔اسی طرح مرزا صاحب گزشتہ مذھبی بزرگوں صوفیوں رسولوں کی طرح کے واقعات میں مخالفین کی موت کی پیشگوئیاں کرتے تھے۔ لیکن اپنے ھی نو عمر بچے مبارک احمد کی وفات کو بھی اپنی ھی سچائی کا نشان بنا ڈالا کہ مجھے پہلے سے خدا نے بتادیا تھا کہ وہ مر جائیگا۔ یہ عجب منطق ھے کُل انسانیت کو یہ منطق سمجھ نہیں ا سکتی مگر یہ منطق مذھبی کو سمجھ آئیگی اور وہ ایمان لائے گا کہ بالکل درست ھوا اللہ کی مرضی ھی ایسی تھی۔ اتفاق دیکھیں بالکل یہی حال محمد رسولِ عربی کا ھُوا کہ انکا بیٹا نو عمری میں تڑپ تڑپ کر مَر گیا۔۔۔ بعد میں نوجوان ماں بھی مَر گئی۔۔۔ دوسروں کی شفاعت کرنیوالے اور دوسروں کو لعاب دھن لگا کر شفا دینے والے کُل آسمان کی سیر کرنے والے خدا سے ملاقات کرنیوالے کو آنسو بہانے پڑے اور بچے کو نہ بچا سکے نہ کوئی دعا کام آئی نہ خدا کی مدد ، اُلٹا بیوی بھی مَر گئی۔لیکن اس واقعی سے ماننے والے مذھبی کے ایمان میں کمی نہیں ھوئی اور مضبوط ھُوا کہ اللہ کی مرضی تھی اللہ نے واپس لے لیا۔۔اور یہ نمونہ خلقت کو خدا نے دکھانا تھا کہ دیکھو نبی کا بیٹا بھی اللہ مار سکتا ھے اسکی رضا پر راضی ھونے کا نمونہ دکھایا گیا ھے۔ بالکل ایسے ھی مسیح بن مریم کا صلیب پر چڑھنا ، لوگوں کو گناھوں کا کفارہ ھو گیا۔۔۔ یا یہ کہ دیکھیں جی اللہ نے پہلے ھی سے بتادیا تجھے صلیب ھوگی اور تیرا فلاں حواری مخبری کرے گا۔۔مذھبی ایسی بنائی گئی سب کہانیوں کو سچ ھی سمجھتا ھے یہ کہانیاں بار بار سنا کر اسکا ایمان مضبوط کیا جاتا ھے۔
چھاپہ خانے کی ایجاد کو کُفر کہا گیا۔گانے بجانے کو کُفر کہا گیا۔فلمیں، اور بُت گری کو کُفر و شرک کہا گیا۔خدا کے کام میں مداخلت کو ناقابل معافی جرم کہا گیا جس میں دوائیں بھی شامل ھیں۔جیسے افغانستان و پاکستان میں پولیو کا ختامہ نہیں ھو سکا کیونکہ مقامی جاھلیت اور مذھبی جاھلیت کا اتفاق ھے کہ ویکسیئن اور دوائیں خدا کے کام میں مداخلت ھیں اور کافروں کی ایجادیں ھیں۔ انکار کرنے والے انکار کرتے رھے۔۔۔ مذھبیوں نے پھر جدید ایجادات کو تھوڑا بہت ماننا شروع کیا۔۔لیکن اس میں کوئی نہ کوئی مذھبی شدت برقرار رکھی۔۔ مثلاً دوا کھانے سے پہلے اس پر فلاں سورۃ پڑھ کر پھونکو۔۔ دوا حلال ھو حرام جزیات نہ ھوں۔۔ پھر آھستہ آھستہ اجتہاد کر کے معانی بدل کر ایسی آیات چن لیں جنکے مطالب مشتبہ ھیں۔۔کہا گیا کہ اسلام میں تصویر بنانا منع ھے۔۔ پھر اسلامی بزرگوں نے کہا ھماری تصویر تبلیغ کی اشعات کے لئے تو ٹھیک ھے ورنہ کُفر و بُت گری ھے۔
پھر آیات کے مطالب کہیں سے کہیں لے گئے۔۔ کیونکہ زمانے کا ارتقائی کُلی شعور پرانے افلاس زدہ خیالات کو رد کر رھا تھا تو معانی کی بجائے تشریحات کا سہارا لیا گیا۔ کہا گیا فلاں فلاں آیات اصل میں صرف فلاں اَمر سے متعلق ھیں انکا اطلاق یکساں ھر وقت ھر عمل پر نہیں۔
کہا گیا النجم و شجر یسجدان۔ کہ خدا کو ستارے سجدہ کرتے ھیں۔ کا مفہوم یہ نہیں اصل میں اس سے مُراد درختوں جیسی سایہ دار ھستیوں کا خدا کو سمجدہ کرنا ھے۔۔یا پھر درختوں کے سجدے سے مراد خدا کی پیداواری تخلیقی صلاحیت کی ودیعت کا شُکر ھے۔ غرض اُلجھا اُلجھا کر مذھبی ذھن کو بند کر دیا گیا۔
عام مذھبی انسانی ذھن چونکہ مذھب کے مقیّد کنویں میں ھی سوچتا ھے اس لئے اسکی تسکین مذھبی علما یہ کہہ کر کرتے ھیں کہ خدا کی مرضی اسی میں ھے۔۔ بچہ پیدا ھوتے ھی بیماری سے مَر گیا تو خدا کی مرضی ھے معزور پیدا ھوا تو خُدا کی مرضی ھے۔ قرآن کہتا ھے کہ تمھارے چچا کے لڑکے لڑکیاں تم پر حلال تو سائینس کہتی ھے تھیسیلمیا کی بیماری اس سے بڑھ رھی ھے مت کرو کزنوں میں شادی ورنہ معزور معاشرہ بن رھا ھے۔
مذھبی کہتا ھے پولیو کے قطرات خدا کے عمل میں رکاوٹ ھیں۔ کورونا وائرس مغرب نے پھیلایا ھے وہ مسلمانوں کی نسل بندی کرنا چاھتے ھیں۔
پھر ایک طرف کوئی نبی رسول ولی اللہ خلیفہ پوپ پنڈت ربی گورو ، مخالفوں کی موت کو اور مخالفوں کے بچوں کی موت کو اپنا خدائی مجعجزہ ھائے دعا بتاتا ھے لیکن اپنا بچہ مَر جائے تو اُسے مخالفین کی سچائی نہیں مانتا بلکہ خود پر ابتلا کہہ کر بات گُھما دیتا ھے۔ کہ مجھے خدا نے میرے بچے کی موت کے بارے خود پہلے ھی بتا دیا تھا۔۔ یعنی مخالف کا بچہ مَر جائے تو خدا سے انکا تعلق ۔۔۔اپنا بچہ مَر جائے تو بھی خدا سے تعلق پکّا ھے
مذھبی کتب میں غیر مذھب کو مخالفوں کو خدا بُرا بھلا کہتا ھے ۔۔۔ مگر غور سے دیکھیں تو جو جو الفاظ خدا مخالفوں کے لئے استعمال کرتا ھے وہ سارے انسانی خصائلِ بد ھیں۔
یعنی صاف پتہ چلتا ھے ان الہامی کتابوں میں خدائی طیش و غضب اصل میں انسانی غصہ مایوسی ناراضگی وغیرہ ھے
جیسے دیہات میں پنجابی میں کچھ ھو نہ سکے تو کہتے ھیں۔۔تیرا ککھ نہ رھوے۔۔۔ تُوں ڈُب مَریں،، تینوں شالہ موت آوے۔۔۔ اوئے لعنتی،،، اوئے مُورکھ۔۔۔
تجھے خدا بے اولاد رکھے۔۔۔ تُو اندھا گونگا بہرا ھے۔ تُو بندر جیسا ھے تُو خنزیر جیسا ھے۔۔اوئے مکٗار لُومڑ اوئے گیدڑ !۔
یعنی خدا اپنی ھی ایک مخلوق، انسان ،کو اپنی ھی دوسری مخلوقات جیسا بتا کر بُرا بھلا کہتا ھے۔۔
خدا خود ھی کہتا ھے۔۔ان نہ ماننے والے لوگوں کے دِلوں میں پہلے سے ھی بیماری ھے اور اللہ انکی بیماری اور بڑھاتا ھے۔۔فی قلوبھم مرض فزاد ھم اللہ مرض،،،،،،،یاد رھے کہ یہ خدا وہ خدا ھے جو ماں سے زیادہ اپنی مخلوق سے پیار کرتا ھے۔ اور رب ھے اور رحیم ھے اور کریم ھے اور غفور ھے ۔۔اور ودود ھے۔۔اور رحمان ھے۔۔
اچھا اب اس مذھبی خدا کو ماننے والوں کے مختلف علمی ذھنی طبقے ھیں۔ جو بہت فاتر العقل ھیں وہ تو ایک آدھ آیت کے بعد جواب سے معزور ھو جاتے ھیں
دوسرے وہ جو تھوڑا بہت جانتے ھیں کچھ ادھر سے لیا کچھ ادھر سے لیا اور پھر ایک ملغوبہ قسم کا ایمان اپناتے ھیں جس میں بات کو گُھما پِھرا اپنا عقیدہ سچا ثابت کرنا مقصود ھوتا ھے۔لیکن تفسیر و پیچیدہ مسائل کے لئے وہ مفسّر نما مذھبیوں کے محتاج ھوتے ھیں۔ جیسے ذاکر نائک، یا جاوید غامدی ایسے مذھبیوں کی تشفّی اپنی امثال سے کر دیتے ھیں۔
مثلاً جب غامدی جی سے پوچھا گیا کہ یہ قرآن میں بار بار لالچ اور دھونس و ڈراوا ، کیوں خدا کی طرف سے آتا ھے؟ یہ حوروں کا ذکر ڈھکے انڈوں جیسی بڑی موٹی آنکھیں۔ حُوریں جو کنواری ترین ھونگی۔۔۔ تو عورتیں کیا پائیں گی؟ تو ھنس کر یا تو ٹال دیتے ھیں یا کہہ دیتے ھیں وہ اصل میں بیویاں ھی ھونگی یا محسوسات ایسی ھونگی ۔۔وغیرہ
ایک درس کے دوران جاوید غامدی نے شہری کی جانب سے بھیجا گیا سوال پڑھا، شہری نے پوچھا ”جنت میں حوریں ہوں گی جنہیں اہل جنت سے پہلے کسی جن و انس نے چھوا نہیں ہوگا ،کیا اہل جنت ان حوروں کے نتیجے میں اولاد سے بہرہ ور ہوں گے؟“۔
شہری کے سوال پر جاوید غامدی نے کہا ایک تو یہ سمجھ لیجئے کہ حور کوئی مخلوق نہیں ہے بلکہ حور ایک صفت کا نام ہے جس کا مطلب آہو چشم ہے ، آپ کی بیویاں ہی حوریں ہوں گی، اب آپ غور کریں تو قران میں آھُو چشم کا کوئی لفظ نہیں۔۔ ڈھکے انڈوں جیسی آنکھیں کہا ھے۔۔۔ جسکو اردو میں غلافی آنکھیں کہتے ھیں۔ تاھم آھو چشم، یعنی غزال یا ھرن کی انکھ جیسی خوبصورت آنکھ ، غامدی صاحب نے اللہ کی مرضٰ سے قرآنی تفسیر میں بطور آیت ڈال لی اور کوئی اُن سے پوچھتا نہیں کیونکہ سب پہلے سے مانے بیٹھے ھیں۔
آپ خود ایمانداری سے سوچیں قرآن میں صآف صاف لکھا ھے لیکن یہ مُلاں اپنے معانی بناتے ھیں۔ائیے ذرا اسکو پھیلاتے ھیں
حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِۚ(۷۲)فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِۚ(۷۳)ترجمہ: کنزالایمان
حوریں ہیں خیموں میں پردہ نشین تو اپنے رب کی کون سی نعمت جھٹلاؤ گے
تفسیر: ‎صراط الجنان
{حُوْرٌ: حوریں ۔} ارشاد فرمایا کہ ان جنتوں میں خیموں میں پردہ نشین حوریں ہیں جو کہ اپنی شرافت اور کرامت کی وجہ سے ان خیموں سے باہر نہیں نکلتیں ۔ (خازن، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۲، ۴ / ۲۱۵)
جنتی حور اور ا س کے خیموں کا حال:
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر جنتی عورتوں میں سے زمین کی طرف کسی ایک کی جھلک پڑجائے تو آسمان وزمین کے درمیان کی تمام فضا روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنّۃ والنار، ۴ / ۲۶۴، الحدیث: ۶۵۶۸)
اورحضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’مؤمن کے لئے جنت میں ایک کھوکْھلے موتی کا خیمہ ہو گا، اس کی لمبائی 60میل ہو گی، مؤمن کے ا ہل ِخانہ بھی اس میں رہیں گے ،مؤمن ان کے پاس (حقِ زوجیّت ادا کرنے کے لئے) چکر لگائے گا اور ان میں سے بعض بعض کو نہیں دیکھ سکیں گے۔( مسلم،کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا،باب فی صفۃ خیام الجنّۃ وما للمؤمنین فیہا من الاہلین،ص۱۵۲۲،الحدیث: ۲۳(۲۸۳۸))
{فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ: توتم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟} یعنی اے جن اور انسان کے گروہ! اللہ تعالیٰ نے وہ نعمتیں پیدافرمائیں جو تمہارے لئے پردہ نشین اور (دوسروں سے) چھپی ہوئی ہیں توتم دونوں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟( روح البیان، الرحمٰن، تحت الآیۃ: ۷۳، ۹ / ۳۱۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر کے بیانات کو دیکھیں اور جاوید غامدی سمیت بہت سے ایسے مذھبی علما کی تاویلات کو سنیں تو آپ اگر برین واشڈ نہیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ سب الہامی کتابیں انسانی کاوشیں ھیں۔۔۔ان میں کچھ اس پرانے عہد میں قدرے روشن خیال باتیں سمجھی جا سکتی ھیں۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ھے کہ جو کتاب خود کھول کھول کر مچھر جتنی حقیقت بھی لاریب طریق پر بیان کرتی ھے وہ حوروں کا لالچ دیتے ھوئے یہ کیوں نہیں بتاتی کہ تمھاری موجودہ بیویاں آخرت میں کنواری بن جائیں گی اور خوبصورت بن جائیں گی وغیرہ۔؟ خدا کو مسئلہ کیا ھے کہ اسکی بات غامدی جی کو ھی سمجھ آتی ھے پورے عرب کو سمجھ نہیں آئی؟
اور پھر مخاطب بھی وہ زمانہ جہاں لونڈیاں خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ حسین عورتوں کے دام بہت بالا تھے۔۔جہاں لونڈی کو خریدنے والے کے لئے عین حلال تھا کہ وہ اسکے اعضا دبا کر دیکھے پسند کرے۔۔ وھاں اپنی پرانی بیویوں پر عربی انسان کیسے قناعت کرتے؟ صآف ظاھر ھے آخرت میں مظلوم کو ظالم کے مقابلے پر جنّت کی نعمتیں ملیں گی۔۔۔اور رسول کے ساتھیوں کو اعلی مدارج ملیں گے کی ترغیب گروہ کو بڑھانے کی انسانی کاوش کا نتیجہ ھے۔
کسی مذھبی خدا سے اسکا کوئی تعلق نہیں ، نہ ایسا کوئی خدا ھے۔ جس کو ستارے سجدہ کرتے ھیں۔۔۔یا اشجار سجدہ کرتے ھیں۔
النجم و الشجرُ یسجدان۔۔۔
،،،،،
تاھم جب آپ سائینس اور علقیت کی طرف آئیں تو آپ دیکھتے ھیں کہ
کوئی نہ کوئی طاقت ھے یا طاقتیں ھیں جنہوں نے فزکس کے اصولوں کے تابع رہ کر حیاتیات بنائی۔۔ایسی طاقتیں ایک ھوں یا چار یا پانچ سو اس سے ھمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔
سائینس مسلسل دریافت کا علم ھے۔کئی اور ڈائیمینشن ھو سکتی ھیں۔۔جن تک ھماری رسائی نہیں ھے۔۔۔۔ یا محدود کر دی گئی ھے۔ اگر رسائی ھوئی تو ان طاقتوں سے ملاپ ھو سکتا ھے۔۔ تاھم مذھبی خدا بقول مذھب رحم کرتا ھے مہربان ھے غنی ھے سلیم ھے سمیع ھے۔۔تاھم غور کریں تو حیاتیاتی نظام میں کوئی رحم نہیں سوائے مادر پدر کے شفقت پدری و مادری کے رحم نہیں ھے ۔کیونکہ حیات کے سلسلے کو چلانا ھے وہ بھی ٹوٹا پھوٹا رحم ھے کئی جگہ ماں باپ بچے کو خود ھی مار دیتے ھے۔ ماں بچّے کو کھا بھی لیتی ھے کئی جانور اپنے بچوں کو کھا جاتے ھیں۔۔ قدرت میں ھماری انسانی رحم کی صفت کا کہیں پتہ نہیں۔۔ جاندار دوسرے جانداروں کا حق مار کے خود زندہ رھتے ھیں بھیڑئیے اور بیسیوں جانور دوسروں کو زندہ نوچ نوچ کھاتے ھیں۔
کیا آپ دیکھنا پسند کرتے ھیں کہ ھرن یا گائے کو سات آٹھ بھگیاڑ زندہ نوچ نوچ کر کھائیں؟ آپ اس منظر کو دیکھ کر دکھ محسوس کرتے ھیں یا بہت لذّت ملتی ھے؟
اگر ھم کسی جاندار کی تکلیف نہیں دیکھ سکتے تو خدا تو رحیم کریم مہربان ھو کر کیسے ایسا نظام بنا سکتا ھے۔۔کوئی قصائی کبھی شاعر نہیں بن سکتا کیونکہ شاعر کے لئے نازکیِ خیالات، ترحّم، جذبہ، فکر، گہرائی ، ندرت اور اُپچ لازم ھوتی ھے۔
۔۔۔ پس ھمارا مشاھدہ بتاتا ھے کہ قدرتی خدا کبھی رحیم کریم مہربان غفور سمیع علیم نہیں ھو سکتا۔ ورنہ وہ ایسا ظالمانہ تکلیف دہ نظام نہ بناتا۔۔
آپ نے تصاویر دیکھی ھونگی کہ ایک معروف پاکستانی کرکٹر اپنی معصوم پانچ چھ سال کی بچی کو جانور کی گردن کاٹتے یا کٹی گردن دکھاتا ھے وہ روتی ھے اور نہین دیکھنا چاھتی، کیونکہ بچے ابتدا میں ایساے ظالم طبع نہیں ھوتے۔ بعد مین انکی تربیت انہیں اچھا یا بُرا بناتی ھے۔ تاھم یہ معاملہ صرف انسان کے ساتھ ھے ، وہ مذھبی کرکٹر جگہ جگہ نمازیں پڑھتا دکھایا جاتا ھے، کیا مذھب کی تلقین جانوروں کا قتال ھے؟ معصوم بچی کو کیا تربیت دے رھا تھا؟
کیا آپکو علم ھے کہ جانوروں کے انسداد بے رحمی کے قوانین کافر اقوام نے بنائے ھیں؟ حتی کہ درختوں تک کی حفاظت کے عالمی قوانین کافروں نے بنائے ھیں۔مذھب نے یہ بتایا کہ مجرم کو سزا کے طور پر اسکے ھاتھ کی کون کون سے انگلی شریعت میں کاٹنی ضروری ھے۔
مذھبی خدا نے کیوں ایسی شریعت بنائی؟خدا میں انسانی غصہ کیوں ھے؟ خدا غصہ کرنے کی بجائے دلوں کی بیماری ٹھیک کیوں نہیں کرتا؟ خدا معزور کیوں پیدا کرتا ھۓ؟ خدا نے بیماریاں کیوں پیدا کیں؟ خدا ھر چیز پر قادر ھے تو پاخانہ اور غلاظت والے نظام کی بجائے کچھ اور کیوں نہ بنایا؟
آپ سوچیں اور پھر آپ سمجھیں گے کہ مذھبی خدا انسان کا بنایا گیا تصوّر ھے۔ اور قدرتی خدا وہ ھے جو حیاتیاتی نظام بنانے والی قوت ھے
وہ قوت کدھر ھے یہ سائینس ابھی تک معلوم نہیں کر سکی۔۔ جیسے سائینس اور کُل انسانی شعور کو پہلے بہت سی باتیں معلوم نہ تھیں۔۔ کہ جیسے زمین کی کششِ ثقل ھے۔ یا زمین سورج کے گرد گھومتی ھے۔ یا آسمان اوپر نہیں ھر طرف ھے۔۔ یہ بتایں سائینس نے لاکھوں سال بعد دریافت کی ھیں اس لئے جلدی کی کوئی ضرورت نہیں ذرا صبر کریں۔ سوچیں قدرتی خدا کسی اور ڈائمینشن میں ھوگا۔۔۔نہ بھی ھو تو ھمیں کوئی فرق تو پڑتا نہیں ھم بیماریوں اور قدرتی آفات سے خود ھی لڑتے ھیںَ ھر بظاھر معجزے اور جادو کا سائینسی تجزیہ موجود ھوتا ھے کوئی جادو نہیں ھوتا ۔کسی روح کا ھونا سائینس سے ثابت نہیں۔۔ جِلد کو لیبارٹری میں اُگایا جا سکتا ھے۔۔اب اعضا بھی بنائے جائیں گے۔ دِلوں میں بیماری ھے کے مقابل سائینس نے ربڑ کا دل بنایا اور دنیا میں کئی مریض اُسی دل کی پمپنگ سے جی رھے ھیں۔
مُلّاں کہیں گے قرآن میں جو انکے دِلوں میں بیماری سے مراد ھے وہ دماغ ھے۔۔تو پھر۔۔ رسول کا اوپن ھارٹ آپریشن یاد آئیگا جس میں جبریل نے دل کو صاف کیا تھا۔۔ ظاھر ھے کوئی بیماری ھی ھوگی،،، لیکن یاد رکھیں دل نکالا تھا دماغ نہیں۔۔۔ پس ۔۔ آپ جو دلیل دیں وہ آپکو واپس ادھر بھی لاگو کرنی ھوگی۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا نے کہا تھا دِلوں میں بیماری ھے مگر اصل میں دماغوں میں بیماری مُراد ھے۔
اور یُوں بھی پہلے ادوار میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ انسانی حیات کا دارو مدار یا جزبات کا منبع اور مرکز دل ھے۔۔اسی لئے ھم اب بھی کہتے ھیں۔ میرے دل میں یہ خیال آیا۔۔جبکہ دل میں نہیں دماغ میں خیال پیدا ھوتا ھے۔
میرا کُھلا استدلال یہ ھےکہ جب جبریل نے سینہ کھولا تو وھاں دماغ کھولنا چاھئیے تھا۔ ایمانی بیماری دل میں نہیں ھوتی دماغ میں ھو سکتی ھے
میں نے یہاں تک کا سفر 50 سال میں کیا ھے۔ اچانک نہیں پہنچ گیا۔
جن دھریوں اور ملحدین کو قدرتی خدا کی ترکیب پسند نہیں آئی وہ کوئی بھی نام رکھ لیں، لیکن یہ ثابت ھے کہ ارتقائی طور پر کوئی حیات خود نہیں بن سکتی
ان دھریوں اور خاص پاکستانی دھریوں میں کسی کا علم بھی طبیعات کے عالمی ماھر سائینسدان برائن کاکس کے برابر نہیں ھے اُس کی ویڈیوز ھی دیکھ لیں شاید سمجھ سکیں کہ حیاتیات کو پیدا کرنے والا خدا یا خدائی طاقتیں، کائناتی یا مادیاتی منبع سے مخلتف ھیں
ورنہ مَیں تو حیاتیاتی خُدا کے ھونے نہ ھونے دونوں سے ھرگز پریشان نہیں ھوں لیکن جو بھی خدا ھے اسکو میرا یہ پیغام ھے کہ۔
،،،،،،،
اگر خُدا نے چلایا ھے یہ نظامِ حیات
قسم خُدا کی بہت ھی بُرا چلایا ھے
۔۔۔رفیع رضا۔۔کینیڈا 2021۔۔
ساتھ میں حجرِ اسود کی اسلامی تاریخ بھی لف کر دیتا ھُوں تاکہ سند رھے کہ نام نہاد بہشتی پتھر کی عصمت دری کیسے خود مسلمانوں نے کی ھے۔۔۔
چونکہ حج آنے والا ھے اس لئے اللہ و سعودی عرب نے ، خانہ کعبہ میں نصب کالے پتھر کی ھائی ریزولیوشن فوٹوز میڈیا کو دی ھیں۔ اور اللہ مارکیٹنگ کو تم سے بہتر جانتا ھے
یہ پتھر امکانی طور پر شہاب ثاقب کا ٹکڑا ھے جو دنیا بھر میں گرتے رھتے ھیں،
حجر اسود کے حوادث تاریخ کے آئینے میں
حجر اسود عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود سیاہ اور کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ حجر اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ یہ ٹکڑے اندازاً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے۔ جو مسلمان حج یاعمرہ کرنےجاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجراسود کو بوسہ دیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جاسکتا ہے۔ جس کو استلام کہتے ہیں۔
تاریخ وحوادث
تاریخ میں کم ازکم چھ واقعات ملتے ہیں جب حجر اسود کو چوری کیا گیا یہ اس کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ہوسکتا اس کے حوادث کی تعداد اس بھی زیادہ ہو۔اسلامی روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ تو حضرت جبرائیل نے یہ پتھر جنت سے لا کر دیا جسے حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا۔
1۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے قبیلہ بنی جرہم کے متعلق ملتا ہے کہ ان لوگوں نے حجر اسود کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔تاریخ میں ہے کہ جب بنو بکر بن عبد مناہ نے قبلہ ” جرہم ” کو مکّہ سے نکلنے پر مجبور کیا تو انہوں نے مکّہ سے بے دخل ہوتے ہوئےکعبہ میں رکھے دو سونے کے بنے ہرنوں کے ساتھہ ” حجر اسود ” کو کعبہ کی دیوار سے نکال کر زم زم کے کنویں میں دفن کر دیا اور مجبورا” یمن کی جانب کوچ کر گئے– الله تعالی کی حکمت دیکھیے کہ یہ پتھر زیادہ عرصے زم زم کے کنویں میں نہیں رہا – جس وقت بنو جرہم کے لوگ حجر اسود کو زم زم کے کنویں میں چھپا رہے تھے ایک عورت نے انھیں ایسا کرتے دیکھ لیا تھا – اس عورت کی نشان دہی پر حجر اسود کو زم زم کےکنویں سے بازیاب کرا لیا گیا ۔
2 – ابو طاہر نامی شخص کی قیادت میں ” قرا ما تین "نے 317 ہجری میں مکّہ مکرمہ کا محاصرہ کرلیا اور مسجد الحرام جیسے مقدس مقام پر تقریبا” سات سو انسانوں کو قتل کیا اور زم زم کے کنویں کو اور مسجد الحرام کے احاطے کو انسانی لاشوں اور خون سے بھر دیا – اسکے بعد اسنے مکّہ کے لوگوں کی قیمتی اشیا کو اور کعبہ مشرفہ میں رکھے جواہرات کو غصب کر لیا – اسنے کعبہ کے غلاف کو چیر پھاڑ کر کے اپنے پیروکاروں میں تقسیم کر دیا – کعبہ مشرفہ کے دروازے اور اسکے سنہری پر نالے کو اکھاڑ ڈالا – اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور 7 ذوالحجہ317 ہجری کو ابو طاہر نے حجر اسود کو کعبہ مشرفہ کی دیوار سے الگ کردیا اور اس کی جگہ کو خالی چھوڑ دیا اور اسکو موجودہ دور میں جو علاقہ ” بحرین ” کہلاتا ہے وہاں منتقل کر دیا – یہ حجر اسود کا ایک نہات تکلیف دہ دور تھا – تقریبا 22 سال حجر اسود کعبہ شریف کی دیوار سے جدا رہا – اس دور میں کعبہ مشرفہ کا طواف کرنے والے صرف اس کی خالی جگہ کو چومتے یا اس کا استلام کر تے تھے – پھر الله سبحان و تعالی کی مشیت دیکھیے کہ 22 سال بعد 10 ذوالحجہ 339 ہجری کو” سنبر بن حسن ” جس کا تعلق بھی قراماتین قبیلے سے ہی تھا ، اس نے حجر اسود کو آزاد کرا یا اور واپس حجر اسود کے اصل مقام پر پیوست کروا دیا – اس وقت ایک مسلہ یہ ضرور درپیش آیا کہ کیا واقعی یہ اصل حجر اسود ہی ہے یا نہیں تو اس وقت مسلمانوں کے ایک دانشور نے کہا وہ اس کو ٹیسٹ کر کے بتا دیگا کہ یہی اصل حجر اسود ہے یا نہیں کیوں کہ اس نے اس کے بارے میں احادیث کا مطا لعہ کر رکھا ہے .- اس نے حجر اسود پر آگ لگائی تو حجر اسود کو آگ نہیں لگی اور نہ ہی وہ گرم ہوا – پھر اسنے اسکو پانی میں ڈبویا تو یہ پتھر ہونے کے باوجود اپنی خصلت کے بر خلاف پانی میں ڈوبا نہیں بلکہ سطح آب پر ہی تیرتا رہا – اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہ اصل جنت کا پتھر ہی ہے کیوں کہ جنت کا پتھر کا آگ سے اور غرق یابی سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے –
3 – سن 363 ہجری میں ایک رومی شخص نے اپنے کلہاڑے سے حجر اسود پر کاری ضرب لگائی جس سے اس پر چٹخنے کا ایک واضح نشان پڑ گیا – اس نے دوسری شدید ضرب لگانے کے لیے جیسے ہی اپنے کلہاڑے کو اٹھایا . الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور قریب ہی موجود ایک یمنی شخص نے جو اسکی یہ گھناونی کاروائی دیکھ رہا تھا ، چشم زدن میں اس نے اسے قتل کر ڈالا اور اسکی حجر اسود پر دوسری ضرب لگانے کی خواہش دل ہی میں رہ گئی –
4 – سن 413 ہجری میں فاطمید نے اپنے 6 پیروکاروں کو مکّہ بھیجا جس میں سے ایک ” الحاکم العبیدی ” تھا جو ایک مضبوط جسم کا مالک سنہرے بالوں والا طویل قد و قامت والا انسان تھا – وہ اپنے ساتھہ ایک تلوار اور ایک لوہے کی سلاخ لایا تھا – اپنے ساتھیوں کے اکسانے پر اسنے دیوانگی کے عالم میں تابڑ توڑ تین ضربیں ”حجر اسود ” پر لگا ڈالیں جس سے اسکی کرچیاں اڑ گئیں – وہ ہزیانی کیفیت میں اول فول بکتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ( معاذ الله ) جب تک وہ اسے پورا نہ اکھاڑ پھینکے گا جب تک سکوں سے نہ بیٹھے گا – بس اس موقع پر ایک مرتبہ پھر الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور گھڑ سواروں کے ایک دستے نے ان سب افراد کو گھیر لیا اور ان سب کو پکڑ کر قتل کردیا گیا اور بعد میں ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا گیا۔
5 – اسی طرح کا ایک واقعہ سن 990 ہجری میں بھی ہوا جب ایک غیر عرب باشندہ اپنے ہتھیا ر کے ساتھ مطاف میں آیا اور اسنے حجر اسود کو ایک ضرب لگا دی – اس وقت کا ایک شہزادہ ” شہزادہ نصیر ” مطاف میں موجود تھا جس نے اسے فوری طور سے موت کے گھاٹ اتار دیا –
6 – سن 1351 ہجری کے محرم کے مہینے میں میں ایک افغانی باشندہ مطاف میں آیا اور اسنے حجرہ اسود کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر نکال دیا اور کعبہ کے غلاف کا ایک ٹکڑا چوری کر ڈالا -ا س نے کعبہ کی سیڑھیوں کو بھی نقصان پہنچایا – کعبہ مشرفہ کے گرد کھڑے محافظوں نے اسے پکڑ لیا – اور پھر اسے مناسب کارروائی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی – اسکے بعد 28 ربیع الاول سن 1351 ہجری کو شاہ عبد العزیز نے اس پتھر کو دوبارہ کعبہ مشرفہ کی دیوار میں نصب کیا جو اس فاطر العقل افغانی نے نکال باہر کیا تھا – حجر اسود اس وقت ایک مکمل پتھر کی صورت میں نہیں ہے جیسا کہ یہ جنت سے اتارا گیا تھا بلکہ حوا د ث زمانہ نے اس متبرک پتھر کو جس کو بوسہ دینے کے لیے اہل ایمان کے دل ہر وقت بےچین رہتے ہیں آٹھ ٹکڑوں میں تبدیل کردیا ہے ۔
606ء میں جب رسول اللہ ﷺ کی عمر35 سال تھی ، سیلاب نے کعبے کی عمارت کو سخت نقصان پہنچایا اور قریش نے اس کی دوبارہ تعمیر کی لیکن جب حجر اسود رکھنے کا مسئلہ آیا تو قبائل میں جھگڑا ہوگیا۔ ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ یہ سعادت اسے ہی نصیب ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور تمام سرداران قبائل سے کہا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور جب چادر اس مقام پر پہنچی جہاں اس کو رکھا جانا تھا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو دیوار کعبہ میں نصب کر دیا۔ سب پہلے عبداللہ بن زبیر نے حجر اسود پر چاندی چڑھوائی ۔ 1268ء میں سلطان عبدالحمید نے حجراسود کو سونے میں مڑھوایا ۔ 1281ء میں سلطان عبدالعزیز نے اسے چاندی سے مڑھوایا۔
696ء میں جب حضرت عبداللہ بن زبیر خانہ کعبہ میں پناہ گزین ہوئے تو حجاج بن یوسف کی فوج نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھر برسائے اور پھر آگ لگا دی۔ جس سے حجر اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ عباسی خلیفہ الراضی باللہ کے عہد میں ایک قرامطی سردار ابوطاہر حجر اسود اٹھا کر لے گیا اور کافی عرصے بعد اس واپس کیا۔
فضائل حجر اسود با زبان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا :
بلاشبہ حجر اسود اورمقام ابراھیم جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت ہيں اللہ تعالٰی نے ان کے نوراورروشنی کوختم کردیا ہے اگراللہ تعالٰی اس روشنی کوختم نہ کرتا تو مشرق ومغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 804 ) ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حجراسود جنت سے نازل ہوا ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 2935 )
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حجراسود جنت سے آیا تودودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اوراسے بنو آدم کے گناہوں نے سیاہ کردیاہے ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 )
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کے بارے میں فرمایا :
اللہ کی قسم اللہ تعالٰی اسے قیامت کولاۓ گا تواس کی دوآنکھیں ہونگی جن سے یہ دیکھے اورزبان ہوگی ۔جس سے بولے اور ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حقیقی استلام کیا ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 961 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2944 )
جابربن عبداللہ رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لاۓ توحجر اسود کا استلام کیا اورپھراس کے دائيں جانب چل پڑے اورتین چکروں میں رمل کیا اورباقی چار میں آرام سے چلے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔
حجر اسود کا استلام یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جاۓ ۔ اگر بھیڑ زیادہ ہوتو ہاتھ کے اشارہ بھی کفایت کرے گا۔
حضرت عمر رضي اللہ تعالٰی عنہ حجراسود کے پاس تشریف لاۓ اوراسے بوسہ دے کرکہنے لگے : مجھے یہ علم ہے کہ توایک پتھر ہے نہ تونفع دے سکتا اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے ، اگرمیں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوۓ نہ دیکھا ہوتا تومیں بھی تجھے نہ چومتا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1250 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1720 ) ۔
نافع رحمہ اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما نے حجراسود کا استلام کیا اورپھر اپنے ہاتھ کوچوما ، اورفرمانے لگے میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کرتے ہوۓ دیکھا ہے میں نے اسے نہیں چھوڑا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1268 ) ۔
ابوطفیل رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے اورحجر اسود کا چھڑی کے ساتھ استلام کرکے چھڑی کوچومتے تھے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1275 ) ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پرطواف کیا توجب بھی حجر اسود کے پاس آتے تواشارہ کرتے اوراللہ اکبر کہتے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4987 ) ۔
ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 959 ) امام ترمذی نے اسے حسن اورامام حاکم نے ( 1 / 664 ) صحیح قرار دیا اور امام ذھبی نے اس کی موافقت کی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کعبے میں پہلا جھگڑا تب ہوا جب حضرت علی علیہ السلام نے امیر حج مقرر کیا مگر معاویہ نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنا امیر حج بھیج دیا.. دونوں امیروں کی امارت پر عین حج کے موقع پر جھگڑا ہوا تاہم بات زبانی کلامی لڑائی جھگڑے تک محدود رہی قتل و غارت کی نوبت نہیں آئی۔ لیکن اس کے بعد کعبہ میں قتل و غارت کا ایک سلسلہ ملتا ہے جو ابھی تک جاری ہے.
یزید بن معاویہ نے حصین بن نمیر کی قیادت میں ایک لشکر کعبے کی طرف بھیجا جس نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھراؤ کیا، غلاف کعبہ کو آگ لگا دی، دس سال بعد حجاج بن یوسف نے دوبارہ کعبے پر حملہ کیا صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جنھوں نے کعبہ کے اندر پناہ لے رکھی تھی انھیں اور ان کے تمام ساتھیوں کو شہید کیا اور ان کی لاش مکہ مکرمہ کے چوک میں لٹکا دی.
کعبے پر تیسرا بڑا حملہ اسماعیل بن یوسف علوی نے کیا، گیارہ ہزار حاجی قتل ہوئے، کعبے کا غلاف، سونا، چاندی اور لاکھوں دینار لوٹ کر چلا گیا. اس کے بعد جزارین اور مناطین کی آپس کی لڑائی کعبے میں لڑی گئی اس میں بھی کئی حجاج کرام شہید ہوئے اکثریت حج کیے بغیر ہی واپس لوٹ گئی مناسک حج بھی جنگ کی نظر ہو گئے.
بحرین میں قرامطہ نے طاقت حاصل کی تو ابو طاہر قرامطی کی قیادت میں کعبہ پر حملہ کیا، یہ اب تک کا سب سے خونخوار حملہ ثابت ہوا. تیس ہزار مکہ مکرمہ کے رہائشی اور دو ہزار حاجی مارے گئے. کعبے کا فرش خون سے سرخ ہو گیا. قرامطہ نے مکے میں خوب لوٹ مار کی اور حجر اسود اکھاڑ کر اپنے ساتھ بحرین لے گئے. بائیس سال حجر اسود قرامطہ کے قبضے میں رہا اور مسلمان بائیس سال حجر اسود کے بغیر حج کرتے رہے. بعض روایات میں ہے کہ قرامطہ نے حجر اسود کو توڑ کر تین ٹکڑے کر دئیے اور انہیں دریا میں پھینک دیا تھا. موجودہ حجر اسود اصلی حجر اسود نہیں ہے. بعض روایات یہ ہیں کہ معتصم نے بائیس ہزار اشرفیوں کے عوض حجر اسود واپس لیا تھا..
بنو امیہ، بنو عباس کی آپسی لڑائی بھی کعبہ میں لڑی جاتی تھی، ہر فریق چاہتا تھا کہ خطبہ میں اس کے خلیفوں کا نام لیا جائے انہی کی مرضی کا خطبہ پڑھا جائے. اس لئے ہر سال امیر حج بنانے پر لڑائی جھگڑا یقینی تھا.
بنو عباس کی خلافت کمزور ہوئی تو ترکوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر لی، ترک بادشاہوں نے حجاز کے علاقوں پر قبضہ کر کے اپنے امیر حج سے اپنے نام کا خطبہ شروع کر دیا. بادشاہوں کی آپس کی لڑائی بھی چلتی رہی، مصر کے بادشاہ بھی کعبہ پر قبضے کی جنگ میں شامل ہو گئے.
سترہویں صدی میں عبدالعزیز نے ترکوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، ترک امراء آپس میں بھی لڑتے رہتے تھے، عرب قبائل کی بھی آپس کی لڑائیاں ہر وقت جاری رہتی تھیں. عبدالعزیز نے ریاض تک کا علاقہ فتح کیا اس کے بعد اس کے بیٹے سعود بن عبد العزیز کو حکومت ملی. سعود بن عبدالعزیز نے ترکوں سے جنگیں لڑیں، آخری فیصلہ کن جنگ مکہ مکرمہ میں لڑی گئی. آل سعود کی مدد انگریز کر رہے تھے، اسلحہ گولہ بارود انگریزوں کا اور خون دونوں طرف مسلمانوں کا.
قرامطہ نے حجر اسود کے تین ٹکڑے کیے تھے، اگلے آٹھ سو سال میں آٹھ ٹکڑے ہو گئے. سلطنت عثمانیہ کے عبد العزیز نے آٹھ ٹکڑوں کو جوڑ کر چاندی کا خول چڑھا دیا تھا یہی خول آج تک چل رہا ہے.
1979 نومبر میں محمد بن عبداللہ قحطانی نے فجر کی نماز کے وقت کعبے پر حملہ کیا، وہ امام مہدی ہونے کا دعویدار تھا اس کے ساتھ لگ بھگ چار سو جنگجو موجود تھے. سعودی عرب نے مختلف ممالک کی آرمی سے مدد مانگی، چودہ دن خانہ کعبہ کا محاصرہ جاری رہا. ایک سو ستر افراد کعبہ میں مارے گئے اور دو سو گرفتار ہوئے.
ہر مسلمان حکمران نے اپنے اقتدار کی جنگ کو دین اسلام کی بقاء کی جنگ قرار دیا، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو تاراج کیا.۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ اسلام میں اب تک 39 بار حج ادا نہیں ہوا اگر 2020ء میں بھی حج موقوف ھوتا ھے تو یہ 40ویں بار ھوگا
سعودی ریاست کے وجود میں آنے سے اب تک حج کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ یا خلل واقع نہیں ہوا سعودی ریاست کے وجود سے چند سال پہلے 1917ء میں دنیا میں اسپینش فلو کی وبا پھیلی تھی جس کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے تھے تب بھی حج کی ادائیگی ہوئی تھی
اب ترتیب وار دیکھتے ھیں حج کب اور کس سن میں موقوف ہوا
865 ء میں عباسی خلافت کے مخالف اسماعیل بن یوسف السفاک نے مکہ مکرمہ پر حج کے دنوں میں حملہ کردیا بہت سے حاجی شہید ہوگئے اور پہلی دفعہ حج موقوف ہوا
پھر اس کے بعد 930 عیسوی میں بحرین پر قابض قرامطی (اسماعیلی) فرقے کے سردار ابوطاہر الجنبی نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا یہ بھی حج کے شروعات کے دن تھے اس حملے میں 30 ہزار حاجی شہید ہوئے حملہ آوروں نے مسجدالحرام میں بھی لوٹ مار کی اور حجر اسود بھی اپنے ساتھ بحرین لے گئے اس کے بعد کئی سال تک حج ادا نہ ہوسکے پھر حجر اسود بحرین سے لاکر دوبارہ نصب کیا گیا اور حج کی ادائیگی شروع ہوئی
983ء سے 990ء تک مسلسل آٹھ سال حج کی ادائیگی نہ ہوسکی اس کی وجہ ایران عراق پر قائم عباسی خلافت اور شام میں قائم فاطمی خلافت کی آپس میں جنگیں تھیں 991ء سے دوبارہ حج کی ادائیگی شروع ہوئی
1831 میں برصغیر پاک وہند میں طاعون کی وباء پھیلی تو اس خطے سے جو لوگ حج کے لیے مکہ معظمہ پہنچے ان کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں موجود حاجیوں میں بھی یہ وباء پھیل گئی تاریخ کے حوالے سے پتہ چلتا ہے کہ حج کے شروع کے دنوں میں ہی مکہ میں موجود تین چوتھائی حاجی جاں بحق ہوگئے ان سنگین حالات کی وجہ سے مناسک حج منسوخ کر دیے گئے گئے
چھ سال بعد دوبارہ وباء نے سعودی عرب اس وقت کا نام حجاز مقدس پر دوبارہ حملہ کیا
1837ء سے 1858ء کے درمیان مختلف اوقات میں مختلف متعدی امراض پھیلتے رہے اور سات بار حج ادا نہ ہوسکا 1837ء میں مکہ میں طاعون کی وبا پھیلی تو اٹھارہ سو چالیس تک حج ادا نہ ہوسکا
1846ء میں مکہ والوں کو ہیضہ کی وباء نے آن گھیرا اور پندرہ ہزار افراد جاں بحق ہوگئے 1949ء تک حج کی ادائیگی رکی رہی 1858ء میں بھی ہیضہ کی وجہ سے حج مکمل نہ ہوسکا پھر 1865ء اور 1883ء میں بھی حج ادا نہ ہوا۔
۔۔۔۔)۔جاری ھے.(

اردو لکھاریوں، شاعروں کے اصلی اور قلمی نام ایک فہرست

قلمی نام…………… اصل نام
شا
عروں اور ادیبوں کے اصلی نام اور قلمی نام
دستیاب نام لکھ دیے ۔۔۔۔مزید معلومات میں شرکت کی دعوت
افضال نوید ۔۔۔۔۔افضال احمد قمر
رشید ندیم۔۔۔۔۔۔ رشید ملک
پرویز پروازی۔۔۔۔ ناصر احمد خان پروازی
تہذیب حافی۔۔تہذیب حسین ۔
۔ علی زریون۔۔شاہد محمود ۔۔
رفیع رضا۔۔۔۔۔۔ محمد رفیع

پریم چند ۔۔۔۔۔ دھنپت رائے سری واستو
آثم فردوسی میاں عبدلحمید
آرزو لکھنوی سید انور حسین
اختر شیرانی محمد داود خان
اختر کاشمیری محمد طفیل
اختر ہاشمی محمد جلیل
اختر وارثی عبدالعزیز
محسن بھوپالی عبدالرحمٰن
آئی آئی قاضی امداد امام علی قاضی
ابن انشاء شیر محمد خان
انشاء سید انشاءاللہ خان
اسلم راہی محمد اسلم ملک
افسر ماہ پوری ظہیر عالم صدیقی
تبسم کاشمیری ڈاکٹر محمد صالحین
انور سدید محمد انورالدین
انیس ناگی یعقوب علی
جاذب قریشی محمد صابر
پطرس بخاری سید احمد شاہ
تبسم رضوانی حبیب اللہ
تنویر بخاری فقیر محمد
ثاقب حزیں محمد غلام مصطفیٰ
ثمر جالندھری محمد شریف
جان کاشمیری محمد نصیر
بہزاد لکھنوی سردار حسن خان
جعفر بلوچ غلام بلوچ
جلیل قدوائی جلیل احمد
جمال پانی پتی گلزار احمد
جوش ملیح آبادی شبیر حسن
تابش دہلوی مسعودالحسن
حافظ امرتسری محمد شریف
حبيب ساجد حبيب الله بلوچ
حبیب جالب حبیب احمد
حفیظ جالندھری ابوالاثر حفیظ
خاطر غزنوی محمد ابراہیم بیگ
سہیل بخاری محمود نقوی
شاعر لکھنوی حسین پاشا
شکیب جلالی سیدحسن رضوی
شوکت تھانوی محمد عمر
صبا اکبر آبادی محمد امیر
قتیل شفائی اورنگزیب
جمیل جالبی محمد جمیل خان
حافظ لدھیانوی محمد منظور حسین
رئیس امروہوی سید محمد مہدی
حسن عسکری محمد حسن
ن م راشد نذر محمد
صہبا اختر اختر علی رحمت
قمر جلالوی محمد حسین
کوثر نیازی محمد حیات
محسن نقوی غلام عباس
محشر بدایونی فاروق احمد
نسیم حجازی محمد شریف
منو بھائی منیر احمد
ناسخ شیخ امام بخش
ذوق محمد ابراہیم
راسخ شیخ غلام علی
داغ نواب مرزا خان
دبیر مرزا سلامت علی
درد سید خواجہ میر
سرشار پنڈت رتن ناتھ
ساحر لدھیانوی عبدالحئ
سودا مرزا محمد رفیع
ماجد صدیقی عاشق حسین
ماہر القادری منظور حسین
مجنوں گورکھپوری احمد صدیق
مومن حکیم مومن خان
آتش خواجہ حیدر علی
آرزو محمد حسین
حسرت موہانی فضل الحسن
ابوالکلام آزاد محی الدین
اصغر گونڈوی اصغر حسین
افسوس میر شیر علی
فراق گورکھپوری رگھو پتی سہائے
فانی بدایونی شوکت علی
مصحفی غلام ہمدانی
میرا جی ثناءاللہ ڈار
میرحسن میر غلام حسن
میر محمد تقی
رسا چغتائی. . . . . مرزا محتشم علی بیگ
نظیر اکبرآبادی شیخ محمد ولی
نظم طباطبائی سید حیدر علی
ناصرکاظمی ناصر رضا کاظمی
مرزا غالب اسداللہ خان
نسیم پنڈت دیا شنکرم
یاس یگانہ چنگیزی مرزاواجد حسین
ولی دکنی شمس الدین محمدولی
محروم تلوک چند
امیر خسرو ابوالحسن یمین الدین
عمر خیام غیاث الدین ابوالفتح
اشرف صبوحی ولی اشرف
امانت لکھنوی سید اکبر حسین
امیر مینائی امیر احمد
انیس میر ببر علی
بےخود دہلوی سیدوحیدالدین
بےدل مرزا عبدلقادر
پریم چند دھنپت رائے
تاباں غلام ربانی
جوش ملیسانی پنڈت لبھو رام
جرأت یحیٰ امان
جگر مرادآبادی علی سکندر
حالی مولاناالطاف حسین
چکبست پنڈت برج نارائن
امام غزالی ابوحامدمحمدبن غزالی
شیخ سعدی مصلح الدین
بلھے شاہ سید عبداللہ
سچل سرمست عبدالوہاب
فرمان فتح پوری . . سید دلدار علی
عزیز حامد مدنی . . محمد عزیز حامد
سحر انصاری۔۔۔۔۔۔۔۔ انور مقبول انصاری
احمد فراز . . . سید احمد شاہ
شاداب احسانی . . ذوالقرنین احمد صدیقی
آصف فرخی . . . . . . . آصف اسلم
صہبا لکھنوی . . . . . . . سید شرافت علی
رئیس فروغ . . . . . . . سید محمد یونس
نازش حیدری. . . …خورشید حسن
خاور نظامی. . . . . …محمد رفیق
شبنم رومانی ۔۔۔مرزا عظیم احمد بیگ چغتائی
محسن نقوی۔۔۔ سید غلام عباس
محسن سلیم . . . . سلیم احمد
جوش مليح آبادي…..شبير حسن خان
مسلم شميم…..محمد مسلم
ڈاکٹر سہیل بخاری۔،۔۔۔۔۔ سید محمود نقوی
صابر ظفر۔۔۔۔۔۔۔۔ . . . . مظفر احمد
فہیم شناس کاظمی۔۔۔۔۔۔۔سید فہیم اقبال
کاشف حیسن غائر۔۔۔۔۔۔۔۔سید کاشف حسین
.اشرف سلیم۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔چودھری محمد اشرف
محمد زبیر بیگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی زبیر
سارہ شگفتہ۔۔۔۔۔۔۔۔شگفتہ پروین
سحرتاب رومانی۔۔۔۔،۔ محمد نعیم
کامی شاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید کامران شاہ
سندھی ادیب، شعرا، مصنفین کے قلمی نام اور اصلی نام:
ابراہیم منشی: محمد ابراہیم سومرو
ادل سومرو: عبد الکریم سومرو
اختر ہالائی: خلیفہ محمد عمر
استاد بلاری: سید احمد شاہ
اسحاق راہی: محند اسحاق سومرو
امر جلیل: قاضی عبد الجلیل
امر سندھی: سلمیٰ لغاری
امداد حسینی: سید امداد علی شاہ
انعام شیخ: انعام اللہ
انور فگار ہکڑو (ڈاکٹر): محمد انور محمد صدیق
انور قمبرانی: انور علی
اے کے بروہی: اللہ بخش خان بروہی
بردو سندھی: محمد رمضان لاشاری
تنویر عباسی (ڈاکٹر): نور النبی
تاجل بیوس: تاج محمد سموں
حمید سندھی: عبد الحمید میمن
دادا سندھی: کریم بخش سومرو
زخمی چانڈیو: جام خان چانڈیو
زیب عاقلی: عبد الحق سومرو
سرشار عقیلی: حاجی اللہ بخش عقیلی
سرکش سندھی: عبد المجید چانڈیو
سرویچ سجاولی: محمد صدیق
سلیم ہالائی: قاضی عبد الحئی
شیخ ایاز: مبارک حسین
ع ق شیخ: عبد اللہ قادر
عارف المولیٰ: پیر حاجی شاہنواز
عبد الرزاق راز: عبد الرزاق شیخ
عزیز کنگرانی: عزیز اللہ
علی آکاش: معشوق علی گوپانگ
فیض بخشاپوری: فیض اللہ خان ڈومکی
مسرور بدوی: فقیر غلام علی
نثار بزمی: قلندر بخش جونیجو
منور ہالائی: عبد القادر

مولائی شیدائی: میر رحیم داد خان

آئی ایچ برنی: اقبال حسین
اختر انصاری اکبرآبادی: محمد ایوب
ادیب رائے پوری: سید حسین علی
افسر صدیقی امروہوی: منظور حسین
تسلیم فاضلی: اظہار انور
تشنہ بریلوی: عبد القوی شکور
جمال احسانی: محمد جمال عثمانی
جوہر سعیدی: سید محمد علی
حبیب جالب: حبیب احمد
حیدر دہلوی: سید جلال الدین
کے ایچ خورشید: خورشید الحسن خورشید
دعا ڈبائیوی: سید مرتضیٰ حسین
دکھی پریم نگری: وہاج محمد خان
دل لکھنوی (منشی): عزیز احمد
دلاور فگار: دلاور حسین
دلشاد کلانچوی (پروفیسر): عطا محمد
ذکی آذر (پروفیسر): ذکی احمد صدیقی
ساغر صدیقی: محمد اختر
سرور بارہ بنکوی: سید سعید الرحمٰن
شہزاد منظر: ابراہیم عبد الرحمٰن عارف
صادقین: سید صادقین احمد نقوی
صائم چشتی: محمد ابراہیم
صبا متھراوی: رفیع احمد
صبا لکھنوی: سید حیدر حسین
صہبا اختر: اختر علی نقوی
طالب جالندھری: طالب اسلام
ظفر جونپوری (پروفیسر): سید مظفر حسن زیدی
عارف سیماب سیالکوٹی: فقیر محمد خاں
عاصی کرنالی (پروفسیر ڈاکٹر): شریف احمد
عالم تاب تشنہ: سید عالم تاب علی
عبیر ابوذری: عبد الرشید
عرش تیموری: مرزا احمد سلیم شاہ
عرش صدیقی: ارشاد الرحمٰن
عشرت رحمانی: امتیاز علی خان
عین الحق فریدکوٹی: فضل الہٰی
فرید جاوید: فرید الدین
فضل فتح پوری: سید افضال حسین نقوی
فہیم اعظمیٰ: ڈاکٹر امداد باقر رضوی
قمر جمیل: قمر احمد فاروقی
قمر صدیقی: عبد الناظر صدیقی
قمر ہاشمی: سید محمد اسماعیل
قیوم نظر: عبد القیوم
کامل جوناگڑھی: غلام علی خان
کسریٰ منہاس: غلام حسین
کشفی الاسدی ملتانی: فقیر اللہ بخش
کلیم حیدرآبادی: غلام جیلانی
کلیم جلیسری: کلیم اللہ
کلیم عثمانی: احتشام الہٰی
کوکب شادانی: سید محمد ایوب علی زیدی
مسٹر دہلوی: مشتاق احمد چاندنا
مقرب آفندی: محمد مقرب
ممتاز حیدر ڈاہر: ممتاز علی خان
ملا رموزی: ضیاء الملک محمد صدیق
ممتاز گوہر: ممتاز اختر مرزا
منظور رائے پوری: سید منظور مہدی
منور بدایونی: ثقلین احمد
محجور بخاری: سید اللہ وسایا
مہر کاچیلوی: محمد حنیف
مینا زبیری: انیس مجتبیٰ
نادم صابری: گلزار احمد
نازش رضوی: سید علی امام
نازش کاشمیری: محمد صادق
ناطق لکھنوی (علامہ): حکیم سید سعید احمد
نجم آفندی: مرزا تجمل حسین
نشاط امروہوی: سید آل مصطفےٰ رضوی
مسعود کشفی: میر مسعود احمد سلطان
مظہر عرفانی: مظہر علی خان
معشوق یار جنگ: معشوق حسین خان
مقبول الوری: سید مقبول حسین
نشتر جالندھری: محمد عبد الحکیم خان
پریشان خٹک (پروفیسر): غمی خان
پرتو روہیلہ: مختار علی خان
تاج سعید: تاج محمد
ثاقب حزیں: محمد غلام مصطفےٰ
جوہر میر: میر قربان علی
رضا ہمدانی: مرزا رضا حسین ہمدانی
شمیم بھیروی: خواجہ عبد اللطیف سیٹھی
شوکت واسطی (پروفیسر): سید صلاح الدین
صابر کلوروی: صابر حسین
صغیر دہلوی: صغیر احمد جان
غنی خان: خان عبد الغنی خان
فارغ بخاری: سید میر احمد شاہ
فدا مطہر: عبد المطہر خان
فرید صحرائی: فرید خان
قلندر مومند: صاحبزادہ حبیب الرحمٰن
قمر راہی: قمر الزمان خان
مظمر تاتاری: غلام ہمدانی
ممتاز منگلوری (ڈاکٹر): اورنگ زیب
یونس قیاسی: محمد یونس خان
(حوالہ: وفیات خیبر پختونخوا اور ناموران پاکستان از ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ)
آغا بابر: سجاد حسین
ابراہیم جلیس: محمد ابراہیم حسن
ابن انشاء: شیر محمد خان
ابن صفی: اسرار احمد
ابن حنیف: مرزا ظریف بیگ
احسان دانش: قاضی احسان الحق
اطہر نفیس: کنور اطہر علی خاں
الطاف گوہر: الطاف حسین
الیاس سیتاپوری: محمد الیاس خان
الیاس عشقی محمد الیاس خان
امرائو طارق: سید طارق علی
انجم رومانی: فضل الدین چغتائی
انیس خورشید (پروفیسر): محمد انیس الدین
اے ڈی اظہر: احمد الدین
ایم اسلم: میاں محمد اسلم
ایم اے راحت: مرغوب احمد
ایم ڈی تاثیر (ڈاکٹر): محمد الدین تاثیر
باری علیگ: غلام باری
باقی صدیقی: محمد افضل
بخش لائلپوری: کریم بخش
تابش دہلوی: سید مسعود الحسن
تسلیم فاضلی: اظہار انور
تنویر نقوی: سید خورشید علی
جمیل الرحمن۔۔۔۔۔۔۔کنور محمد جلیل الرحمن
جمیل الدین عالی: مرزا جمیل الدین احمد خان
جون ایلیا: سید جون اصغر
جیلانی کامران: غلام جیلانی شیخ
حاجی لق لق: ابو علاء عطا محمد چشتی
حجاب امتیاز علی: حجاب اسماعیل
حزیں صدیقی: قاضی عفیف الدین احمد
ایس اے رحمٰن (جسٹس): شیخ عبد الرحمٰن
حسرت کاسگنجوی (ڈاکٹر): عبد الحق خان
حسن عابدی: سید حسن عسکری عابدی
حفیظ ہوشیارپوری: شیخ عبد الحفیظ سلیم
حنیف اخگر: سید محمد حنیف
خان آصف: آصف شاہ خان
خالد علیگ: سید خالد احمد شاہ
خیال امروہوی: سید علی مہدی نقوی
جی الانا: غلام علی الانا
راشد برہانپوری: سید محمد مطیع اللہ
راغب مراد آبادی: سید اصغر حسین
رام ریاض: ریاض احمد
رحمٰن کیانی: عبد الرحمٰن
رحمان مذنب: عزیز الرحمٰن
رشید ترابی: رضا حسین خان
رفیق خاور : محمد رفیق حسین
رعنا اکبر آبادی: شکور احمد
رضی اختر شوق: خواجہ رضی الحسن
رفعت القاسمی: محمد ابو القاسم
رفعت ہاشمی: سید فدا حسین
رفیع پیر: پیرزادہ رفیع الدین
دانیال طریر: مسعود دانیال
شریف کنجاہی: محمد شریف
شفقت رضوی: سید شفقت حسین
شورش کاشمیری: آغا عبدالکریم
شوکت سبزواری: شوکت علی
شہاب دہلوی: سید مسعد حسین خان
ضیاء جالندھری: سید ضیاء نثار احمد
ضمیر نیازی: ابراہیم جان محمد درویش
ظریف جبلپوری:سید حامد رضا نقوی
ظہیر کاشمیری: غلام دستگیر
عبد اللہ حسین: محمد خان
عطاء شاد: محمد اسحاق
فدا حسین خالدی: عبد الحمید
فرخندہ لودھی: فرخندہ اختر
قیسی رام پوری: خلیل الزماں خان
کامل القادری: سید محمد شاہ
کاوش رضوی: سید سبطِ رسول رضوی
کرار نوری: سید کرار میرزا
کرم حیدری (پروفیسر): ملک کرم داد
کیف بنارسی: سید یاور حسین
کیف رضوانی: سید فخر الحسن
لالہ صحرائی: محمد صادق
مجید لاہوری: عبد المجید چوہان
محبوب خزاں: محمد محبوب صدیقی
محشر بدایونی: فاروق احمد
مختار صدیقی: مختار الحق
مصطفیٰ زیدی: مصطفیٰ حسن
مظفر وارثی: محمد مظفر الدین احمد صدیقی
مقبول جہانگیر: مقبول الہٰی
ملا واحدی: محمد ارتضیٰ
ممتاز مرزا: مرزا توسل حسین
ممتاز مفتی: ممتاز حسین
میرزا ادہب: دلاور علی
نادم سیتاپوری: سید محمد اظہر
ناظم پانی پتی: اسماعیل ناظم
نجم الاسلام (ڈاکٹر): نجم الدین صدیقی
نسیم امروہوی: سید قائم رضا
نعیم آروی: نعیم الحسن
نگار صہبائی: محمد سعید الکریم
نہال سیوہاروی: منشی عبد الخالق
نیاز فتح پوری: نیاز محمد خاں
وارث سرہندی: محمد وارث علی شاہ خان
وحشت کلکتوی: سید رضا علی
وحید قریشی (ڈاکٹر): عبد الوحید
وفا راشدی (ڈاکٹر): عبد الستار خان
وقار انبالوی: ناظم علی
============ππππππππ========
آسی ضیائی (پروفیسر): امان اللہ خان
استاد دامن: چراغ دین
اثر صہبائی: خواجہ عبد السمیع پال
احمد عقیل روبی: غلام حسین سوز
احمد ندیم قاسمی: احمد شاہ
افتخار جالب: افتخار احمد
انور سدید (ڈاکٹر): محمد انوار الدین
اے آر خاتون: امت الرحمٰن
ایلس فیض: ایلس کیتھرین جارج
ایم ایم شریف (پروفیسر): میاں محمد شریف
بابا عالم سیاہ پوش: محمد حسین
پرنم الہٰ آبادی: محمد موسیٰ ہاشمی
تاجور نجیب آبادی: احسان اللہ خان درانی
حبیب کیفی: حبیب اللہ
حفیظ صدیقی (پروفیسر) محمد حفیظ الدین
حکیم لاہوری: عبد الرحیم
راجہ رسالو: محمد صادق
زیڈ اے سلہری: ضیاء الدین احمد
سی اے قادر (ڈاکٹر): چودھری عبد القادر
سیف زلفی: سید ذو الفقار حسین رضوی
عبادت بریلوی (ڈاکٹر): عبادت یار خان
فیروز نظامی: فیروز الدین احمد
کے کے عزیز (پروفیسر): خورشید کمال
مسعود کھدر پوش: محمد مسعود
منیر نیازی: محمد منیر خان
وارث لدھیانوی: چودھری محمد اسمعٰیل
ہاشمی فرید آبادی: سید ہاشم علی
ہمایوں ادیب: سید ہمایوں اختر

رشید اختر امجد ۔۔۔ رشید امجد
محمد ندیم اسلم ۔۔۔ روش ندیم
محمدثاقب شفیع ۔۔۔ ثاقب ندیم
ارشد محمود آصف ۔۔۔ ارشد معراج
محبوب حسین۔۔۔۔۔۔ محبوب ظفر
عمران اختر کیانی ۔۔۔ عمران عامی
رانا سعید احمد ۔۔۔ سعید دوشی
اختر محمود ۔۔۔ اختر عثمان
عابد حسین سیال ۔۔ عابد سیال
افتخار حسین عارف ۔۔۔ افتخار عارف
انجم اعظمی….مشتاق احمد
عارفہ شہزاد۔۔۔۔۔۔عارفہ اقبال
آثم فردوسی میاں عبدلحمید
آرزو اکبر آبادی عبد الرحمان
آرزو سرحدی وزیر محمّد خان
آزاد انصاری الطاف احمد
آزاد جمال دینی واحد بخش
آصف شاہکار اعجاز حسین
آرزو لکھنوی سید انور حسین
اپندر ناتھ اشک مادھو رام
آغا شورش کاشمیری عبد الکریم
اختر شیرانی محمد داود خان
ارشد جالندھری غلام رسول
ارمان سرحدی محمّد اسلام ملک
ارمان عثمان عبد الرشید
اسیر عابد غلام رسول
افسر ماہ پوری ظہیر عالم صدیقی
افسر صدیقی امروہوی منظور احمد صدیقی
انجم وزیر آبادی محمّد جان
انجم اعظمیٰ مشتاق احمد
انجم رضوانی قاضی احمد دین
انصر لدیھانوی محمّد رمضان
ادا جعفری عزیز جہاں
امرتا پریتم امرت کور
اختر کاشمیری محمد طفیل
اختر ہاشمی محمد جلیل
اختر وارثی عبدالعزیز
آئی آئی قاضی امداد امام علی قاضی
ابن انشاء شیر محمد خان
ابن مفتی سید ایاز مفتی
ابن ظریف مرزا ظریف بیگ
ابن صفی اسرار احمد
انشاء سید انشاءاللہ خان
اے- جی جوش عبد الغفور جوش
استاد دامن چراغ دین
اسلم راہی محمد اسلم ملک
افسر ماہ پوری ظہیر عالم صدیقی
تبسم کاشمیری محمد صالحین
انور سدید محمد انورالدین
انیس ناگی یعقوب علی
احمد ندیم قاسمی احمد شاہ
احمد راہی غلام احمد
احمد شہباز خاور شہباز احمد
اختر الایمان راؤ فتح محمّد
اجمل وجیہ محمّد اجمل خان
اثرصہبائی عبد السمیع پال
اقبال نجمی محمّد اقبال حسین
این – ایس شانی نادر سلطان
ابوالکلام آزاد محی الدین
اصغر گونڈوی اصغر حسین
الیاس گھمن محمّد الیاس
افسوس میر شیر علی
اخلاق حیدر آبادی محمّد اخلاق خان
ایاز شیخ شیخ مبارک علی
اے حمید عبد الحمید
اے- ایچ عاطف الطاف حسین
بہادر شاہ ظفر سراج الدین شاہ ظفر
بری نظامی شیخ محمّد سفیر
بسمل عظیم آبادی سید شاہ محمّد حسن
بسمل شمسی محمّد خان
باقی صدیقی محمّد افضل
باقی احمد پوری مقبول حسین بخاری
بیدل حیدری عبد الرحمان
تابش دہلوی مسعود الحسن
تنویر سپرا محمّد حیات خان
جاذب قریشی محمد صابر
پطرس بخاری سید احمد شاہ
تابش دہلوی مسعود الحسن
تبسم رضوانی حبیب اللہ
تنویر بخاری فقیر محمد
تبسم بٹالوی ریاض قدیر
ثاقب حزیں محمد غلام مصطفیٰ
ثمر جالندھری محمد شریف
جان کاشمیری محمد نصیر
جون ایلیا سید سبط اصغر نقوی
بہزاد لکھنوی سردار حسن خان
جعفر بلوچ غلام جعفر بلوچ
جلیل قدوائی جلیل احمد
جمال پانی پتی گلزار احمد
جوش ملیح آبادی شبیر حسن
جی – اے چشتی غلام احمد چشتی
تابش دہلوی مسعودالحسن
حافظ امرتسری محمد شریف
حبیب جالب حبیب احمد
حفیظ جالندھری ابوالاثر حفیظ
حاجی لق لق عطا محمّد چشتی
خاطر غزنوی محمد ابراہیم بیگ
خالد قیوم تنولی خالد خان
سلیم بیتاب محمّد سلیم
ساغر صدیقی محمّد اختر
سہیل بخاری محمود نقوی
سریندر پرکاش سریندر کمار اوبارے
شاعر لکھنوی حسین پاشا
شکیب جلالی حسن رضوی
شوکت تھانوی محمد عمر
صبا اکبر آبادی محمد امیر
فارس مغل غضنفر علی
قتیل شفائی اورنگزیب
قریش پور ذوالقرنین قریشی
جمیل جالبی محمد جمیل خان
رئیس امروہوی مسید حمد مہدی
راہی فدائی ظہیر احمد
رضیہ بٹ رضیہ نیاز بٹ
ویر سپاہی تنویر زمان خان
دوبندر ستیارتھی دوبندر باٹا
حسن عسکری محمد حسن
ن م راشد نذر محمد
ناز خیالوی محمّد صدیق
صہبا اختر اختر علی رحمت
صدف جالندھری شاہ محمّد
صائم چشتی محمّد ابراہیم
صابری عالی عبد العزیز
قمر جلالوی محمد حسین عابدی
کوثر نیازی محمد حیات
کاوش زیدی ماجد علی زیدی
محسن بھوپالی عبدالرحمٰن
محسن نقوی غلام عباس
محشر بدایونی فاروق احمد
ماہر القادری منظور حسین
مظہر حیدری لبھو خان
منظر پھلوری عبد المجید افضل
منیر جہلمی منیر حسین کھٹانہ
محمود رضا سید محمود مرسل
محمود دہلوی فضل الہی
نسیم حجازی محمد شریف
ناظم پتی محمّد اسمعیل
نوشی گیلانی نشاط گیلانی
منو بھائی منیر احمد
ناسخ شیخ امام بخش
ذوق محمد ابراہیم
رتن سرشار پنڈت رتن ناتھ سرشار
ریاض مجید ریاض الحق طاہر
راسخ شیخ غلام علی
رشید ہادی رشید احمد
راجا رسالو محم

124156 7, [23.10.20 04:39]
ّد صادق
رفعت ہاشمی عبد الرشید
زلفی سید ذوالفقار علی
داغ نواب مرزا خان
دبیر مرزا سلامت علی
درد سید خواجہ میر
دلاور فگار دلاور حسین
دلاور عسکری دلاور حسین
ذہین شاہ تاجی محمّد طاسین فاروقی
سرشار پنڈت رتن ناتھ
ساحر لدھیانوی عبدالحئ
سودا مرزا محمد رفیع
سیماب اکبر آبادی عاشق حسین
شبنم رومانی مرزا عظیم بیگ چغتائی
ماجد صدیقی عاشق حسین
ماہر القادری منظور حسین
مجنوں گورکھپوری احمد صدیق
مومن حکیم مومن خان
مسرور بدایونی مسرور الحسن
آتش خواجہ حیدر علی
آرزو محمد حسین
حسرت موہانی فضل الحسن
حافظ لدھیانوی سراج الحق
ھپوری رگھو پتی سہائے
فانی بدایونی شوکت علی
فقیر مصطفیٰ امیر نواز اعوان
مصحفی غلام ہمدانی
میرا جی ثناءاللہ ڈار
محسن مگھیانہ نیاز علی
مرتضی برلاس مرتضی بیگ برلاس
منصور ملتانی تنویر عارف خان
حاتم بھٹی عبد الحمید
حسن میر غلام حسن
خلیق قریشی غلام رسول
میر محمد تقی
نظیر اکبرآبادی شیخ محمد ولی
نظم طباطبائی سید حیدر علی
نادر جاجوی امانت علی
ناصرکاظمی ناصر رضا کاظم
نور کپور تھلوی نور محمّد
ندیم باری فقیر محمّد
مرزا غالب اسداللہ خان
میرزا ادیب دلاور علی
میر تنہایوسفی محمّد صالح
نسیم پنڈت دیا شنکرم
یاس یگانہ چنگیزی مرزاواجد حسین
ولی دکنی شمس الدین محمد ولی
محروم تلوک چند
امام غزالی ابو حامد محمّد بن غزالی
امیر خسرو ابوالحسن یمین الدین
عندلیب شادانی وجاھت حسین
غافل کرنالی محمّد یٰسین
ع- م ۔مسّلم عبدالستار
عمر خیام غیاث الدین ابوالفتح
عرش ملیسانی بل مکند
علی اختر اختر علی
غزالی محمّد اسلم
اشرف صبوحی ولی اشرف
امانت لکھنوی سید اکبر حسین
امیر مینائی امیر احمد
انیس میر ببر علی
بےخود دہلوی سیدوحیدالدین
بےدل مرزا عبدلقادر
پریم چند دھنپت رائے
تاباں غلام ربانی
جوش ملیسانی پنڈت لبھو رام
جرأت یحیٰ امان
جگر مرادآبادی علی سکندر
حالی مولاناالطاف حسین
حکیم رمضان اطہر محمّد رمضان
حکیم ساحر قدوائی صفی اللہ‎ خان
حفیظ تائب عبدالحفیظ
خمار بارہ بنکھوی محمّد حیدر خان
خیال امروہوی سید علی مہدی نقوی
خوشتر گرامی رام رکھا مل
چکبست پنڈت برج نارائن
شیخ سعدی مصلح الدین
بلھے شاہ سید عبداللہ
سجاد مرزا مرزا عبد الحمید
سچل سرمست عبدالوہاب
سلیم اختر فارانی اختر سلیم
سرور بارہ بنکھوی سید سعید الرحمان
شوق انصاری شوکت علی
شیر افضل جعفری شیر محمّد
کوثر نیازی محمّد حیات خان
کیفی اعظمیٰ اطہر حسین رضوی
کامل دہلوی عبدالله کامل دہلوی
کلیم عثمانی احتشام الہی
گلزار سمپیورن سنگھ
گل بخشالوی سبحان الدین
گستاخ بخاری سید منیر احمد
گوہر ملسیانی میاں محمّد طفیل
یزدانی جالندھری سید عبد الرشید یزدانی
زیڈ – اے سلہری ضیاءالدین احمد سلہری

۱) مراۃالعروس، ابن وقت، بنات النعش، توبتہ النصوح اور فسانہ مبتلا کس کی تصانیف ہیں؟
ج ڈپٹی نذیر احمد
۲) کپاس کا پھول، دشت وفا، چوپال ، سناٹا، گھر سے گھر تک کس کی تصانیف ہیں؟
ج احمد ندیم قاسمی
۳) ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلئے، آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے کس کی تصانیف ہیں؟
ج ابن انشاء
۴) مسدس حالی، مقدمہ شعر و شاعری، حیات جاوید، حیات سعدی، یادگار غالب کا مصنف کون ہے؟
ج الطاف حسین حالی
۵) بانگ درا کب شائع ہوئی؟
ج ۱۹۲۴ء اردو کلام
۶) ارمغان حجاز اردو اور فارسی کا مجموعہ ہے جو ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا کس کی تصنیف ہے؟
ج اقبال
۷) اردوئے معلی خطوط، عود بندی، مہر نیم روز، گل رعنا، قاطع برہان، سبد چین، قادرنامہ کا خالق کون ہے؟
ج غالب
۸) نسخہ ہائے وفا، نقش فریادی، دست صبا، سروادی سینا، زندان نامہ، دست تہ سنگ، میزان کا خالق کون ہے؟
ج فیض احمد فیض
۱۰) موازنہ انیس و دبیر، شعر العجم، علم الکلام، الفاروق، المامون، سیرت النبی، الغزالی
ج شبلی نعمانی
۱۱) نکات شعراء، ذکر میر، خواب و خیال کس کی تصانیف ہیں؟
ج میر تقی میر
۱۲) خود کلامی، خوشبو، انکار، ماہ تمام کس کے مجموعے ہیں؟
ج پروین شاکر
۱۳) شاہنامہ اسلام اور سوز و ساز کا خالق کون ہے؟
ج حفیظ جالندھری
۱۴) تذکرہ غبار خاطر اور الہلال کس نے لکھیں؟
ج ابوالکلام آزاد
۱۵) انار کلی، چچا چھکن اور کمرہ نمبر ۵ کس نے لکھیں؟
ج امتیاز علی تاج
۱۶) راجہ گدھ اور شہر بے مثال کس کی ہیں؟
ج بانو قدسیہ
۱۷) بستی، شہر افسوس اور چاند گرہن کس کی ہیں؟
ج انتظار حسین
۱۸) سوزِ وطن اور بازارِ حسن کا خالق کون ہے؟
ج منشی پریم چند
۱۹) آبِ کوثر اور موچِ کوثر کا خالق کون ہے؟
ج شیخ محمد اکرام
۲۰) تماشا، گنجے فرشتے، کروٹ، کالی شلوار، ہتک ، یزید، نمرود کی خدائی، خالی ڈبے کس کی تصانیف ہیں؟
ج سعادت حسن منٹو
۲۱) زندگی اور دین اسلام کس کی تصانیف ہیں؟
ج چوہدری افضل حق
۲۲) نقش نگار، شعلہ و شبنم، روح ادب کا خالق کون ہے؟
ج جوش ملیح آبادی
۲۳) خطبات احمدیہ، تہذیب الاخلاق، آثار الصنادیر، تاریخ سرکشی بجنور، تبین الکلام ، رسالہ اسباب بغاوت ہند اور رسالہ احکام طعام اہل کتاب کا خالق کون ہے؟
ج سر سید احمد خان
۲۴) اردو کی آخری کتاب اور رانی کیتکی کا خالق کون ہے؟
ج اردو کی آخری کتاب ابن انشاء اور رانی کیتکی کے انشاء اللہ خان
۲۵) آب حیات، نیرنگ خیال، اردو کی پہلی کتاب کا خالق؟
ج محمد حسین آزاد
۲۶) علی پور کا ایلی، لبیک، الکھ نگری، غبارے اور تلاش کا خالق کون ہے؟
ج ممتاز مفتی
۲۷) آنگن، تلاش گمشدہ، چند روز، کھیل اور بوچھاڑ کس کی تصانیف ہیں؟
ج خدیجہ مستور
۲۸) آرائش محفل، طوطا کہانی ، گل و مغفرت کس کی تصانیف ہیں؟
ج حیدر بخش
۲۹) علامہ اقبال کو سر کا خطاب کب ملا؟
ج 1922ء میں لاہور میں
۳۰) علامہ اقبال کا پہلا مجموعہ کب شائع ہوا؟
ج بانگ درا 1924ء
۳۱) ذکر اقبال کس کی تصنیف ہے؟
ج مولانا عبدالمجید سالک
۳۲) گل رعنا، شعرالہند اور شعر العجم کا تعلق کس صنف سے ہے؟
ج تنقید نگاری
۳۳) یادوں کی برات، شہاب نامہ، اور میرا افسانہ کا تعلق اردو ادب میں کس صنف سے ہے
ج خود نوشت
۳۴) لہو اور قالین، اور فصیل شب کس کے ڈرامے ہیں؟
ج مرزا ادیب
۳۵) ریختہ میں سب سے پہلا دیوان کس نے مرتب کیا؟
ج سعد سلمان نے مگر معدوم ہے چند شعروں کا ہی معلوم ہوسکا ہے؟
۳۶) بیت الغزل سے کیا مراد ہے؟
ج غزل کا پہلا شعر, جس غزل کے ایک یا دو شعر ہوں..
۳۷) مدہوش، یہودی کی لڑکی اورکالی بلا کس کے ڈرامے ہیں؟
ج سجاد حیدر یلدرم
۳۸) عبدالحلیم شرر، ڈپٹی نذیر احمد اور مرزا ہادی کا تعلق کس سے تھا؟
ج ناول نگاری سے
۳۹) باغ وبہار میں اردو کے علاوہ کسی اور زبان کا کوئی لفظ نہیں یہ کس کی تصنیف ہے؟
ج میر امن دہلوی
۴۰) مرزا غالب نے ابتداء میں کس کی پیروی کی؟
ج عبدالقادر بیدل
۴۱) بابائے اردو مولوی عبدالحق نے کس کو سرتاج شعرائے اردو کہا؟
ج میرتقی میر
۴۲) شاعری میں سب سے پہلے زبان کے لئے اردو کا لفظ کس نے استعمال کیا؟
ج مراد شاہ لاہوری
۴۳) جگر نامہ، شعلہ عشق، جوش عشق، دریائے عشق، اعجاز عشق اور معاملات عشق اور خواب و خیال کس کی مثنویاں ہیں؟
ج میر تقی میر
۴۴) لسان العصر کس کا خطاب ہے؟
ج اکبر الہ آبادی
۴۵) مصور غم کس کا لقب ہے؟
ج علامہ راشدالخیری
۴۶) مصور حقیقت کسے کہتے ہیں؟
ج اقبال
۴۷) جدید غزل کا امام اور آبرو غزل کس کو کہتے ہیں؟
ج حسرت موہانی کو
۴۸) علامہ اقبال کو حکیم الامت کا خطاب کس نے دیا؟
ج خواجہ حسن نظامی
۴۹) اقبال کو احسان الہند کا خطاب کس نے دیا؟
ج مولانا آزاد
۵۰) اقبال کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی؟
ج مولانا غلام مرشد
۵۱) الف نون کس کا مشہور کھیل ہے؟
ج کمال احمد رضوی
۵۲) ابلیس کی مجلس شوری کس کی نظم ہے؟
ج علامہ اقبال
۵۳) اک چادر میلی سی کس کا ناول ہے!
ج راجندر سنگھ بیدی
۵۴) اصغری اور اکبری کس مشہور ناول کے کردار ہیں؟
ج مراۃ ال

124156 7, [23.10.20 04:42]
عروس
۵۵) اردو شاعری میں ہجو کا آغاز کس شاعر نے کیا؟
ج رفیع سودا
۵۶) زبور عجم علامہ اقبال کی کتاب ہے یہ کس زبان میں ہے؟
ج فارسی
۵۷) بازار حسن کس کا ناول ہے؟
ج پریم چند
۵۸) باغ و بہار کس کا ترجمہ ہے؟
ج نو طرز مرصع کا
۵۹) دل دریا سمندر کس کی تصنیف ہے؟
ج واصف علی واصف
۶۰) ترقی پسند تحریک کے حوالے سے افسانوں کا پہلا مجموعہ کونسا تھا؟
ج انگارے 1932ء
۶۱) رباعی فارسی ادب سے آئی ہے اس کا سب سے بڑا شاعر عمر خیام ہے اس میں کتنے مصرعے ہوتے ہیں؟
ج چار
۶۲) طنزیہ شاعری کو کیا کہتے ہیں؟
ج ہجو , طنزیہ شاعری ہوتی ہے جبکہ طنزیہ کے متضاد قصیدہ کی صنف ہے.
۶۳) شہر آشوب کے حوالے سے شاعری کا بڑا نام کس کا ہے؟
ج ظفر علی خان
۶۴) اردو کا پہلا افسانہ نگار کون تھا؟
ج پریم چند
۶۵) اقبال کی مشہور نظم مسجد قرطبہ کس کتاب میں ہے؟
ج بال جبریل میں
۶۶) علامہ اقبال کی کتاب تشکیل جدید الیہات میں کتنے خطبات ہیں؟
ج 7
۶۷) جوش ملیح آبادی کی سوانح حیات کا نام بتائیں؟
ج یادوں کی برات
۶۸) شاعر اعظم اور شاعر انقلاب کس کا خطاب ہے؟
ج جوش ملیح آبادی
۶۹) ریختہ کا لفظ اردو زبان کے لئے کس بادشاہ کے دور میں استعمال ہوا؟
ج اکبر بادشاہ
۷۰) اردو کا پہلا صوفی شاعر اور تخیل کا سرخیل کس کو کہتے ہیں؟
ج میر درد
۷۱) لفظ اردو پہلی دفعہ کس کتاب میں استعمال ہوا؟
ج تزک جہانگیری
۷۲) ٹیڑھی لکیر کس کی تصنیف ہے
ج عصمت چغتائی
۷۳) مشہور نظم ماں جائے کی یاد کس کی تصنیف ہے؟
ج جوش ملیح آبادی
۷۴) مثنوی کسے کہتے ہیں؟
ج ایسی نظم جس میں ہر شعر الگ الگ قافیہ میں ہو
۷۵) قطعہ میں اشعار کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟
ج دو سے لے کر کم از پچیس تک اس سے زائد بھی شعراء نے کہے ہیں
۷۶) جو شعر مطلع ہونہ مقطع کیا کہلاتا ہے؟
ج بیت,,,
۷۷) مرزا غالب کا اصل نام کیا تھا؟
ج اسداللہ خان
۷۸) ابوالکلام آزاد کا اصل نام کیا تھا؟
ج محی الدین احمد
۷۹) انیس کا اصل نام کیا تھا؟
ج میر ببر علی
۸۰) پریم چند کا اصل نام؟
ج دھنپت رائے سری واستو
۸۱) جگر مراد ابادی کا اصل نام؟
ج علی سکندر
۸۲) دبیر کا اصل نام؟
ج مرزا سلامت علی
۸۳) سودا کا اصل نام!
ج مرزا محمد رفیع
۸۴) مصحفی کا اصل نام؟
ج غلام ہمدانی
۸۵) نظیر اکبرآبادی کا اصل نام؟
ج شیخ محمد ولی
۸۶) ولی دکنی کا اصل نام؟
ج شمس الدین محمد ولی
۸۷) عمر خیام کا اصل نام؟
ج غیاث الدین
۸۸) ذوق کا اصل نام؟
ج محمد ابراہیم
۸۹) حسرت موہانی کا اصل نام؟
ج فضل الحسن
۸۰) قتیل شفائی کا اصل نام؟
ج اورنگزیب
۹۱) محسن نقوی کا اصل نام؟
ج غلام عباس
۹۲) داغ کا اصل نام؟
ج نواب مرزا خان
۹۳) پطرس بخاری کا اصل نام؟
ج سید احمد شاہ
۹۴) جوش ملیح آبادی کا اصل نام؟
ج شبیر حسین
۹۵) بلھے شاہ کا اصل نام؟
ج سید عبداللہ
۹۶) آرزو کا اصل نام؟
ج محمد حسین
۹۷) ن م راشد کا اصل نام؟
ج نذر محمد
۹۸ شوکت تھانوی کا اصل نام؟
ج محمد عمر
۹۹) اختر کاشمیر ی کا اصل نام؟
ج محمد طفیل
۱۰۰) باقی صدیقی کا اصل نام؟
ج سائیں محمد افضل

لاہور ادبی میلہ شروع، کئی ممالک سے ادیب شریک

لاہور میں چوتھا سالانہ ادبی میلہ جاری ہے جس میں امریکا، برطانیہ، افغانستان، بھارت اور مصر سمیت دنیا کے کئی ملکوں سے ادیب ، دانشور اور فنکار حصہ لے رہے ہیں۔ طے شدہ پروگرام کے برعکس یہ میلہ ایک دن کی تاخیر سے شروع ہوا ہے۔

یہاں پاکستانی ادیب محمد حنیف کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقی ادیبہ زوکسوا وانر، امریکی فلسطینی مصنفہ سوزن ابوالہوا اور بھارتی نژاد امریکی ناول نگار تانیہ جیمز بھی نظر آ رہی ہیں

دو روزہ ادبی میلے میں جن موضوعات پر بات کی جا رہی ہے ان میں عرب بہار، زبان اور شناخت، فوٹوگرافی کی طاقت، اردو فکشن میں نئے رجحانات، اردو نظم کی روایت، شاعری اور ترجمے کے نئے رجحانات اور ’’پرانے اخبارات و جرائد، ایک گم ہوتا ہوا اثاثہ‘‘ جیسے موضوعات بھی شامل ہیں۔ اس کانفرنس میں ایک سیشن حال ہی میں انتقال کر جانے والے پاکستان کے معروف ادیب انتظار حسین کے لیے بھی مختص کیا گیا ہے۔ اس ادبی میلے کے ہفتے کی صبح ہونے والی افتتاحی تقریب میں بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور کے بارے میں ایک ڈاکومنٹری بھی دکھائی گئی۔ اس موقع پر معروف صحافی حمید ہارون کے ساتھ شرمیلا ٹیگور کے خصوصی مکالمے کا بھی اہتمام کیا گیا۔

ایک سیشن کا منظر: انتہائی دائیں جانب، ممتاز صحافی اور کئی کتابوں کے مصنف احمد رشید جبکہ انتہائی بائیں جانب، سابق پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نظر آ رہی ہیں

پہلے جاری کیے گئے پروگرام کے مطابق لاہور لٹریری فیسٹیول کو 19 فروری کے روز گزشتہ برسوں کی طرح لاہور کے الحمرا آرٹس سنٹر میں شروع ہونا تھا اور یہ تین دنوں پر محیط تھا۔ لیکن لاہور میں غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے ساتھ ہی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے پراسرار طور پر دہشت گردی کے مبینہ خطرات کی وجہ سے اس میلے کے لیے سیکورٹی کے حوالے سے جاری کیا جانے والا این او سی واپس لے لیا گیا۔ بعد ازاں منتظمین کے اصرار اور طویل مشاورت کے بعد انتظامیہ اس بات پر سیکورٹی فراہم کرنے پر راضی ہو گئی کہ اس کانفرنس کو دو دنوں تک محدود اور اسے مال روڈ پر واقع آواری ہوٹل میں منعقد کیا جائے گا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کے زیادہ سنگین خطرات کے باوجود چند روز پہلے ایک ایسی ہی کانفرنس کامیابی کے ساتھ منعقد کرائی جا چکی ہے۔

اس ادبی میلے میں شریک انسانی حقوق کے رہنما اور معروف صحافی آئی اے رحمان نے بتایا کہ ایسے ادبی میلوں کے انعقاد سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے جذبات میں کمی لانے میں مدد ملی ہے۔ ان کے بقول پاکستان کی حکومت اسلحے اور سکیورٹی ایجینسیوں پر تو وسیع اخراجات کر رہی ہے لیکن بدقسمتی سے معاشرے میں ادب اور فن و ثقافت کے فروغ کے لیے مناسب وسائل خرچ نہیں کیے جا رہے ہیں۔

لاہور لٹریری فیسٹیول کا آغاز 2012ء میں ہوا تھا۔ اس سے پہلے تین ایسے میلے ہو چکے ہیںلاہور لٹریری فیسٹیول کا آغاز 2012ء میں ہوا تھا۔ اس سے پہلے تین ایسے میلے ہو چکے ہیں

معروف دانشور مسعود خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ پاکستان سے باہر رہائش اختیار کرنے سے پہلے لاہور میں رہا کرتے تھے اور یہ میلہ انہیں لاہور کے رنگوں اور یادوں کی یاد دہانی کا باعث بھی بنتا ہے۔ ان کے بقول ماضی کا لاہور ادب و ثقافت سے بھرپور بہت سی سرگرمیاں لیے ہوئے ہوتا تھا لیکن بعد میں آنے والے حالات میں یہ سلسلہ بہت کم ہوتا گیا۔ اور آج ایک مرتبہ پھر ایسی سرگرمیوں کو دیکھ کر انہیں بہت خوشی ہو رہی ہے۔

لاہورشہر کی تاریخی اور ثقافتی حیثیت بحال کرنے کے لیے کام کرنے والے ادارے لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کے سربراہ کامران لاشاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس طرح کے ادبی میلوں کے معاشرے پر اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں: ’’جس طرح انسان کو زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسان کو روحانی اور ادبی تسکین فراہم کرنے کے لیے آرٹ، ادب اور ثقافتی تقریبات بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج کو اعتدال پر رکھنے، اسے تازگی اور شگفتگی عطا کرنے کے لیے ایسی تقریبات بہت ضروری ہیں۔‘‘ کامران لاشاری کے بقول مغرب نے کھیل اور ادب کو معاشرے کی ترقی کے لیے جس مثبت طریقے سے استعمال کیا ہے اس میں بھی ہمارے لیے سیکھنے کے کئی پہلو ہیں۔

لاہور ادبی میلے میں حاضرین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی

اس کانفرنس میں بھارت سے معروف فلمی شخصیات مہیش بھٹ اور پوجا بھٹ سکیورٹی کلیئرنس نہ مل سکنے کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کے بورڈ آف گورنرز کے رکن نیئر علی دادا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سال سکیورٹی کلیئرنس نہ ملنے اور ہنگامی طور پر فیسٹیول کو ہوٹل میں شفٹ کرنے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ اگلے سال وہ ان باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے بہتر انتظامات یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کا آغاز 2012ء میں ہوا تھا۔ اس سے پہلے تین ایسے میلے ہو چکے ہیں۔