پاکستانی جانور پنجابی مسلمان خبیث ،،ایک مجبور ھندو لڑکے کو دھمکاتے مارتے ھوئے اسکے بھگوان کو بہن چود کہلاوا رھا ھے اور کہتا ھے اللہ اکبر کہے۔۔
ھم سب کی طرف سے اس ظالم پانجابی پاکستانی خبیث مسلمان کے ماں باپ خدا رسول ایمان سب بہن چود ھیں۔ لعنت ھے اس کے مذھب پر۔۔۔جس نے اسے یہ سکھایا ھے۔ھماری زبان بھی گندی کی۔
کوربانی یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ‘متاثرہ یا مظلوم’ ہے جو عبرانی اور ترک زبان میں بھی اسی طرح استعمال کیا جاتا ہے لیکن عربی میں اسکے حروف بدل کر ‘قربانی’ ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے مختلف مذاہب میں قربانی کی رسومات کے حوالے سے مختلف تعلیمات ملتی ہیں۔ جیسے تورات حکیم اور انجیل مقدس کے مطابق، خدا پیغمبر ابراہیم کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے اسحاق کو بطور قربانی پیش کریں۔ پیغمبر اسحاق کو مقدس پہاڑی، جو مسجد اقصٰی کے صحن میں ہے، پر واقع قربان گاہ پر باندھے جانے کے بعد، خدا کی طرف سے ایک پیامبر قربانی ہونے سے پہلے ابراہیم کو روکتا ہے، "اب میں جانتا ہوں کہ تم خدا سے ڈرتے ہو۔” ابراہیم نے دیکھا کہ ایک مینڈھا پاس کی جھاڑی میں کھڑا ہے اور اسحاق کی بجائے اس کی قربانی دی۔ اسی طرح ہندو، بودھ، جین، اور شنتو مذہب جانور کاٹنے کی ممانعت کرتا ہے۔
"
جانوروں سے محبت کریں، انہیں سوچ بچار کی مبادیات اور پُر سکون محبت کے احساس سے نوازا گیا ہے۔ اس میں خلل نہ ڈالیں، انہیں تنگ نہ کریں، ان سے ان کی مسرت نہ چھینیں. اے انسان، اپنے آپ کو جانوروں سے بلند نہ کر، گناہ وہ نہیں کرتے، یہ تو تُو ہے جو اپنی عظمت اور شان و شوکت کے زعم میں دھرتی کو اس پر اپنی موجودگی سے آلودہ کر رہا ہے اور اپنے نجس نشانات پیچھے چھوڑے جا رہا ہے. حیف، صد حیف، اس کا اطلاق ہم سب پر ہوتا ہے.” مشہور روسی ادیب فیودور دوستوئیوسکی نے اپنی کتاب کرامازوو برادران میں جانوروں کے بارے میں لکھا ہے۔
تمام انسان اس بارے میں کبھی نا کبھی ضرور حیران ہوئے ہوں گے کہ کس طرح کسی بلی کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کی خبروں پہ لوگ آنسو بہا سکتے ہیں لیکن پھر بھی مرغی کے گوشت سے بھرے ہوئے ڈونگے کھاتے انہیں کوئی پچھتاوا محسوس نہیں ہوتا جس کی خاطر کسی معصوم جاندار کو تکلیف اور موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا جواب "نوعیت پسندی یا سپیشیزم (Speciesism)” میں ہے ، یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس کے مطابق ایک نوع دوسری نوع سے زیادہ اہم ہے۔ یہ ذہنیت ہمارے معاشرے میں گہرائیوں سے قائم ہے، اور اس کے نتیجے میں ہر طرح کے منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ہماری پرورش کے دوران بیشتر انسانوں کو کچھ خاص انواع کو نگہداشت اور ہمدردی کے قابل اور دوسروں کو محبت اور رحم کے لیے نااہل سمجھنے کی شرط رکھی گئی ہے – یہ سب کچھ صریحاً انسانی ترجیحات پر مبنی ہے۔
اگر انسانوں میں سے کوئی بھی اپنے بچے کو نہیں کھا سکتا تو پھر وہی انسان ایک بھیڑ یا بکری کے بچے کو کیسے کھا سکتا ہے؟ کیونکہ مچھلی کی چیخوں کی آواز ہم تک نہیں پہنچتی تو جب کانٹے کی نوک سے اس کا منہ پھٹ جاتا ہے تو کیا اسے تکلیف بھی نہیں ہوتی؟ یہ اور اس طرح کے کئی اور بچگانہ سوالوں نے بچپن کو یقیناً پریشان کیا ہو گا مگر جان بوجھ کر یا انجانے میں، والدین، اساتذہ، میڈیا اور دیگر ذرائع بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ کتے اور بلی کے بچے "دوست” ہیں ، مچھلی اور مرغی "کھانا” ہیں ، اور چوہے اور کینچوے "غلیظ” ہیں۔ زیادہ تر بچوں کو یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ انسانی خواہشات، ضروریات اور مفادات خواہ کتنے ہی معمولی نوعیت کے ہوں، ہمیشہ دوسری انواع پر فوقیت رکھتے ہیں۔
اس سوچ کو اعتقادات کی تائید بھی حاصل ہے، جسے "اینتھروپو سینٹرسزم (Anthropocentrism)” یا انسان کی مرکزیت کہا جاتا ہے۔ دنیا میں موجود 4300 کے قریب مختلف اعتقادات نے انسان کو باور کروایا ہے کہ وہی مرکز کائنات ہے اور کائنات کی ہر شے انسان کی سہولت کے لیے ہی پیدا کی گئی ہے چنانچہ انسان کو تمام دیگر انواع حیات کا استحصال کرنے کا آفاقی جواز حاصل ہے۔ اس سوچ کے تانے بانے بہت دور، بہت گہرائی میں، نظریہ ارتقاء (Theory of Evolution) یا نظریہ پیدائش (Theory of Special Creation) سے جا ملتے ہیں۔
نتیجتاً، انسان اپنے ضمیر کی آواز کو نظر انداز کرنا سیکھ جاتے ہیں، جو انہیں یہ بتاتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ بد سلوکی کرنا غلط ہے۔ ہم اپنے آپ کو اس بات پر راضی کر لیتے ہیں کہ ہمارے پاس جانوروں کو قتل کرنے کا "حق” ہے کیونکہ یہ ہمارے لیے فائدہ مند یا مزےدار ہے۔ ہم اپنے آپ کو کہتے ہیں کہ دودھ سے بنی آئس کریم کھانا یا چائے پینا ٹھیک ہے کیوں کہ ہماری مٹھاس کی خواہش کسی ماں کی ممتا اور اس کے اپنے بچھڑے کو دودھ پلانے کے حق سے کہیں زیادہ ہے، یہ کہ سویٹروں وغیرہ کے لیے بھیڑوں کی اون چوری کرنا ٹھیک ہے، یہ کہ مرغی کے انڈا دینے کی اذیت اس کی نسل کی بقاء سے زیادہ ہمارے ناشتے کی میز کے لیے ہے، اور یہ کہ مچھلی کو اس کے درد سے کہیں زیادہ لطف اندوز ہونے کے لیے پکڑتے ہیں۔ تاریخی طور پر، ہر طرح کے ظلم کا تصوراتی جواز پیش کرنے کے لئے انسان نوعیت پسندی کا استعمال کرتے آئے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم قبل از تاریخ سے ہی ایسے کھوکھلے جواز گھڑتے رہے ہیں۔ تجارتی پیداوار کے باعث جانوروں کی فراوانی سے پیشتر، ہم انسانوں کو ہی خوراک یا اعتقاد کے نام پہ قربان کرتے رہے ہیں۔ انسانی قربانی کا اطلاق متعدد مختلف مواقع پر اور بہت سی مختلف ثقافتوں میں ہوتا رہا ہے۔ انسانی قربانیوں کے پیچھے مختلف عقائد وہی تھے جو عام طور پر رسمی قربانیوں کو تحریک دیتے ہیں۔ قربانی کا مقصد عموماً خوش قسمتی لانا اور دیوتاؤں کو راضی کرنا رہا ہے، مثال کے طور پر کسی مندر یا پل جیسی کسی عمارت کی تکمیل پہ شکرانے کے تناظر میں یا اپنی وفاداری ثابت کرنے کو۔ اس کے علاوہ جنگ میں کامیابی، بہت ساری فصلیں یا ندی میں پانی کا اتار چڑھاؤ بھی قربانی کا موجب رہا ہے۔
اس کے علاوہ، سائنسی جریدے ‘نیچر’ کی تحقیق کے مطابق قربانی کا مقصد سماج میں طبقاتی تقسیم کو یقینی بنانا تھا۔ یعنی کہ کمزور ہمیشہ کمزور رہیں اور طاقتور ہمشہ طاقتور۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ رسمی قربانی سے انسانوں کو ہمارے آباؤ اجداد کے چھوٹے مسلکی گروہوں سے آج ہم جس بڑے معاشرے میں رہ رہے ہیں، اس تک ترقی کرنے میں مدد ملی۔ بالخصوص، بطور سزا قربانی کا تصور زبردست سیاسی کشیدگی کا باعث رہا ہو گا جس کے نتیجے میں قانون کی حاکمیت اور فیصلہ سازی کے پیچیدہ تصورات نے جنم لیا ہو گا۔
قربانی کبھی بھی سادہ نہیں رہی۔ اسے ہمیشہ ایک عوامی تقریب یا سماجی تہوار کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ خون خرابہ اور ظلم، لوگوں کو خوف و ہراس میں ڈالنے کا ایک طریقہ تھا جس سے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں، جو کہ زیادہ تر ثقافتوں میں ایک ہی تھے، اور جن کو دوسروں کے قتل کے احکام دینے کا اختیار حاصل تھا، کو بلامقابلہ اقتدار مستحکم کرنے کا موقع ملتا۔ ایک بار جب ان کا اختیار مطلق ہوجاتا تو طبقاتی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے وہ مزید روایتی طریقوں یعنی پولیسنگ، ٹیکس لگانے، غلام بنا لینے اور جنگ کا استعمال کرتے۔
بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قربانی کو اکثر، دیوتاؤں کی بجائے کسی اور کے مفاد کے لئے ترویج دیا گیا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح مذہب کو معاشرتی اشرافیہ کے ذریعہ ان کے اپنے سیاسی مفاد میں استحصال کیا جا سکتا ہے۔ مذہب کلی طور پر انسان اور اس کے خدا، اگر وہ کسی خدا میں یقین رکھتا ہے تو، کے بیچ کا معاملہ ہے لیکن قربانی کا تصور کفارے یا متبادل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تقریباً تمام ہی مذاہب نے رحم اور اخلاقیات کا درس دیا ہے لیکن تب بھی قربانی جیسی رسومات مذہبی جواز رکھتی ہیں۔
بہت ابتداء سے ہی انسانوں کو اس پریشان کن تضاد کا احساس رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے قربان ہونے والے جانوروں کی تکلیف سے صرف نظر کرنے کے لیے کئی پینترے بدلے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ جب لوگ ایسا کام کرتے ہیں جس کے بارے میں وہ مشتبہ ہوں اور جس کے لیے انھیں جواز گھڑنے میں دشواری پیش آتی ہو، تو انھیں اندرونی عدم اطمینان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب ان کے گوشت کھانے سے جانوروں کو پہنچنے والے نقصان کو لوگوں کے سامنے واضح طور پر لایا جاتا ہے تو، وہ ان جانوروں کو کم ذہنی صلاحیتوں کے حامل گرداننے لگتے ہیں۔ اس طرح کا انکار لوگوں کو جانوروں کے کھانے میں کم تکلیف دیتا ہے۔ جو لوگ جانوروں کو قتل کرنے میں یقین رکھتے ہیں وہ اپنے خیالات اور طرز عمل کے مابین اخلاقی تضادات کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جانوروں کے احساسات کے بارے میں اپنے اعتقادات کو ایڈجسٹ کر سکیں۔
جانوروں کے قتل کا جواز، محسوس کرنے کی ان کی کم تر صلاحیت اور انہیں کاٹتے وقت تکلیف سے مبراء ہونے کو فرض کر کے گھڑا جاتا ہے۔ لیکن صدیوں کے تجربے سے ہم نے یہ سیکھا ہے کہ جانور خوشی اور اداسی، جوش اور ناراضگی، افسردگی، خوف اور درد کو محسوس کرتے ہیں۔ وہ اس سے کہیں زیادہ حساس اور ذہین ہیں جتنا ہم سوچتے ہیں۔ بچپن کے کچھ سوالوں میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اگر جانور کو کاٹتے وقت درد نہیں ہوتا تو اس کو باندھ اور بے بس کر کے کیوں کاٹا جاتا ہے۔
جانوروں کو تکلیف نا پہنچانے اور قتل نا کرنے کی بالکل وہی وجوہات ہیں جو انسانوں کو تکلیف نا پہنچانے اور نا مارنے کی وجوہات ہیں۔ کسی جانور کا قتل، جیسے کسی انسان کو مارنا، انتہائی حالات میں ہی قابل برداشت ہوسکتا ہے۔ کسی زندہ مخلوق کا استعمال صرف اس کے ذائقہ، سہولت کے لیے، یا بطور مشغلہ کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ چونکہ ہم انسان، دوسرے جانوروں کے برعکس، اپنے اخلاقی طرز عمل کے اثرات سے آگاہ ہیں لہذا ہم انسانوں پہ دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم زندگی کا تحفظ اور احترام کریں چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔
اپنے بچے کو یہ سکھانا کہ وہ کسی مکوڑے کو کچل نا دے یا کسی چوہے کے بچے کا خیال رکھے، اس بچے کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس جانور کے لیے ہے۔ اسے یہ بتانا کہ ایک چیونٹی کی زندگی بھی اہم ہے اس کی اپنی زندگی کے لیے بھی اہم ہے۔ کسی بکرے یا بچھڑے کی معصومیت اور ان جانداروں کی آنکھوں میں ہم انسانوں کے لیے ایک ابدی پیغام، بشرط یہ کہ کوئی آنکھوں کی کائناتی زبان جانتا ہو، جاننا انسانیت کے لیے بہت ضروری ہے۔ جملہ جات ہائے معترضہ برطرف، فاضل مصنف نے انہی گمراہ کن خیالات کے باعث انڈے، دودھ، گوشت، اون اور کسی بھی دیگر قسم کی حیوانی پیداوار کے استعمال سے معذرت رکھی ہوئی ہے۔ 200 برس پہلے جیریمی بینتھم نے کہا تھا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ کیا وہ منطق کا استعمال کرتے ہیں؟ کیا وہ بولتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا انہیں تکلیف ہوتی ہے؟
چند دن پہلے اسرائیلی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اٹارنی جنرل آف اسرائیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ بیت شمیس شہر میں ان اشتہاروں اور بینرز کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے مداخلت کریں جن پہ خواتین کو "مکمل کپڑے پہننے” کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ بورڈز خواتین کو کپڑے پہننے کا طریقہ بتاتے ہیں، جس میں انھیں پورے بازو اور لمبی قمیص پہننے کی تلقین ہے اور چست لباس پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر اشتہارات میں خواتین کو نصیحت ہے کہ وہ عبادت خانوں اور کام کی ایسی جگہوں کے قریب، فٹ پاتھ کا استعمال محدود کریں، جہاں مرد ہوتے ہیں۔
یہ تیزی سے پروان چڑھتی انتہا پسندی کی کہانی ہے۔ مقامی حکام کی بے حسی اور سیاسی قیادت کی مجرمانہ خاموشی نے اسے مہمیز دی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کے ہیرو کچھ جرآت مند سماجی کارکن ہیں جو اس دباؤ کو روکنے کے لئے وقف ہیں، اور جن کی کوششوں سے کچھ ہی دن قبل یہ فقید المثال فیصلہ آیا ہے۔ یہ کسی کی بھی زندگی کا ایک حیرت انگیز اور متاثر کن تجربہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ شروع سے آسان نہیں رہا۔
اسرائیلی درالحکومت یروشلم سے مغرب میں ۳۰ منٹ کی مسافت پر واقع شہر بیت شمیس کے ضلعی مجسٹریٹ کی عدالت نے جنوری 2015 میں بلدیہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے بینرز کو بروقت ہٹانے میں اپنی لاپرواہی پر شہر کی خواتین کو ہرجانہ ادا کرے۔ 2017 میں ہائیکورٹ آف جسٹس نے حتمی فیصلہ جاری کرتے ہوئے شہر کے میئر کو حکم دیا تھا کہ وہ شہر میں جگہ جگہ لگے ہوئے تمام "جارحانہ” ناشائستہ تجاویز والے بورڈز کو ختم کریں۔
ایسا اس وجہ سے ہوا ہے کہ اسرائیل کی ماتحت و اعلیٰ عدلیہ کے مطابق کسی بھی شخص کو کوئی خاص لباس پہننے یا کسی مخصوص طریقہ لباس کو اپنانے پر مائل کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا بنیادی انسانی حقوق کی آئینی ضمانتوں کی خلاف ورزی ہے۔
اس کے علاوہ یہ شخصی آزادی کی خلاف ورزی کا بھی ارتکاب ہے جس پر عدالت نے شہری انتظامیہ کو ہرجانے کی سزا بھی دی ہے۔جج عوری شوہام نے کہا، "خواتین کو یہ بتانا کہ کس طرح کا لباس پہننا ہے اور کسی عوامی مقام پر کہاں جانا ہے، کسی شخص کے وقار اور آزادی کے بنیادی حق کے محافظ قانون کے خلاف ہے۔” ہائیکورٹ آف جسٹس کے ججوں نے شہر کے میئر کو ان علامتوں کو دور کرنے یا جیل کا سامنا کرنے کے لئے دو ہفتے کا وقت دیا جس پر ااسرائیل کی پارلیمانی کمیٹی برائے حقوقِ نسواں اور صنفی مساوات کو یہ دیکھنے کے لیے میدان میں آنا پڑا کہ آیا میئر نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔
"مکمل کپڑے پہننے” کے اعلان کرنے والے بینرز شہر کے آس پاس منظر عام پہ آنا شروع ہو گئے۔ انتہائی دائیں بازو کی ذہنیت کے ذریعہ خواتین کو آزادانہ گھومنے پھرنے پر ہراساں کیا گیا۔ ایسی لڑکیوں کو "فاحشہ” کہا جانے لگا۔ کچھ مواقع پر تو مردوں نے ایسی سوچ کی علمبردار خواتین پر پتھراؤ بھی کیا۔ بالآخر خواتین نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے ان بینرز کے خلاف عدالت میں کیس کر دیا۔
مذہب کے نام پہ قائم اسرائیلی ریاست مین حالانکہ صنفی مساوات کئی مغربی ممالک سے بھی بہتر ہے مگر پھر بھی قدامت پرستوں کی جانب سے خواتین کی سماجی حیثیت اور معاشرتی ظہور مسلسل سکڑ رہا ہے۔ تقریبا تمام مذہبی عناصر کے رجحانات کی عکاسی کرتے ہوئے جانے پہچانے اقدامات کے ذریعے انہوں نے خواتین کی عوامی سپیس کو بتدریج محدود کیا ہے۔ روایت پرست اخبار خواتین کی تصاویر چھاپنے سے ہچکچاتے ہیں۔ حتیٰ کہ انجیلا میرکل اور ہلیری کلنٹن جیسی عالمی شہرت یافتہ خواتین کی تصویریں تک سینسر کر دی جاتیں ہیں۔ اسی طرح دعوت ناموں اور کتبوں پر خواتین کا نام نہیں لکھا جاتا۔
لامحالہ طور پر ایسے واقعات کے خلاف اسرائیلی عدلیہ ہی آخری سہارا رھی جس نے اس رجحان پہ سخت ردعمل دیا تاہم روشن خیال جدت پسندوں کا راستہ کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ جن سماجی کارکنوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، ان پہ آوازے کسے جاتے، ان کو بدنام اور پریشان کرنے کی ایک منظم مہم چلائی گئی۔ لوگوں کو ان کے چہروں پہ تھوک دینے کی ترغیب دی جاتی رہی اور ان کے گھروں کو نشان زدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
اسرائیل اور پاکستان میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ دونوں دنیا کے اکیلے ایسے ممالک ہیں جو مذہب کے نام پہ وجود میں آئے اور جہاں ایک اقلیت نے تقریباً مکمل طور پر ایک اجنبی خطہ زمین آزاد ملک کے طور پر حاصل کیا۔ دونوں ہی ملکوں کی تاریخ میں خواتین سیاستدان وزراء اعظم رہیں ہیں۔ روایت پسند مذہبی جماعتوں کی سیاست کا نظم بھی تقریبآ ایک جیسا ہے۔ اور قدامت پرستوں کا خواتین سے سلوک بھی۔
اور ہاں۔ کچھ مزید مماثلتیں بھی ہیں جن میں صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والوں کو برے القابات دینے، ان کے خلاف سوچا سمجھا پروپیگنڈا کرنا، ان کو ٹارگیٹڈ تشدد کا نشانا بنایا جانا، ان کے مارچوں پہ پتھراؤ، خواتین کی پبلک سپیس سے پراسرار غیر موجودگی، شادی کے دعوت ناموں اور فوتیدگی کے اعلانات تک سے ان کی شناخت حذف کر دینے کی مذموم کوششیں بھی شامل ہیں۔
جانے اسرائیلی عدالتیں اپنی نظریاتی بنیادوں کے تحفظ سے کیوں اتنی لاپرواہ ہیں؟ ایسی لاپرواہ عدلیہ کو اپنے ملک کی ثقافت اور نظریہ بھی تباہ ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔ نظریاتی تحفظ سیکھنے کے لیے اسرائیلی عدلیہ کو پاکستان سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ حال ہی میں پاکستان کی صوبائی حکومتوں نے وزیراعظم کی قیادت میں، آپ نے فرمایا تھا کہ کوئی روبوٹ ہی ہو گا جو خواتین کے مختصر لباس سے برانگیختہ نہیں ہو گا، عوامی تفریح گاہوں پر خواتین کے باحجاب لباس کی مہم چلائی ہے یا اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ گلگت بلتستان اور مری میں ایسے بینرز منظرعام پہ آئے ہیں جن میں خواتین کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ ان کی عزت حجاب سے ہی مشروط ہے ورنہ۔۔۔پاکستان میں روبوٹ ٹیکنالوجی ابھی بہت کم ہے۔
سلسلہ ڈاٹ کوم کی طرف سے آپ کو کتابیں اس لئے مہیا کی جاتی ھیں تاکہ علم کی روشنی بانٹیں
پاکستان میں مذھبی جہالت اور فوج کا ناپاک اتحاد ، معاشرے کو تباہ کر چکا ھے۔ اور پاکستان ایک فاشسٹ ریاست بن گئی ھے
جسے دنیا حقارت اور افسوس سے دیکھتی ھے۔
یہ 49 کتابوں کے لنکس ھیں آسانی سے ڈاون لوڈ ھو سکتے ھیں۔
here are 49 best books hope you people will like it
1) After the Prophet: The Epic Story of the Shia-Sunni Split in Islam by Lesley Hazleton Download : ‘https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XRzhLNEQ5cnIySHc/view?usp=sharing
2 ) Reimagining Pakistan Transforming a Dysfunctional Nuclear State Hardcover – 9 Apr 2018 by Husain Haqqani (Author) Download : https://drive.google.com/file/d/1ORc-7Eo0__n7aJ8ovh2lJZFB7wuD5bvH/view?usp=sharing
3) The Making of Terrorism in Pakistan Historical and Social Roots of Extremism DOWNLOAD :https://drive.google.com/file/d/1qI3Zt2lrG3rmWOJAdRdpbVspBIa0a5sP/view
4 The Pakistan Garrison State :Origins, Evolution, Consequences By:Ishtiaq Ahmed (1947-2011) Download : https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XVkk2MEoyZEtWUk0/view?usp=sharing
5 Military, Inc. Inside Pakistan’s Military Economy 2 Reprint Edition Dec 15, 2016 by Ayesha Siddiqa Download :https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XUnNHZFAwUmdsMjA/view?usp=sharing
6 Pakistan at the Crossroads Domestic Dynamics and External Pressures (Religion, Culture, and Public Life) (2016) By Christophe Jaffrelot (Editor) Downloda : https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XZWhHdG1aNUE0SG8/view?usp=sharing
7 Pakistan: Beyond the Crisis State By: Maleeha Lodhi *Book Scanned By Khan SHaheed Library ! Download: https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XMlZKMnVPUUwxSVU/view?usp=sharing
9 The Politics of Pakistan – A Constitutional Quest” – By Richard S. Wheeler https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XZkx0TXliMng0TTQ/view?fbclid=IwAR1Y0kELHDCEkvO5pu-9DCNRCD-Yghlm6BEVJ2u_3BZeq1iQzppOEJHt19A
10 The Culture of Power and Governance in Pakistan By :Ilhan Niaz Download : https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XMXQyVzlia2FPNVE/view?usp=sharing
11 ) The Politics of Ethnicity in Pakistan https://drive.google.com/file/d/1dDAEcyT7P0_HAkeabcVRwG1JeVMgNxZi/view?usp=sharing
12)Crossed Swords Pakistan, Its Army, and the Wars Within By: Shuja Nawaz https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XclplSU55YThidEU/view?fbclid=IwAR3u5HIytTnnaxXoxckMfZ_vRC0i9xvodOs7KCjU-6p_4my2hjzoZSj7q7o
13 What’s Wrong with Pakistan? By: Babar Ayaz Download :https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XNjZEd1BoZHdaaGM/view?usp=sharing
14 The pakistan Paradox https://drive.google.com/file/d/1cPcmuo13mrzYnmSI3x5oTvdO9y93zRt2/view?usp=sharing
15 )Military, State and Society in Pakistan By: Hasan Askari Rizvi Download : https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XeC1WU1NMNjAwSUU/view?usp=sharing
Pakistan’s Foreign Policy 1947-2009: A Concise History 2nd Edition By Abdul Sattar Download :https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XdUZrWHEwLU9uUmc/view?usp=sharing
16 ) Fighting to the End : Pakistan army way of war https://drive.google.com/file/d/1x9XpICIdsEw3KFapxRkYAlpK1gwRWNXY/view?usp=sharing
17 ) Story of Civilization by Will Durant , Ariel Durant (11 volumes ) Download : https://drive.google.com/drive/folders/1_9hqnZ6itNVpyHSbA0EVFz5zbY9zwS8G?usp=sharing
18 – Fallen Leaves: Last Words on Life, Love, War, and God by Will Durant Download : https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XY0lqNE1xZHZNek0/view?usp=sharing
19- The Greatest Minds and Ideas of All Time By Will Durant Download : https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XWGF4U3Zndi1URTg/view?usp=sharing
20 -The Pleasures of Philosophy https://drive.google.com/file/d/1VIag4av51QhLdhqBS2xa-SJ_57yleCMQ/view?usp=sharing
21- The story of philosophy by will durant https://drive.google.com/file/d/1S0GnwSiVa_caQsF3kvKOcBq_rPzB8Mci/view?usp=sharing
22 – the new confessions of an economic hit man https://drive.google.com/file/d/1r_I_2e2Zh6x6veuH_nqj9FX3Ze-SFAEe/view?usp=sharing
23- Mother by maxim gorky https://drive.google.com/file/d/1KCpMHSM-jt3y_HVsJL9svjQ3_GXi75vb/view?usp=sharing
24 – communist Manifesto https://drive.google.com/file/d/1m8zlxzYXs6o1hzcSTPCCk1euM9HFCmd6/view?usp=sharing
Rafi Raza, [13.07.21 20:00] [Forwarded from Mamoon Rashid] 50 The Wars of Afghanistan Messianic Terrorism, Tribal Conflicts, and the Failures of Great Powers By: Peter Tomsen https://drive.google.com/file/d/1puttDnyTmtokiQZDcL9wYrvxQR7rRE2M/view?usp=sharing
Rafi Raza, [13.07.21 20:00] [Forwarded from Mamoon Rashid] 25 constitutional and political history of pakistan https://docs.google.com/file/d/1lT8eTyVxm6gob0Awx9TlGokOwvKB8ADx/edit?filetype=msword&fbclid=IwAR0IPN5rwvTcxtBPbXa3CrHnmFx60U76jKHtB3-S5UCrn_hfxgxbUByay7U
26 AT the existentialist cafe https://drive.google.com/file/d/0BzJp_mPL-1wsbGdPZHFkS1g4eWc/view?usp=sharing
27 The complete work of Khalil Jibran https://drive.google.com/file/d/15ypcN0Bea9PtxSxigLmPVTO764bsadXj/view?usp=sharing
28- The Philosophy book https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XMlFOZHNZaHgwdG8/view?usp=sharing
29- The Science Book (Big Ideas Simply Explained) by DK (Author) Download : https://drive.google.com/file/d/0BzJp_mPL-1wsM0FQRVhTdEt0MXc/view?usp=sharing
30- The History Book (Big Ideas Simply Explained) July 5, 2016 By DK (Author) Download : https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XNkxEdGpxcTBNRkE/view?usp=sharing
31- The Psychology Book (Big Ideas Simply Explained) by Nigel Benson Download : https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XamozT2dwdW1EYlk/view?usp=sharing
32 – The Politics Book (Big Ideas Simply Explained) By Sam Atkinson , Rebecca Warren and Kate Johnsen Download : https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XMFpoNEtYZE10VlU/view?usp=sharing
33 – The Economics Book (Big Ideas Simply Explained) by DK Download :https://drive.google.com/file/d/0BzJp_mPL-1wsWlFYb3RyUzJGa0U/view?usp=sharing
34 – The Religions Book (Big Ideas Simply Explained) by DK (Author ) Download : https://drive.google.com/file/d/0BzJp_mPL-1wsYjRVM0JybjhnZlE/view?usp=sharing3
35-The Sociology Book (Big Ideas Simply Explained) by DK (Author ) Download : https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XdElFUDJBRVVhUDQ/view?usp=sharing
36- The Ministry of Utmost Happiness A novel By : Arundhati Roy Download :https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XUmtYTXRxUkZGZnM/view?usp=drivesdk
37- Exit West: A Novel” by Mohsin Hamid https://drive.google.com/file/d/0BzJp_mPL-1wsNTRMUU14MDBKZWc/view?fbclid=IwAR10Xm0LhGBXJXVdgj1oX9-yoMcCNLs7B72F8SZDNbNzj8pUuUqoZ5vknog
38- 21 Lessons for the 21st Century By Yuval Noah Harari Download : https://drive.google.com/file/d/1MgRAeYFIxtxWeDGPRtATsx4qgpKx7y5L/view?usp=drivesdk
39 – Sapiens: A Brief History of Humankind by Yuval Noah Harari Download : https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2Xenk5eHF2WDNMWnM/view?usp=sharing
40 – Homo Deus: A Brief History of Tomorrow February 21, 2017 By Yuval Harari Download : https://drive.google.com/file/d/1NUtVaB2QKskq_fOj5qsHiduE-AX8Px0M/view?usp=sharing
41 – The Globalization of World Politics An Introduction to International Relations, Sixth Edition Edited by John Baylis, Steve Smith and Patricia Owen https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XcnlTa0IxSnFxT1k/view?fbclid=IwAR0wM33RF2yjiOL0yagJ6ZV1PxqPNUylmONPcaBx5D7vIdCMtQOWBrdNSF0
42- world order by henry Kissinger https://drive.google.com/file/d/17zntXO_sCt1hvcMVy_oLWmWOFZWYFCJb/view?usp=sharing
43- An Introduction to International Relations Theory Perspectives and Themes Third edition Jill Steans, Lloyd Pettiford, Thomas Diez and Imad El-Anis https://drive.google.com/file/d/0BzJp_mPL-1wsT09fNXdRb2lwVzg/view?usp=sharing
44 Global Politics by Andrew Heywood Download : https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XaGM5bTRfd2daMEU/view?usp=sharing
45 – Political Science An Introduction (14th Edition) by Michael G. Roskin (Author), Robert L. Cord (Author) English | 2017 | ISBN: 0134402855 | 384 pages
46- The First musloim the story of Muhammad https://drive.google.com/file/d/1cSKlCFVrVhOJ3P0iPv61CQjfBqd4G24j/view?usp=sharing
47- An Era of darkness : British empire in india https://drive.google.com/file/d/0BzJp_mPL-1wsSHVXcWREQ0cxVU0/view?usp=sharing
48- Taliban anti taliban : By farhat taj story of war on terror in pakistan https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XX1BTbGZzQnNFd3c/view?usp=sharing
49 – Call for Transnational Jihad – Lashkar-e-Taiba 1985-2014″ By Arif Jamal Download :https://drive.google.com/file/d/0B7h-dd2BPS2XNEdZLWdIdm94RVE/view?pref=2&pli=1 t
زمین پر پانی کیسے ، بنا ، یا کیسے یہاں پہنچا یہ فلکیات میں ایک مُعمّہ رھا ہے
اس بارے بہت سے نظریات ھیں
پہلا دو بنیادی نظرئیے ھیں ، یعنی ھائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے کسی کیمیائی تعامل کی وجہ سے پانی یہاں زمین پر ھی بنا۔۔یا پھر کہیں سے شہاب ثاقب کی بارش جو برف پر مشتمل ھوتی ھے اُس کے ذریعے زمین پر پانی آیا ۔۔۔ سائینسدانوں نے اس پر تحقیق کی مگر کوئی نہ کوئی کڑی غیر موجود رھتی تھی۔ کیونکہ اگر پانی ھائیڈروجن اور آکسیجن سے بنا تو پھر بنتا ھی چلا جائے رُک کیوں گیا؟ یا اتنے تسلسل سے کیسے پانی شہابِ ثاقب لا سکتے ھیں۔؟
زمین پر موجود گڑھے بتاتے ہیں کہ زمین بننے کے بعد زمین پر بہت لمبے عرصے تک شہابیوں کی بارش ہوتی رہی تھی۔ لہذا یہ نظریہ بھی پایا جاتا ہے کہ زمین پر موجود پانی ان شہابیوں کے ساتھ خلا سے آیا تھا۔ لیکن مقدار کا تعین مشکل معلوم ھوا۔
جولائی دو ھزار میں ایک فلکیاتی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ کائنات کے ایک دور دراز علاقے میں زمین سے بارہ ارب نوری سال دور ایک قوازار کے قریب پانی کے بادل ملے ہیں اور ان بادلوں میں زمینی سمندروں کے مقابلے 140 کھرب گُنا زیادہ پانی موجود ہے۔ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ھے؟ (کہ کائنات میں دوسری جگہوں پر بھی پانی موجود ہو) اس کا بہت سادہ سا جواب یہ ہے کہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر بنتا ہے، ہائیڈروجن اور آکسیجن ہماری کائنات (Universe) کا ایک اہم حصہ ہیں۔ جہاں بھی یہ گیسیں موجود ہوں گی تو وہاں پانی کا ہونا ممکن ہو سکتا ہے۔ ان گیسوں کو جہاں کہیں بھی مطلوبہ (مخصوص) ماحول میسر آئے گا تو ان سے پانی بننا نا ممکن تو بالکل نہیں ہوگا۔
یہ خیال یا نظریہ سننے میں آسان اور اچھا لگتا ہے کہ ہماری کائنات میں بہت سی جگہوں پر پانی کے اس قدر بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن یہ بہت ہی مایوس کُن حقیقت ہے کہ کائناتی پانی کے یہ وسیع و عریض ذخیرے ہمارے کسی کام کے نہیں ہیں۔ (کیوں؟) کیوں کہ پانی کے یہ ذخیرے ہماری پہنچ سے باہر ہیں۔
اسی کی دھائی اور نوے کی دھائی میں زمین کے قریب سے بار بار گزرنے والے شہاب ثاقب ھیلے کا مشاھدہ کیا گیااور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ کب دوبارہ ھماری زمین کے قریب سے گزرے تو کوئی راکٹ بھیج کر اس کے ساتھ موجود برف یا پانی کی ماھئیے کو سمجھا جائے جس سے ھمارے اس نظرئیے کو تقویت مِلے کہ زمین پر پانی شہاب ثاقب کے گرنے سے ھی وجود میں آیا۔
تیسرا نظریہ پہلے دو نظریات کا بہم نظریہ ھے کہ ایک تو کیمیائی تعاملات سے پانی بنا اور کچھ شہاب ثاقب پانی لاتے رھے۔
زمین پر موجود پانی کی مقدار زمین پر تین سو چھبیس ملین ٹریلین گیلن پانی موجود ہے۔ زمین کے اکیاون کروڑ مربع کلومیٹر کے رقبے میں سےاکہتر فیصد رقبے کو پانی نے ڈھکا ہوا ھے۔ جس میں سے تقریباً ستانوے فیصد پانی سمندری ہے، جو کہ کھارا اور نمکین ہونے کے سبب ہمارے استعمال کے قابل نہیں ہے۔ باقی کا تین فیصد تازہ پانی یا میٹھا پانی ہے۔
ھیلے کومِٹ یا شہاب ثاقب کی طرف کامیابی سے ایک راکٹ بھیجا گیا جس نے پانی کا کیمیائی تجزیہ کر کے ڈیٹا بھیجا تو بہت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یہ پانی تو تھا مگر اس میں ھائیڈروجن کے دو مزید ایٹم بھی شامل تھے۔ یعنی یہ وہ زمینی پانی نہیں تھا۔ اس تجزئیے کے بعد سائینسدانوں نے مزید جہتوں کی طرف سوچ کا سفر شروع کیا۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ھے کہ زمین پر موجود تین فیصد تازہ پانی میں سے دو فیصد تازہ پانی زمین کے قُطبین اور دیگر برفانی علاقوں انٹارکٹکا، آرکٹک، گرین لینڈ کے گلیشیئرز و دیگر برف کے ذخیروں اور برفانی خطوں) پر جمی ہوئی برف کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ یعنی تازہ پانی کا یہ دو فیصد مُنجمد حصہ بھی ہم استعمال نہیں کر سکتے۔ زمین پر موجود تین سو چھبیس ملین ٹریلین گیلن پانی میں سے پانی کا فقط ایک فیصد حصہ ہی ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ جو کہ چشموں، ندیوں، جھیلوں میں اور زیرِ زمین پایا جاتا ہے۔ اسی تازہ پانی سے آبپاشی کی جاتی ہے (ایک مَن گندم کی تیاری پر کم و بیش پینتیس ٹن پانی استعمال ہوتا ہے) جانور بھی اسی تازہ پانی کو استعمال کرتے ہیں۔ اوہ! کیا آج آپ کا دل گوشت کھانے کو کر رہا ہے؟ (یہ لیں پلیٹ میں گوشت حاضر ہے) لیکن! کھانے سے پہلے یہ بھی ضرور سوچیں کہ اگر اس پلیٹ میں گوشت کے دس ٹکڑے (بوٹیاں) موجود ہیں تو جانور کے اندر گوشت کے اِن دس ٹکڑوں کو تیار ہونے کے لیے کئی ہزار ٹن پانی درکار تھا جو کہ استعمال ہوا ہے۔ سن دو ھزار دس کے اعداد و شمار کے مطابق تمام انسان روزانہ کی بنیاد پر چار ہزار ارب لیٹرز تازہ پانی استعمال کر جاتے ہیں۔ جس میں سے ایک ہزار اکتالیس ارب لیٹر وہ تازہ پانی ہے جو کہ دریاؤں، چمشوں اور دیگر شکلوں میں زمین کی سطح پر موجود ہے۔ چار ہزار ارب لیٹرز میں سے تین ہزار ارب لیٹرز تازہ پانی ہم زمین کے اندر سے نکالتے ہیں۔ کسی بھی صحت مند انسان کے جسم کا ساٹھ فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہمارے پھیپھڑوں کا تراسی فیصد حصہ پانی کا بنا ہے۔ ہمارا دل اور دماغ تہتر فیصد پانی پر مبنی ہیں۔ ہمارے پَٹھے اور گُردے اپنے وجود میں اُناسی فیصد پانی رکھتے ہیں اور ہماری جلد چونسٹھ فیصد پانی سے بنتی ہے۔ ہماری زمین پر اربوں درخت اپنے اندر تیس سے پچاس فیصد پانی رکھتے ہیں۔ ان خواص کی بنا پر ھماری زندگی پانی کے بغیر ممکن نہ تھی نہ ھے۔، نہ رھے گی اسی لئے سائینسدانوں نے مزید سوچا تو اُنہیں معلوم ھوا کہ زمین کی ابتدا میں جب ھمارے سورج کے ٹُکڑے ھوئے تو اُبلتے ھوئے اس مادے سے ایک طرح کے نہیں بلکہ دو طرح کے سیارے وجود میں آئے۔یعنی برفانی یا پانی پر مشتمل اور دوسرے ابلتے ھوئے مسلسل گرم سیارے بنے۔ یہاں آپکو واپس زمینی حقائق کا سائینسی تجزیہ بتانا ضروری ھے۔سائینسدانوں کی کئی ٹیمیں اس پر کام کرتی رھی ھیں، جن میں، فلکیات کے ماھرین، جیالوجسٹس، کیمیا کے ماھر، وغیرہ بھی شامل ھیں۔ ایک ماھر نے جب پرانے ترین معدنیات کے ٹکڑے کا خوردبینی جائزہ لیا تو معلوم ھوا کہ یہ ٹکڑا زرقون کا ٹکڑا ھے اور یہ کوئی ساڑھے چار بلین سال پرانا ھے۔یعنی زمین کی ابتدا جتنی اسکی عمر ھے، اس ٹکڑے کے معائنے سے پتہ چلا کہ اس کے اندر پانی کے خالص ترین مالیکیولز موجود ھیں تو ابتدائے زمین کے زمانے کے ھیں۔یہ حیرت ناک دریافت مزید سوالات جنم دے گئی۔معدنیات میں اُس وقت پانی کہاں سے آیا؟ جبکہ زمین سورج سے الگ ھوئی تو آتشیں گولے کی مانند تھی۔ یہ اب سب سے بڑا سوال بن چکا تھا۔ سائینسدانوں اس بارے مختلف نظریات پر کام کرتے رھے ، حتی کہ کیمیائی تجربات اور ابلتے آتش فشاں کا مشاھدہ کرنے پر معلوم ھوا کہ یہ نہیں ھوتا کہ جب کوئی انتہائی درجے کا کھولاؤ یا آگ ھو تو اس میں پانی کا وجود ختم ھوجاتا ھے۔ معلوم ھوا کہ مختلف تعاملات جو ابتدائے آفرینش، بنگ بینگ میں ھوئے ان میں ھائیڈروجن اور آکسیجن کے مِلاپ سے کئی طرح کے پانی بنتے رھے ھیں جن میں آکسیجن یا ھائیڈروجن کے ایٹموں کی تعداد مخلتف رھی۔ جبکہ ھمارے ھاں ھم جسے پانی کہتے ھیں اس میں ایک آکسیجن اور دو ھائیڈروجنز کے ایٹم ھوتے ھیں۔ جبکہ ھائیڈروجن پر آکسائیڈ میں دو ایٹم آکسیجن اور دو ایٹم ھائیڈروجنز کے ھوتے ھیں۔۔اسی طرح ھیلے شہاب ثاقب والے پانی میں چار ھائڈروجن کے ایٹم تھے ،،۔۔ جب زرقون کے معدنی ٹکڑے میں ساڑے چار بلین سال پرانا پانی موجود ھے تو اسکا مفہوم یہ ھےکہ زمین بننے کے عمل میں پانی دو نہیں تین طریقوں سے یہاں آیا، پہلے طریقے میں جب سورج کے ٹکڑے ارد گرد گردش کر رھے تھے تو اُس دھماکے کے بعد جو بڑے قابل ذکر ٹکڑے ایک دوسرے کے قریب سورج کے مدار میں حرکت میں تھے تو زمین کے آتشیں گولے سے برفانی یا زیادہ پانی والے گولے ٹکرائے جسکی وجہ سے یہاں پانی آ موجود ھوا ، گڑھے بھی پڑ گئے۔ مُشتری، مریخ ، عطارد وغیرہ کے مطالعے سے بھی برف پانی وغیرہ کا ھونا ثابت ھے۔ اسکے علاوہ جب زمین سورج سے ایک دھماکے سے جُدا ھوئی تو ساتھ میں پانی بھی موجود تھا جو تجربات سے ثابت ھے جیسے خشک ترین معدنیات کو جب گرم کیا جائے تو اس میں سے پانی کی کنڈینسیشن دکھائی دیتی ھے۔یعنی پانی کے بارے یہ تصور غلط ھے کہ پانی سخت گرم ھونے سے نابود ھوجاتا ھے ،،یہ نابود نہیں ھوتا بلکہ ٹھوس کے اندرون میں مالیکیولز کے ڈیپازٹس میں محفوظ رھتا ھے۔اسکی دلیل وہ پانی ھے جو زمین کے نہایت گرم علاقوں سے دن رات بھاپ یا بادلوں کی صورت فضا میں شُوٹ کرتا رھتا ھے۔ چونکہ چاند بھی زمین سے الگ کیا ٹکڑا مانا جاتا ھے اس لئے اس پر بھی پانی کا ھونا لازم ھے تاھم پانی کسی گھومتے جسم کی بیرونی ساخت کے دانے دار ھونے کی وجہ سے محفوظ نہیں رھتا اور باھر نکل جاتا ھے اسی لئے چاند پر پانی بیرون میں موجود نہیں نظر آیا۔ یہ بھی دلچسپ بات ھےکہ شاید اسی لئے پورے چاند کی کشش سے پانی زمین پر متاثر ھوتا ھے۔ پس سائینس کے مطابق زمین کی ابتدا میں ھی ایک تو زمین کے معدنیات میں پانی موجود تھا اور بعد میں آبی سیاروں کے ٹکرانے سے مزید پانی بیرونی سطح پر وجود میں آتا رھا۔اور یہ صرف زمین پر ھی نہیں ھوا بلکہ دوسرے سیاروں پر بھی ھوا ھے۔ تیسری صورت برفانی شہابیوں کے ٹکرانے سے بھی پانی مزید آ شامل ھوا۔ مزید ریسرچ سے معلوم ھوا ھماری زمین اصل میں اُن سیاروں جیسی ھے جو مائع کی صورت میں سورج سے ٹوٹ کر حرکت پزیر تھے۔ اسی لئے زمین پہلے مائع تھی اور جب ٹھنڈی ھوئی تو اس میں موجود ابتدائی پانی کے علاوہ ھائیڈروجن نے مزید پانی بنایا۔ اسی لئے زمین پر 70 فیصد پانی موجود ھے،جو قوی ثبوت ھے کہ ھمارا سیارہ اصلی میں آبی سیارہ ھی تھا۔اور اسی لئے ابتدا میں آبی جاندار ھی ظہور میں آئے۔۔ آپ اس انگریزی پیرے کو پڑھیں جسے میں ترجمہ بھی کر دیتا ھُوں ،، While modern Earth’s surface is about 70 percent water-covered, the new research indicates that our planet was a true ocean world some 3 billion years ago. At this point, only scattered archipelagos breached our global ocean’s briny surface. That is, if any land existed at all. ۔۔۔ اب جبکہ موجودہ زمین کی سطح 70 فیصد پانی پر مشتمل ھے۔ایک نئی ریسرچ کے مطابق ھماری زمین 3 بلین سال پہلے اصل میں ایک آبی سیارہ تھی۔بعد مین صرف کچھ حصہ زمین کا خشکی کا بھی اوپری سطح پر نمودار ھونے میں کامیاب ھو سکا۔ The scientists based their findings on unique rock samples found in Western Australia’s Panorama district. Because rocks carry imprints of the environments they formed in, the researchers determined the rocks formed in a hydrothermal vent system on the sea floor about 3.24 billion years ago. Over the eons, the rocks were turned on their side and exposed, which allowed scientists to investigate Earth’s watery past from the convenience of dry land. This led them to conclude that ancient Earth may have been a waterlogged planet without any significant landmass. ،،، سائینسدانوں نے اپنی دریافت سے یہ نظریہ ایسے بنایا کہ انہیں مغربی آسٹریلیا سے ایسے پتھر مِلے جو ابتدائے زمین کے بلڈنگ بلاکس متصور ھوتے ھیں۔ معلوم ھوا کہ یہ بلاکس تب بنے جب ماحول ھائیڈرو تھرمل یعنی سخت گرم آبی، ماحول تھا، اور سمندر کی تہہ میں اُلٹ پُلت سے یہ اُوپر آ ظاھر ھوئے۔ ان نمونہ جات کے بارے اوپر مین بیان کر چکا ھوں کہ اُن میں پانی کا مالیکیولز ٹھوس معدنیات کے اندر محفوظ تھے۔ اب پہلی معلومات سے زیادہ پُرلطف تجزیات کی طرف چلتے ھیں۔
"An early Earth without emergent continents may have resembled a ‘water world,’ providing an important environmental constraint on the origin and evolution of life on Earth, as well as its possible existence elsewhere,” wrote the authors of the new study, which was published March 2 in Nature Geoscience.
Despite Earth’s abundant present-day oceans, many mysteries remain about their origins. Did Earth always contain water, or was it delivered later? If later, how much later? And was the source of the water comets, asteroids, or something else?
Scientists are still pondering these questions and more. This is because the evidence — like ancient minerals called zircons that seem to have formed in a watery environment — clearly implies that Earth sported water since about 4.4 billion years ago, just after our planet came to be. That’s a long oceanic history.
However, it’s less clear how much water early Earth actually had. And by studying their chunk of the ancient seafloor, the researchers were able to probe that question.
The oxygen network When rocks form in water, that water imprints its story in stone. Water, or H2O, is always made of hydrogen and oxygen. But the isotope, or type of oxygen, within the water also reveals something about the environment that water formed in. For example, how warm it was, or how the water cycled between land, sea, and air over time.
There are two common isotopes of oxygen. A light version, oxygen-16 (O16), which has eight protons and eight neutrons. And its heavier cousin, oxygen-18 (O18), which has eight protons and ten neutrons. Those two extra neutrons give O18 extra weight, which means water molecules containing O16 evaporate more readily than the heavier O18 versions. Additionally, rocks and dry land are more likely to capture and absorb O18, removing it from the sea stores.
When the authors of the new study examined their chunk of ancient seafloor, they found a lot of O18 — more, on average, than is found in our modern oceans. And because dry land is a huge reservoir of heavy oxygen, an abundance of O18 in Earth’s early days hints that such a reservoir simply didn’t exist. The researchers determined that the most likely reason for the excess of heavy oxygen in their sample is that dry land hadn’t yet emerged from the ancient ocean.
آئیے پھر دُھراتے ھیں پہلے نظریے کے مطابق تین ارب سال پہلے جب زمین کو وجود میں آئے ہوئے تقریبا ایک ارب سال بیت چکا تھا اور زمین آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہو رہی تھی تو اس پر کیمیائی عمل کے نتیجے میں پانی وجود میں آیا ۔
شروع میں زمین بہت گرم تھی، جس وجہ سے ایٹمز آپس میں مل کر کوئی نئے مالیکیولز بنا رہے تھے، لیکن جیسے جیسے زمین ٹھنڈی ہوئی ویسے ہی مختلف ایٹمز ملے اور نئے مالیکیولز کو ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس اور زمین میں موجود ہائیڈروکاربنز جنم دیا، یہ مالیکیولز بھی ایک دوسرے سے ملے اور مزید باریک مالیکیولز بنے، ان کے ملنے سے پہلا خلیہ پہلا جاندار بنا جو ہائیڈروجن سلفائیڈ گیس اور زمین میں موجود ہائیڈروکاربنز کو بطور خوراک استعمال کرتے۔ اس سے فضا میں آکسیجن گیس بننے لگی اور پھر اوزون کی تہہ بن گئی۔۔ اس کے ساتھ ہی آکسیجن مٹی میں موجود دوسری معدنیات سے ملی اور اس کیمیائی عمل کے نتیجے میں پانی کا مالیکیول جس میں دو ایٹم ہائیڈروجن اور ایک ایٹم آکسیجن کا ہوتا ہے وجود میں آیا۔
اس عمل کو کیمیائی ریڈکشن کہتے ہیں۔
اس عمل کے نتیجے میں پانی تیزی سے بننے لگا۔ اور زمین پر موجود تمام گڑھے پانی سے بھر گئے، سورج کی روشنی تو پہلے سے موجود تھی اس لیے بادل بننے کا عمل اور بارشوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا، جس سے زمین اور ٹھنڈی ہوتی چلی گئی اور مختلف اقسام کے جانداروں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے نظرئیے کے مطابق زمین پر گرنے والے شہاب ثاقب زمین پر پانی لائے۔ زمین کے ابتدائی دور میں بڑے بڑے شہاب ثاقب زمی پر گرتے تھے اور اب بھی مسلسل گر رہے ہیں۔ یہ شہاب ثاقب اپنے ساتھ پانی بھی لاتے تھے۔ جو کے اس وقت کی گرم زمین کو ٹھنڈا کرنے میں معاون ثابت ہوئے اور زندگی کی ابتداء کا باعث بھی بنے۔لیکن پانی کی مقدار چونکہ بہت زیادہ ھے اس لئے یہ نظریہ مناسب نہیں ھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیسرا نظریہ یہ کہ زمین جب بنی تو زمین سے آبی سیارے ٹکرائے اور پانی وھاں سے زمین پر منتقل ھوا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوتھا نظریہ یہ کہ زمین اصل میں خود ھی ایک آبی سیارہ تھی یا مائع سیارہ تھی اور اس پر خشکی بعد میں بنی۔۔ یہی نظریہ نئی دریافتوں کے قریب ترین نظریہ ھے۔ ،،،،،،،
المختصر، جب نئی تحقیق کرنے والوں نے قدیم سمندر کی تہہ والے معدنی ٹکڑے کا تجزیہ کیا تو اس میں آکسیجن اٹھارہ کی کثرت پائی۔جو ھمارے موجود سمندر میں اتنی مقداری اوسط میں موجود نہیں ھے۔۔ اس سے پتہ چلا کہ ابتدا میں خشک زمین کسی جگہ شاید موجود نہ تھا اور اِسی لئے آکسیجن کا سرچشمہ آبی فضا تھی۔ یعنی زمین پر پانی بعد میں کسی نے ھرگز نہیں بھیجا، پانی پہلے سے موجود تھا۔اُسوقت جب زمین بنی تھی پانی بھی ساتھ آیا تھا۔ اب تک کی جدید ترین تحقیق یہی کہتی ھے۔اور اسکا سائینسی ثبوت بھی رکھتی ھے۔ (رفیع رضا۔۔۔2021 کینیڈا
"کیا ذبح ہونے والا جانور آ گیا ہے؟” یہ سوال سعودی ولی عہد کے ذاتی محافظ اور ہِٹ ٹیم کے سربراہ، ماہر عبدالعزیز المطرب کی جانب سے پوچھا جاتا ہے۔ یہ واقع بتاتے ہوئے اقوام متحدہ کی خصوصی تفتیش کار برائے ماورائے عدالت قتل، ایگنس کیلامارڈ کی معاون، برطانوی وکیل، ہیلینا کینیڈی کی آواز سے دہشت جھلکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کسی کی آواز میں خوف کو سننے کی ہولناکی، اور یہ کہ آپ ایسے زندہ شخص کی آواز سن رہے ہیں جسے چند ہی لمحوں میں ذبح کیا جانے والا ہے، کی سرسراہٹ آپ کی ریڑھ کی ہڈی سے گزرتی ہے۔ آپ انہیں ہنستے ہوئے سن سکتے ہیں۔ وہ مزہ کر رہے ہیں۔ وہ وہاں انتظار کر رہے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ جو شخص اندر آنے والا ہے اسے ذبح کر کے اس کی لاش کو ٹکڑوں میں کاٹا جائے گا۔
مطرب فرانزک پیتھالوجسٹ صالح الطبیقی سے پوچھتے ہیں، "کیا ان کی لاش کسی بیگ میں رکھنا ممکن ہو گا؟” "نہیں، وہ بہت بھاری اور لمبے ہیں”۔ دونوں خشوگی کے جسم کو چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنے کی افادیت پر تبادلہ خیال کرتے ہیں، الطبیقی کے مطابق یہ کام "آسان” ہوگا۔ "ان کا جوڑ جوڑ علیحدہ کٹ جائے گا۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر ہم پلاسٹک کے تھیلے لے کر ان کے جسم کو ٹکڑوں میں کاٹ لیں تو یہ جلدی ہو جائے گا۔ ہم ان میں سے ہر ایک کو الگ لپیٹ دیں گے۔” الطبیقی مزید کہتے ہیں، "میں نے کبھی بھی گرم جسم پر کام نہیں کیا ہے، لیکن میں آسانی سے اس کو کاٹ لوں گا۔”
یہ ساری گفتگو سعودی صحافی جمال خشوگی کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے سے ٹھیک پہلے تقریبا اس وقت کی ہے جب وہ استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ جمال کو اپنے بیٹے کو میسیج کرنے کو کہا جاتا ہے جس میں ان کے بیٹے کو تاکید کی گئی ہو کہ اگر وہ چند دنوں تک گمشدہ رہیں تو یہ بات کسی کو نا بتائی جائے جس پر وہ انکار کر دیتے ہیں۔ "جلدی کرو۔ ہماری مدد کرو تاکہ ہم بھی آپ کی مدد کرسکیں کیونکہ بالآخر ہم آپ کو واپس سعودی عرب لے جائیں گے اور اگر آپ ہماری مدد نہیں کرتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوگا۔ یہ کام اچھے سے ہونے دیں۔”
خشوگی ایک پرسکون شخص سے، خوف کے احساس تلے دبتے ہوئے، سراسیمہ اور مضطرب شخص کے طور پر سنائی دیتے ہیں- یہ جانتے ہوئے کہ کچھ مہلک واقع ہونے والا ہے، ان کی آواز میں در آنے والا خوف آخری حد تک پہنچ جاتا ہے۔ ‘کیا آپ مجھے زبردستی انجیکشن دینے جارہے ہیں؟’ جس پر انہیں ‘ہاں’ کہا جاتا ہے۔ "یہ کسی سفارت خانے میں کیسے ہوسکتا ہے؟” اس کے فورا بعد ان کے منہ پہ دم گھونٹنے والا تھیلا چڑھا دیا جاتا ہے۔ خشوگی کی مزاحمت جلدی ہی دم توڑ جاتی ہے کیونکہ انہیں اعصاب مختل کر دینے والا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ ان کے آخری الفاظ ہوتے ہیں، "مجھے دمہ ہے ایسا مت کرو، میرا دم گھٹ جائے گا۔” تبھی ماہر المطرب کہتے ہیں کہ ‘اسے کاٹ دو’، ‘اسے اتار دو ، اسے اتار دو۔ اس کے سر پر رکھو۔ اس کے سر کو اس میں لپیٹو.’ شاید یہی وہ لمحہ ہے جب جمال کا سر کاٹ کر ان کے دھڑ سے الگ کر دیا جاتا ہے۔
الطبیقی اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ جب وہ پوسٹ مارٹم کر رہے ہوتے ہیں۔ "میں انسانی لاشوں کو کاٹتے ہوئے اکثر ہیڈ فون پہ موسیقی سنتا ہوں اور کبھی کبھی تو میرے پاس کافی اور ہاتھ میں سگار بھی ہوتا ہے۔ اب کی بار زندگی میں پہلی دفعہ مجھے زمین پر ہی کسی انسان کے ٹکڑے کرنا پڑیں گے، بصورت دیگر تو اگر آپ قصائی بھی ہیں تو آپ جانور کو کاٹنے کے لٹکا دیتے ہیں۔” الطبیقی ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ وہ بظاہر غیر مطمئن سے لگتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لاش کو ٹھکانے لگانے کے واضح مقصد کے ساتھ ، الطبیقی کو آخری لمحے میں شامل کیا گیا تھا۔ الطبیقی کہتے ہیں، "میرے براہ راست منیجر کو معلوم نہیں ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ کسی پریشانی کی صورت میں مجھے کوئی نہیں بچائے گا۔”
ایک اور شخص جو اس منظر نامے میں پریشان محسوس ہوتا ہے وہ قونصل جنرل محمد العتیبی ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ اگر آپ ملک واپسی پہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو بکواس بند رکھیں اور کاروائی میں رکاوٹ نا ڈالیں۔ انہیں اس لیے یہ سننا پڑا ہے کیونکہ وہ ٹیم کو اپنا کام کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں، "یہ کام باہر جا کر کرو۔ آپ کا یہ کام مجھے کسی مصیبت میں پھنسا دے گا۔” اسی دوران، اگلے ۳۰ منٹ تک، پوسٹ مارٹم کرنے والے آرے کی ہڈیاں اور گوشت کاٹتے ہوئے آواز آتی ہے۔
جمال واشنگٹن پوسٹ کے صحافی تھے اور سعودی حکومت کی مطلق العنانیت کے سخت مخالف تھے۔ وہ سعودی ولی عہد کی ایک ایسی آمرانہ شبیہہ دنیا کو دکھا رہے تھے جسے سعودی حکومت یقینی طور پر کبھی پروجیکٹ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان کی تحاریر نے ولی عہد کو برافروختہ کردیا اور وہ اپنے ساتھیوں سے جمال کے مسئلے کے بارے میں کچھ کرنے کو کہتے رہے۔ استنبول میں، سعودیوں کو خشوگی کے بارے میں "کچھ کرنے” کا موقع مل گیا۔
ایگنس کیلامارڈ نے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی اپنی حتمی رپورٹ میں یہ نتیجہ نکالا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ جرم ریاستی قتل کے علاوہ کسی بھی اور طریقے سے بیان کیا جا سکے۔ اپنے آخری الفاظ میں، جمال کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے ان کے قتل کی حقیقی اہمیت سے خبردار کرتے ہوئے کہا، "یہ نہ صرف میرے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے المیہ ہے، ان تمام لوگوں کے لئے جو جمال کی طرح آزادانہ سوچتے ہیں اور جنہوں نے ان جیسا جمہوری مؤقف اختیار کیا۔”
میں ظالموں سے آزادی کی جدوجہد کبھی نہیں چھوڑوں گاحالانکہ میں زندگی بھر جیل کا قیدی رہوں گا۔یہ الفاظ نوبل انعام یافتہ، لیو ژیاؤبو ایک چینی ناقد، لکھاری، پروفیسر اور انسانی حقوق کے کارکن کے ہیں جو چینی کمیونسٹ پارٹی کے یک جماعتی حکومتی نظام کے خلاف تھے۔ ژیاؤبو کو دسمبر 2008ء میں نمائندہ جمہوریت کے لئے آواز بلند کرنے پر حراست میں لیا گیا اور ایک سال بعد ان کو 11 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ژیاؤبو کے آخری سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرنے کا باعث بننے والا "جرم” منشور 08 تھا۔ "موجودہ سیاسی نظام اس حد تک پسماندہ ہوچکا ہے کہ تبدیلی سے گریز نہیں کیا جاسکتا،” انہوں نے یک جماعتی حکمرانی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے منشور میں کہا۔ یہ منشور 1949 میں چین کی آزادی کے بعد سے چھپنے والا پہلا منشور تھا۔
2010 میں ، لیو کو "چین میں بنیادی انسانی حقوق کی طویل اور عدم تشدد کی جدوجہد” کے سبب امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ایوارڈ کی تقریب میں ان کی نمائندگی خالی کرسی نے کی کیونکہ تب ان کو جیل میں قید دوسرا سال تھا۔ ناصرف ان کو بلکہ ان کی شریک حیات لیاؤ ژیاء کو بھی حراست میں لے لیا گیا جو تاحال قید تنہائی کاٹ رہی ہیں۔
ژیاؤبو دوران حراست جگر کے کینسر کا شکار ہو گئے۔ چینی حکومت نے ان کے علاج کے لیے کی گئی درخواستوں کو رد کر دیا اور ان کو تب تک مسلسل جیل میں رکھا گیا تاوقتیکہ کہ حکومت کو ان کی بیماری کے ناقابل علاج ہونے کا یقین نہیں ہو گیا۔ ذاتی درخواستوں کے علاوہ بین الاقوامی دباؤ بھی اس سلسلے میں ناکافی رہا۔ بالآخر ان کی موت سے صرف چند ہفتے پہلے حکومت نے انہیں جیل سے نکال کر ہسپتال پہنچایا جہاں ان کا کینسر آخری سٹیج پر تشخیص ہوا۔ بین الاقوامی برادری بار بار انہیں علاج کی خاطر ملک سے باہر بھیجنے پر زور دیتی رہی مگر چینی حکومت مصر رہی کہ ان کا تسلی بخش علاج ملک میں ہی ہو سکتا ہے۔
چند دن بعد چائنا میڈیکل یونیورسٹی کے شینیانگ فرسٹ اسپتال نے جگر کے کینسر کے باعث ان کی موت کی اطلاع دی۔ "مجھے اس حکومت سے نفرت ہے ،” مصنف اور سیاسی کارکن ٹینائچی مارٹن لیاؤ، جو 30 سال سے ژیاؤبو کی دوست رہی ہیں، نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ صرف غم ہی نہیں، غم و غصہ ہے۔ ژیاؤ جیسے شخص کے ساتھ کوئی حکومت ایسا سلوک کیسے کرسکتی ہے؟
20 اگست 2020 کو، روسی شہر ٹومسک سے ماسکو جانے والی پرواز کے دوران ایک شخص منہ کے بل جہاز کے فرش پہ جا گرتا ہے۔ اندیشہ ہے کہ اسے بعید الاثر زہر دیا گیا ہے۔ طیارے کی ہنگامی لینڈنگ کے بعد انہیں کوما کی حالت میں اسپتال داخل کیا جاتا ہے۔ یہ خبر پھیلنے کے چند ہی لمحوں میں وفاقی سیکیورٹی اداروں کے اہلکار اسپتال کے کمرے کو گھیر لیتے ہیں کیونکہ زہر خورانی کا شکار ہونے والا شخص الیکسی ناوالنی ہیں جو روسی صدر پیوٹن کے سب سے بڑے ناقد ہیں۔ ان کی جان کو درپیش خطرے کے پیش نظر جلد ہی انہیں علاج کی خاطر جرمنی منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں سے وہ صحت یاب ہو کر روس واپس لوٹتے ہیں۔
جرمن تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ انہیں ملٹری گریڈ زہر ایک ایسے روسی خفیہ ڈیتھ اسکواڈ نے دیا تھا جو 3 سال سے اس مشن پہ تھِا۔ یہی زہر برطانیہ میں پناہ گزین، برگشتہ روسی جاسوس سرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی کو بھی دیا گیا تھا۔ جنوری 2021 کے وسط میں ناوالنی کو روس واپس پہنچتے ہی حراست میں لے لیا گیا۔ جس تھانے میں انہیں رکھا گیا تھا وہیں پہ عدالت لگاتے ہوئے انہیں اس رات جیل کی سزا سنا دی گئی۔ حالانکہ ان کی اس سزا پہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر ممالک نے زبردت تنقید کی مگر روسی حکومت کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔ بلکہ اس کے جواب میں انہیں بیگار کیمپ میں بھیج دیا گیا۔
ناوالنی نے ایک باضابطہ شکایت میں حکام پر نیند سے محروم رکھنے، تلاوت کے لیے قرآن فراہم نا کیے جانے اور تشدد کا الزام عائد کیا ہے۔ ناوالنی کے ایک وکیل نے ان کی صحت کی خرابی کی نشاندہی کی جبکہ جیل حکام نے ناوالنی کی جانب سے سویلین طبیب سے متعلق درخواستیں رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی صحت "اطمینان بخش” ہے۔ کچھ دن کے بعد، چھ ڈاکٹروں، جن میں ناوالنی کی ذاتی معالج ، اناستاسیا واسیلییوا، اور سی این این کے دو نامہ نگار شامل تھے، کو جیل کے باہر سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب انہوں نے ناوالنی سے ملنے کی کوشش کی جن کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل، ایگنس کیلامارڈ نے صدر ولادیمیر پوتن پر الزام لگایا ہے کہ ناوالنی کو جیل میں تشدد اور غیر انسانی سلوک کے ذریعے آہستہ آہستہ قتل کیا جا رہا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ناوالنی کو فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت ہے۔ ناوالنی کی ذاتی ڈاکٹر، واسیلییوا اور تین دیگر ڈاکٹروں ، جن میں امراض قلب کے ماہر بھی شامل ہیں، نے جیل کے عہدیداروں سے یہ کہتے ہوئے انہیں فوری طبی رسائی دینے کا مطالبہ کیا کہ "ہمارا مریض کسی بھی لمحے دم توڑ سکتا ہے”، اس کا مطلب ہے مہلک دل کا دورہ یا بڑھتے ہوئے طبی خطرے کی وجہ سے "کسی بھی لمحے” گردوں کی ناکامی۔ تاہم، روسی حکام کی طرف سے غیر ملکی حکومتوں کی روسی صدر پر تنقید کی سرزنش کرتے ہوئے کریملن کے ترجمان دمتری پیسوکوو نے کہا کہ جیل کے حکام ناوالنی کی صحت کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہ صدر کی ذمہ داری نہیں ہے۔
اگر آپ چند ہفتے پہلے بیلارس کے 26 سالہ حکومت مخالف صحافی، رومن پروٹاسیوچ کی ایک بین الاقوامی پرواز سے اغوا کی سازش، شمالی کوریائی رہبر اعلی کم جونگ ان کے وزن میں کمی سے پریشان سرکاری صحافت اور پاکستان میں مخالف رائے کا گلا گھونٹے جانے سے پریشان ہیں تو یقین کیجئے کہ یہ مماثلت صرف اتفاقی نہیں ہے۔ کچھ دیگر مماثلتوں میں حکومتی ڈھانچہ بھی شامل ہے۔ سعودی عرب میں 88 برس سے، چین میں 72 برس سے اور روس میں 104 سال سے ایک ہی نقطہ نظر سوار بر اقتدار ہے۔ بعینہٖ، پاکستان میں پچھلے 74 سال سے، شمالی کوریا میں 73 برس سے اور بیلارس میں آزادی سے لے کر آج تک ایک ہی ادارہ حکومت پہ قابض ہیں۔
چنانچہ اگر پاکستان دوست ممالک کی پیروی کر رہا ہے تو کیا قیامت آ گئی؟ اگر ہمارے نظریاتی رہنما، سعودی، جمال خشوگی کے جسم کے ٹکڑے کر کے غائب کر سکتے ہیں تو پاکستانی شہر منڈی بہائوالدین میں لاپتہ صحافی سید سلیم شہزاد کی کٹی پھٹی لاش ملنے میں کیا قباحت ہے؟ اگر دوست ملک چین، لیو ژیاؤبو کو جیل میں رکھ کر موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے تو پاکستانی دانشوروں کی جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل کیوں قابل اعتراض ہیں؟ اگر روسی حزب اختلاف کے رہنما الیکسی ناوالنی کو جبری مشقت کے کیمپ میں سست موت دی جارہی ہے تو کیوں پاکستانی اختلافی آوازیں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت وغیرہ کا فضول مطالبہ کریں؟ آخرکار، شمالی کوریا کے چینی، بیلارس کے روسی اور پاکستان کے سعودی، چینی اور روسی، سب کے مشترکہ، نقش قدم پہ چلنے میں حرج ہی کیا ہے؟
سوشل میڈیا خاص طور پر اور باقی میڈیا اور کتابوں میں چھپی شاعری کو چوری کرنے کے بہت سے طریقے اردو شاعری میں رائج کئے گئے۔اور پھر ان طریقوں کو ادبی اصطلاحی نام بھی عطا ہوئے۔جیسے کلاسیکی تتبع۔۔۔روایت سے جُڑنا۔وغیرہ ،، تین عظیم آرٹسٹس 18ویں صدی میں ھو گزرے جنہوں نے ملتے جلتے الفاظ میں آرٹ کی چوری یا اکتساب یا اثر کو بیان کیا ھے۔ اِگور سٹراوِنسکی، پابلو پِکاسو، ٹی ایس ایلیٹ ان تینوں نے یہی کہا ھے کہ آرٹ یعنی پینٹنگ، فوٹو گرافی، شاعری ڈرامہ وغیرہ کو کمزور اور کمتر آرٹسٹس توڑ مروڑ کر اپنا لیتے ھیں۔ جبکہ عظیم و اعلی آرٹسٹس ھُو بہو اپنا لیتے ھیں۔ جیسے آپ نے دیکھا غالب نے بیدل کی اتنی تعریف کی اور پھر اسکا شعر اپنا لیا۔۔۔ بوئے گُل ، نالہِ دل، دُودِ چراغِ محفل ہر کہ از بزم تو برخاست، پریشاں برخاست اسی طرح فیض نے ساحر سمیت کئی شعرا کا کلام بغیر واوین کے استعامل کیا ھے۔۔ یہ تو بڑے شعرا کی بات تھی۔۔ اب ھمارے ارد گرد روز ایک دوسرے کے اشعار سے متاثر ھو کر شاعری کرنے کو یہ کہہ کے اخلاقی بتایا جاتا ھے کہ کلاسیکی شعرا بھی ایسا ھی کرتے تھے اور ایک ھی زمین میں سب کوششیں کرتے تھے۔۔۔یعنی کلاسیکی شعرا اگر لونڈوں کی تعریف میں غزلیں کہتے تھے تو اب بھی یہی کرنا چاھئیے عجیب احمق گاؤدی مسلمان معاشرے سے پالا پڑا ھے جو برائی کو اچھائی کا سرٹیفیکیٹ ،،خود ھی دیتا ھے اور سارے چور اور نقال اس نقالی کو مزید اخلاقی سند جاری کرتے ھیں۔۔کہ واہ واہ جناب کیا نقل کی ! میں اس معاملے میں سطحی باتیں نہیں کرنا چاھتا اور اس نقل کی سائیکی کی تہہ میں پہنچنا چاھتا ھُوں۔۔اسے ایک سنجیدہ تحریر کے طور پر پڑھیں ،،، واپس چلتے ھیں۔ اقبال نے مغربی شاعری کے ترجمے کئے۔۔۔ اور بہت جگہ حوالے دئیے اور کئی جگہ کچھ نہ بتایا، کسی جگہ نیا لفظ ایجاد کیا "ماخوذ "، یعنی نقل کے لئے اگر ھُو بہو نقل نہ کیا تو اُسے ماخوذ کہہ دیا۔جس سے مُراد یہ ھے کہ انکی اس شاعری کا ماخذ کوئی اور ھے۔جو لوگ اقبال کو عظیم شاعر یا فلسفی وغیرہ کہنے میں جلدی کرتے ہیں انکو سوچنا چاھئیے کہ کوئی بھی عطیم لکھاری عظیم فلسفی لازمی طور پر اوریجنل ھوتا ھے وُہ دوسروں کے ترجمے نہیں کرتا نہ دوسروں سے اکتساب کر کے ماخوذ کی ٹرم ایجاد کرتا ھے۔دنیا بھر میں عظیم ادیب دانشور شاعر پینٹر پائے جاتے ہین لیکن مجال ہے کہ کسی عطیم شاعر کے ھاں ایسا کوئی ماخوذ یا اکستساب یا ترجمہ کا عندیہ بھی مِلے۔۔اس لئے آپ پاکستانی مسلمان ذرا ھتھ ھولا رکھا کریں ھیرو ھوتے ھیں زبردستی نہیں بنائے جاتے۔ آپ غلطی پر ھیں۔ ۔۔۔ انگریزی ادب میں سرقہ چوری نقل پلیجرازم کی کئی قسمیں بیان ھوئی ھیں۔۔ھم پہلی قسم کی بات کر رھے تھے۔۔۔کہ جس میں ھُو بہو لفظ بہ لفظ چوری کر لینا ،لیجانا اور بیان کردینا شامل ھے۔۔ ۔۔ جیسے غالب کا شعر اوپر بیان ھوا ھے غالب نے کہا
بوئے گُل نالہِ دل ، دُودِ چراغِ محفل جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا ،، ایک دو الفاظ کے علاوہ تمام مفہوم و منظر وھی ھے جو بیدل کے فارسی کلام میں ھے۔۔اس سرقے یا چوری یا نقل کو کلوننگ پلیجر ازم کہتے ھیں۔کلوننگ کا لفظ پاکستان میں تب مشہور ھوا جب سائینسدانوں نے بھیڑوں کی کلوننگ کی جس میں ایک بھیڑ کے ڈی این اے سے اُسی جیسی بھیڑ لیباریٹری میں بنائی گئی۔پس کسی ادب پارے کےبنیادی ڈھانچے یا منظر ڈی این اے کو نقل کرنا ادب میں چوری کہلاتا ھے۔ اس میں کسی نثر کا پورے کا پورا پیرا گراف شامل کرنا ، ھُو بہو نقل میں شمار کیا جاتا ھے۔جیسے کراچی میں غالباً چار پروفیسران پر عدالتی مقدمے ھوئے اور انہیں چور گردانا گیا انہوں نے طلبا کے مقالہ جات کو اپنے مقالہ جات ظاھر کیا۔ پاکستان اور ھندوستان میں مقالہ جات کا سرقہ بہت عرصے سے جاری ھے ، بہت سے نام نہاد ایوارڈ یافتہ پاکستانی ھندوستانی پروفیسران کی کتابیں اور مقالہ جات ھرگز انکے اپنے نہین بلکہ انکے طالب علموں کی کوشیں ھوتی ھیں،،جیسے ساختیات،،اور پس ساختیات وغیرہ ڈبل چربے ھیں یعنی انگریزی کے چربے اور پھر لکھا کسی نے شائع کسی اور نے کروایا۔ بیسیوں خبروں میں سے ایک خبر آپ پڑھیں معطل ہونے والے اساتذہ میں سب سے بڑا نام اسلامک سٹڈیز فیکلٹی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر جلال الدین احمد رومی کا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مشرق وسطٰی کے مختلف عربی مصنفوں کی تحریریں چرا کر تحقیقی مقالہ تیار کیا اور اس مقالے کی مدد سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے پروفیسر اور فیکلٹی کے ڈین کے عہدے پر ترقی حاصل کی۔
معطل ہونے والے دوسرے اساتذہ میں کیمیسٹری ڈپارٹمینٹ کے چیرمین پروفیسر ڈاکٹر سعید آرائیں اور ان کی اہلیہ پروفیسر ڈاکٹر نجمہ سلطانہ شامل ہیں جو پہلے فیکلٹی آف فارمیسی کی ڈین بھی رہ چکی ہیں۔ دونوں نے ترقی پانے کے لیے دوسرے سکالروں کے مضامین چراکر تحقیقی مضامین لکھے۔
اسلامک سٹڈیز فیکلٹی کے ڈین ڈاکٹر رومی پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اپنی مدت ملازمت بڑھانے کے لیے جعل سازی کے ذریعے اپنے شناختی کارڈ کے ریکارڈ میں چار سال عمر کم کرائی تھی۔
کراچی یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر رئیس علوی نے بتایا کہ ان اساتذہ کے خلاف کارروائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایت پر کی گئی ہے۔ اسی طرح ایک اور واقعے میں،، وزارت مذہبی امور کی جانب سے جمع کردہ مقالوں کی تعداد 100سے زائد تھی،جن میں سے جیتنے والوں میں ڈاکٹر عامر طاسین اور آسیہ اکرام کا نام بھی تھا۔جنہیں صدرپاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے انعامات و ایوارڈ سے نوازہ تھا۔بعد ازاں معلوم ہوا کہ مقالہ جات کی شائع ہو ے والی کتاب میں ڈاکٹر عامر طاسین اور آسیہ اکرام کا مقالہ لفظ بہ لفظ ایک ہی جیسا تھا۔ جس کے بعد ایگیزیکٹیو ڈائیریکٹر مجلس علمی فاؤنڈیشن اوررکن بورڈ آف گورنر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، معروف مذہبی اسکالر ومحقق ڈاکٹرعامرطاسین نے وزارت مذہبی امور کو ایک خط لکھا اور انکشاف کیا تھا کہ میرا مقالہ غائب کرکے اسلام آباد کی آسیہ اکرام کوبھی صدارتی ایوارڈ اور انعام سے نوازا گیا ہے۔ڈاکٹر عامر طاسین نے 31 مارچ کو مذکورہ خط وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور سیکرٹری مذہبی امور کے نام لکھ کر انکوائری کرنے کی درخواست کی تھی۔ ۔۔ مزید اسلامی جمہوریہ میں تحقیق چوری کا معاملہ دیکھیں۔ لاہور: پنجاب یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کا مقالہ چوری کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ سنٹر فار انٹیگریٹیڈ ماؤنٹین ریسرچ کے سربراہ ڈاکٹر صفدر علی شیرازی کے مقالے میں 40 فیصد چربہ سازی کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے سی آئی ایم آر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر صفدر شیرازی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نےایک ہی مقالہ دو مختلف ریسرچ جرنلز میں مبینہ طور پر شائع کرایا ہے جبکہ اس تحقیقی مقالے میں 40 فیصد چربہ سازی کی گئی ہے۔
تعلیمی زاویہ کو دستیاب دستاويزات کے مطابق ڈاکٹر صفدر علی شیرازی نے انڈین پنجاب کی موسمیاتی تبدیلی پر لکھے گئے ریسرچ پیپر کو من و عن پاکستانی پنجاب کی موسمیاتی تبدیلی سے منسوب کیاجس میں صرف شہروں کے نام تبدیل کیے گئے اور باقی ماندہ تحقیق انڈین پنجاب سے متعلق بھارتی پروفیسر کی تحقیق ہے۔ ۔۔۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے بعد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے 30 پروفیسرز پر بھی چوری شدہ مقالے جمع کرانے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ملک بھر سے چوری شدہ مقالوں کے حوالے سے سینکڑوں شکایات موصول ہوچکی ہیں۔ لیکن کسی کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ ذرائع کے بقول ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ارشد علی نے استعفیٰ بھی دباؤ پر دیا ہے۔ جبکہ سرقہ ثابت ہونے پر نہ صرف پی ایچ ڈی کی ڈگری واپس لے لی جاتی ہے بلکہ ملازمت سے بھی فارغ کردیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دوسروں کے مقالے چوری کرکے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں کے معاملات سامنے پر عالمی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔ ،،،،،،،،،،، اوپر تو صرف چند خبریں شامل کی ھیں وگرنہ زمینی صورتِ حال اس سے کہیں بُری ھے۔۔ کینیڈا میں ایک متشاعر تسلیم الہی زلفی نے ادھر ادھر سے شاعری لیکر کئی مجموعے چھپوائے اور اُسے اسلام آباد پنڈی کے احمق شُعرا و ادیبوں رحمان حفیظ وغیرہ نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔اسی ٹور میں اس فراڈ شخص تسلیم الہی زلفی نے مختلف پاکستانی شاعرات کو اُلّو بنایا کچھ سے رقم اینٹھی کچھ سے اپنے حق میں تشہیری پروگرام کروائے ۔۔۔اور لالچ دیا کہ وہ کینیڈا میں انکے لئے عالمی مشاعرہ کروائے گا۔ متاثرین کی لمبی فہرست میں حبیب جالب کی بیتی بھی شامل ھیں، اسناتھ کنول نامی لاھور کی شاعرہ بھی اور بہت سے ایسے لوگ بھی جنہوں نے شرم کے مارے اپنی ذاتی کہانی نہیں کھولی۔ اسی طرح تسلیم الہی زلفی نے ایک من گھڑت کتاب ،،فیض بیروت میں۔۔۔کے نام سے چحاپی جو مکمل جھوٹ کا پلندہ ھے،،،تسلیم الہی کی کوئی ملاقات کبھی فیض سے ھوئی ھی نہیں، اشفاق حسین کینیڈآ نے مکمل حوالوں سے اس کتاب کو افسانہ ثابت کیا ھے اور میں نے ماڈرن تکنیک سے وہاں شائع شُدہ فوٹو کو جعلی ثابت کیا جس میں تسلیم الہی فراڈیہ ، فیض کے ساتھ کھڑا ہے۔ خیر میں نے اوپر پہلی قسم کی نقالی یا کلوننگ پلیجرازم کی بات کی ھے آئیے دوسری قسم پر گفتگو کرتے ھیں ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چربہ ، چوری، نقالی کی دوسری قسم مکس ازم پلیجرازم کہلاتی ھے، اس میں "بنیادی منظر” ، "خیال” یا "ارادے” کو تھوڑی تبدیلی سے بیان کر کے چوری کی جاتی ھے۔ ، جیسے،،، اقبال کا شعر دیکھیں میں جو سر بسجدہ ھوا کبھی تو زمیں سے یہ آنے لگی صدا ترا دل تو ھے صنم آشنا، تجھے کیا مِلے گا نماز میں ۔۔۔ اب دیکھیں اقبال کا شعر کہاں سے برآمد ھوا؟
بہ زمیں چو سجدہ کردم ز زمیں ندا بر آمد کہ مرا خراب کردی ،تو ، بہ سجدۂ ریائی (فخر الدین عراقی) یعنی اقبال کے وھم و گمان میں بھی یہ خیال نہیں آ سکتا تھا کہ سجدہ کرنے پر ان سے یہ تخاطب ہوگا ۔ اقبال کو یہ خیال و منظر مکمل طور پر عراقی نے دیا۔ جس میں اقبال نے قدرے تبدیلی ، یعنی مکسزم پلیجرازم کا استعمال کیا ھے۔(اور ھاں کہیں نہیں کہا کہ یہ ماخوذ ھے، وہ لوگ جو جلدی سے کہتے ھین اقبال نے ترجمے کئے تو ساتھ لازمی بتایا کہ ماخوذ ھے ) خیر اقبال کی تو کوئی 36 نظمیں اور بےشمار اشعار دوسروں کے اشعار کا ترجمہ ہیں یا مکسزم سرقہ کا شکار ھیں۔ کثرت سے خوشحال خان خٹک کی شاعری اور دوسری پشتو انقلابی شاعری کے ترجموں سے اقبال نے بہت فائدہ لیا۔۔ساری کی ساری تراکیب و نظریات لے لئے۔۔ جو ان کے وھم و گمان میں بھی نہیں تھے۔۔۔جیسے ۔۔۔ستاروں پر کمند ڈالنے والے جوان۔۔۔ حوالوں کے لئے یہ اشعار یاد رکھئیے ،،،، علامہ اقبال خوشحال خان خٹک کی شاعری سے کیسے مرعوب ھوئے۔ ترجمہ کیا۔۔نظریہ لیا۔۔۔خیال لیا۔۔۔۔۔مضمون لیا۔۔۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں۔ د خوشحال سلام په هغه شا زلمو دے کمندونه چې د ستورو په اسمان ږدي خــــــوشحال خٹک ۱. محبت مجهے ان جوانوں سے هے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند اقـــــبال ۲. ځه هغه شهباز شه چې یې ځای په سردرو وي نۀ لکه د کلي کارغۀ ګرځه غم د نس کا خوشحــــــال خٹک ٢. نہیں ہے تیرا نشیمن قیصری سلطانی کے گنبد پر تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر اقـــــــبال ۳. د کارغۀ لايق خو باز دی يا شاهين دی پۀ دا څۀ چې د کلاغ په سر کلاه شي خوشحال خٹک ۴. برہنہ سر نو عزم بلند پیدا کریہاں فقط سر شاہین کے واسطے ہے کلاہ اقبـــــــال ۵. و اغېارته لکه کانړی موم و يار ته پۀ سختۍ او پۀ نرمۀ کې هغه زۀ يم خوشحــــال ۵. ہو حلقہ یاران تو بریشم کی طرح نرم روزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن اقـــــبال ۶. د شهباز او د عنقا برابر نه دی مچ او ماشی که الوځي پۀ وزرو خوشحـــال خٹک ۶. پرواز ہے دونوں کا اسی فضا میں کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور اقـــــبال ۷. د مردۍ او نا مردۍ تر مېنځ ميل نۀ دی تفاوت يې يا پۀ زړۀ دی يا پۀ کام خوشحــــال خٹک ۸. الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن ملا کی اذان اور مجاہد کی اذان اور اقبـــــال ۹. کۀ کوشش کا پۀ اخلاص زۀ یې ضامن يم کۀ کامران پۀ خپل مراد نۀ شي سړی خوشحال خٹک ۹. ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ اندھیری شب میں ہو چیتے کی آنکھ جس کی اقــــــبال ۱۰. يا عاشق شه يا شهيد شه چې یادیژی پۀ بدلو پۀ سندرو پۀ ښاغلو جهان ارت دی په نامردو باندی تنګ خوشحال خٹک ۱۰. شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی جرات ہے نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے اے مرد خدا ملک خدا تنگ نہیں ہے اقــــــبال ۱۱. دا سړی چی فريشته ده هم شيطان دی کۀ سړی د خپل عمل وته نګران شي کۀ جنت لره څوک بيايي کۀ دوزخ له بله نۀ وينم پۀ مينځ کې خپل اعمال دي خوشحال خٹک ۱۱. عمل سے بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے اقــــــبال ۱۲. لۀ بتانو اميدوار يې پۀ خپل خدای يې نا اميده لږ وښايه تۀ ما ته، نوره څۀ دہ کافري؟ خوشحال خٹک ۱۲. بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نا امیدی مجھے بتاؤ تو سہی، اور کافری کیا ہے اقــــــبال ۱۳. ځان ژوندی پۀ زمکه ښخ کړه لکه تخم کۀ لویي غواړې د خاورو پۀ مقام شه رحمــــــان بابا رح ۱۳. مٹاو اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے کہ دانہ خاک میں ملکر گل گلزار ہوتا ہے! ،،،،،،،،،،،،،،،،،، اسکے علاوہ اقبال پر مضامین میں، مَیں بہت جگہ باقی سرقہ شدہ خیالات یا شاعری بیان کرچکا ھُوں یہ مضمون صرف اقبال پر نہیں ھے۔اس لئے آگے چلتے ھیں،،۔۔ اب تک دو قسموں کے سرقہ جات کی بات ھوئی اور امثال دیں۔اب آئیے تیسری قسم کی طرف، تیسری قسم کونسی ھوتی ھے تیسری قسم کے سرقے میں سورس بیسڈ چوری ھوتی ھے۔ یعنی پرائمری سورس کا حوالہ تو دیا جاتا ھے لیکن جو مواد لیا جاتا ھے وہ سیکنڈری سورس سے لیا ھوتا ھے۔۔یا سیکنڈری سورس کا حوالہ ھوتا ھے مگر پرائمری سورس کوئی اور ھوتا ھے۔۔ جیسے قرآن کو اگر کتاب ھی سمجھا جائے، جو کہ ھے، تو اس کے اندر کہانیاں یا افسانے بائبل سے آئے لیکن بائیبل کی اپنی کہانیاں قدیم ھندوستان چین عراق اور مایان کلچر اور زرتشتی مذاھب سے مزکور ھیں۔ مثلاً قرآن میں آیت ھے کہ اے مسلمانو تم پر روزے ایسے فرض کئے گئے جیسے بنی اسرائیل پر فرض کئے گئے۔۔یعنی یہ سرقہ سورس بتا کر اختیار کیا گیا ،،،،، اوپر بیان کئے گئے لفظ بہ لفظ سرقوں کی مثال ، ایک مقدمہ تھا جو نوشی گیلانی اور منور جمیل نامی شاعری کے مابین تئیس سال تک چلا۔ منور جمیل کا دعوی تھا کہ دونوں کتابیں جو نوشی کے نام سے چھپی ھیں وہ تمام منور جمیل کی اپنی شاعری ھے نوشی کی نہیں۔اور نوشی نے مزکر کی جگہ مونث استعمال کر کے اپنا لی ھے۔ اسی طرح ناقدین کے نزدیک ریحانہ قمر کی شاعری سو فیصد انکی اپنی شاعری معلوم ھی نہیں ھوتی۔ کیونکہ آجتک کسی نے نہیں بتایا کہ کسی بھی شعر پر کوئی تنقیدی رائے ریحانہ قمر نے دی ھو۔ وہ شاعری کے بنیادی محاسن پر گفتگو تک کرنے سے معزور ھیں وہ خود شاعرہ کیسے ھو سکتی ھیں ! ریحانہ قمر نے کبھی کُھل کر اپنی صفائی ثبوت کے ساتھ نہیں دی کہ چلیں مجھ سے مخلتف مصرعوں پر گرہیں لگوا کر دیکھ لیں۔ بعض اور لوگوں پر الزامات لگتے رہتے ہیں مگر بہت سے معاملوں میں پسند نا پسند کا دخل ہوتا ہے متذکرہ شاعر یا شاعرہ ھرگز متشاعر یا متشاعرہ نہیں ھوتے۔ جیسے ماھین ملک مکمل شاعرہ ہیں اور آپکے مصرع پر فی البدیہہ گرہ لگاسکتی ہیں۔ ناحق الزام لگانا بہت بد اخلاقی ہے۔ ثمن شاہ کے بارے بھی ثبوت لوگ لاتے رہے کہ وہ ادھر ادھر سے کلام ٹھیک کرواتی رہی ہیں۔ جودرست معلوم ھوتا ہے۔ ۔۔ پلیجر ازم کی اگلی قسم ایکسیڈنٹل پلیجر ازم کہلاتا ھے ، یعنی اتفاقیہ سرقہ ۔یہ اتفاقیہ سرقہ دو طرح سے ھو سکتا ھے پہلا غیر محسوس طور پر سرقہ یعنی کسی ادب پارے سے بہت مانوس ھونا اس میں اتنا محو ھونا کہ اپنی تخلیق میں اسکے استعمال کو خود بھی محسوس نہ کرنا۔۔اور دوسرا وہ جس میں معلوم ھے تو ھو، لیکن سخت رشک کی بدولت اس خیال یا لفظ یا منظر کو اختیار کر لینا۔ بعض میں صرف مضمون کو لے لینا شامل ھوتا ھے۔ جیسے میں چونکہ ایکٹوازم کے تابع بار بار شعر مین خدا کے ناحق خوف یا ڈر کو بیان کرتا ھُوں جو مذھب نے ناحق انسان پر مسلط کیا ھے تو اس خیال کو کہ خدا اصل میں خوف ناک ھستی نہیں بلکہ مذھب نے خوفناک اُسے ظاھر کیا ھے جو جھوٹ ھے اس بات کو کئی نئے شعرا بیان کرتے ھیں۔۔یہ سرقے کی فکری قسم ھے۔ بعض اوقات بعض شعرا کسی کے بہت بُودے کچے بیانیہ شعر میں چُھپے اچھے تبدیل شُدہ خیال کو بہتر کر کے اپنا لیتے ھیں۔ میں بھی ایسا کرتا ھُوں کیونکہ مجھے ایسے شاعر پر سخت غصہ آتا ھے اور میں اسکا شعر بہتر کر کے پوسٹ کر دیتا ھُوں لیکن میرا ارادہ دیکھا اور لے اُڑا کا نہیں ھوتا ۔ بلکہ مایوس ھوتا ھُوں کہ اس شاعر نے کیوں اس شعر پر محنت نہیں کی ، شاید میرا شعر دیکھ کر اسے سمجھ آئے۔ لیکن بعض احمق اس عمل سے یہ نتیجہ نکالتے ھیں کہ جیسے میں نے انکے شعر پر ھاتھ صاف کر دیا ھے۔ مجھے ایک دو نے تو کہہ بھی دیا ،،جیسے عمران اعوان نامی کچا سا شاعر ھے مگر جب اس نے یہ کہا تو میں نے فرینڈ لسٹ سے اٹھا کر باھر دے مارا۔ جسکی گردن میں سریہ اس سرئیے کی دوری سمت کہاں تک گئی ھے ھمیں کیا معلوم ، ایسوں کو چھوڑ دینا بہتر ھے کچھ شعرا بعض اچھے شعرا سے بہت متاثر ھوتے ھیں، ایسے فینز بھی چاھتے نہ چاھتے ھوئے اپنے پسندیدہ شعرا کی نقالی میں انہی کی زمین میں اسی قافئیے میں ویسے ھی مضامین باندھنے لگتے ھیں۔ جو سرقہ ھی ھے۔۔ میری ایک بہت پرانی غذل ھے جس کی ردیف ھی انوکھی ھے اور اس ردیف میں میرے سوا کسی نے کوئی غزل نہیں لکھی۔۔۔
یہ جان و مال یہ گھر بار بھی کلیشے ھے * یہ جان و مال یہ گھر بار بھی کلیشے ھے یہ میری "مَیں” یہ مرا یار بھی کلیشے ھے بس ایک یہ ترا انکار ھی کلیشے نہیں اسی طرح مرا اصرار بھی کلیشے ھے نہیں ھے ریگِ رواں کا کوئی وجود اگر تو بُلبُل و گُل و گُلزار بھی کلیشے ھے یقین کر یہ جو سایہ ھے یہ خیالی ھے وُہ اس لئے کہ یہ دیوار بھی کلیشے ھے نہ آئینہ کہیں موجود ھے نہ عکس اِس کا یہ میری آنکھ کا زنگار بھی کلیشے ھے یہ استعارے ، تراکیب اور تشبیہیں یہ ناقدان کا معیار بھی کلیشے ھے فراقِ یار بھی جعلی ، وصال یار بھی جُھوٹ وُہ اس لئے کہ یہ دلدار بھی کلیشے ھے فقیر و فُقر ندارد، سگانِ دھر بھی گُم گلیم و جُبّہ و دستار بھی کلیشے ھے دُکان ِ محض سے گاھک بھی کیا خریدے گا ریال و درھم و دینار بھی کلیشے ھے شکست و فتح بھی عنقا ھے لشکروں کی طرح کمان و نیزہ و تلوار بھی کلیشے ھے نہیں کہیں کوئی صحرا، ، کوئی بھی قیس نہیں قیاسِ لیلیءِ درکار بھی کلیشے ھے کوئی زلیخا نہیں اور کوئی نہیں یُوسف یہ سارا مصر کا بازار بھی کلیشے ھے طلسمِ ھوش رُبا کا کوئی جواز نہیں امیر حمزہ و عیّار بھی کلیشے ھے نہ شاہِ وقت ، نہ شہزادیاں نہ کوئی غلام اور اُن کے ساتھ یہ دربار بھی کلیشے ھے بہشت و دوزخ و برزخ کا ذکر کُفرِ عظیم گُناہ گار و خطا کار بھی کلیشے ھے نہ وُہ مدینہ ، نہ مکّہ، نہ غارِ ثَور و حِرا نفاق و مومن و کُفّار بھی کلیشے ھے وجود ِ کوہِ ندا کا اُدھر ثبوت نہیں اِدھر یہ کوچہءِ مسمار بھی کلیشے ھے بچا نہیں ھے کنارہ کوئی جُگالی سے اسی طرف نہیں، اُس پار بھی کلیشے ھے
اب یہ غزل خاص طور پر پاکستانی مذھبی لوگوں کو بہت تکلیف دہ معلوم ھوئی اور انٹرنیٹ پر جا بجا 15 سال پہلے اس حوالے سے مجھے بُرا بھلا کہا گیا۔ چند سال پہلے ایک شاعر افتخار حیدر جی نے کوئی نظم لکھی جس میں کلیشے کا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔ کسی نے کہا کہ بھائی رفیع رضا کی غزل موجود ھے۔۔آپ اپنی نظم پر نظر ثانی کریں۔ موصوف مجھ پر چڑھ دوڑے کہ میں نے انکی نظم کا چربہ غزل میں کیا ھے۔۔اور میری بات سننے سے پہلے ھی بھاگ گئے کہ دیکھو انٹرنیٹ پر ایک دھائی پہلے سے مخالفین یہ غزل لکھ چکے ھیں اور مجھے گالیاں دے چکے ھیں۔ چربہ میں نے نہیں کیا آپ نے غلطی سے کر لیا ھوگا۔۔ بعد میں دیکھا بیچارہ غریب ریٹائیرڈ مسکین صورت آدمی ھے تو میں نے دوستی کا ھاتھ بڑھایا تاھم اسکے دل کی مذھبی کدورت وھیں موجود ھے۔۔ شیعہ کبھی دھریہ نہیں ھو سکتے۔ سرقے کی سب سے پہلے قسم ، ھُو بہو سرقہ یا کسی کی تصنیف پر قبضہ خود ھی کرلینا یا عوام کی غلطی کی وجہ سے آپ کے نام وہ آرٹ لگ گیا تو مشہوری ایسے ھونے پر کہتے جانا کہ ھاں یہ کلام میرا ھے۔ اس قسم کا چربہ پاکستانی شاعر نزیر قیصر اور بھارتی شاعری قیصر الجعفری کے مابین ھوا ،،،جس میں نزیرقیصر کے نام میں لفظ قیصر اور جعفری صاحب کے قیصر ھونے کا فائدہ پاکستانی میڈیا نے جسے تحقیق کی عادت ھی نہیں، غزلیں نزیر قیصر کو دے دیں۔اور مشہور غزلیں دیں جو گائی گئی تھیں اور ریڈیو ٹی وی پر نزیر قیصر کا نام چل رھا ھے۔ جو بہت افسوسناک بات ھے۔ نزیر قیصر اب تک اپنی ایسی متنازعہ شاعری کا کوئی ثبوت نہیں دے سکے صرف زبانی دعوے کرتے ھیں۔ جبکہ وہ غزلیں نزیر قیصر کے مزاج کی بھی نہیں ھیں۔جیسے
تمھارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے میں ایک شام چُرا لُوں اگر بُرا نہ لگے قیصر الجعفری۔۔یا۔۔نزیر قیصر۔۔۔
اسی طرح دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے۔۔۔
ان دونوں غزلوں کے بارے شمس الرحمن فاروقی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ قیصر الجعفری کی ہیں۔ لیکن نزیر قیصر منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں
ھمارے پاکستان کا کلچر بڑا بوسیدہ ہے یہاں سچی بات پوچھنے اور کہنے والے کو بدتمیز کہا جاتا ھے،،،مجحے شاید سب سے بدتمیذ شاعر کہا جاتا ہے مگر میں سچ پوچھنے سے نہیں رُک سکتا کوئی کیوں نہیں پوچھتا نزیر قیصر سے ۔۔؟ وحید احمد، حفیظ اللہ بادل،،امداد آکاش یہ سب کیوں خاموش ہیں؟۔۔
میرے ایک مشہور شعر کا ایک مصرع نزیر قیصر کی ایک کمزور غزل کے مصرعے جیسا ھے۔لیکن میں کسی صورت اپنے مصرعے سے دستبردار نہیں ھو سکتا۔
میں سامنے سے اُٹھا اور لو لرزنے لگی چراغ جیسے کوئی بات کرنا چاھتا تھا رفیع رضا
اور اگلی قسم کا چربہ ایسا دلچسپ ھے کہ آپ نے اسے چربہ نہ سمجھا ھوگا۔۔مگر چربہ ھی ھے۔۔وہ ایسے کہ مثال کے طور پر ایک منظر ھے جس میں دیوار ھے۔ اب اس دیوار اور تصویر پر مبنی منظر کے اشعار ھونگے جن میں لازمی تصویر ،،اور اپنی تصویر کے ھونے کی بڑائی کسی صورت ظاھر ھوگی۔۔یہ پاکستان کے شعرا میں کوئی 15 برس پہلے سے مقابلہ جاری ھے۔۔ میرا نوجوانی کا ایک شعر دیکھیں
لہو تصویر سے نکل آیا کیل دیوار میں لگایا تھا رفیع رضآ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم جو دیوار پہ تصویر بنانے لگ جائیں تتلیاں آ کے ترے رنگ چرانے لگ جائیں ندیم ناجد ایک تصویر جو کمرے میں لگائی ہوئی ہے گھر کی ٹوٹی ہوئی دیوار چھپائی ہوئی ہے راشد امین ایک دیوار سے اتری تصویر.. ساری دیواروں سے آہیں نکلیں کونین حیدر تم میری تصویر بنا کر لائے ھو یعنی میں دیوار سے لگنے والا ھوں قمر جلالوی زخمِ دیوار بتاتا ہے منیر ایک تصویر یہاں تھی پہلے منیر سیفی عین دیوار کے ظاھر ھونگے میرے تصویر ھٹا دی گئی ہے ندیم بھابھہ یہ جو دیوار پہ تصویر ہے یہ کچھ بھی نہیں وہ جو تصویر میں دیوار ہے کیا ٹینشن ہے ادریس بابر ﺗﺮﯼ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮨﭧ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻧﻈﺮ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ تہذیب حافی ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻣﺠﮭﮯ. کاشف غائر اس کی تصویر پھینک دی ہے مگر کیل دیوار میں گڑی ہوئی ہے عمار اقبال ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﭨﺎﻧﮏ ﺩﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺭﻧﮧ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮔﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﺳﺮﻓﺮﺍﺯ آﺭﺵ میرا تصویر سے معاملہ ہے مجھے دیوار کی خبر کم ہے محمد عامر۔ میں نے تصویر دیکھ لی تیری ۔۔ اور پھر ناچنے لگا کمرہ ۔۔ راشد امام اس نے دیوار پہ تصویر لگائی تیری. تو نے دیوار سے دیوانہ لگا رکھا ہے عبدالقادر تابان جو چپ چاپ رہتی تھی دیوار پر وہ تصویر باتیں بنانے لگی عادل منصوری ایک کمی تھی تاج محل میں میں نے تری تصویر لگا دی کیف بھوپالی کبھی دیوار سے تصویر اُتاری تھی کوئی اب کہیں دیکھوں تو چبھتی ہے کوئی کیل مجھے سعید شارق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب میرا شعر دیکھیں
میری دیوار پر لگا ، واپس وُھی تصویر مہربانی کی رفیع رضا ،،،،،،،،،،،، اوپر کے شعر آپ نے دیکھ لئے۔۔ اپ دوبارہ ان پر غور کریں تو معلوم ھوگا کہ تمام شعرا نے دیوار کو ظآھر دیوار اور تصویر کو واقعی ظاھری تصویر استعمال کیا ھے اور میرے شعر کو دیکھیں؟
میری دیوار پر لگا ، واپس وُھی تصویر مہربانی کی رفیع رضا اپنی تعریف برحق کرنے کی کوشش کر رھا ھُوں کہ میں کسی کی شاعری کے خیال سے آسانی سے متاثر نہیں ھوتا ، میرے شعر میں نہ تو ظاھری دیوار کا ذکر ھے نہ ھی ظاھری تصویر کا۔بلکہ جو منظر بنایا ہے وہ استعاراتی تلازمہ ہے۔
باقی آپ کی پسند و ناپسند آپکا معاملہ ھے۔
اوپر کے اشعار میں زیادہ تر شعرا نے ایک دوسرے کی نقالی میں دیوار اور تصویر کا منظر بنایا ھے۔ ندیم بھابھہ نے بے جا تعلی کا شعر بنایا جسکا کوئی مفہوم معلوم نہیں ھوتا۔ کیا دیوار پر بھابھے کی تصویر اس لئے لگائی گئی ھے کہ پیچھے دیوار پر کوئی داغ تھا یا پلستر اُکھڑا تھاَ؟ تو اس کی مرمت کر لیتے۔ سرفراز آرش نے تو بہت ھی بڑی تعلی باندھی۔۔۔ دیوار گرنے والے تھی میری تصویر لگائی تو اب نہیں گِرے گی۔۔ اُف یہ بھی شاعری کہلاتی ھے؟ ویسے راز کی بات بتاؤں، صوفیا کے نزدیک تصویر۔۔۔یہ عالم موجود ھے اور اصل غیر موجود ھے۔۔ اب واپس اوپر جائیں اور پھر وہ اشعار پڑھیں تو جانیں گے۔۔ کون صوفی ھے ! کون صوفی کے بھیس میں سیاسی ھے! خیر یہ تو اجتماعی پلیجر ازم ھے۔۔سب ایک دوسرے کا سرقہ فرما رھے ھیں۔ ،،،،،،،،،،، آج انگلینڈ میں بیٹھے خود کو ندیم بھابھہ کی طرح درویش ظاھر کرتے حضرت علی ارمان جی کی ایک تازہ غزل نظر سے گزری اور میں نے نہیں بلکہ بہت سے دوستوں نے یہی بات نوٹ کی جو بالکل درست اور برحق ھے کہ علی ارمان کی غزل ، اصل میں بہت اعلی شاعر ذو القرنین حسنی کی ایک نظم سے متاثر ھو کر کہی گئی ھے۔ یہ متاثر ھو کر کہنا ،، بالکل اقبال والی حرکت ھے ۔۔ جیسے ستاروں سے آگے کمند ڈالنا۔۔۔بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانا۔۔۔جیسے سجدہ کرنے پر زمین سے صدا آنا ،،جیسے اقبال کی نظم بہار ھو کہ خزاں ، لا الہ اللہ سے متاثر ھو کر بشیر الدین محمود صاحب کی نظم ۔۔ھے دستِ قبلہ نما لا الہ الا اللہ۔۔۔یا مرزا صآحب کی نظم سے اقبال نے ارادہ پکڑا؟ ۔ یا پحر میری غزل۔۔۔گھر بار بھی کلیشے ھے،،، کی بنیاد پر نظم میں کلیشے ھر چیز کو کہنا۔۔وغیرہ متاثر ھو کر شعر کہنے کی امثال ہیں۔ دونوں کی شاعری یعنی حسنی کی نظم اور علی ارمان کی غزل تصویر میں لگا دی ھے۔یاد رھے علی ارمان ، بھابھہ اور امیر حسین جعفری کے بہت سگے ھیں۔اور یہ ایک دوسرے کے لئے مہم چلاتے ھیں۔ فتوے لیتے ھیں فتوے دیتے ھیں۔ جیسے دو لخت شعر کے بارے امیر حسین جعفری کا کہنا کہ انڈیا اور پاکستان سے کوئی بھی اُن سے پوچھ لے فلاں شعر دو لخت نہیں ھے
جبکہ خود جعفری جی کی اپنی بےوزن نظم کی میری کی گئی تقطیع کے بعد بھی اخلاقی جرات کا نہ ھونا کہ غلطی مان لیں۔ کہ یہ رن آن لائن کی فحاشی نہیں بلکہ عروض کا بلاد کار ھے۔ کون لوک او تُسیں ۔۔۔۔؟۔۔ میرے اس مضمون کے پوسٹ کرنے کے بعد افتخار جعفری جو پاکستان کے سرکاری آئینی مسلمان شیعہ شاعر ہیں، نے مجھے اسلامی گالی دی اور کہا غیرت ہے تو غزل کب لکھی تھی بتاوں،،، سو اس میں غیرت بےغیرتی کہاں سے آ گئی۔۔ ایسا رویہ پاکستانی معاشرے کے اخلاقی انحطاط کا عکاس ہے۔۔چاھیئے تو یہ کہ بتا دیں اگر یا نہیں تو انداز ے سے بتا دیں نطم کب لکھی۔۔۔۔ ؟ اور یوں بھی نظم سے متاثر ہو کر غزل نہیں کہی جاتی یہ اُلٹا طریق ہوتا ہے۔ یعنی غزل سے متاثر ہو کر نظم ضرور کہی جاتی ہے۔۔ پلیجر ازم کی اگلی قسم ، موزیک یا پیچورک نقالی کہلاتی ہے اس میں کسی سورس کے الفاظ و خیالات کو توڑ کر اپنے الفاظ سے اُسی چیز کو بیان کیا جاتا ھے،،درحقیقت اقبال کے ماخوذ کا تعلق اسی قسم کے پیچ ورک یا موزیک سے ھے جس میں بنیادی خیال کو ذرا بدل کر بیان کر دیا جاتا ھے،،،جیسے اقبال نے میٹلڈا می مشہور حمد میں لفظی تبدیلی تو کی مگر بنیاد خدا سے دُعا کی ہی رکھی۔۔۔
I. “God make my life a little light”
By Matilda Barbara Betham-Edwards (1836–1919)
GOD make my life a little light Within the world to glow; A little flame that burneth bright, Wherever I may go.
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
God make my life a little flower, That giveth joy to all, Content to bloom in native bower Although its place be small.
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
God make my life a little song That comforteth the sad; That helpeth others to be strong, And makes the singer glad.
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
God make my life a little staff, Whereon the weak may rest, That so what health and strength I have May serve my neighbours best.
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
God make my life a little hymn Of tenderness and praise; Of faith—that never waxeth dim, In all His wondrous ways.
مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو ۔۔۔۔ یہاں اقبال نے بنیادی خیال بچے کی خدا سے رھبری کی دعا کو قائم رکھا ھے، ۔۔۔مزید میں یہ پہلے لکھ چکا ھُوں حوالے کے لئے شامل کر رھا ھُوں ۔۔۔ مثلاً
بھارتری ہری کہتا ہے
Wanting to reform the wicked with nectar sweet advice, is like trying to control an elephant with the pith of a lotus stem, or cutting a diamond with delicate petals of the Shireesh flower, or sweetening the salty ocean with a drop of honey. The creator has provided only one means for hiding one’s ignorance
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
(بھرتری ہری( اقبال
پس اقبال کافی حد ترک ایک اچھے شاعر مترجم تھے اور انہین اسی حیثیت سے جانا جائے تو سچی تاریخ مرتب ہوگی۔پاکستان میں اقبال کی شاعری پڑھنے والے ایسی باتوں سے بالکل واقف نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ایسا اشعار اور نظمیں خود اقبال کی ذاتی فکر کا پھل ہیں جبکہ یہ درست نہیں اصل میں ایسی نظمیں اور بےشمار اشعار مختلف مشہور اور اہم شعرا و فلسفیوں کی اصل کاوشیں ہیں جنکو اقبال نے خوبی سے شاعری میں یا نثر میں ترجمہ کیا ہےجس کا انکا کریڈٹ ملنا چاہئیے۔
ایک سروے جو میں نے 2010 میں پاکستان میں کیا تھا ایک ہزار افراد سے پوچھا کہ اقبال کی نظم ، لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، کیا اقبال کی اپنی فکری کاوش ہے یا کسی اور کی شاعری کا ترجمہ یا اکتساب؟
جواب میں پورے ایک ہزار کا یہی جواب تھا اقبال کی اپنی فکر کا پھل یہ نظم ہے۔۔ جبکہ تاریخی سچائی یہی ہے کہ اقبال نے ترجمہ و اکتساب کیا تھا۔انکی اپنی فکر صرف شعر کی بنت اور اسے خوبصورت بنانے میں صرف ہوئی۔
پس میرا اصرار ہے کہ تاریخی سچائی کو عین پوری سچائی ہی سے بیان کیا جائے۔۔ اس سے اقبال سے منسوب بہت سے جھوٹے دعوے ختم ہوں گے اور ہم ایک اچھے شاعر کی شاعری کا ماخذ جان کر اسکی شاعری کے ہنر کی تعریف کر سکیں گے۔
لیکن عجب قصہ ہے کہ وہ نسل جو اقبال کا سرکاری الاپ الاپتی رہی ہے وہ کچھ سننے کو تیار نہیں ہےاور دھمکی گالی، فتوی بازی، ذاتی دشنام پر اتر آتی ہے۔
سنسکرت کے اُس عظیم شاعر بھارتری ہری کی کچھ اور شاعر دیکھیں کیسی نئی اور خوبصورت ہے۔ آج کی اردو شاعری کیسے اسکے سامنے ماند ہے۔آئیے دیکھیں۔
The clear bright flame of a man’s discernment dies:
When a girl clouds it with her lamp-black eyes.
[Bhartrihari #77, tr. John Brough; poem 167] …
عقل مند کے ساتھ خطرے میں کود جانا بے وقوف کے ساتھ سیر کو نکل جانے سے بہتر ہے۔
(بھرتری ہری)
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام۔۔۔۔۔کا منبع معلوم ہوگیاَ؟
دشوار گزار پہاڑوں پر درندوں کی صحبت بہتر لیکن بےوقوف کی صحبت راجہ اندر کے محل میں بھی ناقابل برداشت ہے
(بھرتری ہری)
’’جو شخص عورت کو کمزورکہتا ہےوہ بلاشبہ عورت کی فطرت سے ناواقف ہے.”
(بھرتری ہری)
اسی طرح ، اقبال ، خوشحال خان خٹک سے سخت متاثر تھے اور اس بات کا ثبوت ان کےکئی اشعار میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اقبال نے ان کو بہت دھیان سے پڑھا ہے اور خوشحال خان خٹک کی عظمت کی اگر بات کی جائے تو اقبال بہتر جاننے والوں میں سے ہیں، اقبال کے بہت سے اشعار دراصل خوشحال خآن خٹک کی شاعری کا ترجمہ ہیں، اقبال کہتے ہیں۔
خوش سرود آن شاعر افغان شناس آنکه بیند باز ګوید بې هراس
آن حکیم ملت افغانیان آن طبیب علت افغانیان
راز قومی دید و بیباکانه ګفت حرف شوخی رندانه ګفت
علامہ اقبال نے خوش حال خان کی وصیت کو اپنی زبان میں یوں پیش کیا ہے
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جوڈالتے ہیں کمند اڑاکرنہ لائیں جہاں بادکو مغل شاہ سواروں کی گرد سمند
اس طرح بہ زبان فارسی بھی علامہ اقبال نے خوش حال خان کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے
خوش سروداں شاعر افغان شناس ہر چہ بیند بازگویدے ہراس آں حکیم ملت افغانیاں آں طبیب علت افغانیاں راز قوے دیدوبے باکانہ گفت حرف حق بازوخئی رندانہ گفت
اقبال کے خط کے ایک پیرا گراف کا فورینزک تجزیہ
عطیہ فیضی کے نام اقبال کے خط سے اقتباس
ایک انسان کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا حق حاصل ہے۔اگر معاشرہ یا فطرت میرے اس حق سے انکار کریں گے تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا۔میرے لئے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں یا مَے خواری (شراب نوشی) میں پناہ ڈھونڈوں جس سے خود کشی آسان ہو جاتی ہے۔ کتابوں کے یہ مردہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اعماق میں اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ میں ان کتابوں کو اور ان کیساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بنا سکتا ہوں۔‘‘
اقبال اس میں اپنا استحقاق بتاتے ہیں کہ اُنہیں لذت و خوشی (جسمانی تلذذ) کی خواہش ہے جو انہیں ویسی میسر نہیں جیسی وُہ فینسٹیسائز کرتے ہیں، یعنی اقبال کو پہلی بیوی سے جسمانی جنسی تلذذ ملنے کے باوجود وہ کچھ ایسا چاہتے ھیں جو صنف مقابل کے بارے میں انکے خیالات میں موجزن ہے۔
یہاں وُہ خانگی ادب آداب کی کمی کی شکایت نہیں کرتے بلکہ اصل میں میاں بیوی کے باہمی تعلق میں جسمانی کشش اور ذہنی کم آہنگی کی شکایت کرتے ہیں۔
وہ صاف صاف کہتے ہیں وہ سرخوشی کے انسانی حق کے تحت چاہتے ھیں کہ انکی جنسی (فطری) جبلت کو ویسی تسکین ملے جیسی وہ چاہتے ہیں۔
فطرتی اعتبار سے اور سماجی پابندیوں کی وجہ سے جنسی اختلاط کی آزادی اُس وقت ہندوستان میں ایسے میسر نہ تھی کہ اقبال اُس سے متمتع ہوتے ، خاص طور پر جب وہ جرمنی میں دوران تعلیم یہ فطری آزادی دیکھ آئے تھے انہیں ہندوستان میں ایک مدقوق گھر میں اپنی بیوی سے وہ رغبت نہ تھی جو انہیں جرمنی میں بآسانی وافر میسر تھی۔۔۔ اسی لئے اقبال نے معاشرہ یا فطرت کے خلاف بغاوت کے حق کو استعمال کرنے کی دھمکی دی۔۔
وہ اپنی ذاتی ناخوشی کی وجہ سے ملک ہندوستان کو بدبخت کہنے لگے۔۔۔ یعنی جب کسی خطے میں آپ کے مطلوبہ حقوق میسر نہ ہوں تو آپ اپس خطے کو بدبخت کہنے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ اہم نکتہ ہے کیونکہ اقبال، کہہ چکے تھے کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ بھی کہہ چکے تھے کہ جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اُس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو۔۔۔۔۔۔ پس وہ ملک کو بدبخت کہنے پر مائل ہوگئے کیونکہ یہاں انکی ذاتی انفرادی انسانی تلذذ کی راہ بند معلوم ہوتی تھی۔۔ وہ اپنی بیوی کو چھوڑدینا چاہتے تھے لیکن انکے والد یہ نہین چاہتے تھے۔۔ جبکہ انکے دو بچے بھی تھے ۔۔۔
انہوں نے لکھا کہ اگر وہ ملک نہ چھوڑ سکے تو خود کو شراب میں اتنا غرق کر دیں گے کہ اسکا زہر ان کی جان لے لے۔۔۔ اس سے معلوم ہوتا ہے وہ کبھی شراب کثرت سے نہیں پیتے تھے کہ جسکا نقصان جگر کو ہونا شروع ہو جائے۔۔ اگر پیتے تھے تو بہت اعتدال کے ساتھ، جس میں طبی طور کوئی مضائقہ نہیں ہے۔۔
چونکہ اقبال عملی ملازمت نہیں کرتے تھے اس لئے مطالعہ اور لکھنے میں وقت صرف ہوتا ، اب اس مایوسی کی صورتِ حال میں انہیں اپنا مطالعہ کا کام بھی بے معنی لگنے لگا۔۔
وہ کہتے ہیں میں ان کتابوں کو اس ملک کی روایات سمیت جلا کر راکھ کر دوں گا میرے اندر اتنی تشنگی کی آگ بھری ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ یہ خظ عطیہ فیضی کے نام ہے جو جرمنی میں دوران تعلیم اقبال کے بہت قریب رہیں۔ رومانی تعلقات کے بعد وطن واپسی اور پرانے فرسودہ خاندان میں واپس آ کر رہنا اسی طرح مشکل ہوتا ہے جیسے آج بھی پاکستان سے کسی کا بیرونِ ملک رہ کر پاکستان میں واپس جا کر رہنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔۔ بالکل یہی اپ سیٹ معاملہ اقبال کو پیش آیا تھا۔ اور اس کے پیچھے عطیہ فیضی سے انکو جو جسمانی اور ذہنی امیدیں وابستہ تھیں انکو پورا کرنے کے لئے اقبال شدید ترین بیتابی کا شکار ہوگئے ۔۔۔ ایسے خطوط آج بھی عاشق کی طرف سے محبوب کو لکھے جاتے ہیں۔ میں خود ایسی کیفیات سے بار بار گزرا ہوں، بہرحال اقبال ایک انسان تھے اور ان کی ایسے ذہنی و جسمانی تلذذ کی خواہش بالکل جائز تھی۔
انہی دنوں میں عطیہ فیضی کے ایک اور عاشقِ صادق شبلی نعمانی بھی عطیہ فیضی کو خط میں کہتے ہیں کہ ۔۔۔ جیسے مغلیہ شہنشاہوں کے قصیدوں میں انکو سایہ خدا کہا جاتا ہے ویسی غزلیں تو میں تمھارے لئے کہتا رہتا ہوں۔۔۔تاہم۔۔۔میرے جسم کا ہر رونگٹھااور ہر موئے بدن تمھارے لئے میری طرف سے ایک شعر ہے۔۔۔۔۔ یہاں شبلی بھی شدید جنسی تشنگی سے بھرے بیٹھے ہیں۔
دانشور ظہور ندیم لکھتے ہیں ۔
’’اقبال کی ازدواجی زندگی ہمیشہ ناہموار اور نا آسودہ رہی ہے ۔ ایک سے زائد شادیوں کی ایک وجہ یہ بھی تھی ۔ عطیہ فیضی نے کہیں ذکر کیا ہے کہ اقبال کی ذہنی صلاحیت اور اعتماد جو لندن کے قیام میں تھا وہ ہندوستان واپس لوٹ جانے پر ویسا نہیں رہا تھا ۔
متوسط طبقے کا کوئی شخص اگر وسیع مطالعے کی بنیاد پر اپنی فکری سطح میں کوئی غیر معمولی تبدیلی لے آئے اور اسے حسبِ منشا سماجی ماحول نہ ملے تو وہ دوبارہ قنوطیت کی طرف لوٹ جاتا ہے ۔ اقبال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ سے واپسی کے بعد وہ ذہنی طور پر منتشر اور مایوس نظر آتے ہیں ۔ آخرکار وہ اپنی فکری سطح کو محدود کر لیتے ہیں اور پھر انہوں نے ایسے اشعار تخلیق کئے جو انکی سوچ کے تضاد کی عکاسی کرتے ہیں ۔ محدود سے محدود تر ہوتے ہوئے آخرکار وہ ایک تنگ نظر مسلمان شاعر بن کر رہ جاتے ہیں ۔”
علامہ شیخ محمداقبال صاحب نے 1897 میں مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پر برضا و رغبت خود ہی بیعت کرکے جماعت عالیہ احمدیہ مسلمہ میں شمولیت اختیار کی تھی اورپھر1935 تک احمدی رہے لیکن 1935 میں جب قائد اعظم محمد علی جناح نے گول میز کانفرنس کیلئے اپنے وفد کا سربراہ ایک دوسرے احمدی سر چوہدری محمد ظفر اللہ خان کو نامزد کیا تو اس بنا پر علامہ اقبال صاحب ناراض ہوگئے اوراپنی سیاسی وجوہات کی بنا پر جماعت سے کچھ دوری دکھائی اور کچھ مخالفانہ باتیں بھی کیں لیکن اس کے باوجود اپنے ایک بھتیجے مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب اور ان کے بیٹے کو جماعت کی بیعت کرنے کے لئے کہا تھا اور پھر انہیں اپنے دو بچوں کا سرپرست بھی مقرر کیا تھا ۔
1931 میں سر شیخ محمداقبال صاحب نےکشمیر کمیٹی کی صدارت کے لئے امام جماعت عالیہ احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام خود پیش کیا جو کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے تھے ۔ یہ تمام کاروائی آپ کتاب ‘‘ انوار بشیر ‘‘ پہلا ایڈیشن مطبوعہ 1993 از پاکستان ۔ دوسرا ایڈیشن مطبوعہ 2007 از برطانیہ ۔ تیسرا ایڈیشن مطبوعہ 2010 از جرمنی کے صفحات پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔
علامہ اقبال صاحب نے اپنی تحریرات میں اپنے بھائی مکرم شیخ عطا محمد صاحب کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ وہ احمدی تھے ۔ علامہ اقبال صاحب کے ایک بیٹے مکرم مظفر اقبال صاحب 1982 میں لندن میں فوت ہوئے ( یہ ان کی تیسری بیوی محترمہ مختار بیگم صاحبہ میں سے تھے ) جو کہ تادم حیات احمدی مسلمان رہے اور پھر یہی نہیں بلکہ خود علامہ اقبال صاحب کے والد محترم مکرم شیخ نور محمد صاحب بھی احمدی تھے ۔ یہ تمام باتیں تاریخ پاکستان کا حصہ ہیں لیکن افسوس کہ آج کا پاکستانی مورخ انہیں لکھتے ہوئے ڈرتا ہے ۔
بہرحال ’’ ایک روایت کے مطابق علامہ اقبال نے ….. مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پربیعت کی تھی –‘‘
( ” اقبال اور احمدیت ” تصنیف : بشیر احمد ڈار)
1953ء کے فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت ( منیر انکوائری رپورٹ) میں خواجہ نذیر احمد چیئرمین سول اینڈ ملٹری بورڈ آف ڈائریکٹرز نے یہ بیان ریکارڈ کروایا کہ :-
’’اقبال نے 1893ء میں قادیان جا کر مولانا غلام محی الدین قصوری کے ہمراہ سلسلہ احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔‘‘
عدالت میں بیان دینے کے بعد جب خواجہ نذیر احمد صاحب کی بعد میں قصوری صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی تو انہوں نے بیعت کے سن کی تصحیح فرما دی – اور بتایا کہ علامہ اقبال نے میرے ہمراہ قادیان جا کر 1893ء میں نہیں بلکہ ــــــــــ 1897ء میں بعیت کی تھی – اس پر خواجہ نذیر احمد صاحب نے اگلے روز درخواست دیکر عدالت کے ریکارڈ میں سن کی تصحیح کرادی – ( بحوالہ: ” پاکستان ٹائمز ” لاہور 14 نومبر 1953ء) ۔
سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ آپ ادھر ادھر کے حوالہ جات تلاش کرنے کی بجائے وہ کتب پڑھیں کہ جو خود علامہ اقبال کے عزیزواقارب نے تحریر کی ہیں مثلا
علامہ اقبال کے بڑے احمدی بھائی مکرم ومحترم شیخ عطا محمد صاحب کے بیٹے مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب نے ‘‘ مظلوم اقبال ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے ۔ یہ وہی شیخ اعجاز احمد صاحب ہیں کہ جن کو علامہ اقبال صاحب نے اپنے آخری ایام میں اپنے بچوں جناب جسٹس جاوید اقبال صاحب اور بیٹی منیرہ اقبال صاحبہ کا سرپرست مقررکیا تھا ۔
اسی طرح اس خاندان میں اور کون کون احمدی ہیں اس کا ذکر پاکستان کےجسٹس جناب جاوید اقبال صاحب نے اپنی خودنوشت حیات کتاب ‘‘ اپنا گریباں چاک ‘‘ میں کیا ہے ۔ اب لوگ خود تو کوئی تحقیق کرتے نہیں بلکہ ‘‘ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘ کے مصداق ہمیں الزام دیتے ہیں کہ ہم لوگ کیوں حقائق سے پردہ اٹھا رہے ہیں ۔
اقبال نے جہاں انگریز شُعرا سے اکتساب کیا وہاں فارسی شعرا سے خیالات لا کر اپنی شاعری اُستوار کی۔۔۔۔ مثلا 1289 میں فوت ہونے والے مشہور شاعر فخر الدین عراقی کا شعر ہے
کہ میں نے سجدہ کیا تو زمیں سے آواز آئی تُو نے ریاکاری سے بھر پور سجدے سے زمین کو پلید کر دیا۔
بالکل یہی خیال اقبال نے چُرا کر، جس کو اقبال پرست اکتساب اور نئی زبان ، مصرع مین جان ڈال دی کہہ کر ملفوف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ یہ چوری ہی ہے۔۔ خیر۔۔۔اقبال نے شعر کہا۔۔ اور میں اس شعر کا کافی شائق رہا ہوں جب تک مجھے عراقی کے اصل ماخذ کا پتہ نہین چلا تھا۔۔۔
میں جو سربسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اقبال
بات یہ ہے سچ کو سچ کی طرح سے لکھیں جھوٹے مت بنیں ۔ یہ مت کہیں اقبال نے دوسرے مصرعے کی تبدیلی سے شعر میں جان ڈال دی۔ فخرالدین کا شعر بے مثال ہےاور اس میں کسی خاص مذہب کی جانب اشارہ نہیں۔ اقبال کا نماز کا لفظ اور صنم کا لفظ ، اسلامی مقامی خیال تک محدود ہے۔ اس لئے کم درجے کا ہے جبکہ فخر عراقی کا شعر بڑا اور خاکسساری سے پُر ہےاور اصلی سچے خیال کا عکاس معلوم ہوتا ہے۔۔
اقبال مغربی ادبیات سے پورے طورپر آگاہ تھے۔ انھوں نے ’’بانگِ درا‘‘ میں درجن بھر امریکی اور برطانوی شعرا:جیسے لانگ فیلو، ایمرسن، ولیم کوپر، ٹینی سن، براؤننگ، سیموئیل راجرز اور دوسروں کی نظموں سے اخذ و ترجمہ کیا ہے۔ ورڈز ورتھ کا انھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا اور ۱۹۱۰ء میں اپنی انگریزی بیاض میں لکھا تھا کہ ورڈز ورتھ نے انھیں الحاد سے بچایا۔ اسی طرح ملٹن کا بھی ذوق و شوق سے مطالعہ کیا۔ اپنے ایک مکتوب محررہ مارچ ۱۹۱۱ء میں یہ بات درج کی کہ ’’ملٹن کی تقلید میں کچھ لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ان دنوں وقت کا کوئی لحظہ خالی نہیں جاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔‘‘ شیکسپیئر کو انھوں نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ گوئٹے سے بھی اقبال کا گہرا تعلق ہے۔ کیا مغربی ادبیات کے اس حصے سے آگاہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقبال پر مغربی جدیدیت کے اثرات تھے؟ جواب ہاں اور ناں دونوں میں ہوگا۔ ۔ دراصل اقبال نے مغربی ادبیات سے اخذ و استفادے کا عمل اپنے ابتدائی دور میں شروع کیا اور ۱۹۱۰ء تک ان کا شعری مائنڈ سیٹ متشکل ہو چکا تھا۔ اپنے ابتدائی دور میں اقبال کا مغربی ادبیات سے تعلق تقلیدی ہے، انھوں نے کئی مغربی نظموں کو پورے کا پورا اور کہیں مغربی نظموں کے کچھ مصرعوں کو ترجمہ کیا ہے۔ جیسے’’کوپر‘‘ کے اس مصرعے:
And, while the wings of fancy still are free
کو نظم ’’مرزا غالب‘‘ کا یہ مصرع بنا دیا ہے :
ہے پرِ مرغِ تخیّل کی رسائی تا کجا
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اقبال نے مشرقی ادبیات کی روایت کو کھو جا ہی نہیں تھا اسے مرتّب بھی کیا اسکا بھر پور فائدہ اُٹھایا۔ مغرب کے ساتھ ساتھ مشرق کی شاعری کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال نے فارسی، عربی، اُردو، سنسکرت، ادبیات کو ایک روایت ٹھہرایا اور اسے اپنی شاعری کی روحِ رواں بنایا۔ ان کے یہاں فارسی شعرا ملّا عرشی، ابو طالب کلیم، فیضی، صائب، مرزا بیدل، عرفی، خاقانی، انوری، سنائی، حافظ، سعدی ، فخر الدین اور سب سے بڑھ کر فکر رومی کے اثرا ت بالواسطہ اور بطور تضمین ملتے ہیں۔ عربی ادبیات سے انھوں نے ہر چند کسی مخصوص شاعر کے اثرات نہیں لیے مگر عربی شعریات کے اصول سادہ بیانی اور صحرائیت پسندی ضرور قبول کیے۔ مولانا غلام رسول مہر نے جب طلوعِ اسلام پر تنقید کی تو اقبال نے جواب دیا کہ ’’میں عربی شاعری کی روش پر بالکل صاف صاف اور سیدھی سیدھی باتیں کہہ رہا ہوں۔‘‘
اردو ادب کے طالب علموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ اقبال کی کئی شہرہ آفاق نظمیں بھی غیر ملکی ادب سے اخذ شدہ ہیں۔ ان میں \’ماں کا خواب\’، \’بچے کی دعا\’، \’ایک مکڑی اور مکھی\’، \’ایک گائے اور بکری\’، \’ایک پہاڑ اور گلہری\’ (ماخوذ ازایمرسن) \’ہم دردی(ماخوذ ازولیم کوپر)، \’آفتاب\’ (ترجمہ، گایتری) \’پیامِ صبح\’ (ماخوذ از لانگ فیلو)،\’عشق اور موت\’ (ماخوذ ازٹینی سن)ِ، \’رُخصت اے بزمِ جہاں\’ (ماخوذازایمرسن) وغیرہ۔
اقبال کو دہریت سے کسی المشہور بہ الہامی کتاب۔۔قرآن وغیرہ نے نہین بچایا۔۔۔۔۔بلکہ۔۔۔۔۔ایک انگریز شاعر نے بچایا۔۔۔۔
مخزن کے پہلے شمارہ ﴿اپریل ۱۹۰۱ء ﴾ میں اقبال کی نظم “کوہستان ہمالہ” کے عنوان سے شائع ہوئی جس پر اڈیٹر کی طرف سے یہ نوٹ ہے۔
شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور جو علوم مشرقی اور مغربی دونوں میں صاحب کمال ہیں، انگریزی خیالات کو شاعری کا لباس پہنا کر ملک الشعراانگلستان ورڈسورتھ کے رنگ میں ہمالہ کو یوں خطاب کرتے ہیں۔
اپنی ابتدائی شاعری میں اقبال نے مغربی شاعروں سے بھر پور استفادہ کیا۔ اس کے متعلق لکھتے ہیں۔
“میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل، اور ورڈ سورتھ سےبہت استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ غالب اور بیدل نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ مغربی شاعری کے اقدار کو سمولینے کے باوجود اپنے جذبہ اور اظہار میں مشرقیت کی روح کو کیسے زندہ رکھوں اور ورڈسورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچالیا”
اقبال پر تعمیری تنقید و گفتگو کی اصل وجہ کیا ہے؟
چونکہ پاکستان کی گزشتہ حکومتوں نے اقبال سے منسوب شاعری اور فکرو فلسفہ کو عوام کے درسی نصاب میں زبردستی شامل کر رکھا ہے،اور ایک مخصوص زاوئیے سے اقبال سے ایک خاص شدت پسندانہ مذہبی سوچ منسوب کی ہوئی ہے، جس کے انکاری خود اقبال کے قابل بیٹے جسٹس جاوید اقبال بھی ہیں، اور بے شمار مشاہیر و علماِ تاریخ نے اقبال کی شاعری اور علم و فکر کا جائزہ مختلف نتیجے پر منطبق کیا ہے تو اس لئے یہ ضروری ہے کہ اقبال سے منسوب گمراہ کُن ، اور حکومتی پراپیگنڈے کی بجائے ثبوت اور دلیل کے ساتھ اصل اقبال کو اسکی شاعری ، فکر اور فلسفے میں پیش کیا جائے۔
تاریخ کا پہلا حوالہ علی عباس جلالپوری جیسے عالم کا ہے جس نے اقبال کی فکر اور فلسفے کو ایک متکلم کی سوچ قرار دیا، یاد رہے متکلم ایسا سوچنے والا ہوتا ہے جو اپنے ایمان و عقیدے کی حقانیت کو اولیت دے کر سائینسی اور زمانی مشاہدوں کی تشریح اپنے اُن عقائد کے ذریعے پیش کرتا ہے جن پر اسکا ایمان ہوتا ہے۔
جہاں کہیں ایمان سے باہر کوئی مشاہدہ یا جلوہ ہو تو اُس کے بارے میں خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے۔
اقبال کے ذہنی و فکری خلفشار کے مختلف ثبوت اور نمونہ جات، میں اپنے مختصر مضامین میں بیان کرتا رہتا ہوں، ایسا کرنے کا مقصد ہرگز اقبال کی شخصیت، خاندان سے کوئی دشمنی نہیں بلکہ اقبال کی فکری و شاعرانہ اصلیت کا درست جائزہ سامنے لانے کی کوشش ہے،
بعض نابکار میرے ایسے استنباط و دلائل کے جواب میں ذاتی رکیک حملے کرتے ہیں، کچھ کہتے ہیں، اقبال کے پیچھے کیوں پڑ گئے؟ اقبال نے تمھارا کیا بگاڑا ہے؟ کچھ کہتے ہیں تم اقبال جیسا ایک شعر کہہ کر دکھاو تو مانیں
ایسی لایعنی باتیں اور مبازرت بھرے کلمے خود ظاہر کرتے ہیں کہ اس معاشرے کو اقبال کی اصل فکری روش سے متعارف کروانا اور بھی ضروری ہو گیا ہے کیونکہ یہ وُہ پود ہے جو مسلسل جھوٹے رُوپ کے درشن کر کے اقبال کو ناحق ایک مذہبی بزرگ قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے اور اسکی وجہ اسکی وہ درسی معلومات ہیں جو اقبالیات کے شعبے نے خاص حکومتی شہہ پر جھوٹے طور پر اقبال سے منسوب کی ہیں۔
بعض نام نہاد پروفیسران تو ایسے آپے سے باہر ہوئے کہ اقبال کے معزز بیٹے جاوید اقبال کے ساتھ گفتگو کے دوران انکو جھٹلانے کی کوشش کرتے رہے۔ جبکہ جسٹس جاوید اقبال انتہائی لبرل سوچ کے دانشور تھے۔ انکے بقول پاکستان، ہندووں نے بنایا ہے۔ اقبال نے کبھی پاکستان بطور ایک الگ آزاد ملک کے کوئی تصور نہیں دیا تھا۔
افسوسناک بات یہ ہےکہ پاکستان کے ٹی وی ریڈیو اخبارات دن رات اقبال کو مفکرِ پاکستان کہتے ہیں اس طرح ایک چالیس پچاس سال کی عمر تک کی نسل کو گمراہ کر دیا گیا ہے۔
اقبال پر اس لئے بھی سچی تعمیری تنقید لازم ہے کہ اقبال کو ایک بزرگ و مصلح کے طور پر پیش کیا جاتا ہے پس اس حوالے سے کوئی بھی جھوٹ اُن سے منسوب کر دینے سے سننے والا اقبال کے نام سے گمراہ ہوتا ہے۔
مثلآً اقبال سے منسوب ہے کہ ایک قاتل علم دین کے ناجائز عمل کو اقبال نے خوب اچھا کہا اور کہا کہ
’’ترکھاناں دا مُنڈا بازی لَے گیا۔۔اسیں ویکھدے رہ گئے۔‘‘
یعنی یہ بات کہنے والے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ توہینِ رسول کرنے والے کو قتل کرنا اقبال کے نزدیک بہت احسن اقدام تھا۔ لیکن اصل اقبال ایسے قتال پر اسطرح اُکسانے والا معلوم نہیں ہوتا۔
اس مثال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے بیانات و فکر و تشریح سے اقبال کو ایک شدت پسند، قاتل ذہن، ٹھیٹھ مسلمان ، موقع پرست انسان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ایک غلط بات ہے۔
میری تحقیق و تبصرہ، اقبال بطورِ انسان، بطورِ شاعر، بطورِ مفکر، بطورِ فلسفی یا متکلم ، بطورِ باپ، بطورِ شوہر، بطورِ نثر نگار ، ، اقبال کیسے تھے پر مشتمل ہے۔
مجھے اقبال سے پرخاش نہیں بلکہ اقبال سے منسوب پاکستان حکومتوں اور جعلی یک نظر مقالوں سے پرخاش ہے۔ اور میں ایسے تمام مقالے رد کرتا ہوں جو اقبال کو ایک آفاقی فلسفی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور جو دوسرے مغربی و مشرقی مشاہیر و شُعرا کے کلام پر مبنی اقبال کے کلام کو اقبال کا ہی کلام کہہ کر پیش کرتے ہیں۔
یعنی جیسے مغربی شُعرا کی شاعری کے تراجم والی اقبال کی شاعری، یا مقامی شعرا خوش خان خٹک، رومی، حافظ، اور ہندی شُعرا سے اکتساب و ترجمہ۔ یہ سب باتیں خالص ادبی لوازمات ہیں۔
لیکن میں کسی طرح بھی اس بات پر راضی نہیں ہو سکتا اور نہ آپ کو ہونا چاہئیے کہ جو شاعری مغربی و مشرقی شُعرا سے اکتساب ہے یا ترجمہ ہے یا ماخوذ ہے اُسے خالصتاً اقبال کی اپنی شاعری کا درجہ دے کر مضامین میں انکے حوالے استعمال کئے جاویں۔
میں سمجھاتا ہوں، کہ جب کسی تقریر میں اقبال پر بات کرتے ہوئے اقبال کی اعلی سوچ کی تعریف کرتے ہوئے حوالہ دیا جائے کہ اقبال کہتے ہیں کہ
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہین کمند
تو ۔۔ قارئینِ کرام ! ساری تقریر ہی جھوٹ پر مبنی ہے، یہ اقبال کے الفاظ نہیں ہیں ،یہ خالصتاً پشتو کے شاعر خوشحال خان خٹک کا کلام ہے جس کا ہو بہو ترجمہ اقبال نے کیا ہے۔
یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے کہ آئیں بائیں شائیں کر کے آپ کہہ دیں کہ تو کیا ہوا ،دوسرے شعرا بھی اور زبانوں کے شعرا کی شاعری کا ترجمہ کرتے رہے ہیں۔۔لیکن جناب،دوسرے ایسے شعرا پر مضامین و تقاریر کرتے ہوئے انکے تراجم کو ان کی اپنی تخلیق نہیں قرار دیا جاتا۔
ایک بار تو حد ہی ہو گئی۔ لاہور میں اقبال ڈے پر، کچھ انگریز مدعو تھے۔ کسی بُدھو نے جسے معلوم نہ تھا کہ بچے کی دُعا اقبال کی نظم ، اصل میں انہیں برٹش انگریزوں کی مشہور شاعرہ میٹلڈا ایڈورڈ کی حمد کا ترجمہ ہے۔ اس نظم کو اقبال کی اعلی تخلیقِ ذاتی کہہ کر پیش کیا۔
یہ اس لئے ہوا ہے کہ درسی کتاب میں واضح طور کبھی بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ یہ نظم کس شاعرہ کی ہے اور نہ کبھی اُس شاعرہ کی تعریف کی گئی ہے۔ جو ادبی ہی نہیں اخلاقی بددیانتی ہے۔اگرچہ اقبال نے اپنی کتاب میں لکحا کہ یہ ماخوذ ہے۔۔مسءلہ پاکستانیوں کا ہے وہ کیوں لوگوں کو بتانا نہیں چاہتے کہ نطم اصل میں ایک اچھا ترجمہ ہے۔؟!
اقبال کی شکوہ جواب شکوہ کا بنیادی تصور ملٹن کی مشہور زمانہ پیراڈائز لاسٹ اور پیراڈائز ری گین سے لیا گیا ہے ۔ اگر آپ اقبال کی شاعری پڑھ کر ملٹن کی شاعری کا پڑھیں تو آپ بلاجھجک یہ بتا سکتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کے بنیادی خیال کہاں سے ماخوذ ہیں۔ اس لئے ہمارے محب وطن پاکستانی بڑے فخر سے یہ کہتے ہیں کہ ملٹن مغرب کا اقبال ہے جبکہ ملٹن کا ظہور اس دنیا میں اقبال سے پہلے ہوئے لہذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اقبال مشرق کا جان ملٹن ہے
سعودی عرب کے سابق گرینڈ مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز کے شاگرد رشید، ڈاکٹر سلمان العودہ نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم جنس پسندی کی اس دنیا میں کوئی سزا نہیں ہے اور ہم جنس پسند اس فعل کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں ہوتے- ان کے مطابق اس جرم کی شرعی سزا جو کہ سنگسار کیا جانا ہے، بذات خود لواطت سے بڑا جرم ہے۔
اسی طرح عرب سپرنگ کا آغاز کرنے والے ملک، تیونس کے٨٠ سالہ مفکر راشد الغنوشی نے بھی ایک انٹرویو میں بتایا، "ہم جنس پسندی کو ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ ذاتی پسند ناپسند کا معاملہ ہے- ان کے مطابق ہم جنس پسندی ایک نجی معاملہ ہے اور اس سلسلے میں قانون کا اختیار نہیں ہونا چاہیے چنانچہ اسے جرم نہیں ہونا چاہیے۔
مردوں میں ہم جنس پسندی کی تاریخ نسلوں کی بجائے صدیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ عربی زبان میں اسے لواطت اور انگریزی میں sodomy کہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی اصلاحات میں مذہب کا دخل ہے۔ عربی کا لواطت پیغمبر لوط کے نام سے مشتق ہے جب کہ انگریزی sodomy موجودہ اسرائیل میں بحیرہ مردار کے جنوب مغربی کنارے پر واقع جبل سدوم (Mount Sodom) سے ماخوذ ہے۔
حالانکہ موجودہ دور میں سدوم نام کی کوئی آبادی وہاں موجود نہیں ہے مگر عہدنامہ عتیق (تورات عظیم) اور عہدنامہ جدید (انجیل مقدس) سدوم شہر کی تباہی کی تفصیل دی گئی ہے (دنیا کے تمام مذاہب قابل تعظیم ہیں)۔ یہ وہی شہر ہے جہاں قرآن حکیم نے پیغمبر لوط کی رہائش اور ان کی قوم پہ عذاب کا بتایا ہے حالانکہ اس شہر کے نام کا حوالہ قرآن حکیم میں نہیں دیا گیا۔ اسلام سے پہلے کی ابراہیمی کتابوں میں پیغمبر لوط کا ذکر بہت محدود سا ہے جبکہ قرآن پاک میں پیغمبر لوط کا ذکر نسبتا تفصیل سے آیا ہے۔
جب بھی ہم جنس پسندی کی بات آتی ہے تو عمومی طور پر مردوں کے ہی جنسی رویے کی بات کی جاتی ہے مگر یہ جنسی رویہ عورتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ عورتوں کے اس جنسی رجحان کو انگریزی زبان میں (Lesbianism) کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ یونانی جزیرے (Lesbos) اخذ کیا گیا ہے۔ اس جزیرے کی وجہ شہرت مشہور یونانی شاعرہ سیفو ہیں جنہوں نے معلوم تاریخ میں پہلی بار اہنی محبوبہ کے بارے میں جذباتی شاعری مرتب کی (شاعری لکھی نہیں جاتی بلکہ ترتیب دی جاتی ہے)۔
اس طرح کے جنسی رویے کو عجیب سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ جنسی عمل کے متعلق عام غلط فہمی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ اس لیے بھی ناقابل قبول لگتا ہے کیونکہ جنسی عمل کو صرف افزائش نسل کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زمین پہ پائی جانے ذہین ترین مخلوقات (انسان، چمپینزی اور ڈولفن) جنسی عمل تسکین کے حصول کے لیے کرتے ہیں (جس کی وجہ سے کبھی کبھی بچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں ورنہ ان کے سیکس کی فریکوئینسی کی نسبت سے ان کی آبادی کو بےقابو ہو جانا چاہیے) یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام جانداروں کے جنسی عمل اور نئے بچے پیدا ہونے کا ایک خاص موسم ہوتا ہے جبکہ ان ذہین مخلوقات کے بچے سارا سال پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
بنیادی طور پر ہم جنس پسند رویے کا تعلق بھی جنسی لذت سے ہوتا ہے جو کہ ایک انتہائی ذاتی رجحان ہے یہی وجہ ہے کہ ایسا جنسی رویہ رکھنے والے افراد جنس مخالف کی دستیابی کے باوجود ہم جنسی کا رجحان رکھتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں شادی بھی اس مسئلے کا مستند حل نہیں ہے اور ایسے افراد شادی کے بعد بھی ایسا رجحان رکھتے ہیں بلاشبہ یہ کچھ دب ضرور جاتا ہے مگر ختم نہیں ہوتا کیونکہ ہم جنس پسندی ایک قدرتی رجحان ہے جو ماں کے پیٹ سے ہی پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ ہم جنس پسندی کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم نے جنسی رویوں کو حال ہی میں سمجھنا شروع کیا ہے لہذا ہم جنس پسندی کو روایتی طور پر قابل اعتراض سمجھا جاتا رہا ہے چنانچہ بالکل منطقی طور پر تقریبا ہر مذہب نے اس کے لیے سخت سزائیں تجویز کیں ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ بالعموم مذہبی پیشوا ہی اس عمل میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صوفیانہ روایات سے مزین مردانہ اجارہ داری کی حامل مذہبی قیادت بالعموم نسائی لذت سے محروم رہی ہے کیونکہ تقدس کا تصور زنانہ جنسی لذت سے آلودہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ جنسی گھٹن کی شکار مذہبی قیادت کے لیے دینی تربیت کے لیے مدخول بچے آسان ہدف رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بچوں کو خوف زدہ کر کے خاموش رہنے پہ مجبور کر دینا اور ان کے دل میں تقدس کے ہیولے کا ادب (رعب) پیدا کر لینا آسان رہا ہے۔ بچے سمجھتے ہیں چونکہ مذہبی رہنما خدا کے دنیاوی نمائندے ہیں لہذا ان کی ہر بات پہ مطلق فرمانبرداری ضروری ہے چاہے وہ حکم بظاہر ناجائز ہی ہو کیونکہ وہ مذہب کو مقدس ہستی سے زیادہ تو نہیں سمجھتے۔ ماسوائے اس کے بچوں کو سیکس کے موضوع پہ تعلیم کی کمی بھی اس کے لیے ذمہ دار رہی ہے۔
یہ مشق کسی ایک تہذیبب یا مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تقریبا ہر ثقافت اور مذہب اس حوالے سے شریک لطف رہا ہے۔ قدیم جاپان میں مردوں کی کم عمر لڑکوں سے جنسی لذت حاصل کرنے کے رواج کو Nanshoku کہا جاتا تھا، اس مقصد کے لئے اشرافیہ کے پاس wakashu کہلائے جانے والے لڑکے موجود ہوتے تھے۔ اسی طرح یونانیوں نے بھی لڑکے رکھے ہوئے تھے ارسطو نے اپنی کتاب پولیٹکس میں اس پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ Crete کے حکمران آبادی کنٹرول کرنے کے لئے pederasty بچہ بازی/ اغلام بازی کی پزیرائی کرتے تھے۔
چینی تہذیب میں بھی یہ رواج عام تھا۔ شہنشاہ Ai کی آستین پر ایک مرتبہ انکا عاشق سو گیا اس نوجوان کو اٹھانے کے بجائے آپ نے اپنی آستین ہی کاٹ لی۔ یہ دیکھتے ہوئے بعد میں درباری بھی ایک آستین نکال لیا کرتے تھے، اسی وجہ سے چین میں لڑکوں کا شوق رکھنے والوں کے لئے Passion of Cut Sleeves کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
فارس میں بھی یہ مرض عام تھا، سکندرِ اعظم کو فارس کے حکام نے Bagoas نامی ایک لڑکا بھی تحفہ میں دیا تھا، سکندر کویہ نوجوان بہت عزیز تھا رقص کے مقابلوں میں اسے نچوایا کرتا تھا، اس سے کھلے عام اپنے پیار کا اظہار بھی کردیا کرتا تھا Bagoas Kiss کی اصطلاح یہاں سے نکلی۔ عباسی دور میں خلیفہ الامین نے لڑکوں سے دربار میں رونق لگائے رکھی۔ عثمانی دور کی اشرافیہ بھی یونانیوں سے اس درجہ متاثر تھی کہ حماموں میں تلک نام کے کم عمر لڑکے رکھے جاتے جو مردوں کو نہلانے کے علاؤہ دیگر خدمات بھی سر انجام دیتے تھے۔
بابل کی تہذیب میں بھی مرد کا مرد سے جنسی تسکین حاصل کرنا ایک معمول کا فعل تھا۔ خوش بختی اور اچھی قسمت کے لئے ضروری تھا کہ مذہبی پیشواؤں سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ مصر کی تہذیب میں بھی یہ ہی چیز جاری رہی تھی۔ انکی تین ہزار سال پہلے کی گلگامش کی کہانی میں بھی بادشاہ گلگامش انکیدو نامی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
آج بھِی افغان معاشرے میں یہ رویہ مباح سمجھا جاتا ہے کہ سماجی شان و شوکت کے لیے نوعمر لڑکے رکھے جائیں۔ یہ رویہ اس حد تک مقبول ہے کہ 2015 میں امریکی جرنیلوں نے اپنے فوجیوں کو ہدایت کی تھِی کہ افغان "بچہ کشی” میں مداخلت نا کی جائے۔ شاید ہی کوئی افغان سردار ایسا ہو گا جس کے حجرے میں امرد موجود نا ہوں۔ ناصرف یہ کہ ان لڑکوں کی ملکیت قابل فخر ہے بلکہ ان کے توارد کے لیے جنگجو سرداروں کی خونی لڑائیاں بھِی عام ہیں۔ یہ لڑکے ناصرف جنسی راحت دیتے بلکہ فنکارانہ ذوق کی تسکین بھی کرتے ہیں جیسا کہ پازیب کے ساتھ رقص وغیرہ۔ اس حوالے سیاسی یا مذہبی وابستگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مذہبی، متشرع طالبان اور افغان حکومت کے حامی سیکولر سردار، دونوں اس حمام میں ننگے ہیں۔
مذہب میں اس حوالے سے سب سے زیادہ بدنام مسیحی گرجا رہا ہے (پیغمبر عیسی کے ماننے والے عیسائی نہیں بلکہ مسیحی ہیں)۔ میڈیا کے فروغ نے بیسیویں اور اکیسیویں صدی کے دوران مسیحی گرجا کی ہم جنسی پرستی کا پول کھول دیا ہے حالانکہ گرجا پہ ایسے الزامات صدیوں سے لگتے آئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ گرجا میں رہنے والی راہباووں کی بکارت کو محفوظ رکھتے ہوئے ان سے غیر فطری جنسی فعل کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
بعینہہ، یہودی برادری کی عبادت گاہوں (سینا گوگ) میں ہم جنسی اشتہاانگیزیوں کی شکایات کا انبار ہے۔ بودھ صوفی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ابھی حال میں ہی تھائی لینڈ کی بودھ خانقاہوں میں نوعمر بودھ بھکشووٗں کے ساتھ عمر رسیدہ بھکشووٗں کی جنسی ذیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک ۱۳ سالہ بھکشو کی شکایت کے مطابق ۵۱ سالہ رہبر بھکشو اسے اپنے ننگے جسم کا مساج کرنے اور اپنے جسم کو چوسنے کا کہتے۔
پاکستان میں یہ روایت اردو کی رعایت سے آئی ہے حالانکہ اردو کی قبولیت عام سے پہلے بھی برصغیر کے مسلمانوں میں عشق افلاطونی (افلاطون کے نزدیک عورت سے محبت فضول ہے کیونکہ عورت سے جنسی عمل صرف نسل آ گے بڑھانے کے لیے ہے جب کہ عشق حقیقی کا حظ صرف نوعمر بغیر داڑھی کے لڑکوں سے ہی اٹھایا جا سکتا ہے) کی مضبوط ثقافت موجود تھی۔
اردو کی اولین تحریر سے بھی ۳۵۰ سال پہلے پیدا ہوئے سلطان علاوالدین خلجی کی اپنے غلام ملک کافور سے محبت پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ خلجی کے دورِ حکومت میں ایک مبصر ضیا الدین بارانی نے خلجی کے آخری دنوں کا احوال بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان چار پانچ برسوں میں جب سلطان اپنی یاداشت کھونے لگے تھے تو وہ ملک کافور کے ساتھ گہری محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کچھ ایسی ہی حکایات سلطان محمود غزنوی اور ان کے چہیتے مملوک ایاز کے لیے بھی ہیں۔ تزک جہانگیری میں مغل بادشاہ جہانگیر نے بھی لڑکوں پہ اپنی شبینہ فتوحات کا ذکر کیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد سرمد پر اپنی تحریر کی ہوئی کتاب ’حیاتِ سرمد‘ میں صوفی سرمد کی اپنے محبوب ابھےچند کے لیے سرمستی عشق کے بارے میں لکھا ہے۔
پنجابی کے نامور شاعر اور لاہور کے صوفی شاہ حسین اور ہندو لڑکے مادھو کے عشق سے کون واقف نہیں ہے؟ اس عشق کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنے محبوب کا نام اپنے نام کا مستقل حصہ بنا لیا اور اب بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ مادھو لال حسین ایک شخص کا نام نہیں تھا بلکہ دو الگ الگ نام تھے۔
اسلامی تصوف میں اس حوالے کی روایت پہلے عرب (شاعر ابو نواس) اور پھر فارس (عمر خیام اور حافظ شیرازی کا مشہور شعر تو ہر کوئی کس لذت سے سناتا ہے کہ اگر وہ شیراز کا ترک لڑکا مجھے مل جائے تو میں اس کے گال کے تِل کے بدلے سمر قند اور بخارا کے شہر اسے بخش دوں) سے وارد ہوئی۔ اس سلسلے میں صوفی سلسلے کی مشہور بزرگ شاہ شمس تبریز اور مولانا روم کا عشق زبان زد عام ہے۔
1244 میں مولانا رومی کی جب شمس تبریز سے ملاقات ہوئی تو ان کی عمر 37 برس اور شمس تبریز کی عمر 60 برس تھی۔ اس وقت تک مولانا رومی ایک مستند و معتبر عالم بن چکے تھے۔ ان کا خطبہ سننے سینکڑوں ہزاروں لوگ جمع ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل تھی۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک خوشحال‘ باعزت اور کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ شمس نے رومی کو چھوڑ جانے کا فیصلہ کیا تو رومی نے شمس کی شادی اپنی منہ بولی بیٹی کیمیا سے کر دی۔
یہ حقیقت بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جوں جوں رومی شمس سے جذباتی طور پر قریب آتے گئے رومی اپنی بیوی سے رومانوی طور پر دور ہوتے گئے اور شمس بھی اپنی نو بیاہتا بیوی کیمیا سے ازدواجی تعلقات نہ قائم کر سکے۔ اس تعلق کی شرمندگی سے بچنے کے لیے رومی کے بیٹوں نے شمس کو قتل کر دیا۔
اردو غزل کے بادشاہ، ریختہ کے استاد، صوفی ابن صوفی سید محمد تقی (ولد سید محمد متقی جو ایک معروف مزار کے سجادہ نشین تھے) عرف میر تقی میرؔ، جن کو خداۓ سخن کا لقب دیا جاتا ہے، نے شاعری کے اپنے دیوان کے متعلق کہا تھا کہ میرے دیوان میرے معشوق لڑکے کے لکھا گیا ہے۔ ان کے معشوق لڑکے کے حسن کے قصے اور طرحداریوں کے افسانے اس کے خال و خد سے لے کر عشوہ طرازیوں تک چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح پرانی دلی کے قدماء میں سے ایک بزرگ شاعر شیخ شرف الدین مضمون نے اپنے محبوب کے بارے میں لکھا کہ میرے محبوب کے چہرے پر داڑھی آ گئی ہے جبکہ میری داڑھی سفید ہو چکی ہے۔ لیکن وہ اب بھی ساری رات مجھ سے مصاحبت کرتا ہے۔ ہندو اردو شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھ پوری بھی اپنے بیٹے کے عمر کے لڑکے کے عشق میں مبتلا تھے۔ کہتے ہیں کہ فراقؔ گھورکھ پوری کی ہم جنسیت کی وجہ سے ان کے بیٹے نے خود کشی کر لی تھی کہ اس کا باپ اس کے دوستوں سے بھی باز نہ آتا تھا۔)
ایک فقیہ اعظم نے اس رویے کا علاج یہ تجویز کیا تھا کہ اپنے شاگرد کا سر منڈوا دیا تاکہ وہ خوبصورت ہونے کی وجہ سے دوران سبق امام صاحب کی توجہ منتشر نا کروا دیں۔ مگر کیا کیجئے، مسئلہ حل نہیں ہوا اور اس کے بعد استاد محترم اپنے عزیز شاگرد کو اپنی مسند کے عقب میں یعنی اپنی نظروں سے اوجھل بٹھاتے۔ کیا اس سب کے بعد مفتی الشیخ عزیز الرحمان پہ گرفت کی جانی چاہیے؟ جواب آپ کا ہے۔
ھم پاکستان کے منافق اسلامی چہرے کو سامنے لاتے جائیں گے ۔۔تاکہ ثابت ھو کہ مذھب کے نام پر بننے والی کوئی بھی ریاست بدکار فاشسٹ ھوتی ھے۔پاکستانی اخلاقی گراوٹ میں پوری دنیا میں بدنام ھے اور اسکی وجہ کرپشن اور مذھبی جعل پن ھے جسکی آڑ میں جنسی بدفعلیاں چپے چپے پر جاری ھیں۔ خود عمران خان سے بھی ایسے واقعات منسوب ھیں۔ریحام خان نے بھی اس جانب اشارے کئے تھے۔۔
مفتی، موذن ، امام، خطیب۔۔۔شیعہ عالم ، ذاکر سب جنسی بدفعلی میں مشغول ھیں۔