ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی مشرقی پاکستان میں فوج کی شکست کے اسباب کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن قائم کیا جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمودالرحمن، ہائیکورٹ کے چیف جسٹس انوارالحق اور سندھ وبلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس طفیل علی عبدالرحمن پر مشتمل تھا جبکہ لیفٹیننٹ جنرل الطاف قادر اس کے فوجی مشیر مقرر ہوئے۔ کمیشن نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں تعینات 286 فوجی وسول افسروں، سیاستدانوں اور صحافیوں کے بیانات قلمبند کیے۔ ہزاروں صفحات پر مشتمل تحریری بیانات کا جائزہ لیا اور اپنی حتمی رپورٹ 1974ء کے اواخر میں پیش کردی۔ بیانات دینے والوں میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو، جنرل یحییٰ، میجرجنرل رائو فرمان علی، لیفٹیننٹ جنرل اے کے نیازی، مشرقی پاکستان کے سابق گورنر ایڈمرل احسن، خان عبدالقیوم خان اور عبدالولی خان شامل تھے۔
حمودالرحمن کمیشن رپورٹ سالہاسال صیغہ راز میں رکھی گئی۔ سب سے پہلے ایک بھارتی اخبار نے اس کے اقتباسات شائع کیے تو جنرل پرویز مشرف کو یہ رپورٹ اوپن کرنا پڑی لیکن چند ابواب کانفیڈینشل رکھے گئے۔ لاہور کے ایک معروف پبلشر ’’دارالشعور‘‘ نے بڑی کاوش سے رپورٹ کی مصدقہ کاپی حاصل کی اور اس کا مستند ترجمہ 1972 صفحات پر مشتمل کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔ کمیشن نے ان عوامل کو بے نقاب کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے جن سے پاکستان دولخت ہوا اور انسانی تاریخ کے ہولناک واقعات رونما ہوئے۔ اس رپورٹ نے ہماری تاریخ کا احاطہ کیا، تباہ کُن سیاسی اور فوجی فیصلوں کی نشاندہی کی اور قابل قدر سفارشات ترتیب دیں جو مستقبل کی صحت مند صورت گری میں بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
اس تحقیقاتی رپورٹ میں تاریخ شکن اور ہولناک سانحے کا ذمہ دار حکومتی اختیارات کے بے رحمانہ استعمال، سیاسی جماعتوں کے غیرجمہوری رویوں، سول معاملات میں فوجی مداخلت، لامحدود ہوس اقتدار اور محلاتی سازشوں کو قرار دیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں ابتدائی گاڑ کی صورت اس وقت پیدا ہوئی جب طلبہ نے بنگلہ کو اُردو کے ساتھ دوسری قومی زبان تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا اور اسمبلی کا گھیرائو کرلیا۔ اس احتجاج کو کچلنے کے لیے وزیراعلیٰ نورالامین نے ہنگامی اختیارات بڑے بے رحمی سے استعمال کیے جس کے نتیجے میں پُرتشدد فسادات پورے صوبے میں پھیل گئے۔ صورتحال معمول پر لانے کے لیے حسین شہید سہروردی مشرقی پاکستان آئے مگر انہیں نرائن گنج گھاٹ پر اُترتے ہی صوبہ بدری کے احکام تھما دیئے گئے جبکہ مولانا عبدالحمید بھاشانی، شیخ مجیب اور دوسرے اپوزیشن لیڈر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ متعدد گولیوں کا نشانہ بنے اور ہندوئوں کو اپوزیشن جماعتوں میں راہ پالینے کا موقع مل گیا۔ اسمبلی میں قرارداد منظور ہوئی کہ دستور ساز اسمبلی بنگلہ کو بھی دوسری قومی زبان کا درجہ د ینے کا اعلان کرے۔ حکومت کے غیرجمہوری رویوں کے خلاف اپوزیشن جماعتوں پر مبنی ’’جگنوفرنٹ‘‘ وجود میں آیا جس نے 1954ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔
کمیشن نے دوسرا بڑا مجرم گورنر جنرل غلام محمد کو قرار دیا جس نے لامحدود اختیارات کی ہوس میں پہلے 1953ء میں خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کی جو ایک ماہ پہلے اسمبلی سے بجٹ منظور کروا چکے تھے۔ پھر 24اکتوبر 1954ء کو دستور ساز اسمبلی توڑ ڈالی۔ کابینہ میں تمام پارلیمانی روایات کے برخلاف کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان اور میجر جنرل سکندر مرزا کابینہ میں شامل کر لیے گئے۔ ان تباہ کُن اقدامات نے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ رہی سہی کسر سکندر مرزا نے پوری کردی جو سیاسی جوڑتوڑ کے نتیجے میں پاکستان کے پہلے صدر بن جانے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے 1956ء کے دستور کے تحت حلف اُٹھایا مگر وہ اسی کو ناکام بنانے کی اعلانیہ اوردر پردہ کوششیں کرتے رہے کہ ڈھائی سال کی قلیل مدت میں چار وزرائے اعظم تبدیل ہوئے جس کے باعث سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا۔ مشرقی پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے مابین جاں گسل کشمکش کے نتیجے میں ہندو کانگرس پارٹی فیصلہ کُن پوزیشن میں آگئی جس نے وزارتیں بنانے اور گرانے کا خوفناک سلسلہ جاری رکھا۔ سیاسی نفرتوں کو اس قدر ہوا دی گئی کہ ڈپٹی سپیکر شاہد علی ایوان ہی میں شہید کر دیئے گئے۔ ان حالات کو بنیاد بنا کر صدر سکندر مرزا نے 7اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء نافذ کردیا اور جنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے جنہوں نے ہوس اقتدار میں 28اکتوبر کی رات سکندرمرزا کو گرفتار کر کے جلاوطن کردیا۔
رپورٹ میں فیلڈمارشل ایوب خان کو پارلیمانی جمہوریت کا قاتل اور جنرل یحییٰ خان کو پشت پناہی کا مجرم قرار دیا گیا۔ انہوں نے بالغ رائے دہی کے بجائے بنیادی جمہوریتوں کا نظام رائج کیا اور صدارتی نظام کے ذریعے سارے اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کر لیے۔ ان کی طرف سے قوم پر 1962ء کا دستور مسلط کیا گیا جس میں صوبائی خودمختاری برائے نام تھی۔ مشرقی پاکستان کے وزراء کا تقرر بھی وہ خود ہی کرتے تھے۔ اسمبلی میں ان کی اجازت کے بغیر کوئی بِل پیش نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسے بجٹ منظور کرنے کا بھی اختیار نہیں تھا۔ انتظامی معاملات گورنر چلاتا جو صدر کا نمائندہ تھا، چند ہی برسوں میں عوام کے اندر یہ احساس گہرا ہوتا گیا کہ مشرقی پاکستان کی حیثیت ایک کالونی کی ہے اور انہیں اقتدار سے مکمل طور پر محروم کردیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے 1965ء کی جنگ نے انہیں شدید تنہائی اور بے چارگی کے خوف میں مبتلا کردیا اور شیخ مجیب الرحمن نے اس نئی صورتحال سے نمٹنے کے لیے لاہور کی قومی کانفرنس میں فروری 1965ء میں چھ نکات پیش کیے جن کے مضمرات پر حکومت نے خاطرخواہ توجہ نہیں دی۔ پریس پر پابندیوں، سیاسی جماعتوں کی ناکہ بندیوں اور بنیادی جمہوریتوں میں ہوش رُبا بدعنوانیوں کے باعث ملک میں بے چینی پھیلتی گئی۔ اس دوران فیلڈ مارشل ایوب خان کو دل کا شدید دورہ پڑا اور وفاقی سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر کی شہادت کے مطابق جنرل یحییٰ خان نے ایوان صدر کا پورا کنٹرول سنبھال لیا۔ حالات کے دبائو میں صدر کو مارچ 1969ء میں گول میز کانفرنس بلاناپڑی۔ شیخ مجیب الرحمن راولپنڈی آئے جنہوں نے کمانڈرانچیف جنرل یحییٰ خان کی رہائش گاہ پر ان سے خفیہ ملاقات کی جس میں مارشل لاء کا مسئلہ زیربحث آیا۔ جنرل یحییٰ خان گول میز کانفرنس میں حد سے زیادہ دلچسپی لے رہے تھے۔ شیخ مجیب الرحمن نے اس کی سفارشات مسترد کرنے اور ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی سے نکل جانے کا اعلان کیا۔ اس پر مشرقی پاکستان میں حالات بگڑتے گئے۔
24مارچ 1969ء کو صدر ایوب خان نے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کو امن بحال کرنے کی آئینی ذمے داری پوری کرنے کے لیے خط لکھا اور صدارت سے دستبرداری کا بھی اعلان کیا۔ جنرل یحییٰ نے اپنے طور پر مارشل لاء نافذ کردیا اور آئین منسوخ کرڈالا۔ وہ ملک میں فوجی حکومت اور اپنا اقتدار قائم کرنا چاہتے تھے، ان کے تمام تر اقدامات ایک ایسا ماحول پیدا کرتے گئے جس میں آئین بن سکے نہ جمہوری نظام اپنے قدم جماسکے۔ نومبر 1969ء میں ایل ایف او جاری ہوا جس میں یہ شق رکھی گئی کہ اگر دستور ساز اسمبلی 120 دنوں میں دستور نہ بناسکی تو وہ ازخود تحلیل ہو جائے گی۔ انہوں نے انتخابی مہم کے لیے تقریباً ایک سال دیا اور اسی دوران پاکستان مخالف پروپیگنڈہ روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ انتخابی سرگرمیاں شروع ہو جانے کے بعد عوامی لیگ نے جماعت اسلامی اور پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے انتخابی جلسے نہیں ہونے دیئے۔ مخالف اخبارات اور طلبہ تنظیموں کے دفتر جلا دیئے۔ اس کے غنڈوں نے دہشت پھیلائے رکھی اور انتخابات میں آزادی سے ووٹ ڈال دینا محال ہو گیا۔ مارشل لاء کی انتظامیہ تشدد کے سارے مناظر تماشائی کی طرح دیکھتی رہی۔انتخابات سے قبل جناب پیرپگاڑا، محمد خان جونیجو، حاکم علی زرداری اور نواب اکبر بگٹی نے عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی لیکن ان پر دبائو ڈال کر ان سے علیحدگی کا اعلان کروایا گیا۔ میجر جنرل عمر، جو سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری تھے، وہ بعض سیاسی جماعتوں کو مالی اعانت فراہم کرنے اور اس ہدف تک پہنچنے کے لیے کوشاں رہے کہ دستورساز اسمبلی میں کسی جماعت کو بھاری اکثریت حاصل نہ ہو پائے۔
انتخابات کے نتائج بہت حیران کُن ثابت ہوئے۔ مشرقی پاکستان کی 162قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے 160 عوامی لیگ نے جیت لیں اور مغربی پاکستان کی 138 سیٹوں میں سے 81 پیپلزپارٹی کے حصے میں آئیں اور ان کا یہ پہلو بے حد تشویشناک تھا کہ دونوں بڑی جماعتیں اپنے اپنے صوبوں تک محدود ہو کے رہ گئیں۔ انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان مشرقی پاکستان جانے سے گریز کرتے رہے۔ شیخ مجیب نے 3جنوری 1971ء کو ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا، قومی وصوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان سے چھ نکات پر حلف لیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ وہ مشرقی پاکستان کے عوام کی ملکیت ہیں، جن میں اب ردوبدل نہیں ہوسکتا۔ کمیشن کے سامنے یہ شہادت آئی کہ جب یحییٰ خان مجیب الرحمن سے مذاکرات کے لیے 5جنوری کو ڈھاکہ پہنچے تب ایوان صدر اسلام آباد اور گورنر ہائوس ڈھاکہ میں چھ نکات پر کوئی تجزیاتی رپورٹ موجود نہیں تھی۔
جنرل یحییٰ خان، مجیب اور بھٹو سے الگ الگ ملاقاتیں کرتے اور معاملات اُلجھاتے رہے۔ دستور ساز اسمبلی کا اجلاس 3مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں طلب کرلیا گیا مگر پیپلزپارٹی کے چیئرمین مسٹربھٹو نے اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہ اس میں شریک ہونے والوں کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکیاں دیں۔ یکم مارچ کو اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان ہوا، جس پر مشرقی پاکستان میں ہنگامے شروع ہوگئے۔ مشرقی پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یعقوب خان نے جنرل یحییٰ کو فوری طور پر نئی تاریخ دینے اور مشرقی پاکستان آنے کا مشورہ دیا۔ سیاسی مصالحت کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دینے والے یہ دونوں اعلیٰ فوجی افسر اپنے عہدوں سے فارغ کر دیئے گئے۔ کمانڈر انچیف 25مارچ کو فوجی آپریشن کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے اس لیے کہ انہوں نے اسی تاریخ کو 1969ء میں مارشل لاء نافذ کیا تھا۔ جنرل یحییٰ نے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات میں اُلجھائے رکھا اور اس امر کا اہتمام کیا کہ مجیب اور بھٹو مذاکرات کی میز پر اکٹھے نہ ہوں۔ تاریخ کے طے کیے جانے کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ حکومت کے مشیرقانون جسٹس اے آر کارنیلئس نے کمیشن کو بتایا کہ مجھے صدر کے سٹاف افسر نے 23مارچ کی سہ پہر یہ اشارہ دیا کہ ہمیں 24مارچ تک مغربی پاکستان روانہ ہوجانا ہے۔ میں نے کہا آئینی معاملات کو آخری شکل دینے کے لیے میری عوامی لیگ کے ڈاکٹر کمال حسین سے ملاقات طے ہے لیکن سٹاف افسر نے کہا کہ اپنے ذمے داری پر ڈھاکہ میں ٹھہر سکتے ہیں۔
حالات ایسے بنے کہ مجھے کام ادھورا چھوڑ کر واپس جانا پڑا۔ 23مارچ کو ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کا پرچم لہرا رہا تھا۔ 23مارچ کی رات فوجی آپریشن شروع ہوا اور شیخ مجیب کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان بھیج دیاگیا۔
فوجی آپریشن سے حالات مئی تک معمول پر آگئے تھے مگر سیاس تصفیے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی بلکہ یحییٰ خان نے جون میں اعلان کیا کہ سیاستدان کسی آئین پر متفق نہیں ہوئے اس لیے اب میں اپنا آئین دوں گا۔ بیرونی قوتوں نے یحییٰ خان پر دبائو ڈالنا شروع کیا کہ شیخ مجیب کے ساتھ مصالحت کا راستہ اختیار کیا جائے مگر وہ اس کے لیے کسی طور آمادہ نہیں ہوئے اور اسے بغاوت کے مقدمے میں سزائے موت دلوانا چاہتے تھے۔ پہلے اسے میانوالی جیل میں رکھا گیا، بعدازاں اس پر لائل پور (اب فیصل آباد) کی سنٹرل جیل کے بند کمرے میں بغاوت کا مقدمہ چلا۔
شیخ مجیب الرحمن نے مقدمے کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور جناب اے کے بروہی کو بھی بحث میں حصہ لینے سے روک دیا جو حکومت کی جانب سے شیخ مجیب کے وکیل صفائی مقرر کیے گئے تھے۔ جناب اے کے بروہی نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی عدالت استغاثہ کی طرف سے پیش کیے ہوئے مواد کی بنیاد پر شیخ مجیب الرحمن کو سزا موت نہیں دے سکتی۔ کمیشن کے سامنے یہ شہادت بھی آئی کہ مقدمے کا فیصلہ تیار کرلیا گیا تھا لیکن اسے سنانے کا موقع نہ ملا۔ بھارت نے بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت اپنے ہاں قائم کرنے اور اسے تسلیم کرلینے کے بعد نومبر 1971ء میں مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر باقاعدہ حملے شروع کردیے لیکن جنرل یحییٰ خان سلامتی کونسل میں جانے سے گریز کرتے رہے۔ ہمارے افسر اور جوان بڑی بے جگری سے لڑے مگر غلط دفاعی حکمت عملی کی وجہ سے دُشمن ہماری قلعہ بندیوں کے عقب سے مشرقی پاکستان کے اندر پیش قدمی کرنے میں کامیاب ہو گیا، یہی وہ نازک ترین دن تھے جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لیے سرتوڑ کوششیں ہورہی تھیں۔ میجر جنرل رائو فرمان علی نے اقوام متحدہ کے نمائندے کو 10دسمبر کی شام ایک پیغام پہنچایا جس میں مشرقی پاکستان کے منتخب نمائندوں کو مشروط پُرامن انتقال اقدار کی پیشکش کی گئی اور بدلے میں مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستانیوں کے تحفظ کی ضمانت مانگی گئی تھی۔ اس پیغام کو اقوام متحدہ میں ہتھیار ڈالنے کی پیشکش تصور کیا گیا۔ یہ پیغام پاکستان کے سب سے اہم سفارتکار ذوالفقار علی بھٹو کیلئے شدید دھچکے کا باعث بنا جو اسی شام نیویارک پہنچے تھے۔ انہیں معاملات سنوارنے اور ملک کی عزت بچانے کے لیے ایک ہفتہ درکار تھا مگر ڈھاکہ کے دفاع کا کوئی منصوبہ موجود نہیں تھا۔
بے شک بھارت نے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے دو بریگیڈ اُتار دیئے تھے مگر ان کے پاس ہلکے ہتھیار تھے اور وہ ڈھاکہ سے ابھی تیس چالیس میل کے فاصلے پر تھے۔ ڈھاکہ گیریژن میں چوبیس ہزار کی نفری تھی اور دور تک مار کرنے والی توپیں اور ٹینک بھی۔ اگر اسٹالن گراڈ کی طرز پر ڈھاکہ کا دفاع کیا جاتا تو دُشمن کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کئی دن لگتے اور اتنے میں برطانیہ، فرانس، پولینڈ اور شام کی قراردادیں منظور ہو جاتیں جن میں جنگ بندی اور سیاسی تصفیے کی بات کی گئی تھی لیکن مشرقی پاکستان کے گورنر عبدالمالک کے ہاتھ پائوں پھول گئے، دوسری طرف جنرل یحییٰ خان سیاسی تصفیے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور 16دسمبر 1971ء کو ہماری فوجوں نے ہتھیار ڈال دیئے، اسی روز جنرل یحییٰ نے اپنا دستور جاری کیا جس میں کمانڈر انچیف کو مارشل لاء لگانے کا اختیار دیا گیا۔ اس میں یہ بھی درج تھا کہ اس آئین کے تحت پہلے صدر جنرل یحییٰ خان ہوں گے اور وہ اپنے پاس کمانڈرانچیف کا عہدہ رکھ سکیں گے۔ سقوط ڈھاکہ سے جو ماحول پیدا ہوا اس میں یہ آئین واپس لینا پڑا مگر ان کی طرف سے اعلان ہوا کہ 20دسمبر کو اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا مگر یہ وہی تاریخ ہے جب فوج کے نوجوان افسروں نے جی ایچ کیو کے آڈیٹوریم میں علم بغاوت بلند کردیا اور جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا۔ یحییٰ خان نے مختارکل بن جانے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلیں اور آخرکار خود ان کا شکار ہوگئے۔
رپورٹ میں جو سفارشات کی گئیں ان کے مطابق فوج کے ڈھانچے میں خاصی تبدیلیاں کی جاچکی ہیں۔ ان باتوں سے قطع نظر حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں ہمارے لیے بنیادی سبق یہ ہے کہ پاکستان کو متحد اور مستحکم رکھنے کے لیے آئین کے ساتھ غیرمتزلزل وابستگی، ملک گیرسیاسی جماعتوں کی جمہوری اور اخلاقی خطوط پر شیرازہ بندی، بے لگام ہوس اقتدار کا کڑا احتساب اور سیاسی تصفیے کی ثقافت کا فروغ ازبس ضروری ہے۔ اسی طرح اطلاعات تک رسائی کا اہتمام، سول معاملات میں فوج کی عدم مداخلت اور صوبائی خودمختاری کا تسلی بخش بندوبست ہماری بقاء کے لیے ناگزیر ہے۔
جسٹس محمودالرحمن نے حتمی رپورٹ وزیراعظم پاکستان کی خدمت میں 23اکتوبر 1974ء کو پیش کی۔ اسی سال وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مقرر ہوئے اور اس منصب پر 1977ء تک فائز رہے۔ بعدازاں 1979ء میں صدر ضیاء الحق کے قانونی مشیر بنائے گئے اور انہوں نے مناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابی نظام پیش کیا۔
جسٹس محمودالرحمن کی قومی خدمات کے صلے میں انہیں ہلال پاکستان کا اعزاز عطا کیا گیا۔ وہ لاہور میں 20دسمبر 1981ء کو انتقال کر گئے۔
پاکستان کو فوجی شکست ہوئی ! کمیشن کی رپورٹ
by
Tags: