اُڑن طشتریاں۔,,,خلائی مخلوق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،Aliens۔۔۔۔۔ UFO۔۔۔

خیالی خلائی مخلوق۔۔۔خیال اڑن طشتری

حسبِ وعدہ خلائی مخلوق اور اڑن طشتریوں کے بارے رائے پیش ہے۔
انسانی شعور اور قدرتی میلان ایسا ہے کہ بچپن سے انسان جادوئی غیر مرئی چیزوں اور محیّر العقول باتوں کہانیوں اور چیزوں سے شدید متاثر ھوتے ہیں۔ نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ یہی امید رکھتے ہیں کہ ایسا کچھ ضرور ھو۔،
یعنی ھم اپنے اُس قدرتی میلان کی روشنی میں خیال گُمان اور فینٹیسی کی جانب رغبت رکھتے ہیں۔ اسی خاطر انسان نے سوچا کہ یہ قدرتی حیاتیاتی سلسلہ بنانے والی طاقتوں کو سوچا جائے انکا ھیولہ یا حلیہ بنایا جائے۔۔ زمانہ قدیم سے خیال گُمان وسوسہ اور خوابی ماحول کے تحت کسی نہ کسی چیز کو خود سے بھی برتر جادوئی پاک۔۔پوِتّر ماننے کا قدرتی رجحان انسان کے اندر ہے۔اس رجحان کو شدید تقویت دینے والی چیزوں میں خوف۔۔۔اور دوسرا لالچ شامل کیا جاتا ھے۔عربی مذاھب خاص طور پر ایسے ہی سوچ کے تحت رایج کئے گئے۔یونان کی عقل و شعور میں بڑھی قوم میں بھی دیوتاوں یا ھر خدائی صفت کا کوئی خدا یا دیوتا مقرر کیا گیا ھندو ازم میں بھی یہی نظر آتا ھے اسلام میں بھی ایک ہی خدا کو وہ سارے صفات دینے کی کوشش 99 ناموں مین ملتی ہے جو اصل میں انسان کی اپنی صفات ہیں۔ پس انسان اپنے خدا یا دیوتا یا خود سے زیادہ طاقت و شعور رکھنے والی سوچ کا اسیر ہے۔۔ بعض اوقات کئی مزھبی جب لاجواب ھو جاتے ہیں تو کہتے ہین اچھا اب مین اپنا مذھب چھوڑ کونسا مذھب اختیار کروں۔۔کیا عیسائی ھو جاوں۔۔۔ یا عیسائی کہیں گے کیا مسلمان ھو جاوں۔۔۔شیعہ کہے گا کیا احمدی ھو جاوں احمدی کہے گا کیا دیوبندی ھو جاوں ؟
میں حیران ھوتا ہوں کہ اے بندہِ اسیر۔۔۔ تجھےمذھب کی کیا ضرورت ہے؟ کیا عالمی اخلاق نہین بتاتے کہ جھوٹ بولنا فریب دینا بےایمانی کرنا قطار بندی نہ کرنا چوری ڈاکہ۔۔قتل ایذا پہنچانا بُرے اعمال ہیں؟ آخر مذھب کے بتانے سے ہی کیوں ماننا ہے۔ ۔۔۔؟ یوں بھی مذھبی ممالک میں پھانسیوں اور سزاوں کی تعداد غیر مذھبی ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔
مذھبی خداوں دیوی دیوتاوں کی طرح انسانی سوچ ھم جیسی یا ھم سے بہتر کسی مخلوق کے بارے میں بھی پُرامیدی رکھتی ہے۔مثلاً قران میں اور کہانیوں یا افسانوں کی طرح جنّوں کا ذکر بھی ہے۔بلکہ سُورۃ کا نام سُوڑۃ الجن ہے ۔۔یعنی ایسی مخلوق جو آگ سے پیدا کی گئی ہے۔ ویسے یہ نہایت بیہودہ خیال ہے کیونکہ آگ تو کائنات کی ھر چیز کو جلا دیتی ہے۔پس بہت ہی زیادہ درجہ حرارت سے بھی دھاتوں کے درمیان تعامل ھونے سے دھاتین ھی بنیں گی یا گیسیں بنیں گی۔۔کوئی اور جیتا جاگتا وجود کسی صورت بننا ممکن نہیں۔ لیکن کیا کیا جائے انسان کی مذھبی اور رجعتی سوچ کا کہ یہ فرض کر کے کہ جو سُن لیا پڑھ لیا وہ عین سچ ہے پوری زندگی اسی ایمان پر ضائع کر کے لوگ مَر جاتے ہیں۔
جنوں ہی طرح جب انسانی سوچ کسی طبیعی قدرتی کیمیائی یا طبیعاتی مظہر کو سمجھ نہیں پاتی تو اُسے فوری طور پر کسی غیر مرئی طاقت کا کام قرار دیتی ہے۔اس سے اسکے اس پرانے ایمان کی تسکین ھو جاتی ہے کہ ھم سے بہتر طاقتیں موجود ھیں۔جو جیسا چاھیں کر سکتی ہیں ھم جو نہین کر سکتے وہ کر سکتی ہیں۔
اسی سوچ کے تحت دنیا بھر کی تاریخ میں لوگوں نے ھر طرح کی خلائی مخلوق کے دیکھنے کا ذکر کیا جو انسان کی سوچ پڑھ لیتی ہے یا آنکھوں میں دیکھ کر انسان کو ساکت کر دیتی ہے۔انسان بےحس ھو جاتا ھے دیکھ سُن سکتا ھے مگر کچھ عمل نہیں کر سکتا۔۔
پھر اس خلاقئی مخلوق کے آنے جانے کو سواری کے لئے مختلف نام دئیے گئے جیسے جبرائیل ۔۔۔کا اڑتے گھوڑے پر سفر کرنا۔۔۔جیسے کسی گول یا بیضوی چیز اڑن گاڑی جس مین سے شعائین نکلتی ہوں اسکا ذکر کرنا۔۔۔
امریکہ چونکہ جدید ٹیکنالوجی میں سب سے آگے رھا ھے اس لئے امریکہ کے اداروں پر الزام ہے کہ وہ
خلاقئی مخلوق سے رابطہ کر چکے ہیں۔۔یا خالقئی مخلوق کی گاڑی زمین سے ٹکرائی تو اسکے پرزے اور خلائی مخلوق کو زخیمی یا مردہ حالت میں امریکہ کے اداروں نے پکڑا اور کہین چھپایا ھوا ھے وغیرہ۔۔
اسی حوالے سے سیاسی یا کسی اور چال کے تحت وقتاً فوقتاً امریکی میڈیا اڑان طشتریوں کا ذکر شروع کر دیتا ھے۔تاکہ لوگوں کی توجہ کسی اور اھم صورتِ حال سے ھٹائی جاوے۔
اسی کے تحت پچھلے کچھ دنوں سے امریکی کانگریس کی ایک خصوصی کمیٹی کچھ ریٹائیرڈ خلائی ریسرچرز اور سائینسدانوں سے سوال جواب کر رھے ہیں،،
تاھم کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی نہ ھو کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے۔صرف دعوے جات ہیں۔۔ناسا مکمل انکار کر چکا ہے۔
مشہور سائیسندان نیل ڈیگراس ٹائیسن نے چند دن پہلے لکھا کہ
۔Sometimes I wonder whether alien space vessels are inherently fuzzy & out-of-focus (that would be terrifying). And whether they love the US Navy
(that would be charming).
If so, it would explain a lot.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی مجھے حیرانی ہے کہ خلائی مخلوق کے جہاز ھمیشہ دھندلے اور غیر واضح ہی کیوں ھوتے ہیں (ویسے یہ خوف والی بات ہے) اور انکو امریکہ کی نیوی سے ہی چھپنے چھپانے میں کیوں لطف آتا ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی نیل ٹائیسن عمومی خیال کو جُھٹلا رھا ھے کہ ایسی کوئی خلائی گاڑی یا مخلوق ہے۔اب یہ روشنیاں اور دھندلی چیزوں کی تیز ترین حرکت کیوں ھوتی ہے تو اس بارے فزکس شاید ابھی اس میگنیٹک اور الیکٹریکل میدان کو سمجھ نہیں سکی جسکی وجہ سے قریبی جہازوں کے بعض انسٹرومینٹ کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔عام لوگوں کو شاید معلوم نہ ھو کہ آسمانی بجلی کا گیند سا جب بےپناہ چارج کی وجہ سے بنتا ھے تو بعض اوقات جہاں بنتا ھے وھاں سے 25 کلومیٹر دور بھی جا کر گِرتا ہے۔یعنی جہاں بادل ہیں وھاں سے ادھر بھی جا کر گِر سکتا ھے جہاں بادل نہیں ہیں۔جو غیر سائینسی ذھن کے عام شخص کے لئے سمجھنا بہت مشکل ہے اور ایسا ھوتا دیکھ کر وہ فوری خدا کے غضب ۔۔۔۔خلائی مخلوق کی گاڑی وغیرہ کے خیال کی روشنی میں مشاھدے کو بدل بدل کے پیش کرے گا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ نہایت تیز رفتار کیمرے ان خلائی گاڑیوں کی تصویر تک نہین لے سکتے جو واضح ھو ۔۔۔اسکی وجہ میرے یہی ہے کہ بے پناہ چارج کے دباؤ اور برقی اور مقناطیسی میدان کی وجہ سے کیمرے کی جانب جانے والے روشنی اپنے معمول یا منطر کی تصویر دھندلا جاتی ہے۔
میں سائینس کا معمولی طالب علم ہوں لیکن میں نے نیل ڈیگراس ٹائیسن کو لکھا کہ جس زاوئیے سے میں سوچ رھا ہُوں اسکو پرکھنے کا کیا طریقہ ھو سکتا ھے؟ کیونکہ یہ رپورٹ کیا جاتا ھے کہ جیسے 1976 کے ایرانی اڑن طشتری والے کیس میں دوسرے جہاز کے نہایت ماھر پائلٹ نے بھی جب جوابی میزائل داغنے کی کوشش کی تو قریبی فاصلے پر اسکے انسٹرومینٹ فیل ھو گئے۔۔ اسنے خؤد کو بچانے کے لئے سرعتی گراوٹ کو اختیار کیا۔۔۔تو بعد مین اسکے انسٹرومینٹ کام کرنے لگے۔۔
اس سے صاف معلوم ھوتا ھے کہ ایسی خلائی چیز کے قریبی علاقے میں بجلی سے چلنے والی چیزیں متاثر ھوتی ہے۔اب اگر آپ سولر سسٹم اور اس سے زمین پر پہنچنے والے خلائی شمسی طوفانون کے بارے جانتے ہوں آپ کو معلوم ھوگا کہ شمسی سولر طوفانوں کی وجہ سے ھماری مواصلاتی نظام درھم برھم ھوجاتے ہیں۔۔کمپیوٹر ۔۔انٹرنیٹ،،بجلی کی ترسیل کا نظام سب متاثر ھو جاتے ہیں۔،، شمسی طوفان اگر شدید تر ھوں تو خلا میں مواصلاتی سیارے ان بےپناہ طاقتور مقناطیسی میدانوں کی وجہ سے تباہ ھوجاتےہیں۔ جاپان کو سیارہ بھی ایسے ہی شمسی طوفان نے تباہ کیا تھا۔
پس یہ خلائی روشنیاں جو لوگ دیکھتے ہین اور جنکی تصاویر تک ٹھیک سے نہین بن سکتیں اور جن میں سے روشنیان نکلتی ہیں۔۔شاید مقناطیسی اور برقی ارتکاز کے حصار ہوتے ہیں اور بعض اوقات ساکن ھوتے ہیں لیکن جب حرکت کرتے ہیں تو بعض اوقات روشنی کی رفتار سے طرح غائب ھو جاتے ہیں۔ انکا اتنی تیزی سے غائب ھونا یا ایک جگہ کے الٹ کسی جگہ جا موجود ھونا بتاتا ھے کہ وہ دھاتی سٹرکچر نہیں ہیں ۔۔۔یہ تو سائینسی استدلال تھا دیکھتے ہیں سائینس اس پر آگے کیسے روشنی ڈالتی ہے۔
اب ھم اس پر فلسفیانہ اور منطقی طور پر غور کرتے ہیں۔
اگر یہ نظام حیات کسی طاقت یا خدا یا خداوں نے بنایا ہے تو ظاھر ھے وہ ھم سے زیادہ طاقت ہیں۔۔ اگر وہ اپنے آپ کو کسی ڈائمینشن یا جہت میں چھپائے ھوئے ہیں تو ھم جتنا چاھیں ترقی کر جائیں انکو۔۔انکی مرضی کے بغیر نہیں ڈھونڈ سکتے۔
اگر اُن طاقتوں نے یا طاقت نے یا خدا نے کچھ بھی کہہ لیں(لیکن مذھبی خدا جھوٹ ہے) اگراس زمین کی مخلوق کے علاوہ بھی کوئی مخلوق بنائی ہے تو کیوں وہ ھم سے زیادہ طاقت ور ھوگی؟جبکہ کروڑوں اربوں سالوں کے ارتقا سے ھمارا وجود کم از کم زمین پر اشرف المخلوقات طے ھوا۔ اگر کروڑوں سالوں میں یہ سنگ میل انسان تک پہنچا ھے تو کیسے ممکن ہے کہ کہین اور اس سے بہتر ڈیزائین کی حامل مخلوق بن گئی ہو؟ کیونکہ جب خدائی طاقتیں کنٹرولڈ ارتقا کی جانب چل رھے ہین تو کسی اور سیارے پر اس سے بہتر ڈیزائن ممکن نہیں۔یعنی اگر جدید ترین کمپیوٹرز کو جوڑ کر سُپر کمپیوٹر صرف اسنان زمین پر بنانے میں بمشکل کامیاب ھوا ھو تو کسی کسی ستارے یا چاند اس سے بہتر کمپیوٹر انسان تیار کر لے گا؟
پس عقلی طور پر یہ ممکن نہیں۔
مذھب خدا کا خیال تو خیر نہایت ھی ادنی خدا کا خیال ہے جو جنت دوزخ بنا کر بیٹھے ھوئے احمق اور طیش سے بھرے بُڈھے کی صورت کا خیال ہے۔جسکو گناہ گار انسانون کو دوزخ میں پھینکنے اور نیکوکاروں کو کنواری عورتیں دینے کے سوا کوئی خوف یا لالچ معلوم نہیں۔ ایسے خدا نے جب انسان کو اشرف المخلوق قرار دیا ہے تو پھر خلائی مخلوق کی گاڑی اور اسکی کارستانیاں انسانوں کے لئے ھیچ ھونی چاھئیں۔اور انسان کو غالب آنا چاھئیے۔۔لیکن کیا کیا جائے کہ مذھب بیچارہ خود ھی متضاد سوچ کا کنفیوذ خدا رکھتا ھے جس نے جن بھی بنائے آگ سے۔۔۔۔جو سلیمان کا تخت ایک پل میں اسکے پاس لے آئے۔
تیسرا زاویہ یہ ہے کہ کیا یہ روشنیاں یا خلائی جہاز وغیرہ۔۔۔کہیں خدائی طاقت کے مظاہر نہ ھوں؟
آئیے غور پر کرتے ہیں کہ حیاتیاتی نظام میں نام نہاد خدا یا خدائی طاقتوں نے کیا کبھی حیاتیاتی نظام چلانے کو اعلی ترین طبیعاتی فلکی مقناطیسی میدانوں کو استعمال کیاہو؟ ھم دیکھتے ہیں کہ کیمیائی تعامل کثرت سے انسانوں جانوروں اور پودون میں استعمال ھوتے ہیں۔ مگر بہت مقامات پر حیاتیاتی طاقت۔۔۔ طبیعاتی یا فزکس کے اصولوں کی مکمل غلام ہے اور کسی بھی جگہ کسی بھی طور پر کائنات کے فلکیاتی اور طبیعاتی نظاموں پر کسی فنکشن کی وجہ سے کسی کاریگری سے تسلط نہین پا سکی۔
مثلاً انسانی فوطے اس لئے جسم سے باھر آتے ہیں کہ اندر کی زیادہ گرمی سپرمز کو مار نہ دے۔ یعنی ایسا نظام نہ بنا سکا کہ سپرم اندر ہی رھتے

فالتو عضو باھر لٹکانے کی کیا ضرورت تھی؟

One of my favorite examples of evolution and how we can see it in living things today:  The laryngeal nerve of the giraffe, linking larynx to brain, a few inches away — but because of evolutionary developments, instead dropping from the brain all the way down the neck to the heart, and then back up to the larynx.  In giraffes the nerve can be as much as 15 feet long, to make a connection a few inches away.  Richard Dawkins explains:
All mammals have the nerve, and as a result of our fishy ancestry, in all mammals, the nerve goes down the neck, through a heart blood vessel loop, and back up.  In fish, of course, the distance is shorter — fish have no necks
.


ڈاکٹر رچرڈ ڈاکنز سے سائینسدانوں کے ایک بڑے ھال میں ایک نمائش کی اور ایک زرافے کے دماغ سے حلق میں آنے والی اور پھر واپس آنے والی نرو ٹیوب کو دکھایا۔
laryngeal nerve
دماغ سے نکل کر جانداروں کے حلق میں آتی ہے انسانوں میں اور مثلاً مچھلیوں میں یہ نرو دماغ سے گلے میں آ کر واپس جاتی ہے لیکن راچرڈ ڈاکنز اسے کاپی پیسٹ ڈیزائن کی خرابی کہتا ہے کہ ذرافے میں یہ نرو ٹیوب دماغ سے نکل کر لمبی گردن سے ھوتی ھوئی دل کے قریب سے یوٹرن لیکر واپس دماغ میں چلی جاتی ہے۔جبکہ ھرگز اسکی کوئی طبی ضرورت نہیں تھی۔
اس سے پتہ چلتا ھے کہ خدائی طاقتوں یا طاقت نے کیمیائی تعاملات کو حیاتیاتی سلسلے میں رایج کرنے میں مکمل کامیابی نہیں پائی کچھ خامیاں موجود ھیں۔ جو ھر سال لاکھوں معزور انسانوں معزور درختوں ، معزور پرندوں اور معزور جانوروں کی ناقص پیدائیش کا باعث ہے
یونیسیف کے مطابق اس وقت دنیا میں 240 ملین معزور بچے ہیں
اب سوچیں کہ یہ تعداد پاکستان کی آبادی سےبھی زیادہ ہے۔اگر بالغ اور معزور بچے شمار کریں تو تعداد 1300 ملین سےبھی زیادہ ھوگی۔ یعنی کُل انسانی آبادی کا چھٹا حصہ معزور ہے؟ کیا خدائی ڈیزائینگ نقایص سے عاری ہے؟ نہیں ھرگز نہیں
۔۔پس ۔ خدا کی اس ڈیزائینگ کی خامی کے باقصف ھم کہہ سکتے ہیں کہ ھمارے خداوں یا خدا کی ھم سے بہتر کسی خلائی مخلوق کا تصور درست نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا
کینیڈا
www.silsla.com

Rafi Raza

اصحاب الشمال

چند دن پہلے اسرائیلی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اٹارنی جنرل آف اسرائیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ بیت شمیس شہر میں ان اشتہاروں اور بینرز کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے مداخلت کریں جن پہ خواتین کو "مکمل کپڑے پہننے” کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ بورڈز خواتین کو کپڑے پہننے کا طریقہ بتاتے ہیں، جس میں انھیں پورے بازو اور لمبی قمیص پہننے کی تلقین ہے اور چست لباس پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر اشتہارات میں خواتین کو نصیحت ہے کہ وہ عبادت خانوں اور کام کی ایسی جگہوں کے قریب، فٹ پاتھ کا استعمال محدود کریں، جہاں مرد ہوتے ہیں۔

یہ تیزی سے پروان چڑھتی انتہا پسندی کی کہانی ہے۔ مقامی حکام کی بے حسی اور سیاسی قیادت کی مجرمانہ خاموشی نے اسے مہمیز دی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کے ہیرو کچھ جرآت مند سماجی کارکن ہیں جو اس دباؤ کو روکنے کے لئے وقف ہیں، اور جن کی کوششوں سے کچھ ہی دن قبل یہ فقید المثال فیصلہ آیا ہے۔ یہ کسی کی بھی زندگی کا ایک حیرت انگیز اور متاثر کن تجربہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ شروع سے آسان نہیں رہا۔

اسرائیلی درالحکومت یروشلم سے مغرب میں ۳۰ منٹ کی مسافت پر واقع شہر بیت شمیس کے ضلعی مجسٹریٹ کی عدالت نے جنوری 2015 میں بلدیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے بینرز کو بروقت ہٹانے میں اپنی لاپرواہی پر شہر کی خواتین کو ہرجانہ ادا کرے۔ 2017 میں ہائیکورٹ آف جسٹس نے حتمی فیصلہ جاری کرتے ہوئے شہر کے میئر کو حکم دیا تھا کہ وہ شہر میں جگہ جگہ لگے ہوئے تمام "جارحانہ” ناشائستہ تجاویز والے بورڈز کو ختم کریں۔

ایسا اس وجہ سے ہوا ہے کہ اسرائیل کی ماتحت و اعلیٰ عدلیہ کے مطابق کسی بھی شخص کو کوئی خاص لباس پہننے یا کسی مخصوص طریقہ لباس کو اپنانے پر مائل کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا بنیادی انسانی حقوق کی آئینی ضمانتوں کی خلاف ورزی ہے۔

اس کے علاوہ یہ شخصی آزادی کی خلاف ورزی کا بھی ارتکاب ہے جس پر عدالت نے شہری انتظامیہ کو ہرجانے کی سزا بھی دی ہے۔جج عوری شوہام نے کہا، "خواتین کو یہ بتانا کہ کس طرح کا لباس پہننا ہے اور کسی عوامی مقام پر کہاں جانا ہے، کسی شخص کے وقار اور آزادی کے بنیادی حق کے محافظ قانون کے خلاف ہے۔” ہائیکورٹ آف جسٹس کے ججوں نے شہر کے میئر کو ان علامتوں کو دور کرنے یا جیل کا سامنا کرنے کے لئے دو ہفتے کا وقت دیا جس پر ااسرائیل کی پارلیمانی کمیٹی برائے حقوقِ نسواں اور صنفی مساوات کو یہ دیکھنے کے لیے میدان میں آنا پڑا کہ آیا میئر نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔

"مکمل کپڑے پہننے” کے اعلان کرنے والے بینرز شہر کے آس پاس منظر عام پہ آنا شروع ہو گئے۔ انتہائی دائیں بازو کی ذہنیت کے ذریعہ خواتین کو آزادانہ گھومنے پھرنے پر ہراساں کیا گیا۔ ایسی لڑکیوں کو "فاحشہ” کہا جانے لگا۔ کچھ مواقع پر تو مردوں نے ایسی سوچ کی علمبردار خواتین پر پتھراؤ بھی کیا۔ بالآخر خواتین نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ان بینرز کے خلاف عدالت میں کیس کر دیا۔

مذہب کے نام پہ قائم اسرائیلی ریاست مین حالانکہ صنفی مساوات کئی مغربی ممالک سے بھی بہتر ہے مگر پھر بھی قدامت پرستوں کی جانب سے خواتین کی سماجی حیثیت اور معاشرتی ظہور مسلسل سکڑ رہا ہے۔ تقریبا تمام مذہبی عناصر کے رجحانات کی عکاسی کرتے ہوئے جانے پہچانے اقدامات کے ذریعے انہوں نے خواتین کی عوامی سپیس کو بتدریج محدود کیا ہے۔ روایت پرست اخبار خواتین کی تصاویر چھاپنے سے ہچکچاتے ہیں۔ حتیٰ کہ انجیلا میرکل اور ہلیری کلنٹن جیسی عالمی شہرت یافتہ خواتین کی تصویریں تک سینسر کر دی جاتیں ہیں۔ اسی طرح دعوت ناموں اور کتبوں پر خواتین کا نام نہیں لکھا جاتا۔

لامحالہ طور پر ایسے واقعات کے خلاف اسرائیلی عدلیہ ہی آخری سہارا رھی جس نے اس رجحان پہ سخت ردعمل دیا تاہم روشن خیال جدت پسندوں کا راستہ کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ جن سماجی کارکنوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، ان پہ آوازے کسے جاتے، ان کو بدنام اور پریشان کرنے کی ایک منظم مہم چلائی گئی۔ لوگوں کو ان کے چہروں پہ تھوک دینے کی ترغیب دی جاتی رہی اور ان کے گھروں کو نشان زدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

اسرائیل اور پاکستان میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ دونوں دنیا کے اکیلے ایسے ممالک ہیں جو مذہب کے نام پہ وجود میں آئے اور جہاں ایک اقلیت نے تقریباً مکمل طور پر ایک اجنبی خطہ زمین آزاد ملک کے طور پر حاصل کیا۔ دونوں ہی ملکوں کی تاریخ میں خواتین سیاستدان وزراء اعظم رہیں ہیں۔ روایت پسند مذہبی جماعتوں کی سیاست کا نظم بھی تقریبآ ایک جیسا ہے۔ اور قدامت پرستوں کا خواتین سے سلوک بھی۔

اور ہاں۔ کچھ مزید مماثلتیں بھی ہیں جن میں صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والوں کو برے القابات دینے، ان کے خلاف سوچا سمجھا پروپیگنڈا کرنا، ان کو ٹارگیٹڈ تشدد کا نشانا بنایا جانا، ان کے مارچوں پہ پتھراؤ، خواتین کی پبلک سپیس سے پراسرار غیر موجودگی، شادی کے دعوت ناموں اور فوتیدگی کے اعلانات تک سے ان کی شناخت حذف کر دینے کی مذموم کوششیں بھی شامل ہیں۔

جانے اسرائیلی عدالتیں اپنی نظریاتی بنیادوں کے تحفظ سے کیوں اتنی لاپرواہ ہیں؟ ایسی لاپرواہ عدلیہ کو اپنے ملک کی ثقافت اور نظریہ بھی تباہ ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔ نظریاتی تحفظ سیکھنے کے لیے اسرائیلی عدلیہ کو پاکستان سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ حال ہی میں پاکستان کی صوبائی حکومتوں نے وزیراعظم کی قیادت میں، آپ نے فرمایا تھا کہ کوئی روبوٹ ہی ہو گا جو خواتین کے مختصر لباس سے برانگیختہ نہیں ہو گا، عوامی تفریح گاہوں پر خواتین کے باحجاب لباس کی مہم چلائی ہے یا اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ گلگت بلتستان اور مری میں ایسے بینرز منظرعام پہ آئے ہیں جن میں خواتین کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ ان کی عزت حجاب سے ہی مشروط ہے ورنہ۔۔۔پاکستان میں روبوٹ ٹیکنالوجی ابھی بہت کم ہے۔

شیطانی آیات Satanic Verse کا ترجمہ

Satanic Verses
شیطانی آیات
ترجمہ (سلسلے وار)
ترجمہ کار رفیع رضا(
……..

دوبارہ آفرینش کے لئے جبرائیل فرشتہ بہشت سے نزول کرتے ہوئے گنگنا رھا تھا،
دوبارہ آفرینش کے لئے تمھیں پہلے مرنا ھوگا
، او جی ، او جی !!۔۔
اُبھری ھوئی خمیدہ زمین پر اُترنے کے لئے
پہلے پروں کی ضرورت ھے کہ اُڑا جا سکے
۔ تا تا۔۔۔ تاکا دِھن
کیسے کوئی ہنس سکتا ھے
جب تک کہ پہلے رو نہ چُکا ھو۔
محبوب کو کیسے پایا جا سکتا ھے
جب تک اسکے لئے آھیں نہ بھر لی ھوں،
دیکھو بابا ! یہ کرنا ھوگا
اگر دوبارہ پیدا ھونا چاھتے ھو،
،جبریل گنگاتا جا رھا تھا۔۔
اور پھر۔۔
شاید یہ نئے سال کی پہلی صبحِ کاذب تھی یا ایسا ھی کوئی وقت تھا، اُنتیس ھزار دو فُٹ کی بلندی سے برطانیہ اور فرانس کو جوڑتے علاقے کی جھیل میں دو برگزیدہ آدمی کسی پیراشوٹ کی مدد کے بغیر اور بغیر کسی قسم کے پروں کے کُھلے آسمان سے وارد ھوئے۔
۔۔
میں کہتا ھُوں تمھیں لازمی مرنا ھوگا، میں کہتا رھوں گا ، میں کہتا رھوں گا۔۔
وہ یہ کہتا رھا مرمریں چاندنی میں ایک اندھیرے کو کاٹتی زور دار چیخ کے بلند ھو جانے تک۔
شیطان کی دسترس میں سب زیر و بم رھے ھیں،الفاظ یخ بستہ رات میں جم چکے، اور سُنائے سُنائے اندرون تک اب دسترس دو۔
جبرائیل بے سُرے انداز میں مٹک مٹک کر بے وزن غزل گُنگُنا نے کی کوشش کر رھا تھا ھوا میں تیرتے ھوئے انسانی غوطہ خوروں کی نقّالی کرتے ھوئے، سیدھا اُلٹا، تیرتا رھا ، دھندلکے میں رواں دواں
اس نے آواز پر توجہ دی ۔ اوئے سلاد بابا تم ضرورت سے زیادہ اچھے ھو، او پرانے چمچ !۔۔
اِسی دوران دوسرا نہایت مشّاقی سے سر کے بل نزول کرتا ھوا ا رھا تھا۔۔۔
اوئے چمچُو۔۔۔ جبرائیل چِلّایا۔اوئے لندن والو لو ھم آ گئے۔۔اُن حرامیو کو نہیں پتہ اُنہیں کس سے پالا پڑا،کوئی شہاب ِ ثاقب تھا،۔ یا کوئی آسمانی عذاب تھا۔
آسمان سے آ دھمکا ،،دھڑام۔۔ اوہ کیا دخول ھے کیا نزول ھے۔۔اُف۔قسم سے دھماکے دار ھے۔
پھر اک عظیم دھماکے کے بعد ستارے ٹوٹتے گرتے رھے، جیسے بِگ بینگ کی گونج سُنی گئی ھو
جمبو جیٹ کی فلائٹ 420 کے پرزے بغیر کسی وارننگ کے اُڑ گئے۔
مہاگنی، بابلون، ایلفاوِل کوئی بھی نام دیا جا سکتا ھے لیکن جبرائیل اسے پہلے ھی لندن کا نام دے چکا ھے مجھے دخل کی ضرورت نہیں۔ولایت کا دار الؒخلافہ جھمک رھا ھے۔
ادھر ھمالیہ کی اونچائیوں میں طلوع آفتاب سے پہلے کے مختصر جھماکے میں جنوری کی فضا میں ایک لکیر ریڈار سے غائب ھو گئی اور فضا سے گرنے والے بے جان جسم ھمالیہ کے چوٹیوں کے نواح میں گرتے گئے۔

۔۔۔۔
مَیں ۔۔کون ھُوں
یہاں میرے علاوہ کون ھے؟

جہاز درمیان سے دو ٹکڑے ھوچکا، جو انڈے کے اندر تھا جو بیج کے اندر تھا باھر آ گیا۔
دو اداکار ایک تو اُچھلتا ھُوا جبرائیل اور دوسرا گٹھا ھُوا مسٹر صلادین چمچا ایسے نمودار ھوئے جیسے پرانے سگار سے تمباکو کے ذرّے گریں۔
انکے اوپر نیچے دائیں بائیں اُس گہرائی میں ادھر اُدھر ٹوٹی سیٹیں، کانوں میں گھسانے والے سماعتی آلے۔ کھانا پانی لانے والی ٹرالیاں، امیگریشن کے مسافری کارڈ ، ویڈیو گیمز کے سیٹ اور جانے کیا کیا بکھرا پڑا ھے۔
آکسیجن ماسک اور کاغذی کپس کے علاوہ کچھ مائگرینٹس اور ھاں ایک بڑی تعداد اُن بیویوں کی بھی موجود ھے، جنہیں برطانوی امیگریشن آفیسرز نے ذاتی جنسی سوالات کر کر کے گھائل کیا ھوا ھے۔ان سب کے ٹکڑے جہاز کے ٹکڑوں سمیت بکھرے پڑے ھیں،
ان سب کی ارواح کے ٹکڑے بھی تیرتے پھرتے ھیں، جس میں ٹوٹی یاد داشتیں، ،خودی سے دُوری، ، مادری زبان سے محرومی،، پرائیویسی میں مداخلتیں، نا ترجمہ ھو سکنے والے لطیفے ، گم شُدہ مستقبل اور بےثمر محبتیں، بکھری پڑی ھیں۔
دھماکے سے مبہوت ھو جانے والے جبرائیل اور صلادین جیسے کسی بگلے کی لاپرواہ کُھلی رہ جانے والی چونچ سے گرے ھوں، اور چونکہ صلادین چمچہ سر کے بل گِرا تھا جو کہ پیدا ھونے والے بچوں کی طرح ضروری ھے،اُسے اس بات سے چڑ تو ھونی تھی جب باقی لوگ بےھنگم طریق پر گِرے ھوں۔
صلادین سر کے بل سیدھا گِر رھا تھا، جبکہ فرشتے نے ھوا کا ھاتھ ھی نہین تھام رکھا ھر طرح سے ھوا کے ساتھ چمٹ سا گیا تھا۔نیچے بادل کی تہوں کے نیچے انگلش چینل نام کی جھیل انکے آواگون نما آمد کی منتظر تھی۔
دیکھو دیکھو
میرے جوتے ھیں جاپانی۔۔ جبرائیل نے پرانے گانے کو نئی انگریزی میں ترجمہ کر کے گایا ،نیم آگاھی حالت میں منزل کی تمجید کو انگریزی میں گانا ضروری تھا۔
میرا پاجامہ انگریزی، اور سر پر رُوسی ٹوپی، اور دل میرا ھندوستانی ۔۔وہ گا رھا تھا۔۔

بادل انکی طرف سمٹ رھے تھے۔شاید انکی تعظیم کے لئے یا انکا مزاق اُڑانے کو یہ ضروری تھا۔

تاھم جو بھی وجہ ھو دونوں افراد جبرائیل صلادین، اور فرشتہ چمچہ آخری وقت تک اس ھونی کو بُرا بھال کہتے رھے لیکن اُنہیں اپنی ھیئت کزائی کی تبدیلی کا مطلق علم نہ ھو سکا۔
میوٹیشن؟ تبدیلی؟ جی ھاں ! لیکن یہ خود سے تو نہیں ھو گئی۔صدیوں پہلے سے تیار کردہ اور صدیوں بعد ایسے ماحول کی مطابقت اتفاقی تو نہیں ھو سکتی
جہاں حرکت پزیری کا مرکز ھو، اور جنگوں کی مرکزیت ھو۔
مشکوک و غیر مسلسل تبدیلیاں خؤد سے نہیں ھوتیں جیسے کہ فضا میں سب کچھ پھینک دیں تو کچھ بھی ھو جائے کچھ بھی بن جائے۔
جیسے اداکار جادوئی کرتبوں سے بوڑھے مسٹر لمارک کو خوش کر دیتے ھیں کہ زمانی دباؤ سے کچھ بھی تبدیل کیا جا سکتا ھے۔۔

لیکن زمانی دباؤ کے خواص سے پہلے یہ بتاؤ تم سمجھتے ھو تخلیق اچانک اور جلدی ھو جاتی ھے؟ نہیں نا تو پھر کشف بھی کچھ نہیں کر سکتا۔کای کچھ غیر معمولی نظر بھی آ رھا ھے؟ وھی دو براؤن انسان تیزی سے گرتے ھوئے، یہ کوئی نئی بات تو نہیں، تم سوچ سکتے ھو وہ دونوں شاید اپنی اوقات سے اوپر چلے گئے تھے۔ یا سورج کے بہت ھی قریب جانے سے یہ ھوا گیا؟

یہی نہیں ۔۔۔سُنو !۔
مسٹر صلادین جو کہ فرشتے جبرائیل کے حلق سے برآمد ھونے والی آوازوں کی وجہ سے اپنی شعر ، اپنی آیات بھی بھول گیا تھا۔
فرشتے نے جو سُنا تھا وہ جیمز تھامسن کا قدیم گیت تھا،
جبرائیل نے اُلوھی حکم پر اپنے نیلے ھوتے ھونٹوں سے آواز نکالنے کی کوشش کی۔۔۔آواز نہ نکلنے سے خوف کھا کر فرشتے نے اونچی آواز مین گانے کی کوشش کی۔
جاپانی جوتے
رُوسی ٹوپی
برِ صغیر کے زندہ دِلان
لیکن آواز تھی کہ نکل نہ پاتی تھی۔ادھر صلادین وحشت میں گنگنا رھا تھا

چلو ھم اس حقیقت کو کھولتے ھیں، یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ایک دوسرے کو سُن سکتے۔، بات کرسکتے، یا گنگنانے کا مقابلہ کر سکتے۔
زمین کی طرف سرعت سے ارد گرد کی فضا کا ھولناک شور کیسے انہیں کچھ سُننے دیتا جو وہ ایک دوسرے سے کہہ رھے تھے؟
چلو ھم مان لیتے ھیں اسکے باوجود اُنہوں نے ایک دوسرے کو سُنا !۔۔
۔
تیزی سے زمین کی طرف جاتے ھوئے سخت منجمد کرتی ھوئی ٹھنڈ انکے دلوں تک کو منجمد کرنے پر قادر تھی۔لیکن اسی خوف کے دھچکے سے وہ اپنے اسی گُنگنانے کے سبب بیدار ھوئے یہ سمجھنے کے لئے کہ ارد گرد کے گرتے انسانی اعضا جب زمین پر گِرے تو مکمل منجمد تھے۔
انہیں لگا جیسے وہ ایک عمودی سُرنگ کے اندر ھیں چمچہ جو کہ اُسی طرح سر کے بل نیچے جا رھا تھا اُس نے دیکھا کہ اُس عمودی بادلوں سے ڈھکی چمنی ُنما ٹنل میں جبرائیل فرشتہ اپنی جامنی قمیص میں اُس کی طرف تیرتا ا رھا ھے جس پر صلادین چمچہ شاید چیخا تھا کہ دور رھو۔۔۔مجھ سے دُور رھو۔۔۔یہ کہنے کی کوشش تو کی تھی مگر آواز شاید نہ نکل سکی اور فرشتہ اسکے بازوؤں میں جُھول گیا
لیکن اس دھچکے کے سبب وہ تیزی سے بادلوں کے درمیان سے گرنے لگے اور ایسے حیرت خانے میں داخل ھوئے جہاں، جیسے ھیئتی تبدیلیاں ان میں جاری ھو گئی ھوں دیوتا ، بیل بنا دئیے گئے۔۔۔عورتیں مکڑیاں بن گئیں آدمی بھیڑئیے بنا دئیے گئے ھوں

دوھیئتی مخلوقِ سحابی کی یلغار ان پر ھونے لگی
بڑے بڑے پُھول جن پر انسانی چھاتیاں لٹک رھی تھیں، پروں والی بلّیاں، ، ،،
، ، انسانی دھڑ والے بچھڑے، نظر آنے پر صلادین چمچہ بھی محسوس کر رھا تھا کہ وہ دو ھیئتوں کو اختیار کر چکا ھے۔
اور اب وہ ایک ایسا انسان ھے جسکا اپنا سر اسی کی ٹانگوں کے درمیان پھنسا ھے۔اور اسکی ٹانگیں اسکی گردن کے گرد لپٹی ھوئی ھیں۔
تاھم اُس شخص کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ مناسب طریق پر ایسا کچھ سوچ سکتا یا محسوس کر سکتا۔کہ کسی خاص عمر میں پُر کشش عورت کے اعضا کیسے ھوتے ھیں۔جس نے بروکیڈ کی سبز و سنہری ساڑھی پہن رکھی ھو۔اور جسکی ناک میں ایک ھیرا جڑا ھو اور جسکی زلفیں ھوا کے دوش پر لہرا رھی ھوں، جیسے کہ وہ ایک اُڑتے جادوئی قالین پر بیٹھی ھو۔
۔۔ریکھا مرچنٹ، جبرائیل نے مدح سرائی کی، تمھیں بہشت کا رستہ بھول گیا؟ یا کچھ اور بات ھے؟
ایک مُردہ عورت سے ایسا کلام کیسی بیہودگی ھے!۔۔
تاھم وہ رہ نہیں سکا۔۔۔کچھ نہ کچھ تو کہنا چاھئیے !۔۔
اُدھر چمچے نے استفساری انداز میں آواز لگائی ، واٹ دی ھَیل۔۔۔؟ کیا بکواس ھے۔۔
کیا تم نے اُسے نہیں دیکھا؟ فرشتہ چِلّایا،
کیا تم اُس بخارا کے ایرانی لعنتی قالین کو نہیں دیکھ رھے؟
نہ نہ نہ ۔۔جبریلو !۔۔ اُس عورت نے سرگوشی کی ۔ صلادین سے مت کہو کہ بتائے۔
میں صرف تمھارے کانوں کے لئے ھُوں،تم دیوانے ھوئے جا رھے ھو۔تُم خود کو کیا سمجھتے ھو، تُم غیر مشہور، ، خنزیر کے گوبر کے ٹکڑے، میری محبت !۔۔یاد رکھو موت کے ساتھ ایمانداری آتی ھے میرے محبوب، اس لئے میں تمھیں تمھارے اؒصلی ناموں سے پکار سکتی ھوں
۔۔۔۔
بادلوں کے ھیولوں کی طرح کی ریکھا نے کچھ تیکھا کسیلا نہیں کہا تھا۔۔لیکن جبرائیل پھر چِلّایا۔۔۔اوئے چمچے کیا تمھیں اسکی زیارت ھوئی کہ نہیں بتاو !۔۔
، صلادین چمچے نے کچھ دیکھا ، نہ سُنا، اور اُس نے کچھ کہا۔۔
جبرائیل کو عورت سے خود مکالمہ کرنا پڑا، تمھیں ایسا نہیں کرنا چاھئیے تھا، ،،وہ بولی نہیں جناب، سچ مچ میں گُناہ تو گناہ ھی ھوتا ھے اور یہ سچ ھے۔
اور تم یہاں مجھے لمبا خطبہ دے سکتے ھو، کیونکہ تمھارا منصب بہت بالا ھے، یہ تم ھی تھے جو مجھے چھوڑ گئے۔۔اس نے فرشتے کے کان میں سرگوشی کی۔
اسکی سرگوشی سے فرشتے کو یاد آیا۔۔جیسے اسکے دماغ سے کچھ چٹکی بھر مغز نکال لے گئی ھو۔
یہ تم تھے،،،میری خوشی کے مہتاب، جو ایک بادل کے پیچھے چھپ گیا تھا۔ اور محبت کے لئے اندھے ھو گئے تھے۔۔اور گم گشتہ ھو گئے تھے۔۔
فرشتے پر خوف طاری ھو گیا۔ تم کیا چاھتی ھو؟ اچھا مت بتاؤ بس تم یہاں سے چلی جاؤ!۔۔
چلی جاؤں؟ دیکھو جب تم بیمار تھے، تو سکینڈل کی مشہوری کی وجہ سے میں تمھاری عیادت کو نہ آسکی ،یہ تمھارے فائدے کے لئے تھا لیکن جب تمھیں سزا ھوئی تم نے اس سزا کو ایک بہانہ بنایا اور مجھے چھوڑ گئے۔اس بادل کے پیچھے چھپ گئے ، تُم حرامی ! ۔۔اب جب کہ میں مر چکی ھُوں، میں بھول چکی ھُوں کہ کیسے معاف کیا جاتا ھے!۔میں تمھیں بد دعا دیتی ھُوں تمھاری زندگی دوزخی ھو،کیونکہ یہ وھی جگہ ھے جہاں تم نے مجھے بھیجا تھا،جہاں سے تم آئے ھو،او شیطان جہاں تم جا رھے ھو،،خون چوسئیے ! جا لہُو میں غوطہ لگا،

ریکھا کی بد دعائیں اور بعد کی آیات اُس زبان میں تھیں جو اُسے معلوم نہ تھی۔اُسے لگا کہ اُسے اس سارے کا کوئی اثر نہیں ھُوا یا شاید اثر ھُوا تھا۔۔ کیونکہ نام لبوں پر آ گیا تھا اَل لات !
وُہ چمچے کی جانب جھکا اور وہ غباری بادل سے نکل گئے۔
۔۔
، …
)اگلی قسط کا انتظار کریں(

۔

۔









ستارہ لکیر چھوڑ گیا ، تجزیہ، تنقید

ستارہ لکیر چھوڑ گیا ۔۔رفیع رضا

جہان ِ حیرت کا مسافر ۔ رفیع رضا
عرفان ستار۔۔۔۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں کہ میں نے اب سے پہلے رفیع رضا کو پڑھنے کی طرح نہیں پڑھا تھا۔ اسی طرح پڑھا تھا جیسے فیس بک پر سب پڑھتے ہیں۔ ایک عرصے تک تو رفیع میری فرینڈز لسٹ میں بھی شامل نہیں تھا۔ مگر اس دوران میں وہ اپنی غزلوں کے لنک مجھے ای میل کرتا تھا اور میں ایک سرسری پڑھت کے بعد جو مناسب سمجھتا تھا، وہ رائے دے دیتا تھا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ مگر اس دوران بھی بحیثیت شاعر، میرے دل میں رفیع کی قدر و قیمت موجود تھی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے رویّے کی شدّت دوسروں کی طرح مجھے بھی پریشان کرتی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ شخص دل جمعی سے شاعری کرنے کی بجائے یہاں وہاں جھگڑے کیوں مولتا پھرتا ہے؟ آخر مسئلہ کیا ہے اس کا؟ پاگل ہے؟ ذہنی مرض میں مبتلا ہے؟ خود پسند ہے؟ حاسد ہے؟ کیا ہے آخر؟ اس مسئلے کو زیادہ گمبھیر میں نے یوں بنا لیا کہ کینیڈا آنے کے بعد رفیع سے دو ایک ملاقاتیں ہوگئیں۔ یہ کیا؟ یہ تو کوئی اور ہی شخص ہے۔ پُرخلوص۔ گرم جوش۔ سلیقے کی گفتگو کرنے والا۔ تو پھر وہ کون ہے جو فیس بک پر آگ اگلتا پھرتا ہے؟ یہ مسئلہ کبھی میرے لیے سلجھنے والا نہ تھا اگر بھائی فرحت عباس شاہ نے مجھ سے رفیع کی شاعری پر کچھ لکھنے کے لیے نہ کہا ہوتا۔ جب یہ ہوا تب بھی میرا ابتدائی ردّ ِ عمل کوئی بہت مثبت نہ تھا، اگرچہ میں نے اس کا اظہار نہ کیا۔ ذہن میں یہ آیا کہ کیا مصیبت ہے۔ کس نے میرا نام سجھا دیا شاہ جی کو؟ خواہ مخواہ رفیع کی شاعری پر لکھ کر اس کے مخالفین کی باتیں سننے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر سوچا چلو خیر ہے۔ کاریگری دکھا دوں گا۔ صاحب ِ اسلوب، جدید فکر کا حامل، تازہ کار، اور اس قسم کی چند باتیں پھیلا کر لکھ دوں گا، جس میں کوئی فقرہ قابل ِ گرفت نہ ہوگا۔ سوال اٹھانے والوں سے کہہ دوں گا کہ یار۔ دنیا داری بھی کوئی چیز ہے۔ اگر نہ لکھتا تو لوگ کہتے کہ میں رفیع سے جلتا ہوں۔ نمبر ون کی لایعنی بحث بھی تو چھڑی ہوئی ہے۔ نہ لکھتا تو لوگ کہتے رفیع کے نمبر ون شاعر ڈکلیئر ہوجانے سے ڈرتا ہوں، اس لیے لکھ دیا۔ خیر ہے یار۔ دو ایک دن میں تحریر اپنی موت آپ مر جائے گی۔ لوگوں کی یاداشت بڑی مختصر مدت کی ہوتی ہے۔ کس کو یاد رہے گا؟
خیر اسی ذہنی کیفیت میں ’’ستارہ لکیر چھوڑ گیا’’ کا مطالعہ شروع کیا۔ پہلی بار سرسری نظر دوڑائی۔ وہی تاثر ابھرا کہ جو ہہلے سے تھا۔ اچھا شاعر ہے۔ مگر اتنا بھی اچھا نہیں۔ اخاہ۔ یہ لفظ کیسے استعمال کیا ہے؟ اور یہ ترکیب؟ یار کیسی پتھریلی زمین ہے۔ شدت ہے، مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چلو کل بیٹھ کر ایک آدھ گھنٹے میں نمٹا دوں گا مضمون۔ خیال سے لکھنا ہوگا۔ کوئی فقرہ سخت نہ ہو۔ کوئی بات حتمی نہ ہو۔ بس بین بین چلتا ہوا سلامتی سے گزرجاوٗں گا۔
اگلے دن پھر کتاب کھولی اور ذہن کو ایک شعر نے زوردار جھٹکا دیا۔
سو پھیلنے کی اسی حد پہ علم جاکے رکا
میں کہہ رہا تھا جہاں یہ سمٹنے والا ہے
یہ کیا ہے؟ ایکسپینڈنگ یونیورس تھیوری؟ مگر اس کا غزل میں کیا کام؟ اور پھر شاعر یہ بھی کہتا ہے کہ یہ جہاں سمٹنے والا ہے؟ گویا سائنس کا یہ ماننا کہ کائنات مسلسل پھیلنے کے عمل سے گزر رہی ہے، اور یہ عمل کسی وقت پلٹے گا، اور کائنات ایک مرکز کی جانب پھر سمٹے گی اور نتیجہ؟ وہ سب ٹھیک مگر یہ تھیوری غزل میں کیا کررہی ہے؟ کمال ہے۔ اور دیکہیں؟ چلو چلو۔۔۔آگے بڑھو۔
یہ جو موجود ہے، اسی میں کہیں
اک خلا ہے، تجہے نہیں معلوم
پیریلل یونیورس تھیوری؟ نا ممکن۔ یہ تکا ہے یار۔ شاعر کو کہاں معلوم ہوگا۔ یونہی لکھ دیا اور میں اس کو اپنے حساب سے توجیہ دینے لگا۔ پرے ہٹاوٗ یار۔ غزل کو غزل کی طرح پڑھو۔
نظر آتا ہے سر پر، اور نہیں ہے
رضا اس آسماں کا کیا کیا جائے؟
نہیں یار یہ خالص سائنس ہے۔ یہ تکا نہیں ہوسکتا۔ بالکل صاف، واضح شعر ہے۔ آسماں کا کوئی وجود نہیں۔ بس خلا ہے۔ اتھاہ، لاانت خلا۔ یہ آسمان صرف نظر کا دھوکہ ہے۔ یہ شخص کسی اور مقام سے کلام کررہا ہے۔ ہوشیار باش۔ ذرا خیال سے۔ معاملہ نازک ہے۔
دھڑکتی رہتی ہے کوئی گھڑی مرے دل میں
یہ وقت میرے ہی چکر سے ہوکے جاتا ہے
وجود سے باہر وقت کی کوئی حقیقت نہیں؟ ٹائم اینڈ اسپیس؟ کیا کررہا ہے یہ شخص؟ یہ تو سائنس سے زیادہ مابعدالطبیعات کا موضوع ہے۔ یہ کیا جہمیلا ہے یار؟
ستارے ہیں کہ دروازے کھلے ہیں آسماں کے
مجھے اب دربدر جانا ضروری ہوگیا ہے
بلیک ہولز؟ اینٹری پوائنٹ ٹو دی ادر ڈائمنشن؟ نہیں یار ستارے لکھا ہے۔ تو بلیک ہول سے پہلے کیا تھا؟
جدھر سے آرہا ہے وقت کا خاموش دھارا
رضا میرا ادھر جانا ضروری ہوگیا ہے
نہیں یہ محض اتفاق نہیں۔ ایک ہی غزل میں دو ایسے اشعار؟ یہ شخص جانتا ہے کہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ نہیں ہے۔ یہ آگہی کا سفر ہے۔ اس کی آنکھ کو کوئی ایسی جھری مل گئی ہے جس سے یہ ممنوعہ علاقے میں جھانک رہا ہے۔
پھسل گئیں مری آنکہیں پھر آسماں کی طرف
میں اس کے بعد وہیں پر خرام کرنے لگا
اس کے لیے آسمان سر تنی ایک چادر نہیں جس میں ستارے ٹنگے ہیں۔ اس کے بزدیک آسماں ایک لامحدود حقیقت ہے جہاں سے جہان ِ دگر کی راہ داریاں گزرتی ہیں۔ اس کے پاوٗں تو زمین پر ہیں، مگر اس کا سفر اس دوسرے جہان کا ہے، جہاں سے خبریں لا لاکر یہ لوگوں کو سنا رہا ہے اور جب وہ نہیں سمجھتے تو یہ جھلاتا۔ الجھتا ہے۔ چیختا ہے۔ سب سے لڑتا ہے۔ اس لیے کہ یہ سب سے محبت کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سب اس کے جہان ِ حیرت کے سفر میں اس کے ساتھ شریک ہوں۔ جہان ِ حیرت؟ حیرت؟ کیا یہ کلید ہے اس کی شاعری کا قفل کھولنے کی؟ چلو پھر چلو کتاب کے پہلے صفحے پر۔ حیرت۔۔۔۔۔
مرے لیے گُل ِ حیرت کھلا ہوا رکھنا
رضا ابھی مرے پاس آنکھ کا پرندہ ہے
منظر سے میں کہتا ہوں کہ حیرت مجھے دے دے
منظر مجھے کہتا ہے نظر کاٹ کے دے دوں
میری جراٗت کہ میں حیرت کی کہانی لکھوں
میں الف کی ابھی تفسیر نہیں کرسکتا
اب تک رکا ہوا اسی حیرت کدے میں ہے
لگتا ہے پھر خمار میں آیا نہیں ہے تُو
نئی حیرت تھی اس لیے سب لوگ
رک گئے، اور میں بے خطر گھوما
ہاں ہاں ہاں۔ حیرت۔ اور نئی حیرت۔ سائنس کی تازہ تر دریافتوں سے وا ہونے والی دنیا کی حیرت۔ ایک ایسا طلسم کدہ جس میں ایک بار جھانکنے کے بعد اصل کے سامنے آئینہ بے حیثیت ٹھہرتا ہے۔ یا حیرت۔
کوئی منظر خرید سکتا ہے
مجھ کو حیرت کے ایک دھیلے میں
یہ ہے مسئلہ اس پاگل کا؟ یہ اگہی سے دامن چاک کرکے گھومتا ہے؟ ایسی چاک دامانی کی بخیہ گری جنوں کے بس میں نہیں۔ اس کا کوئی علاج نہیں۔ آگہی کی طلب مزید کھوج ہے۔ اور یہ لگا رہتا ہے اسی کھوج میں۔ کیا واقعی؟ اور دیکہیں؟
شاید اسے کہیں کوئی حیرت دبوچ لے
حدّ ِ نظر سے آگے اچھالی ہوئی ہے آنکھ
حیرت مجھے لگتی ہے کوئی آٹھویں رنگت
یہ رنگ مری آنکھ میں بھرنے کے لیے ہے
گویا یہ سب اتفاق نہیں؟ یہ شخص اٹھویں رنگ کو منظر میں بھرنے اور آٹھواں سُر راگ میں لگانے کی دھن میں تصویر بناتا اور گیت سناتا ہے؟
حیرت کسی صورت مجھے چلنے نہیں دیتی
اور اگلا نظارا مجھے رکنے نہیں دیتا
یائے ہائے۔ کیسی کشکمش لکھی ہے اس شخص نے۔ ایک طرف حاضر منظر کی گہرائی ہے جو مزید رکنے کا تقاضا کررہی ہے، اور دوسری جانب آگہی کا یہ اعلان ہے کہ آگے چل۔ آگے اور بھی بہت کچھ ہے۔ کتنی مختلف ہے یہ شاعری معلوم کے بیان سے؟ نامعلوم کی پراسراریت، رمزیت، اور ’’امکانیت’’ ہی اور ہے۔
اکیسویں صدی جس میں ہم سانس لے رہے ہیں، دو اعتبار سے انسانی علم کے مروّجہ قوانین اور ٓاصولوں کی دھجیّاں بکھیر رہی ہے۔ ایک کوانٹم فزکس میں ہونے والی پیش رفت، اور ایک پیراسائکولوجی کا پھیلتا ہوا منظرنامہ۔ یہ دوعلوم اس معلوم دنیا کو ایک یکسر نئی شکل دے رہے ہیں، مگر اس کے چھینٹے اردو غزل میں؟
حیرت ہے رقص میں تجہے کیا دیکھنے کے بعد
اے ذرّے کی دہمال، تجہے کیا مثال دوں؟
یہ وہ ذرّہ نہیں جو اس خاک کا ہوتا ہے جو عاشق کوچہٗ ِ محبوب میں اڑاتا پھرتا ہے۔ یہ اس ’’الیکٹرون’’ کا رقص ہے جو ساری وجودی حقیقتوں کی بنیاد میں جلوہ فرما ہے۔ آنکہیں کھلنے لگی ہیں اب۔ اشعار مزا بھی خوب دے رہے ہیں۔
مری نگاہ تو حیرت سے بات کرتی ہے
سو اس کو روکنا میری زباں پکڑنا ہے
میں ایک شرط پہ آوٗں گا بزم ِ یاراں میں
مرے لیے کسی حیرت کا اہتمام کرو
سن لو یارو۔ سمجھ لو کہ رفیع کیوں تمہاری غزلوں کی تعریفوں کے پل نہیں باندھتا؟ اسے حیرت مہیّا کرو۔ پھر دیکھو یہ کیسے ایک چھوٹے بچے کی طرح ہمکتا اور خوش ہوتا ہے اور تمہیں گلے لگاتا ہے۔
یہ جو ہر سمت میں لکھی ہوئی اک نظم سی ہے
اس کے حیرت بھرے اشعار سے باندھا ہوا ہوں
ایک منظر ہے کہ اوجھل ہے مری آنکھوں سے
ایک حیرت ہے کہ میں جس سے لگا پھرتا ہوں
بجھا ہوا کوئی منظر مجھے قبول نہیں
میں اپنی آنکھ سے حیرت نکال پھینکوں گا
عطا ہوا ہے مجھے حیرتوں کا شمس ِ منیر
مری نگاہ نئے منظروں سے روشن ہے
اسے تو کوئی بھی حیرت لگا کے لے جائے
میں اپنی آنکھ کی بے رہ روی سے ڈرتا ہوں
کیسی بے راہ روی ہے جو درست راستے پر لگا دیتی ہے؟ کیسا جہان ِ حیرت وا ہوتا جا رہا ہے۔ سبحان اللہ۔
گم کدے میں حیرتوں کا سلسلہ رکھا گیا
مجھ کو تنہا چھوڑ کر بھی رابطہ رکھا گیا
حیرتی ہوں سو مری کون ضمانت دے گا؟
کوئی منظر بھی مجھے وجد میں لاسکتا ہے
جو شک کا ذائقہ آیا ہے آب ِ زمزم میں
تو کیا یقین کا زمزم نتھارنا پڑے گا؟
ساری حیرت تو مری آنکھ اٹھا لائی ہے
میرے دیکہے ہوئے کو یار کہاں دیکھتے ہیں؟
یہ ہے گلہ۔ یہ ہے مسئلہ۔ حیرت یا اخی حیرت۔
نازل ہوا ہے آنکھ پہ منظر کے سامنے
حیرت نیا فرشتہ ہے اس دین کے لیے
کیا سمجھے؟ نشانیاں۔ عقل والوں کے لیے۔ عقل والوں کا پہلا ردِّ عمل؟ حیرت۔
All knowledge starts with curiosity!
Imagination is more important than knowldge. (Einstein)
کن لوگوں کا ہمسفر ہے یہ شخص؟ دیکھو۔ سمجھو۔
حصار پر گلِ خوبی کے گرد میرا ہے
جسے میں دیدہٗ ِ حیران سے بناتا ہوں
تو اس حیرت کے سفر نے کیا دیا رفیع رضا کو؟ ایسے نئے اشعار کہ اب آپ دیدہٗ ِ حیرت وا کرکے پڑہیں تو لطف آجائے۔ چلیں میرے ساتھ اس جہان ِ حیرت کے سفر پر۔
اب کسی شعر کی وضاحت میں نہیں کروں گا۔ ہر شعر پر ذرا رکیں اور سوچیں۔ مابعدالطبیعاتی تناظر کو ذہن میں رکہیں اور میرے ساتھ ورطہ ٗ ِ حیرت میں پڑ جائیں اور رفیع رضا کے لیے دعا کریں۔ اس کے سوالات پر غور کریں کہ سوچنے والے ذہن کا کام محض جوابات سے لطف لینا نہیں، سوال اٹھانا بھی ہے۔ بلکہ سوال اٹھانا ہی ہے۔ یہ بھی دیکھئے گا کہ رفیع مضامین کو کیسے برتتا ہے۔ کیسے ایک مکمل تعقل کے موضوع میں کیفیت پیدا کرتا ہے۔ کیسے اس کا لفظیاتی نظام موضوع سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ تمام باتیں الگ الگ مضمون کی متقاضی ہیں، مگر سر ِ دست صرف ان خوبیوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔
یہ پھڑپھڑاتا ہوا شعلہ کھول دے کوئی
بندھا چراغ سے کیوں آنکھ کا پرندہ ہے؟
کہیں کوئی خلا میرے نہ ہونے سے بھی ہوگا
جسے اب مجھ سے بھر جانا ضروری ہوگیا ہے
یہ بتا سکتا ہوں وہ آگ مقدّس ہے مگر
اپنے جلنے کی میں تشہیر نہیں کرسکتا
آسماں سے بھی یقیں اٹھتا چلا جاتا ہے
ایسا ہونا تو نہیں چاہیئے، پر ایسا ہے
ہر طرف آسمان کھلتا ہے
میں کہیں سے فرار نہ ہو جاوٗں
میرے ذرّے کو چمکنا ہے اسی نور کے ساتھ
وہ مری خاک سے بچ کر نہیں جانے والا
میں اگر زندہ رہوں گا تو چلا جاوٗں گا
میں یہاں سے کبھی مر کر نہیں جانے والا
نئے ہیں لوگ، سوالات بھی نئے لائے
اٹھا یہاں سے پرانا جواب اور نکل
تجہے پتہ ہے بگولے کی آنکھ میں تو ہے
سو اپنے گرد مرا انہماک دیکھنے آ
میں پکارا، کوئی نہیں بولا
پھر مرا خامشی سے دل نہ بھرا
کہیں مثال نہیں ہے کہیں پرندوں میں
کسی الاوٗ کے اتنا قریب جانے کی
میں مر رہا ہوں کسی اور زندگی کے لیے
نہیں ہے کوئی ضرورت مجھے بچانے کی
بچے کچہے یہی منظرسمیٹ آنکھوں میں
کوئی ترے لیے کتنے نشان چھوڑے گا؟
کھلا یہ راز کہ وحدت میں کیا بڑائی ہے
میں جب حقیر ہوا جمگھٹوں کے ہونے سے
میں تجھ کو دیکھ چکا اور تجھ کو جان چکا
میں تجھ کو مان چکا آئینے کے ہونے سے
وہ روشنی مری بینائی لے گئی پہلے
پھر اس کے بعد مرا دیکھنا مثال ہوا
میں اس کے سامنے بیٹھا کہ میں جھکوں لیکن
وہ شولہ رُو تو مرا احترام کرنے لگا
تُو کائنات تو کیا، میرے دل پہ بات نہ کر
ترے لیے یہ کہانی ذرا زیادہ ہے
پہلے دیوار کی صورت تھا یہ آئینہ مجھے
اب میں اِس پار سے اُس پار بھی تکنے لگا ہوں
میں اپنی خاک اڑاتا ہوں آسمان تلک
وگرنہ کون سرے سے سرا ملاتا ہے؟
ایسا لگتا ہے کوئی کھول نہیں پایا مجھے
ایسا لگتا ہے بڑے پیار سے باندھا ہوا ہوں
میں پار دیکھ رہا ہوں بڑی سہولت سے
اور آئینے کو یہاں سے ہٹا رہا ہے تُو؟
روک لے ایک گزرتے ہوئے لمحے کو یہیں
شے کوئی جیسے پڑی ہے وہ پڑی رہنے دے
یہ کیسا تعلق ہے سمجھ میں نہیں آتا
کیوں بیچ میں بے انت خلا چھوڑنا پڑ جائے
کہ ایک روز کھُلا رہ گیا تھا آئینہ
اگر گواہ بنوں تو بیان دے دوں کیا؟
میں سامنے سے اٹھا اور لو لرزنے لگی
چراغ جیسے کوئی بات کرنے والا تھا
کہاں یہ خاک کے تودے تلے دبا ہوا جسم
کہاں میں سیر ِ سماوات کرنے والا تھا
دکھا رہے ہو مجھے آسمان کا رستہ
مری اڑان کا آغاز کر رہے ہومیاں
وہ آگیا ہے زیادہ قریب آنکھوں کے
اسی لیے تو ذرا بھی نظر نہیں آتا
جا اپنے آسمان کو خود ہی اٹھا کے پھر
میں تو ہٹا رہا ہوں سہارا دماغ کا
اک سرنگ آنکھ میں لگتی ہوئی پکڑی بروقت
سارے قیدی تہے مری آنکھ سے جانے والے
مرا بدن مجھے اک قید خانہ لگتا ہے
یہاں خبرنہیں کتنا زمانہ لگتا ہے
یہ کیا کیا مجھے اڑنا سکھا دیا تُو نے
اب آسمان بھی مجھ کو پرانا لگتا ہے
لوگ روئے بچھڑنے والوں پر
اور ہم خود کو ڈھونڈ کر روئے
اڑان فرض ہوئی اب مجھے اجازت دو
میں بازووٗں پہ نئے پر نکال بیٹھا ہوں
پر، پرندہ، چراغ، شعلہ، آسمان، اور آنکھ اس جہان ِ حیرت کے سفر میں رفیع کا رخت ِ سفر ہے۔ یہ اس کے دوسری اقلیم میں داخل ہونے کے پاس ورڈ ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ اپنی شاعری کی تفہیم کرنے پر دوسروں کو مجبور نہیں کرسکتا۔ مگر وہ جانتا ہے یہ وہ ریگ زار ہے جس پر ’’تیاری’’ کے بغیر قدم دھرا تو پاوٗں جل جائیں گے۔ اسی لیے تو وہ کہتا ہے۔۔۔۔
میں نے سب سے کہا رکو، ٹھہرو
دیکھتا ہوں میں جاکے آتش کو
وہ اس پار کا منظر دیکھتا ہے اور اس پار کے لوگوں کو خبر کرتا ہے، مگر وہ لوگ نہیں سمجھتے۔ شاید سمجہیں گے بھی نہیں۔ مگر وہ اس بات سے لاپروا اپنے سفر میں مگن ہے۔ یہ اس کی اپنی دنیا ہے جس میں وہ بلا خوف و خطر گھومتا ہے، منظروں سے حیرت سمیٹتا ہے، لفظوں میں بنتا ہے، اور آگے چل پڑتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ انت سے آگے ایک سفر ہے۔۔۔۔۔
ایسا نہیں کہ اس کے یہاں کمزوریاں نہیں ہیں۔ بہت ہیں۔ مگر وہ کمزوریاں اس بزدل کی نہیں جو اپنی کمزوریوں پر کھوکھلے لفظوں کا ملمع چڑھاتا رہنا ہے۔ یہ کمزوریاں اس جراٗت مند شخص کی ہیں جو اپنے سفر کے دوران ملنےوالی صعوبتوں کو بھی انعام تصور کرتا ہے کیونکہ اس سے اسے حیرت کا خزانہ ملتا ہے۔ فنی کمزوریاں بھی ہیں، مگر وہ کس کے یہاں نہیں ہوتیں؟ اردو شاعری کو جو رفیع رضا سے مل رہا ہے وہ ایک نیا راستہ ہے جس قدم رکھنے سے پہلے وہ رخت ِ سفر بھی مہیّا کرنا ہوگا جس کے ساتھ نئی منزلوں کی جانب پیش قدمی کی جاسکتی ہے۔ رفیع رضا بڑا شاعر نہیں۔ رفیع رضا عظیم شاعر بھی نہیں۔ مگر رفیع رضا ایک بہت اہم شاعر ہے، جو اگر اپنا سفر جاری رکہے تو ایک دن ان منزلوں تک رسائی پاسکتا ہے جو کم کم لوگوں کا نصیب ہوتی ہیں۔ یہ امکان خود میں ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور میں اس کامیابی پر رفیع کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
نظر انداز میں ہُوا لیکن
کس قدر ظلم حرف و فن سے ہوا
یہ ظلم رفیع کے نزدیک اسے نظرانداز کرنے کا ظلم نہیں، بلکہ ان لوگوں کا راستہ روکنا کا ظلم ہے جو نئی منزلوں کی دریافت میں رفیع کے ہم سفر ہوسکتے ہیں۔
ابھی بہت سی باتیں رفیع کا آئندہ سفر طے کرے گا۔ مجھے امید ہے کہ سرِ دست رفیع پر ’’صوفی شاعر’’، ’’سائنسی شاعر’’ ’’با بعدالجدیدیت کا شاعر’’ وغیرہ قسم کے لیبل نہ لگائے جائیں اور اسے اپنا سفر اسی انہماک سے جاری رکھنے ریا جائے، جو اس کے لیے بڑی کامیابوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس کی شاعری کا ایک حصہ معاشرتی برائیوں کی عکاسی اور منافقت کے خلاف آواز اٹھانے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس میں وہ اکثر نعرے بازی کا شکار نظر آتا ہے مگر صاحب۔ احتجاج میں نعرہ تو لگتا ہی ہے، سو یہ بھی ٹھیک ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس گوشے پر کسی نہ کسی دوست نے ضرور گفتگو کی ہوگی چونکہ میں نے ابھی باقی مضامین نہیں پڑہے اس لیے یقین سے نہیں کہہ سکتا، مگر ایک مختصر تحریر میں ایک اچہے شاعر کا مکمل احاطہ کرنا ناممکن ہے، اس لیے اسے کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ موقع اپنی علمیت جھاڑنے کا نہیں بلکہ ایک خوبصورت شاعر کےکام کو سراہنے کا ہے اس لیے میں نے زیادہ توجہ اس کی شاعری سے اچہے اشعار آپ تک پہنچانے پر دی ہے۔ مگر یہ صرف انتخاب ہے۔ ستارہ لکیر چھوڑ گیا میں اور بہت مال ہے۔
اس مضمون کا مقصد رفیع کی شاعری کے اس گوشے کا قفل کھولنے کی کوشش یا کم ازکم اس کی کنجی مہیّا کرنے کی سعی تھی۔ امید ہے کہ کچھ نہ سہی مگر یہ مضمون رفیع کی شاعری کے اس بڑے حصے کی طرف احباب کی توجّہ ضرور مبذول کرائے گا جو اس کی شاعری کی اصل ہے اور جہاں سے وہ راستہ نکلتا ہے جو اس کا اصل راستہ ہے۔ اس کی منزل کا راستہ۔ جہان ِ حیرت سے گزرتا ہوا راستہ جہان ِ نامعلوم کی طرف جاتا ہوا راستہ۔
آخر میں رفیع کا وہ مزاج اور رویّہ جو لوگوں کو گراں گزرتا ہے تو صاحبو۔ شاعری جب شاعر کے وجود سے سفر اختیار کرلیتی ہے تو اپنا ایک علیحٰدہ وجود رکھتی ہے۔ اسے اس کی شخصیت سے الگ پرکھو اور اسے اس کا جائز حق دو۔ رہی شخصیت کی بات تو یہ پڑھ لو۔۔
جیسا بھی ہوں سینے سے لگا لو مجھے یارو
اب وقت ذرا کم ہی سدھرنے کے لیے ہے
عرفان ستار
ٹورنتو
۲۵ دسمبر
۲۰۱۰۔
………………………………………………………………………..
…………………………………………………………………………
NASIR ALI
ناصر علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستارہ لکیر چھوڑ گیا۔
رفیع رضاسے میری پہلی ملاقات رحمانپورہ لاہور پر اسی کی دہائی کے وسط میں ہوئی۔صحت مند چہرہ ،رنگ سرخ لیکن سیاہی مائل،شفاف شفاف آنکہیں لیے یہ نوجوان مجھے بہت اچھا لگا ۔چونکہ ہم دونوں تحصیل چنیوٹ سے تہے اس لیے ایک دوسرے سے قریب ہو جانا عین فطری تھا ۔ میں کیریم بہت اچھا کھیلتا تھا۔ اس نے میرے ساتھ میچ کھیلا۔ ہار جانے پر افسوس کی بجائے اس نے اگلا میچ اور جذبے سے کھیلا۔ کیریم کا بہت اچھا کھلاڑی نہ ہونے کی وجہ سے رفیع رضادوبارہ ہار گیا لیکن بعد ازاںاسے جب بھی موقع ملتا مجھے ہرانے کی کوشش کرتا ۔ مجھے اس کا یہ انداز بہت پسند آیا کہ یہ شخص مایوس ہونے کی بجائے کوشش پر یقین رکھتا ہے۔اب جب میں اسے مختلف مواقع پرکسی نہ کسی معاملے میں الجھا ہوا دیکھتا ہوںتو مجھے ہار نہ ماننے والا نوجوان رفیع رضا یاد آجاتا ہے ۔
گاہے بگاہے ہم ایک دوسرے ملتے رہے ۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ معاملہ کیسے کھلا کہ ہم دونوں شعر بھی کہتے ہیں لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ رفیع رضانہ صرف اچہے اچہے شعر سناتا تھا بلکہ عروض کے علاوہ دوسرے ٹیکنیکل مسائل پربھی توجہ مرکوز رکھتا تھا۔ملاقاتوں کا یہ سلسلہ تقریباً چار سال تک قائم رہا اور اس کے بعد اچانک رفیع رضا سے ملاقات ختم ہوگئی کیونکہ اس نے لاہور چھوڑ دیا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد میرا یہ دوست فیس بک پر کچھ یوں نمودار ہوا کہ بعد ازاں مجھے بھی اپنے ساتھ کھینچ لایا۔سو جب کچھ دن پہلے جب محترم فرحت عباس شاہ صاحب نے حکم دیا کہ رفیع رضا کی شاعری پر مضمون لکھو تو مجھے نہ صرف مسرت بلکہ ذمہ داری کا احساس بھی ہوا کہ معاملہ ذاتی دوست کا ہے ۔
رفیع کی غزل پر بات کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ شاعری کی بابت اپنا نقطہ ءنظر بیان کر دوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ شعر کا لفظ شعور سے مشتق ہے یعنی شعور کا اظہار ۔ لیکن شعر میں شعور کا اظہار ایک خاص سلیقہ بھری بنت سے کیا جاتا ہے ۔ میرے ذاتی خیال میں شعر شعور یعنی بات کا بیان ہے ۔ کچھ دوست شاعری کو صرف تخیل کا اظہارقرار دے کر محدود مضامین کی قید میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ جبکہ کافی دوست شعر کو شعور اور تخیل کے ملاپ سے تشکیل پانے والا فن سمجھتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ وہ دوست جو شعر کو صرف تخیل کے اظہار قرار دیتے ہوں اس قضیے سے اختلاف کریں۔ ان دوستوں کا اختلاف سر آنکھوں پر کہ اختلاف ہی زندگی کا حسن ہے۔میں ذاتی طور پر پہلے اور تیسرے بیان سے متفق پا تا ہوں یعنی شعور کا شعری فنی حدود کے اندر رہتے ہوئے با سلیقہ بیان بھی میرے نزدیک شاعری قرار پاتا ہے اور شعور اور تخیل کے ملاپ سے تشکیل پاکربات کا فنی حدود کے اندر رہتے ہوئے با سلیقہ بیان بھی میرے نزدیک شاعری قرار پاتا ہے۔
میرے نظریہ شعر کے ساتھ ساتھ اردو غزل کے سفر پر چند معروضات پیش کرنا ضروری ہے ۔ یہ کہ اردو غزل کلاسیکی شعرا سے سفر کرتی ہوئی جب مولانا حالی تک پہنچی تو حالی نے اسے اسے طے شدہ استعارات و نظام علامات سے نکال کر نئے استعاراتی نظام کی جستجو پر لگا دیا ۔ بعد ازاں غزل اقبال سے ہوتی ہوئی عہدِ موجود تک پہنچی۔اس سفر کے دوران غزل بہت سے لسانی تجربات سے گزری ۔ مضامین کی سطح پر بھی بہت سے اضافے ہوئے۔ایسا بھی ہوا کہ نظم نے 1960کی دہائی میںصنف ِ غزل کی موت کا اعلان بھی کیا۔لسانی تشکیلات کے نعرے کے ساتھ نظم گو حضرات ایک تحریک بنانے میں بھی کامیاب ہوئے۔ لیکن غزل اتنی سخت جان نکلی کہ ہر مشکل سے نبرد آزماءہوتی ہوئی رفیع رضا جیسے صاحب ِ کمال شاعرتک آپہنچی ہے۔ اس سفر کے دوران غزل مختلف اسالیب سے گزری جن میں اہم طنزیہ و مزاحیہ اسلوب مثلاً اکبر الہ آبادی،تند خوئی مثلاً یگانہ ، اعلی اقدار پر مشتمل اسلوب مثلاً علامہ اقبال،نیم رومانی اسلوب مثلاً فراق،بعد ازاں لسانی تجربات کا ایک سلسلہ بھی چلا۔غز ل میں داستانی اسلو ب کو ثروت حسین جیسے شعرا نے رواج دیا اور کچھ شعرا نے تصوف کے مضامین کی مدد سے ایک نیا اسلوب دریافت کرنے کی کوشش کی جو میرے ذاتی خیال میں ابھی پوری طرح تشکیل نہیں ہو پایا۔اسلوب کے حوالے سے میں رفیع رضا کی غزل پر آخر میںبات کروں گا۔
رفیع رضا ایسا شاعر ہے جو غیر ضروری دباوکے تجربات سے گزرا۔اس دباو کی مختلف اشکال تہیں اور ہیں۔معاشی دباو کے ساتھ ساتھ سیاسی بد حالی اوربعد ازاں ہجرت کا تجربہ ۔ ہجرت کے نتیجے میں بیرون ملک تہذیبی اختلافات نے اور ہی قسم کے دباو جنم دئیے جو صرف ہجرت کرنے والا شخص ہی محسوس کر سکتا ہے۔یوں رفیع رضا جیسا شاعر ان تمام تجربات اور دباو سے گزرتا اور اظہار کا وسیلہ بصورت غزل لیے ہمارے سامنے موجود ہے۔
ستارہ لکیر چھوڑ گیا میں ایک سو پچاس غزلیں موجود ہیں جبکہ اس سے کہیں زیادہ غزلیں کتاب کی ضخامت کے باعث التوا میں ڈال دی گئی ہیں۔میں اس کتاب کی اشاعت کے سفر میں تقریباً ہر مرحلے پر موجود رہا ہوں۔اس دوران میں نے اس کتاب کا ایک ایک شعرکم از کم دو مرتبہ ضرور پڑھا۔کہیں پہلے بھی میں یہ لکھ چکا ہوں کہ رفیع رضا کی غزل نہ صرف تروتازہ لگتی ہے بلکہ یہ غزل کسی استادکی تھپکی کی جتنی پر اثراور نوجوان چہرے جیسی پر جمال ہے ۔کہیں یہ انسانی نفسیاتی تاریخ رقم کرتا نظر ٓتا ہے تو کہیںعلم الکلام کی ساری کتابوں کو شعری ٹھوکر مارتاہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔ کہیں اس کی غزل انوکہے اظہار سے گزرتی ہے تو کہیں روایت کے ملبے میں مدفون لاشوں پر فاتحہ خوانی اہتمام ہوتا ہے۔ رفیع رضاکی غزل نہ صر ف دل میں کھب جاتی ہے بلکہ اس کی غزل میں وقت بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔رفیع رضا کی غزل میں غزل اور مکالمے کا ملاپ بہت دلچسپ ہے اوراس ملاپ سے یہ بھی سیکھا جا سکتا ہے کہ مصرعے کو اپنی ساخت میں سیدھا کیسے کیا جائے۔ ہر لفظ اتنا موزوں بیٹھتا ہے جیسے غزل نہ ہو گفتگو کی جا رہی ہو۔رفیع رضاکی غزل میں موجود مضامین بوسیدگی کی بو سے بالکل پاک ہوتے ہیں وہ بالکل جگالی نہیں کرتابلکہ اپنے ہونے،کرنے اور بیتی واردات سے غزل کشید کرتا ہے ۔میں کہا کرتا ہوں کہ رفیع رضا بستر پر لیٹ کر ستاروں پر کمند ڈالنے والا شاعر نہیں بلکہ اس کا عمل ہی اس کی شاعری ہے۔یعنی اس کی غزل میں وقت بولتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔
میرے خیال میں مشتمل بر ردیف غزل کی عمارت قافیے پر نہیں ردیف کے مناسب ترین استعمال پر کھڑی ہوتی ہے ۔ حالانکہ کہ زیادہ تر شعرا دوران ِ نزول ِ غزل اور بعد ازاں غزل پر نظر ڈالتے وقت قافیے کی طرف توجہ زیادہ مبذول رکھتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ رفیع قافیہ بندی کے ساتھ ساتھ ردیف پر گہری نظر رکھتا ہے ۔ رفیع رضا کی غزل نہ صرف طے شدہ معیارات پر پوری اتری ہے بلکہ مشکل ترین ردیف کو بھی اتنی سہولت اور ہنرمندی سے استعمال کرتا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔دور جانے کی ضرورت نہیںمثال کے طور پر اس کتاب کی پہلی پانچ غزلوںکی ردیفیں حاضر ہیں۔میں مجھے مل، پرندہ ہے،کاٹ کے دے دوں،سے گرے گا،لگی ہو تم۔ علاوہ ازیں رفیع رضا کی بہت بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ صرف اپنی زمینوں پر کاشت کرتا ہے ۔ اس کے ہاں نئی نئی زمینوں کی دریافت اور ان زمینوں میں کہی گئی غزلیں اپنی مثال آپ ہیں ۔کسی شاعر کی تخلیقی صلاحیت کو جانچنا ہو تو اس کی تخلیق کردہ زمینوں سے اس کے قد کاٹھ کا با آسانی پتا چلایا جا سکتا ہے ۔ رفیع اس معیار پر نہ صرف پورا اترتا ہے بلکہ اس حوالے سے بہت اہم شاعر قرار پاتا ہے۔ آ ئیے اس کی دریافت کردہ زمینوں میں کچھ زمینوں سے لطف اندوز ہوں ۔
غزل کو یاروں نے حجرہ بنا لیا ہوا ہے
ایک مجذوب اداسی میرے اندر گم ہے
بس آنکھ لایا ہوں اور وہ بھی تر نہیں لایا
گزرتے جا رہے ہیں دن، گزارا ہو رہا ہے۔
کچھ نہ کچھ ہونے کا یہ ڈر نہیں جانے والا۔
چاک پر ایسے میرا سر گھوما۔
اے وقت کے امام کہیں میں نہ چل بسوں۔
دن کے اجلے سفید تن سے ہوا۔
رفیع رضا کے ہاں اتنی زیادہ نئی زمینیں ہیں کہ مجھے مشکل ہو رہی ہے کہ کس کس کا ذکر کروں۔ اردو غزل احسان فرموش نہیں ۔ جس شاعر نے اردو غزل کے ساتھ پوری طرح جڑ کر اس کی خدمت کی ،غزل نے اسے یاد رکھا ۔ سواس حوالے سے رفیع رضا کا نام اردو غزل کی تاریخ میں ہمیشہ موجود رہے گا کہ اس نے نئی نئی زمینوں کی دریافت میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔
رفیع رضا کا ایک اور اہم کام یہ ہے کہ اس نے روزمرہ زندگی کے مکالماتی انداز کو غزل کی زبان بنا دیا ہے ۔ اس کا یہ مکالماتی اسلوب اس دور کی ضرورت بھی ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں فارسی کو سکولوں سے تقریباً خارج کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے مستعمل زبان کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان کتابی اور شعری اردو سمجھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے رفیع رضا کا مکالماتی انداز اور روزمرہ کی زبان میں معیاری اور بہترین غزل بہت اہم کام ہے ۔ بہت سے شعرا محدود اور مخصوص لفظیات میں مبتلا ہونے کے باعث عام مستعمل زبان سے شعر کشید کرنے سے قا صر رہتے ہیں۔ شعرا کی اس وجہ سے نوجوان نسل شعر سے دور ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے میں رفیع رضاکی غزل اردو زبان کے لیے تحفہ ہے۔
اردو شاعری میں اضافتوں کے استعمال پر بہت سی گفتگو کی جاسکتی ہے۔ اضافت اظہار کی سہولت دیتی ہے لیکن ساتھ ساتھ زبان کو بوجھل بھی بنا دیتی ہے ۔ بہت سے شعرا تو ایک سیدھا مصرعہ نہیں کہہ سکتے۔بعض اوقات تو اردو کی بجائے جناتی زبان بن جاتی ہے۔شعر کے ایک مصرعے میں دو اضافت فی مصرعہ کا حساب لگائیں تو پانچ اشعار کی غزل میں بیس عدد اضافیتں موجود ہوتی ہیں ۔ رفیع رضااس معاملے میں بہت سلجھا ہوا رویہ رکھتاہے۔ عام طور پر اس کی غزل اضافت سے پاک ہوتی ہے ۔اگر کہیں ضروری ہو تو اضافت اتنی سہل ہو کر آتی ہے کہ ذرا بھی بوجھل محسوس نہیں ہوتی۔اس کے ہاں آسان لیکن تازہ اضافت بھی موجود ہے لیکن مقدار میں بہت کم کیونکہ یہ اس طرف توجہ ہی نہیں دیتا۔
جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ رفیع رضااردگرد کی زندگی اور انسانی تعلقات کو پوری طرح محسوس کرتا ہے اسی احساس کے تحت وہ اردو شاعری میں روائیت کے اندر رہتے ہوئے تعلقات میں بہتری کی تلاش میں رہتا ہے۔اس تگ دو نے اس کے شعری اسلوب کو تخلیق کیا ہے۔ رفیع رضا مسلمات پر اعتبار کرتا ہے لیکن کہیں کہیں انحراف کے رستے بھی نکال لیتا ہے ۔ میرے خیال میں اس کے اسلوب کے اہم پہلو کچھ یوں ہیں ۔(1) رفیع رضا نے اردو غزل میں مستعمل اسلوب سے واضح انحراف کرتے ہوئے غزل کو عام فہم بنا دیا ہے ۔(2)رفیع رضا نے نئی شعری علامتوں کو تشکیل دنے کی کوشش کی ہے جو کہ قابل تحسین ہے۔(3)لسانی سطح پر اردو غزل مشکل پسندی کا شکار تھی۔رفیع رضا نے اسے سیدہے اور آسان رستے پر ڈالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔(4)موضوعات کی سطح پر بھی اردو غزل محدودات کا شکار تھی۔ رفیع رضانے غزل کو محدود مضامین سے نکال کر بہت سے نئے امکانات کا در کھول دیا ہے۔(5) رفیع رضا نے کسی ایک موضوع سے وابستہ نہ رہ کر تمام زندگی کو شعر کا موضوع بنا کر ثابت کیا ہے کہ غزل کم مایہ اور کمزور وسیلہ اظہار نہ ہے ۔اگر صلاحیت ہو تو کوئی بھی بات سلیقے سے غزل کا حصہ بنائی جا سکتی ہے آخر میں کہنا چاہوں گا کہ ہماری رسمی شاعری اس قدر بے ہوش ہو چکی ہے کہ اس کی کائنات ایک بند کمرے سے زیادہ وسیع نہیں ۔ یہ رفیع رضاجیسے شاعر کا کام ہے کہ اس نے اپنے اردگرد کواپنی ذات سے علیحدہ کرنے کی بجائے اسے بھی اپنی ذات کا حصہ سمجھا اور بے ہوش اور رسمی شاعری کو بند کمرے میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور اپنے لیے نئے میدان تلاش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ (ناصر علی مورخہ
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا ، ایک منفرد اور بلند پرواز پرندہ
تبسم وڑا ئچ صآحب۔

بعض لوگ ادب کی تخلیق کے حوالے سے ادب برائے ادب کا پرچم اٹھائے پھرتے ہیں لیکن اگر ادب زندہ انسانوں کے حوالہ سے اور زندگی کے کینوس پر رنگ پکھیرنے کے پس منظر کے ساتھ صورتگری کا حامل ہے تو پھر ادب برائے زندگی اپنے اندر ایک بھرپور معنویت اور مقصدیت کا پیغامبر ہےِ ۔
آج مجھے جس تخلیق کار کے فن اور ادبی محاسن پر اپنی معروضات پیش کرنا ہیں وہ بھی ادب برائے زندگی کے روح پرور نظریہ پر یقین رکھتا ہے ۔ حال ھی میں اس منفرد لب و لہجہ کے مالک شاعر کا شعری مجموعہ ” ستارہ لکیر چھوڑ گیا ” کے نام سے منصّہء شہود پر آیا ہے ۔ اور شناوران سخنوری سے داد و تحسین سمیٹ رھا ہے ۔
گو کہ میں ابھی مذکورہ کتاب کا جم کے مطالعہ نہیں کر پایا لیکن جتنا بھی مطالعہ کیا ہے اس کے زریعہ مجھ پر ایک ایسا درِ حیرت وا ھوا ہے کہ جس نے مجھے ایک ایسے رفیع رضا سے متعارف کروایا ہے جس سے پہلے میں نا آشنا تھا ۔ مجھے اس کتاب کے حوالہ سے رفیع رضا پیک وقت ایک شاعر،ایک انقلابی، ایک محب وطن، انسان اور انسانیت سے ٹوٹ کر پیار کرنے والا، زندگی کے تمام رنگوں ، جذبوں اور جہتوں کا صورتگر ، معاشرتی ناہمواریوں کا شدید نقاد ، طبقاتی استحصال سے نفرت کی حد تک اختلاف رکھنے والا ، تاریخ کی تلخ ترین سچائیوں کا مرثیہ گو ، مذھب کے نام پر پروان چڑھنے والی بدترین منافقتوں کا نوحہ گر ہے ۔ جہاں پر اپنی شاعری کے آئینے میں رفیع رضا اقوام عالم کے حوالے سے بین الاقوامی و عالمی طاقتوں کے استعماری ھتھکنڈوں اور استحصال پرور رویّوں اور منفی پالیسیوں پر سراپا احتجاج نظ آتا ہے وہیں پر وہ امت مسلمہ کی باہمی کمزوریوں ، ریشہ دوانیوں اور استعماری قوتوں کی کاسہ لیسی سے بھی اپنے شدید غم و غصی کا توانا انداز میں اظہار کرتا ہے ۔ رفیع رضا بیک وقت انسانی اجتماعی المیوں کا خطیب بھی ہے اور آنے روشن صبحوں کا نقیب بھی ہے، دکھوں،صدموں اور محرومیوں کا بیانگر بھی ہے اور امیدوں، آروؤں اور تمنّاؤں کا پیغامبر بھی ۔ آئیے رفیع رضا سے ملتے ہیں ۔
رفیع رضا کی مزکورہ کتاب میں پرندہ اسکے نمائندہ لفظ کے طور پہ واضح نظر آتا ہے ۔ پرندہ جو کہ ایک معصوم اور بے ضرر مخلوق ہے ، امن و آشتی، صلح جوئی اور بلند نگاھی ، وسیع الظرفی اور کشادہ روئی کی علامت ہے ، بلند ہمتی، جہد مسلسل اور نا مساعد حالات کا دلیری اور مستقل مزاجی سے مقابلہ کرنے کا استعارہ ہے اور یہ لفظ آپ رفیع رضا کی شاعری میں بار بار دیکہیں گے لیکن ھر بار ایک نئے مفہوم اور الگ آھنگ کیساتھ یہ آپکو رفیع کی سوچ دریچوں کی مختلف جہتوں اور زاویوں سے متعارف کراتا ہے ۔ اور شاعر کی سوچ میں پھیلی ھوئی ہمہ گیر وسعتوں اور بیکراں عالم امکانات کا عکّاس ہے ۔ مثالیں اسلئے نہیں دونگا کہ تحریر طوالت کا شکار ھو جائیگی
رفیع محبتوں،چاھتوں اور امن عالم کا علمبردار ہے وہ اس عالمگیر اور آفاقی سچائی کا درس دیتے ھوئے بھی اپنی روایتی عقلیت پسندی اور منطق و استدلال کے جاندار روئیّے کا دامن ھاتھ سے نہیں چھوٹنے نہیں دیتا ۔
طاقت کی یہاں کوئی ضرورت ھی نہیں ہے
نفرت کا درندہ ہے محبّت سے گرے گا
ساتھ ھی وہ اپنے لوگوں میں پروان چڑھنے والی ایسی برائیوں ، معاشرتی خرابیوں اور اخلاقی کمزوریوں کے مہلک اور تباہ کن اثرات اور نتائج سے اپنے اھل معاشرہ کو خبردار بھی کرتے ہیں
دشمن بھی اسی طاق میں مدّت سے ہے لیکن
یہ گھر مرے اپنوں کی وساطت سے گرے گا
اسی کے ساتھ وہ تاریخی حقائق کے تلخ پہلوؤں سے بھی چشم پوشی کرنے پہ آمادہ نہیں اور بڑے واضح لہجہ میں اسکا اظہار بھی کرتا ہے
اس شہر کی بنیاد میں پہلے بھی لہو تھا
یہ شہر اسی اپنی نحوست سے گرے گا
رفیع رضا ایک صاحب شعور اور صائب الرّائے معاشرتی اکائی ھونے کے حوالے سے معاشرہ میں پائے جانے والی مذھبی روایات کو من و عن بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے صرف اندھی عقیدت کے بل بوتے پر تسلیم کرنے کو تیار نیں بلکہ وہ تو بلند بانگ اعلان کرتے ہیں کہ
عجیب لوگ ہیں خود سوچنے سے عاری ہیں
روایتوں کو عقیدہ بنا لیا ھوا ہے
رفیع رضا عالمی امن کے نام نہاد علمبرداروں اور انسانیت کی بھلائی کے جھوٹے دعویداروں کی دوغلی اور منافقانہ بلکہ انسانیت کش جبر و جور پر مبنی ظالمانہ چالوں اور عالمی امن کو سبوتاژ کرنے والی دھشت گرد پالیسیوں کا انتہائی جرآت اور بیباکی سے پردہ چاک کرتے ہیں
کہتا ہے بستیوں کو بسانا ہے اسکا کام
ساری زمیں اجاڑ کے کہتا ہے خوش رھو
آئین لکھتا رھتا ہے امن و امان کا
قرطاس امن پھاڑ کے کہتا ہے خوش رھو
کہتا ہے اب فضا پہ فقط اسکا راج ہے
اور پنکھ سب کے جھاڑ کے کہتا ہے خوش رھو
کہتا ہے اس کے قد کے برابر کوئی نہیں
آئینے توڑ تاڑ کے کہتا ہے خوش رھو
حریّت فکر کا ھر مجاھد دشت کربلا میں حق و باطل کے مابین برپا ھونے والی عظیم ترین معرکہ آرائی میں لشکر الہی کے سپہ سالار حسین ابن علی سے اکتساب فیض اور انکی روایت عشق سے طاقت حاصل کئے بغیر نعرہ ء انالحق لگا ھی نہیں سکتا اور یہی حقیقت رفیع رضا کے ھاں بھی اظہر من الشمس ہے کہ وہ کربلا کی روشنی سے اپنی راہ کا تعیّن کرتے ہیں
منظر سب کاٹنے آتے ہیں مرے نام و نشاں کو
میں ایک دیئے کا انہیں سر کاٹ کے دے دوں
لیکن وہ اس روشن ترین استعارے کا استعمال کس جاندار اور خوبصورت انداز سے فنکارانہ چابکدستی اور مہارت سے کرتے ہیں کہ عقل داد دینے پر مجبور ھو جاتی ہے
ڈھونڈ ھی لیتی ہے نیزے کی طرح کوئی بات
مجھ سے چھپتا ھی نہیں میرا سر ایسا ہے
یہ کتنا بڑا ظلم اور تاریخی بد دیانتی ہے کہ آجتک مسلمانوں کی تاریخ کو اسلامی تاریخ بنا کر پیش کیا جاتا رھا ہے حالانکہ اسلام کی تاریخ شعب ابی طالب ، غار حرا و ثور ، بدر و حنین،خیبر و خندق و احد و کربلا سے روشن ہے جبکہ مسلمانوں کی تاریخ جابر و مستبد حکمرانوں ،حجاج بن یوسف جیسے درندوں اور قاضی ابو یوسف جیسے درباری مولویوں اور مفتیوں سے آلودہ ہے ،رفیع شیخ و شا ہ کے اسی ناباک گٹھ جوڑ پر بلیغ تبصرہ کرتے ہیں
ضرور یہ کوئی ناپاک سا تعلق ہے
جو شیخ و شاہ نے رشتہ بنا لیا ھوا ہے
درج زیل اشعار میں رفیع رضا کی اظہار بیان کے حوالے سے جدّت پسندی ، تنوّع اور انفرادیت بھر پور انداز سے قاری کو اپنی سحر بیانی میں گرفتار کرتی نظر آتی ہے اور یہی لب و لہجہ اسے اپنے ہمعصر شعرا ء سے ممتاز و منفرد ٹھراتی ہے
لوگ روئے بچھڑنے والوں پر
اور ہم خود کو ڈھونڈ کر روئے
واقعی اپنی زات کی تلاش ، اپنی حقیقت کی پہچان اور اپنی سچائی کا عرفان ھی سب سے مشکل مرحلہ ہے اور جب کوئی اس دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرکے اپنی زات سے متعارف ھونے پر احساس زیاں کے سوا کچھ نہ پائے تو پھر آنسو
ھی حاصل زندگی قرار پاتے ہیں لیکن پھر یہی آنسو اسکی
کامیابیوںکا پیش خیمہ ٹہرتے ہیں
مجھے اکیلا حد وقت سے گزرنا ہے

میں اپنے ساتھ کوئی ہمسفر نہیں لایا

کیسے دوں آگ کو ، پانی کو ، ھواؤں کو شکست

اپنی مٹی کو تو تسخیر نہیں کر سکتا

آنسو ہے ، پرندہ ہے ، ستارہ ہے ، فلک ہے

کیا کچھ نہ تری آنکھ کی غفلت سے گرے گا

ہمارے نام سے مشہور ھو رہے ہیں میاں
کئی پہاڑ یہاں طور ھو رہے ہیں میاں
ہم نے اپنے مضمون کے آغاز میں اپنے اس ذھین شاعر کی حب الوطنی اور اپنی دھرتی سے بے پناہ پیار کا زکر کیا تھا ، یہ خوبصورت رویّہ اسکی شاعری میں پوری ادبی وجاھت سے رواں دواں لہو کی گردش اور حرارت کی طرح موجزن ہے ، دیکہیں اس شعر میں دکھ کے احسا س کیساتھ محبت کی چاشنی اور مٹھاس بھی چھلک رھی ہے
کاٹتے رھتے ہیں شاخوں کو مرے دیس کے لوگ
چھاؤں دیتا چلا جاتا ہے شجر ایسا ہے
ھاں یہ دیس ،اسکی فضائیں، اسکی مٹی کی خوشبو اسقدر مہربان ہیں کہ اس کے باسی اپنے ھی دست و بازو نفرتوں اور تعصبات کی بھینٹ چڑھا کر اپنے جسم سے علیحدہ کردیتے ہیں ناقدرئ عالم کی اس سے افسوسناک مثال اور کہیں نہیں ملیگی لیکن یہ بد قسمت دست و بازو اپنے بدن سے کٹ کے ، اپنی دھرتی سے دربدری کی سزا جھیل کر بھی اپنے اسی گم گشتہ بدن کی سلامتی کیلئے بےقرار رھتے ہیں ملٹن کی پیرا ڈائز لاسٹ کیطرح رفیع رضا بھی اپنی گم گشتہ جنّت کا متلاشی ہے ۔
میری دعا ہے کہ خالق قرطاس و قلم افق شعر پہ رفیع رضا کو رفیع الشّان مقام پہ فائز فرمائے اور یہ ستارہ شاعری کے آسمان پر لکیر نہیں روشن تصّورات کی دھنک اور درخشاں امکانات کی کہکشاں چھوڑ کر جائے ، آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبسم وڑا ئچ صآحب۔

بھلے شاہ کہندے نے۔۔۔۔ شاعری بلھے شاہ

https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4810fb58c58.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481105998d2.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48110d5eba4.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811155dd78.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48111b65b7a.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481123ba126.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48112bb4770.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811338c7a9.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48113b778eb.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811439138e.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48114abd819.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811519cd8a.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811585b729.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48116084f75.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481168701d0.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811715cbba.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811796a321.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811b060677.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811b867337.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811bd947a7.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811c2e9fda.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811c8284af.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811cd66b08.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811d2da9af.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811d853020.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811dd85757.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811e2eb344.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811e84b1e0.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811edbded9.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811f320cff.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811f872ad1.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4811fdc9cd3.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48120346ee1.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481208cf235.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48120e5a04a.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4812138c7dd.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4812191b635.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481226981c7.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48122bf0719.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481231b0547.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48123802ecc.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48123d1fea3.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4812422b548.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48124801ebf.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48124fa348d.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4812560517e.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48125beabc3.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4812621d8a5.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481267e424e.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48126e2e2ec.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48127400e4d.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481279ed3c1.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48127f5890f.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48128518e3c.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48128addd49.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4812915936a.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48129703878.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48129cdddc1.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4812a2d5672.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4812cb0ee31.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4812d89a0e5.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4812ef90b28.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48130294315.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48130c69605.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4813119d70b.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4813173cef7.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48131c66c7b.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481321eb636.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48132746959.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48132c9de30.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481332365c1.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48133767adc.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48133d62b8b.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481342ea2bd.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48134854366.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48134dcf823.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481352dd8e9.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481358663f4.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48135e318d3.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481363e8078.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481369997cc.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48136f3b1d9.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481374c1de2.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4813c5a5d01.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4813cf7495e.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4813d586935.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4813daddab8.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4813e041d3a.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4813e5bd958.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4813eb3764b.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4813f0a3c3d.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4813f61b365.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4813fb81fa3.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48140102b9b.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814068eec5.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48140c27326.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48141472763.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48141c464bd.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481428873cf.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48142d9f88b.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481432a53c7.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48143821340.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48143d8ad29.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48144313d79.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481448b0e87.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48144e2d96b.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48145391586.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48145a44350.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48145fcd15a.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481464ce154.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48146a32c95.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48146fb24a4.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48147543926.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48147ab010d.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48147fe8a11.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814855a464.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48148ab5b55.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814905a3a6.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e481495bb709.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e48149b1b757.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814a0417eb.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814a5ba7a1.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814ab084df.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814b0473a8.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814b5b3eae.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814bb7079f.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814c0e5643.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814c6991dd.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814cb9bf5c.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814d0be9f0.jpg
https://silsla.com/wp-content/uploads/2020/02/5e4814d61c5e6.jpg
بلھے شاہ کی شاعری کی کتاب فلپ بک

پی ڈی ایف پڑھنے اور ڈاون لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں