One thought on “علی دشتی کی کتاب 23 سال۔۔۔۔بہت اھم کتاب

  1. ہماری عدالتیں۔

    عدالتیں کس طرح مظلوم کے بجائے ظالم کا ساتھ دیتی ہیں اس کی ایک انتہائی بھیانک مثال آپکے سامنے رکھتا ہوں 2018 کے آخر میں فوجی فاؤنڈیشن نے کم و بیش پانچ ہزار سویلین ملازمین کو بلاجواز اور بغیر کسی وجہ کے نوکریوں سے برطرف کیا کیونکہ وہ اپنی تنخواہوں کی کٹوتی اور ریٹائرمنٹ بینیفٹس سے محرومی والے کنٹریکٹ پہ سائن نہیں کرنا چاھتے تھے اور فوجی فاؤنڈیشن ایک کنٹریکٹ کی موجودگی میں دوسرا کنٹریکٹ جس میں سویلین ملازمین سے تمام ریٹائرمنٹ کی مراعات اور تنخواہ کی پچاس فیصد سے بھی زائد کٹوتی تھی کا نیا کنٹریکٹ پیش کر رہا تھا( قانونی طور پہ ایک سروس کنٹریکٹ کی موجودگی میں یک طرفہ طور پہ کنٹریکٹ بدلنا سنگین جرم ہے) اور مستقل ملازمین سمیت تمام سویلنز کو
    جس جس نے یہ نیا کنٹریکٹ قبول کرنے سے انکار کیا ان تمام کو فی الفور نوکریوں سے جبری طور پہ برخاست کر دیا گیا جس میں میں خاکسار بھی شامل تھا
    بیشمار ملازمین نے ہائیکورٹس میں رٹ دائر کی مگر تمام کی تمام رٹس بد قسمتی سے ناقابل سماعت قرار پائیں کیونکہ فوجی فاؤنڈیشن کے وکلاء نے یہ ثابت کیا کہ فوجی فاؤنڈیشن ایک پرائیویٹ آرگنائزیشن ہےقطع نظر اسکے کہ فوجی فاؤنڈیشن کا مکمل کنٹرول GHQ کے پاس ہے اور سیکرٹری ڈیفنس بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیئرمین ہے مگر ہماری عدالتیں لکیر کی فقیر کی مانند آرگنائزیشن کو پرائیویٹ ڈکلیئر کر کے اس ظلم پہ خاموش تماشائی بن گئیں تاہم کچھ ملازمین NIRC میں درخواست دائر کر چکے تھے کیونکہ NIRC تمام کمرشل اور انڈسٹریل ڈسپیوٹس سیٹل کرنے کا فورم ہے مگر شاید ججز وہاں بھی صرف ادروں کو خوش کرنے اور طاقتوروں کو مزید طاقت بخشنے کے لیے قائم کیے گئے ہیں NIRC نے کمال کی ذہانت دکھائی اکثریت ملازمین چونکہ ٹیچرز کی تھی تو تمام ٹیچرز کے کیسز کو اس بنیاد پہ ڈسمس کیا کہ ٹیچرز ورک مین نہیں ہیں مگر عدالت کی دوغلی اور طاقتوروں کو مزید طاقت بخشنے کی انوکھی واردات دیکھیے کہ جب ٹیچرز کے علاوہ دوسرے آفس ورک کے ملازمین کے کیسز آئے یعنی جو ورک مین تھے انکو عدالت عالیہ نے یہ کہہ کر ڈسمس کر دیا کہ چونکہ آپ تعلیمی ادارے کے ملازمین ہے اور تعلیمی اداروں کے ملازمین کے کیسز ہم سننے کا استحقاق نہیں رکھتے اور اس بڑھ کے ادارے سے یہ شفقت کی کہ جو ملازمین ہیڈ آفس میں ڈیوٹی سر انجام دیتے تھے انکو یہ کہا گیا کہ آپکا ادارہ ٹرسٹ ہے اسکو سننے کا دائرہ اختیار بھی ہمارا نہیں ہے گویا عدالتیں یہ طے کر چکی ہیں کے فوجی فاؤنڈیشن جو مرضی کر دیں انکے خلاف کوئی عدالت کیس سن ہی نہیں سکتی حالانکہ پوری دنیا کو پتہ ہے کے فوجی فاؤنڈیشن پاکستان کا سب سے بڑا کاروباری ادارہ ہے بسکٹ فیکٹریوں سے لیکر شوگر ملز سیمنٹ فیکٹریا اور فرٹیلائیزر سمیت یہاں تک کے بینک بھی اپنے ہیں مگر پھربھی ہمارے معصوم ججز اس بات سے ابتک ناواقف ہیں اور فوجی فاؤنڈیشن کو ٹرسٹ سمجھتے ہیں یعنی ایدھی ٹرسٹ اور فوجی فاؤنڈیشن کا عدالتوں میں ایک جیسا سٹیٹس ہے امید ہے آپکو ہمارے عدالتی نظام کی رینگنگ کا 118 واں درجہ سمجھنے میں آسانی ہوگئی ہوگی۔

Comments are closed.