اصحاب الشمال

چند دن پہلے اسرائیلی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اٹارنی جنرل آف اسرائیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ بیت شمیس شہر میں ان اشتہاروں اور بینرز کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے مداخلت کریں جن پہ خواتین کو "مکمل کپڑے پہننے” کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ بورڈز خواتین کو کپڑے پہننے کا طریقہ بتاتے ہیں، جس میں انھیں پورے بازو اور لمبی قمیص پہننے کی تلقین ہے اور چست لباس پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر اشتہارات میں خواتین کو نصیحت ہے کہ وہ عبادت خانوں اور کام کی ایسی جگہوں کے قریب، فٹ پاتھ کا استعمال محدود کریں، جہاں مرد ہوتے ہیں۔

یہ تیزی سے پروان چڑھتی انتہا پسندی کی کہانی ہے۔ مقامی حکام کی بے حسی اور سیاسی قیادت کی مجرمانہ خاموشی نے اسے مہمیز دی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کے ہیرو کچھ جرآت مند سماجی کارکن ہیں جو اس دباؤ کو روکنے کے لئے وقف ہیں، اور جن کی کوششوں سے کچھ ہی دن قبل یہ فقید المثال فیصلہ آیا ہے۔ یہ کسی کی بھی زندگی کا ایک حیرت انگیز اور متاثر کن تجربہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ شروع سے آسان نہیں رہا۔

اسرائیلی درالحکومت یروشلم سے مغرب میں ۳۰ منٹ کی مسافت پر واقع شہر بیت شمیس کے ضلعی مجسٹریٹ کی عدالت نے جنوری 2015 میں بلدیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے بینرز کو بروقت ہٹانے میں اپنی لاپرواہی پر شہر کی خواتین کو ہرجانہ ادا کرے۔ 2017 میں ہائیکورٹ آف جسٹس نے حتمی فیصلہ جاری کرتے ہوئے شہر کے میئر کو حکم دیا تھا کہ وہ شہر میں جگہ جگہ لگے ہوئے تمام "جارحانہ” ناشائستہ تجاویز والے بورڈز کو ختم کریں۔

ایسا اس وجہ سے ہوا ہے کہ اسرائیل کی ماتحت و اعلیٰ عدلیہ کے مطابق کسی بھی شخص کو کوئی خاص لباس پہننے یا کسی مخصوص طریقہ لباس کو اپنانے پر مائل کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا بنیادی انسانی حقوق کی آئینی ضمانتوں کی خلاف ورزی ہے۔

اس کے علاوہ یہ شخصی آزادی کی خلاف ورزی کا بھی ارتکاب ہے جس پر عدالت نے شہری انتظامیہ کو ہرجانے کی سزا بھی دی ہے۔جج عوری شوہام نے کہا، "خواتین کو یہ بتانا کہ کس طرح کا لباس پہننا ہے اور کسی عوامی مقام پر کہاں جانا ہے، کسی شخص کے وقار اور آزادی کے بنیادی حق کے محافظ قانون کے خلاف ہے۔” ہائیکورٹ آف جسٹس کے ججوں نے شہر کے میئر کو ان علامتوں کو دور کرنے یا جیل کا سامنا کرنے کے لئے دو ہفتے کا وقت دیا جس پر ااسرائیل کی پارلیمانی کمیٹی برائے حقوقِ نسواں اور صنفی مساوات کو یہ دیکھنے کے لیے میدان میں آنا پڑا کہ آیا میئر نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔

"مکمل کپڑے پہننے” کے اعلان کرنے والے بینرز شہر کے آس پاس منظر عام پہ آنا شروع ہو گئے۔ انتہائی دائیں بازو کی ذہنیت کے ذریعہ خواتین کو آزادانہ گھومنے پھرنے پر ہراساں کیا گیا۔ ایسی لڑکیوں کو "فاحشہ” کہا جانے لگا۔ کچھ مواقع پر تو مردوں نے ایسی سوچ کی علمبردار خواتین پر پتھراؤ بھی کیا۔ بالآخر خواتین نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ان بینرز کے خلاف عدالت میں کیس کر دیا۔

مذہب کے نام پہ قائم اسرائیلی ریاست مین حالانکہ صنفی مساوات کئی مغربی ممالک سے بھی بہتر ہے مگر پھر بھی قدامت پرستوں کی جانب سے خواتین کی سماجی حیثیت اور معاشرتی ظہور مسلسل سکڑ رہا ہے۔ تقریبا تمام مذہبی عناصر کے رجحانات کی عکاسی کرتے ہوئے جانے پہچانے اقدامات کے ذریعے انہوں نے خواتین کی عوامی سپیس کو بتدریج محدود کیا ہے۔ روایت پرست اخبار خواتین کی تصاویر چھاپنے سے ہچکچاتے ہیں۔ حتیٰ کہ انجیلا میرکل اور ہلیری کلنٹن جیسی عالمی شہرت یافتہ خواتین کی تصویریں تک سینسر کر دی جاتیں ہیں۔ اسی طرح دعوت ناموں اور کتبوں پر خواتین کا نام نہیں لکھا جاتا۔

لامحالہ طور پر ایسے واقعات کے خلاف اسرائیلی عدلیہ ہی آخری سہارا رھی جس نے اس رجحان پہ سخت ردعمل دیا تاہم روشن خیال جدت پسندوں کا راستہ کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ جن سماجی کارکنوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، ان پہ آوازے کسے جاتے، ان کو بدنام اور پریشان کرنے کی ایک منظم مہم چلائی گئی۔ لوگوں کو ان کے چہروں پہ تھوک دینے کی ترغیب دی جاتی رہی اور ان کے گھروں کو نشان زدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

اسرائیل اور پاکستان میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ دونوں دنیا کے اکیلے ایسے ممالک ہیں جو مذہب کے نام پہ وجود میں آئے اور جہاں ایک اقلیت نے تقریباً مکمل طور پر ایک اجنبی خطہ زمین آزاد ملک کے طور پر حاصل کیا۔ دونوں ہی ملکوں کی تاریخ میں خواتین سیاستدان وزراء اعظم رہیں ہیں۔ روایت پسند مذہبی جماعتوں کی سیاست کا نظم بھی تقریبآ ایک جیسا ہے۔ اور قدامت پرستوں کا خواتین سے سلوک بھی۔

اور ہاں۔ کچھ مزید مماثلتیں بھی ہیں جن میں صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والوں کو برے القابات دینے، ان کے خلاف سوچا سمجھا پروپیگنڈا کرنا، ان کو ٹارگیٹڈ تشدد کا نشانا بنایا جانا، ان کے مارچوں پہ پتھراؤ، خواتین کی پبلک سپیس سے پراسرار غیر موجودگی، شادی کے دعوت ناموں اور فوتیدگی کے اعلانات تک سے ان کی شناخت حذف کر دینے کی مذموم کوششیں بھی شامل ہیں۔

جانے اسرائیلی عدالتیں اپنی نظریاتی بنیادوں کے تحفظ سے کیوں اتنی لاپرواہ ہیں؟ ایسی لاپرواہ عدلیہ کو اپنے ملک کی ثقافت اور نظریہ بھی تباہ ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔ نظریاتی تحفظ سیکھنے کے لیے اسرائیلی عدلیہ کو پاکستان سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ حال ہی میں پاکستان کی صوبائی حکومتوں نے وزیراعظم کی قیادت میں، آپ نے فرمایا تھا کہ کوئی روبوٹ ہی ہو گا جو خواتین کے مختصر لباس سے برانگیختہ نہیں ہو گا، عوامی تفریح گاہوں پر خواتین کے باحجاب لباس کی مہم چلائی ہے یا اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ گلگت بلتستان اور مری میں ایسے بینرز منظرعام پہ آئے ہیں جن میں خواتین کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ ان کی عزت حجاب سے ہی مشروط ہے ورنہ۔۔۔پاکستان میں روبوٹ ٹیکنالوجی ابھی بہت کم ہے۔

سفرنامے از عمر خیام

یہ بھی ایک یادگار سفر تھا
ہم صبح ھوٹل سے نکلے تھے۔ استنبول کی مشہور بلیو مسجد، سینٹ صوفیہ کا گرجا دیکھ چکا تھا۔ ان دونوں کے سامنے فوٹو بھی بنوا چکا تھا۔
مسجد میں دو نفل بھی پڑھ آیا تھا کہ چلو سفر کی برکت کیلیئےا چھے ہیں۔
استنبول کا مشہور گرینڈ بازار بایاں ھاتھ پر تھا۔ سوچا کہ اس کو بعد میں دیکھیں گے۔ دوپہر کے بعد دھوپ زیادہ ہوگی تو گرینڈ بازار کی چھتوں کے نیچے سکون سے گھومیں پھریں گے۔ اس وقت توپ کاپی میوزیم دیکھ آئیں۔
ہم نے کچھ سال پہلے ایک پاکستانی فلم دیکھی تھی۔ نام یاد نہیں رہا کہ کیا تھا۔ جاوید شیخ کی فلم تھی۔ اس کو ترکی کی کسی حسینہ سے حسب معمول پیار، عشق محبت ہوجاتا ہے۔ کہانی کچھ اتنی یاد نہیں رہی ، بہروز سبزواری کا ایک ڈائیلاگ یاد رہ گیا ہے۔ کہ ہر سین میں کہتا ہے کہ باس لاش ٹھکانے لگا دی ہے۔ لاش ٹھکانے لادوں؟۔۔ ۔۔۔۔۔۔پھر آخر میں وہ خود مرنے والا ہوتا ہے تو اس کے آخری الفاظ بھی یہی ہوتے ہیں۔۔۔ باس میری لاش ٹھکانے لگا دینا۔۔۔۔۔ بہت جذباتی سین ہوتا ہے۔

اس فلم میں ہم نے پہلی بار توپ کاپی میوزیم کے بارے میں جانا کہ اس جگہ پر بہت سی اسلامی یادگاریں ہیں۔ دیکھنے لائق ہیں۔ ضرور جانا چاہیے۔

توپ کاپی میوزیم کے صدر دروازے کے دائیں بائیں سٹال نما دکانیں ہیں۔ ہم اندر جارہے تھے کہ کسی نے آواز دی۔ السلام علیکم۔ ہم نے جواب دیا۔ وہ پندرہ سولہ سال کا لڑکا تھا۔ عام ترک لڑکوں سے زیادہ صاف انگریزی میں بات کررہا تھا۔ بتانے لگا کہ وہ اسلام آباد میں ایک مہینہ رہ کر آیا ہے۔ اس کا انکل اسلام آباد میں ترکی ایمبیسی میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں بہت سیر کی۔ پشاور اور مری بھی دیکھا۔۔ ہمیں دکان کے اندر لے گیا۔ ثبوت کے طور پر فوٹو دکھانے کی پیش کش کی۔

ہمیں باتیں کرتا دیکھ کر ایک اور نوجوان بھی آگیا۔ اس نے کہا کہ اس کی بہن کی شادی ایک پاکستانی سے ہوئی ہے۔ وہ بھی اسلام آباد میں رہتی ہے۔۔ ہمیں ڈر تھا کہ یہ لوگ واقفیت نکال کر اب کوئی شے بیچنے کی کوشش کریں گے۔ ترکی، مصر، تیونس، مراکو۔۔۔۔ ان سب جگہوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ کو برادر۔ بھائی۔ بول کر دگنی تگنی قیمت پر چیز بیچ دیتے ہیں۔ اور آپ اپنے ملک و قوم کے وقار کا جھنڈا بلند کرنے کی خاطر کچھ نہ کچھ خرید ہی لیتے ہیں۔ تاکہ یہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ شاید ہمارا ملک زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا شکار ہے۔۔

لیکن ان لوگوں نے ایسا کچھ نہ کیا۔ صرف پیار اور خلوص کی رشتہ داری جتاتے رہے۔ یہ ہمارے ساتھ ہر جگہ ہوا، ترکی میں جس جگہ بھی گیا۔۔۔ اور ہم چھ سات مختلف شہروں میں گیا۔ ہر جگہ پاکستان کی مناسبت سے بہت عزت کی گئ۔

اب آپ لوگ سوچے گا کہ ان لوگ کو پتہ کیسے چل جاتا تھا کہ یہ بندہ اسی علاقے کا۔۔ اصل میں ہمارے ساتھ ہماری ہمسفر بھی تھی۔ اور اس کے شلوار قمیص کی وجہ سے ہر کسی کو پتہ چل جاتا تھا کہ ہو نہ ہو بے نظیر والے ملک سے اس کا تعلق ہے۔ ویسے ہم بنیادی طور پر بے نظیر کی پالیسیوں سے کبھی متفق نہیں رہا اور نہ ہی اس کی شخصیحت سے متاثر ہوا۔۔۔ لیکن جس بات کا حق بنتا ہمارے خیال میں وہ حق اس کے حقدار کو دیا جانا چاہیے۔۔ بیرونی دنیا میں بے نظیر کو اس حوالے سے جانا جاتا کہ شلوار قمیص ایک پرکشش لباس ہے۔ سلیقے سے پہنا جائے تو ہر جگہ چل جاتا ہے۔

توپ کاپی میوزیم کے اندر جانے سے ہم نے ہمسفر سے پوچھ لیا کہ کیمرے کی کتنی فلمیں ہیں؟ کہنے لگی ایک کیمرے کے اندر ہے اور ایک اس کے علاوہ فالتو بیگ میں۔ ہم نے کہا کہ کچھ اور خرید لیتے ہیں۔ نہ مانی۔ کیا ضرورت ہے۔ ساٹھ ستر فوٹوؤں کی جگہ ہے۔ ہم نے کونسا اتنے زیادہ فوٹو لینے ہیں۔

توپ کاپی کسی زمانے میں عثمانیوں کا محل تھا۔ اب عجائب گھر ہے۔

دائیں طرف کے کمروں سے ہم نے دیکھنا شروع کیا۔

بادشاہوں کے باورچی خانوں کے برتن۔ سونے چاندی کی صراحیاں۔ طشتریاں۔

پھر ملبوسات کی باری آئی۔ بھاری بھاری چوغے۔ سونے کی تاروں سے کڑائی کیے ہوئے۔

ہتھیار، تلواریں، خنجر۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک خنجر چاندی کا۔ جس کے دستے پر بیش قیمت ہیرے، لعل اور جواہرات جڑے ہوئے۔

آگے ایک تخت۔۔ جو سب کا سب سونے کا بنا ہوا

ایک اور تخت جو شاید ساگوان کی لکڑی کا بنا تھا، لیکن اس پر جواہرات، لعل اور یاقوت وغیرہ اتنا تھا کہ لکڑی چھپ گئ تھی۔ یہ تخت کسی عثمانی سلطان کو ایران کے نادر شاہ نے تحفہ دیا تھا۔

ایک پنگھوڑا۔ جس پر ہیرے ، نیلم، یاقوت اور لعل جڑے تھے

سلطنت عثمانیہ اپنے عروج کے دور میں آج کل کے سعودیہ، یمن، عراق، وسطی ایشائی ممالک ( یعنی جورجیا، آرمینیا۔ آذر بائیجان۔ چیچنیا ترکمانستان وغیرہ)، ترکی، شام، بلغاریہ کا آدھا علاقہ۔یوکرائن کا کچھ علاقہ ، رومانیہ، البانیہ، مصر لبنان، اردن فلسطین تک پھیلی تھی۔

ہم آہستہ آہستہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے، ایک دالان سے دوسرے دالان ، ایک برآمدے سے دوسرے تک جارہے تھے۔ خاص خاص چیزوں کے فوٹو لے رہے تھے۔ کچھ جگہوں کے فوٹو فلیش کے ساتھ لینا ممنوع تھا۔ فوٹو بنانے والا شروع شروع کا شوق اب ماند پڑ گیا تھا۔ اب ام کتنے خنجروں، کتنے دیگچوں، یا کتنے کرتوں کے فوٹو بناتے۔ یادگار اور تبرک کی طور پر ایک فوٹو بنالیا تھا۔ ویسے بھی اس خنجر، اور تخت کو دیکھنے کے بعد آنکھوں میں عام چیز جچ بھی نہیں رہی تھی۔

پھر مختلف قسم کے قرآن آگئے۔

باتصویر یعنی نقش و نگار کے ساتھ۔۔۔ ھاتھ سے خطاطی کیے ہوئے قرآن۔ سونے کی تاروں والے۔ ایرانی خطاطی۔ مصری خطاطی۔ سمرقند بخارا سے تحفہ کے ہوئے قرآن۔ چھوٹے چھوٹے ایک ہتھیلی کے برابر نسخے۔ بڑے بڑے ایک ایک گز کے صفحے والے نسخے۔ ہزار سال پہلے کے لکھے ہوئے۔

پھر ایک مدھم روشنی اور تلاوت قرآن کی مدھر اور پرسوز آواز والے کمرے میں ہم داخل ہوئے۔ یہ دیکھنے والی اور یاد رہ جانے والی جگہ ہے۔دنیا میں شاید دو جگہیں ایسی ہیں جہاں ہمہ وقت قرآن مجید کی تلاوت بغیر کسی وقفہ کے تواتر کے ساتھ کی جاتی ہے ، ایک توپ کاپی میوزیم کا یہ کمرہ جہاں ہم کھڑے تھے اور دوسری رباط میں شاہ حسن دوم کے مزار پر ۔۔ اس جگہ پر حضرت محمدﷺ کے دندان مبارک، آپﷺ کا نقش پا۔ آپﷺ کا ایک خرقہ مبارک۔ آپﷺ کی ریش مبارک کا بال۔ آپﷺ کی تلوار اور نیزہ۔ حضرت فاطمہؓ کی چٹائی۔ چاروں خلفائے راشدین کی تلواریں ، نیزے۔ حضرت علی ؓ کی تلوار کا ام بچپن سے ہی بہت شہرہ سنتے آئے ہیں کہ ان کی تلوار اتنی بھاری ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ ان کا قد باقی تمام صحابہ کرام سے چھوٹا تھا۔ گو کہ وہاں پر چھوٹی چھوٹی پرچیاں لگی ضرور تھیں کہ جن سے پتہ چلتا تھا کہ کس چیز کی کس صحابی یا مقتدر ہستی سے نسبت ہے لیکن دل کی تسلی کی خاطر ہم نے ایک گاییڈ سے پوچھا کہ ان میں سے حضرت علیؓ کی تلوار کونسی ہے ؟ واقعی وہ بڑی تھی۔ بھاری بھی ضرور ہوگی۔ ہم نے قائرہ کی ایک مسجد کے ایک عجائب گھر میں کسی صحابی کی ایک زرہ دیکھی تھی، بلکہ چھوئی تھی اور ٹٹول کر اس کا وزن جانچنے کی کوشش بھی کی تھی۔ تیس کلو گرام تو ضرور ہوگی۔ اتنی بھاری زرہ ، اتنی گرمی میں پہن کر اتنی بھاری تلواریں چلانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ آفرین ہے ان سب پر۔ ہم تو نکڑ کی دکان سے ایک دن کا سودا لائیں تو شاپر بیگ کے اٹھانے سے بازو شل ہوجاتے ہیں ۔

قرآن کا وہ خون آلود نسخہ بھی یہیں ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمانؓ شہید ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ کا ایک بے حد پرانا غلاف، اور لکڑی کا دروازہ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی پگڑی، حضرت داؤد علیہ السلام کی کوئی شے بھی موجود تھی، اب یاد نہی رہا کہ کیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیالہ۔

میری ہمسفر جس نے کہا تھا کہ کیمرے کی دو فلمیں بہت ہیں۔ ایسا بھی کیا۔ ۔ ۔ ۔ اس کو چار اور کی ضرورت پڑی ۔

اور ایسی بے شمار نوادرات ہیں کہ جن کے دیکھنے سے ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ اور بندہ خود کو بے حد خوش قسمت تصور کرتا ہے۔ ہم نے بھی اپنے آپ کو بے خوش قسمت تصور کیا۔ کہ کہاں ہم جیسا پہاڑ کی دامن میں بکریاں چرانے والا آجڑی دیہاتی اور کہاں عثمانی بادشاہوں کے محلات ۔ جو چوتھائی دنیا پر حکمرانی کرتے تھے۔ اورسب سے بڑھ کر کہاں دونوں جہانوں کے بادشاہ اور ان کی زیر استعمال چیزیں۔ اگلے جہاں کو جب حساب کتاب ہوگا تو شاید یہ ہمارے بے حد کام آجائے کہ جس وقت ہم ان سب چیزوں کو دیکھ رہے تھے تو ہمارے دل میں احترام۔ شوق اور محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔

پاکستان کی سیاحت

پاکستان کے مختلف علاقوں کی سیاحت پر میرا ایک بلاگ ہے۔ اس میں درج معلومات اگر کسی کے کام آجائیں تو خوشی ہوگی۔اس بلاگ میں مہینوں کی عرق ریزی اور بہت محنت سے مواد جمع کیا ہے۔ ایک ایک علاقے پر نہایت توجہ سے قدم بہ قدم تفصیل سے لکھا ہے۔ عدم فرصت کے باعث چند علاقوں سے زیادہ پر کام نہ کرسکا۔ ویسے تو دیگر مشہور جگہوں پر بھی کام کیا ہے مگر آزاد کشمیر سے متعلق تقریبا تمام اہم جگہوں کا احاطہ کرلیا ہے۔ ابھی انگریزی میں ہے اردو میں ترجمہ کرنے اور مزید متعدد علاقوں کے بارے میں مودا جمع کرنے کی شدید خواہش ہے۔
مگر ۔۔۔
مصروفیت کار جہاں اُف میری توبہ۔۔۔
اتنی تفصیل آپ کو شاید ہی کسی ویب سائیٹ پر ملے گی۔ اب تک دو لاکھ سے زائد افراد اس بلاگ کو دیکھ چکے ہیں۔
بلاگ کے دائیں طرف والے کالم میں مختلف علاقوں کی فہرست ہے ۔
جبکہ اوپر والی سبز پٹی میں پاکستان، فاٹا، شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کے متعلق کچھ مواد موجود ہے۔
بلاگ کا لنک یہ ہے:

ایران سیاحت کے نئے دریچے کھولنے کی کوششوں میں

جوہری ڈیل کے بعد اقتصادی پابندیوں کے خاتمے سے ایران نے سیاحت کو خصوصی فروغ دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ گزشتہ کئی ایرانی حکومتوں کے دور میں خاص طور پر ایرانی سیاحتی صنغعت کو نظرانداز کیا گیا تھا۔

متنازعہ ایرانی جوہری پروگرام پر گزشتہ برس جولائی میں عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو تہران حکومت نے حتمی شکل دی تھی اور اُس کے باقاعدہ طور پر مؤثر ہونے کی تصدیق اقوام متحدہ کے جوہری واچ ڈاگ ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے کر دی ہے۔ ایرانی حکومت ملک کئی شعبوں کی بحالی کا عمل شروع کر چکی ہے۔ اس میں ایک سیاحت بھی ہے اور ایران اِس مد میں کثیر سرمایہ کمانے کی پوزیشن میں ہے کیونکہ ایران کی برف پوش سکی مراکز، تاریخی و قدیمی مقامات، صحرائی علاقے اور مذہبی مزارات کے ساتھ ساتھ خاص کھانےسیاحوں کی دلکشی کے لیے اہم ہیں۔

ایران کو علاقائی و بین الاقوامی سیاحت کا مرکز بنانے کی نئی کوششیں موجودہ صدر حسن روحانی نے منصب سنبھالنے کے بعد شروع کی ہیں۔ اُن سے قبل صدر محمود احمدی نژاد کے قدامت پسند دور میں یہ شعبہ کلی طور پر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ روحانی حکومت نے سیاحت کا شوق رکھنے والے افراد کے لیے ویزا کا حصول آسان کر دیا ہے۔ کم از کم گیارہ ملکوں کے شہریوں کو آمد پر ویزا جاری کر دیا جائے گا اور ان میں امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور فرانس سرِفہرست ہیں۔ ایران کی سیاحت کے لیے دو تہائی افراد عراق، آذربائیجان، آرمینیا، افغانستان اور پاکستان سے آتے ہیں اور یہ زیادہ تر مذہبی گروپوں کی شکل میں مشہد اور قم کا رخ کرتے ہیں۔

ایرانی دارالحکومت تہران کے علاوہ اصفہان، یزد، شیراز، اور مشہد بھی خاصے مشہور شہروں میں شمار ہوتے ہیں

ایرانی دارالحکومت تہران کے قریبی پہاڑیوں پر کئی اسکی مراکز قائم ہیں۔ اس کے علاوہ اصفہان، یزد، شیراز، اور مشہد بھی خاصے مشہور شہروں میں شمار ہوتے ہیں اور ان شہروں میں تہران کی طرز کی سخت سکیورٹی بھی نہیں ہے۔ اصفہان کا امام اسکوائر اپنی وسعت کے اعتبار سے انتہائی اہم ہے۔ یہ بیجنگ کے تیاننمین اسکوائر کے بعد ایک بڑا چوراہا ہے۔ بعض ٹور آپریٹرز کا خیال ہے کہ ایرانی طرز تعمیر اور فواروں کا بے پناہ استعمال ایک خاص حسن اور دلکشی کا حامل ہے۔

ایرانی صدر حسن روحانی کا خیال ہے کہ عالمی منڈیوں میں خام تیل کی گرتی قیمتوں کے بعد سیاحت ملکی معیشت کو بڑا سہارا فراہم کرے گی۔ ایرانی صدر نے سیاحت کے شعبے کو ترقی دینے کی خصوصی احکامات جاری کر رکھے ہیں اور سن 2025 تک بیس ملین سیاحوں کو ایران کا سفر کرنے کی ترغیب دینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اگر تہران حکومت اپنے اِس مقصد میں کامیاب ہو گئی تو تیس بلین ڈالر سالانہ حکومتی خزانے میں جمع ہونا شروع ہو جائیں گے۔ رواں برس اب تک سوا چار ملین سیاح ایران جا چکے ہیں اور یہ گزشتہ سال کے مقابلے میں پانچ فیصد زیادہ ہے