شاعری ، فنونِ لطیفہ کی ایسی جہت ھے جو زندگی کے ایسے گوشوں تک بھی رسائی حاصل کرلیتی ھے جن کا بیان دوسرے کسی فنِ لطیف کے ذریعے ناممکن ھوتا ھے۔
تاریخ پر نظر ڈالیں تو آمریت طبع حکمران فنون لطیفہ کا گلا سب سے پہلے گھونٹتے ھیں، کیونکہ عوام کے جسموں کے ساتھ اُنکی رُوحوں کو بھی پابند کرنے کا یہ طریق نہایت کامیاب رھا ھے۔کبھی کوئی جلّاد ، شاعر نہیں ھُوا، کبھی کوئی قصائی ، شاعر نہیں ھُوا، ، جلاد گلوکار ھو سکتا ھے، اداکاری بھی کرسکتا ھے، شاعری نہیں، کونسی ایسی بات ھے کہ شاعری ایسے کریہہ پیشے یا طبیعت سے متعلق شخص کو چُھو بھی نہیں سکتی؟
اس کا جواب شاعری کی لطیف اور خوابناک فضا کے اندر تلاش کرنا پڑے گا۔لیکن جب شاعری اپنا ٹھکانہ لطیف فضا میں تلاش نہیں کر سکتی تو موجود کے مرثئے، قصیدے، نوحے وغیرہ میں ظہور پزیر ھونے لگتی ھے۔اردو شاعری کثرت سے کلیشیائی شاعری کی عالمی مثالیں فراھم کرتی ھے ، اس قدر جگالی زدہ شاعری اور نقالی کی فضا میں اپنی شناخت بنانا اس وقت اردو شُعرا کے لئے اھم ترین قدم ھے۔ اب مسئلہ یہ ھے کہ اگر کوئی جدید شاعر موجود ماحول کی حقیقی عکاسی کرتا شعر کہے تو قبولیت کی سند قاری سے اُس کو عطا ھوگی کہ نہیں؟ یہ سوال اس لئے اُٹھانا ضروری ھے کہ قاری کی مجموعی معاشرتی تربیت اگر رجعت کی جانب مائل ھے تو موجود کا جدید شعر ، قاری کو ھیچ لگے گا اور وُہ کلیشے اور جگالی کی جانب ھی راغب رھے گا ، پس اس طرح جدید اسلوب کا تجربہ ناکام ھونے لگے گا جیسے ظفر اقبال کی کوشش ناکام ھوئی۔ لیکن اس دوران اپنی کوشش اور لگن اور محنت سے بعض شُعرا و شاعرات اپنا راستہ خود بنانے کی کوشش میں اپنی پزیرائی بھی قاری سے کروالیتے ھیں، ایسے شعرا کے نام تو میں اپنے مضامین میں گنواتا رھتا ھُوں لیکن شاعرات کے حوالے سے ندرت اور تازہ کاری کی امثال ڈھونڈنا مشکل کام نہیں ھے کیونکہ عمومی شاعرات لکیر کی فقیر اور چوری کے مضامین پر تکیہ کربیٹھتی ھیں، اور سوائے معمولی سطحی رومانی شاعری کے اُن کے پاس کچھ نہیں ھوتا، فریحہ نقوی لاھور کی ایک ایسی خود سَر شاعرہ ھے جو اپنے نازک تن و توش کے اندر سیسہ پلائی دیوار کی بنیاد اُٹھا چُکی ھے۔ اُسکی شاعری اپنے اردگرد کے شور سے ذرا ھٹ کر، حیرانی ، پریشانی ، ذاتی تجربات و اجتماعی معاملات کا آئینہ ھے۔ مَیں کٹ پیسٹ قسم کے فلیپ اور دیباچے لکھنے والو ں کی طرح اسکی سطحی شاعری کی مثالیں پیش کر کے مطمئن نہیں ھو جانا چاھتا، یا صرف بغاوتی اندازِ شعری کی تعریف کر کے کاغز سیاہ کرنے کے حق میں نہیں ھُوں، مجھے فریحہ کی شاعری کے اُن زاویوں پر بات کرنا ھے جو مجھے اسکی تعریف پر اُکساتے ھیں اور مجھے مطمئن کرتے ھیں کہ ھاں ایک اچھی شاعرہ ظہور میں آ رھی ھے ، جو اپنی نسوانیت کے کم سے کم اظہار کے ذریعے شاعرہ کا مقام پائے گی ، اپنے ادبی تعلقات اور فطری جسمانی خود نمائی کا فائدہ اُٹھانا جسے خود بھی ناپسند ھوگا۔
جیسے احمد کامران کے ایک شعر نے ارتکازِ فکری کو کھینچ لیا تھا کہ
ھجر کا پیڑ تو سینے میں لگایا تھا مگر
شاخ ھجراں میری آنکھوں سے نکل آئی ھے
جیسے ثنا اللہ ظہیر نے فکری مہمیز سے رخش فکر کو سرپٹ دوڑا دیا تھا کہ۔۔۔۔۔
میں دے رہا ھُوں تمہیں خود سے اختلاف کا حق
یہ اختلاف کا حق ہے، مخالفت کا نہیں
جیسے رشید ندیم نے کہا تھا کہ
وُہ اپنا قصّہِ جُود و سخا سُنانے میں
بڑھا ھُوا مرا دستِ سوال بھول گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالکل اِسی طرح فریحہ نقوی کہتی ھے
سُنا ہے اب ھمارے پیش رَو بھی
ھماری.. پیروی کرنے لگے ھیں
یہ خیال ، یہ منصب اور یہ مقام، اور اس کا ادراک بڑے طنطنے کی سوچ کا حامل ھے، یہ خودی کے مقام سے بھی آگے کا علاقہ ھے، لیکن اس ادراک کے باوجود ، شعر میں ،سُنا ھے، کا ۔۔۔ شامل کیا جانا اتنا باریک نقطہ ھے کہ اگر اِسے نظر انداز کردیں، تو عام قاری کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن شعر کے حقیقی پارکھ جو انگلیوں پر گِنے جا سکتے ھیں انکی نظر میں، اگر اس شعر میں، ۔۔۔سُنا ھے۔۔ کے الفاظ نہ ھوتے تو یہ خبریہ دعوی اور تعلیِ محض پر مبنی شعر بن جاتا ھے ، لیکن اپنی قدرتی موزونیت یا بھر پور قدرتِ اظہار کے باوصف، فریحہ نقوی نے شعر کو دعوے اور تعلّی سے نکال باھر کیا ھے ، مگر فکر کی رنگا رنگ رعونت قاری کو پیش کرنے میں کامیاب و کامران ھوئی ھے۔۔
سارا شگفتہ اپنے نفسیاتی ،، عائلی اور مالی مسائل کے تناظر میں جس تلخی سے بیان کو زھریلا اور ترش و تیز کرتی تھی ، فریحہ کے ھاں محسوسات کی سطح پر وہ اسلوب موجود ھے لیکن مایوسی سے پہلے ایک آخری کوشش کا آئینہ ھے وُہ کہتی ھے
اِس سے پہلے کہ مَیں اذیّت میں
اپنی آنکھوں کو نوچ لوں ، آ جا
فریحہ کو انسانی فطری جذبوں کے بیان پر حیرت انگیز قدرت حاصل ھو چکی ھے۔
دن کے اُجلے رنگ نہ تم کو بھاتے تھے
دیکھو میں نے شام کا آنچل اوڑھا ھے
اے مرے خواب میں آنے والے
تجھ سے.. جلتے ہیں زمانے والے
مرے ھجر کے فیصلے سے ڈرو تم
میں خود میں عجب حوصلہ دیکھتی ھوں
اوپر کے اشعار میں صاف ظاھر ھے کہ فریحہ نقوی نے شعریت کے اظہار کے لئے تاثیر کا پہلو چُنا ھے اور عمومی طور پر ثقیل بیان و اظہار سے اجتناب کیا ھے۔ تاکہ اپنے قارئین کا دائرہ وسیع کر سکے۔
بعض شُعرا ثقالت کی وجہ سے اپنے قارئین کا دائرہ بہت محدود رکھتے ھیں، اگرچہ انکی شاعری بڑی بلند و بالا ھوتی ھے۔ جیسے امداد آکاش نامی بزرگ شاعر، نہایت اعلی سطح کی شاعری کرتے ھیں، لیکن اردو قاری ، معاشرے کی رجعت اور مذھبی تعصب کی وجہ سے ایسے بیش بہا قلمی جواھر کو پہچاننے سے عاری ھے۔
فریحہ نقوی کہتی ھے۔۔
اندر ایسا حبس تھا، مَیں نے کھول دیا دروازہ
جس نے دل سے جانا ھے وہ خاموشی سے جائے
اس شعر کی فضا نے مجھ پر ایک ھیبت ناک کیفیت طاری کردی ، یہ الگ بات ھے کہ شعر کی پسندیدگی ایک ذوقی بات ھے لیکن شعر کو جذب کرنے کی صلاحیت بہت ھی کم لوگوں کو عطا ھوتی ھے، شعر کی کیفیت کو پورا جان لیں تو شاعر کا حق بھی ادا ھوجاتا ھے، شعر کو اندر کے فکری دروازے کھولنے ھوتے ھیں، باھر سے کھٹکھٹا کر چلے جانیوالا شعر ھمیشہ پسند نہیں آتا، اب مندرجہ بالا شعر کی فضا ایسی فضا ھے کہ سات آٹھ مجموعوں کے مالک بہت سے شُعرا کے پاس ایک بھی ایسا شعر نہیں ھوتا جس میں قاری شعر کی فضا میں ایسے اُترنے میں کامیاب ھو کہ اندر اندر فکر کی نئی جہتیں کُھلتی چلی جائیں اگر اور جہتیں نہ کُھلیں تو شعر کی کامیابی یہ ھے کہ وُہ ایک کیفیت طاری کرنے پر قادر ھو۔۔۔ اس شعر نے اپنے قاری کو ایک ایسی فضا سے روشناس کرنے میں مدد دی ھے کہ منظر ، قاری کے دل پر ایک ضرب لگاتا محسوس ھوتا ھے۔ اتنی گہری یاسیت؟ اور اتنا بھرپور ادراک ؟ اور اتنا بھر پور بیانیہ تسلّط؟۔۔ بےشک واہ ،اور آہ یہاں بےمعنی ھوجاتے ھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح ایک نظم میں وُہ کہتی ھے۔۔۔۔۔۔
مری بیقراری
کسی غیر محسوس سانچے میں
دھیرے سے ڈھلنے لگی ھے،
مہینوں سے دل کے جزیرے پہ
جو برف چھائی تھی آخر
پگھلنے لگی ھے،
کوئی نظم پھر
مجھ میں چلنے لگی ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فریحہ کے بہت سے اشعار عام بول چال میں کہے جانے کے سبب مشہور ھونے میں دیر نہیں لگا رھے، لیکن جس آسانی سے اُس نے سطحی شعریت پیدا کر کے عمومی حوصلہ افزائی کو وصول کیا ھے اُس سے کہیں زیادہ ایسے ھی شعروں کی اندرونی بلاغت قابل توجہ ھے۔
مثلا اس شعر میں۔۔۔۔۔۔ بظاھر یہ ایک سطحی منظر لگتا ھے لیکن دوبارہ غور کریں تو توجہ منظر سے ھٹ کر محسوسات کی سطح پر چلی جاتی ھے، منظر غائب ھو جاتا ھے اور احساس کام شروع کرتا ھے، تب فکری تحریک ھم سے واہ کا تقاضہ کرتی ھے، اصلیت کو پانے کی خوشی اور کیفیت کا غمناک ادراک واہ اور آہ، کا ملغوبہ سا بنا دیتا ھے۔
پہلے درج کردہ شعر پھر پڑھیں۔
اندر ایسا حبس تھا، میں نے کھول دیا دروازہ
جس نے دل سے جانا ہے وہ خاموشی سے جائے
اور اب یہ شعر دیکھیں
چھوڑو۔۔۔ جاو، کون ، کہاں کی شہزادی
شہزادی کے ھاتھ میں چھالے ھوتے ھیں؟
اس کہی ، ان کہی کا بیان تشریح کی ضرورت ھی محسوس نہیں کرتا، ، مخاطب کی سطحی اور جسمانی تعریف کا ایسا شستہ جواب دینا کب آسان ھے، جواب دینے والی ، یوں معلوم ھوتا ھے جیسے کوئی صدیوں کی تجربہ کار دیوی کہیں کنارِ وقت پر بیٹھی ھے ، اور اُس کے پاس ھر تعریفی جملے کا جواب کیفیت میں تیرتا موجود ھے۔
کس کس پھول کی شادابی کو مسخ کرو گے بولو
یہ تو اس کی دین ہے وہ جس کو چاھے مہکائے
یہ عین انسانی فطرت ھے کہ خوشی سے زیادہ دکھ اور رنج دیرپا ھوتا ھے، اسی لئے فریحہ کے ھاں بھی رنج و محرومی کی لہریں عمومی طور پر موجود ھیں، تاھم اس عمومی کیفیت کو اُسکے انفرادی ذوق نے کمال طریق پر محسوس کیا ھے اسی لئے وُہ دعوی کرتی ھے کہ۔۔
ھم اُداسی کے اِس دبستاں کا
آخری مستند حوالہ ھیں
مگر یہ شعر اسکے پہلے بیان کردہ اشعار سے کم درجے کا معلوم ھوتا ھے کیونکہ جب شعریت غالب نہ ھو تو شعر ایک سپاٹ بیانِ تعلی بن جاتا ھے،
یہاں اگر شعر کو سوالیہ بنا کر اپنے مقام کا تعین نہ کرتے ھوئے شعر کہا جاتا تو وُہ شعر بہتر ھوتا،
بالکل ایسا جیسے ایک اور جگہ فریحہ نے یہ کر بھی دکھایا ھے۔۔
تمہیں وہ وقت یاد آتا ھے جب تم؟
لپٹ کر شاخِ گُل سے سو رھے تھے
آپ نے غور کیا ھوگا اس شعر میں شعریت اور خوبصورتی محض اسی سوالیہ کیفیت کی دین ھے جو پہلے بیان کردہ شعر میں عنقا ھے۔۔
ھم نہ کہتے تھے خلق مت کیجے
یہ زمیں پر فساد ڈالے گا ۔۔
اس شعر کی تلمیحی نہج میں قدرت سے ناراضی کا شکوہ موجود ھے۔۔
فریحہ نے نظم و غزل دونوں میں اپنے اسلوب کی تلخی کو برقرار رکھا ھے، اس نظم میں اُس کا زمانوں کا سفر موجود شناسی کا عکاس ھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے کمرے میں پتیوں کی مہک نے
سگرٹ کے رقص کرتے دھوئیں سے مل کر ،
عجیب ماحول کر دیا ہے
اور اس پہ اب یہ گھڑی کی ٹک ٹک نے،
دل اُداسی سے بھر دیا ہے
کسی زمانے میں ہم نے،
ناصر، فراز، محسن، جمال، ثروت کے شعر اپنی چہکتی دیوار پر لکھے تھے
اب اس میں سیلن کیوں آگئی ہے…….. ؟
ہمارا بستر کہ جس میں کوئی شکن نہیں ہے ، اسی پہ کب سے،
(وہ دائیں جانب، میں بائیں جانب…. )
نہ جانے کب سے دراز ہیں ہم …
میں اس سے شاید خفا نہیں ہوں ،
اُسے بھی کوئی گلہ نہیں ہے
مگر ہماری خمیدہ پشتیں جو پچھلی کتنی ہی ساعتوں سے
بس ایک دوجے کو تک رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تھک گئی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل میں فریحہ دن بدن بہتری لانے کی کوشش میں ھے،
پچھلے دنوں کسی ادبی محفل میں اُس نے کسی شاعر کی نظم میں بےوزنی کی جانب اشارہ کیا جو اسکی طبیعت کی سچائی کا مظہر ھے، میں نے پہلے کہا تھا کہ رجعت پسند معاشروں میں نئی راہ بنانا نہایت مشکل کام ھوتا ھے، کیونکہ قدامت پرست ، ھر نئی سوچ پر قدغن لگاتے ھیں، فریحہ کی شاعری میں ایسے ماحول سے بغاوت صاف نمایاں ھے، فنی طور پر وُہ عمومی شاعرات کے مقابلے پر کافی محنت صَرف کرتی ھے یعنی اسکی موزونیت فطری ھی نہیں اسکی محنت کا ثمر بھی ھے۔
اسکی ایک غزل کے چند اشعاردیکھئے۔۔
صاف دِکھتی تھی جلن آنکھوں میں
پھر بھی ہونٹوں پہ فضائل میرے
یہ تہی فکر، کنوئیں کے مینڈک
یہ نہ سمجھیں گے مسائل میرے
چھاؤں دیتے تھے … مگر راہ نہیں
پیڑ تھے راہ میں حائل میرے
آنکھ… اب خواب نہیں دے سکتی
روشنی مانگ لے سائل میرے
جب تلک ہاتھ ترے ہاتھ میں ھے
حوصلے ھوں گے نہ زائل میرے
اس نے پاس آکے فریحؔے بولا
گر گئی ہاتھ سے فائل میرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس غزل میں بعض الفاظ کا برجستہ استعمال توجہ طلب ھے میں چند ایک کے بارے بات کرنا پسند کروں گا۔
آنکھ… اب خواب نہیں دے سکتی
روشنی مانگ لے سائل میرے
اس شعر کے پہلے مصرعے میں لفظ ۔۔۔۔ اب۔۔۔۔پر غور کریں، یہاں ۔۔۔تو ۔۔کیوں نہ لگایا؟
آنکھ تو خواب نہیں دے سکتی
وُہ اس لئے کہ اگر۔۔۔ تو۔۔۔۔لگاتی تو صورتِ حال یہ تھی کہ صرف ایک سائل ھے اور خواب مانگتا ھے
لیکن ۔۔۔فریحہ نے۔۔۔۔کہا کہ۔۔
آنکھ… اب خواب نہیں دے سکتی
یعنی ،،،،یہ سائل پہلے بھی آتا رھا ھے۔۔ پرانا واقف سائل ھے۔ اور آ کر پہلے بھی خواب لیجاتا رھا ھے۔۔۔۔ اس بار وُہ کہتی ھے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ آنکھ اب خواب نہیں دی سکتی۔۔اب روشنی لیجا !۔۔۔۔
یہ اُستادی فریحہ کے ھاں دیکھنا مجھے بہت اچھا لگا ھے، اور مجھے پورا یقین ھے کہ ایسی جا بجا نظر آنے والی اُستادانہ مہارت ، فریحہ کی ارادی کوششیں ھیں،، مَیں یہ اس لئے کہہ رھا ھُوں کہ وفورِ شاعری میں کہیں کہیں کسی سے بھی ایسی شعریت سرزد ھو سکتی ھے جو بےپناہ گہرائی رکھتی ھو لیکن ارادی نہ ھو۔
فریھہ نقوی کے اس بہت اچھے شعر سے ظفر اقبال کا ایک عظیم شعر یاد آ گیا۔۔۔۔۔
چھاؤں دیتے تھے … مگر راہ نہیں
پیڑ تھے راہ میں حائل میرے
(فریحہ نقوی)
ظفر اقبال کہتے ھیں
مری تائید میں اُٹھی آواز
مری آواز کے دبانے کو
(ظفراقبال)
ظفر اقبال کا موضوع اتنا نرالا ھے کہ اسکی کوئی مثال اردو شاعری میں پہلے سے موجود نہیں ھے
فریحہ کا شعر بھی اسی طرح اپنے ھی ھمدردوں کے ھاتھوں اپنی راہ کو مسدود دیکھتا ھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل یہاں تک پڑھ کر آپ سوچ رھے ھونگے کہ اوپر درج کردہ غزل کا مطلع کیوں درج نہیں کیا۔۔۔اسکی وجہ بھی ابھی بتاتا ھُوں اور یہ بات ذوقی بھی ھوسکتی ھے۔۔ پہلے میں وضاحت کردُوں کہ ذوقی تنقید اور فنی تنقید میں بہت فرق ھوتا ھے۔ ذوقی تنقید آفاقی نہیں ھوتی ، انفرادی ھوتی ھے اجتماعی بھی نہیں ھوتی، مثلآ کسی کو لفظ بلبل پسند نہیں، اور عندلیب اُسے پسند ھے۔۔ تو جس شعر میں بلبل کا لفظ ھوگا وُہ قاری کو پسند نہ آئے گا۔
فریحہ کا شعر ھے؛۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روند پائے نہ دلائل میرے
میرے دشمن بھی تھے قائل میرے
۔۔۔۔۔۔۔
جب کہ میرے نزدیک اس مطلع پر فریحہ کو محنت کرنے کی ضرورت تھی، لیکن اُس وقت شاید مزاج میں تلخی کا دخول زیادہ تھا، اسی لئے اپنی شاعری کو کافی عرصے بعد دیکھنا بڑا اچھا طریق ھے جب تخلیق کار ، اپنی تازہ تخلیق کے خمار سے نکلے تو وُہ اپنے گزشتہ لکھے پر نظر ثانی کرنے کے قابل ھوتا ھے۔۔خیر اس مطلع میں میرے نزدیک دعوے کا انداز بیانیہ ھے اور شعریت کی کمی کا شکار ھے۔ میں بار بار کہہ چکا ھُوں کہ شعر میں شعریت نہیں تو وُہ شعر نہیں ھے وزن پورا کی ھوئی دو سطریں ھیں اور بس ۔۔۔۔۔ اور افسوس کی بات یہ ھے کہ اردو ادب میں کثرت سے ایسی شاعری جاری و ساری ھے جو صرف وزن پورا کرنے پر مشتمل ھوتی ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روند پائے نہ دلائل میرے
میرے دشمن بھی تھے قائل میرے
اگر دوسرے مصرع کی تعلّی کو سوالیہ یا استفھامیہ کردیا جائے کیا صورت بنے گی آئیے دیکھتے ھیں
روند پائے نہ دلائل میرے
یہ مخالف ھیں کہ قائل میرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ غور کریں شعر کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ھے۔۔۔دوسرے مصرع کی ڈرامائی کیفیت نے مطلع بہتر کردیا ھے۔؟ یا نہیں؟
۔
عام طور پر یہ ھوتا ھے کہ جب کسی کی شاعری پر تعارفی مضمون لکھا جاتا ھے تو شاعر یا شاعرہ کو خوش کرنے کے لئے قصیدہ نما تعاریف سے مضمون کو مزیّن کر دیا جاتا ھے
لیکن میرے نزدیک ایسا کرنا تخلیق کار کو گُمراہ کرنا ھےاور یہ بات فریحہ کو خود بھی پسند ھے تبھی اُس نے حلقے میں پیش کردہ علی اکبر ناطق کی نظم میں عروضی بحران کا سوال اُٹھایا تھا جس کی جرات دوسرے بزرجمہر نہ کر سکے۔ اس واقعے کا بیان اس لئے ضروری تھا کہ اس سے فریحہ نقوی کے طرزِ اظہار کے بارے میں ھمیں معلومات میسر ھوں،
وُہ شعر پر فکری محنت تو کرتی ھے ساتھ میں فنّی محنت بھی کرتی ھے، اور اسکی قدرتی موزونیت کسی بےوزن نظم یا شعر کو پکڑنے پر قادر ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو ترے سامنے بھی خالی رہا
ہم تری دید کا وہ کاسہ ھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کے دن یہ سوگوار آنکھیں
بد شگونی کا استعارہ ھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سمندر کبھی نہیں تھی مگر
میرے پیروں میں سارے دریا ھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم تحفے میں گھڑیاں تو دے دیتے ہیں
اک دوجے کو… وقت نہیں دے پاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھڑیوں کا نیا استعمال جدیدیت کی جانب ایک قابل قدر قدم ھے۔۔
فریحہ نقوی ۔۔۔انگلیوں پر گنے جانے والے شُعرا و شاعرات میں سے ھے جو نئی نسل کی نمائیدنگی جدید شعور کی روشنی میں کرتی ھے، نسوانیت کو معدومیت کے ساتھ کہنا اثر کھودیتا ھے۔۔۔اس کے مخالف نسوانیت کو دھڑلے سے اور عزم کی امید کے ساتھ برتنا فریحہ نقوی کا عام شعری چلن ھے۔
سب سے بڑی بات یہ ھے کہ وہ ایک پر عزم شاعرہ ھے۔۔۔ جس کی نظر کی بلوغت اسکی عمر سے کوسوں آگے ھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لمبی بحر میں بھی اُس نے رواں دواں اشعار کہے ھیں جو خوشگوار حیرانی کا باعث ھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِسے بھی چھوڑوں اُسے بھی چھوڑوں تمہیں تو سب سے ھی مسئلہ ھے
مری سمجھ سے تو بالاتر ھے یہ پیار ھے یا معاھدہ ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”جو تو نہیں تھی تو اور بھی تھے جو تو نہ ہوگی تو اور ہوں گے”
کسی کے دل کو جلا کے کہتے ھو میری جاں یہ محاورہ ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اھم بات یہ ھے کہ فریحہ ، ھندی بحروں میں بھی اچھا لکھ رھی ھے ۔ جن کے لئے فطری موزونیت نہ ھو وُہ لاکھ کوشش کر کے بھی ان بحروں مین روانی سے کلام نہیں لکھ سکتے، جیسے اچھے خاصے شاعر افضال نوید سے ھُوا کہ بےوزن شاعری ھندی بحروں میں کر ڈالی،، جو بہت حیران کُن بات ھے کہ چالیس سال سے شاعری کرتے ھوئے شاعر کو ھندی بحروں کی موزونیت نہیں عطا ھُوئی، لیکن ادھر فریحہ نقوی اپنی ابتدا میں ھی خاصی پایاب جا رھی ھے
لوٹ آنے کی ویسے کوئی شرط نہ تھی
پھر بھی وقت پہ آجانے والوں کی خیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈھیروں محبت کرنے والوں کے صدقے
مٹھی بھر نفرت کرنے والوں کی خیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر و شر سے ہٹ کر بھی اک دنیا ہے
اُس دنیا کے کھیتوں کھلیانوں کی خیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اِن سے ہٹ کر راہ نکالی ہے
رستہ روکنے والی دیواروں کی خیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخری شعر میں دیواروں کی خیر کی معنی آفرینی۔۔۔۔کمال لُطف دے رھی ھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایک اور شعر بھی اس غزل مین موجود ھے جو جدید زمانے کا شعر ھے لیکن بےحد رواں ھے۔۔
کسی بہانے اُس کا فون تو آیا ھے
شہر میں اُڑنے والی افواہوں کی خیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شعر میں بھی ۔۔۔افواھوں کی خیر۔۔۔کی معنی خیزی کا لطف ایہام میں پوشیدہ ھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر میں نے بار بار روانی کا ذکر کیا شعر کی روانی سے مُراد، اس کا فطری بہاو ھے۔۔۔ جب بھی شعر عام بول چال کے نزدیک کہا جاتا ھے وُہ قبولیتِ عام کی سند پاتا ھے۔اور ھندی بحروں میں تو یہ اور بھی ضروری ھوتا ھے، اسکی وجہ یہ ھے کہ ھندی بحریں ، سنسکرت کے الفاظ کو کھپانے کے لئے بنی تھیں،
میر تقی میر نے نہایت شاندار روانی سے انہیں برتا ھے۔
پتہ پتہ بُوٹا بوٹا حال ھمارا جانے ھے
جانے نہ جانے گل ھی نہ جانے باغ تو سارا جانے ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جب ھم افضال نوید کا شعر دیکھیں تو جھٹکے لگنے سے دماغ ماوف ھو جاتا ھے
ٹُکڑے ٹُکڑے طاقچوں پر رکھنے نے جِگر کے حِدّت کی
اِتنا ہجُومِ تنہائی تھا آپ ھی مِحفِل ہو گئے ھم
(افضال نوید)
اب مندرجہ بالا شعر اصل میں اُسی بحر میں ھے جس میں میر تقی میر نے لکھا ھے یعنی
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فاع (فع)
اب اسی بحر میں سے ایک رکن منہا کر کے فریحہ کے اشعار دیکھیں
بیتے خواب کی عادی آنکھیں ، کون انہیں سمجھائے
ھر آھٹ پر دل یُوں دھڑکے جیسے کہ تُم آئے
ضد میں آ کر چھوڑ رھی ھے اُن بانہوں کے چھاوں
جل جائے گی موم کی گُڑیا ، دنیا دُھوپ سرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فریحہ کے ھاں چونکانے والے شعر بھی ھیں، جس میں بغاوت اور مزاحمت کی شدید اُپچ موجود ھے۔ لیکن اس کے باجود اسکی شاعری میں لطافت زیادہ ھے، بعض نیم شاعرات کے ھاں چونکانے کے لئے لطیف حسیات کی بجائے ثقیل مباحات کا استعمال ایک فیشنی روایت بننے لگا ھے۔شہوت کا پانی ، حیض میں باھمی تناو جیسے احمقانہ موضوعات کا شاعری پر دھبہ لگانے والی خواتین بھی سوشل میڈیا سے فائدہ اُٹھا رھی ھیں۔لیکن یہ بات تو طے ھے کہ شاعری حسِ لطیف ھے، حسِ ثقیل نہیں ھے، فنون لطیفہ کا حصہ ھے فنونِ ثقیلہ کا حصہ نہیں ھے کل کلان کو بول و براز پر مبنی شاعری کو زندگی کی حقیقت سے جوڑ کر شاعری کا نام دیا جائے گا جو بہت افسوس کی بات ھے ، اصل میں جس میں ھُنر نہ ھو اور مطالعہ کم ھو وُہ ھمیشہ ایسے سستے ھتھکنڈے استعمال کرتا ھے، فریحۃ کو مشہوری کی ایسی کوئی خاص طلب نہیں ھے، اور وُہ اپنی حدود سے خوب واقف ھے اس لئے حسِ لطیف کا اظہار ھی اسکی خوبصورتی ھے۔
اسکی ایک نظم کا کچھ حصہ اسکے گُن کھولتا ھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد ہے
میں نے تم سے کہا تھا مرا ہر سخن تم سے ہے….
دیکھ لو !!
چھ مہینوں سے اب تک…
کسی نظم کی کوئی ہلکی سی آہٹ بھی دل کے دریچے پہ دستک نہیں دے سکی ہے ….
مگر اب میں اس سے زیادہ دعاؤں میں تم کو نہیں مانگ سکتی…
خدا اتنا فارغ نہیں ہے
کہ سب چھوڑ کر صرف ہم کو ملانے کی خاطر
زمانے میں ” کُن ” کی صدائیں لگاتا پھرے….
اس کی دنیا میں ہم ہی نہیں اور بھی لوگ ہیں …..
( ہاں وہ دنیا…. جو ہم نے بنائی تھی اس میں فقط "ہم” ہی تھے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور نظم ، موجود کا زھر خند ادراک رکھتی ھے
:: آئینے سے جھانکتی نظم ::
میرے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے
پیارے بابا ! میں کچھ بال توڑوں ؟
کہ ہم ان کو بیچیں گے۔
پھر جو روپے ہونگے،
ان سے
جہیز اور شادی کی تیاریاں ہو سکیں گی۔
میں یُوں آپ کا روز بُجھتا ہوا ،
اور مُرجھایا چہرہ نہیں دیکھ پاتی۔
سُنیں! میرے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے
………………………………….
فریحہ نقوی نے بہت کم لکھا ھے مگر اب تک اسکے لکھے میں غالب تعداد اچھی شاعری کی ھے جو بہت خوش کُن خبر ھے
ورنہ جون ایلیا جیسے اھم شاعر کا کوئی ۸۰ فیصد کلام نہایت سطحی اور سفلی ھے۔ مجھے جا بجا مختلف شُعرا کے حوالے سینے کی ضرورت اس لئے محسوس ھوتی ھے کہ جب ھم کسی کی شاعری پر گفتگو کریں تو لازمی طور پر قریبی عہد کی باقی شاعری کو بھی دھیان میں رکھیں ، کیونکہ کسی بھی انفرادی تعارف کے لئے ایک مجموعی حوالہ بھی درکار ھوتا ھے، اپنے گزشتہ اور موجودہ عہد پر شعری نظر رکھنا بہت ضروری ھے، کیونکہ شعر کہنا ایک آرٹ ھے اور اِس آرٹ میں بہتر سے بہتر ھونا ھر تخلیق کار کا خواب ھوتا ھے۔
فریحہ کے بعض متفرق اشعار اسکے لہجے کا تعین کرنے میں مدد دیتے ھیں، آئیے دیکھتے ھیں
خالق بھی ہوں رازق بھی ہوں عورت ہوں میں لوگو!
افسوس ککہ تم نے مرا رتبہ نہیں سمجھا
تری روح کانپ جاتی تو خدائی چھوڑ دیتا
ترا دل بھی خون روتا جو تو "لم یلد نہ” ہوتا
جن آنکھوں میں دیپ جلے تھے ان آنکھوں میں پانی ہے
اک لمحے کے خواب کی قیمت ساری عمر چکانی ہے
زمانے اب ترے مد مقابل
کوئی کمزور سی عورت نہیں ہے
تمہارے رنگ پھیکے پڑگئے نا
مری آنکھوں کی ویرانی کے آگے
دل میں جب کوئی جا نہیں بچتی
درد آنکھوں میں پھیل جاتا ہے
تمہارے پاس تو سب کچھ ھے یعنی ھم بھی ھیں
ہمارے پاس ۔۔۔۔۔۔۔ فقط رنج رائگانی ہے
بھلا میں زخم کھول کر دکھاؤں کیوں
اداس ہوں تو ہوں تمہیں بتاؤں کیوں؟
تمہیں پتہ ہے مرے ہاتھ کی لکیروں میں
تمہارے نام کے سارے حروف بنتے ہیں
آئینہ دکھلاؤ تو کردار کشی پر تل جائیں
کچھ لوگوں کے پاس یہی اک آخری حربہ ہوتا ہے
شہزادے ہو ؟ اچھا۔۔۔ تو پھر اپنے ہاتھ دکھاؤ نا
شہزادے کی انگوٹھی میں سبز نگینہ ہوتا ہے
بھاڑ میں جائے گر اچھا انسان نہیں
اچھا شاعر ہے تو اپنے گھر ہوگا
ایسا ہے اب کی بار ترے لوٹنے پہ ہم
کہہ کہہ کے دل کو ہار گئے ،ارتعاش کر
دیکھ لے تیرے چاہنے والے
میری ہمت کی داد دیتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شعر کو تو مکرر پڑھننے کا لطف آئے گا۔ ایک ھائے نکلتی ھے۔۔۔
تمہارے پاس تو سب کچھ ھے یعنی ھم بھی ھیں
ہمارے پاس ۔۔۔۔۔۔۔ فقط رنج رائگانی ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عصری شعور کا پایا جانا ، شاعری کی ایک نہایت اھم خصوصیت ھے، فریھہ نقوی کے ھاں عصری شعور الفاظ اور اصطلاحات ھی کے ذریعے نہین بلکہ فکر کے رستے بھی وارد ھُوا ھے۔۔۔مثلاً وُہ کہتی ھے۔۔۔۔
میرے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے
پیارے بابا ! میں کچھ بال توڑوں ؟
کہ ہم ان کو بیچیں گے۔
پھر جو روپے ہونگے،
ان سے
جہیز اور شادی کی تیاریاں ہو سکیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عصری شعور کی یہ مثال ھمارے معاشرے کی ایک نہایت دکھتی رگ ھے ابھی پچھلے دنوں لاھور کے ایک تھیٹر کے اداکار نے سخت پریشانی کا اظہار کیا کہ انکی بیٹیوں کی شادی کے لئے انکے پاس پیسے نہیں ھیں، مجھے حیرانی ھوئی میں سمجھتا تھا اب تھیٹر کے اداکارون کے دن پَھر چُکے ھیں لیکن معلوم ھُوا مَیں غلطی پر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پس فریحہ کی شاعری میں ایسے موضوعات کا آنا بہت ممکنہ تھا ۔ وہ ایک شعر میں کہتی ھے
بھاڑ میں جائے گر اچھا انسان نہیں
اچھا شاعر ھے تو اپنے گھر ھوگا
یعنی حُسنِ خلق اس کے نزدیک اولیت رکھتا ھے، اور اُسے خوب ادراک ھے کہ کہاں تنسیخ کی لکیر کھینچنی ھے، مَیں پہلے تمھید باندھ چُکا ھُوں کہ رجعت پسند معاشروں میں کثرت سے ادیب اور شُعرا رجعت کے تابع ایسا ادب تخلیق کرتے ھیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ھوتا، ، سُنی سُنائی، کہانیاں اخلاقی کے اعلی نمونے بن جاتے ھیں، لیکن عملی طور پر اخلاق تو کیا انسانیت سے بھی محرومی صاف نظر آتی ھے اسی جانب اشارہ کرتے ھوئے فریحہ کا لہجہ تلخ ترین ھو جاتا ھے۔
ہر طرف دندناتے ہوئے بهیڑیئے
ہر جگہ دُم ہلاتے ہوئے بهیڑیئے
وقت آئے تو اپنی بہن تک کو بهی
کاٹ کهانے کو آتے ہوئے بهیڑیئے
دهاڑتی، شعر کہتی ہوئی شیرنی
رال اپنی گراتے ہوئے بهیڑیئے
آیئے! دیکهیئے! میرے ان باکس میں
اصلی چہرے دکهاتے ہوئے بهیڑیئے
میں اگر نام لوں تو کہاں جائیں گے
شرم سے منہ چهپاتے ہوئے بهیڑیئے
………………………
یہ غزل اس نے اپنے ارد گرد کے اُس منافق ماحول کے خلاف کہی ھے جس میں ایمان، مذھب اور رسوم کے مذموم
ملغوبے کی آڑ میں سفلی دھندے انجام پاتے ھیں
ایسے لوگوں سے وُہ کہتی ھے کہ
کل مجھے شاعروں کے جھرمٹ میں
چند شیطان بھی نظر آئے
آپ کو منہ نہیں لگایا تو
آپ بُہتان پر اُتر آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کوئی عام طرزِ اظہار نہیں ھے ایسی شاعری کے لئے جس حوصلے کی ضرورت ھے وُہ ھمارے ادب میں مرد شُعرا کو بھی حاصل نہیں ھے، کیونکہ ایسی شاعری کی وجہ سے منافقت کے ماحول میں رھنے والوں کو بہت تکلیف پہنچتی ھے، اور شاعر اپنے قارئین کی تعداد کھو دیتا ھے۔ اس معاملے کو مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ھے، لیکن فریحہ کی بہادری اور پھر قادر الکلامی کی داد دینی ھوگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی نازک تھی گھر کے پرندوں سے بھی خوف کھاتی تھی میں یہ کہاں کن درندوں کے جنگل میں پھینکا ھے تنہا مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فریحہ کو میرا مشورہ ھے کہ وُہ چومکھی لڑتے ھوئے اپنے شعری سفر پر بےدھڑک گامزن رھے، اور حاسدین کی تنبیہوں اور مفاد پرستوں کی خوشامدی تعریفوں سے ھمیشہ احتراز برتے، کیونکہ ان میں سے کثرت سے ایسے ھی ھونگے جو۔۔۔۔
آپ کو منہ نہیں لگایا تو
آپ بُہتان پر اُتر آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا
کینیڈا ۔ ۳۱ مارچ ۲۰۱۷