اصل جناح پر پی ایچ ڈی ممنوع کیوں ہے

ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہانپوری

پاکستان میں مسٹر محمد علی جناح کو سرکاری طور پر قائد اعظم کہا جاتا ہے، آپ کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر سرکاری تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، آپ کی تصاویر دفاتر میں آویزاں نظر آتی اور نوٹ پر چھپتی ہیں۔

تحریک آزادی کے آغاز سے انجام تک جو بھی سیاسی و مذہبی شخصیات گزری ان پر تنقید ہوئی، الزامات لگے، تہمتیں لگائی گئیں، کچیڑ اُچھالے گئے لیکن محمد علی جناح کے خلاف کہی ان کہی کے جو ڈھیر لگا دیے گئے ہیں ان کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ روزنامہ نوائے وقت نہایت سنجیدگی اور استقامت سے جناح کے دفاع کو فرض سمجھ کر محاذ جنگ پر ڈٹا ہوا ہے لیکن ان پر ترجیح پاکستان کے مفاد اور تاریخ کو حاصل ہے، محمد علی جناح کی ذات پاکستان کے مفاد اور تاریخ کی اہمیت کے بعد آتی ہے۔

پاکستان میں تین کتابوں پر پاپندی لگائی گئی؛ دوارکا داس کی کتاب رتی جناح، ایم سی چھاگلا کی کتاب روزز ان دسمبر اور اسٹینلے وولپرٹ کی کتاب جناح آف پاکستان شامل ہے۔

محمد علی جناح کی اہم تاریخی تقریر جو اُنہوں نے سول میرج کے موضوع پر اور مسلمانوں پر بھی اس کے اطلاق کے باب میں لیجسلیٹو کونسل میں کی تھی اس تقریر پر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، ہندستان کے تینوں مکاتب فکر کے علماء کی رائے اس وقت سے آج تک ایک ہی رہی ہے۔ اُس وقت جناح کی تقریر پر شدید رد عمل ہوا تھا۔

اس میں قانون کی یہ دفعہ بھی تھی جس میں رشتہ ازدواج کے دونوں خواہش مندوں کو یہ اعلان و اعتراف کرنا پڑتا تھا کہ ان کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے اور کسی اور کا جو بھی عقیدہ ہو اس سے علمائے اسلام کوکوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی تھی لیکن مسلمانوں کے بارے میں یہ بات نہ تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ کوئی مسلمان بشمول شیعہ اثنا عشری بہ قائمی ہوش و حواس اسلام کی نفی اور اس سے بے تعلقی کا اظہار ہرگز نہیں کرسکتا تھا۔ کسی ڈیکلریشن پر خاموشی کے ساتھ دستخط کر دینے کے بعد بھی کوئی مسلمان مسلمان نہیں رہ سکتا تھا۔

محمد علی جناح اور رتن بائی نے عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے اپنے مذاہب سے انکار کیا تھا اور ڈیکلریشن پر دستخط کیے تھے۔

محمد علی جناح پر متعدد کتابیں لکھی گئیں اور لکھی جارہی ہیں لیکن ان کے مصنفین کے پیش نظر اپنا مفاد رہا ہے ان کے سامنے وقت کے تقاضوں، سوانح حیات کی قومی ضرورت و اہمیت، تاریخ و سوانح کے فن کی پاپندی کی اہمیت کا کوئی تصور نہ تھا۔ ماضی میں جو کتابیں لکھی گئیں مصنفیں اپنے شوق یا ضرورت سے ایک کتاب لکھ دیتے، محمد علی جناح پر لکھی کتاب کا سکہ چل رہا تھا گویا اسے ہی موضوع بنا لیا جاتا۔

در حقیقت محمد علی جناح کی شخصیت اور سیرت میں کوئی ایسی خوبی تھی ہی نہیں کہ ان پر کوئی سوانح نگار قلم اُٹھاتا۔

محمد علی جناح کی شخصیت کا پس منظر، ان کا خاندان، ان کے بزرگ، ان کا بچپن، ان کی تعلیم، اساتذہ، دوست، ان سے تعلقات، دلچسپی کے پہلو، ان کے کھیل، ان کے سماجی، تعلیمی، تہذیبی پہلو، ان کا مطالعہ، ان کی تفریحات، تجربات، مشاہدات، ان کی عادات، اطوار، ان کی ملن ساری، احباب نوازی، مذہبی، علمی، اخلاقی، مسلمانوں اور اسلام دُشمنی اور ان کے پس منظر کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو بچوں کو پڑھایا جائے اور ان میں موضوع علیہ شخصیت کی پیروی اور ان جیسا بننے کا شوق پیدا ہو۔

اس دُنیا میں ایک ہستی ایسی تھی جو ان سے متاثر ہوئی، ان کے عشق میں مبتلا ہوئی، اپنے ماں باپ کو چھوڑا، ان کی زوجیت کو قبول کیا لیکن جب شوہر کے حق ازدواج ادا کرنے کا وقت آیا تو اُس نے بیوی کو مایوس کر دیا۔ وہ ایک ہسپتال میں شوہر کو یاد کرتے ہوئے تڑپ تڑپ کر مر گئی۔

محمد علی جناح برطانیہ سے لوٹے تو ممبئی سے قسمت آزمائی کے شوق میں بیمار باپ کی اس خواہش کو کہ وہ کراچی سے پریکٹس کا آغاز کریں، وہ ان کے پاس رہیں اور خاندان سے دور نہ ہوں، ٹھکرا کر اور ایک بہن کو ساتھ لے کر ممبئی چلے گئے، پھر کبھی پلٹ کر نہ باپ کو دیکھا اور نہ خبر لی کہ وہ کب تک جیئے اور کب مر گئے اور نہ ان کے پیچھے خاندان کی خبر لی۔

کئی اہل قلم اور مصفین نے محمد علی جناح اور ان کی سیاست کو مسلمانوں کی دوستی اور دُشمنی کے پلڑوں میں رکھ کر تولا ہے۔ مصنفین نے اپنی اپنی کتابوں میں ادھوری سچائی لکھی مکمل سچ لکھنے سے گریز کرنے کے باعث محمد علی جناح کی شخصیت مسخ ہوتی چلی گئی۔ پاکستان کی جنگ اس اُصول پر لڑی گئی کہ ہندستان میں ہندو اور مسلمان دو قومیں ہیں۔ دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ یہ دونوں مل کر ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں گویا پاکستان کا مطلب کیا کا نعرہ لگایا گیا۔

لیکن محمد علی جناح نے جو پاکستان کے بانی مبانی اور ترجمان تھے اور اسی خصوصیت کی بناء پر وہ پاکستان کے گورنر جنرل اور دستور ساز اسمبلی کے صدر بھی بنے تھے اپنی پہلی پالیسی تقریر میں ان دونوں باتوں کی نفی کر دی۔ پاکستان کے نظریے میں اگر کوئی فلسفہ اور مقصدیت تھی تو وہ ختم ہوگئی۔ یہ کہہ کر یہ کہ یہاں مسلمان اور غیر مسلمان میں کوئی قومی اور مذہبی امتیاز نہیں ہوگا، اور ان کے مذہبی معاملات میں ریاست مداخلت نہیں کرے گی محمد علی جناح نے ایک تقریر سے ملک کو سیکولر اسٹیٹ بنا دیا تھا۔اسمبلی کے اجلاس میں کئی نامور علماء بیٹھے تھے انہیں پتا بھی نہ چلا کہ پاکستان کے نظریے کی کایا پلٹ ہوگئی تھی۔

محمد علی جناح اس معاملے میں اتنے حساس تھے کہ اُنہوں نے لیاقت علی خاں کے ہاتھ سے ایجنڈا لے کر دیکھا تو فہرست میں ” تلاوت قرآن مجید تھی، جسے اُنہوں نے قلم زد کر دیا تھا اس لیے کہ یہ مسلم لیگ کا جلسہ نہیں تھا ایک سیکولر اسٹیٹ کی پیدائش کے اعلان کی رسم ادا کی جارہی تھی۔

اس بیان سے ہمارا مقصد کسی کے خلاف غلط اور انتہائی غلط، نہایت شرمناک برتاؤ کا شکوہ نہیں، بلکہ اس شخص کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار ہے جو سونے میں تولا گیا تھا جس کی گاڑی کھینچی گئی تھی، جسے کندھوں پر اُٹھایا گیا تھا، جسے مقدس بزرگوں اور پیغمبروں کا درجہ دیا گیا تھا اور جس کی فضیلت کے افسانے اور نظمیں لکھی گئی تھیں۔

محمد علی جناح کے ساتھ اس کے جیتے جی جو بے وفائی کی اس کی اطاعت سے گریزاں ہوئے اس کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری کی نذر کیا، جب وہ مرکزی شہر کی ایک سڑک پر گندگی کے ڈھیر کے پاس زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا تو اسے بابائے قوم بنانے والے اس کے عقیدت مند، شیدائی، اس کے احسان مند اس کی موت کی خبر کے انتظار میں ایک غیر ملکی سفارت خانے کی مجلس میں شراب کے جام لنڈھا رہے تھے۔

مورخ، پاکستان کے تاریخ داں تاریخ کی کتابوں پر محمد علی جناح کی شخصیت کے ان پہلوؤں پر لکھنے سے کیوں کتراتے ہیں؟ محمد علی جناح پر جو لٹریچر اُردو میں میری نظر سے گزرا ہے۔ اس میں علمی و فنی لحاظ سے بہت غیر معیاری مواد ہے۔ ان کے سوانح میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔ محمد علی جناح ایک سپاٹ شخصیت کے مالک تھے، گجراتی ان کی مادری زبان تھی، انگریزی اُنہوں نے سیکھی تھی، اُنہیں انگریزی بولنے پر عبور تھا، اُردو میں گفتگو اور تقریر سے گریزاں رہتے تھے، لکھنے کا اُنہیں کبھی اتفاق نہ ہوا تھا۔

عربی، فارسی سے وہ بالکل نابلد تھے، مطالعہ کا انہیں شوق نہ تھا، قانون کے سوا دیگر علوم یعنی تاریخ، فلسفے، شاعری، تحقیق، تنقید، مذہب وغیرہ سے ان کے شوق اور مطالعہ کے ذوق کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔

اسلامی فقہ سے ان کے تعلق کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے، انگریزی میں چھٹی جماعت میں پڑھنے کا ذکر ملتا ہے، پاس ہونے کا نہیں، قانون میں نہ ان کے پاس اُونچے درجے کی ڈگری تھی اور نہ وہ خود صف اول کے ایڈوکیٹ تھے، ہندستان میں ان کے ہارے جانے والے مقدمات کی تعداد ان کے جیتے ہوئے مقدمات سے زیادہ ہے۔ان کا ایک مقدمہ بھی بطور نظیر قانونی بحث میں حوالے کے لیے موجود نہیں ہے۔

محمد علی جناح نے اپنی زندگی میں سیاسی جدوجہد کی مگر وہ جمہوری انداز فکر اور سیاسی طرز عمل نہ اپنا سکے، اُنہوں نے ایک خاص مسئلے میں اپنی رائے کے مطابق عمل نہ ہوتے دیککھ کر سندھ کی حکومت کو برطرف کر دیا تھا اور دوسری حکومت قائم کر کے اپنی منشاء کے مطابق فیصلہ کروا لیا تھا ایک منتخب حکومت کا توڑ دینا اور ایک نامزد وزیر اعلیٰ سے اپنی منشاء کا فیصلہ کرا لینا ان کے شایان شان نہیں تھا۔

اس سے پہلے محمد علی جناح نے صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) کے گورنر کو حکم دیا کہ وہ صوبے کی حکومت ڈس مس کر دے گورنر کو اختیار ہوتا ہے کہ گورنر جنرل کے حکم اور اشارے کے بغیر صوبائی حکومت کو توڑے لیکن اس کے لیے قانونی جواز کی ضرورت ہوتی ہے جو موجود نہیں تھا۔ سرحد کے گورنر نے حکومت توڑے جانے پر لکھا کہ گورنر جنرل پاکستان کے حکم سے سرحد کی حکومت کو توڑا جاتا ہے۔

صوبائی حکومتوں کو نہ تو گورنر جنرل نے اعتماد میں لیا تھا نہ وزیر اعظم نے اس کے ساتھ شفقت اور مہربانی کا برتاؤ کیا تھا۔ سندھ کی انٹیلی جنشیا حیرت زدہ تھی کہ گورنر جنرل پاکستان سندھ میں کھوڑو حکومت سے، پنجاب میں افتخار ممدوٹ حکومت سے، سرحد میں ڈاکٹر خان کی حکومت توڑ کر، بلوچستان کو آزاد صوبائی حکومت کے قیام کے بجائے گورنری نظام کے حوالے کر کے، ریاست بہاولپور کو ڈرا کر، قلات ریاست کو فوجی ایکشن کر کے بلوچستان کی لسبیلا، خاران، مکران اور سرحد میں دیر، چترال اور سوات کی ریاستوں پر قبضہ کر کے وہ پاکستان کی تعمیر کر رہے ہیں؟

یا پھر کھوڑو اور سندھ کے قوم پروروں سے پنجاب کے یونینسٹوں سے یا سرحد کے خدائی خدمتگاروں سے یا بلوچستان کے حریت پسندوں اور خان عبد الصمد خاں اچکزائی، نامور نیشنلسٹ سے انگریزی دُشمن کا، سہرودری سے کسی خطرے کی بناء پر، نواب قلات احمد یار خان سے تعلقات نبھانے میں کسی غلطی یا عقیدت و اظہار نیاز مندی میں کسی غفلت کی وجہ سے، ان تمام حضرات سے انتقام لیا جارہا ہے۔؟

تاریخ کی کتابوں میں یہ بھی کیوں نہیں بتایا جاتا کہ محمد علی جناح نے دہلی میں اپنی کوٹھی کی فروخت کے لیے جواہر لال نہرو سے رابط کیا اور اس کوٹھی کو مہنگے داموں فروخت کرانے کی درخواست کی جس پر نہرو نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد اپنی باقی زندگی ممبئی میں جاکر گزارنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔ محمد علی جناح کی شخصیت کا یہ پہلو اُس سے قطعی طور پر متضاد ہے جس جناح کے بارے میں پاکستان میں تبلیغ کی جاتی ہے۔

تین جون اُنیس سو سنتالیس کے تقسیم ہند پلان کے دستخط کے بعد محمد علی جناح نے کانگریس اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرنے کی مہلت مانگی تھی جسے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ اب وہ وقت گزر گیا ہے۔

اس خطے میں قوم پرستی کو فرقہ پرستی میں مسلم لیگ کی سیاست نے بدلا جس کی لپیٹ میں آج کا پاکستان ہے۔ مسلم لیگ کی سیاست سے اس خطے کی سب سے بڑی اقلیت کو زبردست نقصان پہنچا، انہیں ایک ناقابل تصور تباہی سے گزرنا پڑا اور پاکستان کے قیام میں آجانے کے بعد یہاں تاحال مستحکم نظام قائم نہیں ہوسکا۔ آج سندھ، بلوچستان، سرحد اور پنجاب جن مسائل سے دوچار ہیں ان کا بڑا حصہ محمد علی جناح کا پیدا کردہ ہے اگر یہ سب افواہیں اور جھوٹا پراپیگنڈا ہے تو اسے ثابت کیا جائے اور اس کے بعد ہمیں توجہ کرنی چاہیے اور محمد علی جناح کی خدمات سے ہرگز انکار نہیں کرنا چاہیے

۔

One thought on “اصل جناح پر پی ایچ ڈی ممنوع کیوں ہے

  1. مسخ شدہ لاشیں(افسانہ)
    بیورگ بزدار
    بالاچ اور میری دوستی کالج میں ہوئی تھی مجھے اکثر کہا کرتا تھا چاکر تم ہرجگہ صلح کرتے ہو تم اپنا نام بیورگ کیوں نہیں رکھتے بنا کسی جواب دیے میں ہنس پڑتا تھا۔ بالاچ کی ماں بات کرتی تھی مجھے ایسے لگتا تھا جیسے وہ بالاچ کی نہیں میری ماں تھی۔ دوستی بڑھتے بڑھتے ہم دونوں نے ایک ہی یونیورسٹی سے psychology میں داخلہ لیا مگر من کہی اور تھا کیا کرتا بالاچ کی ماں نے قسم دیا تمھیں صرف موت الگ کرسکتی ہے ورنہ نہیں۔ وقت کے ساتھ بالاچ اور میری دوستی اور مضبوط ہوتئ گئ۔ کچھ دنوں بعد بالاچ گھر چلا گیا تھا چاغی اور وہاں سے شال ۔ایک دن بالاچ رابطہ کرتا ہے کہ امی سے بات کرو۔ میں جی امی کہہ کر بات کررہا ہوتا ہو کہ بالاچ کی ماں کہتی ہے بیٹا اپ آجاو شال کچھ دن رہ کر چلے جانا۔ میں تیسرے دن یونیورسٹی سے نکلتا ہو سیدھا ٹکٹ کراکے شال کو روانہ ہوجاتا ہوں وہاں جاکر بالاچ کو کال کرتا ہو اتنے میں بالاچ دومنٹ کے وقفے کے بعد پہنچ جاتا ہے کہ ہم ابھی مل رہے ہوتے ہیں کہ سیاہ گاڑی میں کچھ نقاب پوش ہمیں مار کر دھکے مار کر انکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر گاڑی میں بیٹھا کر روانہ ہوجاتے ہے اتنے میں بالاچ اواز دیتا ہے چاکر تو وہ اگے سے کہتا ہے دونوں ساتھ ہو۔ اب میں دل میں بےسرور تھا یہ لوگ اگر مجھے ماریں گے یا بالاچ کو ۔ آخر ہمارا قصور کیا ہے ؟ ۔ دو تین گھنٹوں کے مسافت کے بعد ہمیں الگ الگ کالی کوٹھیڑوں میں رکھا جاتا ہے جس کا نقشہ کچھ اسطرح تھا کہ ادمی پوری طرح لیٹ نہیں سکتا ، بہت زیادہ بدبو دار کمرہ، خالی گھڑہ، ساتھ بہت سی کالہ کوٹھیڑیاں اور یہ کوئی تہہ خانہ لگ رہا تھا مجھے ویت نام کا جیل یاد اگیا جو امریکہ نے ویتنامیوں کے لیے بنایا تھا جہاں چھ ہزار ویتنامیوں کا قتل عام کیا گیا تھا اور سوچا دشمن کی ہرجگہ مارنے کی پالیسی ایک ہی ہے وہ چاہیے جس شکل میں ہو اور اس کے ساتھ والے میں بالاچ کو رکھا گیا تھا۔ میں سوچنے لگا تھا کہ کیا زندگی ہے ماں باپ کئ برس کما کر بیٹوں کو اچھی زندگی گزارنے کے لیے کیا کیا کرتے ہے مگر بے سود دو گھنٹہ میں سب کچھ برباد تو کیوں میں خود آزاد کہوں۔؟ یہاں تسلسل رکتا نہیں بلکہ بڑھ جاتا ہے ان کا اپنا ایک Interogation روم ہوتا ہے جو خاص پوچھ گاچھ کے لیے ہوتا ہے، جو سیاسی لوگوں کا الگ کمرہ ہوتا ہے میں حیران تھا یہاں بھی طبقات کی جنگ ہے تو کیوں نہ سوشلسٹ لڑے۔ اب میں نے سوچا اگر بھگت سنگھ ہوتا تو شاید بھوک ہڑتال کرتا مگر یہ جیل کے نظام میں جمہوریت لاتا اور پھانسی پر چڑھتا مگر بے سود یہاں صرف ایک ریاست وجود رکھتی تھی جو طاقت کے نام پر استحصال جانتا تھا خیر یہ جیل نہیں لاپتہ افراد کی کوٹھیڑیاں تھی۔ جیل اور لاپتہ افراد کی کوٹھیڑوں میں زمین آسمان کا فرق تھا سب سے پہلے ظاہری شکل جیل کا ہوتا ہے نہ کے سیاہ زندانوں کا۔ یہاں ہرکسی کو ایک گھنٹے کے لیے Interogation Room میں لے جاکر اس سے سوال کیا جاتا تھا کبھی کبھی اگر وہ زیادہ تنگ کرے تو اس کو ٹارچر کیا جاتا تھا۔ مگر یہاں کی جو خاص بات تھی وہ یہ کہ ان کے اپنے Categories ہوتے تھے
    فرسٹ: جہاں قیدی کو کچھ دن کے لیے رکھا جاتا تھا اور پوچھ گوچھ کے بعد سہی جواب دے دیتا تو اس کو کچھ دن رکھتے اور اسے چھوڑا جاتا تھا۔
    دوئم: یہاں ایسے مجرموں کو لایا جاتا تھا جن کا چھوڑنا ناممکن تھا بس وہ کبھی کبھار انہیں ٹارچر سیلوں میں مارے جاتے تو ان کی لاش مسخ کرکے پھینک دیتے جو بہت کم پہچان میں ہوتی تھی۔
    سوئم : جہاں عورتوں کا ٹارچر سیل تھا انہیں برہنہ کرکے مرد ٹارچر کرتے تھے کبھی ان سے سوالوں کے جواب کے بعد اگر وہ سہی جواب نہ دیتے تو انہیں کے سامنے ان کے بچے کو مارا جاتا یا اس کی عزت نفس کو مجروح کرتے تاکہ وہ کچھ بول سکے۔
    چہارم : جہاں ایسے مجرم تھے جن کو کئی سالوں سے رکھا ہوتا ہے جو کبھی بھی کسی وقت کسی جھوٹے بہانے میں انہیں مارکر دہشتگردی کا دعوئ کرتے۔ مثلا کبھی پولیس والوں کو فیک انکاونٹر میں کوئی مارنا ہوتا تو اصل مجرم کی بجائے اسے مارکر دعوئ ڈکیتی یا مقابلے میں مارتے یا کبھی ریاست کو لگتا کہ اب زیادہ لوگ سوال کررہے تو ان میں سے چار کو چھوڑ کر دس اور لاپتہ کردیا جاتا تھا اور کبھی کبھار سی ٹی ڈی کا دعوئ کرکے ان کو مختلف تنظیموں سے جوڑ کر ماوں کے کلیجوں کو مسخ کیا جاتا تھا جن میں زیادہ تر نودربر تھے۔
    اخری کیٹاگریز جن میں ایسے لوگوں کو رکھا جاتا تھا جن پر انہیں سد فیصد یقین تھا کہ ان کا کسی تنظیم سے واستہ ہے اور ان کی مخبری بعد از لاپتہ بھی کی جاتی تھی کالم سے، کسی سیاسی تنظیموں سے ، ان میں سے بہت کم کو چھوڑا جاتا تھا ان میں زیادہ تر طالبعلم ، بوڑھے، جوان، عورتیں اور بچے شامل تھے جن پر ہرطرح کا ٹارچر جائز تھا وہ اگر ٹارچر کے دوران مارے جاتے تو ان کا غصہ کم ہونے کے لیے ان کے جسم کے حصے مرنے کے بعد بیچتے تھے اور انہیں سے ان کو تسلی ملتی تھی۔
    یہاں سے بات واضع ہوجاتی تھی کہ اخر اتنے سالوں سے لاپتہ افراد کی لاشوں کو پھینکنا، اور لاپتہ افراد کو رہا کرتے وقت عام عوام کو خبر کیوں نہیں ہوتی بوجہ کہ ان کی سارا کام رات کو کیا جاتا تھا ۔ یہاں ایسے لوگ بھی تھے جو دن کو دکانداری کرتے تھے اور رات کو انہیں شہر کے ٹارچرسیلوں میں لوگوں کو ٹارچر کرتے تھے۔ میرا اور بالاچ کو دوسرا دن تھا ان سیاہ زندانوں میں مگر اب تک نہ ہم نے پیشاپ کیا، نہ کچھ کھایا، نہ پیا اور نہ ہی دھوپ دیکھا۔ کچھ گھنٹوں بعد ایک بھوری وردی والا اکر میرا دروازہ کھولتا ہے اور گالی دے کر کہتا ہے "آجا تیرے پیو دا بلا وا ہگا”۔ وہی شخص جو میری انکھوں میں دوبارہ پٹی ڈال کر مجھے انٹیروگیشن روم میں لیے جاکر بیٹھا دیتا ہے اور خود ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے اتنے میں اور شخص کی اندر انی کی اواز اتی ہے تبھی میری انکھوں سے پٹی کھولی جاتی ہے کیا دیکھتا ہو سامنے ٹیبل پر کچھ کیل، ہتھوڑے، ڈرل اور کچھ اور اوزار بال اکھاڑنے اور ناخن نکالنے والے، کمرے میں کچھ لوہے ، رسیاں اور کرنٹ والٹیج موجود ہیں۔ جو شخص داخل ہوتا ہے اس کی وردی پر کچھ سٹار ہوتے ہے لمبا قد، بڑی مونچھیں، داڑھی شیف، اور منہ میں سگار تھا جو جیسے اندر اتا ہے تو ساتھ کھڑے شخص سے کہتا ہے اس کو میرے بارے میں کچھ بتایا تم نے۔ ساتھ کھڑا شخص کہتا ہے جو بھی بات جانتے ہو اسے بتادو ورنہ یہ وہ حال کریں گا جو اج تک اپ نے کسی کا نہیں دیکھا ۔ افیسر جس کے وردی پر ناصر راجپوت تھا۔ وہ اکر پہلا سوال کرتا ہے۔ نام بتاو
    چاکر بلوچ
    کہاں سے ہو ؟
    آپ نے اٹھایا ہے تو اپ کو پتہ ہوگا پورا پتہ؟
    اتنے میں آفیسر کہتا ہے جتنا پوچھا اتنا جواب دو زیادہ بکواس مت کرو مادرچود۔۔۔۔؟
    پھر سوال کرتا ہے تم لوگ کیوں ایسے کام کرتے ہو جو ایسا وقت دیکھنا پڑ رہا ہیں۔
    مجھے خود نہیں پتہ کس لیے مجھے اور میرے دوست کو لایا گیا۔ اتنے میں زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارتا ہے جتنا کہو اتنا بتاو زیادہ بک بک مت کرو۔ اب میں سمجھ گیا تھا کہ طاقت ور اپنی اصلی زبان پر اگیا ہے اب سچ اور جھوٹ کے بیچ صرف تشدد ہوگا بات نہیں۔ تم لوگ دہشتگرد ہو ،غدار ہو اس ملک کے خلاف بھونکتے ہو، جس کا کھاتے ہو اسی کو بھونکھتے ہو، اس ملک کے خلاف باہر سے مدد لے رہو ہیں۔ میں خاموش لب بس اس کی طرف دیکھتا رہا ۔ افیسر بولتا رہا گالیاں بکتا رہا، کبھی دل کرتا تو زور سے تپھڑ مارتا یا منہ پر پانی پھینکتا۔ حیرانگی اس بات سے تھی کہ قابض کو کیوں لگتا ہے وہ اتنا تہذیب یافتہ ہیں۔ افیسر مجھ سے پوچھتا ہے تمھیں کیا لگتا ہے مادرچود تم ہمارے خلاف جو بولتے ، لکھتے، کرتے ہو وہ ہمیں نہیں پتہ کیا ہم تمھاری ہرخبر رکھتے ہے۔ تمھیں جو فقیر، عورتیں ، پاگل لوگ، بچے جو بھیک مانگتے ہے، یا کئی دکاندار، ہوٹل والے جہاں اپ باتیں کرتے ہو ہر جگہ ہمارے لوگ موجود ہیں جن کی نظر اپ پر ہوتی ہیں۔ خیر میں بولا میرا قصور کیا ہے ؟ مجھے کیوں مار رہے ہو؟ اس بات سے افسر اگ بگولہ ہوگیا اپ بتاو اپ کا کس سیاسی و مسلح تنظیم سے تعلق ہیں ؟ ۔ تو میرا جواب نہیں میں تھا ۔ تو ساتھ کھڑے شخص سے کہتا ہے دو تین دن تک اسے سونے مت دینا، کھانے کو بھی، اور جب نیند سے تنگ ائے گا تو یہ لازم بڑ بڑائے گا، اگر پھر بھی یہ زیادہ تنگ کررہا ہو تو اس کی انکھوں میں لال مرچیں ڈال دینا مگر اسے سونے نہ دینا۔ مجھے دوبارہ گھسیٹتا لے جاکر میرے کمرے میں مجھے چھوڑا جاتا ہے تبھی وہی شخص مجھے کان میں اکر کہتا ہے سب کچھ سچ بتاو اپنی جان چھڑواو۔ جاو اچھی زندگی گزارو کیا رکھا ہے اس کام میں۔ میرا جواب وہی تھا کہ مجھے کچھ نہیں پتہ تو کیا بتاو تو اگے سے وہ منہ پر لات مار کر کہتا ہے "مرجا کتی دے بچے”۔
    سیاہ زندانوں میں خوف بنا ہوا تھا جو ڈرتے تھے سب کچھ بتاتے تھے تب بھی انہیں کئی ماہ تک مارا جاتا تاکہ وہ ائندہ ایسا کام نہ کرسکے۔ روزانہ معمول کے مطابق دن میں دو مرتبہ ہر کھوٹھڑی میں جاکر بانس کی دو لکڑیاں لوگوں پر توڑی جاتی تاکہ چیخیں ساتھ والے سنیں اور سب کچھ سچ سچ بتادئے۔ خوف و ہراس کا ماحول تھا، کبھی ان قیدیوں سے کہا جاتا کہ اپ لوگوں جلد از جلد چھوڑا جائے گا مگر ان کو جاکر کسی اور چھاونی میں منتقل کیاجاتا تھا۔کس طرح کا خوف، کس طرح سچ، کس طرح کا بیان اور کیسی تنظیم جب ہو بھی کچھ نہیں تو کیا کہے ؟۔ میں نے زیادہ تر عورتوں کی چیخیں بھی سنی جو بار بار کہہ رہی تھی کہ مجھے چھوڑ دوں پلیز میرا ریپ مت کرو ، پلیز مجھے مارڈالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ وہاں کسی قیدی کے کمرے سے کوئی نوک تار چیز کبھی نہیں ملتی تاکہ وہ خودکشی کبھی نہ کرسکے۔ میں حیران تھا دنیا میں مارنے کے لیے صرف بندوق ہی اصل ہتھیار کیوں تھا تاکہ ازیت سے چھٹکارا مل سکے۔ ہر دس منٹ بعد دروازہ کھٹکٹاتے تھے تاکہ خوف زندہ رہے اور سو نہ سکے۔ پھر اس وقت میرے جانے کے بعد کہتا ہے جاو دوسرے کو لاو جو اس کے ساتھ لائے تھے۔ اب بالاچ کی باری تھی وہ جسامت سے بہت کمزور تھا اگر اسے زیادہ ٹارچر کیا تو وہ مر بھی سکتا ہیں۔ جب بالاچ کو بلانے جاتا ہے تو وہ اکر بالاچ بھوک و پیاس کی وجہ سے بے ہوش تھا اتنے میں کچھ لوگ نقاب پوش اکر پانی منہ پر ڈالتا ہے تبھی بالاچ کو اٹیروگیشن میں بلایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ مجھے دوبارہ بلایا جاتا ہیں۔ ہم دونوں کو ساتھ بیٹھایا جاتا ہے تو افیسر مجھے کہتا ہے کھانا نہ دینے کی وجہ سے بہوش ہوگیا تھا سچ بتاو ورنہ یہ مربھی سکتا ہیں۔ اتنے میں افیسر کہتا ہے نام بتاو ؟
    بالاچ بلوچ
    کون ؟
    بالاچ بلوچ
    پوچھا یہ غداروں کا نام کس نے رکھا ۔ بالاچ کہتا ہے میری ماں نے۔ اگے سے افیسر کہتا ہے تو تم سب غدار ہو ۔ اتنے میں بالاچ بس غصے سے افیسر کو دیکھتا ہے بس۔ کس مسلح تنظیم سے تعلق ہے دونوں کا ؟ ۔ بالاچ جو نیم بے ہوشی کی حالت میں بس سر ہلاتا ہے” نہیں ”
    تبھی افیسر زور سے بالاچ کی ناک پر مشت مارتا ہے بالاچ کے ناک سے خون بہنے لگتا ہے بالاچ پھر بےبہوش ہوجاتا ہے میں بنا کچھ کیے بس برداشت کرسکتا تھا۔ بس یہاں سے نکلو گا تو بہت کچھ کرونگا لیکن میں نے اب تک کچھ نہیں کیا۔ پھر بالاچ کو وہی چھوڑا جاتا بے مجھے کہتا ہے تم بتاو اسے تم کیسے جانتے ہو ۔ یونورسٹی میں دوستی ہوئی ہیں۔ اب تم بتاو کہ کس تنظیم کو سپورٹ کرتے ہو جلدی ورنہ تمھیں ازیت سے دوچار کیا جائے گا۔ سر میں کچھ نہیں جانتا ایسا جو اپ پوچھ رہے ہو۔ تبھی ساتھ کھڑے شخص سے کہتا ہے پلاس لاو اس کے ناخن نکالو۔ تبھی میری دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کے ناخن کو پلاس سے پکڑتا ہے کہتا ہے سچ بتاو۔ سر میں کچھ نہیں جانتا ؟ تبھی اتنی زور سے نکالتا ہے میری اتنی زور سے چیخ نکلتی ہے کہ جسم کانپنے لگتا ہے، سفید کپڑے خون سے تر ہو جاتے ہیں۔ پھر کہتا ہو بتاو اسطرح سب نکلیں گے اب میرے منہ سے الفاظ کی بجائے میرا سر نا میں ہل رہا تھا تبھی دوبارہ انگھوٹی کی ناخن کو نکالا جاتا ہے اور سبھی کو نکالا جاتا ہے دائیں ہاتھ کے۔ اب کپڑے خون سے تر تھے مگر جسم نیم سن تھا اب اگر گولی بھی لگتی تو شاید کچھ محسوس نہ ہوتا۔ناخن نکالنے کے بعد جسم میں سقت طاری ہوگئی تھی کہ درد کا احساس کیا ہے اج پتہ چلا۔ افیسر کہتا ہے اس کی دوسرا ہاتھ بھی لاو تو میں ہاتھ پہلے سے اگے رکھ دیتا ہو مجھے معلوم تھا جب انہوں نے ماننا کچھ نہیں ہے صرف تشدد کرنا ہے اور مجھے سہنا ہے اور ہمارا قصور تو تھا ہی نہیں ۔ اب کی بار دوبارہ بالاچ کو پکڑا جاتا ہے کہ تم بتاو دلے دلال کس تنظیم کو اسلحہ دیتے ہو ، کس کو خوراک پہنچاتے ہو، وہ رزاق تو تمھارے علاقے کا تھا اور شاید خاندان کا ہو۔ بالاچ بس دیکھ کر خاموش لب سن رہا تھا۔ ہمیں اتنا مارا گیا کہ بالاچ اور میرے کپڑوں میں خون کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ہماری انکھوں میں لال مرچیں ڈالیں گی، ہمیں کرنٹ دیا گیا بار بار جس سے بالاچ زہنی توازن کھو بیٹھا تھا۔ بالاچ کے بال سر سے بار بار اکھاڑے گئے شاید اس افسر کو بالاچ کے نام سے اتنی نفرت تھی بار بار تشدد بالاچ کو کرتا تھا۔ ہمارے سامنے ایک عورت جس کا ریپ کیا گیا توبہ مگر اس کے بچے کے سامنے شاید یہ ہمارے لیے سبق تھا کہ اپ کے ساتھ ہوسکتا ہے لیکن ہوا نہیں۔ ایسا بہت بار ہوا ہے صرف زندانوں میں عورتوں کے ساتھ ریپ نہیں بلکہ بچوں اور نوجوان لڑکوں کے ساتھ بھی کیا جاتا تھا۔ بالاچ زخموں کی تاب نہ لاسکا اتنا خون بہا کہ وہ بچ نہ سکا۔ اب مجھے دکھ اس بات کا تھا کہ مجھے کیوں زندہ چھوڑا گیا اور بالاچ کی ماں کو کیا جواب دونگا اور کیا اس سے انکھیں ملا پاونگا۔ بالاچ کی موت کے بعد تین دن تک بالاچ کی میت کو میرے کمرے میں رکھا گیا تاکہ میں موت سے عبرت حاصل کرو اور انہیں سب کچھ سچ بتاو لیکن اب مجھ میں بس ایک بات باقی تھی مارا جاونگا، اگر بات پتہ ہوتی تو کبھی نہیں بتاونگا۔ تین دن بعد بالاچ کی میت کو میرے کمرے سے اٹھایا گیا۔ کئی ماہ بعد مجھے ایک دن گاڑی میں ڈالتے ہے انکھوں میں سیاہ پٹی تھی اور ایک ویرانے میں رات کو اکر چھوڑ دیتے ہے مجھے کان میں کہا جاتا ہے کہ دس منٹ بعد پٹی اتارنا ورنہ گولی کھاو گئے لیکن گولی سے مجھے شاید میرے سوالوں کے جواب سے چھٹکارا ملتا کہ تیری دوست کی لاش ہے مگر تو زندہ ہیں۔ جسم میں اتنی سقت نہیں تھی کہ پٹی اتارو۔ درد کی وجہ سے ہڈیاں کڑ کڑا رہی تھی تبھی گھنٹے بعد ایک بوڑھا شخص اکر پٹی کھولتا ہے اور باقیوں کی طرف دوڑتا ہے شاید باقی زندہ ہو ۔ اب دور دور سے مائیں اپنے کلیجوں کی لاشیں اٹھانے ائی ہے ، بہنیں اپنی بھائی کے لیے، بیوی اپنی شوہر کے لیے برعکس اس کے میرے علاوہ 500 لاشیں پھینکی جاتی ہیں جن میں عورتیں ، بچے، بوڑھے اور زیادہ تر جوان تھے جو مسخ شدہ لاشیں تھی جو پہچان میں تب اتی جب ان کی جسامت کے حصے پورے ہوں۔ میں اس دکھ سے نکلتا دور اسے جنگل کی جانب روانا ہوا کہ وہآں سے کبھی نہیں لوٹا۔

Comments are closed.