یہ بھی ایک یادگار سفر تھا
ہم صبح ھوٹل سے نکلے تھے۔ استنبول کی مشہور بلیو مسجد، سینٹ صوفیہ کا گرجا دیکھ چکا تھا۔ ان دونوں کے سامنے فوٹو بھی بنوا چکا تھا۔
مسجد میں دو نفل بھی پڑھ آیا تھا کہ چلو سفر کی برکت کیلیئےا چھے ہیں۔
استنبول کا مشہور گرینڈ بازار بایاں ھاتھ پر تھا۔ سوچا کہ اس کو بعد میں دیکھیں گے۔ دوپہر کے بعد دھوپ زیادہ ہوگی تو گرینڈ بازار کی چھتوں کے نیچے سکون سے گھومیں پھریں گے۔ اس وقت توپ کاپی میوزیم دیکھ آئیں۔
ہم نے کچھ سال پہلے ایک پاکستانی فلم دیکھی تھی۔ نام یاد نہیں رہا کہ کیا تھا۔ جاوید شیخ کی فلم تھی۔ اس کو ترکی کی کسی حسینہ سے حسب معمول پیار، عشق محبت ہوجاتا ہے۔ کہانی کچھ اتنی یاد نہیں رہی ، بہروز سبزواری کا ایک ڈائیلاگ یاد رہ گیا ہے۔ کہ ہر سین میں کہتا ہے کہ باس لاش ٹھکانے لگا دی ہے۔ لاش ٹھکانے لادوں؟۔۔ ۔۔۔۔۔۔پھر آخر میں وہ خود مرنے والا ہوتا ہے تو اس کے آخری الفاظ بھی یہی ہوتے ہیں۔۔۔ باس میری لاش ٹھکانے لگا دینا۔۔۔۔۔ بہت جذباتی سین ہوتا ہے۔
اس فلم میں ہم نے پہلی بار توپ کاپی میوزیم کے بارے میں جانا کہ اس جگہ پر بہت سی اسلامی یادگاریں ہیں۔ دیکھنے لائق ہیں۔ ضرور جانا چاہیے۔
توپ کاپی میوزیم کے صدر دروازے کے دائیں بائیں سٹال نما دکانیں ہیں۔ ہم اندر جارہے تھے کہ کسی نے آواز دی۔ السلام علیکم۔ ہم نے جواب دیا۔ وہ پندرہ سولہ سال کا لڑکا تھا۔ عام ترک لڑکوں سے زیادہ صاف انگریزی میں بات کررہا تھا۔ بتانے لگا کہ وہ اسلام آباد میں ایک مہینہ رہ کر آیا ہے۔ اس کا انکل اسلام آباد میں ترکی ایمبیسی میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں بہت سیر کی۔ پشاور اور مری بھی دیکھا۔۔ ہمیں دکان کے اندر لے گیا۔ ثبوت کے طور پر فوٹو دکھانے کی پیش کش کی۔
ہمیں باتیں کرتا دیکھ کر ایک اور نوجوان بھی آگیا۔ اس نے کہا کہ اس کی بہن کی شادی ایک پاکستانی سے ہوئی ہے۔ وہ بھی اسلام آباد میں رہتی ہے۔۔ ہمیں ڈر تھا کہ یہ لوگ واقفیت نکال کر اب کوئی شے بیچنے کی کوشش کریں گے۔ ترکی، مصر، تیونس، مراکو۔۔۔۔ ان سب جگہوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ کو برادر۔ بھائی۔ بول کر دگنی تگنی قیمت پر چیز بیچ دیتے ہیں۔ اور آپ اپنے ملک و قوم کے وقار کا جھنڈا بلند کرنے کی خاطر کچھ نہ کچھ خرید ہی لیتے ہیں۔ تاکہ یہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ شاید ہمارا ملک زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا شکار ہے۔۔
لیکن ان لوگوں نے ایسا کچھ نہ کیا۔ صرف پیار اور خلوص کی رشتہ داری جتاتے رہے۔ یہ ہمارے ساتھ ہر جگہ ہوا، ترکی میں جس جگہ بھی گیا۔۔۔ اور ہم چھ سات مختلف شہروں میں گیا۔ ہر جگہ پاکستان کی مناسبت سے بہت عزت کی گئ۔
اب آپ لوگ سوچے گا کہ ان لوگ کو پتہ کیسے چل جاتا تھا کہ یہ بندہ اسی علاقے کا۔۔ اصل میں ہمارے ساتھ ہماری ہمسفر بھی تھی۔ اور اس کے شلوار قمیص کی وجہ سے ہر کسی کو پتہ چل جاتا تھا کہ ہو نہ ہو بے نظیر والے ملک سے اس کا تعلق ہے۔ ویسے ہم بنیادی طور پر بے نظیر کی پالیسیوں سے کبھی متفق نہیں رہا اور نہ ہی اس کی شخصیحت سے متاثر ہوا۔۔۔ لیکن جس بات کا حق بنتا ہمارے خیال میں وہ حق اس کے حقدار کو دیا جانا چاہیے۔۔ بیرونی دنیا میں بے نظیر کو اس حوالے سے جانا جاتا کہ شلوار قمیص ایک پرکشش لباس ہے۔ سلیقے سے پہنا جائے تو ہر جگہ چل جاتا ہے۔
توپ کاپی میوزیم کے اندر جانے سے ہم نے ہمسفر سے پوچھ لیا کہ کیمرے کی کتنی فلمیں ہیں؟ کہنے لگی ایک کیمرے کے اندر ہے اور ایک اس کے علاوہ فالتو بیگ میں۔ ہم نے کہا کہ کچھ اور خرید لیتے ہیں۔ نہ مانی۔ کیا ضرورت ہے۔ ساٹھ ستر فوٹوؤں کی جگہ ہے۔ ہم نے کونسا اتنے زیادہ فوٹو لینے ہیں۔
توپ کاپی کسی زمانے میں عثمانیوں کا محل تھا۔ اب عجائب گھر ہے۔
دائیں طرف کے کمروں سے ہم نے دیکھنا شروع کیا۔
بادشاہوں کے باورچی خانوں کے برتن۔ سونے چاندی کی صراحیاں۔ طشتریاں۔
پھر ملبوسات کی باری آئی۔ بھاری بھاری چوغے۔ سونے کی تاروں سے کڑائی کیے ہوئے۔
ہتھیار، تلواریں، خنجر۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک خنجر چاندی کا۔ جس کے دستے پر بیش قیمت ہیرے، لعل اور جواہرات جڑے ہوئے۔
آگے ایک تخت۔۔ جو سب کا سب سونے کا بنا ہوا
ایک اور تخت جو شاید ساگوان کی لکڑی کا بنا تھا، لیکن اس پر جواہرات، لعل اور یاقوت وغیرہ اتنا تھا کہ لکڑی چھپ گئ تھی۔ یہ تخت کسی عثمانی سلطان کو ایران کے نادر شاہ نے تحفہ دیا تھا۔
ایک پنگھوڑا۔ جس پر ہیرے ، نیلم، یاقوت اور لعل جڑے تھے
سلطنت عثمانیہ اپنے عروج کے دور میں آج کل کے سعودیہ، یمن، عراق، وسطی ایشائی ممالک ( یعنی جورجیا، آرمینیا۔ آذر بائیجان۔ چیچنیا ترکمانستان وغیرہ)، ترکی، شام، بلغاریہ کا آدھا علاقہ۔یوکرائن کا کچھ علاقہ ، رومانیہ، البانیہ، مصر لبنان، اردن فلسطین تک پھیلی تھی۔
ہم آہستہ آہستہ ایک کمرے سے دوسرے کمرے، ایک دالان سے دوسرے دالان ، ایک برآمدے سے دوسرے تک جارہے تھے۔ خاص خاص چیزوں کے فوٹو لے رہے تھے۔ کچھ جگہوں کے فوٹو فلیش کے ساتھ لینا ممنوع تھا۔ فوٹو بنانے والا شروع شروع کا شوق اب ماند پڑ گیا تھا۔ اب ام کتنے خنجروں، کتنے دیگچوں، یا کتنے کرتوں کے فوٹو بناتے۔ یادگار اور تبرک کی طور پر ایک فوٹو بنالیا تھا۔ ویسے بھی اس خنجر، اور تخت کو دیکھنے کے بعد آنکھوں میں عام چیز جچ بھی نہیں رہی تھی۔
پھر مختلف قسم کے قرآن آگئے۔
باتصویر یعنی نقش و نگار کے ساتھ۔۔۔ ھاتھ سے خطاطی کیے ہوئے قرآن۔ سونے کی تاروں والے۔ ایرانی خطاطی۔ مصری خطاطی۔ سمرقند بخارا سے تحفہ کے ہوئے قرآن۔ چھوٹے چھوٹے ایک ہتھیلی کے برابر نسخے۔ بڑے بڑے ایک ایک گز کے صفحے والے نسخے۔ ہزار سال پہلے کے لکھے ہوئے۔
پھر ایک مدھم روشنی اور تلاوت قرآن کی مدھر اور پرسوز آواز والے کمرے میں ہم داخل ہوئے۔ یہ دیکھنے والی اور یاد رہ جانے والی جگہ ہے۔دنیا میں شاید دو جگہیں ایسی ہیں جہاں ہمہ وقت قرآن مجید کی تلاوت بغیر کسی وقفہ کے تواتر کے ساتھ کی جاتی ہے ، ایک توپ کاپی میوزیم کا یہ کمرہ جہاں ہم کھڑے تھے اور دوسری رباط میں شاہ حسن دوم کے مزار پر ۔۔ اس جگہ پر حضرت محمدﷺ کے دندان مبارک، آپﷺ کا نقش پا۔ آپﷺ کا ایک خرقہ مبارک۔ آپﷺ کی ریش مبارک کا بال۔ آپﷺ کی تلوار اور نیزہ۔ حضرت فاطمہؓ کی چٹائی۔ چاروں خلفائے راشدین کی تلواریں ، نیزے۔ حضرت علی ؓ کی تلوار کا ام بچپن سے ہی بہت شہرہ سنتے آئے ہیں کہ ان کی تلوار اتنی بھاری ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ ان کا قد باقی تمام صحابہ کرام سے چھوٹا تھا۔ گو کہ وہاں پر چھوٹی چھوٹی پرچیاں لگی ضرور تھیں کہ جن سے پتہ چلتا تھا کہ کس چیز کی کس صحابی یا مقتدر ہستی سے نسبت ہے لیکن دل کی تسلی کی خاطر ہم نے ایک گاییڈ سے پوچھا کہ ان میں سے حضرت علیؓ کی تلوار کونسی ہے ؟ واقعی وہ بڑی تھی۔ بھاری بھی ضرور ہوگی۔ ہم نے قائرہ کی ایک مسجد کے ایک عجائب گھر میں کسی صحابی کی ایک زرہ دیکھی تھی، بلکہ چھوئی تھی اور ٹٹول کر اس کا وزن جانچنے کی کوشش بھی کی تھی۔ تیس کلو گرام تو ضرور ہوگی۔ اتنی بھاری زرہ ، اتنی گرمی میں پہن کر اتنی بھاری تلواریں چلانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔ آفرین ہے ان سب پر۔ ہم تو نکڑ کی دکان سے ایک دن کا سودا لائیں تو شاپر بیگ کے اٹھانے سے بازو شل ہوجاتے ہیں ۔
قرآن کا وہ خون آلود نسخہ بھی یہیں ہے جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمانؓ شہید ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ کا ایک بے حد پرانا غلاف، اور لکڑی کا دروازہ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی پگڑی، حضرت داؤد علیہ السلام کی کوئی شے بھی موجود تھی، اب یاد نہی رہا کہ کیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیالہ۔
میری ہمسفر جس نے کہا تھا کہ کیمرے کی دو فلمیں بہت ہیں۔ ایسا بھی کیا۔ ۔ ۔ ۔ اس کو چار اور کی ضرورت پڑی ۔
اور ایسی بے شمار نوادرات ہیں کہ جن کے دیکھنے سے ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ اور بندہ خود کو بے حد خوش قسمت تصور کرتا ہے۔ ہم نے بھی اپنے آپ کو بے خوش قسمت تصور کیا۔ کہ کہاں ہم جیسا پہاڑ کی دامن میں بکریاں چرانے والا آجڑی دیہاتی اور کہاں عثمانی بادشاہوں کے محلات ۔ جو چوتھائی دنیا پر حکمرانی کرتے تھے۔ اورسب سے بڑھ کر کہاں دونوں جہانوں کے بادشاہ اور ان کی زیر استعمال چیزیں۔ اگلے جہاں کو جب حساب کتاب ہوگا تو شاید یہ ہمارے بے حد کام آجائے کہ جس وقت ہم ان سب چیزوں کو دیکھ رہے تھے تو ہمارے دل میں احترام۔ شوق اور محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔