عرفان ستار سے میرا تعارف اُنکے پہلے مجموعہ کلام تکرار ساعت کے ذریعہ ھُوا۔ تکرارِ ساعت اگرچہ میرے ذوق کو حیرت میں ڈالنے والی کتاب نہ تھی مگر اس میں پٹی ھوئی مُبتدیانہ شاعری سے پرے سفر کرتے شاعر کا عکس نمایاں تھا۔ اسی مجموعے میں ایک غزل اِس شاعر کے شعری سفر میں نئے راستے کھولنے کی علامت کے طور پر مُجھے یاد رھی۔۔۔۔۔
یہاں تکرار ِ ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے؟
مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے؟
تمہیں فرصت ہو دنیا سے تو ہم سے آ کے ملنا
ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے؟
ہمارے درمیاں ساری ہی باتیں ہو چکی ہیں
سو اب اُن کی وضاحت کے سوا کیا رہ گیا ہے؟
عرفان ستار چونکہ کراچی میں رھے تو کراچی کے نمائیندہ شُعرا کی ھم عصری نے ضرور اُن کی شاعری کا مزاج متعین کرنے میں حصہ لیا ھے۔۔۔جون ایلیا کی صحبتوں کے باوجود انہوں نے تکرارِ ساعت اور اُس کے بعد کے شعری سفر میں جون ایلیا کا سایہ بہت کم اپنے اسلوب پر پڑنے دیا ھے۔۔۔اگر ایک فقرے میں انکی شاعری کا مزاج بیان کرنا ھو تو وُہ زبان کے شاعر ھیں اور الفاظ کی نشست و برخاست سے شعر کہتے ھیں۔پچھلے پانچ برسوں میں انکی شاعری اب اپنا ایک خاص رنگ اوڑھنے کی کوشش میں قدرے کامیاب ھوگئی ھے۔۔۔
تعلق کو نبھانے کے بہت دکھ سہہ چکے ہم
سو باقی عمر اپنے ساتھ رہنا چاہتے ہیں
اس شعر میں الفاظ کی نشست و برخاست، اور دوسرے مصرعے کی عام بول کی طرح کی روانی قابلِ ذکر ھے۔۔۔مضمون آفرینی انکے ھاں بلند بانگ نہیں ھے۔۔۔یعنی لکھنوی تہذیب جیسے رچاو کے ساتھ شعر کہتے ھیں۔
مجھے کیا خبر تھی تری جبیں کی وہ روشنی مرے دم سے تھی
میں عجیب سادہ مزاج تھا، ترے اعتبار میں بجھ گیا
جنھیں روشنی کا لحاظ تھا، جنھیں اپنے خواب پہ ناز تھا
میں انہی کی صف میں جلا کیا، میں اُسی قطار میں بجھ گیا
قطع نظر اس مشقتِ سخن کے جو لمبی بحر میں انکی مہارت کی پہچان ھے، مضمون کی نُدرت دھماکہ خیزی کی بجائے آھستہ سے خنجر کی طرح فکر میں داخل ھوتی ھے۔۔اور یہی وُہ اسلوب ھے جسے میں نے پہلے ایک ھی جُملے میں بیان کرتے ھوئے کہا تھا کہ وُہ زبان کے شاعر ھیں اور الفاظ کی نشست و برخاست سے شعر کہتے ھیں۔
زیر نظر اشعار انکی بصیرت و بصارت کا بیان ھے۔۔۔۔۔
یہ کیا کہ ھم رکاب رھے خاک ِ رھگزر
کس کام کا جنوں جو قدم دشت بھر نہ ہو
بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے
آوارگان ِ شہر کہاں جا کے مر گئے
سکون ِ خانہٗ ِ دل کے لیے کچھ گفتگو کر
عجب ہنگامہ برپا ہے تری لب بستگی سے
تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ؟
میں اب اُکتا چکا ہوں تیری اِس وارفتگی سے
اس آخری شعر کی نُدرت دل چھو لینے والی ھے۔۔
عرفان ستار کا خیال ھے کہ شاعری ، خواص کی چیز ھے عوام کی نہیں۔۔۔اِسی لئے عرفان ستار کی شاعری میں خواص کے لہجے کی کھنک نمایاں ھے۔۔۔۔ انکے اس خیال سے مَیں بوجوہ اتفاق نہیں کرتا اور ھم دونوں ببانگِ دُھل ایک دودرے سے اختلاف رائے کا اظہار کرتے ھیں
سوشل میڈیا جو کہ ادب کی ترویج کا تیز ترین اور وسیع ترین ذریعہ ھے اُس سے عرفان ستار کو بھی مُستفید ھونے کا موقع مِلا، وُہ کبھی رنجیدہ و مایوس ھوکر مُجھے کہتے ھیں کہ دیکھو شُعر میں ارادی تجربے کو لوگ غلطی کہنے کی عادت ڈال بیٹھے ھیں۔مگر عرفان ستار یہ بات اُن لوگوں سے خود نہیں کہتے۔۔یہ رویہ عرفان ستار کی صلح جُو طبیعت کے ساتھ ساتھ انکی شاعری کا اسلوب بھی بناتا ھے۔۔۔
اُداس بس عادتاً ہوں، کچھ بھی ہُوا نہیں ہے
یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے
ذرا یہ دل کی امید دیکھو، یقین دیکھو
میں ایسے معصوم سے یہ کہہ دوں خدا نہیں ہے؟
میں اپنی مٹی سے اپنے لوگوں سے کٹ گیا ہوں
یقیناً اس سے بڑا کوئی سانحہ نہیں ہے
تو کیا کبھی مل سکیں گے یا بات ہو سکے گی؟
نہیں نہیں جاوٗ تم کوئی مسئلہ نہیں ہے
میں بغض، نفرت، حسد، محبت کے ساتھ رکھوں؟
نہیں میاں میرے دل میں اتنی جگہ نہیں ہے
مَیں نے جب بغور عرفان ستار کی شاعری کا مطالعہ کیا تو دیکھا کہ ان اسلوبِ شاعری کی دو شاخیں ھیں۔۔
ایک میں اُردو قدما کے زبان و بیان و تراکیب کے سہارے اپنے خیالات کی عکاسی ھے۔۔۔۔تو دُوسرے اسلوب میں جدید حسیت معنوی سطح پر تو نمایاں ھے مگر خارجی طور پر اُنکی شاعری قدامت یا کلاسیک کا پیرھن ھی پہنے رکھتی ھے۔۔۔وُہ بیان کے تجربات پر تو متفق ھیں مگر الفاظ کی شکست وریخت سے دامن بچائے جاتے ھیں۔۔
فکری سطح پر وُہ جو انتشار پیدا کرتے ھیں وُہ نہایت دھیما ھے۔۔۔کسی کسی جگہ انکا لہجہ اپنی عام روش سے پرے ذرا زور دار ھُوا ھے مگر تخاطب کی حد تک۔۔۔۔۔۔جیسے
اب اس پہلے شعر میں شاعر کا لہجہ درشتگی سے پُر ھے۔۔
تیرے لہجے میں تیرا جِہلِ درُوں بولتا ھے
بات کرنا نہیں آتی ھے تو کیوں بولتا ھے
مگر دُوسرے شعر میں وُہ واپس اپنے ادب آداب میں لوٹ آتے ھوئے اعتراض تو جاری رکھتا ھے مگر آھنگ دھیما کر لیتا ھے۔۔
تیرا اندازِ تخاطب ، ترا لہجہ ، ترے لفظ
وُہ جسے خوفِ خدا ھوتا ھے یُوں بولتا ھے
عرفان ستار نے بعض اشعار منظر کشی سے عبارت کئے ھیں اس کا یہ شعر مُجھے بہت بھلا لگتا ھے۔۔۔۔
وُہ اک روزن قفس کا جس میں کرنیں ناچتی تھیں
مری نظریں اُسی پر تھیں، رِھا ھوتے ھوئے بھی
گویا ساری زندگی کا مرکز ایک روزنِ قفس تھا۔۔۔۔۔۔۔یہ خیال کی گہرائی کا کمال ھے۔۔۔جو ھر کسی کو نصیب نہیں ھوتا۔۔۔۔
عرفان ستار ایک قادر الکلام شاعر ھیں انہو ں نے مختصر ترین بغروں کے علاوہ طویل ترین بحروں مین بہت رواں اشعار کہے ھین جن میں حیرت انگیز طور پر بعض اوقات انکے عام بحروں والے اشعار سے زیادہ روانی ھے۔۔۔۔شاید اسکی وجہ اُنکی ارادی محنت ھو۔۔۔
سوشل میڈیا کی آسانیوں نے جہاں شُعرا کے آُس کے رابطوں میں آسانیاں پیدا کی ھیں وھاں بےشمار خرابیاں بھی در آئی ھیں۔۔
یہ فیصلہ کرنا مشکل ھوگیا ھے کہ کونسے شاعر کی کونسی روش ھے کونسا اسلوب ھے۔۔۔۔۔؟ مِلے جُلے الفاظ۔۔۔و مضامین ، ملی جُلی ترکیبات اور درآمدہ و مُستعار تراکیب و استعارے شُعرائے اردو نے بے دریغ لُوٹ کھسوٹ کے ذریعے بٹورنا شروع کئے ھیں۔ عرفان ستار نے کافی حد تک اس سے دامن بچایا ھے۔۔۔مگر ایک غزل نظر سے گزری جس میں عرفان ستار بھی اِسی بہتے دھارے میں بہہ گئے۔۔۔۔
اپنی خبر نہیں، نہ اُسکا پتہ ھے ، یہ عشق ھے
جوتھا، نہیں ھے، اور نہ تھا، ھے یہ عشق ھے
میں ضرور کہوں گا کہ اِس روش سے شاعر کو بچنے کی ضرورت ھے۔۔۔کُوزہ گر۔۔۔۔عشق۔۔۔۔۔دیا۔۔شمع۔۔۔۔۔پروانہ۔۔۔۔۔اس قدر پِٹ گئے ھوئے الفاظ و مضامین ھیں جن کو اچھے شُعرا کو ترک کردینا چاھئیے۔۔۔۔اور اگر کبھی باندھیں تو ان الفاظ کے کوئی نئے معانی مرتب کرتے اسلوب میں باندھیں۔۔۔۔
اب یہ شعر جون ایلیا کے انداز کی یاد دلاتا ھے۔۔۔
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ھو
یعنی پڑھتے ھو شاعری میری؟
چاند حسرت زدہ سا لگتا ھے
کیا وھاں تک ھے روشنی میری؟
اگرچہ یہ دُوسرا شعر نُدرت بھرا مضمون لئے ھے مگر اسلوب میں جون ایلیا کا سایہ آنے سے ذرا کدورت ھوئی۔۔۔۔
اب مَیں ھر بات بھول جاتا ھے
ایسی عادت نہ تھی ، کہ تھی میری؟۔۔
ایلیٹ بھی ایزرا پاونڈ کی طرح استعارہ کو شاعری کا اصل جوہر قرار دیتا ہیں اور اس کے مطابق شاعر کا کام شخصیت کا اظہار نہیں بلکہ فنکاری ہے شاعر کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے مشاہدے میں چاہے خارجی ہو یا داخلی بالکل واضح رہے اور اس کو استعاروں اور تمثیل کے ذریعے واضح کرے اور اس کاخیال ہے کہ اشعار میں استعارے اور تمثیل محض تزئین و آرائش کا کام نہیں کرتے بلکہ شاعر کے وجدان کا مظہر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے عرفان ستار کے کلام میں استعارے کی کمی محسوس ھوئی۔۔۔عرفان ستار زبان کے تموج سے شعریت پیدا کرتے ھیں مگر استعارے یا تمثیل دونوں سے مفارقت برتتے ھیں۔۔
میرا خدا ازل سے ھے سینوں میں جا گزیں
وُہ تو کبھی بھی عرشِ بریں کا نہیں رھا۔۔
اب اس شعر میں استعارے کے استعمال کا بہترین موقع تھامگر شاعر کی طبیعت زبان کی چاشنی میں مستغرق ھے۔۔۔۔۔
نہیں نہیں یہ بھلا کس نے کہہ دیا تُم سے
مَیں ٹھیک ٹھاک ھُوں، ھاں بس ذرا اُداسی ھے
اگر عرفان ستار اسی انداز میں بول چال والے ڈھنگ پر اشعار کہتے رھیں تو بڑے لُطف کی بات ھے۔۔۔مگر وُہ بسا اوقات معانی کی تلاش میں ثقالت کا خطرہ مُول لیتے ھیں جس سے مَیں ذاتی طور پر مین اسلئے اجتناب کرتا ھُوں کہ شاعری عوام وخواص دونوں کی چیز ھے۔۔۔۔مگر عرفان ستار کے خیال میں شاعری صرف خواص کی چیز ھے۔ میرا استدلال یہ ھے کہ اگر شاعری خواص کی ھی چیز ھے تو خسرو کی شاعری عوام میں کیوں مقبول ھوئی؟۔۔بلھے شاہ کو کیوں بلند مقام عوام میں مِلا۔۔۔۔؟
ھو سکتا ھے کبھی یہ خواص کی چیز ھو مگر اب نہیں ۔۔اب یہ عوام وخواص کی چیز ھے۔۔۔اس لئے دونوں طبقات کی دلچسپی شاعر کو ملحوظ رھے۔۔۔یُوں بھی شاعری خود بیانی کا ایک فن ھے۔۔۔اور بیان کرنے والے کو زیادہ سامعین میسر آئیں تو کیا قباحت ھے؟۔۔
شعر کی زمین یعنی بحر پر اگرچہ شاعر کی گرفت بے پناہ ھے مگر۔۔۔بعض جگہ جب وُہ سادگی کو قربان کرتے ھیں تو عجب لگتا ھے۔۔۔
ایک آواز پڑی تھی، کہ کوئی سائلِ ھجر؟
آن کی آن میں پہنچا تھا لپکتا ھُوا مَیں
اس شعر کے پہلے مصرع کو سوالیہ نشان کی ضرورت نہ تھی۔۔۔۔۔
ایک آواز نے پُوچھا ، ھے کوئی سائلِ ھجر
ایسا لکھنے میں کیا حرج تھا؟۔۔۔دراصل شاعر اپنی زباندانی کا لُطف خود لے رھا ھے۔۔۔۔ایک آواز پڑی کا لُطف۔۔۔۔۔۔اور اس تلذذ میں مصرع کی قربانی دے دی۔۔۔۔۔
اور اُسکی وجہ شاید عرفان ستار کا یہ ماٹو ھے کہ۔
فرماں روائے عقل کے حامی ھیں سب یہاں
شاہِ جُنوں کا تُو بھی وفادار ھو کے رَہ
عرفان ستار الفاظ کی مشاطگی ، میں ثقالت کو روک نہیں سمجھتے۔۔۔انکا یہ شعر نہایت خوبصورت شعر ھے۔۔۔مگر صرف خواص کے لئے۔۔۔
تابِ یک لحظہ کہاں ، حُسنِ جُنوں کے پیش
سانس لینے سے توجہ میں خلل پڑتا ھے
عرفان ستار کے ھاں موجود و غیر موجود اور موجود کی موجودگی کے اسباب اور غیر موجود کی غیر موجودگی کے اسباب پر بے شمار اشعار مِلتے ھیں جو انکی فلسفیاتی اُپچ کے آئینہ دار ھیں۔
یہ جستجو، یہ طلب، یہ جنون و دربدری
مآل ِ عمر عدم ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟
وُہ اساطیر اور مذھب سے کُھل کر اختلاف کی جرات نہیں رکھتے اس لئے خفیف پیرایہِ اظہار کی آڑ لیتے ھیں۔۔۔یہ ان کا اسلوب بھی ھوسکتا ھے۔۔۔۔اور مصلحت کا تقاضہ بھی ،،،۔۔۔
میں جانتا ہوں جو منظر گنوائے بیٹھا ہوں
تجھے کہاں یہ خبر تیری تاب و تب کیا ہے
ہاں خدا ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں
اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے
قصوں کو سچ ماننے والے، دیکھ لیا انجام؟
پاگل جھوٹ کی طاقت سے ٹکرانے بیٹھا تھا
نہ پُوچھئیے وُہ کس کرب سے گزرتے ھیں
جو آگہی کے سبب عیشِ بندگی سے گئے
ھمارے یہاں پچھلی کئی دھائیوں سے شُعرا کی شاعری پر گفتگو کرتے ھوئے یا تو زمین و آسمان کے قلابے مِلائے جاتے ھیں یا کاپی پیسٹ قسم کے تبصرہ جات لکھ دئیے جاتے ھیں۔ تعمیری تنقید کا اردو مین دُور دُور تک کوئی نشان نہیں۔۔ابھی حال ھی میں ظفر اقبال نے اپنے ایک کالم میں رفیق خیال کی کتاب میں عروضی غلطیاں کی نشاندھی کی اور اس کتاب کے مضمون نگاروں میں گوپی چند نارنگ، محمد علی صدیقی اور عباس تابش بھی شامل ھیں۔۔عرفان ستار کے ھاں عروض پر جو دسترس دیکھنے میں آتی ھے وُہ اھم بات ھے۔۔کیونکہ انُکی نصآبی تعلیم دُوسرے موضوعات کے حوالے سے ھے،، وُہ پُوری گرفت سے اشعار کہتے ھیں۔۔اسی لئے ایک بار حلقہ ارباِب ذوق کی نشست میں افضال نوید کے بے وزن اشعار پر بات کئے بغیر وُہ نہ رہ سکے۔۔عرفان ستار اچھے شعر کے اھم پارکھ ھیں۔۔۔اس حوالے سے انہیں سینکڑوں اشعار ازبر ھیں۔
جدید حسیت کے حوالے سے مَیں پہلے بیان کر چُکا ھُوں وُہ خارجی اعتبار سے تو نہیں مگر داخلی اعتبار سے شعر میں بیان کرنے کے قائل ھیں۔۔
انکے اشعار ۔۔۔۔مختصر اھلِ سخن کی نشستوں میں بہت لُطف دیتے ھیں۔۔۔جہاں صآحب فکر بیٹھے ھوں۔۔وھاں ایسے اشعار کا مزہ لیا جاتا ھے۔۔
نہیں ہے جو، وہی موجود و بے کراں ہے یہاں
عجب یقین پس ِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں
نہ ہو اداس، زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی
خوشی سے جھوم، ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں
یہاں سخن جو فسانہ طراز ہو، وہ کرے
جو بات سچ ہے وہ ناقابل ِ بیاں ہے یہاں
نہ رنج کر، کہ یہاں رفتنی ہیں سارے ملال
نہ کر ملال، کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں
یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاوٗں میں رائگاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
کبھی سائبان نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم
کبھی بے مکاں کبھی لامکاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
ترے وصل کی جو نوید ہے، وہ قریب ہے کہ بعید ہے
مجھے کچھ خبر تو ہو جان ِ جاں، مری آدھی عُمر گزر گئی
کبھی مجھ کو فکر ِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا مرے نکتہ داں، مری آدھی عُمر گزر گئی
ھم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر
مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی
اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہءِ پارینہ ہُوا
رونق ِ محفل ِ شیریں سخناں تھے ہم بھی
وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب
ورنہ تردید ِ صف ِ کجکلہاں تھے ہم بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرفان ستار سے جدید حسیت پر مبنی اشعار کی طلب کی جانی ضروری ھو گئی ھے۔۔اگرچہ انکی زنبیلِ سخن میں ابھی بےشمار اشعار موجود ھی جو فکری سطح پر تحرک لاتے ھیں۔۔اور اچھی شاعری کی پہچان یہ ھے کہ فکری تحرک لائے ورنہ شاعری کسی کو سنانا بے معنی ھوجاتا ھے۔۔جو امثآل مَیں نے اوپر درج کی ھیں انکی روشنی میں عرفان ستار ایک صاحبِ اسلوب شاعر ھیں۔۔۔اور دن بدن انکے کلام میں فلسفیانہ تفکر کی گُونج بڑھتی جا رھی ھے۔۔۔جو وقت کی ضرورت ھے۔۔
ابھی اس عمومی تجزئیے پر اکتفا ھے کسی اور نشست میں انکے ھاں کی تراکیب و تماثیل اور موضوعات پر الگ سے گفتگو کروں گا۔۔۔تب تک طویل ترین بحر میں عرفان ستار کا کمال دیکھئے۔۔
رزق کی جستجو میں کسے تھی خبر، تو بھی ہو جائے گا رائیگاں یا اخی
تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی
جب نہ تھا یہ بیابان دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگذر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی
جب یہ خواہش کا انبوہ وحشت نہ تھا، شہر اتنا تہی دست فرصت نہ تھا
کتنے آباد رہتے تھے اہل ہنر، ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی
یہ گروہ اسیران کذب و ریا، بندگان درم، بندگان انا
ہم فقط اہل دل، یہ فقط اہل زر، عمر کیسے کٹے گی یہاں یا اخی
خود کلامی کا یہ سلسلہ ختم کر، گوش و آواز کا فاصلہ ختم کر
اک خموشی ہے پھیلی ہوئی سر بسر، کچھ سخن چاہیئے درمیاں یا اخی
رفیع رضا
کینیڈا 2015
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرفان ستّار ۱۸ فروری ۱۹۶۸ میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم لیبیا کے شہر البیضا میں حاصل کی جہاں ان کے والد جو ڈاکٹر تھے، بغرض ِ ملازمت مقیم تھے۔ لیبیا سے واپسی پر کراچی کے بی وی ایس پارسی ہائی اسکول سے میٹرک، اور ڈی جے سائنس کالج سے ۱۹۸۶ میں انٹر اور ۱۹۸۹ میں بی ایس سی کیا۔ ۱۹۹۲ میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (I.B.A.) سے MBA کی تعلیم مکمل کی۔ چند برسوں بعد ۲۰۰۴ میں SZABIST, Karachi سے مینیجمنٹ سائنس میں MS کی ڈگری حاصل کی۔ مختلف اداروں میں اعلٰی عہدوں پر فائز رہے۔ ۲۰۱۰ میں کینیڈا منتقل ہوگئے اور اب ٹورانٹو میں مستقل سکونت ہے۔
شاعری کا آغاز کالج کے دنوں میں ہوا، اور ڈی جے سائنس کالج کے مجلّے ’’مخزن‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ۱۹۹۵ میں جون ایلیا سے ملاقات کے بعد تخلیقی معاملات میں سنجیدگی آئی اور ادبی جریدوں میں کلام شائع ہونا شروع ہوا۔ پہلا اور تاحال شعری مجموعہ ’’تکرار ِ ساعت‘‘ ۲۰۰۵ میں شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بےحد پذیرائی سے نوازا گیا۔
شاعری میں غزل ان کی محبوب ترین صنف ہے۔ شاعری کے علاوہ تنقیدی مضامین اور کتابوں پر تبصرے بھی لکھتے رہے اور اردو کے روزنامے جسارت کے ادبی صفحے کے لیے کیے گئے ان کے انٹرویوز بھی ادبی حلقوں میں بہت اہم سمجھے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفیع رضا کینیڈا