اُڑن طشتریاں۔,,,خلائی مخلوق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،Aliens۔۔۔۔۔ UFO۔۔۔

خیالی خلائی مخلوق۔۔۔خیال اڑن طشتری

حسبِ وعدہ خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کے بارے رائے پیش ہے۔
انسانی شعور اور قدرتی میلان ایسا ہے کہ بچپن سے انسان جادوئی غیر مرئی چیزوں اور محیّر العقول باتوں کہانیوں اور چیزوں سے شدید متاثر ھوتے ہیں۔ نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ یہی امید رکھتے ہیں کہ ایسا کچھ ضرور ھو۔،
یعنی ھم اپنے اُس قدرتی میلان کی روشنی میں خیال گُمان اور فینٹیسی کی جانب رغبت رکھتے ہیں۔ اسی خاطر انسان نے سوچا کہ یہ قدرتی حیاتیاتی سلسلہ بنانے والی طاقتوں کو سوچا جائے انکا ھیولہ یا حلیہ بنایا جائے۔۔ زمانہ قدیم سے خیال گُمان وسوسہ اور خوابی ماحول کے تحت کسی نہ کسی چیز کو خود سے بھی برتر جادوئی پاک۔۔پوِتّر ماننے کا قدرتی رجحان انسان کے اندر ہے۔اس رجحان کو شدید تقویت دینے والی چیزوں میں خوف۔۔۔اور دوسرا لالچ شامل کیا جاتا ھے۔عربی مذاھب خاص طور پر ایسے ہی سوچ کے تحت رایج کئے گئے۔یونان کی عقل و شعور میں بڑھی قوم میں بھی دیوتاوں یا ھر خدائی صفت کا کوئی خدا یا دیوتا مقرر کیا گیا ھندو ازم میں بھی یہی نظر آتا ھے اسلام میں بھی ایک ہی خدا کو وہ سارے صفات دینے کی کوشش 99 ناموں مین ملتی ہے جو اصل میں انسان کی اپنی صفات ہیں۔ پس انسان اپنے خدا یا دیوتا یا خود سے زیادہ طاقت و شعور رکھنے والی سوچ کا اسیر ہے۔۔ بعض اوقات کئی مزھبی جب لاجواب ھو جاتے ہیں تو کہتے ہین اچھا اب مین اپنا مذھب چھوڑ کونسا مذھب اختیار کروں۔۔کیا عیسائی ھو جاوں۔۔۔ یا عیسائی کہیں گے کیا مسلمان ھو جاوں۔۔۔شیعہ کہے گا کیا احمدی ھو جاوں احمدی کہے گا کیا دیوبندی ھو جاوں ؟
میں حیران ھوتا ہوں کہ اے بندہِ اسیر۔۔۔ تجھےمذھب کی کیا ضرورت ہے؟ کیا عالمی اخلاق نہین بتاتے کہ جھوٹ بولنا فریب دینا بےایمانی کرنا قطار بندی نہ کرنا چوری ڈاکہ۔۔قتل ایذا پہنچانا بُرے اعمال ہیں؟ آخر مذھب کے بتانے سے ہی کیوں ماننا ہے۔ ۔۔۔؟ یوں بھی مذھبی ممالک میں پھانسیوں اور سزاوں کی تعداد غیر مذھبی ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔
مذھبی خداوں دیوی دیوتاوں کی طرح انسانی سوچ ھم جیسی یا ھم سے بہتر کسی مخلوق کے بارے میں بھی پُرامیدی رکھتی ہے۔مثلاً قران میں اور کہانیوں یا افسانوں کی طرح جنّوں کا ذکر بھی ہے۔بلکہ سُورۃ کا نام سُوڑۃ الجن ہے ۔۔یعنی ایسی مخلوق جو آگ سے پیدا کی گئی ہے۔ ویسے یہ نہایت بیہودہ خیال ہے کیونکہ آگ تو کائنات کی ھر چیز کو جلا دیتی ہے۔پس بہت ہی زیادہ درجہ حرارت سے بھی دھاتوں کے درمیان تعامل ھونے سے دھاتین ھی بنیں گی یا گیسیں بنیں گی۔۔کوئی اور جیتا جاگتا وجود کسی صورت بننا ممکن نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے انسان کی مذھبی اور رجعتی سوچ کا کہ یہ فرض کر کے کہ جو سُن لیا پڑھ لیا وہ عین سچ ہے پوری زندگی اسی ایمان پر ضائع کر کے لوگ مَر جاتے ہیں۔
جنوں ہی طرح جب انسانی سوچ کسی طبیعی قدرتی کیمیائی یا طبیعاتی مظہر کو سمجھ نہیں پاتی تو اُسے فوری طور پر کسی غیر مرئی طاقت کا کام قرار دیتی ہے۔اس سے اسکے اس پرانے ایمان کی تسکین ھو جاتی ہے کہ ھم سے بہتر طاقتیں موجود ھیں۔جو جیسا چاھیں کر سکتی ہیں ھم جو نہین کر سکتے وہ کر سکتی ہیں۔
اسی سوچ کے تحت دنیا بھر کی تاریخ میں لوگوں نے ھر طرح کی خلائی مخلوق کے دیکھنے کا ذکر کیا جو انسان کی سوچ پڑھ لیتی ہے یا آنکھوں میں دیکھ کر انسان کو ساکت کر دیتی ہے۔انسان بےحس ھو جاتا ھے دیکھ سُن سکتا ھے مگر کچھ عمل نہیں کر سکتا۔۔
پھر اس خلاقئی مخلوق کے آنے جانے کو سواری کے لئے مختلف نام دئیے گئے جیسے جبرائیل ۔۔۔کا اڑتے گھوڑے پر سفر کرنا۔۔۔جیسے کسی گول یا بیضوی چیز اڑن گاڑی جس مین سے شعائین نکلتی ہوں اسکا ذکر کرنا۔۔۔
امریکہ چونکہ جدید ٹیکنالوجی میں سب سے آگے رھا ھے اس لئے امریکہ کے اداروں پر الزام ہے کہ وہ
خلاقئی مخلوق سے رابطہ کر چکے ہیں۔۔یا خالقئی مخلوق کی گاڑی زمین سے ٹکرائی تو اسکے پرزے اور خلائی مخلوق کو زخیمی یا مردہ حالت میں امریکہ کے اداروں نے پکڑا اور کہین چھپایا ھوا ھے وغیرہ۔۔
اسی حوالے سے سیاسی یا کسی اور چال کے تحت وقتاً فوقتاً امریکی میڈیا اڑان طشتریوں کا ذکر شروع کر دیتا ھے۔تاکہ لوگوں کی توجہ کسی اور اھم صورتِ حال سے ھٹائی جاوے۔
اسی کے تحت پچھلے کچھ دنوں سے امریکی کانگریس کی ایک خصوصی کمیٹی کچھ ریٹائیرڈ خلائی ریسرچرز اور سائینسدانوں سے سوال جواب کر رھے ہیں،،
تاھم کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی نہ ھو کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے۔صرف دعوے جات ہیں۔۔ناسا مکمل انکار کر چکا ہے۔
مشہور سائیسندان نیل ڈیگراس ٹائیسن نے چند دن پہلے لکھا کہ
۔Sometimes I wonder whether alien space vessels are inherently fuzzy & out-of-focus (that would be terrifying). And whether they love the US Navy
(that would be charming).
If so, it would explain a lot.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی مجھے حیرانی ہے کہ خلائی مخلوق کے جہاز ھمیشہ دھندلے اور غیر واضح ہی کیوں ھوتے ہیں (ویسے یہ خوف والی بات ہے) اور انکو امریکہ کی نیوی سے ہی چھپنے چھپانے میں کیوں لطف آتا ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی نیل ٹائیسن عمومی خیال کو جُھٹلا رھا ھے کہ ایسی کوئی خلائی گاڑی یا مخلوق ہے۔اب یہ روشنیاں اور دھندلی چیزوں کی تیز ترین حرکت کیوں ھوتی ہے تو اس بارے فزکس شاید ابھی اس میگنیٹک اور الیکٹریکل میدان کو سمجھ نہیں سکی جسکی وجہ سے قریبی جہازوں کے بعض انسٹرومینٹ کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔عام لوگوں کو شاید معلوم نہ ھو کہ آسمانی بجلی کا گیند سا جب بےپناہ چارج کی وجہ سے بنتا ھے تو بعض اوقات جہاں بنتا ھے وھاں سے 25 کلومیٹر دور بھی جا کر گِرتا ہے۔یعنی جہاں بادل ہیں وھاں سے ادھر بھی جا کر گِر سکتا ھے جہاں بادل نہیں ہیں۔جو غیر سائینسی ذھن کے عام شخص کے لئے سمجھنا بہت مشکل ہے اور ایسا ھوتا دیکھ کر وہ فوری خدا کے غضب ۔۔۔۔خلائی مخلوق کی گاڑی وغیرہ کے خیال کی روشنی میں مشاھدے کو بدل بدل کے پیش کرے گا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ نہایت تیز رفتار کیمرے ان خلائی گاڑیوں کی تصویر تک نہین لے سکتے جو واضح ھو ۔۔۔اسکی وجہ میرے یہی ہے کہ بے پناہ چارج کے دباؤ اور برقی اور مقناطیسی میدان کی وجہ سے کیمرے کی جانب جانے والے روشنی اپنے معمول یا منطر کی تصویر دھندلا جاتی ہے۔
میں سائینس کا معمولی طالب علم ہوں لیکن میں نے نیل ڈیگراس ٹائیسن کو لکھا کہ جس زاوئیے سے میں سوچ رھا ہُوں اسکو پرکھنے کا کیا طریقہ ھو سکتا ھے؟ کیونکہ یہ رپورٹ کیا جاتا ھے کہ جیسے 1976 کے ایرانی اڑن طشتری والے کیس میں دوسرے جہاز کے نہایت ماھر پائلٹ نے بھی جب جوابی میزائل داغنے کی کوشش کی تو قریبی فاصلے پر اسکے انسٹرومینٹ فیل ھو گئے۔۔ اسنے خؤد کو بچانے کے لئے سرعتی گراوٹ کو اختیار کیا۔۔۔تو بعد مین اسکے انسٹرومینٹ کام کرنے لگے۔۔
اس سے صاف معلوم ھوتا ھے کہ ایسی خلائی چیز کے قریبی علاقے میں بجلی سے چلنے والی چیزیں متاثر ھوتی ہے۔اب اگر آپ سولر سسٹم اور اس سے زمین پر پہنچنے والے خلائی شمسی طوفانون کے بارے جانتے ہوں آپ کو معلوم ھوگا کہ شمسی سولر طوفانوں کی وجہ سے ھماری مواصلاتی نظام درھم برھم ھوجاتے ہیں۔۔کمپیوٹر ۔۔انٹرنیٹ،،بجلی کی ترسیل کا نظام سب متاثر ھو جاتے ہیں۔،، شمسی طوفان اگر شدید تر ھوں تو خلا میں مواصلاتی سیارے ان بےپناہ طاقتور مقناطیسی میدانوں کی وجہ سے تباہ ھوجاتےہیں۔ جاپان کو سیارہ بھی ایسے ہی شمسی طوفان نے تباہ کیا تھا۔
پس یہ خلائی روشنیاں جو لوگ دیکھتے ہین اور جنکی تصاویر تک ٹھیک سے نہین بن سکتیں اور جن میں سے روشنیان نکلتی ہیں۔۔شاید مقناطیسی اور برقی ارتکاز کے حصار ہوتے ہیں اور بعض اوقات ساکن ھوتے ہیں لیکن جب حرکت کرتے ہیں تو بعض اوقات روشنی کی رفتار سے طرح غائب ھو جاتے ہیں۔ انکا اتنی تیزی سے غائب ھونا یا ایک جگہ کے الٹ کسی جگہ جا موجود ھونا بتاتا ھے کہ وہ دھاتی سٹرکچر نہیں ہیں ۔۔۔یہ تو سائینسی استدلال تھا دیکھتے ہیں سائینس اس پر آگے کیسے روشنی ڈالتی ہے۔
اب ھم اس پر فلسفیانہ اور منطقی طور پر غور کرتے ہیں۔
اگر یہ نظام حیات کسی طاقت یا خدا یا خداوں نے بنایا ہے تو ظاھر ھے وہ ھم سے زیادہ طاقت ہیں۔۔ اگر وہ اپنے آپ کو کسی ڈائمینشن یا جہت میں چھپائے ھوئے ہیں تو ھم جتنا چاھیں ترقی کر جائیں انکو۔۔انکی مرضی کے بغیر نہیں ڈھونڈ سکتے۔
اگر اُن طاقتوں نے یا طاقت نے یا خدا نے کچھ بھی کہہ لیں(لیکن مذھبی خدا جھوٹ ہے) اگراس زمین کی مخلوق کے علاوہ بھی کوئی مخلوق بنائی ہے تو کیوں وہ ھم سے زیادہ طاقت ور ھوگی؟جبکہ کروڑوں اربوں سالوں کے ارتقا سے ھمارا وجود کم از کم زمین پر اشرف المخلوقات طے ھوا۔ اگر کروڑوں سالوں میں یہ سنگ میل انسان تک پہنچا ھے تو کیسے ممکن ہے کہ کہین اور اس سے بہتر ڈیزائین کی حامل مخلوق بن گئی ہو؟ کیونکہ جب خدائی طاقتیں کنٹرولڈ ارتقا کی جانب چل رھے ہین تو کسی اور سیارے پر اس سے بہتر ڈیزائن ممکن نہیں۔یعنی اگر جدید ترین کمپیوٹرز کو جوڑ کر سُپر کمپیوٹر صرف اسنان زمین پر بنانے میں بمشکل کامیاب ھوا ھو تو کسی کسی ستارے یا چاند اس سے بہتر کمپیوٹر انسان تیار کر لے گا؟
پس عقلی طور پر یہ ممکن نہیں۔
مذھب خدا کا خیال تو خیر نہایت ھی ادنی خدا کا خیال ہے جو جنت دوزخ بنا کر بیٹھے ھوئے احمق اور طیش سے بھرے بُڈھے کی صورت کا خیال ہے۔جسکو گناہ گار انسانون کو دوزخ میں پھینکنے اور نیکوکاروں کو کنواری عورتیں دینے کے سوا کوئی خوف یا لالچ معلوم نہیں۔ ایسے خدا نے جب انسان کو اشرف المخلوق قرار دیا ہے تو پھر خلائی مخلوق کی گاڑی اور اسکی کارستانیاں انسانوں کے لئے ھیچ ھونی چاھئیں۔اور انسان کو غالب آنا چاھئیے۔۔لیکن کیا کیا جائے کہ مذھب بیچارہ خود ھی متضاد سوچ کا کنفیوذ خدا رکھتا ھے جس نے جن بھی بنائے آگ سے۔۔۔۔جو سلیمان کا تخت ایک پل میں اسکے پاس لے آئے۔
تیسرا زاویہ یہ ہے کہ کیا یہ روشنیاں یا خلائی جہاز وغیرہ۔۔۔کہیں خدائی طاقت کے مظاہر نہ ھوں؟
آئیے غور پر کرتے ہیں کہ حیاتیاتی نظام میں نام نہاد خدا یا خدائی طاقتوں نے کیا کبھی حیاتیاتی نظام چلانے کو اعلی ترین طبیعاتی فلکی مقناطیسی میدانوں کو استعمال کیاہو؟ ھم دیکھتے ہیں کہ کیمیائی تعامل کثرت سے انسانوں جانوروں اور پودون میں استعمال ھوتے ہیں۔ مگر بہت مقامات پر حیاتیاتی طاقت۔۔۔ طبیعاتی یا فزکس کے اصولوں کی مکمل غلام ہے اور کسی بھی جگہ کسی بھی طور پر کائنات کے فلکیاتی اور طبیعاتی نظاموں پر کسی فنکشن کی وجہ سے کسی کاریگری سے تسلط نہین پا سکی۔
مثلاً انسانی فوطے اس لئے جسم سے باھر آتے ہیں کہ اندر کی زیادہ گرمی سپرمز کو مار نہ دے۔ یعنی ایسا نظام نہ بنا سکا کہ سپرم اندر ہی رھتے

فالتو عضو باھر لٹکانے کی کیا ضرورت تھی؟

One of my favorite examples of evolution and how we can see it in living things today:  The laryngeal nerve of the giraffe, linking larynx to brain, a few inches away — but because of evolutionary developments, instead dropping from the brain all the way down the neck to the heart, and then back up to the larynx.  In giraffes the nerve can be as much as 15 feet long, to make a connection a few inches away.  Richard Dawkins explains:
All mammals have the nerve, and as a result of our fishy ancestry, in all mammals, the nerve goes down the neck, through a heart blood vessel loop, and back up.  In fish, of course, the distance is shorter — fish have no necks
.


ڈاکٹر رچرڈ ڈاکنز سے سائینسدانوں کے ایک بڑے ھال میں ایک نمائش کی اور ایک زرافے کے دماغ سے حلق میں آنے والی اور پھر واپس آنے والی نرو ٹیوب کو دکھایا۔
laryngeal nerve
دماغ سے نکل کر جانداروں کے حلق میں آتی ہے انسانوں میں اور مثلاً مچھلیوں میں یہ نرو دماغ سے گلے میں آ کر واپس جاتی ہے لیکن راچرڈ ڈاکنز اسے کاپی پیسٹ ڈیزائن کی خرابی کہتا ہے کہ ذرافے میں یہ نرو ٹیوب دماغ سے نکل کر لمبی گردن سے ھوتی ھوئی دل کے قریب سے یوٹرن لیکر واپس دماغ میں چلی جاتی ہے۔جبکہ ھرگز اسکی کوئی طبی ضرورت نہیں تھی۔
اس سے پتہ چلتا ھے کہ خدائی طاقتوں یا طاقت نے کیمیائی تعاملات کو حیاتیاتی سلسلے میں رایج کرنے میں مکمل کامیابی نہیں پائی کچھ خامیاں موجود ھیں۔ جو ھر سال لاکھوں معزور انسانوں معزور درختوں ، معزور پرندوں اور معزور جانوروں کی ناقص پیدائیش کا باعث ہے
یونیسیف کے مطابق اس وقت دنیا میں 240 ملین معزور بچے ہیں
اب سوچیں کہ یہ تعداد پاکستان کی آبادی سےبھی زیادہ ہے۔اگر بالغ اور معزور بچے شمار کریں تو تعداد 1300 ملین سےبھی زیادہ ھوگی۔ یعنی کُل انسانی آبادی کا چھٹا حصہ معزور ہے؟ کیا خدائی ڈیزائینگ نقایص سے عاری ہے؟ نہیں ھرگز نہیں
۔۔پس ۔ خدا کی اس ڈیزائینگ کی خامی کے باقصف ھم کہہ سکتے ہیں کہ ھمارے خداوں یا خدا کی ھم سے بہتر کسی خلائی مخلوق کا تصور درست نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا
کینیڈا
www.silsla.com

Rafi Raza

قرآن، کے قدیم نسخے، قران کب لکھا گیا؟

قرآن کو بارے میں غیر مذھبی، اور خالص سائینسی تحقیقات کے مطابق ابتدائی قرانی ٹکڑوں میں پرانے انبیا کے بارے آیات تو موجود ھیں لیکن محمد صآحب کے بارے نہیں، مدینہ یا مکہ کا کوئی تذکرہ نہیں کہ معلوم ھو کہ یہ تحاریر کب کی ہیں،،،۔ بعد میں ان سے متعلق مواد بھی ھے۔
تحقیق کے مطابق نسخہ کا میٹیریل کتنا پرانا ھے کا اندازہ لگانے والوں نے اُسے اسلام سے بھی کچھ پہلے کا بھی مانا ھے۔کچھ نے محمد کی ولادت سے پہلے اور کچھ نے قریب و بعد ولادت کاربن ڈیٹنگ کی تواریخ نکالی ہیں۔
اس بارے سچی تحقیق کسی مذھبی یا خاص مسلمان سے کی جانے کی امید رکھنے والے بیوقوف ھونگے کیونکہ وھاں ایمان کی بنیاد پر تحقیق کی جائیگی جو کہ سائینسی رویہ یا طریقہ نہیں ھے ،،اسکے لئے بےلاگ بے ایمان سائینسی لوگ ھی مدد دے سکتے ھیں۔

۔

ھمیشہ سائینس میں بھی مستشرقیں و ملحدین وغیرہ سے مدد لینا پڑتی ھے۔کیونکہ ان سے ھمیں بغیر ایمان کے سچی تحقیق کی امید ھوتی ھے۔۔
برمنگھم کی لائیبریری میں موجود تین چوتھائی سے کم حصہ والے اس قرانی نسخوں اور موجودہ یا بعد کے قرآنی نسخوں کی طوالت اور آیات و مضامین میں مماثلت موجود ھے۔
ابوبکر کے بارے کافی خیال کیا جاتا ھے کہ اصل مصنف وہ بھی ھو سکتے ھیں۔ کیونکہ وہ ہی محمد کے قریب ترین ساتھی رھے ھیں۔
پھر سب سے اھم بات یہ ھے کہ عثمان نے سارے دوسرے نُسخے کیوں جلائے؟ اگر فرق نہیں تھا؟ یہ بات ایسی ھے کہ اس کو کسی صورت بھی رد کرنے والے مسلمان سے مزید بحث کرنا احمقانہ ھوگا۔۔یہاں اُسکا اور تحقیق کا میدان الگ ھوجاتا ھے۔
معلوم ھوتا ھے عثمان کے دور میں ایسے نسخوں مین بہت زیادہ فرق تھا جسکی وجہ سے اُن نسخون کو جلا دیا گیا۔۔تاھم اس سے پہلے یا بعد میں کچھ اور نسخے جن کے مضامین الگ تھے وہ کچھ لوگوں نے کہیں چھپا دئیے کسی مٹی کے یا آھنی مرتبان میں محفوظ کر دئیے ۔۔جو مختلف قریبی ممالک کی کھدائیوں میں بار بار دریافت ھوئے ھیں۔
یمن سے خاص طور پر کئی نمونے ملے۔۔۔یمن سے کیوں مِلے؟ اس سے پتہ چلتا ھے کہ یمن کے اُن ادوار کے بادشاھوں کا بھی اس میں حصہ ھوگا۔۔۔جنہوں نے پہلے مسلمانوں کو پناہ دی ۔۔یا مِلکر یہ قرآنی منصوبے بنائے۔۔
سائینسی سکالرز کے مطابق ایسے قرآنی نسخوں میں جو کہ کسی جانور کی کھال پر لکھے ملتے ھیں۔ بسا اوقات ایک تحریر کے نیچے سے اور مختلف مضمون و معانی کی تحریر جا بجا ملتی ھے جس سے پتہ چلتا ھے۔ کہ مضامین میں ترامیم تھیں،،اسی لئے عثمان کے دور میں سب کو مِلا جُلا کر جو قرانی ترتیب بنائی گئی اسے نافذ کرنے کی زبردستی کوشش کے نتیجے میں باقی انفرادی قرآنی نمونے جلا دئیے گئے۔۔اور ممانعت کی گئی کہ باقی طرح کے قرآنی نمونے نہ استعمال ھوں،
برمنگھم یونیورسٹی لندن انگلینڈ میں عرب ممالک سے قدیم پارچات کی کھدائیوں کے دوران ملنے والے اس جزوی قرآن، کے بارے تحقیق کی گئی تو مختلف کارب ڈیٹنگ نتائج معلوم ھوئے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلریٹر یونٹ کے ذریعہ کئے گئے یہ ٹیسٹ ، بتاتے ہیں کہ یہ ٹکڑے ، جو بھیڑوں یا بکریوں کی کھال پر لکھے گئے تھے ، قرآن کریم کی قدیم زندہ عبارتوں میں شامل تھے۔ یہ ٹیسٹ بہت سی تاریخوں کی تاریخ فراہم کرتے ہیں ، جس میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ
سنہ 568 سے 654
تک اسکی عمر ھو سکتی ھے

یونیورسٹی کے عیسائیت اور اسلام کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے کہا ، "وہ اسلام کے اصل بانی چند سالوں میں ہمیں اچھی طرح سے واپس لے جاسکتے ہیں۔

پروفیسر تھامس کے مطابق ، فولیوز کی ڈیٹنگ کا بھی بہت اچھی طرح سے مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ قرآن پاک لکھنے والا شخص شاید زندہ رہتا تھا اور حضرت محمد (ص) کی تبلیغ سنتا تھا۔

واقعتا. جس شخص نے یہ لکھا تھا وہ محمد کو اچھی طرح سے جان سکتا تھا۔ شاید وہ اسے دیکھتا ، شاید اس نے اسے تبلیغ کرتے ہوئے سنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اسے ذاتی طور پر جانتا ہو – اور یہ واقعی اس کے ساتھ قابو پانا کافی سوچ ہے۔
،،
محقق کی اس تحقیق سے کاتیبین وحی یا مصنفین قرآن کی جانب وجہ جاتی ھے۔میرا ذاتی خیال اور تحقیق کے بتاتی ھے۔ کہ ابوبکر یعنی ابن قحافہ کا حسہ بہت زیادہ ھوگا۔جبکہ عمر نے بعد میں کچھ مضامین کو شامل کروایا جن میں شراب کی ممانعت وغیرہ شامل ھے۔
برمنگھم کے ان مخطوطات میں دو اوراق ہیں۔تحقیقی نگار نے صرف 33 ممضامین یا جملوں کا بعد کے قرآنی نسخون سے موازنہ کیا تو معلوم ھوا کہ قران کے آدھے سے کچھ زیادہ جملے یا آیات نامکمل ، ٹوٹے پھوٹے، یا مضمون کی کافی تبدیلی والے یا مختلف ھیں۔
برمنگھم کے ان نسخوں پر دو سکالرز سے لیکچرز کی درخواست کی گئی۔۔یہ 2015 کا واقعہ ھے۔
اسے برمنگھم فریگمینٹس شو کا نام دیا گیا۔۔
روسی سکالر ایفین ریزوان۔۔۔۔۔نے
بتایا کہ
“The very early dating of all these fragments-before the reign of Uthman-casts doubt on *both the Islamic tradition” *refer to the next section
“The fact that the folios were kept for centuries in an iron box, underground can partly explain the early radiocarbon dating”
“Parchment was an expensive material (the skin of an entire animal was used to produce the big folio). Monastic and state scriptoria, located on the territory of Greater Syria, Antiochia, al Hira and Alexandria areas, could store this valuable material (including the donations of the pious laity).
یعنی یہ شام سے مِلے کسی جانور کی مکمل کھال پر لکھے گئے ہیں،اور کسی آھمی مرتبا میں بہت لمبا عرصہ تک چھپائے گئے۔

۔
These stocks became part of the loot captured by the Arabs in the first years of the conquest. Captured leaves were used for writing the Quran.”
اب مسئلہ یہ ھےکہ جانور کی کھال جس پر لکھا گیا وہ تو بہت پرانی ھے کیوں کہ مسلمانوں نے جب شام کو تاراج کیا اور لُوٹا تو یہ پارچات یعنی اَن لکھے پارچات انکے ھاتھ لگے۔۔۔اب ان پارچات پر کب لکھا گیا یہ معلوم نہیں۔۔ ظاھر محمد کے زمانے میں لمبی تحاریر لکھنے کے لئے عربوں کے پاس مہارت موجود نہیں تھی۔

Conclusion; is that we cannot know when the writing took place as the carbon dating only gives a time line to the animal skin, not the writing, and the parchments were written on at a much later date.

Emilio Platti; “pointing out differences to the Sana codex-unquestionably the oldest manuscript (705), which therefore means that this Birmingham fragment is subsequent to the oldest manuscript (Sana).”
جبکہ دوسرے محقق ایمیلیو پلاٹی کے مطابق صنا یا صنعا لکھائی کا طریق قدیم ترین اسلوب 705 عیسوی کا ھے۔۔
جبکہ ایک اور محقق ڈاکٹر جے سمتھ کے مطابق کاربن ڈیٹنگ سے یہ نسخے اسلام سے بھی پہلے کے معلوم ھوئے ھیں۔
اور یہ درآمدہ پرانی کہانیوں کو بدل کر لکھا گیا ھے۔اور بہت سی آیات بائبل اور انجیل وغیرہ سے کچھ تبدیلی کیساتھ یہان لکھ دی گئی ھیں۔ لیکن کسی میں بھی مدینہ، مکہ۔۔اور محمد کا ذکر حیرت انگیز طور پر نہیں موجود ھے۔

Dr. Jay Smith; the verses found on the Birmingham text pre-date Islam, examples and are plagiarised stories;
Sura 18:17-31; = the 7 sleepers of Ephesus (Metaphrastes & Surag 521 A.D.)
Sura 19: 91-98 = Proto Evangelium of James (145 A.D.)
Sura 20: 1-40 = the story of Moses (1400 B.C.)
None of the verses cover Mohammed, Medina, or Mecca, and there is nothing to do with the Caliphs7
۔۔۔۔
برٹش لائبریری کے ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ واضح لکھائی میں حجازی لکھائی میں لکھے گئے یہ نسخے یقینی طور پر پہلے تین خلفا کے زمانے کے ہیں یعنی 632 اور 656 کے عرصے کے۔ ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان اس وقت اتنے امیر نہیں تھے کہ وہ دہائیوں تک کھالوں کو محفوظ کر کے رکھتے اور قرآن کی ایک مکمل نسخے کے لیے کھالوں کی بڑی تعداد درکار تھی، یہ نسخہ 3000 سے زیادہ مشرق وسطیٰ کے دستاویزات کے مسٹر منگانا مجموعے کا حصہ ہے جو 1920 کی دہائی میں جدید کےعراق کے شہر موصل سے پادری الفونسے منگانا لائے تھے،

برمنگھم یونیورسٹی میں ملنے والے قرآن کریم کے صفحات 1370 سال پرانے ہیں اور یہ ایک زمانے میں مصر میں فسطاط میں واقع دُنیا کی قدیم ترین مسجد عمر بن عاص میں رکھے ہوئے تھے۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ماہرین کو تقریباً یہ یقین ہو گیا ہے کہ یہ صفحات پیرس میں فرانس کی نیشنل لائبریری ’ببلیوتھک نیشنل دی فرانس‘ میں رکھے قرآن شریف کے صفحات سے ملتے ہیں۔

۔

لائبریری اس بارے میں قرآن کے تاریخ دان اور کالج دی فرانس میں معلم فرانسوا دریچو کا حوالہ دیتی ہے جنھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برمنگھم میں ملنے والے صفحات اور پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات قرآن شریف کے ملتے جلتے نسخے کے ہیں۔

برمنگھم یونیورسٹی کی دستاویزت میں قرآن کے صفحات تلاش کرنے والے محقق البا فدیلی کا بھی یہی کہنا ہے کہ پیرس اور برمنگھم یونیورسٹی میں موجود صفحات ایک ہی نسخے کے ہیں۔

پیرس کی لائبریری میں رکھے ہوئے صفحات کے بارے میں علم ہے کہ یہ فسطاط میں مسجد عمر بن عاص کے قرآن شریف کے نسخے کے ہیں۔

پیرس کی لائبریری کے صفحات انیسویں صدی کے اوائل میں نپولین کی فوج کے مصر پر قبضے کے دوران وہاں تعینات وائس کونسل ایسلین دی چرول یورپ لائے تھے۔

پروفیسردریچو کا کہنا ہے کہ ایسلین دی چرول کی بیوہ نے یہ نسخہ اور کچھ اور قدیم دستاویزات برٹش لائبریری کو سنہ 1820 میں فروخت کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پیرس کی نیشنل لائبریری کو مل گئے اور جب سے اب تک یہ وہیں محفوظ ہیں۔

اسی دوران کچھ حصے نکال لیے گئے جو بعد میں فروخت کر دیے گئے۔ قیاس یہی ہے کہ متعدد بار فروخت ہونے کے بعد یہ صفحات ایک عراقی پادری ’ایلفاس منگانا‘ کے ہاتھ آئے۔ وہ مشرق وسطی میں نوادرات اکٹھا کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ جایا کرتے تھے جن کا خرچہ برطانیہ کا کیڈبری خاندان اٹھاتا تھا۔

پروفیسر دریچو کا کہنا ہے کہ اس بات کے کوئی سرکاری شواہد موجود نہیں رہے لیکن اس طرح مسٹر منگانا کو فسطاط کے خزینے کی چند دستاویزات ملی ہوں گی۔ منگانا کو انہی گراں قدر علمی خدمات کے عوض ’لیجن آف آنر‘ کا اعزاز دیا گیا۔
۔۔
اب ان دلائل اور تواریخ کے بعد ھم اصل منشا کی جانب چلتے ہیں، جس میں قرآن کے بارے میں دعوی جات کی فہرست بنائیں اور ھر ایک کا شافی جواب بھی تلاش کریں، لیکن ھمارا رویہ ایمانی نہیں ھوگا درسی و تدریسی و تحقیقی ھوگا۔کیونکہ پہلے بھی لکھ چکا ھُوں کہ ایمان کے ذریعے کسی بھی معاملے میں تحقیق جھوٹ کی ملاوٹ لازمی رکھتی ھے۔
۔۔۔
آئیے اب سوالوں کی فہرست بناتے ہیں۔
قران کب بنایا گیا،
قران کب لکھا گیا
قرآن نبی پر اترنے کے دعوے کو ھم چھوڑ دیتے ھیں اور اسے سچ مان لیتے ھیں، تاکہ جھگڑا کھڑا نہ ھو کیونکہ ھمارے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں ھے کہ ھم معلوم کرسکیں کہ واقعی وحی کوئی چیز ھوتی ھے اور محمد پر وحی نازل ھوتی رھی، یا انہوں نے دوسروں کی مدد سے قرآنی آیات تشکیل دیں۔
ھم تحقیق کرتے ھیں کہ
قران کب بنایا گیا۔۔
قرآن کب لکھا گیا
قران کی ترتیب کیا ایسی ھی اتری یا تبدیل ھوئی
قران کی ترتیب کیوں بدلی؟ کس نے بدلی؟ کب بدلی؟
کیا قرانی نسخے جو بھی دریافت ھوئے ھیں ان میں بہت جگہ جو فرق موجود ھے وہ کیا بتاتا ھے؟
ابتدائی قران میں کیا کچھ نہ تھا اور کیا کچھ بعد میں شامل کئے جانے کا امکان ھے؟
پیٹریشیا کرون میری طرح یہ سوال اٹھاتی ھیں کہ۔۔
Patricia Crone, a widely acknowledged expert on early and medieval Islam:wrote !

We can be reasonably sure that the Quran is a collection of utterances that [Muhammad] made in the belief that they had been revealed to him by God … [He] is not responsible for the arrangement in which we have them. They were collected after his death—how long after is controversial!
یعنی ھم شواھد کی مدد سے یہ نتیجہ تو نکال سکتے ھیں کہ قرآنی لکھت محمد کے مطابق اُن پر اترنے والی آیات ہیں، لیکن محمد، اُس ترتیب کے ذمے دار نہیں ہیں جس میں یہ اب موجود ھے !۔۔
یعنی قران کی آیات اور پاروں اور سورتوں کی ترتیب محمد کی بنائی ترتیب کسی صورت نہیں ھوسکتی،،۔۔یہ کب بنائی گئی ؟ کیوں بنائی گئی؟یہ ھے اگلے سوالات !۔۔۔
اوپر کے سوالوں میں سے دوسرے سوال کا جواب کہ قرانی کی یہ ترتیب ممکنہ طور پر کب بنائی گئی کا جواب محققین نے ڈھونڈ لیا ھے اور برمنگھم کے نسخے اور فرانس میں موجود نسخے کے تقابل سےمعلوم ھوتا ھے کہ محمد کی موت کے بعد قران کو ترتیب دیا گیا کیونکہ اس سے پہلے یہ سہولت موجود نہ تھی کہ ھزاروں جانوروں کی کھالوں پر اسے لکھ کر محفوظ کیا جا سکتا ، یہ ھنر پہلے عربوں کے پاس نہیں تھا ، جب عربوں نے پہلے رسول کے اخری وقت اور بعد موت کے دوسرے ممالک پر قابضانہ حملے کئے تو مال و متاع کے ساتھ وھاں سے مختلف ھنر بھی انکے ھاتھ لگے، کھالیں محفوظ کرنے کا ھنر اور محفوظ شُدہ کھالیں مِلیں جن پر لکھا جا سکتا تھا۔کچھ لوگوں نے اپنے طور یہ کام کیا۔لیکن ھر ایک متن مختلف تھا۔ جیسے برمنگھم کے نسخے میں مدینہ مکہ محمد وغیرہ کے بارے کوئی معلومات نہیں ہیں۔
تحقیق کاروں کے نزدیک سب سے پرانا مکمل کے قریب نسخہ عثمانی قران کے طور پر مشہور ھے۔عثمان کا دور محمد کے مرنے کے 20 سال بعد کا دور ھے۔۔
اسی قرآنی نسخے کو تاشقند نسخہ یا ثمرقند نسخہ بھی کہتے ہیں، یہ مسخہ اصلی نسخے کے ایک بٹا تین حصے کے برابر محفوظ ھے۔
دوسرا قرآنی نسخہ صنا نامی نسخہ ہے۔جسکی کاربن ڈیٹنگ 578 سے 669 تک ہے۔۔
۔Results from radiocarbon dating from a Sana Quran parchment
indicate that the parchment has a 68% probability of belonging to the period between AD 614 to AD 656. It has a 95% probability of belonging to the period between AD 578 and AD 669 (Behnam Sadeghi; Uwe Bergmann, “The Codex of a Companion of the Prophet and the Qur’ān of the Prophet,” Arabica, Volume 57, Number 4, 2010, p.348.)

The Sana palimpsest is not only significant because it is one of the oldest Qurans in existence. It’s also significant because the top layer (the text written over what was erased) is the text of the standard Uthmanic version of the Quran. Beneath this standard Uthmanic version (the part that was erased) is a non-Uthmanic version of the Quran.
یہاں اب نہایت ضروری بات یہ ھے اوپری سطح کو مِٹا کر دیکھا گیا کہ نیچے کی سطح پر غیر عثمانی ورژن کا قرآن تھا جسے مِٹا کر اوپر کی سطح پر عثمانی طرز کا قرآن لکھا گیا ھے۔اب یہ سائینسی دریافت ثبوت کے ساتھ موجود ھے۔کوئی مخالفانہ بیان نہیں ھے۔
۔۔۔
اسلامی نکتہ نظر والے محقق اس بارے مندرجہ ذیل رائے رکھتے ھیں۔
Muhammad Mustafa Al-Azami, Professor Emeritus at King Saud University, argues that the following list of manuscripts “have been conclusively dated to the first century A.H.”

  1. A copy attributed to Caliph Uthman bin Affan. Amanat Khizana, Topkapi Saray, Istanbul, no.1.
  2. Another copy ascribed to Uthman bin Affan. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.208. This copy has some 300 folios and it is missing a portion from both ends.
  3. Another ascribed to ‘Uthman bin ‘Aflan. Amanat Khizana, TopkapiS aray, no. 10. It is only 83 folios and contains notes written inthe Turkish language naming the scribe.
  4. Attributed to Caliph ‘Uthman at the Museum of Islamic Art, Istanbul. It lacks folios from the beginning, middle and end. Dr. al-Munaggid dates it to the second half of the first century.
  5. Attributed to Caliph ‘Uthman in Tashkent, 353 folios.
  6. A large copy with 1000 pages, written between 25-31 A.H. at Rawaq al-Maghariba, al-Azhar, Cairo.
  7. Attributed to Caliph ‘Uthman, The Egyptian Library, Cairo.
  8. Ascribed to Caliph ‘Ali bin AbI Talib on palimpsest. Muzesi Kutuphanesi, Topkapi Saray, no. 36E.H.29. It has 147 folios.
  9. Ascribed to Caliph ‘Ali. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.33. It has only 48 folios.
  10. Ascribed to Caliph ‘Ali. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no. 25E.H.2. Contains 414 Folios.
  11. Ascribed to Caliph ‘Ali. Raza Library, Rampur, India, no. 1. Contains 343 Folios.
  12. Ascribed to Caliph ‘Ali, San’a’, Yemen.

Quran kept at the al-hussein mosque in Cairo, Egypt. Some believe it goes back to Uthman.
Quran kept at the al-hussein mosque in Cairo, Egypt. Some believe it goes back to Uthman.

  1. Ascribed to Caliph ‘Ali, al-Mashhad al-Husaini, Cairo.
  2. Ascribed to Caliph ‘Ali, 127 folios. Najaf, Iraq.
  3. Ascribed to Caliph ‘Ali. Also in Najaf, Iraq.
  4. Attributed to Husain b. ‘Ali (d. 50 A.H.), 41 folios, Mashhad,Iran.
  5. Attributed to Hasan b. ‘Ali, 124 folios, Mashhad, Iran, no. 12.
  6. Attributed to Hasan b. ‘Ali, 124 folios. Najaf, Iraq.
  7. A copy, 332 folios, most likely from the early first half of the first century. The Egyptian Library, Cairo, no. 139 Masahif.
  8. Ascribed to Khudaij b. Mu’awiya (d. 63 A.H.) written in 49 A.H. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no. 44. It has 226 folios.

[#21 is missing in al-Azami’s list.]

  1. A Mushaf in Kufic script penned in 74 A.H. Amanat Khizana, Topkapi Saray, no.2. It has 406 folios.
  2. A copy scribed by al-Hasan al-Basri in 77 A.H. The Egyptian Library, Cairo, no. 50 Masahif.
  3. A copy in the Museum of Islamic Art, Istanbul, no. 358. According to Dr. al-Munaggid it belongs to the late first century.
  4. A copy with 112 folios. The British Museum, London.
  5. A copy with 27 folios. The Egyptian Library, Cairo, no. 247.
  6. Some 5000 folios from different manuscripts at the Bibliotheque Nationale de France, many from the first century. One of them, Arabe 328(a), has lately been published as a facsimile edition.

Al-Azami overstates that these have been “conclusively dated to the first century A.H.” For example, the manuscripts from Topkapi can be dated to the second century A.H. (Islamic Awareness). Several of the manuscripts attributed/ascribed to Uthman probably did not belong to him.

Nevertheless, considering that Muhammad died around 632 AD, these are still old Quran manuscripts.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر ان اسلامی محقق کا دعوی ھے کہ ان مختلف ٹکڑوں میں موجود قرآنی صفحات محمد کی موت کے فوری بعد یا اسی صدی کے قرآنی ٹکڑے ہیں۔
۔۔
اس وقت جو قدیم نسخے کہیں بھی موجود ھیں انکے نام اور تعارف نیچے درج کرتا ھُوں
۔۔۔ پہلا قرآنی نسخہ اسوقت برمنگھم میں موجود ھے۔جو جیسے کہ پہلے بھی بتایا ھے۔ کاربن ڈیٹنگ میں 568 سے 645۔۔۔اور بعض کے مطابق 669 ویں صدی کے قریب ھے۔ اسکی لکھائی حجازی، یا صنا طرز کی ھے۔۔۔

  1. Birmingham Quran Manuscript
    Year Written: c.568 AD – 645 AD
    Language: Arabic
    Script Type: Hijazi
    Current Location: University of Birmingham, Birmingham, England

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا نسخہ جرمنی مین موجود ھے۔ یہ بھی حجازی یا صنا لکھائی میں لکھا گیا ھے۔۔

  1. Tübingen Fragment
    Year Written: c. 649 AD – 675 AD
    Language: Arabic
    Script Type: Hijazi Current Location: University of Tübingen, Tübingen, Germany
    The manuscript has been in the university’s possession since the 19th century when first Prussian Consul to Damascus, Johann Gottfried Wetzstein, acquired several ancient Arabic manuscripts. The research into the fragment’s age was conducted as part of a project funded by the German Research Society (DGF) and the corresponding French institution: Agence National de la recherché (ANR).
    یاد رھے کہ کاربن ڈیٹنگ کی سچائی 95 فیصد تک ھوتی ھے۔

تیسرا قرآنی نسخہ یمن سے مِلا اور صنا کہلاتا ھے۔

  1. Sana’a Manuscript
    Year Written: c.671 AD
    Language: Arabic
    Script Type: Hijazi
    Current Location: Great Mosque of Sana’a, Yemen
    ۔۔۔۔۔
    چوتھا قرانی نسخہ
    پیریسینو پیٹروپولیٹینس کہلاتا ھے۔
    ساتوین یا آٹھویں صفی عیسوی میں لکھاگیا۔۔ اور لکھائی حجازی ہے۔۔ساٹھ اوراوراق پر مشتمل ہے۔اور لندن ویٹیکن کے خلیلی نواردات میں موجود ھے۔۔
  2. Codex Parisino-Petropolitanus
    Year Written: c. late 7th to early 8th century
    Language: Arabic
    Script Type: Hijazi
    Current Location: 70 folios at Bibliothèque nationale de France, Paris; 26 folios at the National Library of Russia in Saint-Petersburg, Russia; 1 folio in the Vatican Library; and 1 folio in Khalili Collection in London

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچواں قرآنی نسخہ کُوفی لکھائی میں ہے اور اس کے بارے غلط مشہور رہا کہ سب سے پرانا قرآنی نسخہ ہے۔۔اس کی کاربن ڈیٹنگ سے یہ 8 ویں صدی کے بعد کا نسخہ ھے۔اور ترکی کے عجائب گھر میں موجود ھے۔

  1. Topkapi Manuscript
    Year Written: c. early to mid 8th century
    Language: Arabic
    Script Type: Kufic
    Current Location: Topkapi Palace Museum, Istanbul, Turkey
    ۔۔۔۔
    چھٹا قرآنی نسخہ ازبکستان میں موجود ھے اور ترکی کے نسخے کی طرح ایمان لانے والے اسے سب سے قدیم سمجھتے تھے مگر یہ بھی 9 ویں صدی کے قریب کا لکھا گیا نسخہ ھے۔
  2. Samarkand Kufic Quran (Uthman Quran)
    Year Written: c.765 AD – 855 AD
    Language: Arabic
    Script Type: Kufic
    Current Location: Hast Imam Library, Tashkent, Uzbekistan
    ۔۔۔
  3. Blue Quran نیلا قران نمبر سات،،،،
    Year Written: c. late 9th century to early 10th century نویں اور دسویں صدی میں لکھا گیا۔
    Language: Arabic
    Script Type: Kufic اسکا رسم الخط کُوفی ھے۔
    Current Location: Most of it is located in the National Institute of Art and Archaeology Bardo National Museum in Tunis, Tunisia; 67 folios in the Musée de la Civilisation et des Arts Islamiques in Raqqada, Tunisia; 1 folio at the Los Angeles County Museum of Art in California, USA; and the other folios are scattered worldwide at various museums
    یہ نسخہ تیونس میں محفوظ ھے۔
    ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
    سُنی فرقے والے یہ مانتے ہیں کہ قران ابوبکر کے زمانے میں لکھا گیا جو کہ 632 سے 634 کا زمانہ ھے۔۔
    تاھم محققین متفق ھیں کہ عثمان کے دور میں جو قرآن عثمان کی نگرانی میں ترتیب دیا گیا وُہ ھی بچا رھا اور باقی مختلف و متعدد نسخے جلانے کا حکم دے دیا گیا تھا۔

جبکہ ایک معروف ترین محقق جون وانزبرگ کے مطابق قرآن کی ترتیب محمد کی موت کے 200 بعد کہیں جا کر قائم کی گئی۔
صناع ، مخطوطے کے بےشمار ٹکڑوں پر لکھے گئے ٹیکسٹ میں 5000 مختلف تبدیلیاں پائی گئیں ھیں۔
جس سے معلوم ھوتا ھے کہ عثمان کے زمانے تک کوئی جاری سکرپٹ موجود نہیں تھا مختلف اسلوب ملے جلے تھے۔۔
گرڈ پیوئن نامی ایک ماھر نوادرات و قدیمی مخطوطات کو یمن کی حکومت نے ایک بہت لمبا پروجیکٹ دیا تھا جس میں یمنی قرآن کے پندرہ ھزار صفحات کو ایک ایک لفظ پڑھ کر پرکھ کر بہتر کرنا شامل تھا۔اسکے کام اور تحقیق سے ابن وراق نامی سکالر نے قرآن پر کافی مواد لکھ رکھا ھے۔ جسمیں میں نے اسلام کیوں ترک کیا بھی شامل ھے۔
ماھر ِ مخطوطات گرڈ پیوئن کے بقول اسنے جو نتائج اب تک نکالے ھیں وہ یہ ھیں
،،،
میرا نظریہ یہ ھےکہ قرآن اصل میں بہت سارے اقوال و بیانات و کہانیوں کا ایسا مجموعہ ھے جسے محمد کے دور میں بھی ٹھیک اور مکمل سمجھا نہیں گیا تھا۔
لکھے ھوئے کلمات اسلام سے بھی کئی سو سالوں پرانے معلوم ھوئے ھیں۔
خود اسلام چلن کے اندر بہت زیادہ متضاد خیالی و متضاد اعمالی پائی جاتی ھے۔
قرآن خود کو کہتا ھے کہ و شفاف، واضح، اور مبین و کُھلا کُھلا ھے، لیکن ھر پانچواں چھٹا کلمہ بے تُکا معلوم ھوتا ھے۔
اندازے کے مطابق قران کا پانچواں حصہ بے معنی و بے تعلقی کا شکار ھے۔اور اسی وجہ سے ھمیشہ سے قرآنی آیات کی تشریح میں شدید اختلافات ھیں جو مبین اور کُھلا کُھلا ھونے کے خلاف دلیل ھے۔اگر اسکو عربی مین بھی ایسی دقت سے سمجھنے کا سوال اٹھتا ھے تو پھر اسے ترجمہ نہیں کیا جا سکتا۔
جو اسکے خود اٹھائے گئے نکتے کہ قران شفاف ھے۔ واضح ھے خواہ مچھر جتنی چھوٹی بات بھی ھو کھول کھول کر بیان کرتا ھے۔ تو خود عربی علما بھی تذبذب کا شکار ھوتے ھیں، جس سے قرآن کی سچائی پر کافی اعتراضات اٹھتے ھیں، جبکہ ایمان لے انے والوں کو آیات کی جو بھی تشریح سمجھائی جاوے وہ اس پر مطمئن رھیں گے،

۔جیسے قرانی حروف مقطعات کا مسئلہ ھے آجتک کوئی بھی ان کی کوئی واضح توجیہہ اور مطالب نہیں بتا سکتا۔
اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ھے کہ ان کوڈ ورڈز کو اُس پرانے زمانے میں شاید سمجھا جاتا ھو لیکن اسلامی تاریخ میں ان حروف کو اُس وقت بھی نہ سمجھا گیا کے موضوع پر احادیث موجود ھیں،،
اغلب خیال یہ ھے کہ چونکہ محمد نے اپنی تحریک کو وسیع کرنے کے لئے دوسروں کو ساتھ مِلانا تھا تو اسی غرض سے انہوں نے یہودیوں، انصاریوں، ، مُشرکوں، عیسائیوں وغیرہ کو خوش کرنے کے لئے ایسے مشترک الفاظ قرآن میں شامل کروائے جن سے اُن گروھوں کی پزیرائی اور نمائیندگی بھی ھو جائے۔
بعض آیات کے منسوخ ھونے کا ذکر بھی تاریخ میں ملتا ھے جس سے پتہ چلتا ھے۔اُن آیات کے بنانے کا مقصد پورا نہ ھونے کی وجہ سے اُنہیں نکال دیا گیا۔
قران کے حروفِ مقطعات، کافروں ، یہودیوں اور مختلف گروھوں کو ساتھ ملانے کے لئے بنائے گئے۔۔کہ دیکھو آپکی ریپریزینٹیشن بھی ھے۔ جیسے الف لام میم۔۔۔ میں پہلے خدا کی ان بیٹیوں کے ناموں کو بعینہُ استعمال کرنے کی بجائے
اعزی ،،الف
لات،،،لام
منات۔۔۔میم۔۔۔۔
بنائے گئے۔۔۔ آیات کی منسوخی ، والے واقعات اسی جانب روشنی ڈالتے ھیں۔جب مخصوص گروہ ان آیات پر راضی نہ ھوئے۔ اسلام کے ابتدائی دنوں میں یہ کوششین رھیں کہ جیسے ممکن ھو سب کو شامل کیا جائے۔۔۔کیونکہ قرآن بنانے والے مصنفین وغیرہ کی ٹیم دوسرے قریبی اور دور کے ممالک کے حالات ، ٹریڈ ٹُورز کے سبب جانتے تھے۔۔اور اس خطے میں بھی قبائل کو جور کر کوئی اتحادی ریاست بنانا چاھتے تھے۔اس لئے پہلے بظاھر مشرکین جو کبھی مشرکین نہیں تھے کو ساتھ ملنے کے لئے کوششین کی گئین۔ اور انکی دلچسپی کے نام شامل کئے گئے۔۔پھر۔۔۔ یہودیوں کو شامل کرنے کے لئے موسی کی تعظیم کی گئی۔۔پھر عیسی کی تعظیم کی گئی کہ عیسائی شامل ھوں۔اگر اسلام پہلے انبیا کو جھوٹا کہتا تو عیسائی یہودی لوگوں میں سے وہ جو ھمہ وقت روحانی تبدیلی کی خواھش رکھتے ھین کم تعداد مین اسلام میں شامل ھوتے۔۔یہ بات غور کر کے سمجھی جا سکتی ھے۔
۔۔۔
سب سے بڑی دلیل جس کا کوئی جواب کسی اھل ایمان کی طرف سے شافی طور پر نہیں دیا جا سکتا وہ یہ ھے۔۔کہ قران اپنے بارے کہتا ھے کہ ۔۔ ھم چھوٹی سے چھوٹی بات کھول کھول کر بیان کرتے ھیں۔تاکہ مخاطب یہ نشانیاں سمجھ سکیں۔۔ لیکن آپ انکے معانی نہ سمجھتے ھیں نہ مسجھا سکتے ھیں۔ اور پڑھے جاتے ھیں جیسے کوئی منتر تنتر ھوں
2000 سال کے بعد بھی یہ حروف مقطعات کا نہ سمجھا جانا اور پھر ایک دو نام نہاد لبرل جدید و قدیم بزرگان کی جادوگری سے کوئی نہ کوئی معنی ان سے برآمد کرنے کی کسی بھی کوشش پر اھل ِ ایمان کا خوش ھونا تو بالکل منطقی ھے۔ کہ اھلِ ایمان ھر اُس بات کو سراھنے میں خوشی محسوس کرتے ھیں جو اس زمانے میں انکے مذھب کی اچھائی ثابت ھو۔۔۔ خواہ وہ۔۔۔چین سے علم پانے کی جھوٹی حدیث ھو۔۔۔ یا صفائی نصف ایمان کا عملی مظآھرہ فی المعاشرت الاسلامیہ ھو۔۔۔۔۔۔۔۔بالکل ایسے جیسے علی مشکل کُشا کو اپنے قتل سے بچاؤ کا علم تھا نہ ملکہ۔۔۔لیکن وہ دوسروں کے لئے مشکل کُشا ہیں۔
جب قرآن کہتا ھے وہ دنیا میں بھی فلاح پائیں گے اور آخرت میں بھی تو۔۔۔ تین خلیفہ تو قتل ھوئے اور بہت ذلیل طریقے سے مارے گئے۔۔ عائشہ کی اولاد تک نہ ھوئی۔۔بیوگی میں زندگی گزری۔۔۔پتہ نہیں کونسی فلاح تھی۔۔۔ جنگ جمل میں علی و عائشہ آمنے سامنے تھے۔۔۔
al-Baqarah ʾAlif Lām Mīm الم
Āl Imrān ʾAlif Lām Mīm الم
al-Aʿrāf ʾAlif Lām Mīm Ṣād المص
Yūnus ʾAlif Lām Rā الر
Hūd ʾAlif Lām Rā الر
Yūsuf ʾAlif Lām Rā الر
Ar-Raʿd ʾAlif Lām Mīm Rā المر
Ibrāhīm ʾAlif Lām Rā الر
al-Ḥijr ʾAlif Lām Rā الر
Maryam Kāf Hā Yā ʿAin Ṣād كهيعص
Ṭā Hā Ṭā Hā طه
ash-Shuʿārāʾ Ṭā Sīn Mīm طسم
an-Naml Ṭā Sīn طس
al-Qaṣaṣ Ṭā Sīn Mīm طسم
al-ʿAnkabūt ʾAlif Lām Mīm الم
ar-Rūm ʾAlif Lām Mīm الم
Luqmān ʾAlif Lām Mīm الم
as-Sajdah ʾAlif Lām Mīm الم
Yā Sīn Yā Sīn يس
Ṣād Ṣād ص
Ghāfir Ḥā Mīm حم
Fuṣṣilat Ḥā Mīm حم
ash-Shūrā Ḥā Mīm; ʿAin Sīn Qāf حم عسق
Az-Zukhruf Ḥā Mīm حم
Al Dukhān Ḥā Mīm حم
al-Jāthiya Ḥā Mīm حم
al-Aḥqāf Ḥā Mīm حم
Qāf Qāf ق
Al-Qalam Nūn ن
۔۔
اب دیکھیں جن مسلمان علما نے کچھ ڈھونڈ لانے کی ٹھانی تو کیا ڈھونڈا
«الم» جیسے حروف مقطعات ہیں جو سورتوں کے اول میں آئے ہیں۔ ان کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض تو کہتے ہیں ان کے معنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں اور کسی کو معلوم نہیں۔ اس لیے وہ ان حروف کی کوئی تفسیر نہیں کرتے۔ قرطبی رحمہ اللہ نے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہی نقل کیا ہے۔ عامر، شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خیثم رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ابوحاتم بن حبان رحمہ اللہ کو بھی اسی سے اتفاق ہے۔
بعض لوگ ان حروف کی تفسیر بھی کرتے ہیں لیکن ان کی تفسیر میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ علامہ ابوالقاسم محمود بن عمر زمحشری رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اکثر لوگوں کا اسی پر اتفاق ہے۔ سیبویہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں «الم السجدة» اور «هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنْسَان» پڑھتے تھے ۔ [صحیح بخاری:891] ‏‏‏‏
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں «الم» اور «حم» اور «المص» اور «ص» یہ سب سورتوں کی ابتداء ہے جن سے یہ سورتیں شروع ہوتی ہیں۔ انہی سے یہ بھی منقول ہے کہ «الم» قرآن کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ قتادہ اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم کا قول بھی یہی ہے اور شاید اس قول کا مطلب بھی وہی ہے جو عبدالرحمٰن بن زید اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سورتوں کے نام ہیں اس لیے کہ ہر سورت کو قرآن کہہ سکتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے قرآن کا نام «المص» ہو کیونکہ جب کوئی شخص کہے کہ میں نے سورۃ «المص» پڑھی تو ظاہر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے سورۃ الاعراف پڑھی نہ کہ پورا قرآن۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ شعبی، سالم بن عبداللہ، اسماعیل بن عبدالرحمٰن، سدی کبیر رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ «الم» اللہ تعالیٰ کا بڑا نام ہے۔ اور روایت میں ہے کہ «حم»، «طس» اور «الم» یہ سب اللہ تعالیٰ کے بڑے نام ہیں۔ سیدنا علی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں سے یہ مروی ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے اور اس کا نام بھی ہے۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قسم ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کے معنی «أَنَا اللَّهُ أَعْلَمُ» ہیں یعنی ”میں ہی ہوں اللہ زیادہ جاننے والا“۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہ مروی ہے۔
سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے الگ الگ حروف ہیں۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تین حرف «الف» اور «لام» اور «میم» انتیس حرفوں میں سے ہیں جو تمام زبانوں میں آتے ہیں۔ ان میں سے ہر ہر حرف اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی بلا کا ہے اور اس میں قوموں کی مدت اور ان کے وقت کا بیان ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے تعجب کرنے پر کہا گیا تھا کہ وہ لوگ کیسے کفر کریں گے ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ اس کی روزیوں پر وہ پلتے ہیں۔ «الف» سے اللہ کا نام، «الله» شروع ہوتا ہے اور «لام» سے اس کا نام «لطیف» شروع ہوتا ہے اور «میم» سے اس کا نام «مجید» شروع ہوتا ہے اور «الف» سے مراد «آلَاء» یعنی نعمتیں ہیں اور «لام» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «لُطْف» ہے اور «میم» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «مَجْد» یعنی بزرگی ہے۔ «الف» سے مراد ایک سال ہے «لام» سے تیس سال اور «میم» سے چالیس سال۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:28/1] ‏‏‏‏
امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان سب مختلف اقوال میں تطبیق دی ہے یعنی ثابت کیا ہے کہ ان میں ایسا اختلاف نہیں جو ایک دوسرے کے خلاف ہو۔ ہو سکتا ہے یہ سورتوں کے نام بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے نام بھی، سورتوں کے شروع کے الفاظ بھی ہوں اور ان میں سے ہر ہر حرف سے اللہ تعالیٰ کے ایک ایک نام کی طرف اشارہ بھی، اور اس کی صفتوں کی طرف اور مدت وغیرہ کی طرف بھی ہو۔ ایک ایک لفظ کئی کئی معنی میں آتا ہے۔
بات نکلے گے تو پھر دور تلک جائے گی۔۔۔۔ لبرل یا دھریہ یا پہلے جو مسلمان ھوتے تھے۔۔۔ایسے لوگ جناب غامدی صاحب کے بیانات سےخوش ھوتے ھیں۔
کہ دیکھو جی اسلام کا کتنا چھا چہرہ سامنے لاتے ھیں۔
لیکن سوال تو یہ ھے کہ پچھلے 30 سال سے وہ یہی کرتے ھوئے کتنے شدت پسند مسلمانوں، اور طالبان۔۔اور ختم نبوت کے فسادیوں،،،وغیرہ کو اپنے جیسا بےضرر مسلمان بنا سکے ھیں؟؟
سوال تو کرنا ھی ھوگا کہ انکی اس مسلسل کوشش اور انکے مسلسل کتابی لیکچرز ور ویڈیوز سے انکی فاونڈیشن تو چل گئی لیکن زمینی حقائق کیا ھیں؟ کونسی بستی ھے جس میں مسلمان پہےل سے بہتر ھوئے اور رحمت کا نمونہ بن گئے؟
جب غامدی جی سے پوچھا جائے کہ حور کا لالچ کیوں؟ تو ھنس دیتے ھیں۔۔ بات گول کر دیتے ھیں۔۔ ڈھکے انڈوں والی آنکھوں والی عورتوں کو حور کہا جاتا ھے جی۔۔وہ اصلی نہیں ھونگی۔بس خیال ہی ھے۔۔یا آپکی بیویاں ھی ھونگی۔۔حالنکہ صاف لکھا ھے۔۔۔ لم یطمس ھُن۔۔۔وہ کنواری عورتیں ھونگی جنکی آنکھیں بڑی بڑی غلافی ھونگی۔۔۔عرب میں ھمیشہ سے بڑی آنکھوں والی عورتوں کو پسند کیا جاتا ھے۔۔میک اپ بھی ایسا کیا جاتا ھے کہ آنکھیں بڑی بڑی لگیں،،،تو ایک ربڑ کو آپ کتنا کھینچ سکتے ھیں؟
جب پڑھے لوگ کہین کہ دیکھو جی علی نے کہا تھا کہ ایک ذرہ پھٹ جائے تو کائنات پھٹ جائے ۔۔یہ اٹامک فشن کا علم علی کو تھا۔۔۔۔ تو کیا واقعی علی کو یہ علم تھا؟ کیا واقعی علی کو سائینسی مساوات سے معلوم تھا یا ابو طالب نے میتھ سکھایا تھا یا اللہ نے کوئی فشکس کا فرشتہ انکے لئے ایسے روز علم لاتا تھا جیسے طاھر القادری 40 سال سے کسی بزرگ کی کلاس میں جاتے ھیں۔ اور پھر کافرون کی گود میں کینیڈا میں امن پاتے ھیں۔امان پاتے ھیں۔۔۔اور غامدی جی ملائیشیا میں جان بچاتے ھیں۔
اور اس جملے سے انسانیت کو کیا فائدہ ؟ کہ
من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ
۔۔۔
2000 سال سے یہی بتایا جاتا ھے کہ ان حروف کے معانی اللہ کو ھی معلوم ھیں۔۔زیادہ چالاک لوگ کہتے ھیں کہ اللہ انکے معانی کسی آنے والے زمانے میں کھولے گا۔۔
جاری فتوی میں سے ایک کے مطابق
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1129-1050/SN=1/1440
”الٓم“ ”عسق“ ”حم“ ”یس“ وغیرہ حروفِ مقطعات کہلاتے ہیں، ان کے متعلق جمہور صحابہ و تابعین اور علمائے امت کے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ حروف رموز اور اسرار ہیں، جس کا علم سوائے خدا تعالی کے کسی کو نہیں ، اور ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم بطور ایک راز دیا گیا ہو جس کی تبلیغ امت کے لئے روک دی گئی، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان حروف کی تفسیر و تشریح میں کچھ منقول نہیں (معارف القرآن) اس لئے آپ ان الفاظ کے معانی اور تفصیلات کے درپے نہ ہوں۔ حروف مقطعات کے سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے معارف القرآن (۱/۱۰۶، ۱۰۷) کا مطالعہ کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی اللہ نے قران اتارا نبی پر۔۔۔اور نبی نے اللہ سے مطلب نہ پوچھا کہ بھائی جان۔۔۔اسکا مطلب بھی تو میں نے لوگوں کو سمجھانا ھے وہ بھی بتائیے۔۔۔ پر اللہ نے کہا۔۔۔تُو کہ۔۔۔ میں اللہ خوب جاننے والا ھوں۔۔ایک تو بات بات پر اللہ یہی کہتا ھے کہ میں اللہ خوب جاننے والا ھوں درست جواب کیوں نہیں دیتا کہ پھڈا ھی نہ ھو۔۔جھگڑا ھی نہ پڑے۔؟ مہدی کے بارے کچھ نہیں کہا۔۔صاف کہتا ھے مہدی انا ھے یا نہیں آنا ھے۔۔۔۔چکر بازی کیوں؟
نماز کی حکم کوئی 89 بار دیا۔۔۔ لیکن پڑھنے کا طریق نہیں بتایا ؟کیوں؟ کوئی بھی مسلمان جواب گھڑے گا کہ نماز تو رسول جی پڑھتے تھے اس لئے یہ سب کو معلوم تھا۔۔۔اس لئے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی۔۔نہ ھے۔۔۔واہ کیسا جواب ھے۔۔۔73 فرقے۔۔۔ ھر ایک کہتا ھے حدیث و روایت میں نماز ایسے پڑھنی ھے۔۔ شیعوں کی نماز سنیوں دیو بندیوں احمدیوں کے لئے پتھروں ٹھیکریوں سے ٹکر مارنے والی احمقانہ نماز ھے۔۔غرض ھر ایک کا اپنا انداز و تشریح ھے اللہ کو مسلمانوں کے بیچ جھگڑا کرانے کا شوق کیوں ھے؟؟
اب دیکھئیے۔۔۔ کہ تفسیر کرنے والے آپس میں ھر بات پر راضی نہیں۔۔۔کچھ پر راضی ھیں۔۔اور دور دور کی کوڑی لاتے ھیں۔۔جیسے۔۔۔کسی ایمان لانے والے کی تشفی کےلئے کتنی بظاھر خوش امید تصویر تشریح پیش کی گئی ھے۔۔دیکھیں۔۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ کے اس فرمان پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر کی ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ یہ ایک لفظ، ایک ساتھ، ایک ہی جگہ ان سب معنی میں ہے اور لفظ امت وغیرہ جو کئی کئی معنی میں آتے ہیں جنہیں اصطلاح میں الفاظ مشترکہ کہتے ہیں۔ ان کے معنی ہر جگہ جدا جدا تو ضرور ہوتے ہیں، لیکن ہر جگہ ایک ہی معنی ہوتے ہیں جو عبارت کے قرینے سے معلوم ہو جاتے ہیں ایک ہی جگہ سب کے سب معنی مراد نہیں ہوتے اور سب کو ایک ہی جگہ محمول کرنے کے مسئلہ میں علماء اصول کا بڑا اختلاف ہے اور ہمارے تفسیری موضوع سے اس کا بیان خارج ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
دوسرے یہ کہ امت وغیرہ الفاظ کے معنی بہت سارے ہیں اور یہ الفاظ اسی لیے بنائے گئے ہیں کہ بندش کلام اور نشست الفاظ سے ایک معنی ٹھیک بیٹھ جاتے ہیں لیکن ایک حرف کی دلالت ایک ایسے نام پر ممکن ہے جو دوسرے ایسے نام پر بھی دلالت کرتا ہو اور ایک کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہ ہو نہ تو مقدر ماننے سے، نہ ضمیر دینے سے، نہ وضع کے اعتبار سے اور نہ کسی اور اعتبار سے ایسی بات علمی طور پر تو نہیں سمجھی جا سکتی البتہ اگر منقول ہو تو اور بات ہے لیکن یہاں اختلاف ہے اجماع نہیں ہے اس لیے یہ فیصلہ قابل غور ہے۔
اب بعض اشعار عرب کے جو اس بات کی دلیل میں پیش کئے جاتے ہیں ایک کلمہ کو بیان کرنے کے لیے صرف اس کا پہلا حرف بول دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ان شعروں میں خود عبارت ایسی ہوتی ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے۔ ایک حرف کے بولتے ہی پورا کلمہ سمجھ میں آ جاتا ہے لیکن یہاں ایسا بھی نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں ایک حدیث میں ہے کہ جو مسلمان کے قتل پر آدھے کلمہ سے بھی مدد کرے [سنن ابن ماجہ:2620، قال الشيخ الألباني:ضعيف جدا] ‏‏‏‏ مطلب یہ ہے کہ «اقْتُلْ» پورا نہ کہے بلکہ صرف «إِقْ» کہے مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: سورتوں کے شروع میں جو حروف ہیں مثلاً «ق»، «ص»، «حم»، «طسم الر» وغیرہ یہ سب حروف «هِجَا» ہیں۔
بعض عربی دان کہتے ہیں کہ یہ حروف الگ الگ جو اٹھائیس ہیں ان میں سے چند ذکر کر کے باقی کو چھوڑ دیا گیا ہے جیسے کوئی کہے کہ میرا بیٹا «ا ب ت ث» لکھتا ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام اٹھائیس حروف لکھتا ہے لیکن ابتداء کے چند حروف ذکر کر دئیے اور باقی کو چھوڑ دیا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:208/1] ‏‏‏‏
سورتوں کے شروع میں اس طرح کے کل چودہ حروف آئے ہیں «ا ل م ص ر ك ہ ي ع ط س ح ق ن» ان سب کو اگر ملا لیا جائے تو یہ عبارت بنتی ہے۔ «نَصٌّ حَكِيمٌ قَاطِعٌ لَهُ سِرٌّ» تعداد کے لحاظ سے یہ حروف چودہ ہیں اور جملہ حروف اٹھائیس ہیں اس لیے یہ پورے آدھے ہوئے بقیہ جن حروف کا ذکر نہیں کیا گیا ان کے مقابلہ میں یہ حروف ان سے زیادہ فضیلت والے ہیں اور یہ صناعت تصریف ہے ایک حکمت اس میں یہ بھی ہے کہ جتنی قسم کے حروف تھے اتنی قسمیں باعتبار اکثریت کے ان میں آ گئیں یعنی مہموسہ مجہورہ وغیرہ۔ سبحان اللہ ہر چیز میں اس مالک کی حکمت نظر آتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ان دلائل اور ابحاث کے بعد بنیادی سوال کی جانب لوٹتے ھین کہ موجودہ دور کے بظاھر بڑے لبرل مسلمان سکالرز اس مذھبی وکٹ پر کس جانب شاٹس کھیلتے ھیں۔۔جیسے غامدی صاحب اور پروفیسر رفیق اختر صاحبان نے اسلامی کتب کا مطالعہ کر کے ان میں سے ممکنہ دلائل کو ترجمہ کر کے جدید ذرائع انٹرنیٹ وغیرہ پر پیش کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ھے اس سے لوگوں میں یہ غلط تاثر پھیلتا ھےکہ جیسے یہ اصحاب خود کسی تحقیق کے نتیجے میں کوئی سائینسی منطقی دلائل لے آئے ھوں جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ھے۔۔ ان دونوں اصحاب نے ھمیشہ پرانی اسلامی کتب سے حوالہ جات دئیے ھیں اور کوئی نئی بات نہیں کہ ھے۔ غامدی جی تو خود امین اصلاحی کے شاگرد ھیں اور انہیں کے اقوال و اعتقاد و تفاسیر سے متاثر ھیں۔
قران کے حروفِ مقطعات، کافروں ، یہودیوں اور مختلف گروھوں کو کرنے کے لئے بنائے گئے۔۔کہ دیکھو آپکی ریپریزینٹیشن یا نمائیندگی بھی ھے۔ جیسے الف لام میم۔۔۔ میں اسلامی خدا ، اپنے سے منسوب ان بیٹیوں کے ناموں کو بعینہُ استعمال کرنے کی بجائے حروف مقطعات استعمال کر کے اُس گروہِ مشرکاں کو ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ھے۔
بالکل ایسے ھی کوئی بھی مذھبی ھمیشہ
ہمیشہ اپنے عقیدے کو سچا ثابت کرنے کے دلائل ڈھونڈتا ھے۔مطلق سچائی کی جانب نہیں چلتا۔ یہ لازمی فرق ایک متکلم اور فلسفی کے بیچ ھوتا ھے جو ملحوظ رھے
اب یہ بحث ختم ھو جانی چاھئیے کہ قران کیا کسی خدا نے اتارا یا بنایا یا ترتیب دیا گیا۔کیونکہ ماننے والے نے کسی طرح بھی یہ نہیں ماننا کہ قرآن کی ترتیب بدلتی رھی، الفاظ بدلتے رھے،،، متن بدلتا رھا، موضوعات بھی بدلے،،کیونکہ اس سے خدائی ؤھی اور قرآنی حفاظت کے وعدے پر سوال اتھے گا اور ایمان باطل ھو جائے گا۔۔یہ مجبوری ھے۔
،،،
رفیع رضا

اصحاب الشمال

چند دن پہلے اسرائیلی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اٹارنی جنرل آف اسرائیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ بیت شمیس شہر میں ان اشتہاروں اور بینرز کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے مداخلت کریں جن پہ خواتین کو "مکمل کپڑے پہننے” کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ بورڈز خواتین کو کپڑے پہننے کا طریقہ بتاتے ہیں، جس میں انھیں پورے بازو اور لمبی قمیص پہننے کی تلقین ہے اور چست لباس پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر اشتہارات میں خواتین کو نصیحت ہے کہ وہ عبادت خانوں اور کام کی ایسی جگہوں کے قریب، فٹ پاتھ کا استعمال محدود کریں، جہاں مرد ہوتے ہیں۔

یہ تیزی سے پروان چڑھتی انتہا پسندی کی کہانی ہے۔ مقامی حکام کی بے حسی اور سیاسی قیادت کی مجرمانہ خاموشی نے اسے مہمیز دی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کے ہیرو کچھ جرآت مند سماجی کارکن ہیں جو اس دباؤ کو روکنے کے لئے وقف ہیں، اور جن کی کوششوں سے کچھ ہی دن قبل یہ فقید المثال فیصلہ آیا ہے۔ یہ کسی کی بھی زندگی کا ایک حیرت انگیز اور متاثر کن تجربہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ شروع سے آسان نہیں رہا۔

اسرائیلی درالحکومت یروشلم سے مغرب میں ۳۰ منٹ کی مسافت پر واقع شہر بیت شمیس کے ضلعی مجسٹریٹ کی عدالت نے جنوری 2015 میں بلدیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے بینرز کو بروقت ہٹانے میں اپنی لاپرواہی پر شہر کی خواتین کو ہرجانہ ادا کرے۔ 2017 میں ہائیکورٹ آف جسٹس نے حتمی فیصلہ جاری کرتے ہوئے شہر کے میئر کو حکم دیا تھا کہ وہ شہر میں جگہ جگہ لگے ہوئے تمام "جارحانہ” ناشائستہ تجاویز والے بورڈز کو ختم کریں۔

ایسا اس وجہ سے ہوا ہے کہ اسرائیل کی ماتحت و اعلیٰ عدلیہ کے مطابق کسی بھی شخص کو کوئی خاص لباس پہننے یا کسی مخصوص طریقہ لباس کو اپنانے پر مائل کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا بنیادی انسانی حقوق کی آئینی ضمانتوں کی خلاف ورزی ہے۔

اس کے علاوہ یہ شخصی آزادی کی خلاف ورزی کا بھی ارتکاب ہے جس پر عدالت نے شہری انتظامیہ کو ہرجانے کی سزا بھی دی ہے۔جج عوری شوہام نے کہا، "خواتین کو یہ بتانا کہ کس طرح کا لباس پہننا ہے اور کسی عوامی مقام پر کہاں جانا ہے، کسی شخص کے وقار اور آزادی کے بنیادی حق کے محافظ قانون کے خلاف ہے۔” ہائیکورٹ آف جسٹس کے ججوں نے شہر کے میئر کو ان علامتوں کو دور کرنے یا جیل کا سامنا کرنے کے لئے دو ہفتے کا وقت دیا جس پر ااسرائیل کی پارلیمانی کمیٹی برائے حقوقِ نسواں اور صنفی مساوات کو یہ دیکھنے کے لیے میدان میں آنا پڑا کہ آیا میئر نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔

"مکمل کپڑے پہننے” کے اعلان کرنے والے بینرز شہر کے آس پاس منظر عام پہ آنا شروع ہو گئے۔ انتہائی دائیں بازو کی ذہنیت کے ذریعہ خواتین کو آزادانہ گھومنے پھرنے پر ہراساں کیا گیا۔ ایسی لڑکیوں کو "فاحشہ” کہا جانے لگا۔ کچھ مواقع پر تو مردوں نے ایسی سوچ کی علمبردار خواتین پر پتھراؤ بھی کیا۔ بالآخر خواتین نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ان بینرز کے خلاف عدالت میں کیس کر دیا۔

مذہب کے نام پہ قائم اسرائیلی ریاست مین حالانکہ صنفی مساوات کئی مغربی ممالک سے بھی بہتر ہے مگر پھر بھی قدامت پرستوں کی جانب سے خواتین کی سماجی حیثیت اور معاشرتی ظہور مسلسل سکڑ رہا ہے۔ تقریبا تمام مذہبی عناصر کے رجحانات کی عکاسی کرتے ہوئے جانے پہچانے اقدامات کے ذریعے انہوں نے خواتین کی عوامی سپیس کو بتدریج محدود کیا ہے۔ روایت پرست اخبار خواتین کی تصاویر چھاپنے سے ہچکچاتے ہیں۔ حتیٰ کہ انجیلا میرکل اور ہلیری کلنٹن جیسی عالمی شہرت یافتہ خواتین کی تصویریں تک سینسر کر دی جاتیں ہیں۔ اسی طرح دعوت ناموں اور کتبوں پر خواتین کا نام نہیں لکھا جاتا۔

لامحالہ طور پر ایسے واقعات کے خلاف اسرائیلی عدلیہ ہی آخری سہارا رھی جس نے اس رجحان پہ سخت ردعمل دیا تاہم روشن خیال جدت پسندوں کا راستہ کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ جن سماجی کارکنوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، ان پہ آوازے کسے جاتے، ان کو بدنام اور پریشان کرنے کی ایک منظم مہم چلائی گئی۔ لوگوں کو ان کے چہروں پہ تھوک دینے کی ترغیب دی جاتی رہی اور ان کے گھروں کو نشان زدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

اسرائیل اور پاکستان میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ دونوں دنیا کے اکیلے ایسے ممالک ہیں جو مذہب کے نام پہ وجود میں آئے اور جہاں ایک اقلیت نے تقریباً مکمل طور پر ایک اجنبی خطہ زمین آزاد ملک کے طور پر حاصل کیا۔ دونوں ہی ملکوں کی تاریخ میں خواتین سیاستدان وزراء اعظم رہیں ہیں۔ روایت پسند مذہبی جماعتوں کی سیاست کا نظم بھی تقریبآ ایک جیسا ہے۔ اور قدامت پرستوں کا خواتین سے سلوک بھی۔

اور ہاں۔ کچھ مزید مماثلتیں بھی ہیں جن میں صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والوں کو برے القابات دینے، ان کے خلاف سوچا سمجھا پروپیگنڈا کرنا، ان کو ٹارگیٹڈ تشدد کا نشانا بنایا جانا، ان کے مارچوں پہ پتھراؤ، خواتین کی پبلک سپیس سے پراسرار غیر موجودگی، شادی کے دعوت ناموں اور فوتیدگی کے اعلانات تک سے ان کی شناخت حذف کر دینے کی مذموم کوششیں بھی شامل ہیں۔

جانے اسرائیلی عدالتیں اپنی نظریاتی بنیادوں کے تحفظ سے کیوں اتنی لاپرواہ ہیں؟ ایسی لاپرواہ عدلیہ کو اپنے ملک کی ثقافت اور نظریہ بھی تباہ ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔ نظریاتی تحفظ سیکھنے کے لیے اسرائیلی عدلیہ کو پاکستان سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ حال ہی میں پاکستان کی صوبائی حکومتوں نے وزیراعظم کی قیادت میں، آپ نے فرمایا تھا کہ کوئی روبوٹ ہی ہو گا جو خواتین کے مختصر لباس سے برانگیختہ نہیں ہو گا، عوامی تفریح گاہوں پر خواتین کے باحجاب لباس کی مہم چلائی ہے یا اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ گلگت بلتستان اور مری میں ایسے بینرز منظرعام پہ آئے ہیں جن میں خواتین کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ ان کی عزت حجاب سے ہی مشروط ہے ورنہ۔۔۔پاکستان میں روبوٹ ٹیکنالوجی ابھی بہت کم ہے۔

ماہِ نخشب، کی اصل سائینسی حقیقت۔۔ رفیع رضا

ماہِ نخشب، ایک ترکیب یا تلمیح ھے جو فارسی ادب کے بعد اردو ادب میں بھی استعمال ھوتی ھے جبکہ پاکستانی نام نہاد سکالر(مذھبی) اس ترکیب اور اس سے جڑے واقعاتِ تاریخ کو غلط طور پر عوام کے سامنے پیش کرتے ھیں۔ بلکل ایسے جیسے رسولوں اور بزرگان دین کے جھوٹے قصص پر مبنی بیسیوں کتابیں تھڑوں پر بکتی ھیں۔مگر واقعات کو بڑھا چڑھا کر جادوئی یا معجزاتی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔۔جس سے پڑھنے والے کے مذھبی ایمان کی تشفی تو ھوتی ہے مگر وہ جہالت کی جانب عقلی سفر کرنے لگتا ہے اسلئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسے واقعات کا منطقی و سائینسی جائزہ لیکر لوگوں کو ایمانی گمراھی سے بچایا جاوے۔۔

المقنّع جسے ۔۔۔ پردہ پوش نبی کے طور پر پیش کیا جاتا ھے۔جو کہ ایک نقاب اوڑھے رکھتا تھا۔یہ اسکا سائینسی شعبدہ تھا۔۔
پاکستانی اور مذھبی سوچ میں یہ بات راسخ کر دی گئی ھےکہ :
ترکستان کے ایک شہر جسے ترکی میں قرشی کہتے ہیں۔ وھاں کے ایک حکیم ابن عطا نے جو مُقنّع کے نام سے مشہور ہے اس کے نواح میں چاہِ نخشب سے ایک چاند موسوم بہ ماہِ نخشب بعض فِلزات مثلِ سیماب وغیرہ کی لاگ سے بنا کر نکالا تھا جو دو ماہ تک غروب نہیں ہوتا تھا اور چار فرسنگ تک اس کی روشنی پہنچتی تھی یہی چاند چاہِ نخشب ہی سے نکلتا اور اُسی میں غروب ہوا کرتا تھا”
جبکہ یہ سنای سنائی میں اضافہ کر کے آگے سنائی گئی جھوٹی داستان ھے۔۔
مَیں اس بارے سائینسی تفصیل سمجھتا ھوں
لیکن اس سے پہلے نام نہاد پاکستانی سکالر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان کا ذکر ضروری ھے۔موصوف کا جس محکمے سے تعلق تھا اُس نے پاکستان کے ھرشعبے میں اپنا بُوٹ داخل کیا ھُوا ھے اب ادب و سائینس میں بھی آ دھمکے ھیں۔اور ملکِ چین کی مستقبل کی اُن کوششوں کا خمیر اسلامی جادوگر سائینس دان حکیم ابن عطا سے اُٹھانے کی کوشش کر رھے ھیں کہ چین جس چاند کو مصنوعی طور پر چمکائے گا تاکہ روشنی میسر ھو ویسا کام پہلے اسلام میں ھوچکا ھے۔۔اور مزید سنے سنائے اضافی قصہ کو بیان کرتے کہتے ھیں۔
ترکستان کے ایک شہر نخشب میں ایک ایرانی جادوگر حِکم بن ہاشم نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ یہ عباسی خلفا کا اولین دور تھا۔ آخر اموی خلیفہ کو ابو مسلم خراسانی نے شکست دے کر ہلاک کر دیا تھا اور اس کی جگہ سّفاح کے بیٹے ابو العباس کو تخت نشین کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ یہ واقعہ نویں صدی عیسوی کے لگ بھگ کا ہے۔

ابو مسلم خراسانی نے اگرچہ عباسی خلفا کو مسندِ اقتدار پر بٹھانے کا کارنامہ انجام دیا تھا لیکن بعد میں خلیفہ ء بغداد سے ابو مسلم کی اَن بَن ہو گئی اور اس کو گرفتار کرکے قتل کر دیا گیا۔ ایرانیوں نے اس کا بُرا منایا۔ جن ایرانیوں نے خلیفہ ء وقت کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کیا تھا، ان میں یہ حِکم بن ہاشم بھی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ علمِ کیمیا کا بھی زبردست ماہر تھا اور اس نے اس زمانے میں کئی انوکھی چیزیں ایجاد کی تھیں جن میں ایک ماہِ نخشب بھی تھا جو چاہِ نخشب سے نکل کر اردگرد کے 200 میل علاقے کو چاند کی سی دودھیا چاندنی میں نہلا دیتا تھا۔ ایک عرصے تک یہ چاند نخشب نامی گاؤں کے کنویں سے نکلتا اور وہیں ڈوبتا رہا اور حِکم (Hikam) کے جادوگر ہونے کی منادی کرنے میں پیش پیش رہا۔ چونکہ حکم،بن ہاشم جس کو مقنّع بھی کہا جاتا ہے ابو مسلم کا پیروکار بلکہ پرستار تھا اس لئے خلیفہء بغداد نے اسے بھی ہلاک کروا دیا۔ اس کی ہلاکت جس مہم کے دوران ہوئی وہ ایک طویل محاصراتی مہم تھی جس میں حکم بن ہاشم کے ہزاروں چاہنے والوں نے ترکستان کے مشکل اور ناقابلِ عبور کوہستانی علاقوں میں ڈٹ کر خلیفہء بغداد کی افواج کا مقابلہ کیا لیکن بالآخر شکست کھائی۔

یہ مصنوعی چاند کا واقعہ اس لئے بھی عجیب و غریب تھا کہ ایران کے زرتشتی مذہب کے ماننے والے آتش پرستوں نے کہ جو عربوں کی فتحِ ایران کے بعد مسلمان ہو گئے تھے اپنی بعض سابق مذہبی رسوم و روایات کو یکسر فراموش نہیں کیا تھا۔ ایران میں آج بھی تیل کے کنوؤں کی فراوانی ہے اور سینکڑوں برس پہلے اُس دور میں بھی تھی جب لوگ اِس حیرت انگیز دریافت اور اس کی قدر و قیمت سے بے خبر تھے۔ لیکن ایران کے آتشکدوں کے ساتھ جو داستانیں وابستہ رہیں ان میں اس تیل نے بڑا رول ادا کیا۔ مثلاً آپ اندازہ لگائیں کہ 20ویں صدی کے نصف اول تک دنیا میں کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ ’’مصنوعی چاند‘‘ کی بھی کوئی حقیقت ہے یا نہیں اور حِکم کہ جس کو ’’سازندہء ماہ‘‘ (Moon Maker) بھی کہا جاتا تھا وہ کوئی فسانہ تھا یا حقیقت تھی۔
اس دور میں میری طرح کے اور کئی طلباء بھی تاریخِ ایران سے دلچسپی رکھتے تھے،لیکن ان میں سے کوئی بھی اس مصنوعی چاند کی حقیقت پر قطعاً کوئی یقین نہیں رکھتا تھا۔ ہم حیران ہوتے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کنویں سے چاند کی طرح کا ایک گول قرص برآمد ہو، ساری رات میلوں تک روشنی پھیلائے اور پھر ایک وقتِ مقررہ پر اسی کنویں میں جا کر غروب ہو جائے۔۔۔ ہماری نظر میں یہ ایک شعبدہ تھا۔لیکن آج اس ایرانی افسانے کی صداقت پر کسی کو کوئی شبہ نہیں رہا اور بیشتر قارئین بھی ذیل کی سطور پڑھ کر یہی سوچیں گے کہ چاہِ نخشب سے جو ماہِ نخشب طلوع ہوتا تھا وہ شعبدہ یا جادو نہیں تھا، ایک تکنیکی حقیقت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موصوف ریٹائرڈ جنرل صاحب نے حقیقت اور فسانے کو مِلا جُلا ایسے پیش کیا ھے کہ قاری یہ یقین کرنے لگے کہ ماضی میں اس جادوگر مسلمان سائینسدان کا چاند کئی مہینے طلوع ھوتا رھتا تھا۔۔۔ جبکہ ایسی کوئی بات نہ کہیں بیان ھے نہ ممکن ھے۔۔ البتہ اسکی سائینسی تحقیق سے جو معلومات سائینس کو پہنچی ھین وہ یہ ھیں کہ انعکاس کے فریب سے وُہ چاند کو اس سمت بھی دکھاتا جدھر وہ نہیں ھوتا تھا وہ یہ معجزہ یا جادو یا شعبدہ کیسے انجام دیتا تھا یہ مندرجہ ذیل تصویر سے بیان کرتا ھُوں
،،،
عباس علی ارستم موف لکھتا ھے
This conclusion is based ہن information of Qazvini about found at the bottom of the well basin with mercury, the information Ibn Khallikan on the unusual brightness of the false moon and analysis of all information of the historical and poetic sources about Muqanna.
پہلے پہل اسلامی مورخ اسکے نام کو اسلامی طور پر استعمال کرنے سے گریزاں تھے۔۔۔لیکن بعد کے اور آج کے پڑھے لکھے سکالرز کے نزدیک المقنّع کا مصنوعی چاند دکھانا سائینس کی جانب ایک قدم تھا۔۔اور اس جانب مزید سائینسی تحقیقات کی ضرورت پر زور دیتے ھیں۔
سب سے پہلے نظامی گنجوی نے گیارھوں صدی میں ماہِ نخشب کا خوشرو، شیرین، اور سیمابی آئینے کے ذکر سے ابتدا کی۔اور کہا کہ یہ چاند نہیں بلکہ عکس ھے۔۔
القزوینی نے بارھویں صدی میں ایک کہانی میں اس متذکرہ چاند کا مزید ذکر کیا۔
وہ لکھتا ھے کہ عام لوگ اسے جادو یا معجزہ سمجھتے ھیں۔لیکن یہ صرف ریآضی، جیومیٹری اور چاند کی روشنی کا عکس تھا جس نے انکو فریب میں مبتلا رکھا۔۔انہیں ایک بڑی کنویں کی تہہ سے پگھلی چاندی یا سیماب (پارہ) کا بھرا طشت مِلا۔۔جسکی مدد سے وہ چاند کی کرنوں کو منعکس کر کے چاند طلوع ھوتا دکھاتا تھا۔۔
لیکن آج ھم سمجھ سکتے ھیں کہ القزوینی کا یہ بیان ادھورا ھے دیکھنے والے اتنے بھی احمق نہیں تھے انسانی شعور پانی میں اپنے عکس یا چیزوں کے عکس سے واقف ھی تھا۔۔۔
جدید سکالرز نے اس عجوبے کو بیان کرنے کے لئے جو کوششیں کیں ان میں رچرڈ نیلس فرائی نے انیس سو ستر میں یہ بتایا کہ اصل میں ایک گہرے بڑے کنویں میں المقنع نے ایک ٹیلی سکوپ بنائی تھی۔۔ جو کہ سیمابی مائع کی مدد سے چاند کا عکس دور دکھاتی تھی۔۔۔
نیوٹن نے اندازہ لگایا کہ گھومتے ھوئے مائع کے کُھلے دھانے کو اسکی پیرابولا شکل کی وجہ سے ایک دوربین کی طرح استعمال کیا جا سکتا ھے۔
1872 میں ھنری سکیی نے نیوزی لینڈ میں ایک قابل عمل مائع آئینہ کی مدد سے ٹیلی سکوپ بنا لی۔جسے ایل ایم ٹی کہا جاتا ھے۔
لیکن رابرٹ ووڈ نے مشہور ترین دوربین بنائی جو بہترین تھی۔۔اسکی خوبی یہ تھی کہ رابرٹ نے ایک کنواں ھی اپنی دوربین کے لئے استعمال کیا کیونکہ کنواں اس میکنزم کو جھٹکوں اور ھوا کے جھونکوں سے بچانے میں مددگار تھا۔۔
1986 میں اولسن سٹیل نے ذکر کیا کہ رابٹ ووڈ کی ٹیلی سکوپ عین المقّنع کی دوربین جیسی ھے۔
جسکا ڈیزائین ایک بڑے طشت کی مانند ھے جس میں مائع مرکری ھے اور جسے کوزہ گری کے طریقے پر مسلسل گھمائے جانے کا انتظام کیا گیا ھے
اور اس میں ایک مناسب انرشیل حرکت کی تبدیلی سے عکس کو بڑا ترین کر کے پیرا بولا ھونے کے طریق پر دیکھنے والوں کو مسحور کیا جا سکتا ھے۔
روشنی کی ان شعاؤں کا پھیلاو یقینی ھے۔اور اس سے بننے والے عکس کو دیکھنے والے اسے جادو ھی سمجھیں گے۔۔
المقنع ۔۔۔۔ شروع سے ھی سائینسی کتب پڑھتا رھا تھا۔۔اسکے بارے میں مشہور تھا کہ وہ دور دراز کی سائینسی کتابیں پڑھتا رھا ھے۔قدیم یونان سے ھاتھ لگے بہت سے سائینسی مخطوطے اس تک پہنچے تھے۔۔۔
206 قبل عیسوی کے چینی بادشاہ بھی کنویں میں ایسے ھی مائعاتی شعبدوں سے دریا و سمندر دکھاتے تھے۔۔۔ان شعبدوں میں مائع کے طور پر مرکری یعنی پارے کا استعمال ھی ھوتا تھا۔۔۔
تصویر میں آپکو اصل عکس اور مصنوعی عکس کی سمجھ آجانی چاھئیے۔۔
یاد رکھیں چین کا حالیہ چاند کا منصوبہ ھرگز ۔۔۔اس ایرانی سائینسدان سے مستعار منصوبہ نہیں۔۔۔وہ مصنوعی عکس تھا۔۔۔ یہ خلا میں آئینے لگا کر عکس کی بجائے روشنی لانے اور استعمال کرنے کا منصوبہ ہے ۔۔۔اور یہ خیال سیٹلائٹس کی مدد سے آیا ھے۔۔
چین کا ارادہ روشنی کا فائدہ عوام کے لئے لینے کا ھے جبکہ المقنع نے اپنی تکنیک سے نبی ھونے کا دعوی کیا اور اسی طرح کے اور شعبدے دکھا کر وہ لوگوں کو مرعوب کر کے اپنے ساتھ ملا لیتا تھا۔۔جو سائینس کا منفی استعمال تھا۔۔
پس پاکستان کے نام نہاد سکالرز ریٹائیرڈ کرنل جنرل اور پانی سے کار چلانے کے دعوے کرنے والے سائینسدان اور جنّوں سے انرجی بنانے کے دعوے والے عوام پر رحم کریں۔اور سائینسی حقیقتوں کو جادو ٹونے سے مت مِلائیں۔تصویر سے عکسی فریب کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
شکریہ
رفیع رضا

اقبال ترقی پسندوں کے حضور۔۔۔ تاریخی مغالطے اور حقیقت پہلا حصہ،،، از رفیع رضا

سر اقبال، جنہیں پاکستان میں علامہ اقبال کہا جاتا ھے، انکی شاعری اور انکے نثری خیالات کے حوالے سے پاکستان میں کافی گفتگو ھوتی ھے،اور اس گفتگو کو جاری رکھنے کے لئے اقبال اکیڈمی کا قیام حکومت عمل میں لائی،

اقبال اکیڈمی نے حکومت کی منشا اور ارادے کے تحت اقبال کی زندگی ، حالاتِ زندگی ، شاعری اور نثری بیانات و تقاریر کی روشنی میں سر محمد اقبال (علامہ اقبال) کی کُل شخصیت کے خدوخال ایسے بنائے یا بنانے کے لئے معاون معلومات و واقعات و تحاریر کو پیش کیا جن کے ذریعے سر اقبال ایک نہایت متقی،مومن، بزرگ،دانشمند، فلسفی، شاعر، ادیب،انقلابی اور جینیوئن ھیرو ثابت ھوسکیں۔

جہاں جہاں ایسے واقعات، تحاریر، شاعری ، نثریات و شواھدات ایسے مِلیں جو اوپر بیان کردہ تخلصات و تعاریف کے مخالف کچھ مواد ملے اُسے یا تو چھپا دیا جائے یا تبدیل کیا جائے یا اُس کے خلاف بظاھر دانشمند لکھاریوں سے کچھ کہلوایا جائے تاکہ ایک قومی یا ریاستی ھیرو کے تصوراتی خاکے میں کوئی کجی یا کمی نہ معلوم ھو۔

اس ارادی سہوِ نظر نے ایسے مواد کو نظر انداز کرنے اور کروانے کا حق ایسا ادا کیا کہ بیچارے سر محمد اقبال کو علامہ اقبال رحمہ اللہ بنا کر پیش کرنے میں مکمل کامیابی ھوئی۔۔

نوجوان تو کیا 60 سال تک کے پیٹے کے لوگ بھی اس گمراھی میں صراطِ مستقیم ڈھونڈنے کی کوشش میں مگن رھے۔

 مثلاً مندرجہ ذیل پیراگراف کا نتیجہ ایک مکمل دلیل ھے لیکن یہ اقبال اکیڈمی کے ڈسے معصوم لوگوں کے اُس خیال یا عقیدے کو توڑ پھوڑ دے گا جو انہیں زبردستی فوجی مزاج لوگوں کے رٹایا ھوا ھے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔

” صوبے کے قیام کا مقصد اقبال کے نزدیک یہ ہے کہ اس طرح اس دستوری ڈیڈ لاک سے نکلنے کا راستہ نکل آئے گا۔ چنانچہ کہتے ہیں: ”صوبوں کی مناسب تقسیم سے مخلوط اور جداگانہ انتخاب کا مسئلہ ہندوستان کے آئین کے بارے میں نزاع کو خود بخود ختم کر دے گا۔ اس نزاع کا باعث بڑی حد تک صوبوں کی موجودہ تقسیم ہے…. اگر صوبوں کی تقسیم اس طور پرہو جائے کہ ہر صوبے میں کم و بیش ایسے گروہ بستے ہوں جن میں لسانی، نسلی، تمدنی، اور مذہبی اتحاد پایا جاتا ہو تو مسلمانوں کو علاقہ وارانہ انتخاب پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا“۔

اس بات سے اقبالیات کے بڑے بڑے ماہرین کے اس دعوی کی تردید ہو جاتی ہے کہ اقبال زندگی کے کسی بھی مرحلے پر جداگانہ انتخاب سے دست برداری پر آمادہ نہیں ہوئے تھے۔ اقبال کی اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں کہ جداگانہ انتخاب مذہبی نہیں سیاسی مسئلہ تھا۔۔۔””””

جاری ہے