اُڑن طشتریاں۔,,,خلائی مخلوق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،Aliens۔۔۔۔۔ UFO۔۔۔

حسبِ وعدہ خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کے بارے رائے پیش ہے۔
انسانی شعور اور قدرتی میلان ایسا ہے کہ بچپن سے انسان جادوئی غیر مرئی چیزوں اور محیّر العقول باتوں کہانیوں اور چیزوں سے شدید متاثر ھوتے ہیں۔ نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ یہی امید رکھتے ہیں کہ ایسا کچھ ضرور ھو۔،
یعنی ھم اپنے اُس قدرتی میلان کی روشنی میں خیال گُمان اور فینٹیسی کی جانب رغبت رکھتے ہیں۔ اسی خاطر انسان نے سوچا کہ یہ قدرتی حیاتیاتی سلسلہ بنانے والی طاقتوں کو سوچا جائے انکا ھیولہ یا حلیہ بنایا جائے۔۔ زمانہ قدیم سے خیال گُمان وسوسہ اور خوابی ماحول کے تحت کسی نہ کسی چیز کو خود سے بھی برتر جادوئی پاک۔۔پوِتّر ماننے کا قدرتی رجحان انسان کے اندر ہے۔اس رجحان کو شدید تقویت دینے والی چیزوں میں خوف۔۔۔اور دوسرا لالچ شامل کیا جاتا ھے۔عربی مذاھب خاص طور پر ایسے ہی سوچ کے تحت رایج کئے گئے۔یونان کی عقل و شعور میں بڑھی قوم میں بھی دیوتاوں یا ھر خدائی صفت کا کوئی خدا یا دیوتا مقرر کیا گیا ھندو ازم میں بھی یہی نظر آتا ھے اسلام میں بھی ایک ہی خدا کو وہ سارے صفات دینے کی کوشش 99 ناموں مین ملتی ہے جو اصل میں انسان کی اپنی صفات ہیں۔ پس انسان اپنے خدا یا دیوتا یا خود سے زیادہ طاقت و شعور رکھنے والی سوچ کا اسیر ہے۔۔ بعض اوقات کئی مزھبی جب لاجواب ھو جاتے ہیں تو کہتے ہین اچھا اب مین اپنا مذھب چھوڑ کونسا مذھب اختیار کروں۔۔کیا عیسائی ھو جاوں۔۔۔ یا عیسائی کہیں گے کیا مسلمان ھو جاوں۔۔۔شیعہ کہے گا کیا احمدی ھو جاوں احمدی کہے گا کیا دیوبندی ھو جاوں ؟
میں حیران ھوتا ہوں کہ اے بندہِ اسیر۔۔۔ تجھےمذھب کی کیا ضرورت ہے؟ کیا عالمی اخلاق نہین بتاتے کہ جھوٹ بولنا فریب دینا بےایمانی کرنا قطار بندی نہ کرنا چوری ڈاکہ۔۔قتل ایذا پہنچانا بُرے اعمال ہیں؟ آخر مذھب کے بتانے سے ہی کیوں ماننا ہے۔ ۔۔۔؟ یوں بھی مذھبی ممالک میں پھانسیوں اور سزاوں کی تعداد غیر مذھبی ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔
مذھبی خداوں دیوی دیوتاوں کی طرح انسانی سوچ ھم جیسی یا ھم سے بہتر کسی مخلوق کے بارے میں بھی پُرامیدی رکھتی ہے۔مثلاً قران میں اور کہانیوں یا افسانوں کی طرح جنّوں کا ذکر بھی ہے۔بلکہ سُورۃ کا نام سُوڑۃ الجن ہے ۔۔یعنی ایسی مخلوق جو آگ سے پیدا کی گئی ہے۔ ویسے یہ نہایت بیہودہ خیال ہے کیونکہ آگ تو کائنات کی ھر چیز کو جلا دیتی ہے۔پس بہت ہی زیادہ درجہ حرارت سے بھی دھاتوں کے درمیان تعامل ھونے سے دھاتین ھی بنیں گی یا گیسیں بنیں گی۔۔کوئی اور جیتا جاگتا وجود کسی صورت بننا ممکن نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے انسان کی مذھبی اور رجعتی سوچ کا کہ یہ فرض کر کے کہ جو سُن لیا پڑھ لیا وہ عین سچ ہے پوری زندگی اسی ایمان پر ضائع کر کے لوگ مَر جاتے ہیں۔
جنوں ہی طرح جب انسانی سوچ کسی طبیعی قدرتی کیمیائی یا طبیعاتی مظہر کو سمجھ نہیں پاتی تو اُسے فوری طور پر کسی غیر مرئی طاقت کا کام قرار دیتی ہے۔اس سے اسکے اس پرانے ایمان کی تسکین ھو جاتی ہے کہ ھم سے بہتر طاقتیں موجود ھیں۔جو جیسا چاھیں کر سکتی ہیں ھم جو نہین کر سکتے وہ کر سکتی ہیں۔
اسی سوچ کے تحت دنیا بھر کی تاریخ میں لوگوں نے ھر طرح کی خلائی مخلوق کے دیکھنے کا ذکر کیا جو انسان کی سوچ پڑھ لیتی ہے یا آنکھوں میں دیکھ کر انسان کو ساکت کر دیتی ہے۔انسان بےحس ھو جاتا ھے دیکھ سُن سکتا ھے مگر کچھ عمل نہیں کر سکتا۔۔
پھر اس خلاقئی مخلوق کے آنے جانے کو سواری کے لئے مختلف نام دئیے گئے جیسے جبرائیل ۔۔۔کا اڑتے گھوڑے پر سفر کرنا۔۔۔جیسے کسی گول یا بیضوی چیز اڑن گاڑی جس مین سے شعائین نکلتی ہوں اسکا ذکر کرنا۔۔۔
امریکہ چونکہ جدید ٹیکنالوجی میں سب سے آگے رھا ھے اس لئے امریکہ کے اداروں پر الزام ہے کہ وہ
خلاقئی مخلوق سے رابطہ کر چکے ہیں۔۔یا خالقئی مخلوق کی گاڑی زمین سے ٹکرائی تو اسکے پرزے اور خلائی مخلوق کو زخیمی یا مردہ حالت میں امریکہ کے اداروں نے پکڑا اور کہین چھپایا ھوا ھے وغیرہ۔۔
اسی حوالے سے سیاسی یا کسی اور چال کے تحت وقتاً فوقتاً امریکی میڈیا اڑان طشتریوں کا ذکر شروع کر دیتا ھے۔تاکہ لوگوں کی توجہ کسی اور اھم صورتِ حال سے ھٹائی جاوے۔
اسی کے تحت پچھلے کچھ دنوں سے امریکی کانگریس کی ایک خصوصی کمیٹی کچھ ریٹائیرڈ خلائی ریسرچرز اور سائینسدانوں سے سوال جواب کر رھے ہیں،،
تاھم کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی نہ ھو کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے۔صرف دعوے جات ہیں۔۔ناسا مکمل انکار کر چکا ہے۔
مشہور سائیسندان نیل ڈیگراس ٹائیسن نے چند دن پہلے لکھا کہ
۔Sometimes I wonder whether alien space vessels are inherently fuzzy & out-of-focus (that would be terrifying). And whether they love the US Navy
(that would be charming).
If so, it would explain a lot.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی مجھے حیرانی ہے کہ خلائی مخلوق کے جہاز ھمیشہ دھندلے اور غیر واضح ہی کیوں ھوتے ہیں (ویسے یہ خوف والی بات ہے) اور انکو امریکہ کی نیوی سے ہی چھپنے چھپانے میں کیوں لطف آتا ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی نیل ٹائیسن عمومی خیال کو جُھٹلا رھا ھے کہ ایسی کوئی خلائی گاڑی یا مخلوق ہے۔اب یہ روشنیاں اور دھندلی چیزوں کی تیز ترین حرکت کیوں ھوتی ہے تو اس بارے فزکس شاید ابھی اس میگنیٹک اور الیکٹریکل میدان کو سمجھ نہیں سکی جسکی وجہ سے قریبی جہازوں کے بعض انسٹرومینٹ کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔عام لوگوں کو شاید معلوم نہ ھو کہ آسمانی بجلی کا گیند سا جب بےپناہ چارج کی وجہ سے بنتا ھے تو بعض اوقات جہاں بنتا ھے وھاں سے 25 کلومیٹر دور بھی جا کر گِرتا ہے۔یعنی جہاں بادل ہیں وھاں سے ادھر بھی جا کر گِر سکتا ھے جہاں بادل نہیں ہیں۔جو غیر سائینسی ذھن کے عام شخص کے لئے سمجھنا بہت مشکل ہے اور ایسا ھوتا دیکھ کر وہ فوری خدا کے غضب ۔۔۔۔خلائی مخلوق کی گاڑی وغیرہ کے خیال کی روشنی میں مشاھدے کو بدل بدل کے پیش کرے گا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ نہایت تیز رفتار کیمرے ان خلائی گاڑیوں کی تصویر تک نہین لے سکتے جو واضح ھو ۔۔۔اسکی وجہ میرے یہی ہے کہ بے پناہ چارج کے دباؤ اور برقی اور مقناطیسی میدان کی وجہ سے کیمرے کی جانب جانے والے روشنی اپنے معمول یا منطر کی تصویر دھندلا جاتی ہے۔
میں سائینس کا معمولی طالب علم ہوں لیکن میں نے نیل ڈیگراس ٹائیسن کو لکھا کہ جس زاوئیے سے میں سوچ رھا ہُوں اسکو پرکھنے کا کیا طریقہ ھو سکتا ھے؟ کیونکہ یہ رپورٹ کیا جاتا ھے کہ جیسے 1976 کے ایرانی اڑن طشتری والے کیس میں دوسرے جہاز کے نہایت ماھر پائلٹ نے بھی جب جوابی میزائل داغنے کی کوشش کی تو قریبی فاصلے پر اسکے انسٹرومینٹ فیل ھو گئے۔۔ اسنے خؤد کو بچانے کے لئے سرعتی گراوٹ کو اختیار کیا۔۔۔تو بعد مین اسکے انسٹرومینٹ کام کرنے لگے۔۔
اس سے صاف معلوم ھوتا ھے کہ ایسی خلائی چیز کے قریبی علاقے میں بجلی سے چلنے والی چیزیں متاثر ھوتی ہے۔اب اگر آپ سولر سسٹم اور اس سے زمین پر پہنچنے والے خلائی شمسی طوفانون کے بارے جانتے ہوں آپ کو معلوم ھوگا کہ شمسی سولر طوفانوں کی وجہ سے ھماری مواصلاتی نظام درھم برھم ھوجاتے ہیں۔۔کمپیوٹر ۔۔انٹرنیٹ،،بجلی کی ترسیل کا نظام سب متاثر ھو جاتے ہیں۔،، شمسی طوفان اگر شدید تر ھوں تو خلا میں مواصلاتی سیارے ان بےپناہ طاقتور مقناطیسی میدانوں کی وجہ سے تباہ ھوجاتےہیں۔ جاپان کو سیارہ بھی ایسے ہی شمسی طوفان نے تباہ کیا تھا۔
پس یہ خلائی روشنیاں جو لوگ دیکھتے ہین اور جنکی تصاویر تک ٹھیک سے نہین بن سکتیں اور جن میں سے روشنیان نکلتی ہیں۔۔شاید مقناطیسی اور برقی ارتکاز کے حصار ہوتے ہیں اور بعض اوقات ساکن ھوتے ہیں لیکن جب حرکت کرتے ہیں تو بعض اوقات روشنی کی رفتار سے طرح غائب ھو جاتے ہیں۔ انکا اتنی تیزی سے غائب ھونا یا ایک جگہ کے الٹ کسی جگہ جا موجود ھونا بتاتا ھے کہ وہ دھاتی سٹرکچر نہیں ہیں ۔۔۔یہ تو سائینسی استدلال تھا دیکھتے ہیں سائینس اس پر آگے کیسے روشنی ڈالتی ہے۔
اب ھم اس پر فلسفیانہ اور منطقی طور پر غور کرتے ہیں۔
اگر یہ نظام حیات کسی طاقت یا خدا یا خداوں نے بنایا ہے تو ظاھر ھے وہ ھم سے زیادہ طاقت ہیں۔۔ اگر وہ اپنے آپ کو کسی ڈائمینشن یا جہت میں چھپائے ھوئے ہیں تو ھم جتنا چاھیں ترقی کر جائیں انکو۔۔انکی مرضی کے بغیر نہیں ڈھونڈ سکتے۔
اگر اُن طاقتوں نے یا طاقت نے یا خدا نے کچھ بھی کہہ لیں(لیکن مذھبی خدا جھوٹ ہے) اگراس زمین کی مخلوق کے علاوہ بھی کوئی مخلوق بنائی ہے تو کیوں وہ ھم سے زیادہ طاقت ور ھوگی؟جبکہ کروڑوں اربوں سالوں کے ارتقا سے ھمارا وجود کم از کم زمین پر اشرف المخلوقات طے ھوا۔ اگر کروڑوں سالوں میں یہ سنگ میل انسان تک پہنچا ھے تو کیسے ممکن ہے کہ کہین اور اس سے بہتر ڈیزائین کی حامل مخلوق بن گئی ہو؟ کیونکہ جب خدائی طاقتیں کنٹرولڈ ارتقا کی جانب چل رھے ہین تو کسی اور سیارے پر اس سے بہتر ڈیزائن ممکن نہیں۔یعنی اگر جدید ترین کمپیوٹرز کو جوڑ کر سُپر کمپیوٹر صرف اسنان زمین پر بنانے میں بمشکل کامیاب ھوا ھو تو کسی کسی ستارے یا چاند اس سے بہتر کمپیوٹر انسان تیار کر لے گا؟
پس عقلی طور پر یہ ممکن نہیں۔
مذھب خدا کا خیال تو خیر نہایت ھی ادنی خدا کا خیال ہے جو جنت دوزخ بنا کر بیٹھے ھوئے احمق اور طیش سے بھرے بُڈھے کی صورت کا خیال ہے۔جسکو گناہ گار انسانون کو دوزخ میں پھینکنے اور نیکوکاروں کو کنواری عورتیں دینے کے سوا کوئی خوف یا لالچ معلوم نہیں۔ ایسے خدا نے جب انسان کو اشرف المخلوق قرار دیا ہے تو پھر خلائی مخلوق کی گاڑی اور اسکی کارستانیاں انسانوں کے لئے ھیچ ھونی چاھئیں۔اور انسان کو غالب آنا چاھئیے۔۔لیکن کیا کیا جائے کہ مذھب بیچارہ خود ھی متضاد سوچ کا کنفیوذ خدا رکھتا ھے جس نے جن بھی بنائے آگ سے۔۔۔۔جو سلیمان کا تخت ایک پل میں اسکے پاس لے آئے۔
تیسرا زاویہ یہ ہے کہ کیا یہ روشنیاں یا خلائی جہاز وغیرہ۔۔۔کہیں خدائی طاقت کے مظاہر نہ ھوں؟
آئیے غور پر کرتے ہیں کہ حیاتیاتی نظام میں نام نہاد خدا یا خدائی طاقتوں نے کیا کبھی حیاتیاتی نظام چلانے کو اعلی ترین طبیعاتی فلکی مقناطیسی میدانوں کو استعمال کیاہو؟ ھم دیکھتے ہیں کہ کیمیائی تعامل کثرت سے انسانوں جانوروں اور پودون میں استعمال ھوتے ہیں۔ مگر بہت مقامات پر حیاتیاتی طاقت۔۔۔ طبیعاتی یا فزکس کے اصولوں کی مکمل غلام ہے اور کسی بھی جگہ کسی بھی طور پر کائنات کے فلکیاتی اور طبیعاتی نظاموں پر کسی فنکشن کی وجہ سے کسی کاریگری سے تسلط نہین پا سکی۔
مثلاً انسانی فوطے اس لئے جسم سے باھر آتے ہیں کہ اندر کی زیادہ گرمی سپرمز کو مار نہ دے۔ یعنی ایسا نظام نہ بنا سکا کہ سپرم اندر ہی رھتے
فالتو عضو باھر لٹکانے کی کیا ضرورت تھی؟

All mammals have the nerve, and as a result of our fishy ancestry, in all mammals, the nerve goes down the neck, through a heart blood vessel loop, and back up. In fish, of course, the distance is shorter — fish have no necks.
ڈاکٹر رچرڈ ڈاکنز سے سائینسدانوں کے ایک بڑے ھال میں ایک نمائش کی اور ایک زرافے کے دماغ سے حلق میں آنے والی اور پھر واپس آنے والی نرو ٹیوب کو دکھایا۔
laryngeal nerve
دماغ سے نکل کر جانداروں کے حلق میں آتی ہے انسانوں میں اور مثلاً مچھلیوں میں یہ نرو دماغ سے گلے میں آ کر واپس جاتی ہے لیکن راچرڈ ڈاکنز اسے کاپی پیسٹ ڈیزائن کی خرابی کہتا ہے کہ ذرافے میں یہ نرو ٹیوب دماغ سے نکل کر لمبی گردن سے ھوتی ھوئی دل کے قریب سے یوٹرن لیکر واپس دماغ میں چلی جاتی ہے۔جبکہ ھرگز اسکی کوئی طبی ضرورت نہیں تھی۔
اس سے پتہ چلتا ھے کہ خدائی طاقتوں یا طاقت نے کیمیائی تعاملات کو حیاتیاتی سلسلے میں رایج کرنے میں مکمل کامیابی نہیں پائی کچھ خامیاں موجود ھیں۔ جو ھر سال لاکھوں معزور انسانوں معزور درختوں ، معزور پرندوں اور معزور جانوروں کی ناقص پیدائیش کا باعث ہے
یونیسیف کے مطابق اس وقت دنیا میں 240 ملین معزور بچے ہیں
اب سوچیں کہ یہ تعداد پاکستان کی آبادی سےبھی زیادہ ہے۔اگر بالغ اور معزور بچے شمار کریں تو تعداد 1300 ملین سےبھی زیادہ ھوگی۔ یعنی کُل انسانی آبادی کا چھٹا حصہ معزور ہے؟ کیا خدائی ڈیزائینگ نقایص سے عاری ہے؟ نہیں ھرگز نہیں
۔۔پس ۔ خدا کی اس ڈیزائینگ کی خامی کے باقصف ھم کہہ سکتے ہیں کہ ھمارے خداوں یا خدا کی ھم سے بہتر کسی خلائی مخلوق کا تصور درست نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا
کینیڈا
www.silsla.com

دوسری اھم ترین کتاب۔۔۔”خدا کیوں” پیش خدمت ہے۔۔ یہ ڈآکٹر ڈاکنز کا پیش لفظ اور جے اینڈریسن کی لکھی کتاب ہے۔ جو عقل و شعور کو بیدار کرتی ہے
خدا کیوں؟
توہمات کی دُنیا، کارل سیگان۔۔۔۔ ایک نہایت ضروری کتاب
پاکستانیوں کے لئے نہایت ہی ضروری کتاب
قران کے ممکنہ مصنفین کون کون ھو سکتے ھیں؟
یہ ایک تاریخی پس منظر سے جزوی تحقیق ہے
قرآن، کے قدیم نسخے، قران کب لکھا گیا؟
قرآن کو بارے میں غیر مذھبی، اور خالص سائینسی تحقیقات کے مطابق ابتدائی قرانی ٹکڑوں میں پرانے انبیا کے بارے آیات تو موجود ھیں لیکن محمد صآحب کے بارے نہیں، مدینہ یا مکہ کا کوئی تذکرہ نہیں کہ معلوم ھو کہ یہ تحاریر کب کی ہیں،،،۔ بعد میں ان سے متعلق مواد بھی ھے۔
تحقیق کے مطابق نسخہ کا میٹیریل کتنا پرانا ھے کا اندازہ لگانے والوں نے اُسے اسلام سے بھی کچھ پہلے کا بھی مانا ھے۔کچھ نے محمد کی ولادت سے پہلے اور کچھ نے قریب و بعد ولادت کاربن ڈیٹنگ کی تواریخ نکالی ہیں۔
اس بارے سچی تحقیق کسی مذھبی یا خاص مسلمان سے کی جانے کی امید رکھنے والے بیوقوف ھونگے کیونکہ وھاں ایمان کی بنیاد پر تحقیق کی جائیگی جو کہ سائینسی رویہ یا طریقہ نہیں ھے ،،اسکے لئے بےلاگ بے ایمان سائینسی لوگ ھی مدد دے سکتے ھیں۔

۔
ھمیشہ سائینس میں بھی مستشرقیں و ملحدین وغیرہ سے مدد لینا پڑتی ھے۔کیونکہ ان سے ھمیں بغیر ایمان کے سچی تحقیق کی امید ھوتی ھے۔۔
برمنگھم کی لائیبریری میں موجود تین چوتھائی سے کم حصہ والے اس قرانی نسخوں اور موجودہ یا بعد کے قرآنی نسخوں کی طوالت اور آیات و مضامین میں مماثلت موجود ھے۔
ابوبکر کے بارے کافی خیال کیا جاتا ھے کہ اصل مصنف وہ بھی ھو سکتے ھیں۔ کیونکہ وہ ہی محمد کے قریب ترین ساتھی رھے ھیں۔
پھر سب سے اھم بات یہ ھے کہ عثمان نے سارے دوسرے نُسخے کیوں جلائے؟ اگر فرق نہیں تھا؟ یہ بات ایسی ھے کہ اس کو کسی صورت بھی رد کرنے والے مسلمان سے مزید بحث کرنا احمقانہ ھوگا۔۔یہاں اُسکا اور تحقیق کا میدان الگ ھوجاتا ھے۔
معلوم ھوتا ھے عثمان کے دور میں ایسے نسخوں مین بہت زیادہ فرق تھا جسکی وجہ سے اُن نسخون کو جلا دیا گیا۔۔تاھم اس سے پہلے یا بعد میں کچھ اور نسخے جن کے مضامین الگ تھے وہ کچھ لوگوں نے کہیں چھپا دئیے کسی مٹی کے یا آھنی مرتبان میں محفوظ کر دئیے ۔۔جو مختلف قریبی ممالک کی کھدائیوں میں بار بار دریافت ھوئے ھیں۔
یمن سے خاص طور پر کئی نمونے ملے۔۔۔یمن سے کیوں مِلے؟ اس سے پتہ چلتا ھے کہ یمن کے اُن ادوار کے بادشاھوں کا بھی اس میں حصہ ھوگا۔۔۔جنہوں نے پہلے مسلمانوں کو پناہ دی ۔۔یا مِلکر یہ قرآنی منصوبے بنائے۔۔
سائینسی سکالرز کے مطابق ایسے قرآنی نسخوں میں جو کہ کسی جانور کی کھال پر لکھے ملتے ھیں۔ بسا اوقات ایک تحریر کے نیچے سے اور مختلف مضمون و معانی کی تحریر جا بجا ملتی ھے جس سے پتہ چلتا ھے۔ کہ مضامین میں ترامیم تھیں،،اسی لئے عثمان کے دور میں سب کو مِلا جُلا کر جو قرانی ترتیب بنائی گئی اسے نافذ کرنے کی زبردستی کوشش کے نتیجے میں باقی انفرادی قرآنی نمونے جلا دئیے گئے۔۔اور ممانعت کی گئی کہ باقی طرح کے قرآنی نمونے نہ استعمال ھوں،
برمنگھم یونیورسٹی لندن انگلینڈ میں عرب ممالک سے قدیم پارچات کی کھدائیوں کے دوران ملنے والے اس جزوی قرآن، کے بارے تحقیق کی گئی تو مختلف کارب ڈیٹنگ نتائج معلوم ھوئے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلریٹر یونٹ کے ذریعہ کئے گئے یہ ٹیسٹ ، بتاتے ہیں کہ یہ ٹکڑے ، جو بھیڑوں یا بکریوں کی کھال پر لکھے گئے تھے ، قرآن کریم کی قدیم زندہ عبارتوں میں شامل تھے۔ یہ ٹیسٹ بہت سی تاریخوں کی تاریخ فراہم کرتے ہیں ، جس میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ
سنہ 568 سے 654
تک اسکی عمر ھو سکتی ھے
یونیورسٹی کے عیسائیت اور اسلام کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے کہا ، "وہ اسلام کے اصل بانی چند سالوں میں ہمیں اچھی طرح سے واپس لے جاسکتے ہیں۔
پروفیسر تھامس کے مطابق ، فولیوز کی ڈیٹنگ کا بھی بہت اچھی طرح سے مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ قرآن پاک لکھنے والا شخص شاید زندہ رہتا تھا اور حضرت محمد (ص) کی تبلیغ سنتا تھا۔
واقعتا. جس شخص نے یہ لکھا تھا وہ محمد کو اچھی طرح سے جان سکتا تھا۔ شاید وہ اسے دیکھتا ، شاید اس نے اسے تبلیغ کرتے ہوئے سنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اسے ذاتی طور پر جانتا ہو – اور یہ واقعی اس کے ساتھ قابو پانا کافی سوچ ہے۔
،،
محقق کی اس تحقیق سے کاتیبین وحی یا مصنفین قرآن کی جانب وجہ جاتی ھے۔میرا ذاتی خیال اور تحقیق کے بتاتی ھے۔ کہ ابوبکر یعنی ابن قحافہ کا حسہ بہت زیادہ ھوگا۔جبکہ عمر نے بعد میں کچھ مضامین کو شامل کروایا جن میں شراب کی ممانعت وغیرہ شامل ھے۔
برمنگھم کے ان مخطوطات میں دو اوراق ہیں۔تحقیقی نگار نے صرف 33 ممضامین یا جملوں کا بعد کے قرآنی نسخون سے موازنہ کیا تو معلوم ھوا کہ قران کے آدھے سے کچھ زیادہ جملے یا آیات نامکمل ، ٹوٹے پھوٹے، یا مضمون کی کافی تبدیلی والے یا مختلف ھیں۔
برمنگھم کے ان نسخوں پر دو سکالرز سے لیکچرز کی درخواست کی گئی۔۔یہ 2015 کا واقعہ ھے۔
اسے برمنگھم فریگمینٹس شو کا نام دیا گیا۔۔
روسی سکالر ایفین ریزوان۔۔۔۔۔نے
بتایا کہ
“The very early dating of all these fragments-before the reign of Uthman-casts doubt on *both the Islamic tradition” *refer to the next section
“The fact that the folios were kept for centuries in an iron box, underground can partly explain the early radiocarbon dating”
“Parchment was an expensive material (the skin of an entire animal was used to produce the big folio). Monastic and state scriptoria, located on the territory of Greater Syria, Antiochia, al Hira and Alexandria areas, could store this valuable material (including the donations of the pious laity).
یعنی یہ شام سے مِلے کسی جانور کی مکمل کھال پر لکھے گئے ہیں،اور کسی آھمی مرتبا میں بہت لمبا عرصہ تک چھپائے گئے۔
۔
These stocks became part of the loot captured by the Arabs in the first years of the conquest. Captured leaves were used for writing the Quran.”
اب مسئلہ یہ ھےکہ جانور کی کھال جس پر لکھا گیا وہ تو بہت پرانی ھے کیوں کہ مسلمانوں نے جب شام کو تاراج کیا اور لُوٹا تو یہ پارچات یعنی اَن لکھے پارچات انکے ھاتھ لگے۔۔۔اب ان پارچات پر کب لکھا گیا یہ معلوم نہیں۔۔ ظاھر محمد کے زمانے میں لمبی تحاریر لکھنے کے لئے عربوں کے پاس مہارت موجود نہیں تھی۔
Conclusion; is that we cannot know when the writing took place as the carbon dating only gives a time line to the animal skin, not the writing, and the parchments were written on at a much later date.
Emilio Platti; “pointing out differences to the Sana codex-unquestionably the oldest manuscript (705), which therefore means that this Birmingham fragment is subsequent to the oldest manuscript (Sana).”
جبکہ دوسرے محقق ایمیلیو پلاٹی کے مطابق صنا یا صنعا لکھائی کا طریق قدیم ترین اسلوب 705 عیسوی کا ھے۔۔
جبکہ ایک اور محقق ڈاکٹر جے سمتھ کے مطابق کاربن ڈیٹنگ سے یہ نسخے اسلام سے بھی پہلے کے معلوم ھوئے ھیں۔
اور یہ درآمدہ پرانی کہانیوں کو بدل کر لکھا گیا ھے۔اور بہت سی آیات بائبل اور انجیل وغیرہ سے کچھ تبدیلی کیساتھ یہان لکھ دی گئی ھیں۔ لیکن کسی میں بھی مدینہ، مکہ۔۔اور محمد کا ذکر حیرت انگیز طور پر نہیں موجود ھے۔
Dr. Jay Smith; the verses found on the Birmingham text pre-date Islam, examples and are plagiarised stories;
Sura 18:17-31; = the 7 sleepers of Ephesus (Metaphrastes & Surag 521 A.D.)
Sura 19: 91-98 = Proto Evangelium of James (145 A.D.)
Sura 20: 1-40 = the story of Moses (1400 B.C.)
None of the verses cover Mohammed, Medina, or Mecca, and there is nothing to do with the Caliphs7
۔۔۔۔
برٹش لائبریری کے ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ واضح لکھائی میں حجازی لکھائی میں لکھے گئے یہ نسخے یقینی طور پر پہلے تین خلفا کے زمانے کے ہیں یعنی 632 اور 656 کے عرصے کے۔ ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان اس وقت اتنے امیر نہیں تھے کہ وہ دہائیوں تک کھالوں کو محفوظ کر کے رکھتے اور قرآن کی ایک مکمل نسخے کے لیے کھالوں کی بڑی تعداد درکار تھی، یہ نسخہ 3000 سے زیادہ مشرق وسطیٰ کے دستاویزات کے مسٹر منگانا مجموعے کا حصہ ہے جو 1920 کی دہائی میں جدید کےعراق کے شہر موصل سے پادری الفونسے منگانا لائے تھے،
برمنگھم یونیورسٹی میں ملنے والے قرآن کریم کے صفحات 1370 سال پرانے ہیں اور یہ ایک زمانے میں مصر میں فسطاط میں واقع دُنیا کی قدیم ترین مسجد عمر بن عاص میں رکھے ہوئے تھے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماہرین کو تقریباً یہ یقین ہو گیا ہے کہ یہ صفحات پیرس میں فرانس کی نیشنل لائبریری ’ببلیوتھک نیشنل دی فرانس‘ میں رکھے قرآن شریف کے صفحات سے ملتے ہیں۔
۔

لائبریری اس بارے میں قرآن کے تاریخ دان اور کالج دی فرانس میں معلم فرانسوا دریچو کا حوالہ دیتی ہے جنھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برمنگھم میں ملنے والے صفحات اور پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات قرآن شریف کے ملتے جلتے نسخے کے ہیں۔
برمنگھم یونیورسٹی کی دستاویزت میں قرآن کے صفحات تلاش کرنے والے محقق البا فدیلی کا بھی یہی کہنا ہے کہ پیرس اور برمنگھم یونیورسٹی میں موجود صفحات ایک ہی نسخے کے ہیں۔
پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات کے بارے میں علم ہے کہ یہ فسطاط میں مسجد عمر بن عاص کے قرآن شریف کے نسخے کے ہیں۔
پیرس کی لائبریری کے صفحات انیسویں صدی کے اوائل میں نپولین کی فوج کے مصر پر قبضے کے دوران وہاں تعینات وائس کونسل ایسلین دی چرول یورپ لائے تھے۔
پروفیسردریچو کا کہنا ہے کہ ایسلین دی چرول کی بیوہ نے یہ نسخہ اور کچھ اور قدیم دستاویزات برٹش لائبریری کو سنہ 1820 میں فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پیرس کی نیشنل لائبریری کو مل گئے اور جب سے اب تک یہ وہیں محفوظ ہیں۔
اسی دوران کچھ حصے نکال لیے گئے جو بعد میں فروخت کر دیے گئے۔ قیاس یہی ہے کہ متعدد بار فروخت ہونے کے بعد یہ صفحات ایک عراقی پادری ’ایلفاس منگانا‘ کے ہاتھ آئے۔ وہ مشرق وسطی میں نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ جایا کرتے تھے جن کا خرچہ برطانیہ کا کیڈبری خاندان اٹھاتا تھا۔
پروفیسر دریچو کا کہنا ہے کہ اس بات کے کوئی سرکاری شواہد موجود نہیں رہے لیکن اس طرح مسٹر منگانا کو فسطاط کے خزینے کی چند دستاویزات ملی ہوں گی۔ منگانا کو انہی گراں قدر علمی خدمات کے عوض ’لیجن آف آنر‘ کا اعزاز دیا گیا۔
۔۔
اب ان دلائل اور تواریخ کے بعد ھم اصل منشا کی جانب چلتے ہیں، جس میں قرآن کے بارے میں دعوی جات کی فہرست بنائیں اور ھر ایک کا شافی جواب بھی تلاش کریں، لیکن ھمارا رویہ ایمانی نہیں ھوگا درسی و تدریسی و تحقیقی ھوگا۔کیونکہ پہلے بھی لکھ چکا ھُوں کہ ایمان کے ذریعے کسی بھی معاملے میں تحقیق جھوٹ کی ملاوٹ لازمی رکھتی ھے۔
۔۔۔
آئیے اب سوالوں کی فہرست بناتے ہیں۔
قران کب بنایا گیا،
قران کب لکھا گیا
قرآن نبی پر اترنے کے دعوے کو ھم چھوڑ دیتے ھیں اور اسے سچ مان لیتے ھیں، تاکہ جھگڑا کھڑا نہ ھو کیونکہ ھمارے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں ھے کہ ھم معلوم کرسکیں کہ واقعی وحی کوئی چیز ھوتی ھے اور محمد پر وحی نازل ھوتی رھی، یا انہوں نے دوسروں کی مدد سے قرآنی آیات تشکیل دیں۔
ھم تحقیق کرتے ھیں کہ
قران کب بنایا گیا۔۔
قرآن کب لکھا گیا
قران کی ترتیب کیا ایسی ھی اتری یا تبدیل ھوئی
قران کی ترتیب کیوں بدلی؟ کس نے بدلی؟ کب بدلی؟
کیا قرانی نسخے جو بھی دریافت ھوئے ھیں ان میں بہت جگہ جو فرق موجود ھے وہ کیا بتاتا ھے؟
ابتدائی قران میں کیا کچھ نہ تھا اور کیا کچھ بعد میں شامل کئے جانے کا امکان ھے؟
پیٹریشیا کرون میری طرح یہ سوال اٹھاتی ھیں کہ۔۔
Patricia Crone, a widely acknowledged expert on early and medieval Islam:wrote !
We can be reasonably sure that the Quran is a collection of utterances that [Muhammad] made in the belief that they had been revealed to him by God … [He] is not responsible for the arrangement in which we have them. They were collected after his death—how long after is controversial!
یعنی ھم شواھد کی مدد سے یہ نتیجہ تو نکال سکتے ھیں کہ قرآنی لکھت محمد کے مطابق اُن پر اترنے والی آیات ہیں، لیکن محمد، اُس ترتیب کے ذمے دار نہیں ہیں جس میں یہ اب موجود ھے !۔۔
یعنی قران کی آیات اور پاروں اور سورتوں کی ترتیب محمد کی بنائی ترتیب کسی صورت نہیں ھوسکتی،،۔۔یہ کب بنائی گئی ؟ کیوں بنائی گئی؟یہ ھے اگلے سوالات !۔۔۔
اوپر کے سوالوں میں سے دوسرے سوال کا جواب کہ قرانی کی یہ ترتیب ممکنہ طور پر کب بنائی گئی کا جواب محققین نے ڈھونڈ لیا ھے اور برمنگھم کے نسخے اور فرانس میں موجود نسخے کے تقابل سےمعلوم ھوتا ھے کہ محمد کی موت کے بعد قران کو ترتیب دیا گیا کیونکہ اس سے پہلے یہ سہولت موجود نہ تھی کہ ھزاروں جانوروں کی کھالوں پر اسے لکھ کر محفوظ کیا جا سکتا ، یہ ھنر پہلے عربوں کے پاس نہیں تھا ، جب عربوں نے پہلے رسول کے اخری وقت اور بعد موت کے دوسرے ممالک پر قابضانہ حملے کئے تو مال و متاع کے ساتھ وھاں سے مختلف ھنر بھی انکے ھاتھ لگے، کھالیں محفوظ کرنے کا ھنر اور محفوظ شُدہ کھالیں مِلیں جن پر لکھا جا سکتا تھا۔کچھ لوگوں نے اپنے طور یہ کام کیا۔لیکن ھر ایک متن مختلف تھا۔ جیسے برمنگھم کے نسخے میں مدینہ مکہ محمد وغیرہ کے بارے کوئی معلومات نہیں ہیں۔
تحقیق کاروں کے نزدیک سب سے پرانا مکمل کے قریب نسخہ عثمانی قران کے طور پر مشہور ھے۔عثمان کا دور محمد کے مرنے کے 20 سال بعد کا دور ھے۔۔
اسی قرآنی نسخے کو تاشقند نسخہ یا ثمرقند نسخہ بھی کہتے ہیں، یہ مسخہ اصلی نسخے کے ایک بٹا تین حصے کے برابر محفوظ ھے۔
دوسرا قرآنی نسخہ صنا نامی نسخہ ہے۔جسکی کاربن ڈیٹنگ 578 سے 669 تک ہے۔۔
۔Results from radiocarbon dating from a Sana Quran parchment
indicate that the parchment has a 68% probability of belonging to the period between AD 614 to AD 656. It has a 95% probability of belonging to the period between AD 578 and AD 669 (Behnam Sadeghi; Uwe Bergmann, “The Codex of a Companion of the Prophet and the Qur’ān of the Prophet,” Arabica, Volume 57, Number 4, 2010, p.348.)
The Sana palimpsest is not only significant because it is one of the oldest Qurans in existence. It’s also significant because the top layer (the text written over what was erased) is the text of the standard Uthmanic version of the Quran. Beneath this standard Uthmanic version (the part that was erased) is a non-Uthmanic version of the Quran.
یہاں اب نہایت ضروری بات یہ ھے اوپری سطح کو مِٹا کر دیکھا گیا کہ نیچے کی سطح پر غیر عثمانی ورژن کا قرآن تھا جسے مِٹا کر اوپر کی سطح پر عثمانی طرز کا قرآن لکھا گیا ھے۔اب یہ سائینسی دریافت ثبوت کے ساتھ موجود ھے۔کوئی مخالفانہ بیان نہیں ھے۔
۔۔۔
اسلامی نکتہ نظر والے محقق اس بارے مندرجہ ذیل رائے رکھتے ھیں۔
Muhammad Mustafa Al-Azami, Professor Emeritus at King Saud University, argues that the following list of manuscripts “have been conclusively dated to the first century A.H.”
- A copy attributed to Caliph Uthman bin Affan. Amanat Khizana, Topkapi Saray, Istanbul, no.1.
- Another copy ascribed to Uthman bin Affan. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.208. This copy has some 300 folios and it is missing a portion from both ends.
- Another ascribed to ‘Uthman bin ‘Aflan. Amanat Khizana, TopkapiS aray, no. 10. It is only 83 folios and contains notes written inthe Turkish language naming the scribe.
- Attributed to Caliph ‘Uthman at the Museum of Islamic Art, Istanbul. It lacks folios from the beginning, middle and end. Dr. al-Munaggid dates it to the second half of the first century.
- Attributed to Caliph ‘Uthman in Tashkent, 353 folios.
- A large copy with 1000 pages, written between 25-31 A.H. at Rawaq al-Maghariba, al-Azhar, Cairo.
- Attributed to Caliph ‘Uthman, The Egyptian Library, Cairo.
- Ascribed to Caliph ‘Ali bin AbI Talib on palimpsest. Muzesi Kutuphanesi, Topkapi Saray, no. 36E.H.29. It has 147 folios.
- Ascribed to Caliph ‘Ali. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.33. It has only 48 folios.
- Ascribed to Caliph ‘Ali. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no. 25E.H.2. Contains 414 Folios.
- Ascribed to Caliph ‘Ali. Raza Library, Rampur, India, no. 1. Contains 343 Folios.
- Ascribed to Caliph ‘Ali, San’a’, Yemen.
Quran kept at the al-hussein mosque in Cairo, Egypt. Some believe it goes back to Uthman.
Quran kept at the al-hussein mosque in Cairo, Egypt. Some believe it goes back to Uthman.
- Ascribed to Caliph ‘Ali, al-Mashhad al-Husaini, Cairo.
- Ascribed to Caliph ‘Ali, 127 folios. Najaf, Iraq.
- Ascribed to Caliph ‘Ali. Also in Najaf, Iraq.
- Attributed to Husain b. ‘Ali (d. 50 A.H.), 41 folios, Mashhad,Iran.
- Attributed to Hasan b. ‘Ali, 124 folios, Mashhad, Iran, no. 12.
- Attributed to Hasan b. ‘Ali, 124 folios. Najaf, Iraq.
- A copy, 332 folios, most likely from the early first half of the first century. The Egyptian Library, Cairo, no. 139 Masahif.
- Ascribed to Khudaij b. Mu’awiya (d. 63 A.H.) written in 49 A.H. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no. 44. It has 226 folios.
[#21 is missing in al-Azami’s list.]
- A Mushaf in Kufic script penned in 74 A.H. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.2. It has 406 folios.
- A copy scribed by al-Hasan al-Basri in 77 A.H. The Egyptian Library, Cairo, no. 50 Masahif.
- A copy in the Museum of Islamic Art, Istanbul, no. 358. According to Dr. al-Munaggid it belongs to the late first century.
- A copy with 112 folios. The British Museum, London.
- A copy with 27 folios. The Egyptian Library, Cairo, no. 247.
- Some 5000 folios from different manuscripts at the Bibliotheque Nationale de France, many from the first century. One of them, Arabe 328(a), has lately been published as a facsimile edition.
Al-Azami overstates that these have been “conclusively dated to the first century A.H.” For example, the manuscripts from Topkapi can be dated to the second century A.H. (Islamic Awareness). Several of the manuscripts attributed/ascribed to Uthman probably did not belong to him.
Nevertheless, considering that Muhammad died around 632 AD, these are still old Quran manuscripts.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر ان اسلامی محقق کا دعوی ھے کہ ان مختلف ٹکڑوں میں موجود قرآنی صفحات محمد کی موت کے فوری بعد یا اسی صدی کے قرآنی ٹکڑے ہیں۔
۔۔
اس وقت جو قدیم نسخے کہیں بھی موجود ھیں انکے نام اور تعارف نیچے درج کرتا ھُوں
۔۔۔ پہلا قرآنی نسخہ اسوقت برمنگھم میں موجود ھے۔جو جیسے کہ پہلے بھی بتایا ھے۔ کاربن ڈیٹنگ میں 568 سے 645۔۔۔اور بعض کے مطابق 669 ویں صدی کے قریب ھے۔ اسکی لکھائی حجازی، یا صنا طرز کی ھے۔۔۔
- Birmingham Quran Manuscript
Year Written: c.568 AD – 645 AD
Language: Arabic
Script Type: Hijazi
Current Location: University of Birmingham, Birmingham, England
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا نسخہ جرمنی مین موجود ھے۔ یہ بھی حجازی یا صنا لکھائی میں لکھا گیا ھے۔۔
- Tübingen Fragment
Year Written: c. 649 AD – 675 AD
Language: Arabic
Script Type: Hijazi Current Location: University of Tübingen, Tübingen, Germany
The manuscript has been in the university’s possession since the 19th century when first Prussian Consul to Damascus, Johann Gottfried Wetzstein, acquired several ancient Arabic manuscripts. The research into the fragment’s age was conducted as part of a project funded by the German Research Society (DGF) and the corresponding French institution: Agence National de la recherché (ANR).
یاد رھے کہ کاربن ڈیٹنگ کی سچائی 95 فیصد تک ھوتی ھے۔
تیسرا قرآنی نسخہ یمن سے مِلا اور صنا کہلاتا ھے۔
- Sana’a Manuscript
Year Written: c.671 AD
Language: Arabic
Script Type: Hijazi
Current Location: Great Mosque of Sana’a, Yemen
۔۔۔۔۔
چوتھا قرانی نسخہ
پیریسینو پیٹروپولیٹینس کہلاتا ھے۔
ساتوین یا آٹھویں صفی عیسوی میں لکھاگیا۔۔ اور لکھائی حجازی ہے۔۔ساٹھ اوراوراق پر مشتمل ہے۔اور لندن ویٹیکن کے خلیلی نواردات میں موجود ھے۔۔ - Codex Parisino-Petropolitanus
Year Written: c. late 7th to early 8th century
Language: Arabic
Script Type: Hijazi
Current Location: 70 folios at Bibliothèque nationale de France, Paris; 26 folios at the National Library of Russia in Saint-Petersburg, Russia; 1 folio in the Vatican Library; and 1 folio in Khalili Collection in London
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچواں قرآنی نسخہ کُوفی لکھائی میں ہے اور اس کے بارے غلط مشہور رہا کہ سب سے پرانا قرآنی نسخہ ہے۔۔اس کی کاربن ڈیٹنگ سے یہ 8 ویں صدی کے بعد کا نسخہ ھے۔اور ترکی کے عجائب گھر میں موجود ھے۔
- Topkapi Manuscript
Year Written: c. early to mid 8th century
Language: Arabic
Script Type: Kufic
Current Location: Topkapi Palace Museum, Istanbul, Turkey
۔۔۔۔
چھٹا قرآنی نسخہ ازبکستان میں موجود ھے اور ترکی کے نسخے کی طرح ایمان لانے والے اسے سب سے قدیم سمجھتے تھے مگر یہ بھی 9 ویں صدی کے قریب کا لکھا گیا نسخہ ھے۔ - Samarkand Kufic Quran (Uthman Quran)
Year Written: c.765 AD – 855 AD
Language: Arabic
Script Type: Kufic
Current Location: Hast Imam Library, Tashkent, Uzbekistan
۔۔۔ - Blue Quran نیلا قران نمبر سات،،،،
Year Written: c. late 9th century to early 10th century نویں اور دسویں صدی میں لکھا گیا۔
Language: Arabic
Script Type: Kufic اسکا رسم الخط کُوفی ھے۔
Current Location: Most of it is located in the National Institute of Art and Archaeology Bardo National Museum in Tunis, Tunisia; 67 folios in the Musée de la Civilisation et des Arts Islamiques in Raqqada, Tunisia; 1 folio at the Los Angeles County Museum of Art in California, USA; and the other folios are scattered worldwide at various museums
یہ نسخہ تیونس میں محفوظ ھے۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
سُنی فرقے والے یہ مانتے ہیں کہ قران ابوبکر کے زمانے میں لکھا گیا جو کہ 632 سے 634 کا زمانہ ھے۔۔
تاھم محققین متفق ھیں کہ عثمان کے دور میں جو قرآن عثمان کی نگرانی میں ترتیب دیا گیا وُہ ھی بچا رھا اور باقی مختلف و متعدد نسخے جلانے کا حکم دے دیا گیا تھا۔
جبکہ ایک معروف ترین محقق جون وانزبرگ کے مطابق قرآن کی ترتیب محمد کی موت کے 200 بعد کہیں جا کر قائم کی گئی۔
صناع ، مخطوطے کے بےشمار ٹکڑوں پر لکھے گئے ٹیکسٹ میں 5000 مختلف تبدیلیاں پائی گئیں ھیں۔
جس سے معلوم ھوتا ھے کہ عثمان کے زمانے تک کوئی جاری سکرپٹ موجود نہیں تھا مختلف اسلوب ملے جلے تھے۔۔
گرڈ پیوئن نامی ایک ماھر نوادرات و قدیمی مخطوطات کو یمن کی حکومت نے ایک بہت لمبا پروجیکٹ دیا تھا جس میں یمنی قرآن کے پندرہ ھزار صفحات کو ایک ایک لفظ پڑھ کر پرکھ کر بہتر کرنا شامل تھا۔اسکے کام اور تحقیق سے ابن وراق نامی سکالر نے قرآن پر کافی مواد لکھ رکھا ھے۔ جسمیں میں نے اسلام کیوں ترک کیا بھی شامل ھے۔
ماھر ِ مخطوطات گرڈ پیوئن کے بقول اسنے جو نتائج اب تک نکالے ھیں وہ یہ ھیں
،،،
میرا نظریہ یہ ھےکہ قرآن اصل میں بہت سارے اقوال و بیانات و کہانیوں کا ایسا مجموعہ ھے جسے محمد کے دور میں بھی ٹھیک اور مکمل سمجھا نہیں گیا تھا۔
لکھے ھوئے کلمات اسلام سے بھی کئی سو سالوں پرانے معلوم ھوئے ھیں۔
خود اسلام چلن کے اندر بہت زیادہ متضاد خیالی و متضاد اعمالی پائی جاتی ھے۔
قرآن خود کو کہتا ھے کہ و شفاف، واضح، اور مبین و کُھلا کُھلا ھے، لیکن ھر پانچواں چھٹا کلمہ بے تُکا معلوم ھوتا ھے۔
اندازے کے مطابق قران کا پانچواں حصہ بے معنی و بے تعلقی کا شکار ھے۔اور اسی وجہ سے ھمیشہ سے قرآنی آیات کی تشریح میں شدید اختلافات ھیں جو مبین اور کُھلا کُھلا ھونے کے خلاف دلیل ھے۔اگر اسکو عربی مین بھی ایسی دقت سے سمجھنے کا سوال اٹھتا ھے تو پھر اسے ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔
جو اسکے خود اٹھائے گئے نکتے کہ قران شفاف ھے۔ واضح ھے خواہ مچھر جتنی چھوٹی بات بھی ھو کھول کھول کر بیان کرتا ھے۔ تو خود عربی علما بھی تذبذب کا شکار ھوتے ھیں، جس سے قرآن کی سچائی پر کافی اعتراضات اٹھتے ھیں، جبکہ ایمان لے انے والوں کو آیات کی جو بھی تشریح سمجھائی جاوے وہ اس پر مطمئن رھیں گے،
۔جیسے قرانی حروف مقطعات کا مسئلہ ھے آجتک کوئی بھی ان کی کوئی واضح توجیہہ اور مطالب نہیں بتا سکتا۔
اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ھے کہ ان کوڈ ورڈز کو اُس پرانے زمانے میں شاید سمجھا جاتا ھو لیکن اسلامی تاریخ میں ان حروف کو اُس وقت بھی نہ سمجھا گیا کے موضوع پر احادیث موجود ھیں،،
اغلب خیال یہ ھے کہ چونکہ محمد نے اپنی تحریک کو وسیع کرنے کے لئے دوسروں کو ساتھ مِلانا تھا تو اسی غرض سے انہوں نے یہودیوں، انصاریوں، ، مُشرکوں، عیسائیوں وغیرہ کو خوش کرنے کے لئے ایسے مشترک الفاظ قرآن میں شامل کروائے جن سے اُن گروھوں کی پزیرائی اور نمائیندگی بھی ھو جائے۔
بعض آیات کے منسوخ ھونے کا ذکر بھی تاریخ میں ملتا ھے جس سے پتہ چلتا ھے۔اُن آیات کے بنانے کا مقصد پورا نہ ھونے کی وجہ سے اُنہیں نکال دیا گیا۔
قران کے حروفِ مقطعات، کافروں ، یہودیوں اور مختلف گروھوں کو ساتھ ملانے کے لئے بنائے گئے۔۔کہ دیکھو آپکی ریپریزینٹیشن بھی ھے۔ جیسے الف لام میم۔۔۔ میں پہلے خدا کی ان بیٹیوں کے ناموں کو بعینہُ استعمال کرنے کی بجائے
اعزی ،،الف
لات،،،لام
منات۔۔۔میم۔۔۔۔
بنائے گئے۔۔۔ آیات کی منسوخی ، والے واقعات اسی جانب روشنی ڈالتے ھیں۔جب مخصوص گروہ ان آیات پر راضی نہ ھوئے۔ اسلام کے ابتدائی دنوں میں یہ کوششین رھیں کہ جیسے ممکن ھو سب کو شامل کیا جائے۔۔۔کیونکہ قرآن بنانے والے مصنفین وغیرہ کی ٹیم دوسرے قریبی اور دور کے ممالک کے حالات ، ٹریڈ ٹُورز کے سبب جانتے تھے۔۔اور اس خطے میں بھی قبائل کو جور کر کوئی اتحادی ریاست بنانا چاھتے تھے۔اس لئے پہلے بظاھر مشرکین جو کبھی مشرکین نہیں تھے کو ساتھ ملنے کے لئے کوششین کی گئین۔ اور انکی دلچسپی کے نام شامل کئے گئے۔۔پھر۔۔۔ یہودیوں کو شامل کرنے کے لئے موسی کی تعظیم کی گئی۔۔پھر عیسی کی تعظیم کی گئی کہ عیسائی شامل ھوں۔اگر اسلام پہلے انبیا کو جھوٹا کہتا تو عیسائی یہودی لوگوں میں سے وہ جو ھمہ وقت روحانی تبدیلی کی خواھش رکھتے ھین کم تعداد مین اسلام میں شامل ھوتے۔۔یہ بات غور کر کے سمجھی جا سکتی ھے۔
۔۔۔
سب سے بڑی دلیل جس کا کوئی جواب کسی اھل ایمان کی طرف سے شافی طور پر نہیں دیا جا سکتا وہ یہ ھے۔۔کہ قران اپنے بارے کہتا ھے کہ ۔۔ ھم چھوٹی سے چھوٹی بات کھول کھول کر بیان کرتے ھیں۔تاکہ مخاطب یہ نشانیاں سمجھ سکیں۔۔ لیکن آپ انکے معانی نہ سمجھتے ھیں نہ مسجھا سکتے ھیں۔ اور پڑھے جاتے ھیں جیسے کوئی منتر تنتر ھوں
2000 سال کے بعد بھی یہ حروف مقطعات کا نہ سمجھا جانا اور پھر ایک دو نام نہاد لبرل جدید و قدیم بزرگان کی جادوگری سے کوئی نہ کوئی معنی ان سے برآمد کرنے کی کسی بھی کوشش پر اھل ِ ایمان کا خوش ھونا تو بالکل منطقی ھے۔ کہ اھلِ ایمان ھر اُس بات کو سراھنے میں خوشی محسوس کرتے ھیں جو اس زمانے میں انکے مذھب کی اچھائی ثابت ھو۔۔۔ خواہ وہ۔۔۔چین سے علم پانے کی جھوٹی حدیث ھو۔۔۔ یا صفائی نصف ایمان کا عملی مظآھرہ فی المعاشرت الاسلامیہ ھو۔۔۔۔۔۔۔۔بالکل ایسے جیسے علی مشکل کُشا کو اپنے قتل سے بچاؤ کا علم تھا نہ ملکہ۔۔۔لیکن وہ دوسروں کے لئے مشکل کُشا ہیں۔
جب قرآن کہتا ھے وہ دنیا میں بھی فلاح پائیں گے اور آخرت میں بھی تو۔۔۔ تین خلیفہ تو قتل ھوئے اور بہت ذلیل طریقے سے مارے گئے۔۔ عائشہ کی اولاد تک نہ ھوئی۔۔بیوگی میں زندگی گزری۔۔۔پتہ نہیں کونسی فلاح تھی۔۔۔ جنگ جمل میں علی و عائشہ آمنے سامنے تھے۔۔۔
al-Baqarah ʾAlif Lām Mīm الم
Āl Imrān ʾAlif Lām Mīm الم
al-Aʿrāf ʾAlif Lām Mīm Ṣād المص
Yūnus ʾAlif Lām Rā الر
Hūd ʾAlif Lām Rā الر
Yūsuf ʾAlif Lām Rā الر
Ar-Raʿd ʾAlif Lām Mīm Rā المر
Ibrāhīm ʾAlif Lām Rā الر
al-Ḥijr ʾAlif Lām Rā الر
Maryam Kāf Hā Yā ʿAin Ṣād كهيعص
Ṭā Hā Ṭā Hā طه
ash-Shuʿārāʾ Ṭā Sīn Mīm طسم
an-Naml Ṭā Sīn طس
al-Qaṣaṣ Ṭā Sīn Mīm طسم
al-ʿAnkabūt ʾAlif Lām Mīm الم
ar-Rūm ʾAlif Lām Mīm الم
Luqmān ʾAlif Lām Mīm الم
as-Sajdah ʾAlif Lām Mīm الم
Yā Sīn Yā Sīn يس
Ṣād Ṣād ص
Ghāfir Ḥā Mīm حم
Fuṣṣilat Ḥā Mīm حم
ash-Shūrā Ḥā Mīm; ʿAin Sīn Qāf حم عسق
Az-Zukhruf Ḥā Mīm حم
Al Dukhān Ḥā Mīm حم
al-Jāthiya Ḥā Mīm حم
al-Aḥqāf Ḥā Mīm حم
Qāf Qāf ق
Al-Qalam Nūn ن
۔۔
اب دیکھیں جن مسلمان علما نے کچھ ڈھونڈ لانے کی ٹھانی تو کیا ڈھونڈا
«الم» جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں۔ ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں۔ اس لیے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے۔ قرطبی رحمہ اللہ نے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہی نقل کیا ہے۔ عامر، شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابوحاتم بن حبان رحمہ اللہ کو بھی اسی سے اتفاق ہے۔
بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمحشری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں «الم السجدة» اور «هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنْسَان» پڑھتے تھے ۔ [صحیح بخاری:891]
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الم» اور «حم» اور «المص» اور «ص» یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ «الم» قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ قتادہ اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو عبدالرحمٰن بن زید اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لیے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام «المص» ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ «المص» پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ الاعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ شعبی، سالم بن عبداللہ، اسماعیل بن عبدالرحمٰن، سدی کبیر رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ «الم» اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے۔ اور روایت میں ہے کہ «حم»، «طس» اور «الم» یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں۔ سیدنا علی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں سے یہ مروی ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی «أَنَا اللَّهُ أَعْلَمُ» ہیں یعنی ”میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا“۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہ مروی ہے۔
سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف «الف» اور «لام» اور «میم» انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں۔ «الف» سے اللہ کا نام، «الله» شروع ہوتا ہے اور «لام» سے اس کا نام «لطیف» شروع ہوتا ہے اور «میم» سے اس کا نام «مجید» شروع ہوتا ہے اور «الف» سے مراد «آلَاء» یعنی نعمتیں ہیں اور «لام» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «لُطْف» ہے اور «میم» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «مَجْد» یعنی بزرگی ہے۔ «الف» سے مراد ایک سال ہے «لام» سے تیس سال اور «میم» سے چالیس سال۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:28/1]
امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ بھی، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے۔
بات نکلے گے تو پھر دور تلک جائے گی۔۔۔۔ لبرل یا دھریہ یا پہلے جو مسلمان ھوتے تھے۔۔۔ایسے لوگ جناب غامدی صاحب کے بیانات سےخوش ھوتے ھیں۔
کہ دیکھو جی اسلام کا کتنا چھا چہرہ سامنے لاتے ھیں۔
لیکن سوال تو یہ ھے کہ پچھلے 30 سال سے وہ یہی کرتے ھوئے کتنے شدت پسند مسلمانوں، اور طالبان۔۔اور ختم نبوت کے فسادیوں،،،وغیرہ کو اپنے جیسا بےضرر مسلمان بنا سکے ھیں؟؟
سوال تو کرنا ھی ھوگا کہ انکی اس مسلسل کوشش اور انکے مسلسل کتابی لیکچرز ور ویڈیوز سے انکی فاونڈیشن تو چل گئی لیکن زمینی حقائق کیا ھیں؟ کونسی بستی ھے جس میں مسلمان پہےل سے بہتر ھوئے اور رحمت کا نمونہ بن گئے؟
جب غامدی جی سے پوچھا جائے کہ حور کا لالچ کیوں؟ تو ھنس دیتے ھیں۔۔ بات گول کر دیتے ھیں۔۔ ڈھکے انڈوں والی آنکھوں والی عورتوں کو حور کہا جاتا ھے جی۔۔وہ اصلی نہیں ھونگی۔بس خیال ہی ھے۔۔یا آپکی بیویاں ھی ھونگی۔۔حالنکہ صاف لکھا ھے۔۔۔ لم یطمس ھُن۔۔۔وہ کنواری عورتیں ھونگی جنکی آنکھیں بڑی بڑی غلافی ھونگی۔۔۔عرب میں ھمیشہ سے بڑی آنکھوں والی عورتوں کو پسند کیا جاتا ھے۔۔میک اپ بھی ایسا کیا جاتا ھے کہ آنکھیں بڑی بڑی لگیں،،،تو ایک ربڑ کو آپ کتنا کھینچ سکتے ھیں؟
جب پڑھے لوگ کہین کہ دیکھو جی علی نے کہا تھا کہ ایک ذرہ پھٹ جائے تو کائنات پھٹ جائے ۔۔یہ اٹامک فشن کا علم علی کو تھا۔۔۔۔ تو کیا واقعی علی کو یہ علم تھا؟ کیا واقعی علی کو سائینسی مساوات سے معلوم تھا یا ابو طالب نے میتھ سکھایا تھا یا اللہ نے کوئی فشکس کا فرشتہ انکے لئے ایسے روز علم لاتا تھا جیسے طاھر القادری 40 سال سے کسی بزرگ کی کلاس میں جاتے ھیں۔ اور پھر کافرون کی گود میں کینیڈا میں امن پاتے ھیں۔امان پاتے ھیں۔۔۔اور غامدی جی ملائیشیا میں جان بچاتے ھیں۔
اور اس جملے سے انسانیت کو کیا فائدہ ؟ کہ
من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ
۔۔۔
2000 سال سے یہی بتایا جاتا ھے کہ ان حروف کے معانی اللہ کو ھی معلوم ھیں۔۔زیادہ چالاک لوگ کہتے ھیں کہ اللہ انکے معانی کسی آنے والے زمانے میں کھولے گا۔۔
جاری فتوی میں سے ایک کے مطابق
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1129-1050/SN=1/1440
”الٓم“ ”عسق“ ”حم“ ”یس“ وغیرہ حروفِ مقطعات کہلاتے ہیں، ان کے متعلق جمہور صحابہ و تابعین اور علمائے امت کے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ حروف رموز اور اسرار ہیں، جس کا علم سوائے خدا تعالی کے کسی کو نہیں ، اور ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم بطور ایک راز دیا گیا ہو جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں (معارف القرآن) اس لئے آپ ان الفاظ کے معانی اور تفصیلات کے درپے نہ ہوں۔ حروف مقطعات کے سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے معارف القرآن (۱/۱۰۶، ۱۰۷) کا مطالعہ کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی اللہ نے قران اتارا نبی پر۔۔۔اور نبی نے اللہ سے مطلب نہ پوچھا کہ بھائی جان۔۔۔اسکا مطلب بھی تو میں نے لوگوں کو سمجھانا ھے وہ بھی بتائیے۔۔۔ پر اللہ نے کہا۔۔۔تُو کہ۔۔۔ میں اللہ خوب جاننے والا ھوں۔۔ایک تو بات بات پر اللہ یہی کہتا ھے کہ میں اللہ خوب جاننے والا ھوں درست جواب کیوں نہیں دیتا کہ پھڈا ھی نہ ھو۔۔جھگڑا ھی نہ پڑے۔؟ مہدی کے بارے کچھ نہیں کہا۔۔صاف کہتا ھے مہدی انا ھے یا نہیں آنا ھے۔۔۔۔چکر بازی کیوں؟
نماز کی حکم کوئی 89 بار دیا۔۔۔ لیکن پڑھنے کا طریق نہیں بتایا ؟کیوں؟ کوئی بھی مسلمان جواب گھڑے گا کہ نماز تو رسول جی پڑھتے تھے اس لئے یہ سب کو معلوم تھا۔۔۔اس لئے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔۔نہ ھے۔۔۔واہ کیسا جواب ھے۔۔۔73 فرقے۔۔۔ ھر ایک کہتا ھے حدیث و روایت میں نماز ایسے پڑھنی ھے۔۔ شیعوں کی نماز سنیوں دیو بندیوں احمدیوں کے لئے پتھروں ٹھیکریوں سے ٹکر مارنے والی احمقانہ نماز ھے۔۔غرض ھر ایک کا اپنا انداز و تشریح ھے اللہ کو مسلمانوں کے بیچ جھگڑا کرانے کا شوق کیوں ھے؟؟
اب دیکھئیے۔۔۔ کہ تفسیر کرنے والے آپس میں ھر بات پر راضی نہیں۔۔۔کچھ پر راضی ھیں۔۔اور دور دور کی کوڑی لاتے ھیں۔۔جیسے۔۔۔کسی ایمان لانے والے کی تشفی کےلئے کتنی بظاھر خوش امید تصویر تشریح پیش کی گئی ھے۔۔دیکھیں۔۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ، ایک ساتھ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آتے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں۔ ان کے معنی ہر جگہ جدا جدا تو ضرور ہوتے ہیں، لیکن ہر جگہ ایک ہی معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لیے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو نہ تو مقدر ماننے سے، نہ ضمیر دینے سے، نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لیے یہ فیصلہ قابل غور ہے۔
اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لیے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جو مسلمان کے قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے [سنن ابن ماجہ:2620، قال الشيخ الألباني:ضعيف جدا] مطلب یہ ہے کہ «اقْتُلْ» پورا نہ کہے بلکہ صرف «إِقْ» کہے مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً «ق»، «ص»، «حم»، «طسم الر» وغیرہ یہ سب حروف «هِجَا» ہیں۔
بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا «ا ب ت ث» لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتداء کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:208/1]
سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں «ا ل م ص ر ك ہ ي ع ط س ح ق ن» ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے۔ «نَصٌّ حَكِيمٌ قَاطِعٌ لَهُ سِرٌّ» تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لیے یہ پورے آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ان دلائل اور ابحاث کے بعد بنیادی سوال کی جانب لوٹتے ھین کہ موجودہ دور کے بظاھر بڑے لبرل مسلمان سکالرز اس مذھبی وکٹ پر کس جانب شاٹس کھیلتے ھیں۔۔جیسے غامدی صاحب اور پروفیسر رفیق اختر صاحبان نے اسلامی کتب کا مطالعہ کر کے ان میں سے ممکنہ دلائل کو ترجمہ کر کے جدید ذرائع انٹرنیٹ وغیرہ پر پیش کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ھے اس سے لوگوں میں یہ غلط تاثر پھیلتا ھےکہ جیسے یہ اصحاب خود کسی تحقیق کے نتیجے میں کوئی سائینسی منطقی دلائل لے آئے ھوں جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ھے۔۔ ان دونوں اصحاب نے ھمیشہ پرانی اسلامی کتب سے حوالہ جات دئیے ھیں اور کوئی نئی بات نہیں کہ ھے۔ غامدی جی تو خود امین اصلاحی کے شاگرد ھیں اور انہیں کے اقوال و اعتقاد و تفاسیر سے متاثر ھیں۔
قران کے حروفِ مقطعات، کافروں ، یہودیوں اور مختلف گروھوں کو کرنے کے لئے بنائے گئے۔۔کہ دیکھو آپکی ریپریزینٹیشن یا نمائیندگی بھی ھے۔ جیسے الف لام میم۔۔۔ میں اسلامی خدا ، اپنے سے منسوب ان بیٹیوں کے ناموں کو بعینہُ استعمال کرنے کی بجائے حروف مقطعات استعمال کر کے اُس گروہِ مشرکاں کو ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ھے۔
بالکل ایسے ھی کوئی بھی مذھبی ھمیشہ
ہمیشہ اپنے عقیدے کو سچا ثابت کرنے کے دلائل ڈھونڈتا ھے۔مطلق سچائی کی جانب نہیں چلتا۔ یہ لازمی فرق ایک متکلم اور فلسفی کے بیچ ھوتا ھے جو ملحوظ رھے
اب یہ بحث ختم ھو جانی چاھئیے کہ قران کیا کسی خدا نے اتارا یا بنایا یا ترتیب دیا گیا۔کیونکہ ماننے والے نے کسی طرح بھی یہ نہیں ماننا کہ قرآن کی ترتیب بدلتی رھی، الفاظ بدلتے رھے،،، متن بدلتا رھا، موضوعات بھی بدلے،،کیونکہ اس سے خدائی ؤھی اور قرآنی حفاظت کے وعدے پر سوال اتھے گا اور ایمان باطل ھو جائے گا۔۔یہ مجبوری ھے۔
،،،
رفیع رضا





جمہوریت کی سیکھ
"کیا ذبح ہونے والا جانور آ گیا ہے؟” یہ سوال سعودی ولی عہد کے ذاتی محافظ اور ہِٹ ٹیم کے سربراہ، ماہر عبدالعزیز المطرب کی جانب سے پوچھا جاتا ہے۔ یہ واقع بتاتے ہوئے اقوام متحدہ کی خصوصی تفتیش کار برائے ماورائے عدالت قتل، ایگنس کیلامارڈ کی معاون، برطانوی وکیل، ہیلینا کینیڈی کی آواز سے دہشت جھلکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کسی کی آواز میں خوف کو سننے کی ہولناکی، اور یہ کہ آپ ایسے زندہ شخص کی آواز سن رہے ہیں جسے چند ہی لمحوں میں ذبح کیا جانے والا ہے، کی سرسراہٹ آپ کی ریڑھ کی ہڈی سے گزرتی ہے۔ آپ انہیں ہنستے ہوئے سن سکتے ہیں۔ وہ مزہ کر رہے ہیں۔ وہ وہاں انتظار کر رہے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ جو شخص اندر آنے والا ہے اسے ذبح کر کے اس کی لاش کو ٹکڑوں میں کاٹا جائے گا۔
مطرب فرانزک پیتھالوجسٹ صالح الطبیقی سے پوچھتے ہیں، "کیا ان کی لاش کسی بیگ میں رکھنا ممکن ہو گا؟” "نہیں، وہ بہت بھاری اور لمبے ہیں”۔ دونوں خشوگی کے جسم کو چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنے کی افادیت پر تبادلہ خیال کرتے ہیں، الطبیقی کے مطابق یہ کام "آسان” ہوگا۔ "ان کا جوڑ جوڑ علیحدہ کٹ جائے گا۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ہم پلاسٹک کے تھیلے لے کر ان کے جسم کو ٹکڑوں میں کاٹ لیں تو یہ جلدی ہو جائے گا۔ ہم ان میں سے ہر ایک کو الگ لپیٹ دیں گے۔” الطبیقی مزید کہتے ہیں، "میں نے کبھی بھی گرم جسم پر کام نہیں کیا ہے، لیکن میں آسانی سے اس کو کاٹ لوں گا۔”
یہ ساری گفتگو سعودی صحافی جمال خشوگی کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے سے ٹھیک پہلے تقریبا اس وقت کی ہے جب وہ استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ جمال کو اپنے بیٹے کو میسیج کرنے کو کہا جاتا ہے جس میں ان کے بیٹے کو تاکید کی گئی ہو کہ اگر وہ چند دنوں تک گمشدہ رہیں تو یہ بات کسی کو نا بتائی جائے جس پر وہ انکار کر دیتے ہیں۔ "جلدی کرو۔ ہماری مدد کرو تاکہ ہم بھی آپ کی مدد کرسکیں کیونکہ بالآخر ہم آپ کو واپس سعودی عرب لے جائیں گے اور اگر آپ ہماری مدد نہیں کرتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوگا۔ یہ کام اچھے سے ہونے دیں۔”
خشوگی ایک پرسکون شخص سے، خوف کے احساس تلے دبتے ہوئے، سراسیمہ اور مضطرب شخص کے طور پر سنائی دیتے ہیں- یہ جانتے ہوئے کہ کچھ مہلک واقع ہونے والا ہے، ان کی آواز میں در آنے والا خوف آخری حد تک پہنچ جاتا ہے۔ ‘کیا آپ مجھے زبردستی انجیکشن دینے جارہے ہیں؟’ جس پر انہیں ‘ہاں’ کہا جاتا ہے۔ "یہ کسی سفارت خانے میں کیسے ہوسکتا ہے؟” اس کے فورا بعد ان کے منہ پہ دم گھونٹنے والا تھیلا چڑھا دیا جاتا ہے۔ خشوگی کی مزاحمت جلدی ہی دم توڑ جاتی ہے کیونکہ انہیں اعصاب مختل کر دینے والا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ ان کے آخری الفاظ ہوتے ہیں، "مجھے دمہ ہے ایسا مت کرو، میرا دم گھٹ جائے گا۔” تبھی ماہر المطرب کہتے ہیں کہ ‘اسے کاٹ دو’، ‘اسے اتار دو ، اسے اتار دو۔ اس کے سر پر رکھو۔ اس کے سر کو اس میں لپیٹو.’ شاید یہی وہ لمحہ ہے جب جمال کا سر کاٹ کر ان کے دھڑ سے الگ کر دیا جاتا ہے۔
الطبیقی اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ جب وہ پوسٹ مارٹم کر رہے ہوتے ہیں۔ "میں انسانی لاشوں کو کاٹتے ہوئے اکثر ہیڈ فون پہ موسیقی سنتا ہوں اور کبھی کبھی تو میرے پاس کافی اور ہاتھ میں سگار بھی ہوتا ہے۔ اب کی بار زندگی میں پہلی دفعہ مجھے زمین پر ہی کسی انسان کے ٹکڑے کرنا پڑیں گے، بصورت دیگر تو اگر آپ قصائی بھی ہیں تو آپ جانور کو کاٹنے کے لٹکا دیتے ہیں۔” الطبیقی ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ وہ بظاہر غیر مطمئن سے لگتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لاش کو ٹھکانے لگانے کے واضح مقصد کے ساتھ ، الطبیقی کو آخری لمحے میں شامل کیا گیا تھا۔ الطبیقی کہتے ہیں، "میرے براہ راست منیجر کو معلوم نہیں ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ کسی پریشانی کی صورت میں مجھے کوئی نہیں بچائے گا۔”
ایک اور شخص جو اس منظر نامے میں پریشان محسوس ہوتا ہے وہ قونصل جنرل محمد العتیبی ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ ملک واپسی پہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو بکواس بند رکھیں اور کاروائی میں رکاوٹ نا ڈالیں۔ انہیں اس لیے یہ سننا پڑا ہے کیونکہ وہ ٹیم کو اپنا کام کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں، "یہ کام باہر جا کر کرو۔ آپ کا یہ کام مجھے کسی مصیبت میں پھنسا دے گا۔” اسی دوران، اگلے ۳۰ منٹ تک، پوسٹ مارٹم کرنے والے آرے کی ہڈیاں اور گوشت کاٹتے ہوئے آواز آتی ہے۔
جمال واشنگٹن پوسٹ کے صحافی تھے اور سعودی حکومت کی مطلق العنانیت کے سخت مخالف تھے۔ وہ سعودی ولی عہد کی ایک ایسی آمرانہ شبیہہ دنیا کو دکھا رہے تھے جسے سعودی حکومت یقینی طور پر کبھی پروجیکٹ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان کی تحاریر نے ولی عہد کو برافروختہ کردیا اور وہ اپنے ساتھیوں سے جمال کے مسئلے کے بارے میں کچھ کرنے کو کہتے رہے۔ استنبول میں، سعودیوں کو خشوگی کے بارے میں "کچھ کرنے” کا موقع مل گیا۔
ایگنس کیلامارڈ نے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی اپنی حتمی رپورٹ میں یہ نتیجہ نکالا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ جرم ریاستی قتل کے علاوہ کسی بھی اور طریقے سے بیان کیا جا سکے۔ اپنے آخری الفاظ میں، جمال کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے ان کے قتل کی حقیقی اہمیت سے خبردار کرتے ہوئے کہا، "یہ نہ صرف میرے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے المیہ ہے، ان تمام لوگوں کے لئے جو جمال کی طرح آزادانہ سوچتے ہیں اور جنہوں نے ان جیسا جمہوری مؤقف اختیار کیا۔”
میں ظالموں سے آزادی کی جدوجہد کبھی نہیں چھوڑوں گاحالانکہ میں زندگی بھر جیل کا قیدی رہوں گا۔یہ الفاظ نوبل انعام یافتہ، لیو ژیاؤبو ایک چینی ناقد، لکھاری، پروفیسر اور انسانی حقوق کے کارکن کے ہیں جو چینی کمیونسٹ پارٹی کے یک جماعتی حکومتی نظام کے خلاف تھے۔ ژیاؤبو کو دسمبر 2008ء میں نمائندہ جمہوریت کے لئے آواز بلند کرنے پر حراست میں لیا گیا اور ایک سال بعد ان کو 11 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ژیاؤبو کے آخری سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرنے کا باعث بننے والا "جرم” منشور 08 تھا۔ "موجودہ سیاسی نظام اس حد تک پسماندہ ہوچکا ہے کہ تبدیلی سے گریز نہیں کیا جاسکتا،” انہوں نے یک جماعتی حکمرانی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے منشور میں کہا۔ یہ منشور 1949 میں چین کی آزادی کے بعد سے چھپنے والا پہلا منشور تھا۔
2010 میں ، لیو کو "چین میں بنیادی انسانی حقوق کی طویل اور عدم تشدد کی جدوجہد” کے سبب امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ایوارڈ کی تقریب میں ان کی نمائندگی خالی کرسی نے کی کیونکہ تب ان کو جیل میں قید دوسرا سال تھا۔ ناصرف ان کو بلکہ ان کی شریک حیات لیاؤ ژیاء کو بھی حراست میں لے لیا گیا جو تاحال قید تنہائی کاٹ رہی ہیں۔
ژیاؤبو دوران حراست جگر کے کینسر کا شکار ہو گئے۔ چینی حکومت نے ان کے علاج کے لیے کی گئی درخواستوں کو رد کر دیا اور ان کو تب تک مسلسل جیل میں رکھا گیا تاوقتیکہ کہ حکومت کو ان کی بیماری کے ناقابل علاج ہونے کا یقین نہیں ہو گیا۔ ذاتی درخواستوں کے علاوہ بین الاقوامی دباؤ بھی اس سلسلے میں ناکافی رہا۔ بالآخر ان کی موت سے صرف چند ہفتے پہلے حکومت نے انہیں جیل سے نکال کر ہسپتال پہنچایا جہاں ان کا کینسر آخری سٹیج پر تشخیص ہوا۔ بین الاقوامی برادری بار بار انہیں علاج کی خاطر ملک سے باہر بھیجنے پر زور دیتی رہی مگر چینی حکومت مصر رہی کہ ان کا تسلی بخش علاج ملک میں ہی ہو سکتا ہے۔
چند دن بعد چائنا میڈیکل یونیورسٹی کے شینیانگ فرسٹ اسپتال نے جگر کے کینسر کے باعث ان کی موت کی اطلاع دی۔ "مجھے اس حکومت سے نفرت ہے ،” مصنف اور سیاسی کارکن ٹینائچی مارٹن لیاؤ، جو 30 سال سے ژیاؤبو کی دوست رہی ہیں، نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ صرف غم ہی نہیں، غم و غصہ ہے۔ ژیاؤ جیسے شخص کے ساتھ کوئی حکومت ایسا سلوک کیسے کرسکتی ہے؟
20 اگست 2020 کو، روسی شہر ٹومسک سے ماسکو جانے والی پرواز کے دوران ایک شخص منہ کے بل جہاز کے فرش پہ جا گرتا ہے۔ اندیشہ ہے کہ اسے بعید الاثر زہر دیا گیا ہے۔ طیارے کی ہنگامی لینڈنگ کے بعد انہیں کوما کی حالت میں اسپتال داخل کیا جاتا ہے۔ یہ خبر پھیلنے کے چند ہی لمحوں میں وفاقی سیکیورٹی اداروں کے اہلکار اسپتال کے کمرے کو گھیر لیتے ہیں کیونکہ زہر خورانی کا شکار ہونے والا شخص الیکسی ناوالنی ہیں جو روسی صدر پیوٹن کے سب سے بڑے ناقد ہیں۔ ان کی جان کو درپیش خطرے کے پیش نظر جلد ہی انہیں علاج کی خاطر جرمنی منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں سے وہ صحت یاب ہو کر روس واپس لوٹتے ہیں۔
جرمن تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ انہیں ملٹری گریڈ زہر ایک ایسے روسی خفیہ ڈیتھ اسکواڈ نے دیا تھا جو 3 سال سے اس مشن پہ تھِا۔ یہی زہر برطانیہ میں پناہ گزین، برگشتہ روسی جاسوس سرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی کو بھی دیا گیا تھا۔ جنوری 2021 کے وسط میں ناوالنی کو روس واپس پہنچتے ہی حراست میں لے لیا گیا۔ جس تھانے میں انہیں رکھا گیا تھا وہیں پہ عدالت لگاتے ہوئے انہیں اس رات جیل کی سزا سنا دی گئی۔ حالانکہ ان کی اس سزا پہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر ممالک نے زبردت تنقید کی مگر روسی حکومت کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔ بلکہ اس کے جواب میں انہیں بیگار کیمپ میں بھیج دیا گیا۔
ناوالنی نے ایک باضابطہ شکایت میں حکام پر نیند سے محروم رکھنے، تلاوت کے لیے قرآن فراہم نا کیے جانے اور تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔ ناوالنی کے ایک وکیل نے ان کی صحت کی خرابی کی نشاندہی کی جبکہ جیل حکام نے ناوالنی کی جانب سے سویلین طبیب سے متعلق درخواستیں رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی صحت "اطمینان بخش” ہے۔ کچھ دن کے بعد، چھ ڈاکٹروں، جن میں ناوالنی کی ذاتی معالج ، اناستاسیا واسیلییوا، اور سی این این کے دو نامہ نگار شامل تھے، کو جیل کے باہر سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب انہوں نے ناوالنی سے ملنے کی کوشش کی جن کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل، ایگنس کیلامارڈ نے صدر ولادیمیر پوتن پر الزام لگایا ہے کہ ناوالنی کو جیل میں تشدد اور غیر انسانی سلوک کے ذریعے آہستہ آہستہ قتل کیا جا رہا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ناوالنی کو فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت ہے۔ ناوالنی کی ذاتی ڈاکٹر، واسیلییوا اور تین دیگر ڈاکٹروں ، جن میں امراض قلب کے ماہر بھی شامل ہیں، نے جیل کے عہدیداروں سے یہ کہتے ہوئے انہیں فوری طبی رسائی دینے کا مطالبہ کیا کہ "ہمارا مریض کسی بھی لمحے دم توڑ سکتا ہے”، اس کا مطلب ہے مہلک دل کا دورہ یا بڑھتے ہوئے طبی خطرے کی وجہ سے "کسی بھی لمحے” گردوں کی ناکامی۔ تاہم، روسی حکام کی طرف سے غیر ملکی حکومتوں کی روسی صدر پر تنقید کی سرزنش کرتے ہوئے کریملن کے ترجمان دمتری پیسوکوو نے کہا کہ جیل کے حکام ناوالنی کی صحت کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہ صدر کی ذمہ داری نہیں ہے۔
اگر آپ چند ہفتے پہلے بیلارس کے 26 سالہ حکومت مخالف صحافی، رومن پروٹاسیوچ کی ایک بین الاقوامی پرواز سے اغوا کی سازش، شمالی کوریائی رہبر اعلی کم جونگ ان کے وزن میں کمی سے پریشان سرکاری صحافت اور پاکستان میں مخالف رائے کا گلا گھونٹے جانے سے پریشان ہیں تو یقین کیجئے کہ یہ مماثلت صرف اتفاقی نہیں ہے۔ کچھ دیگر مماثلتوں میں حکومتی ڈھانچہ بھی شامل ہے۔ سعودی عرب میں 88 برس سے، چین میں 72 برس سے اور روس میں 104 سال سے ایک ہی نقطہ نظر سوار بر اقتدار ہے۔ بعینہٖ، پاکستان میں پچھلے 74 سال سے، شمالی کوریا میں 73 برس سے اور بیلارس میں آزادی سے لے کر آج تک ایک ہی ادارہ حکومت پہ قابض ہیں۔
چنانچہ اگر پاکستان دوست ممالک کی پیروی کر رہا ہے تو کیا قیامت آ گئی؟ اگر ہمارے نظریاتی رہنما، سعودی، جمال خشوگی کے جسم کے ٹکڑے کر کے غائب کر سکتے ہیں تو پاکستانی شہر منڈی بہائوالدین میں لاپتہ صحافی سید سلیم شہزاد کی کٹی پھٹی لاش ملنے میں کیا قباحت ہے؟ اگر دوست ملک چین، لیو ژیاؤبو کو جیل میں رکھ کر موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے تو پاکستانی دانشوروں کی جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل کیوں قابل اعتراض ہیں؟ اگر روسی حزب اختلاف کے رہنما الیکسی ناوالنی کو جبری مشقت کے کیمپ میں سست موت دی جارہی ہے تو کیوں پاکستانی اختلافی آوازیں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت وغیرہ کا فضول مطالبہ کریں؟ آخرکار، شمالی کوریا کے چینی، بیلارس کے روسی اور پاکستان کے سعودی، چینی اور روسی، سب کے مشترکہ، نقش قدم پہ چلنے میں حرج ہی کیا ہے؟
پہلی بار۔۔۔۔ فوج کو سامنے کھڑے ھو کر للکار دیا۔۔۔
ہم جنس پسندی کی تاریخ
سعودی عرب کے سابق گرینڈ مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز کے شاگرد رشید، ڈاکٹر سلمان العودہ نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم جنس پسندی کی اس دنیا میں کوئی سزا نہیں ہے اور ہم جنس پسند اس فعل کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں ہوتے- ان کے مطابق اس جرم کی شرعی سزا جو کہ سنگسار کیا جانا ہے، بذات خود لواطت سے بڑا جرم ہے۔

اسی طرح عرب سپرنگ کا آغاز کرنے والے ملک، تیونس کے٨٠ سالہ مفکر راشد الغنوشی نے بھی ایک انٹرویو میں بتایا، "ہم جنس پسندی کو ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ ہے- ان کے مطابق ہم جنس پسندی ایک نجی معاملہ ہے اور اس سلسلے میں قانون کا اختیار نہیں ہونا چاہیے چنانچہ اسے جرم نہیں ہونا چاہیے۔
مردوں میں ہم جنس پسندی کی تاریخ نسلوں کی بجائے صدیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ عربی زبان میں اسے لواطت اور انگریزی میں sodomy کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی اصلاحات میں مذہب کا دخل ہے۔ عربی کا لواطت پیغمبر لوط کے نام سے مشتق ہے جب کہ انگریزی sodomy موجودہ اسرائیل میں بحیرہ مردار کے جنوب مغربی کنارے پر واقع جبل سدوم (Mount Sodom) سے ماخوذ ہے۔
حالانکہ موجودہ دور میں سدوم نام کی کوئی آبادی وہاں موجود نہیں ہے مگر عہدنامہ عتیق (تورات عظیم) اور عہدنامہ جدید (انجیل مقدس) سدوم شہر کی تباہی کی تفصیل دی گئی ہے (دنیا کے تمام مذاہب قابل تعظیم ہیں)۔ یہ وہی شہر ہے جہاں قرآن حکیم نے پیغمبر لوط کی رہائش اور ان کی قوم پہ عذاب کا بتایا ہے حالانکہ اس شہر کے نام کا حوالہ قرآن حکیم میں نہیں دیا گیا۔ اسلام سے پہلے کی ابراہیمی کتابوں میں پیغمبر لوط کا ذکر بہت محدود سا ہے جبکہ قرآن پاک میں پیغمبر لوط کا ذکر نسبتا تفصیل سے آیا ہے۔
جب بھی ہم جنس پسندی کی بات آتی ہے تو عمومی طور پر مردوں کے ہی جنسی رویے کی بات کی جاتی ہے مگر یہ جنسی رویہ عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ عورتوں کے اس جنسی رجحان کو انگریزی زبان میں (Lesbianism) کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ یونانی جزیرے (Lesbos) اخذ کیا گیا ہے۔ اس جزیرے کی وجہ شہرت مشہور یونانی شاعرہ سیفو ہیں جنہوں نے معلوم تاریخ میں پہلی بار اہنی محبوبہ کے بارے میں جذباتی شاعری مرتب کی (شاعری لکھی نہیں جاتی بلکہ ترتیب دی جاتی ہے)۔
اس طرح کے جنسی رویے کو عجیب سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ جنسی عمل کے متعلق عام غلط فہمی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ اس لیے بھی ناقابل قبول لگتا ہے کیونکہ جنسی عمل کو صرف افزائش نسل کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زمین پہ پائی جانے ذہین ترین مخلوقات (انسان، چمپینزی اور ڈولفن) جنسی عمل تسکین کے حصول کے لیے کرتے ہیں (جس کی وجہ سے کبھی کبھی بچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں ورنہ ان کے سیکس کی فریکوئینسی کی نسبت سے ان کی آبادی کو بےقابو ہو جانا چاہیے) یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام جانداروں کے جنسی عمل اور نئے بچے پیدا ہونے کا ایک خاص موسم ہوتا ہے جبکہ ان ذہین مخلوقات کے بچے سارا سال پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
بنیادی طور پر ہم جنس پسند رویے کا تعلق بھی جنسی لذت سے ہوتا ہے جو کہ ایک انتہائی ذاتی رجحان ہے یہی وجہ ہے کہ ایسا جنسی رویہ رکھنے والے افراد جنس مخالف کی دستیابی کے باوجود ہم جنسی کا رجحان رکھتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں شادی بھی اس مسئلے کا مستند حل نہیں ہے اور ایسے افراد شادی کے بعد بھی ایسا رجحان رکھتے ہیں بلاشبہ یہ کچھ دب ضرور جاتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا کیونکہ ہم جنس پسندی ایک قدرتی رجحان ہے جو ماں کے پیٹ سے ہی پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ ہم جنس پسندی کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم نے جنسی رویوں کو حال ہی میں سمجھنا شروع کیا ہے لہذا ہم جنس پسندی کو روایتی طور پر قابل اعتراض سمجھا جاتا رہا ہے چنانچہ بالکل منطقی طور پر تقریبا ہر مذہب نے اس کے لیے سخت سزائیں تجویز کیں ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ بالعموم مذہبی پیشوا ہی اس عمل میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صوفیانہ روایات سے مزین مردانہ اجارہ داری کی حامل مذہبی قیادت بالعموم نسائی لذت سے محروم رہی ہے کیونکہ تقدس کا تصور زنانہ جنسی لذت سے آلودہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ جنسی گھٹن کی شکار مذہبی قیادت کے لیے دینی تربیت کے لیے مدخول بچے آسان ہدف رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بچوں کو خوف زدہ کر کے خاموش رہنے پہ مجبور کر دینا اور ان کے دل میں تقدس کے ہیولے کا ادب (رعب) پیدا کر لینا آسان رہا ہے۔ بچے سمجھتے ہیں چونکہ مذہبی رہنما خدا کے دنیاوی نمائندے ہیں لہذا ان کی ہر بات پہ مطلق فرمانبرداری ضروری ہے چاہے وہ حکم بظاہر ناجائز ہی ہو کیونکہ وہ مذہب کو مقدس ہستی سے زیادہ تو نہیں سمجھتے۔ ماسوائے اس کے بچوں کو سیکس کے موضوع پہ تعلیم کی کمی بھی اس کے لیے ذمہ دار رہی ہے۔
یہ مشق کسی ایک تہذیبب یا مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تقریبا ہر ثقافت اور مذہب اس حوالے سے شریک لطف رہا ہے۔ قدیم جاپان میں مردوں کی کم عمر لڑکوں سے جنسی لذت حاصل کرنے کے رواج کو Nanshoku کہا جاتا تھا، اس مقصد کے لئے اشرافیہ کے پاس wakashu کہلائے جانے والے لڑکے موجود ہوتے تھے۔ اسی طرح یونانیوں نے بھی لڑکے رکھے ہوئے تھے ارسطو نے اپنی کتاب پولیٹکس میں اس پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ Crete کے حکمران آبادی کنٹرول کرنے کے لئے pederasty بچہ بازی/ اغلام بازی کی پزیرائی کرتے تھے۔
چینی تہذیب میں بھی یہ رواج عام تھا۔ شہنشاہ Ai کی آستین پر ایک مرتبہ انکا عاشق سو گیا اس نوجوان کو اٹھانے کے بجائے آپ نے اپنی آستین ہی کاٹ لی۔ یہ دیکھتے ہوئے بعد میں درباری بھی ایک آستین نکال لیا کرتے تھے، اسی وجہ سے چین میں لڑکوں کا شوق رکھنے والوں کے لئے Passion of Cut Sleeves کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
فارس میں بھی یہ مرض عام تھا، سکندرِ اعظم کو فارس کے حکام نے Bagoas نامی ایک لڑکا بھی تحفہ میں دیا تھا، سکندر کویہ نوجوان بہت عزیز تھا رقص کے مقابلوں میں اسے نچوایا کرتا تھا، اس سے کھلے عام اپنے پیار کا اظہار بھی کردیا کرتا تھا Bagoas Kiss کی اصطلاح یہاں سے نکلی۔ عباسی دور میں خلیفہ الامین نے لڑکوں سے دربار میں رونق لگائے رکھی۔ عثمانی دور کی اشرافیہ بھی یونانیوں سے اس درجہ متاثر تھی کہ حماموں میں تلک نام کے کم عمر لڑکے رکھے جاتے جو مردوں کو نہلانے کے علاؤہ دیگر خدمات بھی سر انجام دیتے تھے۔
بابل کی تہذیب میں بھی مرد کا مرد سے جنسی تسکین حاصل کرنا ایک معمول کا فعل تھا۔ خوش بختی اور اچھی قسمت کے لئے ضروری تھا کہ مذہبی پیشواؤں سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ مصر کی تہذیب میں بھی یہ ہی چیز جاری رہی تھی۔ انکی تین ہزار سال پہلے کی گلگامش کی کہانی میں بھی بادشاہ گلگامش انکیدو نامی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
آج بھِی افغان معاشرے میں یہ رویہ مباح سمجھا جاتا ہے کہ سماجی شان و شوکت کے لیے نوعمر لڑکے رکھے جائیں۔ یہ رویہ اس حد تک مقبول ہے کہ 2015 میں امریکی جرنیلوں نے اپنے فوجیوں کو ہدایت کی تھِی کہ افغان "بچہ کشی” میں مداخلت نا کی جائے۔ شاید ہی کوئی افغان سردار ایسا ہو گا جس کے حجرے میں امرد موجود نا ہوں۔ ناصرف یہ کہ ان لڑکوں کی ملکیت قابل فخر ہے بلکہ ان کے توارد کے لیے جنگجو سرداروں کی خونی لڑائیاں بھِی عام ہیں۔ یہ لڑکے ناصرف جنسی راحت دیتے بلکہ فنکارانہ ذوق کی تسکین بھی کرتے ہیں جیسا کہ پازیب کے ساتھ رقص وغیرہ۔ اس حوالے سیاسی یا مذہبی وابستگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مذہبی، متشرع طالبان اور افغان حکومت کے حامی سیکولر سردار، دونوں اس حمام میں ننگے ہیں۔
مذہب میں اس حوالے سے سب سے زیادہ بدنام مسیحی گرجا رہا ہے (پیغمبر عیسی کے ماننے والے عیسائی نہیں بلکہ مسیحی ہیں)۔ میڈیا کے فروغ نے بیسیویں اور اکیسیویں صدی کے دوران مسیحی گرجا کی ہم جنسی پرستی کا پول کھول دیا ہے حالانکہ گرجا پہ ایسے الزامات صدیوں سے لگتے آئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ گرجا میں رہنے والی راہباووں کی بکارت کو محفوظ رکھتے ہوئے ان سے غیر فطری جنسی فعل کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
بعینہہ، یہودی برادری کی عبادت گاہوں (سینا گوگ) میں ہم جنسی اشتہاانگیزیوں کی شکایات کا انبار ہے۔ بودھ صوفی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ابھی حال میں ہی تھائی لینڈ کی بودھ خانقاہوں میں نوعمر بودھ بھکشووٗں کے ساتھ عمر رسیدہ بھکشووٗں کی جنسی ذیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک ۱۳ سالہ بھکشو کی شکایت کے مطابق ۵۱ سالہ رہبر بھکشو اسے اپنے ننگے جسم کا مساج کرنے اور اپنے جسم کو چوسنے کا کہتے۔
پاکستان میں یہ روایت اردو کی رعایت سے آئی ہے حالانکہ اردو کی قبولیت عام سے پہلے بھی برصغیر کے مسلمانوں میں عشق افلاطونی (افلاطون کے نزدیک عورت سے محبت فضول ہے کیونکہ عورت سے جنسی عمل صرف نسل آ گے بڑھانے کے لیے ہے جب کہ عشق حقیقی کا حظ صرف نوعمر بغیر داڑھی کے لڑکوں سے ہی اٹھایا جا سکتا ہے) کی مضبوط ثقافت موجود تھی۔
اردو کی اولین تحریر سے بھی ۳۵۰ سال پہلے پیدا ہوئے سلطان علاوالدین خلجی کی اپنے غلام ملک کافور سے محبت پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ خلجی کے دورِ حکومت میں ایک مبصر ضیا الدین بارانی نے خلجی کے آخری دنوں کا احوال بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان چار پانچ برسوں میں جب سلطان اپنی یاداشت کھونے لگے تھے تو وہ ملک کافور کے ساتھ گہری محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کچھ ایسی ہی حکایات سلطان محمود غزنوی اور ان کے چہیتے مملوک ایاز کے لیے بھی ہیں۔ تزک جہانگیری میں مغل بادشاہ جہانگیر نے بھی لڑکوں پہ اپنی شبینہ فتوحات کا ذکر کیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد سرمد پر اپنی تحریر کی ہوئی کتاب ’حیاتِ سرمد‘ میں صوفی سرمد کی اپنے محبوب ابھےچند کے لیے سرمستی عشق کے بارے میں لکھا ہے۔
پنجابی کے نامور شاعر اور لاہور کے صوفی شاہ حسین اور ہندو لڑکے مادھو کے عشق سے کون واقف نہیں ہے؟ اس عشق کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنے محبوب کا نام اپنے نام کا مستقل حصہ بنا لیا اور اب بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ مادھو لال حسین ایک شخص کا نام نہیں تھا بلکہ دو الگ الگ نام تھے۔
اسلامی تصوف میں اس حوالے کی روایت پہلے عرب (شاعر ابو نواس) اور پھر فارس (عمر خیام اور حافظ شیرازی کا مشہور شعر تو ہر کوئی کس لذت سے سناتا ہے کہ اگر وہ شیراز کا ترک لڑکا مجھے مل جائے تو میں اس کے گال کے تِل کے بدلے سمر قند اور بخارا کے شہر اسے بخش دوں) سے وارد ہوئی۔ اس سلسلے میں صوفی سلسلے کی مشہور بزرگ شاہ شمس تبریز اور مولانا روم کا عشق زبان زد عام ہے۔
1244 میں مولانا رومی کی جب شمس تبریز سے ملاقات ہوئی تو ان کی عمر 37 برس اور شمس تبریز کی عمر 60 برس تھی۔ اس وقت تک مولانا رومی ایک مستند و معتبر عالم بن چکے تھے۔ ان کا خطبہ سننے سینکڑوں ہزاروں لوگ جمع ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل تھی۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک خوشحال‘ باعزت اور کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ شمس نے رومی کو چھوڑ جانے کا فیصلہ کیا تو رومی نے شمس کی شادی اپنی منہ بولی بیٹی کیمیا سے کر دی۔
یہ حقیقت بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جوں جوں رومی شمس سے جذباتی طور پر قریب آتے گئے رومی اپنی بیوی سے رومانوی طور پر دور ہوتے گئے اور شمس بھی اپنی نو بیاہتا بیوی کیمیا سے ازدواجی تعلقات نہ قائم کر سکے۔ اس تعلق کی شرمندگی سے بچنے کے لیے رومی کے بیٹوں نے شمس کو قتل کر دیا۔
اردو غزل کے بادشاہ، ریختہ کے استاد، صوفی ابن صوفی سید محمد تقی (ولد سید محمد متقی جو ایک معروف مزار کے سجادہ نشین تھے) عرف میر تقی میرؔ، جن کو خداۓ سخن کا لقب دیا جاتا ہے، نے شاعری کے اپنے دیوان کے متعلق کہا تھا کہ میرے دیوان میرے معشوق لڑکے کے لکھا گیا ہے۔ ان کے معشوق لڑکے کے حسن کے قصے اور طرحداریوں کے افسانے اس کے خال و خد سے لے کر عشوہ طرازیوں تک چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح پرانی دلی کے قدماء میں سے ایک بزرگ شاعر شیخ شرف الدین مضمون نے اپنے محبوب کے بارے میں لکھا کہ میرے محبوب کے چہرے پر داڑھی آ گئی ہے جبکہ میری داڑھی سفید ہو چکی ہے۔ لیکن وہ اب بھی ساری رات مجھ سے مصاحبت کرتا ہے۔ ہندو اردو شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھ پوری بھی اپنے بیٹے کے عمر کے لڑکے کے عشق میں مبتلا تھے۔ کہتے ہیں کہ فراقؔ گھورکھ پوری کی ہم جنسیت کی وجہ سے ان کے بیٹے نے خود کشی کر لی تھی کہ اس کا باپ اس کے دوستوں سے بھی باز نہ آتا تھا۔)
ایک فقیہ اعظم نے اس رویے کا علاج یہ تجویز کیا تھا کہ اپنے شاگرد کا سر منڈوا دیا تاکہ وہ خوبصورت ہونے کی وجہ سے دوران سبق امام صاحب کی توجہ منتشر نا کروا دیں۔ مگر کیا کیجئے، مسئلہ حل نہیں ہوا اور اس کے بعد استاد محترم اپنے عزیز شاگرد کو اپنی مسند کے عقب میں یعنی اپنی نظروں سے اوجھل بٹھاتے۔ کیا اس سب کے بعد مفتی الشیخ عزیز الرحمان پہ گرفت کی جانی چاہیے؟ جواب آپ کا ہے۔
شیعہ امام مفتی ذاکر بد فعلی کرتےھوئے
علامہ ذاکر نجفی۔۔نابالغ لڑکے سے بد فعلی کرتے ھوئے۔
ختم نبوت ،،ناموس رسالت کی حفاظت کرتے ھوئے۔۔
کافر و گستاخ عفاف اظہر کا کالم
کافر و گستاخ
زمین کا پہلا گستاخ اس آدم کا اپنا ہی باپ بابا آدم تھا …. … اور پھر ابن آدم کی گستاخیوں کی یہ داستان کبھی کہیں رکی نہ تھمی … بس ایک تواتر سے چلتی ہی چلی گئی …سائنس ، فلسفہ ، فکر ہو یا پھر مذا ہب و عقائد ..یہ گستاخانہ سلسلہ پھر ابن آدم کی تاریخ میں کبھی کہیں سے ٹوٹ نہ پایا … اسی عبرت ناک تسلسل کا ایک باب وہ بدترین گستاخ سقراط تھا…جس نے اپنی گستاخیوں سے توبہ کرنے کی بجائے زہر کا پیالہ لبوں کو لگا کر موت قبول کر لی تھی …. ابراہیم بھی تو بتوں کا گستاخ و کافر ہی تھا جس نے اپنی گستاخیاں اور کفر چھوڑنے کی بجائے آگ میں جھلس جانا منظور کر لیا تھا … فر عو نیت کی نظر رکھو تو موسیٰ بھی گستاخ ، و کافر ہی تھا … یہودیت کی عینک لگا لو تو مسیح بھی ایک گستاخ ، و کافر …اور کفار مکہ کی سوچ پڑھ لو تو محمد رسول بھی فقط ایک گستاخ ، و کافر ہی تو ٹہرا تھا ….
اب یہاں سوال یہ ہے کہ یہ گستاخی اور کفر آخر ہے کیا ؟؟ …جسکا خمیر آدم کی سرشت میں روز اول سے ہی جوں کا توں موجود رہا ہے … اس تاریخ انسان میں آخر کیوں ہزار کاوشوں ، کے باوجود بھی معاشروں سے یہ گستاخی اور یہ کفر کبھی بھی مٹ نہ پایا ؟ … اسکا جواب بہت تلخ ہے… اور وہ یہ ہے کہ یہ الفاظ ” گستاخ ” اور ” کافر ” کی حقیقت اور کچھ بھی نہیں سوائے اس کے کہ یہ انسانی فطرت کی بنیادی اکائی تجسس کی بنیاد پر اٹھتے سوالات ہی ہیں … جس کے پیچھے ہر دور کے موجود نظریات و روایات کو رد کرتی انفرادی فکر اور سوچ ہے …. گستاخی اور کفر کی بنیاد حقیقت میں تجسس ہی ہے.. جس کا فوری قتل عام کرنے کے لئے عقیدت و جہالت کی تمام تر سطحوں پر اسکے لئے روز اول سے ہی "گستاخ، اور کافر ” جیسے الفاظ کو نفرت , حقارت اور اس نام نہاد خدائی ناراضگی سے متعارف کروایا جاتا رہا ہے ….
یعنی اسی ابن آدم نے ہمیشہ سے خود ساختہ عقائد و روایات کی دوکانیں سجانے کے لئے اپنی خود کی دین فطرت کو مسخ ہی تو کیا ہے .. .. خود کی انفرادیت کو لہو لہو کیا ہے …اپنے ذہن میں اٹھتے بنیادی سوالات کا فوری و من پسند جواب نہ پا کر، اس فطری تجسس کے ہاتھوں رہ رہ کر سر اٹھاتی ہر انفرادی سوچ سے تنگ آ کر آسان ترین حل یہ نکالا اور اسے عقیدت کے آہنی پنجوں تلے پیس پیس کر راکھ کر ڈالا …. اور پھر اس کے باوجود بھی جہاں جہاں وہ فکر اور سوچ عقیدت و جہالت کے تمام تر اختیارات سے باہر ہوتی نظر آئی .. سبھی انتھک کوششوں کے باوجود کسی طور دبائی یا روندی نہ جا سکی …تو پھر تابوت کے آخری کیل کی مانند اسکا آخری داؤ یعنی وار ہمیشہ یہی الفاظ ” گستاخ ، کافر ” ہی ٹہرے … (عفاف اظہر
راستے روکنے کا جرم … !
راستے روکنے کا جرم … !
اسلام دین فطرت اور فطرت انسانی آسانی کی متقاضی ہے اسی لیے حدیث مبارکہ میں آتا ہے ” دین میں آسانی ہے ” قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ماجعل علیکم فی الدین من حرج﴾․(حج:7 یعنی الله تعالیٰ نے دین اسلام میں مشقت اور تعب نہیں رکھی ، حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے : ”ان الدین یسر“ ․ (بخاری ص:10) یعنی دین آسان ہے ۔ ایک اور حدیث میں حضور صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :”احب الدین الی الله الحنیفیة السمحة“․ (بخاری ص:10) یعنی آسان او رتوحید والی شریعت الله تعالیٰ کے ہاں محبوب ہے۔ موافقات شاطبی (ج4، ص:24) میں ایک اصول مذکور ہے کہ ”مجموع الضروریات خمسة: حفظ الدین ، والنفس، والنسل، والمال، والعقل․“ اس اصول کے تحت ہر ایسا طریقہ اختیار کرنے سے اسلام روکتا ہے جس سے انسان کے دین ومذہب، جان ومال اورنسل وعقل کو نقصان پہنچتا ہو۔ یہاں سے یہ امر انتہائی واضح ہو جاتا ہے کہ جو کوئی بھی مشکلات پیدا کرے رکاوٹیں ڈالے اور لوگوں کے بوجھ میں اضافہ کرے تو وہ دین حق کے حقیقی مزاج کے خلاف کھڑا ہوگا .. الله اپنے بندوں پر آسانیاں فرماتا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے اس دين حنيف کے ساتھ۔ بھیجا گیا ہے جس میں آسائش اور رواداری ہے۔ الله کے رسول علیہ سلام نے نے امت کیلیے آسانیاں مانگیں نمازوں کی تعداد کا پچاس سے پانچ کروانا احادیث صحیحہ میں مذکور ہے …… اسی آسانی اور سہولت کی جانب الله کے رسول صل الله علیہ وسلم نے طاقت والوں اور حکمرانوں کو بھی متوجہ کیا ہے جب حضرت معاذ اور ابوموسی رضي الله عنهما کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ: تم دونوں آسانیاں پیدا کرو ، مشکلیں مت کھڑی کرو ، خوشخبریاں دیا کرو ، اور نفرت مت پھیلاؤ، اور مل جل کر رہو اور اختلافات پیدا مت کرو (صحیح بخاری ) راستوں کو روکنا اور لوگوں کیلیے رکاوٹیں کھڑی کرنا بد ترین جرائم میں سے ایک ہے سوره عنکبوت میں قرآن کریم ایک عذاب زدہ قوم کے گناہوں میں ایک گناہ یہ بھی بیان کرتا ہے أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴿029:029﴾ [جالندھری] کیا تم (لذت کے ارادے سے) مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو اور (مسافروں کی) راہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو؟ تو ان کی قوم کے لوگ جواب میں بولے تو یہ بولے کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر خدا کا عذاب لے آؤ تفسیر ابن كثیر یہاں وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ کی مزید تفصیل کچھ اس انداز سے بیان کی گئی ہے لوطیوں کی مشہور بدکرداری سے حضرت لوط انہیں روکتے ہیں کہ تم جیسی خباثت تم سے پہلے تو کوئی جانتاہی نہ تھا۔ کفر، تکذیب رسول، اللہ کے حکم کی مخالفت تو خیر اور بھی کرتے رہے مگر مردوں سے حاجت روائی تو کسی نے بھی نہیں کی۔ دوسری بد خلصت ان میں یہ بھی تھی کہ راستے روکتے تھے ڈاکے ڈالتے تھے قتل وفساد کرتے تھے مال لوٹ لیتے تھے راستوں کے روکنے کا گناہ انتہائی شدید ہے کسی بھی انسان کے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی جھوٹی تعظیم کے لیے کسی دوسرے کو مشقت میں ڈالے إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَهُ عِبَادُ اللَّهِ قِيَامًا، فَلْيَتَبَوَّأْ بَيْتًا فِي النَّارِ» . هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ لوگ اس کے لیے بت بن کر کھڑے ہوں ، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے ۔ ہر وہ شخص کہ جس کے پاس طاقت اور قوت ہے اور وہ اپنی قوم گروہ یا قبیلے کا بڑا متصور ہوتا ہے در حقیقت وہ را عی یعنی نگہبان ہے اور اس سے اسکی قوم کی بابت سوال ہوگا ابن عمررضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اپنی ذمہ داری کے لیے جوابدہ ہے ۔امام اپنے عوام کے لیے ،آدمی اپنے گھر کے لیے ،نوکر مالک کے مال کے لیے جوابدہ ہے میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاتھا کہ آدمی اپنے باپ کے مال کا ذمہ دار ہے اوراس کے لیے جوابدہ ہے ۔(بخاری۔مسلم) الله کے رسول علیہ وسلم کے ہاں کوئی دربان کوئی چوکیدار نہیں ہوتا تھا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر پر بیٹھی رورہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ سے ڈرو صبر کرو۔اس نے کہا آپ پر وہ مصیبت نہیں آئی جو مجھ پر آئی ہے اس لیے کہہ رہے ہیں اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا نہیں تھا کسی نے اس سے کہا کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ آپ کے دروازے پر آئی تو وہاں کوئی دربان وچوکیدار نہیں پایا اس نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا نہیں تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :صبر وہ ہے جوصدمہ پہنچتے ہی کیا جائے ۔(بخاری۔مسلم۔احمد۔ترمذی۔ابوداؤد۔نسائی۔ابن ماجہ۔ابویعلیٰ۔بیہقی) عموم کے لیے راستے روکنے کو دین ناپسند کرتا ہے ابومریم ازدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ جس کو مسلمانوں کے امور کا نگہبان بنادے اور وہ ان کی ضروریات وشکایات سننے کے بجائے درمیان میں رکاوٹیں کھڑی کردے اللہ اس کے لیے رکاوٹیں پیدا کردیتا ہے ۔ایک روایت میں ہے اللہ جس کو مسلمانوں کا حاکم بنائے پھر وہ مظلوموں اورمساکین کے لیے دروازے بندکردے اللہ اس کے لیے اپنی رحمت کا دروازہ بند کردیتا ہے حالانکہ یہ اللہ کی رحمت کا زیادہ محتاج ہوتا ہے۔
(ابوداؤد۔حاکم۔بیہقی۔بسند صحیح)
یہ کیسا تکبر ہے کہ جو ایک جاگیر دار ایک وڈیرے کی حرمت میں قوم کی بچیوں کی جانیں قربان کر دیتا ہے یہ کیسا کفر ہے کہ جو ظالموں کا وطیرہ بن چکا ہے حضرت رسول خدا مدینہ کے ایک راسے سے گزر رہے تھے تو ایک سیاہ فام عورت وہاں سے گوبر اٹھا رہی تھی۔ کسی نے اس سے کہا: "رسول خدا کو راستہ دے دو تو اس نے جواب دیا "راستہ کشادہ ہے” اس پر ایک شخص نے نے اسے اس کی گستاخی کی سزا دینے کا ارادہ کیاتو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا: "جانے دو! کفریہ مغرور و سرکش عورت ہے”
(امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۳ صفحہ ۲۱۰
یہ کیسی سرکشی ہے یہ کیسا کبر ہے یہ کیسا غرور ہے اور یہ کیسا کفر ہے جی ہیں بے شک یہ بھی کفر حضرت عبداللہ بن عمر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑوں کے حقوق کو نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:باب:ادب کا بیان :رحمت وہمدردی کا بیان
ویلین ٹاین ڈے کے حوالے سے لکھا گیا ایک تحقیقی مضمون
ویلین ٹاین ڈے کے حوالے سے لکھا گیا ایک تحقیقی مضمون
سو سمار کے پیروکار … !
عمومن پہاڑی یا ریتیلے علاقوں میں ایک جانور اگوانا (iguana) کے نام کا پایا جاتا ہے جو چھپکلی کی نسل کا ایک رینگنے والا جانور ہے اسے سوسمار یا گوہ بھی کہا جاتا ہے انتہائی مضبوط جسم کے اس جانور کی خاصیت اسکی انتہائی مضبوط پکڑ ہونا ہے زمانہ قدیم میں اسے نقب لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا گو کہ ہمارے جدید دور کے ڈاکو نقب اور نقاب دونوں سے مستغنی ہو چکے ہیں ..
اور
رکھ رکھاؤ اب کسی بھی طبقے میں باقی نہیں رہا ہے چاہے وہ ڈاکو ہی کیوں نہ ہوں ..
یہ جانور پہاڑوں یا زمین میں بل بنا کر رہتا ہے چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے اسکی غذا ہوتے ہیں انتہائی سخت جان ہوتا ہے اور آسانی سے نہیں مرتا سوسمار کا ذکر کچھ احادیث میں بھی آیا ہے جن میں سے ایک روایت بہت مشہور ہے ..
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ۔ رضى الله عنه ۔ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ ". قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى قَالَ ” فَمَنْ "؟.
( صحيح البخاري :3456 ،الأنبياء – صحيح مسلم :2669 ، العلم )
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں کی ضرور پیروی کروگے ، بالشت بالشت برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ، حتی کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم لوگ بھی ان کی پیروی کروگے ، حضرت ابو سعید کہتے ہیں کہ یہ سننے کے بعد ہم لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول کیا [پہلی قوموں سے مراد ] یہود ونصاری ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : پھر اور کون ۔
{ صحیح بخاری و صحیح مسلم }
دنیا میں مختلف اقوام پائی گئی ہیں کچھ وہ جنکی کوئی باقاعدہ تاریخ اور تہذیب ہے اور کچھ وہ جو بے تاریخ اور بد تہذیب گزری ہیں ایسی ہی قوم کے بارے میں ایک اور روایت میں سوسمار کا ذکر بھی آتا ہے ..
١٣٢٤ : سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا کہ ہم ایسی زمین میں رہتے ہیں جہاں گوہ بہت ہیں اور میرے گھر والوں کا اکثر کھانا وہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواب نہ دیا۔ ہم نے کہا کہ پھر پوچھ، اس نے پھر پوچھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار جواب نہ دیا۔ پھر تیسری دفعہ ( یا تیسری دفعہ کے بعد ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آواز دی اور فرمایا کہ اے دیہاتی ! اللہ جل جلالہ نے بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر لعنت کی یا غصہ کیا تو ان کو جانور بنا دیا، وہ زمین پر چلتے تھے۔ میں نہیں جانتا کہ گوہ انہی جانوروں میں سے ہے یا کیا ہے؟ اس لئے میں اس کو نہیں کھاتا اور نہ ہی حرام کہتا ہوں۔ مسلم
عین ممکن ہے بنی اسرائیل کا وہ گمراہ گروہ ہی سوسمار میں تبدیل ہو گیا ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ یہود و نصاریٰ اگر گوہ کے سوراخ میں گھسینگے تو ہم بھی انکی پیروی میں گھس پڑینگے ..
دور جدید کے نصاریٰ جو قریباً لا دین (atheist) ہو چکے ہیں خاص طور پر امریکا مہاراج جسکا کوی مذہبی اور تاریخی ورثہ نہیں اور یہ بے چارے کبھی منگولیا کے پہاڑوں میں بدھ مت کے اندر کہیں ہندوستان کے مندروں میں کبھی بھولی ہوئی مایا تہذیب میں اور کبھی مصر کے اہراموں میں اپنی شناخت کھوجتے پھرتے ہیں ایسے میں کبھی بے تاب ہوکر یہ لوگ گوہ کے بلوں میں بھی گھس پڑتے ہیں اور قدیم فرعونی تہذیب سے بھی کچھ روایت ڈھونڈ لاتے ہیں ..
قدیم روم میں لوپرکالیہ ( lupercalia) کے نام سے ایک جشن منایا جاتا تھا روایت کے مطابق لوپرکالیہ لاطینی زبان کے لفظ لوپس سے نکلا ہے جسکا مطلب ہے مادہ بھیڑیا اسکا ایک اور مطلب طوائف کا بھی ہے ..
قصہ کچھ یوں ہے کہ دو بھائیوں رومیولاس اور رومس کو ایک مادہ بھیڑیے نے دودھ پلایا تھا ان دونوں بھائیوں نے لوپر کالیہ کا جشن منانا شروع کیا یہ تین دن کا تیوہار ہوتا تھا جو تیرہ فروری سے شروع ہوکر پندرہ فروری تک اختتام پذیر ہو جاتا تھا مزے کی بات یہ ہے کہ لوپر کالیہ کا ایک اور نام فبراشیو یا فبراٹیو بھی ہے جسکے نام پر ہمارا انگریزی مہینہ فروری کہلاتا ہے …
اس قدیم تیوہار کی تقریبات کچھ اسطرح ہوتی تھیں پہلے ایک بھیڑ اور کتے کو ذبح کیا جاتا ہے (بھیڑ بھیڑیے کا شکار اور کتا اسکا رکھوالا ہوتا ہے غالباً اسی لیے دونوں کی قربانی دی جاتی تھی )
اسکے بعد رومن شراب کے نشے میں دھت روم کی گلیوں میں برہنہ دوڑ لگاتے خوبصورت بے لباس عورتوں کو راستوں میں جبری کھڑا کر دیا جاتا تھا رومی سورما انکو ذبح شدہ جانوروں کے گوشت اور کھال کے ٹکڑوں سے نشانہ بناتے اور عقیدہ یہ رکھا جاتا کہ اس سے عورتوں کی بارآوری کی صلاحیت بڑھ جائے گی …
جشن کا دوسرا حصہ ایک خاص کھیل پر مشتمل ہوتا ایک بڑے جار میں کنواریوں کے نام لکھ کر ڈال دئیے جاتے اور اسکے بعد مرد قسمت آزمائی کرتے جسکے کے نام جو عورت نکلتی تقریبات کے اختتام تک وہ اس عورت سے لطف اندوز ہونے کا حق رکھتا تھا …
معروف مفکر لانسکی کہتا ہے قدیم رومی جشن لوپر کالیہ جو رومیوں میں بہت مشہور تھا بادشاہ کانسٹنٹائن (constantine) کے دور تک اسکی اہمیت کو کم یا ختم کرنے کے لیے ویلین ٹائین کے جشن کا آغاز کیا گیا
تاریخ میں ہمیں تین مختلف ویلین ٹائین ملتے ہیں
١ تیسری صدی عیسوی میں بادشاہ کلوڈیاس دوئم کے دور میں جنگ کے دنوں میں سپاہیوں کی شادیوں پر پابندی لگا دی تھی جسکے خلاف ویلین ٹائین صاحب نے بغاوت کی کسی عورت کو محبّت بھرے خط لکھے اور آخر موت کے گھاٹ اتارے گئے…
٢ دوسری کہانی میں ویلین ٹائین صاحب قید خانے میں ہوتے ہیں اور جیلر کی اندھی بیٹی
پر ڈورے ڈالنے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتارے جاتے ہیں ..
٣ ایک کہانی کے مطابق یہ اطالوی بزرگ تھے وجوہات انکی جبری موت کی بھی پہلے دو جیسی ہی تھیں
تحقیق بتاتی ہے کہ ویلین ٹائین اصل میں گیلین ٹائین تھا جو گیلنٹ سے نکلا ہے جو لفظ کورٹشپ کے مترادف ہے جسکا مطلب مرد اور عورت کے بغیر شادی ایک عارضی معاہدے میں رہنے کے ہیں
ایک روایت کہتی ہے یہ پرندوں کے ملن کا موسم (birds mating season) ہے ..
اس جشن کی اصل رومن تیوہار سے لی گئی ہے اور اسے پندھرویں صدی میں باقاعدہ مقبولیت حاصل ہونا شروع ہوئی اسکا اصل گھر دور جدید میں امریکی تجارتی منڈیاں بنیں جہاں اسے باقاعدہ کیش کیا گیا ہالووین ،نیو ایر، مایا فیسٹیول یا ولین ٹائین سب کی اصل منڈی جدید دجالی تہذیب کا نمائندہ امریکہ ہے ،
٢٠١٢ میں ایک اندازہ کے مطابق ١٧.٦ بلین امریکی ڈولر کی کمائی ہوئی ایک انگریز مفکر کہتا ہے ایسا لگتا ہے کوئی نادیدہ قوت ہماری زندگیوں کو اپنی مرضی کا رخ دے رہی ہے
جدید دور کے فحش معاشروں میں اسطرح کا جشن جہاں نوجوان پہلے ہی جنسی نرگسیت کا شکار ہے اسے وہ تمام حالات فراہم کر دئیے جائیں جنمیں اسکی ذہنی ،جسمانی اور روحانی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی جائے
کیا ہم چند دنوں اور چند لمحوں کے لیے اتنی بڑی قربانی دینے کو تیار ہیں
کیا ہمارا مذہب ہماری تہذیب ہماری معاشرت اور ہماری عمومی حالت اس طرح کی خرافات کی اجازت دیتی ہے اور کیا ہماری پستی کا واحد علاج کسی دجالی تہذیب کے رنگ میں رنگ جانا ہی ٹھہرا ہے کبھی رک کر سوچا بھی ہے ہمنے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں
آج کی حالت دیکھتے ہیں تو ہر طرح کا شک دور ہو جاتا ہے اور الله کے رسول صل الله علیہ وسلم کے کہے گئے الفاظ بازگشت کی شکل میں سماعتوں سے ٹکراتے ہیں ..
شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ ".
کیا عقل آنے کی امید ہے سوسمار کے پیروکاروں سے
قوانین اسلامی اور صنف نازک … !
اس مادی دنیا میں رہنے والے انسان جب ایک (society) کا حصہ بنتے ہیں اور جب وہ ایک بڑی (community) تشکیل دینے جاتے ہیں تو انکے درمیان اعتدال قائم رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے ورنہ انسان کی فطرت اسے مجادلے اور مناقشے پر ابھارتی ہے .
اس عدل کو قائم رکھنے کیلئے جو ادارہ تشکیل دیا جاتا ہے اسے عدالت کہا جاتا ہے یہ عدالت چند قوانین لاگو کرتی ہے کہ جن کی بنیاد پر معاشروں کے اندر ایک میزان قائم ہو سکے .
ریاستی قوانین کی بنیاد یہ تو انسانی عقل ہوتی ہے یا وحی الہی اور ہر دو کا مقصود دراصل معاشروں کے اندر امن کو قائم رکھنا ہوتا ہے .
مرد و عورت کسی بھی معاشرے کے دو فریق ہیں ، دو ایسے فریق کہ جنہیں اپنی بقاء کیلیے ایک دوسرے کا ساتھ درکار ہے اگر یہ ساتھ موجود نہ ہو تو نسل انسانی معدوم ہو جائے .
مرد و عورت کے باہمی تعلقات کے درمیان عدل قائم رکھا اہم ترین اور مشکل ترین امور میں سے اگر تاریخ انسانی کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے حوالے سے مذاہب عالم اور انسانی عقل مختلف قوانین بناتی رہی ہے .
جہاں تک معاملہ ہے عقل انسانی کا چونکہ ہمیشہ معاشرے (male dominant) رہے ہیں اسلئے قوانین کی تشکیل کیلئے عقل بھی بھی مردانہ استعمال ہوئی ہے اور مرد کا عورت کے حوالے سے متعصب ہونا امر محال نہیں ہے .
دوسری جانب جہاں تک مذھب کا معاملہ ہے اس کی نگاہ میں مرد و عورت یکساں حیثیت کے حامل ہیں اور جہاں کہیں بھی ان کے درمیان کوئی تفاوت دکھائی دیتا ہے وہ (administrative) .
گو کہ مذاہب بھی شکست و ریخت کا شکار ہوتے رہے ہیں اور عقل انسانی کی زد پر رہے ہیں اسلئے ہمیں مذاہب میں بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے کہیں نہ کہیں عدم توازن دکھائی دیتا ہے .
انسانی عقل کے بنائے ہوئے قدیم تریم رومی قانون (Roman law) کا مطالعہ کیا جائے تو کچھ اس انداز کی تصویر سامنے آتی ہے .